جولائی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

اسلامی بنکاری کا بڑھتا ہوا عالمی رجحان

امجد عباسی | جولائی ۲۰۰۹ | اسلامی معیشت

Responsive image Responsive image

عالمی معاشی بحران سے جہاں بڑے پیمانے پر بے روزگاری بڑھی ہے، بڑے بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہورہے ہیں اور عالمی معیشت ہل کر رہ گئی ہے وہاں سرمایہ دارانہ نظام کا مستقبل بھی مخدوش نظر آرہا ہے۔ ماہرین معیشت کا دعویٰ ہے کہ وہ معیشت کو اِس بحران سے نکالنے میںکامیاب ہوجائیں گے اور شاید یہ بحران چند برسوں پر محیط رہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ بحران سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی انتشار کی ابتدا ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ نتیجتاً ایک منصفانہ اور مستحکم متبادل معاشی نظام کی ضرورت اور مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ چنانچہ متبادل نظام کی تلاش جاری ہے اور مختلف حل بھی پیش کیے جارہے ہیں۔

ایک حل سوشلزم کے تحت اداروں کو قومیانے اور غریب طبقے کے مفادات کے تحفظ کو   یقینی بنانے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ ماضی میں آزمایا جاچکاہے اور سودی معیشت سے پیداشدہ مسائل، ارتکازِ دولت اور امیروغریب کے فرق جیسے مسائل کا کوئی پایدار حل نہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر اور محفوظ بنکاری کے طور پر بھی اسلامی بنکاری کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی بڑی تعداد میں اس طرف رجوع کر رہے ہیں۔ امریکا جسے معاشی بحران کا سب سے زیادہ سامنا ہے، وہاں بھی اسلامی بنکاری فروغ پارہی ہے اور اسلامی بنک کھل رہے ہیں۔اسلامی بنکاری سرمایہ دارانہ نظام کے نقائص، مثلاً سود، سٹے کا کاروبار،قرض کی معیشت اور زرپرستی وغیرہ جو معیشت کو سکیڑ دیتے ہیں، دولت کو مرتکز کردیتے ہیں اور بالآخر معاشی بحران کا سبب بنتے ہیں، سے پاک ہے اور موجودہ معاشی بحران کی زد سے بھی بڑی حد تک محفوظ رہی ہے۔ گویا سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبنے کو ہے اور انسانیت اپنی اصل کی طرف لوٹنے پر مجبورہے! علامہ یوسف قرضاوی کے بقول: سرمایہ داری نظام کا انہدام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کا معاشی فلسفہ فروغ پا رہا ہے۔ (دوحا کانفرنس، ۲۰۰۸ء)

  •  عالمی معاشی بحران کا سبب : معروف ماہر معیشت ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے تجزیے کے مطابق موجودہ عالمی بحران کی بنیادی وجوہات بلاقید سودی قرض پر مبنی سرمایہ کاری (debt-financing)، سٹہ، جوا اور خودغرضی اور مفاد پرستی ہے۔ اس کے علاوہ معاشی سرگرمیوں کا کسی قسم کی اخلاقی قیود اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہونا ہے، جیسا کہ جوا اور سٹہ بازی وغیرہ۔ اس کے تدارک کے ضمن میں انھوں نے کہا: معاشی سرگرمیوں سے سود اور جوئے کے عنصر کو ختم کردیں، اور مارکیٹ کو اخلاقی ضوابط کا پابند بنا دیں تو معاشی بحران پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

معاشی بحران کے ایک اور سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سرمایہ داری نظام نے انوسٹمنٹ اور متوقع آمدنی (expected income) کے تصور کو فروغ دیا جس سے سٹے بازی کو فروغ ملا۔ نتیجتاً حقیقی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے معیشت بیٹھ گئی۔ اس بحران کا ایک اور بڑا سبب کریڈٹ کارڈ کلچر کا فروغ بھی ہے جو کہ سودی معیشت کا تسلسل ہے اور بالآخر کریڈٹ defaultکا سبب بنا۔ (ریڈینس ویوز ویکلی، نئی دہلی، بھارت، ۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء)

اسلام ان مسائل کا حل اس طرح پیش کرتا ہے کہ پہلے ہی قدم پر سود اور سودی قرض پر مبنی سرمایہ کاری کو حرام قرار دیتا ہے۔ سودی قرض ایسی ظالمانہ سرمایہ کاری ہے کہ سرمایہ دار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مقروض قرض کیسے اتارے گا۔ اسے صرف اپنے سرمایے سے غرض ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت کو جائز قرار دیتا ہے اور استحصال کو ختم کرتا ہے۔ اس وقت اسلامی بنکاری میں مرابحہ، اجارہ اور تکافل اسکیموں کے تحت سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ ان میں اسلامک mortgage (رہن رکھنا)، اسلامک کار فنانس، اسلامک کریڈٹ کارڈ ، اسلامک انشورنس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری تیزی سے فروغ پارہی ہے۔

دوسرے یہ کہ اسلام جوئے اور سٹے کو حرام قرار دیتا ہے، اور سرمایہ کاری ذاتی ملکیت اور حقیقی بنیادوں پر کرتا ہے۔ متوقع آمدنی کی سرمایہ کاری پر جوا اور سٹہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردیتا ہے۔ تیسرے یہ کہ خود غرضی اور مفاد پرستی کے بجاے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اس کے  نتیجے میں قرض پرمبنی سرمایہ کاری کا بڑی حد تک خاتمہ ہوجاتا ہے، جوکہ سرمایہ داری نظام کا خاصا ہے، اور متوقع آمدنی کی بنا پر معیشت کو درپیش خطرات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام، زکوٰۃ و عشر کا نفاذ، وراثت کی تقسیم، دولت کے حصول میں جائز و ناجائز کی تمیز اور مال میں مستحق اور غریب افراد کے حقوق کا تعین کرکے دولت کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔

معاشیات کی رو سے مارکیٹ کسی اخلاقی ضابطے یا جائزو ناجائز کی تمیز کی پابند نہیں ہوتی۔ نیوٹرل مارکیٹ کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے نتیجے میں اس تصور پر نظرثانی کی ضرورت کو بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ مارکیٹ کو جوئے اور سٹے بازی وغیرہ سے روکنے کے لیے ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔ یہ اسلامی معیشت کا ہی تصور ہے جو جوئے اور سٹے کو حرام قرار دیتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اجتماعی مفاد کے پیشِ نظر دولت کے حصول میں جائز و ناجائز کی تمیز کی بنا پر پابندیاں عائد کرتا ہے، جیساکہ شراب، جوئے، سود، رشوت وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح سے اس بحران کے نتیجے میں اسلام کے مارکیٹ کے اصول و ضوابط کے نفاذ کی طرف بھی پیش رفت ہوئی ہے۔

  •  اسلامی بنکاری کا رجحان: ایک اندازے کے مطابق اسلامک فنانس، عالمی سرمایہ کاری کا اگرچہ ایک فی صد (ایک ٹریلین ڈالر) ہے لیکن سالانہ ۱۵ سے ۲۰ فی صد بڑھوتری کی شرح کے لحاظ سے تقریباً ۵۰۰ ارب ڈالر سالانہ سرمایہ کاری متوقع ہے۔ موجودہ عالمی بحران سے اس کی شرح میں مزید تیزی آئی ہے۔ مڈل ایسٹ اکانومک ڈائجسٹ کے مطابق ۲۰۱۲ء تک خلیج میں ہونے والی کاروباری ڈیل کا تقریباً ایک تہائی اسلامی بنکاری پر مبنی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ۷۵ ممالک میں کام کرنے والے ۳۰۰ اسلامی بنکوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی بنکاری کی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے عالمی شہرت کے بنک، مثلاً Deutsche Bank، HSBC اور سٹی بنک بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں اور اسلامی بنکاری کے لیے کھڑکیاں کھول رہے ہیں۔ برطانیہ میں اسلامک مارٹ گیج مارکیٹ میں سرمایہ کاری ۹۰۰ ملین ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ HSBC کے مطابق گلوبل اسلامک انشورنس مارکیٹ ۲۵ فی صد سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے اور اس میں سرمایہ کاری ۲۰۱۰ء تک ۱۴بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ HSBC نے ملایشیا میں اسلامک مارٹ گیج کا آغاز کیا تو پہلے ہی سال سرمایہ کاری کرنے والوں کی نصف تعداد غیرمسلموں پر مشتمل تھی۔

سنگاپور نے اسلامی فنانس کی اہمیت کے پیش نظر اس کے فروغ کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں اسلامک فنانس کا سنٹر بن سکے۔ مانٹیری اتھارٹی سنگاپور (MAS) پہلا مرکزی بنک ہے جس نے غیرمسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود اسلامک بانڈ جاری کیا ہے جسے Sukuk (سکوک) کہا جاتا ہے۔ ایم اے ایس کے منیجنگ ڈائرکٹر کے بقول:  یہ بانڈ بڑی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور یہ سنگاپور حکومت کا اسلامی بنکاری میں دل چسپی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ اسلامی بنکاری پر ۲۰۰۷ء سے کام ہو رہا ہے۔ یہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک، اسلامک بنک آف ایشیا، ڈی بی ایس بنک سنگاپور کے مشترکہ تعاون سے جاری ہے۔ عبداللہ حسن سیف، چیئرمین اسلامک بنک آف ملایشیا نے کہا کہ یہ جہاں سنگاپور کے لیے ایک نمایاں اسلامک فنانس سنٹر بننے کا سبب ہوگا وہاں دوسرے ممالک اور اداروں کے لیے بھی ایک اچھا کیس اسٹڈی ثابت ہوگا اور اسلامی بنکاری کو فروغ ملے گا (Finance The Islamic Way at Small US Bank، حج اینڈ عمرہ، سعودی عرب، اپریل ۲۰۰۹ء، ص ۲۵)۔ توقع ہے کہ سکوک کریڈٹ کارڈ میں سرمایہ کاری اگلے چند برسوں میں ۱۰۰ بلین ڈالر سے بھی تجاوز کرجائے گی۔

فرانس میں بھی اسلامک بنکاری فروغ پارہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ برس فرنچ سینیٹ نے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں سیاست دانوں، بنکاروں اور شریعہ اسکالروں نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ اسلامک فنانس کے فروغ اور عوام میں آگہی کے لیے حکومتی سطح پر کیا کیا جاسکتا ہے، نیز ٹیکس قوانین میں تبدیلی کے لیے کیا قانون سازی کی جائے۔

امریکا میں بھی اسلامی بنکاری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یونی ورسٹی اسلامک فنانشل کارپوریشن کے تحت مشی گن میں پہلا اسلامی بنک، ’یونی ورسٹی اسلامی بنک‘ کے نام سے کھولا گیا ہے جسے حکومت کی تائید بھی حاصل ہے۔ یہ بلاسود بنکاری کر رہا ہے اور دن بدن مقبول ہو رہا ہے۔ کارپوریشن کے ڈائرکٹر جان سکلر کا کہنا ہے کہ آج ہم جس معاشی بحران سے دوچار ہیں، اگر ہم نے اسلامی بنکاری کو بنیاد بنایا ہوتا تو ہمیں اس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہ بنک شراکت کی بنیاد پر دو طرح سے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ ایک مارک اَپ انسٹالمنٹ سیل، اور دوسرے lease to purchaseسیل۔ یونی ورسٹی بنک کے صدر Stephen Razini نے کہا ہے کہ بہت سے بنک  اور مارٹ گیج کمپنیاں ہمارے ساتھ شراکت میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنک نے  گھر کے لیے قرض اور کریڈٹ کمپنیوں کو ملک گیر سطح پر اپنی خدمات پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے (ایضاً، ص ۲۴)۔ اس سے بھی امریکا میں اسلامی بنکاری کے رجحان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

  •  شریعہ فنانس کورسز کا اجرا: جیسے جیسے اس عالمی رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، ویسے ویسے شریعہ اسکالروں کی کمی بھی محسوس کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعہ اسکالروں کی    اس بڑھتی ہوئی اِس ضرورت کے پیش نظر شریعہ فنانس کورسز کا اجرا کیا جارہا ہے۔ ملایشیا نے جو  شریعہ فنانس کے حوالے سے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے، ملایشیا سنٹرل بنک اور سعودی عرب کے اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے شریعہ اسکالروں کی تیاری کے لیے ۵۳ ملین ڈالر کے وظائف مختص کیے ہیں۔ مختلف دینی مدارس کے تحت بھی شریعہ فنانس کورسز کا رجحان سامنے آیا ہے۔ مغرب میں بھی اس کا رواج عام ہو رہا ہے۔

برطانیہ کو شریعہ فنانس کورسز کے اجرا کے حوالے سے شہرت حاصل ہورہی ہے۔   فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق یونی ورسٹی آف ریڈنگ، جنوبی لندن اسلامک فنانس کورسز کے لیے ایک سنٹر قائم کررہی ہے۔ گذشتہ برس یونی ورسٹی نے انوسٹمنٹ بنکنگ اینڈ اسلامک فنانس کی ماسٹر ڈگری کا اجرا کیا تھا۔ بن گور یونی ورسٹی، ویلز نے حال ہی میں اس حوالے سے ماسٹر ڈگری کورس کی ابتدا کی ہے۔ فرانس کی رابرٹ شومان یونی ورسٹی، سٹراس برگ نے بھی اسی طرح کے کورس کا آغاز کیا ہے۔ اسی یونی ورسٹی کے بزنس لا سنٹر کے سربراہ مائیکل سٹارک نے کہا ہے کہ امریکا میں عالمی بحران سے جو کچھ ہوا ہے، اس سے اسلامک فنانس میں لوگوں کی مزید دل چسپی بڑھے گی کیونکہ یہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ (فارن پالیسی، Carla Power، جنوری فروری ۲۰۰۹ء)

اسلامی بنکاری ابھی تشکیلی مراحل میں ہے،لہٰذا علمی اختلاف، عملی مشکلات اور اصولی ہدف کے حصول میں مسائل کا سامنا فطری امر ہے جنھیں علمی انداز اور اعتدال پسندی کے ساتھ بتدریج حل کیاجاسکتا ہے۔ اس عالمی رجحان کا تقاضا ہے کہ اسلام کے معاشی تصورات کو جدید تقاضوں کے پیش نظر مرتب کیا جائے، فنی مہارت اور شریعہ فنانس کے ماہرین کی بڑے پیمانے پر تیاری کا اہتمام ہو۔ اسلامی بنکاری کے حوالے سے جو فکری اختلاف پایا جاتا ہے اور عملاً جو دشواریاں پیش آرہی ہیں ان کا علمی سطح پر بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سیمی ناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ کسی مشترکہ حکمت عملی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اس بنکاری کے ثمرات و برکات سے صحیح معنوں میں استفادہ ایک اسلامی اور فلاحی معاشرے میں ممکن ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم قابلِ غور پہلو یہ ہے اسلامی بنکاری صرف ان سرگرمیوں تک اپنی مساعی کو محدود نہ رکھے جو شریعت کے مطابق ہیں بلکہ شریعت پر مبنی بنکاری کی طرف جرأت مندانہ پیش رفت کرے تاکہ حصص کی بنیاد پر (equity based)  معیشت وجود میں آسکے جو ایک طرف ترقی اور افزایشِ دولت کا ذریعہ بنے گی تو دوسری طرف انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی طرف معاشرے کو لے جاسکے گی۔

ایک زمانہ تھا جب سود کے بغیر معیشت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے اپنی معرکہ آرا کتاب سود (۱۹۳۶ء) میں پہلی بار سرمایہ داری اور سودی معیشت کا بھرپورانداز میں محاکمہ کیا اور سود سے پاک معیشت اور اسلامی بنکاری کا تصور پیش کیا، اور اس شبہے کو دُور کیا کہ سود کا انسداد قابلِ عمل نہیں ہے۔ آج اسلامی بنکاری ایک حقیقت ہے۔ عالمی معاشی بحران نے سرمایہ داری اور سودی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے اور متبادل نظامِ معیشت کے لیے اسلام اور اسلامی بنکاری پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ سود جو کہ سرمایہ داری کی روح اور جان ہے، اس کا خاتمہ دراصل سرمایہ داری کا خاتمہ ہے۔ بلاشبہہ آج سرمایہ داری نظام واشنگٹن میں لرزہ براندام ہے اور سودی معیشت اپنے منطقی انجام سے دوچار ہونے کے قریب ہے۔ دنیا نے جس عالمی نظام کی طرف پیش رفت کی ہے، اس کے نتیجے میں اسلام کے منصفانہ عالمی نظام کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے، اور عالمی اسلامی بنکاری کا فروغ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ وہ وقت دُور نہیں جب دنیا کا مستقبل اسلام اور سود سے پاک، منصفانہ اور مستحکم معاشی نظام ہوگا۔