جولائی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

امریکا اور عالم اسلام

پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۰۹ | اشارات

Responsive image Responsive image

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں، اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں، امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جذبات کا ایک طوفان برپا ہے۔ امریکا سے بے زاری   کے یہ جذبات و احساسات ویسے تو دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے برابر بڑھ رہے ہیں، لیکن  ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعات کے بعد امریکی صدر جارج بش کی قیادت میں امریکا کے خونیں ردعمل کو، جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا نام دیا گیا ہے، امریکا مخالف جذبات میں تلخی اور شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

ایک وقت تھا کہ مسلم دنیا، یورپ کے سامراجی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد میں امریکا کو ایک حد تک اپنا دوست اور ہم نوا سمجھتی تھی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن کے آزادی، حقوقِ انسانی   اور مظلوم اقوام کے حق خود ارادیت کے اعلانات پر یقین کرنے لگی تھی۔۱؎ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد بلادِ شام اور فلسطین کی تولیت (trusteeship) کا سوال اُٹھا، تو ان ممالک کے نمایندوں نے فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں امریکا کو حکمرانی کا اختیار (مینڈیٹ ) دینے کا مطالبہ کیا، جسے یورپ کی بعض دیگر قوتوں نے منظور نہ کیا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء) کے بعد فضا بدلنی شروع ہوئی۔ امریکا نے عالمی بالادستی کے عزائم ظاہر کیے تو اس پر اعتماد متزلزل ہونے لگا۔ پھر اسرائیل کے قیام میں امریکا کے سخت منفی کردار نے اس اعتماد کو بالکل ہی چکنا چور کردیا۔ وہ وقت اور آج___یہ بے اعتمادی بڑھتے بڑھتے بے زاری اور نفرت کا روپ دھارنے لگی۔ سرد جنگ (۱۹۴۶ء-۱۹۹۱ء) میں امریکا کے کردار اور سامراج دشمنی کی عالمی تحریکوں نے بھی اس نفرت کو پروان چڑھانے میں ایک کردار ادا کیا۔ تاہم، جو چیزیں اس کی اصل وجہ بنیں، وہ امریکا کے عالمی عزائم اور مسلم دنیا میں ایک ناجائز ریاست قائم کرنے کے لیے اسرائیل کی پشت پناہی، قوم پرستی کی تحریکوں کی سرپرستی، عالمِ اسلام کے معاشی، خصوصیت سے تیل اور انرجی کے وسائل پر قبضہ اور ان کا امریکا اور مغربی اقوام کے مفاد میں استعمال تھا۔ پھر اس عمل کے لیے ہرملک میں اپنے پٹھو تیار کرنا اور آمروں کے ذریعے مسلمانوں کو قابو میں رکھنا ہے۔ جو بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے  وہ یہ ہے کہ اس مخالفت اور بے زاری کا سبب امریکا کا نظامِ حکومت اور جمہوریت کی وہ اقدار ہرگز نہ تھیں، جن کا نام لے کر امریکی قیادت اور خصوصیت سے صدربش نے دنیا پر یلغار کی تھی،بلکہ  اصل وجہ امریکا کی پالیسیاں اور اس کا سامراجی اور ظالمانہ رویہ تھا، اور جب تک ہرسطح پر اس حقیقت کا صحیح ادراک نہیں ہوجاتا اور پالیسیوں اور رویوں کی تبدیلی کا اہتمام نہیں ہوتا، تعلقات میں  بنیادی تبدیلی ناممکن ہے۔

ان حالات کا معروضی تجزیہ یونی ورسٹی آف پنسلوانیا میں علمِ سیاست کے دو پروفیسروں۲؎ نے پیش کیا ہے، ہر دو حضرات نے نائن الیون سے ۱۶سال پہلے ۱۹۸۵ء میں امریکا مخالفت کے اس آتش فشاں کی نشان دہی کی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں جو   لاوا پک رہا ہے وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ ان کی نگاہ میں بجاطور پر امریکا کی مخالفت کے رجحان کی اصل وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں اور عملی سرگرمیاں تھیں جن کے نتیجے میں امریکا سے دنیا کی اچھی توقعات خاک میں مل گئیں، امید کی شمع گل ہوگئی اور مایوسی اور بے زاری نے بغاوت اور تصادم کی راہ ہموار کی۔ ۱۹۸۸ء ہی میں امریکا کے ایک سابق سفیر رچرڈ بی پارکر نے کہا تھا:

امریکیوں اور امریکی علامات کے خلاف تشدد علاقے میں امریکی پالیسی کے خلاف ردعمل تھا، اس لیے کہ یہ پالیسی حکمت عملی کا لحاظ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ داخلی مفادات اور امریکا کے اندر توازنِ اقتدار اور فوجی صنعتی کمپلیکس کے دبائو کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔۳؎

ان تمام محققین کی نگاہ میں: ’’امریکا کے خلاف ردعمل ان ملکوں کا امریکی پالیسی اور معاشی سرگرمیوں سے مایوسی کا نتیجہ تھا‘‘۔

امریکا سے یہ مایوسی اور بے زاری تو نائن الیون سے بہت پہلے موجود تھی، البتہ نائن الیون کے بعد اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک کے تمام راے عامہ کے سروے، مسلم عوام کے ان جذبات کے عکاس ہیں۔ امریکی ادارے The Pew Global Attitude Project کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتی ہے:

۲۰۰۰ء کے بعد سے امریکا کے لیے پسندیدگی کی شرح ان ۲۷ ممالک میں سے ۱۹ میں گرگئی ہے جہاں رجحانات معلوم کیے جاسکے ہیں… امریکا کے بارے میں راے عامہ شرق اوسط میں بڑے پیمانے پر منفی ہے۔ اُن ممالک میں بھی جہاں حکومت کے امریکا سے قریبی تعلقات قائم ہیں، یعنی اُردن، ترکی، پاکستان، وہاں بھی قابلِ لحاظ اکثریت امریکا کے خلاف راے رکھتی ہے۔

دی پیو (Pew)، گیلپ انٹرنیشنل، زوگبی (Zogby) تینوں کے سروے مسلسل یہ نتائج سامنے لارہے ہیں کہ تمام ہی مسلم دنیا میں، بیش تر ترقی پذیر ممالک میں اور کچھ یورپی ممالک خصوصیت سے فرانس اور اسپین میں، امریکی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کے خلاف بے زاری کی   لہر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ خود مصر میں جہاں امریکی صدر اوباما نے ۴ جون ۲۰۰۹ء کو خطاب کیا ہے، آبادی کے ۶۷ فی صد کی نگاہ میں پوری دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا میں امریکا کا کردار منفی ہے۔ ۷۶فی صد کی نگاہ میں امریکی حکمران مسلم دنیا کو بانٹنے اور کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔

لندن کے جریدے New Statesmen کی ۴ جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں عالمِ اسلام کی اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا:

افغانستان اور عراق پر تباہ کن حملوں اور قبضے کے آٹھ سال، ایران اور شام کے خلاف تندوتیز لفظی حملے، لبنان اور غزہ پر اسرائیلی بم باری کی امریکی حمایت نے دنیا کے  ۳ء۱ ارب مسلمانوں میں امریکا کے خلاف نفرت پیدا کر دی ہے۔ بش کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے پہلے دن سے پوری دنیا میں مسلمانوں کو امریکا کے خلاف کر دیا اور امریکا دشمن احساسات کی سطح کو بہت بڑھا دیا۔ مثال کے طور پر زوگبی پول کے مطابق ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان امریکا کے خلاف منفی رویہ رکھنے والوں کا تناسب ۷۶ سے ۹۸ فی صد ہوگیا، یعنی تقریباً پورا ملک۔

نومبر ۲۰۰۷ء کی امریکی حکومت کی ایک رپورٹ (جسے امریکی فوج کے اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کے ایک ماہر اینڈریو لارنس نے تیار کیا ہے) تلخ مگر حقیقت پر مبنی نتیجہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کے خلاف دہشت گردی کے واقعات سے مسلم دنیا میں یہ احساس فروغ پارہا ہے، کہ انھیں   وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے، اور اس روز افزوں احساس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مایوسی اور   بے زاری و بے اطمینانی میں اضافہ ہوا ہے:

امریکا کی پالیسی اور حکمت عملی نے مسلم دنیا میں قول و فعل کے درمیان اعتماد کا خلا پیدا کردیا ہے۔ (The Global War on Terrorism، نومبر ۲۰۰۷ء)

اس رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ: حالیہ قومی پالیسیاں اور اقدامات درحقیقت کم نہیں بلکہ زیادہ انتہاپسند پیدا کر رہی ہیں۔

ہم نے صدر اوباما کی تقریر پر گفتگو کرنے سے پہلے، اس پس منظر کے اہم خدوخال پر توجہ مرکوز کرانا اس لیے ضروری سمجھا ہے کہ اس کے ادراک کے بغیر نہ وقت کے چیلنج کو صحیح طرح سمجھا جاسکتا ہے، اور نہ مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل حقیقت پسندی کے ساتھ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ امریکی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسلم دنیا کے حکمران جو بھی کہیں، یا ان کے زیراثر جو کچھ بھی کریں، اصل معاملہ مسلم عوام ہی نے طے کرنا ہے۔ ان کے احساسات، خدشات اور توقعات کو سمجھے بغیر اور ان کے صحیح فہم و ادراک کے بغیر یک طرفہ طور پر نہیں بلکہ مشترک مقاصد اور مفادات اور حقیقی مشاورت پر مبنی اتفاق باہمی پر مبنی حکمت عملی بنانے کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو خوش کن الفاظ اور ڈرامائی حرکات سے حالات کا سدھار ممکن نہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا، خصوصاً مسلم دنیا میں امریکا کو جو اعتماد اور تائید ایک وقت حاصل تھی، اب اس کا عشر عشیر بھی باقی نہیں رہا ہے اور جب تک اعتماد کی نئی فضا نہ پیدا کی جائے، ایک ایسی فضا جو خواہشات اور ظاہری تکلفات کے مقابلے میں حقیقی مسائل کے ادراک اور برابری کی بنیاد پر مبنی ہو اور جب تک ایک دوسرے کے مقاصد اور مفادات کو دیانت داری کے ساتھ اور حقیقی تناظر میں نہ سمجھا جائے اور کسی بھی قسم کے دبائو کے بغیر تعاون کے نقشۂ کار کو سامنے نہ لایا جائے، اس وقت تک تقریریں اور وعظ لاحاصل رہیں گے۔

اوباما کے انتخابی وعدے

صدر بارک حسین اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں حسب ذیل وعدے کیے تھے، جن کی یاد دہانی ضروری ہے:

ا-  بش کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں اور وقت آگیا ہے کہ ان میں تسلسل کے بجاے تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔

ب- دہشت گردی کا مقابلہ محض قوت کے استعمال سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ان اسباب کو دُور کرنا ضروری ہے، جن کے نتیجے میں دنیا دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی ہے، نیز یہ کہ دل و دماغ کی تسخیر اور خیالات اور افکار کی ہم آہنگی کے بغیر اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔

ج- عالمی امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب دنیا میں قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اور ان اصولوں کی طرف مراجعت ہو، جو انسانیت کی مشترک میراث اور [اس کے خیال میں] امریکی دستور کی اساس ہیں۔ قانون اور انصاف کے اصولوں سے انحراف کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس کی تبدیلی کے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔اس کے لیے گوانتانامو جیسے تعذیب خانوں کو بند کرنا ہوگا اور تشدد اور تعذیب کے تمام حربوں سے اجتناب ضروری ہے۔

د- امریکا کو مسلمانوں کے دل جیتنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی اور ماضی میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں، ان کی تلافی ضروری ہے [اس سلسلے میں اوباما نے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کا خاص طور پر ذکر کیا اور ایران، لبنان اور شام وغیرہ کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دیا]۔

ھ- قوموں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حاکمیت کا احترام کیا جائے۔ بش دور کی یک رُخی مہم جوئی سے اجتناب کا پیغام بھی دنیا کی اقوام کو دیا گیا۔

انتخابی مہم کے دوران میں اوباما کے ان اعلانات سے امریکا اور پوری دنیا میں، خاص طور پر مسلم دنیا میں جو پچھلے ۶۰، ۷۰ سال کے بالعموم اور بش کے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں خاص طور پر امریکا کی جنگ جو مہم کاریوں کا نشانہ بنی ہوئی تھی ، اُمید کی ایک مدھم سی کرن روشن ہوئی تھی۔

صدر اوباما نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اپنے اقتدار کے پہلے ۱۰۰ دنوں ہی میں وہ مسلم دنیا سے تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کریں گے۔ حلفِ صدارت کے فوراً بعد انھوں نے العریبیہ ٹیلی وژن کے نمایندے کو انٹرویو دیا۔ ۱۰۰ دن کے دوران ہی میں مئی ۲۰۰۹ء میں ترکی کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ: ’’امریکا، اسلام سے برسرِ جنگ نہیں‘‘۔ ۴ جون ۲۰۰۹ء کو جامعہ قاہرہ اور جامعہ الازہر کے پلیٹ فارم سے اُمت مسلمہ سے خطاب کیا اور اسے: ’’اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کے نئے آغاز کا نام دیا‘‘۔ اس تقریر پر اس کی اہمیت کے اعتبار سے مسلم دنیا ہی میں نہیں دنیا کے ہر گوشے میں بحث و گفتگو ہورہی ہے۔ ہم بھی اسے ایک اہم پیش رفت سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا بے لاگ اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ اگر خلوص اور دیانت سے اُمت مسلمہ سے دوستی اور تعاون کے لیے کہیں سے بھی کوئی ہاتھ بڑھایا جاتا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ یہی ہماری روایت اور تاریخ ہے، لیکن یہ سارا کام آنکھیں کھول کر اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت کے ادراک اور اظہار کے ساتھ کرنا چاہیے کہ اصل چیز قول نہیں، عمل ہے، اور مسلمانوں کو تو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔

صدر اوباما کے خطاب میں دوسرے امریکی صدور اور خصوصیت سے ان کے پیش رو  جارج بش کے اندازِ گفتگو کے برعکس مفاہمت کی زبان استعمال کی گئی، اور تعلقات میں باہمی مفادات اور ایک دوسرے کے احترام کی بات بار بار کی گئی ہے۔ اگر یہ محض رسمی وعظ نہیں ہے تو قابلِ قدر ہے۔ لیکن ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس تقریر کو ’’ایک نئے آغاز کا پیش خیمہ‘‘ قرار دینا مشکل ہے۔ اس لیے جہاں ہم محتاط انداز میں نئے دور کی تلاش کے اعلانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ صرف خوش نما الفاظ سے اس خلیج کو پاٹنا ممکن نہیں ہے، جو پوری ایک صدی کے تلخ تجربات کی پیداوار ہے۔ دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا، صدر اوباما کے ارشادات کو پالیسی کی تبدیلیوں اور عمل کی میزان پر دیکھے، پرکھے اور جانچے گی۔

ہمارا پہلا تاثر یہ ہے کہ اس تقریر میں خوش نما الفاظ اور جوشِ خطابت کا پلڑا بھاری ہے اور بنیادی امور اور مسائل کے بارے میں واضح پالیسی کے خطوط کار اور متعین تبدیلیوں کا سراغ دُور دُور نظر نہیں آتا۔ امریکا کی قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا وہ دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام، اور خصوصیت سے مسلم دنیا سے اصول، حق و انصاف اور معتبر مفادات اور آزادی اور عزت کے احترام کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتی ہے، یا اصل ہدف اور مقصد تو فقط امریکی مفادات کا حصول ہے، اور اس کے لیے ایک نئے انداز اور اسلوب سے معاملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو ان کی تقریر تضادات کا مجموعہ ہے۔ کبھی تبدیلی کا اشارہ دیا جاتا ہے اور پھر جلد ہی پرانی شراب، نئی بوتلوں میں پیش کردی جاتی ہے۔ بیش تر اساسی امور پر پالیسی کی تبدیلی کی طرف کوئی واضح اقدام تو کیا غیرمبہم اشارہ بھی نہیں دیا جاتا اور ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ محض اسٹائل اور اندازِ گفتگو کی تبدیلی سے مطلوبہ تبدیلی کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں۔ محض ذاتی جذبات و احساسات پر مبنی خیالات پہ قوموں اور تہذیبوں کے مسائل کو نہ ماضی میں حل کیا گیا ہے اور نہ آج ممکن ہے۔

خطاب کے مثبت پھلو

صدر اوباما کے اس خطاب میں جو مثبت چیزیں ہمیں نظر آئیں پہلے ان کا ذکر مناسب ہوگا:

پہلی بات یہ ہے کہ صدر اوباما، مسلمانوں سے ربط اور تعلق کو بہتر بنانے اور صدربش کی ناکامی، نفرت اور تصادم پیدا کرنے والی پالیسیوں سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ وہ ان پالیسیوں کی ناکامی کا کھل کر اعتراف نہیں کرتے، لیکن ان کے تسلسل کے نتیجے میں خطرات اور قباحتوں سے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ ایک جانب وہ ان سے نکلنے کے اشارے بھی دے رہے ہیں، مگر امریکی مفادات اور امریکی مقتدرہ اور ہیئت حاکمہ کی سوچ کے حلقۂ زنجیر سے نکلنے کا کوئی واضح عندیہ ابھی تک نہیں دے سکے ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے اپنے ایک مضمون (نیویارک ٹائمز ،۳ جون ۲۰۰۹ء) میں ان کی تقریر سے ایک دن پہلے   ان کے اس مخمصے کا دل چسپ بیان کیا ہے، جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ضروری ہے:

اوباما کا مخمصہ یہ ہے کہ کوئی تقریر خواہ کتنی عمدہ کیوں نہ ہو، عراق، افغانستان، پاکستان، ایران اور شرق اوسط کے حالیہ واقعات کے زیرِاثر امریکا مسلم تعلقات کی صورت حال سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی۔ اس کا امکان کم ہے کہ صدر پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اعلان کرسکیں، اس لیے کہ ان کو مسلمانوں کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ حالیہ جاری پالیسی کو نئی روشنی میں دیکھیں۔

میڈلین آل برائٹ نے ایک جملے میں اصل مسئلے کو پیش کر دیا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ موجودہ پالیسیاں ہی جاری رہیں، مگر انھیں ’نئے جامے‘ میں پیش کیا جائے، جب کہ اصل مسئلہ پالیسیوں کی تبدیلی کا ہے۔ انھیں نئی تزئین و آرایش سے پیش کرکے قابلِ قبول بنانا ممکن نہیں۔

اس بنیادی وضاحت کے بعد ہم جن چیزوں کا خیرمقدم کرتے ہیں وہ یہ ہیں:

۱- مسلمانوں سے بحیثیت مسلمان بات کا آغاز کرنے کی کوشش اور کم از کم اس امر کا اظہار کہ امریکا، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہیں اور تہذیبوں کے تصادم کے فریم ورک میں جو پالیسیاں اور اقدامات کیے جارہے ہیں، ان پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسلام کی جو مرکزی اہمیت ہے، اس کا کچھ نہ کچھ احساس صدر اوباما کو ہے اور وہ امریکا کی پالیسیوں پر نیا چہرہ سجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر اوباما کی اس تقریر میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بش کی محبوب و مرغوب اصطلاحات کا کوئی ذکر نہیں۔

وہ پُرتشدد انتہا پسندی (violent extremism) کا بار بار ذکر کرتے ہیں مگر دہشت گردی کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کرتے۔ اگر یہ صرف اظہارِ بیان کی تبدیلی ہے، جس کا خطرہ اور امکان غالب ہے، تو اس لیپاپوتی اور ظاہری ٹپ ٹاپ سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر    یہ پورے مسئلے پر ازسرِنو غور کرنے کی طرف پہلا قدم ہے تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

۲- اس تقریر میں کم از کم اس بات کا اعتراف ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے مسلم ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، اور اس سیاسی کھیل میں مسلمانوں کے اپنے عزائم اور خواہشات و مفادات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی اصلاح کے لیے اب مشترک مفادات اور باہمی احترام کے رویے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایک جنگی حربے کی تبدیلی پر مبنی عمل جیسی چال ہے تو اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن اگر یہ حکمت عملی کی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے تو اس سے کچھ خیر رونما ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ ہم اسے بہ یک جنبش رد نہیں کرسکتے۔ احتیاط سے اس احساس کو تبدیلی کی طرف لے جانے والے عمل کا حصہ بنانے کے امکانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

۳- صدر اوباما کی طرف سے سچ بولنے کی کوشش اور دل کی بات کو زبان پر لانے کی دعوت بھی اپنے اندر مثبت پیغام رکھتی ہے۔ البتہ اس کا اطلاق محض کسی ایک فریق پر نہیں، تمام متعلقہ فریقوں پر ہونا چاہیے اور مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی اس میں غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔

۴- صدر اوباما کی اس تقریر کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے حکمرانوں کے مقابلے میں مسلم دنیا کے عوام کو اپنا مخاطب بنایا ہے، اور اسلام کو مسئلے کا ایک حصہ نہیں بلکہ مسائل کے حل اور امن و سلامتی کے حصول کی جدوجہد میں ایک مثبت عامل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ بھی اگر زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے، تو اس ہلکے سے اشارے کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مسلمان اُمت کی اصل حیثیت ایک داعی اور صاحب ِ دعوت اُمت کی ہے اور تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ (آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ اٰل عمرٰن ۳:۶۴) کے اصول پر ہمیں ہررونما ہونے والے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

۵- صدر اوباما نے بار بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ اسلام، امریکا کے لیے غیر نہیں اس کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قاہرہ کے خطاب میں انھوں نے امریکا میں مقیم ۷۰ لاکھ مسلمانوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے چند دن بعد ہی ڈان کے نمایندے کو دیے جانے والے انٹرویو میں ۵۰لاکھ کی بات کی ہے، جو ناقابلِ فہم ہے۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کو امریکی معاشرے کا حصہ تسلیم کرنا اور مساوی بنیادوں پر ان کے کردار کا لفظی اظہار بھی نائن الیون کی مسموم فضا میں وہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ بات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہے گی اور مسلمانوں کے لیے امریکا میں جو بے اعتمادی، شک اور تعصب اور امتیازی رویے (discrimination) کی فضا بنا دی گئی ہے، وہ ختم کردی جائے گی۔ انھیں آزادی اور اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع حاصل ہوگا۔

صدر اوباما نے اس تقریر اور تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی دعوت کے لیے مصر کا انتخاب کیوں کیا، جب کہ مصر میں ۳۰سال سے ایک ایسی امریکا کی تابع مہمل حکومت قائم ہے جو آمریت کی بدترین مثال ہے اور اپنی ہی قوم کو جبر و استبداد کی تاریکی میں لپیٹے ہوئے ہے۔ مصر ہی کے ایک معروف دانش ور سعد الدین ابراہیم نے مصر کو منتخب کرنے پر اس بنیاد پہ اعتراض کیا کہ: ’’وہاں جمہوریت کا قتلِ عام ہو رہا ہے، تو مصری حکومت نے ان کی آواز کو دبانے کے لیے قوت کا استعمال کیا اور انھیں جیل میں دھکیل دیا۔ صدر اوباما کی جانب سے اس شہر کے انتخاب پر ایک مدت تک اضطراب کا اظہار کیا جاتا رہے گا۔

حقائق سے پھلوتھی

صدر اوباما نے حالات کا جو تجزیہ کیا ہے، وہ بھی کئی پہلوئوں سے محلِ نظر اور حقائق کے صحیح ادراک سے عاری نظر آتا ہے، مثلاً ان کا یہ دعویٰ کہ جدیدیت اور عالم گیریت کی لائی ہوئی    بڑے پیمانے پر تبدیلی کے نتیجے میں بہت سے مسلمانوں نے مغرب کو اسلام کی روایات کے دشمن کے طور پر دیکھا___ ایک باطل مفروضہ اور ساری بحث کو خلط مبحث کی نذر کرنے کی بدترین مثال ہے۔ جدیدیت اور عالم گیریت کے اپنے مسائل ہیں، اور دنیا کی تمام ہی اقوام ان کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے نبردآزما ہیں، مگر ان کو مغرب کے خلاف بغاوت کی وجہ قرار دینا فکری و ذہنی فساد کے سوا کچھ نہیں۔ اصل ایشو امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی پالیسیاں اور مسلم ممالک کے وسائل کا استحصال ہے، نیز اسلامی احیا کی تحریکوں کو کچلنے اور مسلم ممالک پر اپنے من پسند حکمرانوں کو مسلط کرنے اور ان حربوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کو ایک نئی غلامی کے جال میں گرفتار کرنے کی قابلِ مذمت پالیسی ہے۔ آج بھی دنیا کے ۴۰ سے زائد ممالک میں امریکا کی کئی لاکھ افواج موجود ہیں۔ سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلامی اور محکومی وہ اصل سبب ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ظلم کا دور دورہ ہے اور مسلم ممالک امریکا کے براہِ راست قبضے یا کہیں بالواسطہ قبضے کا شکار ہیں۔

اسی طرح دہشت گردی کے نام پر، اور اب نام بدل کر انتہا پسندی اور پُرتشدد انتہا پسندی کے عنوان سے جو جنگیں امریکا نے مسلم دنیا پر مسلط کی ہوئی ہیں، اور جن کے نتیجے میں مختلف نوعیتوں کی قتل و غارت گری برپا ہے اور جس درجہ مسلم ممالک کو تباہی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، ان سب زیادتیوں کا مداوا محض دوستی اور احترام کے خوش نما الفاظ سے ممکن نہیں۔

صدر اوباما نے سچ بولنے کی تلقین کی ہے اور اس سلسلے میں قرآن کی ہدایت کا بھی تذکرہ  کیا ہے، مگر ہر اہم موضوع پر جس کا انھوں نے ذکر کیا ہے، وہ خود سچ اور پورے سچ کی راہ صواب سے بہت دُور رہے ہیں۔ حماس کے کمزور اور ناپختہ میزائلوں پر ان کی تقریر دل پذیر اور اسرائیل  کے حملوں، غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں پر امریکا کے فراہم کردہ ایف ۱۶ سے حملے،   میزائلوں کی بارش، بھاری توپ خانے سے بم باری، اور غزہ کی پوری آبادی کی ایسی ناکہ بندی کہ اشیاے ضرورت اور خوردونوش کے سامان سے بھی محرومی مقدر بنا دی گئی___ یہ سب ظالمانہ اور چنگیزی کارروائیاں نہ صدر اوباما کو نظر آئیں اور نہ ان کی تقریر میں کوئی جگہ پاسکیں۔ حماس کو انھوں نے لیکچر پلایا کہ تشدد کا راستہ ترک کردیں، لیکن اسرائیل کے ریاستی تشدد اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قابضین (settlers) کے تشدد کا کوئی خیال تک ان کو نہیں آیا۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور اس وجہ سے انھیں اس علاقے میں ایٹمی دوڑ کا خدشہ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کے ۲۰۰ سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ان کی پیشانی پر شکن پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ کیا دنیا یہ بھول گئی ہے کہ لبنان میں ۱۹۸۲ء کے دوران اسرائیل کے حملے میں ۱۷ہزار ۵سو عام شہری جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد تھی، شہید کیے گئے؟ کیا صبرااور شاتیلا کے ان ۱۷۰۰ معصوم انسانوں کے بے دردانہ قتلِ عام کو دنیا بھول گئی ہے؟ کیا ۱۹۹۶ء میں ۱۰۶ لبنانی عام شہریوں کے، جن میں نصف بچے تھے، قتل کا خون اسرائیل کے ہاتھوں پر نہیں؟ کیا ۲۰۰۶ء میں فلسطینیوں کے مہاجرین کیمپ سے اسرائیلی حکم پر سیکڑوں افراد کا انخلا، اور پھر اسرائیلی ہیلی کاپٹروں سے ان کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا واقعہ قابلِ ذکر نہیں؟ اور کیا ۲۰۰۶ء میں لبنان میں ایک ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اُتارنا اور ۲۰۰۸ء میں غزہ میں ۱۳۰۰ کی شہادت کسی شمارقطار میں نہیں؟ اگر صدراوباما کو یہ سب نظر نہیں آتا تو پھر ان کی طرف سے انصاف کی دہائی اور صدق بیانی کی تلقین پر کون یقین کرے گا؟

صدر اوباما افغانستان میں جنگ کو ’مجبوری کی جنگ‘ (war of necessity) قرار دیتے ہیں اور عراق میں فوج کشی کو ’مرضی کی جنگ‘ (war of choice)کہتے ہیں۔ لیکن جس جھوٹ پر اور جن واہموں پر ان تمام جنگی کارروائیوں کا انحصار ہے، ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ عراق میں مستقل قیام چاہتے ہیں اور نہ افغانستان میں، لیکن عملاً دونوں ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے اور پاکستان کو بھی اپنی فوجی جاگیر میں شامل کرنے کے تمام اقدامات کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں، اور ان ممالک پر اپنے احسانات کا بوجھ ڈالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ عراق سے واپسی کی باتیں ۲۰۱۲ء کی خبر لارہی ہیں اور افغانستان میں دسیوں سال قیام کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ان عملی کارروائیوں کے ساتھ انخلا کی حکمت عملی کی بات بھلا کیا مناسبت رکھتی ہے۔

تین ماہ پہلے پاکستان کو چند مہینوں اور چند ہفتوں کا مہمان کہا جا رہا تھا، اور اب پاکستانی حکومت اور فوج نے ان کے احکام کی تعمیل میں اپنی قوم کو جس جنگ میں جھونک دیا ہے اس سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچ رہی ہے اور اب پاکستان ان کو مستحکم ہاتھوں میں نظر آرہا ہے۔ صدراوباما کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ خوش کلامی کا نہیں، امریکا کی پالیسیوں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہ کاریوں کا ہے اور جب تک امریکا اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرکے جنگی جنون سے باز نہیں آتا، عالمِ اسلام سے تعلقات کی درستی کا خواب ’اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے‘ سے زیادہ نہیں۔ عالمِ اسلام کے زخم حسین الفاظ اور خاندانی رشتوں کے تذکرے سے مندمل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے پالیسیوں کی تبدیلی اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔

اسرائیل جو مظالم بھی ڈھا رہا ہے وہ امریکا کی اشیرباد اور سیاسی اور مالی مدد کی وجہ سے ہے۔ اوباما صاحب نے نئے یہودیوں کی نئی آبادکاری کے خلاف بات کی ہے، لیکن اصل مسئلہ تو اسرائیل یا فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے اور اپنی سرحدوں کو محض طاقت کے بل بوتے پر بڑھانا اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنا ہے۔ امریکی صدر کو اسرائیل کے وجود اور سلامتی کی تو فکر ہے اور ان کے ’اساطیری حقِ واپسی‘ (mythical right of return) پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی اور اپنے گھروں میں واپسی کا حق موصوف کو دُور دُور نظر نہیں آتا، جب کہ اسرائیل کو اس کھیل کے جاری رکھنے کے لیے امریکا نہ صرف ہرسال اربوں ڈالر دے رہا ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۴۰ سے زیادہ بار ویٹو کا حق بھی استعمال کرچکا ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں سے گلہ ہے کہ وہ ظالم کے خلاف کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما نے کشمیر کا ذکر کیا تھا اور خصوصی نمایندہ مقرر کرنے کی بات بھی کی تھی، مگر اب وہ سب بھول گئے ہیںاور بھارت کو علاقے کا لیڈر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان پر سارا دبائو ہے اور ’ایفپاک‘ (Af-Pak) کے شرمناک تصور کے تحت پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں اور سبق پڑھا رہے ہیں سچ اور انصاف کا___ اس پس منظر میں محض الفاظ پر بھلا کون یقین کرے گا؟

امریکا کی ٹفٹ یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر گیری لیوپ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بش کی پالیسیوں کو پاکستان کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ قرار دیا ہے، جن پر امریکا کی موجودہ قیادت کامل یکسوئی کے ساتھ عمل کر رہی ہے اور زرداری حکومت ان کی پوری گرفت میں ہے۔  صدر اوباما کے سینے میں اگر سچ سننے کا دل دھڑک رہا ہے، تو پروفیسر گیری لیوپ کے ان الفاظ پر غور کریں۔ وہ کب تک اصل اسباب پر پردہ ڈالتے رہیں گے:

بش کی انتظامیہ نے مشرف پر دبائو ڈالا کہ سرحدی صوبوں میں پاکستانی فوج کو تعینات کرے جہاں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں لگائی گئی تھی، جہاں اس کی محض موجودگی ہی اشتعال انگیز سمجھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۰۵ء کا امن معاہدہ ہوا جس میں حکومت نے سرحد کے ساتھ فوجی چوکیاں ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بدلے میں قبائلی لیڈروں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ شدت پسندی کی حمایت ختم کردیں گے اور افغانستان کی سرحد سے آمدورفت کو روکیں گے۔ یہ حکومت کے لیے ایک طرح سے  باعزت شکست تھی جس پر امریکا نے تنقید کی۔ بعد میں جنگجوئوں سے کیے جانے والے سارے معاہدے ٹوٹ گئے، جیساکہ فروری میں سوات کا معاہدہ۔

بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان پر ایسی دہشت گردی مسلط کر دی ہے جس کا انجام نظر نہیں آتا۔ اوباما کی افغانستان پاکستان (Af-Pak) جنگ میں زیادہ فوجیں، زیادہ ڈرون حملے اور ’تقسیم کرو حکومت کرو‘ جیسی تدابیر سے بھی کامیابی کی کم اُمید ہے۔ امریکی افسران یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے وہ واقعی حیران ہیں کہ پاکستانی زیادہ نہیں کر رہے۔ پاکستانی حیران ہیں کہ وہ کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ ملک کا وجود خطرے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باہر رہ کر اندر دیکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ امریکی استعمار کے مفادات مذہبی، قومی اور نسلی احساسات کو ختم نہیں کردیتے۔ مقامی لیڈروں کے لیے چاہے وہ استعمار کے تنخواہ یافتہ ہوں ممکن نہیں ہے کہ مقامی مزاحمت کو ختم کریں اور امن پیدا کریں۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، امریکی استعمار اور جس طرح یہ   کیا گیا، اس نے پاکستانی آبادی کے بڑے حصے کو ناراض کر دیا ہے۔ یہ واشنگٹن کا اسلام آباد کے لیے غیر مطلوب تحفہ ہے جس کے لیے اسلام آباد کو برابر ادایگی کی جارہی ہے اور وہ اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

الحق مرٌّ (سچ کڑوا ہوتا ہے) لیکن سچائی کو جانے بغیر اصلاح کا کوئی امکان نہیں اور جو پالیسی حقائق کو نظرانداز کرکے بنے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

صدر اوباما نے گوانتانامو کے تعذیب خانے کو بند کرنے کا اعلان بڑے طمطراق سے کیا تھا، مگر امریکی کانگریس میں اسے بند کرنے کے لیے جو بل پیش کیا گیا، اسے بھاری اکثریت سے جن میں ان کے اپنے ڈیموکریٹ ووٹ بھی شامل تھے، رد کر دیا گیا ہے۔

تحقیقات میں تعذیب (torture) کے استعمال کی صدر اوباما نے سختی سے نفی کی ہے، مگر انھی کی ٹیم کے افسران وہی بش والے دلائل دے رہے ہیں۴؎  اور ’معلومات کے حصول کے قانون کے تحت بش دور کی تعذیب پر مبنی جو تصاویر حاصل کی گئی تھیں‘ خود ان کی حکومت نے ان کی اشاعت کو روک دیا ہے۔ ان حکام کا کوئی احتساب ایجنڈے پر نہیں، جو گذشتہ آٹھ سالوں میں ان تعذیبی ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ قول اور عمل میں اگر مطابقت نہ ہو تو پھر اخلاقی وعظ اور نیک تمنائوں کی دل پذیر تقاریر کو کون سنے گا اور ان پر کون اعتماد کرے گا؟

صدر اوباما کی تقریر پر لندن کے اخبار دی گارڈین کے ادارتی تبصرے کا ایک جملہ دسیوں صفحات پر پھیلے ہوئے تبصروں پر بھاری ہے:

یہ ایک ایسے شخص کی جو بلاشبہہ اپنے مقاصد کے لیے مخلص ہے، دبنگ تقریر تھی۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوتی ہے یا نہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ خیالات کو ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرسکتا ہے یا نہیں۔ (اداریہ، دی گارڈین، ۵ جون ۲۰۰۹ء)

ایک اور عرب دانش ور رامی خوری (Rami Khouri) جو لبنان کے The Star کا مدیر اور امریکن یونی ورسٹی آف بیروت کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کا ڈائرکٹر ہے، عرب اور مسلم عوام کے دل کی آواز کا یوں اظہار کرتا ہے:

بُری خبر یہ ہے کہ اس میں سے کوئی بات بھی نئی نہیں ہے۔ انھوں نے کوئی ایسا ٹھوس اشارہ نہیں دیا کہ امریکی پالیسی کے اصولوں کا یہ اعلان پالیسی میں عملاً تبدیلی پر منتج ہوگا۔ عرب اسلامی دنیا کے لیے امریکی پالیسیوں میں جو بنیادی تضادات اور بے حسی ہے، وہ اسی کا اظہار کرتے رہے، اور اس پر قائم تھے کہ واشنگٹن کا ایجنڈا اسامہ بن لادن طے کرے۔ اس ایجنڈے میں معقول پالیسیاں اختیار کرنے کے بجاے اکثر اسلام کا خبط فیصلہ کن ہوتا ہے۔

امرِواقعہ یہ ہے کہ قاہرہ میں اوباما کی تقریر میں بیان کردہ ہراچھے اصول کی تردید پورے علاقے میں امریکی پالیسی سے ہوتی ہے لیکن اس سے دورے کی اہمیت یا تقریر میں اس کے خیالات کی امکانی قوت کم نہیں ہوتی۔

ہم دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہ امریکا حقائق کو ان کے اصل رنگ میں دیکھے اور مفاد، دھونس اور سامراج کی عینک اُتار دے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے پاکستان اور مسلم دنیا کی دوستی چاہتے ہیں، مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب مفاد پرستی کی راہ کو ترک کرکے حق و انصاف کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کی مخلصانہ کوششیں ہوں، اور عملاً ان پالیسیوں اور منصوبوں کو ترک کیا جائے جو حالات کو بگاڑنے کا سبب بنے ہیں۔ جب تک یہ تبدیلی واقع نہیں ہوتی، دل پذیر تقریروں سے مصائب کو ٹالا نہیں جاسکتا، اور جنگ کی آگ کو خوب صورت الفاظ سے بجھانا ممکن نہیں۔ مرزاغالب نے ایسے ہی قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر کہا تھا    ؎

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا


میاں طفیل محمد رحمۃ اللہ علیہ

___جنھوں نے اللہ سے اپنا عہد سچا کر دکھایا!

موت برحق اور ہر انسان کا مقدر ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العالمین کی ہے___ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں دل یہی چاہتا ہے کہ وہ ہم سے کبھی رخصت نہ ہوں۔ تاہم، انسانی خواہشات اپنی جگہ اور اللہ کا قانون اپنی جگہ۔ بلاشبہہ ہر ذی نفس کے لیے موت کا ایک وقت مقرر ہے، البتہ کامیاب وہ ہے جس نے زندگی اس طرح گزاری ہو کہ کبھی کسی کو تکلیف نہ دی ہو، جس کی محبت اور مخالفت کا معیار اللہ کی رضا، اس کے دین سے وفاداری، اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی سربلندی ہو، اور جس کی موت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدوفا پر واقع ہوئی ہو، اور جس کی نیکیاں اس کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی   صدقۂ جاریہ کی شکل میں جاری و ساری رہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اپنے محترم قائد، محسن اور رہنما میاں طفیل محمد صاحب کو جن کی سرپرستی میں زندگی کے ۶۰ سال گزارنے کی سعادت مجھے حاصل رہی، میں نے اللہ کا ایک مخلص بندہ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق اور ان کی رضا اور خوش نودی کو زندگی کی ہردوسری مصلحت پر مقدم رکھنے والا، اُمت کا خیرخواہ، جماعت اسلامی کا وفادار اور خادم، مولانا مودودیؒ کا مخلص ترین ساتھی اور محبت و شفقت کا پیکر پایا۔ وہ صبرواستقامت کے کوہِ گراں اور اخلاص و خیرخواہی میں سب سے آگے تھے۔ دورِحاضر میں ان کی زندگی اسلاف کا ایک نمونہ تھی۔

جوانی میں مولانا مودودیؒ کی دعوت پر لبیک کہہ کر پوری زندگی اس عہدِوفا کو پورا کیا جو اگست ۱۹۴۱ء میں ایک سوٹڈ بوٹڈ وکیل نے اللہ اور اللہ کی طرف بلانے والوں کے ایک مختصر گروہ سے کیا تھا۔ بلاشبہہ انھوں نے اپنے عہد کو سچا کردکھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اور جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے ان کو سرفراز فرمائے۔ ان پر قرآن کی یہ شہادت صادق آتی ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے عہد کو سچا کردکھایا۔

میاں طفیل محمد مرحوم مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کے سب سے اہم رہنما تھے اور بلاشبہہ مولانا مرحوم کے وژن کو نظامِ جماعت کی شکل میں ڈھالنے، مردانِ کار تیار کرنے اور اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے میں اپنی نظیر آپ تھے۔ ان کی سادگی، ان کا خلوص، ان کی شفقت، ان کی بے لوثی، ان کی استقامت، ان کی للہیت، ان کا پیار___ انسان کس کس بات کا ذکر اور اعتراف کرے۔ ان کی زندگی میں ہم جیسے کمزور اور گنہگار انسانوں نے اسلام کی انسان سازی کی معجزانہ قوت کا بچشم سر نظارہ کیا، اور ایک بار پھر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلام ہر دور میں اپنے مطلوبہ انسان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

میاں صاحب کو میں نے مشکل سے مشکل حالات میں صبر اور استقامت کا پیکر پایا۔   ان کی زبان سے کبھی کسی ذاتی معاملے میں حرفِ شکایت نہیں سنا۔ امارت سے قبل، امارت کے دوران، اور امارت کے بعد ان کی زندگی کے جس دور پر نگاہ ڈالتا ہوں انھیں ایک عظیم انسان، ایک زیرک قائد، ایک روشن ضمیر مرشد، ایک اعلیٰ منتظم اور ایک شفیق باپ پاتا ہوں۔ ان کی زندگی بھی روشنی کا مینار تھی اور موت (۲۵ جون ۲۰۰۹ء) کے بعد بھی ان کی مثال ایک نمونہ اور چراغِ راہ کی رہے گی  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے