جولائی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جولائی ۲۰۰۹ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

عتیق الرحمٰن صدیقی ، ہری پور

مالاکنڈ ڈویژن اور بلوچستان کے بارے میں محترم پروفیسر خورشیداحمد نے ’اشارات‘ (جون ۲۰۰۹ء) میں جس دل سوزی اور دردمندی سے تجزیہ پیش کیا ہے وہ واقعتا بار بار پڑھنے، سوچ بچار کرنے اور صحت مند و مثبت راہِ عمل اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ انھوں نے نہایت محتاط انداز میں مؤثر دلائل کی روشنی میں طالبان کے بارے میں پائی جانے والی کنفیوژن کو بھی دُور کردیا ہے۔ اگر ایک طرف طالبان کے مستحسن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے تو دوسری طرف ان پہلوئوں پر بھی نقد کیا ہے جو نہ صرف ناپسندیدہ تھے بلکہ ان کی کوتاہ فکری اور غیرحکیمانہ سوچ کے غماز تھے۔ حکمرانوں نے عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس آپریشن کا آغاز کیا ہے اور لاکھوں لوگ اپنے ہی وطن میں بے وطن ہوکر جس تعذیب کا شکار ہوئے ہیں وہ یقینا فہم وفراست کے منافی طرزِعمل ہے۔ اس کے نتائج نہایت بھیانک ہوسکتے ہیں۔ حکمت و تدبر کا تقاضا یہی ہے کہ آپریشن کو روک کر مذاکرات کے تمام ممکنہ راستے اپنائے جائیں۔ اللہ کرے کہ حکمران ان تجاویز کو سامنے رکھ کر اپنا لائحہ عمل مرتب کریں۔

عبدالرحمٰن ،لاہور

’اسلامی نشاتِ ثانیہ کے امکانات‘ (جون ۲۰۰۹ء) کے تحت سید مودودیؒ نے ایک اہم اور جامع موضوع کو مختصراً اور عام فہم انداز میں واضح کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی و غلبہ دعوتِ اسلامی ہی سے وابستہ ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دعوت کو سمجھنے کے بعد کتنے لوگ اپنی جان، مال، وقت اور محنتیں اور قابلیتیں اس راہ میں صرف کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، اور لوگوں میں اسلامی شعور بیدار کرتے ہیں۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ہماری سرگرمیوں میں اس بات کو کس حد تک ترجیح حاصل ہے۔

احمد علی محمودی ،حاصل پور

’امریکا زوال کی جانب‘ (جون ۲۰۰۹ء) ایک خوب صورت اور حوصلہ افزا تحریر ہے۔ اقوام کے عروج و زوال کے حوالے سے قدرت کا اپنا ایک ضابطہ و قانون ہے جس کی وجہ سے دنیا میں اقوام عروج پاتی ہیں اور زوال کا شکار بھی ہوتی ہیں۔ امریکا بنائو کے بجاے بگاڑ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسے برطانیہ اور متحدہ روس کی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی عالمی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اگر امریکا نے اپنی روش تبدیل نہ کی اور مجموعی طور پر فساد اور بگاڑ ہی کا باعث بنتا رہا اور اس کی پہچان ظالم بھیڑیے ہی کی رہی تو زوال اس کا مقدر ہے۔ دنیا میں اُبھرتی ہوئی نئی قیادتیں اس تبدیلی کی واضح علامت ہیں۔

نسیم احمد ، اسلام آباد

’یہ تعلیمی پالیسی!‘ (جون ۲۰۰۹ء) بروقت اور بھرپور تجزیہ ہے۔ پاکستان کی ہرحکومت نے تعلیم کے ساتھ ظلم کیا۔ ہر نئے وزیرتعلیم نے کانفرنسیں بلائیں، منصوبے بنائے لیکن معاملہ حسن نیت اور خلوصِ عمل کا تھا۔ قوم سے اقرا سرچارج تعلیم کے نام پر وصول کیا گیا، خرچ کہیں اور ہوا۔’نئی روشنی‘ منصوبہ طمطراق سے شروع ہوا ، بے نظیر حکومت نے بیک جنبش قلم بساط لپیٹ دی، اس کے اثاثے کہاں گئے؟ فی الحقیقت ملک کی ہر پالیسی دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲ اور ۲-الف کے تحت ہونی چاہیے۔ اس پالیسی میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ انگریزی تعلیم پر زور ہے۔ برعظیم کے ۱۹ویں صدی کے مسلمان مفکرین، ادبا، مصنفین اور شعرا میں سے کسی نے بھی انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ پاکستان کے انگلش میڈیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے کتنے مفکر اور بلندپایہ مصنّفین پیدا ہوئے! جماعت اسلامی اگر ایک متبادل پالیسی سامنے لائے تو مناسب ہوگا۔

اسماء بتول ، جھنگ

’نیوزی لینڈ کے مسلمان‘ (جون ۲۰۰۶ء) دعوتی نقطۂ نظر سے اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اہم معلومات پر مبنی ہے۔ مسلمانوں نے کس طرح سے اپنے آپ کو منظم کیا، غیرمسلموں میں دعوت کو پیش کیا، نیز محدود تعداد میں ہونے کے باوجود جس طرح سے مختلف دائروں میں منظم جدوجہد کررہے ہیں نہ صرف قابلِ ستایش ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی۔