کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہوسکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہوجائے۔ ایک سفینۂ حیات کو غرق کرنے کے لیے طوفان کی موجیں وہ کام نہیں کرسکتیں جو اس کے خیانت کار ملاّح کرسکتے ہیں۔ کسی قلعے کی دیواروں کو دشمن کے گولے اُس آسانی سے نہیں چھید سکتے جس آسانی سے اس کے فرض ناشناسی سنتری اس کی تباہی کا سامان کرسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایک ملت کے لیے بیرونی خطرے اتنے مہلک نہیں ہوتے، جتنا کہ نااہل قیادت کا داخلی خطرہ مہلک ہوتا ہے۔ پھر اگر حالات معمولی نہ ہوں بلکہ ایک قوم کی تعمیر کا آغاز ہو رہا ہو اور یہ آغاز بھی نہایت ناسازگار احوال کے درمیان ہو رہا ہو، ایسے حالات میں کسی غیرصالح قیادت کو ایک منٹ کے لیے بھی گوارا کرنا خلافِ مصلحت ہے۔ ایک غلط قیادت کی بقا کے لیے کسی طرح کی کوشش کرنا ملک و قوم کے ساتھ سب سے بڑی غداری، اور غلط قیادت سے نجات دلانے کی فکر کرنا اس کی سب سے بڑی خیرخواہی ہے۔
لیکن اگر اس خیرخواہی کے راستے ہی بند کردیے جائیں اور اصلاحی اور تعمیری قوتوں کے لیے کام کرنے کا ہر دروازہ مقفل ہوجائے تو یہ ایک سخت خطرناک فالِ بد ہے___ اور قاعدے کی بات ہے کہ جب کسی حکومت، کسی اقتدار اور کسی قیادت کے لیے کوئی عقلی و اخلاقی وجہِ جواز باقی نہیں رہتا تو وہ اصلاح و تغیر کے راستوں کو لازماً بند کردیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی اصلاح و تغیر کی ہرسعی کو کچلنے کے لیے پورے انتظامات کرلیے گئے ہیں۔
ان انتظامات میں سے ایک یہ ہے کہ عوام ملک کو زندگی کی روزمرہ کی مشکلات میں بُری طرح اُلجھا دیا گیا ہے، نیز بہت ہی حکیمانہ طریقے سے اُن میں بددلی، مایوسی، جمود اور ذہنی انتشار کو پھیلا دیا گیا ہے، تاکہ راے عام اپنے اکابر کا احتساب کرنے اور ان کی غلطیوں پر حرف گیری کرنے اور ان سے ان کی بے راہ روی پر بازپرس کے قابل نہ رہے۔ (’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۲، عدد۲، شعبان ۱۳۶۸، جولائی ۱۹۴۹ء، ص ۴-۵)