اسباب اور نتائج پر تو مختلف آرا ہوسکتی ہیں، لیکن اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ ایران اپنے ۳۰ سالہ دورِ انقلاب کے انتہائی اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایران عراق جنگ کے آٹھ برس انتہائی تباہ کن تھے لیکن پوری قوم مجموعی طور پر یک جان تھی۔ امام خمینی کی رحلت صدمہ خیز تھی لیکن ملک و قوم کامل وقار کے ساتھ ایک مربوط و مضبوط نظام کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ دہشت گردی کی لہریں آئیں، سیاسی و دینی اختلافات راے سامنے آتے رہے، اصلاح پسندی اور بنیاد پرستی کی لَے اُٹھائی گئی لیکن رہبر اور ملکی اداروں کو متنازع نہ بنایا گیا۔ اب کیا ہوا کہ مجرد انتخابی دھاندلی کے الزامات نے دوستوں اور دشمنوں سب کو حیران کر دیا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اس صورت حال کا خواب تک نہ دیکھا تھا۔
۱۲ جون ۲۰۰۹ء کے انتخابات کا بگل بجا تو پے درپے کئی امور حیران کن تھے۔ صدارتی امیدواروں نے اپنے ٹی وی مناظروں اور بیانات میں ایک دوسرے کے خلاف وہ زبان استعمال کی اور صریح کرپشن کے وہ الزامات لگائے جو اس سے پہلے کبھی علی الاعلان نہیں کہے گئے تھے۔ صدر احمدی نژاد کی طرف سے سابق صدر اور مجلس خبرگان کے سربراہ ہاشمی رفسنجانی اور ان کے افراد خانہ پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات نے صرف انھی کی شخصیت کو مجروح نہیں کیا بلکہ پورے نظام کی ساکھ کو متاثر کیا۔ پھر ووٹنگ کا آغاز ہوا تو تناسب ۸۵ فی صد تک جاپہنچا۔ ووٹوں کا یہ تناسب بھی ایران کی تاریخ میں سب سے زیادہ تھا۔ رات گئے تک ووٹنگ جاری رہی، میں نے شب ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ تہران میں بعض اہم ذمہ داران سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ افراد کے فقید المثال رجحان کے باعث ووٹنگ کا وقت دو گھنٹے بڑھا دیا گیا ہے۔ ان کا اندازہ یہ تھا کہ شاید پہلے مرحلے میں کوئی ایک امیدوار ۵۰ فی صد سے زائد ووٹ حاصل نہ کرسکے اور فیصلہ دوسرے مرحلے میں ہو۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ غیررسمی نتائج کے مطابق صدر احمدی نژاد ۶۳ء۶۲ فی صد (یعنی ۲ کروڑ ۴۵ لاکھ ۲۷ ہزار ۵ سو ۱۶) ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ ہارنے والے امیدواروں نے نتائج پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ انھیں قبول کرنے سے انکار بھی کردیا۔ اگلے ہی روز ’انتخابات میں دھاندلی‘ کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور معاملہ ۱۷ بے گناہ افراد کی موت، سیکڑوں کے زخمی ہونے اور سیکڑوں کی گرفتاری تک جا پہنچا۔ دوسرے نمبر پر آنے والے میرحسین موسوی جنھیں ۳۳ فی صد (یعنی ایک کروڑ ۳۲ لاکھ ۱۶ ہزار ۴ سو ۱۱) ووٹ ملے تھے اور چوتھے نمبر پر آنے والے مہدی کرّوبی جنھیں ۸ء۰ فی صد (یعنی دو لاکھ ۹۰ ہزار) ووٹ ملے تھے یکجا ہوگئے۔ ہاشمی رفسنجانی ان کے پشتیبان بن گئے اور سابق صدر خاتمی جیسے مختلف اصلاح پسند عناصر ہی نہیں متعدد دینی شخصیات نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان میں قم کے اہم مرجع آیت اللہ صانعی اور امام خمینی کے نائب کی حیثیت سے کام کرنے والے آیت اللہ منتظری نمایاں ترین ہیں۔ ان دونوں شخصیات نے انتہائی سخت الفاظ میں حکومت کی مخالف اور اپوزیشن کی حمایت میں بیانات جاری کیے۔
احتجاجی مظاہروں کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ایران کے دینی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے خطبۂ جمعہ دیا۔ پوری دنیا کی نگاہ خطبے اور اس کے نتائج پر تھی۔ رہبر نے دوٹوک الفاظ میں انتخابات اور ان کے نتائج کی حمایت کی اور کہا کہ صرف دھاندلی کے ذریعے ایک کروڑ ۱۰ لاکھ سے زائد ووٹوں کا فرق نہیں لایا جاسکتا۔ انھوں نے احتجاج کرنے والوں سے پُرامن رہنے کا بھی کہا اور ان کی قیادت کو بھی تنبیہہ کی کہ اگر ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک خوں ریزی کا شکار ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ان کے سر ہوگی۔ رہبر نے بیرونی طاقتوں خصوصاً امریکا و برطانیہ کو بھی خبردار کیا کہ وہ جلتی پر تیل نہ ڈالیں اور کہا کہ افغانستان و عراق میں خون بہانے والے کیا جانیں کہ حقوقِ انسانی کیا ہوتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ہمیں حقوقِ انسانی کی نصیحتیں کریں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے رفسنجانی سمیت تمام اپوزیشن لیڈروں کو بھی پُرامن رکھنے کی کوشش کی اور کہا کہ سابق صدر رفسنجانی سے میری ۵۰ سالہ رفاقت ہے۔ کرپشن نہیں وہ تو خود شاہ کے زمانے سے اپنا پیسہ انقلاب کی خاطر خرچ کرنے والی ہستی ہیں… اسی طرح کے کلمات انھوں نے دیگر صدارتی امیدواروں کے بارے میں کہے لیکن صدر احمدی نژاد کو خصوصی خراجِ تحسین پیش کیا۔ حالیہ بحران کا سب سے حیران کن اور اہم ترین پہلو یہی ہے کہ رہبر جو ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی شخصیت ہی نہیں، عقیدۂ ولایت فقیہ کی روشنی میں نمایاں ترین دینی مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ ایرانی دستور کی شق ۵۷ کے تحت ملک کے تینوں ستونوں (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) پر ان کی کامل بالادستی ہے، ان کی طرف سے واضح ہدایت اور تنبیہہ کے بعد بھی عوام اور اپوزیشن رہنمائوں کا احتجاج جاری ہے۔ صورت حال کے مزید جائزے سے پہلے آیئے ایک نظر میں ریاست کے حالیہ نظام کا جائزہ لے لیں:
۱- اسلامی جمہوریہ ایران کے دستور کے مطابق سب سے اعلیٰ رتبہ رہبر کا ہے جو تاحیات مقرر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ان کا قول قولِ فیصل قرار پاتا ہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں انتخابی نتائج کی توثیق بھی شامل ہے۔ افواج براہِ راست انھی کے زیرنگیں ہیں جن میں باقاعدہ افواج کے علاوہ پاس دارانِ انقلاب اور پاسیج ملیشیا بھی شامل ہے۔ رہبر عدلیہ کی نگہداری کرتا ہے، چیف جسٹس کے عزل و نصب کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔
۲- شوراے نگہبان، ۱۲ ارکان پر مشتمل یہ ادارہ دستور کی دفعہ ۹۹ کے مطابق ملک میں ہونے والے تمام انتخابات یا ریفرنڈم میں اس ادارے کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ وہی امیدواروں کی اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ کرتا ہے اور انتخابات میں کسی بے ضابطگی کی شکایت اور عذرداری کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۹۱ کے مطابق پارلیمنٹ سے صادر ہونے والے قوانین کے شرعی یا مخالف شرع ہونے کا جائزہ بھی یہی ادارہ لیتا ہے۔ شوراے نگہبان کے ۱۲ ارکان میں سے چھے فقہا کا درجہ رکھنے والے علماے کرام ہوتے ہیں، جن کا تعین براہِ راست رہبر کرتا ہے۔ باقی چھے ارکان ماہرین قانون میں سے ہوتے ہیں جن کا انتخاب پارلیمنٹ کرتی ہے۔ اس انتخاب کے لیے امیدواران کی فہرست اعلیٰ عدالت کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ شوراے نگہبان کے سربراہ آیت اللہ جنتی ہیں جو رہبر کے انتہائی معتمدعلیہ ساتھی ہیں۔
۳- مجلسِ تشخیصِ مصلحتِ نظام، ۱۹۸۹ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کے ۳۴ ارکان ہوتے ہیں جن کا تعین براہِ راست رہبر کرتا ہے۔ اس میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تینوں سربراہوں کے علاوہ ملک کے تقریباً ہر اہم مکتب ِ خیال کی نمایندگی ہوتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۱۱۰ کے مطابق رہبر کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی مسئلے یا کسی وقت پارلیمنٹ اور شوراے نگہبان کے درمیان اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں یہی ادارہ فیصلہ کرتا ہے۔ ۱۹۹۷ء سے علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہی اس مجلس کے سربراہ بھی تھے۔ ۱۲ جون کے انتخابات کے بعد ان کے اس منصب سے استعفا کی خبریں آرہی ہیں۔ ان تین غیرمنتخب اہم اداروں کے علاوہ تین اہم ادارے براہِ راست عوام کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں:
ا - صدر مملکت ملک کا اعلیٰ ترین انتظامی منصب، جو چار برس کے لیے منتخب ہوتا ہے اس کا انتخاب دو دفعہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت اپنے ساتھ ۲۱ رکنی کابینہ رکھتا ہے۔ ہر وزارت اپنی جگہ اہم ہوتی ہے لیکن وزارتِ داخلہ کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ ملک کا سارا انتخابی نظام اس کے اختیار میں ہوتاہے۔ شوراے نگہبان، وزارتِ داخلہ اور رہبر کی مؤثر تکون، انتخابات کو یقینی، شفاف اور حتمی بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
ب- مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) ۲۹۰ ارکان پر مشتمل یہ مجلس بھی چار سال کے لیے منتخب ہوتی ہے۔ آخری انتخاب مارچ ۲۰۰۸ء میں ہوئے تھے اور اس میں صدر احمدی نژاد کے حامی دو تہائی سے زائد تعداد میں منتخب ہوچکے ہیں۔ مئی ۲۰۰۸ء میں نئی مجلس نے علی لاریجانی کو اپنا اسپیکر منتخب کرلیا جوکہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ لاریجانی کا شمار رہبر خامنہ ای کے قریبی معتمدین میں ہوتا ہے۔
ج- مجلس خبرگاں ۸۶ رکنی اس اہم مجلس کا انتخاب بھی براہِ راست عوامی ووٹنگ سے ہوتا ہے۔ ارکان مجلس آٹھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ اس مجلس کی اہم ترین ذمہ داری رہبر اعلیٰ کا منصب خالی ہوجانے کی صورت میں نئے رہبر کا انتخاب ہوتاہے۔ یہ مجلس منتخب رہبر اعلیٰ کے بارے میں بھی راے دی سکتی ہے اور اگر مجلس محسوس کرے کہ رہبر اب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں رہا، یا ریاست کے مقاصد و قوانین سے منحرف ہوگیا ہے تووہ اسے معزول بھی کرسکتی ہے۔ اس مجلس کے حالیہ سربراہ ہاشمی رفسنجانی ہیں۔ ان تمام منتخب اور غیرمنتخب اداروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت پورا ریاستی نظام نہ صرف یہ کہ رہبر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کے مکمل کنٹرول میں ہے بلکہ اسے ایک دینی تقدس بھی حاصل ہے جو نظریۂ ولایت ِ فقیہ کی بدولت ایمان و عقیدہ کا حصہ بن چکا ہے۔ شیعہ عقائد کے مطابق ولایت فقیہ بنیادی طور پر امام زمان کی نیابت کا دوسرا نام ہے۔ یہ مسئلہ ہر دور میں بحث و نقاش کا محور بنا ہے۔ آرا اس کے حق میں تھیں اور خلاف بھی۔ اس پر بھی اختلاف رہا کہ ولیِ فقیہ کی اطاعت مطلق ہوگی یا مشروط۔
امام خمینی کی راے ولایت فقیہ کے حق میں دوٹوک تھی۔ انھوں نے اس نظریے کو ایک مکمل نظام کی صورت میں نافذ کر دیا۔ اپنی کتاب حکومتِ اسلامی اپنے متعدد کتابچوں اور خاص طور پر سید علی خامنہ ای کے نام اپنے ایک خط میں انھوں نے ولایت فقیہ کو حکومت اسلامی کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ صدر خامنہ ای کے نام اپنے خط میں ان کے الفاظ تھے: ’’یہ وضاحت ضروری ہے کہ حکومت (ولایت ِ فقیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولایت مطلقۃ ہی کا ایک اہم شعبہ اور اسلام کے اولیں احکام میں سے ایک حکم ہے‘‘۔
امام خمینی کی اس راے بلکہ فیصلے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلاب میں امام کے ہمہ پہلو اثرات و کردار کے تناظر میں، آج رہبر کے فیصلے کے باوجود عوامی مظاہروں کا ختم نہ ہونا معاملے کی دینی و سیاسی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ شیعہ مکتب فکر کی نصابی کتب میں موجودہ ولایت ِ فقیہ کی تشریح یوں کی گئی ہے: ’’ولایت ِ فقیہ حضرت امام مہدی (اللہ ان کا ظہور جلد فرمائے) کی نیابت میں قیادت سے عبارت ہے۔ فقیہ عادل جو اس منصب کی تمام شرائط پر پورا اُترتا ہو مسلمانوں کا سرپرست اور امام ہوتا ہے۔ ان پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ دیگر علما اور فقہا کو بھی اس کی اطاعت کرنا ہوگی۔ اگر کوئی فقیہ، فقہ کے اعتبار سے خود کو رہبر سے بھی بڑا عالم سمجھتا ہو، تو اس کے لیے یہ تو ممکن ہے کہ وہ عبادات میں، شرعی احکام سے مستنبط امور کی روشنی میں خود اپنی پیروی کرلے، لیکن سیاست اور قیادت سے متعلق امور میں اسے بھی ولی امرالمسلمین (رہبر) کی اطاعت کرنا ہوگی۔ یہ ولایت آج کے دور میں رہبر و امام سید علی خامنہ ای کو حاصل ہے‘‘۔
ایک جانب یہ تمام ضوابط و عقائد اور دوسری جانب صرف انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے ہوئے وہ احتجاج کہ جس کا سلسلہ رہبر کے دو خطبات کے باوجود ہنوز جاری ہے…؟ حکومتی کوشش کے باوجود میرحسین موسوی اور مہدی کروبی نے رہبر سید علی خامنہ ای کے خطبۂ جمعہ میں شرکت نہیں کی۔ خطاب کے اگلے ہی روز موسوی نے بیان دیا کہ جھوٹ اور دھاندلی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انٹرنیٹ پر جاری اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ اگر میں اس راستے میں شہید کردیا جائوں تو ایرانی عوام ہڑتالیں کریں اور حقوق کے حصول تک احتجاج جاری رکھیں۔ تقریباً اسی طرح کا ردعمل کروبی، رفسنجانی اور دیگر شخصیات کی طرف سے بھی سامنے آیا۔ ہاشمی رفسنجانی نے قم کا دورہ کیا اور مختلف آیات اللہ سے ملاقاتیں کرتے ہوئے انھیں اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مظاہرے نت نئے انداز اختیار کررہے ہیں۔ میرحسین موسوی نے اپنی پوری تحریک میں سبز رنگ کو اپنے علامتی رنگ کے طور پر متعارف کروایا۔ مظاہرین مختلف انداز سے اس رنگ کی پٹیاں، چادریں، بینر، پرچم اور اسٹکر پھیلا رہے ہیں۔
امریکا، برطانیہ اور اسرائیل اس صورت حال سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ صہیونی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے منتخب ہونے کے بعد بیان دیا تھا کہ میری پہلی ترجیح ایران، دوسری ایران اور تیسری ایران ہوگی۔ ان سبھی کی کوشش ہے کہ ایرانی قیادت کے مابین خلیج وسیع تر ہو۔ اسرائیلی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ ’’ایران کی جاسوسی پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجاے ایرانی عوام پر ’سرمایہ کاری‘ کرو… اس دوران یہ تاثر ہرگز نہ اُبھرے کہ ایرانی مظاہروں کی ڈوریاں باہر سے ہلائی جارہی ہیں۔ اہلِ فارس بیرونی مداخلت سے نفرت کرتے ہیں‘‘ (بن کاسبیت، روزنامہ معاریف، ۱۹ جون)۔ امریکی حکومت نے پہلے دبے لفظوں میں اور پھر کھلے اور جارحانہ انداز سے ایرانی حکومت کی مذمت اور مظاہرین کی تائید شروع کر دی ہے۔ امریکی کانگریس میں ایک ووٹ کے مقابلے میں ۴۰۵ ووٹوں کی اکثریت سے قرارداد منظور کی گئی کہ انتخابات کے بعد ایرانی عوام کی مدد کی جائے۔ امریکا میں موجود شاہِ ایران کے بیٹے کو بھی متحرک کر دیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کنٹرول کر لیے جانے کے بعد متبادل ذرائع بالخصوص انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ یوٹیوب، فیس بک اور ٹویٹر نام کی ایسی ویب سائٹس خاص طور پر فعال و بہتر بنا دی گئی ہیں جن کے ذریعے ایرانی عوام بیرونی دنیا سے اور بیرونی دنیا ان سے براہِ راست رابطہ کرسکے۔
اس ضمن میں امریکی دل چسپی اور مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ’ٹویٹر‘ کو اپنی معمول کی اصلاحات و دیکھ بھال کے لیے ایک گھنٹے کے لیے اپنی سروس بند کرنے کی ضرورت تھی۔ خود امریکی وزارتِ خارجہ نے اس انٹرنیٹ کمپنی سے خصوصی درخواست کی کہ وہ یہ وقفہ مقرر کردہ وقت پر نہ کرے بلکہ ایران کے وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے کے بعد کرے تاکہ اس وقت زیادہ لوگ یہ سروس استعمال نہ کررہے ہوں۔
کوششیں جتنی ، جیسی اور جس جس کی بھی ہوں ایک بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ ایرانی حکومت حالیہ بحران پر قابو پا لے گی۔ اطلاعات کے مطابق صدر احمدی نژاد وسط اگست سے پہلے پہلے نیا صدارتی حلف اُٹھا لیں گے، نئی کابینہ تشکیل پا جائے گی، پھر مظاہروں میں بھی دم خم نہیں رہے گا، لیکن کیا ایرانی قیادت میں پیدا ہوجانے والی خلیج کو بھی پاٹا جاسکے گا؟ معاشرے اور حکومت پر اس خلیج کے منفی اثرات کو روکا جاسکے گا؟ بدقسمتی سے اس کا جواب فی الحال نفی میں ہے۔ گذشتہ سالوں میں جتنی بار بھی ایران جانے کا اتفاق ہوا، پورے نظام میں دو واضح بلاک دکھائی دیے۔ ایرانی انقلاب کے بعد تشکیل پانے والی پہلی حکومت میں، صدر مہدی بارزگان کے ساتھ وزیرخارجہ کی حیثیت سے کام کرنے والے ۷۸ سالہ ابراہیم یزدی کے بقول: ’’حالیہ بحران کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اعلیٰ قیادت میں پائے جانے والے اختلافات نہ صرف گہرے ہوگئے ہیں بلکہ سڑکوں پر آن نکلے ہیں‘‘۔
احمدی نژاد کا دوبارہ منتخب ہوجانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ ان سے پہلے سید علی خامنہ ای ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۹ء تک، ہاشمی رفسنجانی ۸۹ء سے ۹۷ء تک، اور محمد خاتمی ۹۷ء سے ۲۰۰۵ء تک دو، دو بار ہی صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ گویا یہ دوبارہ انتخاب بھی اسی روایت کا تسلسل تھا، لیکن خون آمیز بحران نے سب کو متنبہ کر دیا کہ اصل مرض زیادہ سنگین ہے۔ بحران کی حقیقی وجہ ذمہ داران کا دو کیمپوں میں تقسیم ہو جانا ہے۔ سابق شاہ کے تمام ہمنوا اورسرپرست اس تقسیم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ گڑے مُردے اکھاڑے جا رہے ہیں کہ میرحسین موسوی (پ: ۲۹ستمبر ۱۹۴۲ء) جب ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۸ء تک ایران کے وزیراعظم رہے تو صدر علی خامنہ ای کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ صدر خامنہ ای، علی اکبر ولایتی کو وزیراعظم بنوانا چاہتے تھے، دو بار ان کا نام پارلیمنٹ میں پیش ہوا لیکن پارلیمنٹ جس کے اسپیکر رفسنجانی تھے، نے ان کے بجاے میرحسین موسوی کو وزیراعظم منتخب کرلیا۔ موسوی ایران کے آخری وزیراعظم تھے۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات کے باعث، بالآخر ۱۹۸۸ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کا عہدہ ہی ختم کر دیا گیا، تمام اختیارات صدر کی طرف منتقل ہوگئے۔
آج کی صورت حال میں ایرانی قیادت کے لیے اس سے بہتر نصیحت کوئی نہیں ہوسکتی جو خود آیت اللہ خمینی نے صدر خامنہ ای، وزیراعظم موسوی اور اسپیکر رفسنجانی کو ان کے انتخاب کے موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہی تھی: ’’اس نظام کی حفاظت کی اصل ذمہ داری اب آپ کے کندھوں پر ہے۔ ایران میں جو کامیابی حاصل ہوچکی اس کی حفاظت اور اس کا دوام انتہائی مشکل کام ہے لیکن تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود آپ لوگوں کو اس نظام کی حفاظت کرنا ہے‘‘۔ ایران کے تمام پڑوسی ممالک کے لیے بھی یہ حقیقت واضح رہنا چاہیے کہ ایران میں عدمِ استحکام، صرف ایران کے لیے ہی نہیں خود ان تمام ممالک کے لیے بھی مصائب و انتشار کا سبب بنے گا۔ ایرانی انتشار امریکا و اسرائیل کے علاوہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔