اس دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی رفیقۂ حیات نے اپنی زندگی کا آغاز دعا سے ہی کیا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اعراف ۷:۲۳) دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگارہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔
تمام انبیاے کرام نے دعا کے سلسلے کو جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا آغاز بھی دعا سے کیا۔ دعا کا مقصد روحانی اور قلبی مسرتوں کا حصول اور اس تڑپ کی تسکین ہے جو انسانی ضمیر میں بدرجۂ غایت پوشیدہ ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں کوئی ہماری پکار کو سنے، کوئی ہماری دعائوں کو قبول کرے۔ اللہ وہ ہستی ہے جو بندوں کے مانگنے پر خوش ہوتی ہے۔ دعا کو سننے کا اختیار صرف اور صرف رب کریم کے پاس ہے۔ وہ پکار کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o (قٓ ۵۰:۱۶) ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ o (المؤمن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے: ’’مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپؐنے فرمایا: ــ’’دعاعبادت کا مغز ہے‘‘ (ترمذی)۔ بندہ جب اپنے رب کو پکارتا ہے تو اس کی پکار ضرور سنی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دعا کب قبول ہوتی ہے۔ بعض اوقات انسان جو چیز طلب کر رہا ہوتا ہے اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی اور انسان سمجھتا ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ بعض دعائوں کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس محفوظ کر لیتا ہے، اور انسان کے نامۂ اعمال میں ان کے بدلے اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔
دعا سے مراد اپنے ظاہر و باطن کو رضاے الٰہی کے تابع کرنا اور رضاے الٰہی سے متصادم نفسانی خواہشات کو ترک کرنا ہے کیونکہ نفسِ انسانی ساری کائنات پاکر بھی ھل من مزید کا نعرہ لگاتا ہے۔ زندگی کا بہترین مقصد طمانیت ِقلب ہے۔ بارگاہ رب العزت میں جھکنے سے انسانی سیرت منقلب ہوتی ہے۔ دولت و ثروت کی ہوس باقی نہیں رہتی۔ انسان کثافت سے نظافت، پستی سے بلندی ، ظلمت سے نور کی طرف آتا ہے۔ زندگی میں فراغت و آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ جب ہم کسی مصیبت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ رب العزت ضرور عنایت کرے گااور یہ خیال بہت طمانیت آفرین ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد ۱۳:۲۸) ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبیؐ کی دعوت کو) مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیا خوب دعا سکھائی ہے:
رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ o (البقرہ ۲:۲۰۱) پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو۔
اس آیت میں قرآن پاک تین طرح کے لوگوں سے مخاطب ہے۔ بعض لوگ صرف اپنی دنیاوی حاجات کی دعا مانگتے ہیں، انھیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو صرف آخرت کی دعا مانگتے ہیں انھیں دنیاوی زندگی کی کوئی پروا نہیں ہوتی، اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مطلوب تیسری قسم کے لوگ ہیں جو آخرت کے ساتھ دنیا کی بھی فکر کرتے ہیں کیونکہ دنیا میں رہ کر ہی آخرت کی تیاری کرنی ہے۔ صرف دنیاوی زندگی یا رہبانیت سے منع فرمایا گیا ہے۔
قرآن پاک میں دعا کا جو تصور ملتا ہے، سر سید احمد خاں نے اس تصور کو نفسیاتی نوعیت کا حامل قرار دیا اور ان کے خیال میں دعا اور ندا دو مترادف الفاظ ہیں جن کے لغوی معنی پکارنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو پکارنے سے انسان اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، اور اس طرح انسان اللہ رب العزت کو حاضر و ناظر جاننے اور اس کے برحق ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ جو بھی انسان اللہ رب العزت کو پکارتا ہے اللہ رب العزت اس کی پکار کو قبول فرماتا ہے۔
فرائیڈ اور اس کے مکتب فکر کے دوسرے مفکرین ۱۹ویں صدی کے ’’افادیت کے سائنسی نظریے‘‘ سے متاثر تھے۔ فرائیڈ نے دعا کے تصور کو نفسیاتی جبریت کی شکل میں پیش کیا، جب کہ سرسید احمد نے اسے مذہبی فطرت پسندی کی شکل میں پیش کیا۔ دونوں میں یہ بات مشترک تھی کہ انھوں نے اپنے اپنے عہد کے مطابق دعا کے تصور کی وضاحت کی۔
دعا کی بدولت ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ اپنے آپ کو بحر بیکراں میں پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حقیقتِ مطلقہ سے ہم کنار ہو کر ہماری شخصیت میں طاقت اور وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ دعا مانگنا فطری تقاضا ہے۔ فطرت کا عمیق مطالعہ بھی دعا ہے۔ (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ ، مترجم: نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، ص ۱۳۷)
علامہ کے خیال میں اجتماعیت مذہب ِاسلام کی روح ہے، لہٰذا اجتماعی دعا انفرادی دعا سے زیادہ تاثیر رکھتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے انسان کی عام قوتِ احساس، جذبات اور ارادے میں بے پناہ حرکت پیدا ہوتی ہے۔ نفسیات ابھی تک دعا کی افادیت اور اہمیت کا راز معلوم نہیں کرسکی (ایضاً)۔ اپنے خطبات تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ میں ولیم جیمز کی ایک عبارت کو خصوصیت کے ساتھ توجہ کا مرکز بناتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ دعا ایک جبلی امر ہے۔ دعا کے ذریعے ذہن حقیقتِ مطلقہ کا مشاہدہ کرتا ہے اور یہ ایک روحانی تجلی ہے۔
اس حقیقت کو مولانا نے ایک قصے میں بیان کیا ہے کہ ایک شخص صبح شام اللہ اللہ کرتا رہتا تھا اور اس کا منتظر رہتا تھا کہ اللہ کی طرف سے لبیک کی آواز آئے گی کہ میں موجود ہوں اور سن رہا ہوں۔ لیکن کوئی ایسی آواز سنائی نہ دی تو شیطان نے اس کے دل میں ڈالا کہ تو کیا صبح شام اللہ اللہ کرتا ہے، اگر وہ سنتا اور قبول کرتا توتجھے جواب دیتا۔ اس بے فائدہ ذکر میں وقت کیوں ضائع کرتا ہے ؟ اس پر حضرت خضر نے اس کے خواب میں آکر پوچھا تم دل شکستہ کیوں ہوگئے ؟اس نے کہا کہ خدا کچھ جواب نہیں دیتا، اس لیے میری دعا کس کام کی ؟ حضرت خضر نے کہا مجھے اللہ نے کہا ہے کہ اس بندے سے کہہ دو کہ تیرا ہمیں یاد کرنا ہی لبیک ہے ، تیری دعا میں یہ نیاز و سوز ہمارا ہی فرستادہ ہے۔
عبادت میں اگرچہ اصل مقصودمعنی ہے مگر کسی حد تک صورت بھی مقصودہے۔ بخلاف دعا کے اس میں صرف معنی ہی معنی مقصود ہے۔ اللہ سے اپنی ضروریات کا اظہار، عاجزی اور نیازمندی کو ظاہر کرتے ہوئے گڑگڑا کر مانگنے کا نام دعا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کیسی دعا ہے۔ نماز کا مقصود تو اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے لیکن اس کی مطلوبہ ہیئت مثلاً وضو اور قبلہ کی طرف منہ وغیرہ بھی ضروری ہے۔ صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونے کو نماز نہیں کہتے۔ لیکن دعا میں نہ کسی وقت کی شرط ، نہ عربی زبان کی شرط ، نہ خاص جہت کی شرط ، نہ کوئی مقدار معین، نہ وضو وغیرہ کی کوئی قید ہے۔ اس میں صرف عاجزی، نیازمندی اور رب العزت کے سامنے اپنی احتیاج کا اظہار کرنا ہے۔ دعا میں صورت نہیں بلکہ معنی مقصود ہیں۔ دعا کے لیے حضورِ قلب، تواضع، عاجزی اور خود سپردگی ضروری ہے کیونکہ اللہ رب العزت تو قلب کی حالت کو دیکھتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:’’اللہ تعالیٰ تمھاری صورتوں کو نہیں دیکھتے بلکہ تمھارے قلوب کو دیکھتے ہیں‘‘۔ یہاں قلب سے مراد یہ گوشت کا ٹکڑا نہیں جو پسلیوں کے اندر پایا جاتا ہے بلکہ اس سے مراد ایک لطیفۂ غیبی ہے۔ جیساکہ بعض اوقات ہم کہتے ہیں کہ اس وقت میرا دل بازار میں ہے حالانکہ اس وقت ہم بازار میں نہیں ہوتے۔یہاں علمی حقائق پر دلیل دینا مقصود نہیں بلکہ ذہن کو اس حقیقت سے قریب کرنا مطلوب ہے۔ دعا میں خشوع خضوع کا ہونا ضروری ہے۔
عبادات کی نسبت دعا میں ایک اضافی خصوصیت پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ اگر عبادات دنیا کے لیے ہوں تو وہ عبادات نہیں رہتیں مگر دعا ایک ایسی چیز ہے اگر یہ دنیا کے لیے بھی ہو تو عبادت ہے اور ثواب ملتا ہے، جب کہ عبادات میں اگر دنیاوی حاجت مطلوب ہو تو ثواب نہیں ملتا۔
امام غزالی ؒلکھتے ہیں کہ اگر طبیب نے مریض کو بتایا کہ آج دن کا کھانا نہ کھائو، اگر کھایا تو نقصان ہوگا۔ اور وہ اس غرض سے روزہ رکھ لے یا کوئی شخص دورانِ سفر اس غرض سے مسجد کے اندر اعتکاف کر لے کہ ہوٹل وغیرہ کا کرایہ بچ جائے گا تو ایسی صورت میں اس کو ثواب نہیں ملے گا مگر دعا کے ضمن میں ایسی بات نہیں ہے۔ کتنی ہی دنیاوی حاجتیں مانگی جائیں ثواب پھر بھی ملے گا کیونکہ دعا سراسر عاجزی، انکساری اور نیازمندی ہے۔ نیازمندی بذات خود ایک محبوب عمل ہے کیونکہ جہاں نیازمندی ہوگی وہاں تکبر نہیں رہے گا۔ تکبر اور بڑائی کا اظہار اللہ کے غضب کا باعث بنتے ہیں۔ یہ دونوں اللہ رب العزت کی خاص صفات ہیں۔ کوئی دوسرا ان کا دعوے دار نہیں ہوسکتا۔
حضرت بایزید بسطامی ؒسے منقول ہے کہ ایک دفعہ انھوںنے اللہ رب العزت سے عرض کیا کہ مجھے اپنی طرف آنے کا آسان تر طریق بتلا دیجیے۔ جواب میں ارشاد ہوا:’’اپنی خودی کو چھوڑ اور آجا ‘‘۔حافظ شیرازی ؒ نے اس مضمون کو کیا خوب بیان کیاہے، فرماتے ہیں :
میان عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست
توخود حجاب خودی حافظ ازمیان برخیز
(اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ اے حافظ! تو اپنے حجاب خودی کو درمیان سے ہٹا دے۔)
تو دروگم شود وصال ایں است و بس
گم شدن گم کن کمال ایں است و بس
(اس میں تو فنا ہو جا، یہی وصال کافی ہے۔ تو اپنا گم ہونا بھول جا، یہی انتہائی کمال ہے۔)
حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے رب پر بھروسا تھا کہ باوجود دروازہ بند ہونے کے دوڑے اور کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے دروازے بھی کھول دیے۔گویا اگر صدق دل سے طلب اور کوشش ہو تو مقصود ملنے کی یقینی امید ہے۔
دعا دراصل انسان کے پاس اپنے سے بالا و برتر ہستی کو مخاطب کرنے کا ذریعہ ہے جس میں اس ہستی یا ذات کی تعریف کی جاتی ہے اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ دعا دنیا کی ہر تہذیب کا حصہ ہے۔ اس کا تعلق کسی مخصوص مذہبی روایت سے نہیں ہے۔ اگرچہ خدا اور بندے کے درمیان دنیا میں تعلق کے فہم کے حوالے سے دعا کی بنیادیں مختلف ہیں۔
دعا کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ یہ اللہ رب العزت اور بندے کے درمیان قربت کا ذریعہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر یقین انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ دعا انفرادی بھی ہوسکتی اور اجتماعی بھی۔ اپنی مختلف صورتوں میں دعا عبادت کا مغزہے ، مثلاًیہودی مذہب میں دعا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں گرجے دعا کے مرکز تھے۔
اپنے محدود معنوں میں مانگنے کا عمل گویا اپنی قسمت کے بارے میں روحانی قرب کا فہم حاصل کرنا ہے،جب کہ وسیع معنوں میں دعا حقیقت مطلقہ سے قرب کے یقین کا نام ہے۔ اپنے آپ کو پورے اخلاص اور سپردگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا بھی دعا ہے۔ دعا عقیدے کی روح ہے کیونکہ دعا کے بغیر عقیدہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ دعا ہی ہے جو انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق پیدا کرتی ہے۔ ہماری دعا کے نتیجے میں اللہ رب العزت بھی ہم سے مخاطب ہوتا ہے، یعنی دعا کا جواب دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے دعا سننے کا مفہوم بھی قرب الٰہی کا حصول ہی ہے۔ جس طرح بچہ اپنے والدین سے کسی شے کی فرمایش کرتا ہے اور والدین اس کی فرمایش کو پورا کردیتے ہیں، دراصل اس فرمایش کی تکمیل کی پشت پر والدین کا وہ پیار ہوتا ہے جو کہ ان کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دعا سننے کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور ان کی دعائوں کو قبول کرتا ہے۔
انسانی جسم کا نظام بھی بڑا عجیب ہے یہ مادی کے ساتھ ساتھ روحانی بھی ہے۔ انسان د ل و دماغ کے علاوہ شعور بھی رکھتا ہے۔ شعور کی بھی تین اقسام ہیں جن میں شعور، تحت الشعور اور لاشعور شامل ہیں۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک ایک نقطۂ نظریہ ہے کہ ہم جتنے بھی اعمال کرتے ہیں وہ شعور سے لا شعور میں چلے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوند ی ہے:
وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا o اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۳-۱۴) ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میںلٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیںگے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا___ پڑھ نامۂ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔
اللہ پاک نے انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرنے کا نہایت معتبر انتظام فرما رکھا ہے جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے :
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ ۵۰:۱۸)کوئی بات اس کی زبان سے نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نامۂ اعمال پر اعتراض کردے کہ فلاں فلاں الزامات غلط ہیں۔ فوراً اس کی بے شمار تصاویر اس گناہ میں مصروف اس طرح دکھا دی جائیں گی جس طرح سینما کے پردے پر فلم چلتی ہے۔ ہمارا ہر عمل ، ہر لفظ اور ہر ارادہ محفوظ ہے تو پھر کوئی مجرم کیسے انکار کر سکتا ہے۔ موجودہ سائنسی ترقی نے بڑی بڑی کتب حتی کہ لائبریری کو ایک چھوٹی سی ڈی (CD)میں محفوظ کر لیا ہے۔ اسی طرح ہمارے اعمال اور الفاظ کی فلم خدائی انتظام کے تحت بن رہی ہے جو قیامت کے دن ہمارے ہاتھوں میں دے دی جائے گی جس کا نام ہے نامۂ اعما ل۔
الغرض دعا کا اصل مفہوم بندے اور اللہ رب العزت کے درمیان تعلق ہے اور یہ تعلق طبیعیاتی سے زیادہ مابعد الطبیعیاتی ہے۔ دعا سے انسان کی روحانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں وہ ایک نئی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آخر میں اتنا عرض کر دوں کہ ہم دُعا پڑھتے ہیں، دُعا مانگتے نہیں۔ اگر ہم صدقِ دل سے دُعا مانگیں تو ہمیں اپنی دعائوں کی قبولیت کا یقین حاصل ہوسکتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوند ی ہے :
وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَیَزِیْدُھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَالْکٰفِرُوْنَ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ o (الشورٰی ۴۲:۲۶) اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کیے اللہ ان کی دعا قبول فرماتا اور ان کو اپنے فضل سے بڑھاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
ایک ماہر نفسیات آر ڈبلیو ٹرائن نے بڑی خوب صورت بات لکھی ہے: ’’اللہ بے کراں سکوں کا منبع ہے ، جب ہم اس سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ، تو ہم پر سکون برسنے لگتا ہے ، کیونکہ سکون و ہم آہنگی ایک ہی چیز ہیں۔ کروڑوں انسان گرفتارِ مصائب ہیں۔ ان کے دل و دماغ اور جسم بے چین ہیں۔ وہ لمبے لمبے سفر کرتے ، کاریں خریدتے ، محل بناتے اور دولت کے انبار لگاتے ہیں ، لیکن بے چین رہتے ہیں۔ کاش! انھیں معلوم ہوتا کہ سکون باہر سے نہیں آتا بلکہ دل ہی میں جنم لیتا ہے۔ اگر ہم روح کی پکار کو سن کر اپنی زندگی اس کے مطابق ڈھال لیں تو ہمارا دل فردوسی مسرت سے معمور ہو جائے۔ اگر ہم عدل و صداقت کو ، جن کے بل پر یہ کائنات قائم ہے، اپنا لیں تو ہم ایک ایسا عمیق اطمینان حاصل کر لیں گے، جسے کوئی فکر، کوئی پریشانی برہم نہیں کرسکے گی۔ اللہ کائنات کا پاور ہائوس (منبع توانائی) ہے ، جو شخص اپنا تعلق اس سے جوڑ لیتا ہے وہ ہر ماخذ سے توانائی حاصل کرتا اور پھر اسے دوسرے تک منتقل کرنے کا واسطہ بنتا ہے‘‘۔ لہٰذا ہمیں ہمہ وقت اپنے رب العزت سے دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ یہ تعلق قائم رہے۔
دعا جو بذات خود عبادت ہے اس سے جو لہریں دعا کرنے والے انسان کے جسم سے خارج ہوتی ہیںیہ انسان کے گرد ایک حصار بنا لیتی ہیں جو اس کو شیطانی وسوسوںسے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے فوراً انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے، یہ ایک مابعد الطبیعیاتی عمل ہے۔اس کا ادراک ہرانسان کو نہیں ہوتا لیکن ہر انسان جو دعا مانگتا ہے اس کے ساتھ یہ عمل ضرور ہوتا ہے۔اس طرح انسان ہر طرح کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔جب انسان شر سے محفوظ ہو تو یہی قرب الٰہی ہے۔گویا دعا ایک طرف تو انسان کی حفاظت جب کہ دوسری طرف قرب الٰہی کا بڑا ذریعہ ہے۔یہ تقویٰ، اخلاص اور توکل کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔
دعا یا عبادت مذہب کی عملی صورت ہے۔ جب ایک انسان اپنے خالق و مالک کے حضور، پوری عاجزی و درماندگی کے احساس کے ساتھ نجات طلب کرتا ہے تو اس کی یہ صدادعا کہلاتی ہے۔یہ چند الفاظ کا اعادہ نہیں بلکہ رب کائنات کی طرف روح کا مسلسل سفر ہے۔انسان میں تین طرح کے نفس ہیں: ایک نفس امارہ ہے جو ہمہ تن شر کی طرف راغب رہتا ہے۔ دوسرا نفس لوامہ جو گناہ پر ملامت کرتا ہے۔دعا نفس امارہ کو دبا دیتی ہے، اس طرح نفس لوامہ میں ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ نفس مطمئنہ کہلانے لگتا ہے اور اس کا سفر سیدھا جنت کی طرف ہو جاتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر ۸۹: ۲۷-۳۰) اے مطمئن نفس! تو اپنے رب کے پاس اس حال میں واپس جا کہ وہ تم سے خوش ہو اور تم اس سے خوش۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہوکر میری بہشت میں داخل ہو جا۔
مصیبتیں ہر انسان پر آتی ہیں۔ اللہ رب العزت کو ماننے والے اللہ کے حضور جھک کر اس سوز و گداز سے دعائیں کرتے ہیں جس سے رحمتیں بے تاب ہوکر اُس کی طرف لپکتی ہیں۔ دعا میں عاجزی و درماندگی ہوتی ہے جس پر رحمت ِ حق جوش میں آتی ہے اور گنہگاروں پر مائل بہ کرم ہوجاتی ہے! آخر میں رب العزت سے یہی دعا ہے کہ: ’’ اے میرے رب تو ہی میری ڈھال، تو ہی میری چٹان اور میرا حصار، تو ہی میری زندگی، میرا حال اور مستقبل ہے۔ آگے بڑھ کر مجھے اپنی پناہ میں لے لے جیسے بہار ایک خزاں رسیدہ چمن کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے‘‘۔ آمین!