ڈاکٹر خواجہ محمد سعید


اس دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی رفیقۂ حیات نے اپنی زندگی کا آغاز دعا سے ہی کیا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اعراف ۷:۲۳) دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگارہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔

تمام انبیاے کرام نے دعا کے سلسلے کو جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا آغاز بھی دعا سے کیا۔ دعا کا مقصد روحانی اور قلبی مسرتوں کا حصول اور اس تڑپ کی تسکین ہے جو انسانی ضمیر میں بدرجۂ غایت پوشیدہ ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں کوئی ہماری پکار کو سنے، کوئی ہماری دعائوں کو قبول کرے۔ اللہ وہ ہستی ہے جو بندوں کے مانگنے پر خوش ہوتی ہے۔ دعا کو سننے کا اختیار صرف اور صرف رب کریم کے پاس ہے۔ وہ پکار کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o (قٓ ۵۰:۱۶) ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ o (المؤمن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے: ’’مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے  منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپؐنے فرمایا: ــ’’دعاعبادت کا مغز ہے‘‘ (ترمذی)۔ بندہ جب اپنے رب کو پکارتا ہے تو اس کی پکار ضرور سنی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دعا کب قبول ہوتی ہے۔ بعض اوقات انسان جو چیز طلب کر رہا ہوتا ہے اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی اور انسان سمجھتا ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ بعض دعائوں کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس محفوظ کر لیتا ہے، اور انسان کے نامۂ اعمال میں ان کے بدلے اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔

دعا سے مراد اپنے ظاہر و باطن کو رضاے الٰہی کے تابع کرنا اور رضاے الٰہی سے متصادم نفسانی خواہشات کو ترک کرنا ہے کیونکہ نفسِ انسانی ساری کائنات پاکر بھی ھل من مزید کا نعرہ لگاتا ہے۔ زندگی کا بہترین مقصد طمانیت ِقلب ہے۔ بارگاہ رب العزت میں جھکنے سے انسانی سیرت منقلب ہوتی ہے۔ دولت و ثروت کی ہوس باقی نہیں رہتی۔ انسان کثافت سے نظافت،  پستی سے بلندی ، ظلمت سے نور کی طرف آتا ہے۔ زندگی میں فراغت و آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ جب ہم کسی مصیبت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ رب العزت ضرور عنایت کرے گااور یہ خیال بہت طمانیت آفرین ہے۔ قرآن پاک میں ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد ۱۳:۲۸) ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبیؐ کی دعوت کو) مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیا خوب دعا سکھائی ہے:

رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ o (البقرہ ۲:۲۰۱) پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو۔

اس آیت میں قرآن پاک تین طرح کے لوگوں سے مخاطب ہے۔ بعض لوگ صرف اپنی دنیاوی حاجات کی دعا مانگتے ہیں، انھیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو صرف آخرت کی دعا مانگتے ہیں انھیں دنیاوی زندگی کی کوئی پروا نہیں ہوتی، اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مطلوب تیسری قسم کے لوگ ہیں جو آخرت کے ساتھ دنیا کی بھی فکر کرتے ہیں کیونکہ دنیا میں رہ کر ہی آخرت کی تیاری کرنی ہے۔ صرف دنیاوی زندگی یا رہبانیت سے منع فرمایا گیا ہے۔

دعا کی فلسفیانہ اھمیت

  • مسلم مفکرین میں سرسید احمد خاں نے اپنے تصور مذہب میں دعا کے موضوع پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ وہ دعا کو عبادت ہی سمجھتے تھے۔ اپنے اس موقف کی حمایت میں انھوں نے یہ حدیث نقل کی ہے :’’دعا عبادت ہے‘‘ (ترمذی)۔ ان کے خیال میں دعا اور عبادت کی قبولیت کے ایک ہی معنی ہیں۔ جس طرح عبادت سے انسان کو روحانی اور اخلاقی فائدے پہنچتے ہیں، اسی طرح دعا سے نفس انسانی پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دکھ اور مصیبت میں دعا انسان کو تسکین دیتی ہے اور خدا سے تعلق پیدا کرنے اور اسی کی طرف رجوع کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ تمام انبیاے کرام نے اللہ کے حضور دعائیں مانگیں۔

قرآن پاک میں دعا کا جو تصور ملتا ہے، سر سید احمد خاں نے اس تصور کو نفسیاتی نوعیت کا حامل قرار دیا اور ان کے خیال میں دعا اور ندا دو مترادف الفاظ ہیں جن کے لغوی معنی پکارنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو پکارنے سے انسان اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، اور اس طرح انسان اللہ رب العزت کو حاضر و ناظر جاننے اور اس کے برحق ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ جو بھی انسان اللہ رب العزت کو پکارتا ہے اللہ رب العزت اس کی پکار کو قبول فرماتا ہے۔

  •  فرائیڈ کے نزدیک بھی دعائیں نفسیاتی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ جب انسان کو کسی ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے جس سے وہ تمام طریقوں سے نبٹنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو دعا کا تصور اس کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ اس نے اس تصور کو بچوں کے تجربات اور کردار سے تشبیہہ دی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ جب بچہ اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتا ہے تو اپنے والدین سے تحفظ کی توقع کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اس کے والدین اس سے زیادہ عقل اور قوت رکھتے ہیں۔ چیخ و پکار کے ذریعے یا والدین کی بات مان کر یا ان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی ہمدردی اور محبت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح ایک با شعور انسان بھی اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہوئے اس عمل کو دہراتا ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک انسانی قلب کی تسکین کے لیے اس سے بہتر کوئی عقیدہ نہیں۔ فرائیڈ کے ہم عصر ہنری لیوبا نے کہا کہ مذہب اپنے تصور کی معروضی صداقت سے وجود پذیر نہیں بلکہ اس کی حیاتیاتی اہمیت ہے۔ (A Psychological Study of Religion، ہنری لیوبا، ص ۵۳)

فرائیڈ اور اس کے مکتب فکر کے دوسرے مفکرین ۱۹ویں صدی کے ’’افادیت کے سائنسی نظریے‘‘ سے متاثر تھے۔ فرائیڈ نے دعا کے تصور کو نفسیاتی جبریت کی شکل میں پیش کیا، جب کہ سرسید احمد نے اسے مذہبی فطرت پسندی کی شکل میں پیش کیا۔ دونوں میں یہ بات مشترک تھی کہ انھوں نے اپنے اپنے عہد کے مطابق دعا کے تصور کی وضاحت کی۔

  •  علامہ اقبال دعا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

دعا کی بدولت ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ اپنے آپ کو بحر بیکراں میں پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حقیقتِ مطلقہ سے ہم کنار ہو کر ہماری شخصیت میں طاقت اور وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ دعا مانگنا فطری تقاضا ہے۔ فطرت کا عمیق مطالعہ بھی دعا ہے۔ (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ ، مترجم: نذیر نیازی،  بزم اقبال، لاہور، ص ۱۳۷)

علامہ کے خیال میں اجتماعیت مذہب ِاسلام کی روح ہے، لہٰذا اجتماعی دعا انفرادی دعا سے زیادہ تاثیر رکھتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے انسان کی عام قوتِ احساس، جذبات اور ارادے میں بے پناہ حرکت پیدا ہوتی ہے۔ نفسیات ابھی تک دعا کی افادیت اور اہمیت کا راز معلوم نہیں کرسکی (ایضاً)۔ اپنے خطبات تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ میں ولیم جیمز کی ایک عبارت کو خصوصیت کے ساتھ توجہ کا مرکز بناتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ دعا ایک جبلی امر ہے۔ دعا کے ذریعے ذہن حقیقتِ مطلقہ کا مشاہدہ کرتا ہے اور یہ ایک روحانی تجلی ہے۔

  •  مولانا روم کے نزدیک جب کوئی شخص صدق دل اور عجزونیاز سے دعا کرتا ہے تو یہ توفیقِ دعا اور رقتِ قلب خود خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ایسی دعا کے متعلق علت و معلول کا یہ قانون نہیں کہ دعا ہوگی تو پھر خدا سنے گا بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ خدا نے اس کا میلانِ قلب دیکھا تو اس کو دعا کی توفیق ہوئی۔ یہاں سبب اور اثر کا قانون معکوس ہے، یعنی اثر پہلے ہے اور دعا بعد میں ، یا یوں کہیے کہ بیک وقت سبب اور اثر ہم کنار ہیں اور ان میں کوئی زمانی تقدم و تاخر نہیں۔

اس حقیقت کو مولانا نے ایک قصے میں بیان کیا ہے کہ ایک شخص صبح شام اللہ اللہ کرتا رہتا تھا اور اس کا منتظر رہتا تھا کہ اللہ کی طرف سے لبیک کی آواز آئے گی کہ میں موجود ہوں اور سن رہا ہوں۔ لیکن کوئی ایسی آواز سنائی نہ دی تو شیطان نے اس کے دل میں ڈالا کہ تو کیا صبح شام اللہ اللہ کرتا ہے، اگر وہ سنتا اور قبول کرتا توتجھے جواب دیتا۔ اس بے فائدہ ذکر میں وقت کیوں ضائع کرتا ہے ؟ اس پر حضرت خضر نے اس کے خواب میں آکر پوچھا تم دل شکستہ کیوں ہوگئے ؟اس نے کہا کہ خدا کچھ جواب نہیں دیتا، اس لیے میری دعا کس کام کی ؟ حضرت خضر نے کہا مجھے اللہ نے کہا ہے کہ اس بندے سے کہہ دو کہ تیرا ہمیں یاد کرنا ہی لبیک ہے ، تیری دعا میں یہ نیاز و سوز ہمارا ہی فرستادہ ہے۔

صورت اور معنویت

عبادت میں اگرچہ اصل مقصودمعنی ہے مگر کسی حد تک صورت بھی مقصودہے۔ بخلاف دعا کے اس میں صرف معنی ہی معنی مقصود ہے۔ اللہ سے اپنی ضروریات کا اظہار، عاجزی اور نیازمندی کو ظاہر کرتے ہوئے گڑگڑا کر مانگنے کا نام دعا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کیسی دعا ہے۔ نماز کا مقصود تو اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے لیکن اس کی مطلوبہ ہیئت مثلاً وضو اور قبلہ کی طرف منہ وغیرہ بھی ضروری ہے۔ صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونے کو نماز نہیں کہتے۔ لیکن دعا میں نہ کسی وقت کی شرط ،  نہ عربی زبان کی شرط ، نہ خاص جہت کی شرط ، نہ کوئی مقدار معین، نہ وضو وغیرہ کی کوئی قید ہے۔ اس میں صرف عاجزی، نیازمندی اور رب العزت کے سامنے اپنی احتیاج کا اظہار کرنا ہے۔ دعا میں صورت نہیں بلکہ معنی مقصود ہیں۔ دعا کے لیے حضورِ قلب، تواضع، عاجزی اور خود سپردگی ضروری ہے کیونکہ اللہ رب العزت تو قلب کی حالت کو دیکھتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:’’اللہ تعالیٰ تمھاری صورتوں کو نہیں دیکھتے بلکہ تمھارے قلوب کو دیکھتے ہیں‘‘۔ یہاں قلب سے مراد یہ گوشت کا ٹکڑا نہیں جو پسلیوں کے اندر پایا جاتا ہے بلکہ اس سے مراد ایک لطیفۂ غیبی ہے۔ جیساکہ بعض اوقات ہم کہتے ہیں کہ اس وقت میرا دل بازار میں ہے حالانکہ اس وقت ہم بازار میں نہیں ہوتے۔یہاں علمی حقائق پر دلیل دینا مقصود نہیں بلکہ ذہن کو اس حقیقت سے قریب کرنا مطلوب ہے۔ دعا میں خشوع خضوع کا ہونا ضروری ہے۔

عبادات کی نسبت دعا میں ایک اضافی خصوصیت پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ اگر عبادات دنیا کے لیے ہوں تو وہ عبادات نہیں رہتیں مگر دعا ایک ایسی چیز ہے اگر یہ دنیا کے لیے بھی ہو تو عبادت ہے اور ثواب ملتا ہے، جب کہ عبادات میں اگر دنیاوی حاجت مطلوب ہو تو ثواب نہیں ملتا۔

امام غزالی ؒلکھتے ہیں کہ اگر طبیب نے مریض کو بتایا کہ آج دن کا کھانا نہ کھائو، اگر کھایا تو نقصان ہوگا۔ اور وہ اس غرض سے روزہ رکھ لے یا کوئی شخص دورانِ سفر اس غرض سے مسجد کے اندر اعتکاف کر لے کہ ہوٹل وغیرہ کا کرایہ بچ جائے گا تو ایسی صورت میں اس کو ثواب نہیں ملے گا مگر دعا کے ضمن میں ایسی بات نہیں ہے۔ کتنی ہی دنیاوی حاجتیں مانگی جائیں ثواب پھر بھی ملے گا کیونکہ دعا سراسر عاجزی، انکساری اور نیازمندی ہے۔ نیازمندی بذات خود ایک محبوب عمل ہے کیونکہ جہاں نیازمندی ہوگی وہاں تکبر نہیں رہے گا۔ تکبر اور بڑائی کا اظہار اللہ کے غضب کا باعث بنتے ہیں۔ یہ دونوں اللہ رب العزت کی خاص صفات ہیں۔ کوئی دوسرا ان کا دعوے دار نہیں ہوسکتا۔

حضرت بایزید بسطامی ؒسے منقول ہے کہ ایک دفعہ انھوںنے اللہ رب العزت سے عرض کیا کہ مجھے اپنی طرف آنے کا آسان تر طریق بتلا دیجیے۔ جواب میں ارشاد ہوا:’’اپنی خودی کو چھوڑ اور آجا ‘‘۔حافظ شیرازی ؒ نے اس مضمون کو کیا خوب بیان کیاہے، فرماتے ہیں :

میان عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست
توخود حجاب خودی حافظ ازمیان برخیز

(اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ اے حافظ! تو اپنے حجاب خودی کو درمیان سے ہٹا دے۔)

تو دروگم شود وصال ایں است و بس
گم شدن گم کن کمال ایں است و بس

(اس میں تو فنا ہو جا، یہی وصال کافی ہے۔ تو اپنا گم ہونا بھول جا، یہی انتہائی کمال ہے۔)

حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے رب پر بھروسا تھا کہ باوجود دروازہ بند ہونے کے دوڑے اور کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے دروازے بھی کھول دیے۔گویا اگر صدق دل سے طلب اور کوشش ہو تو مقصود ملنے کی یقینی امید ہے۔

بنیادی فلسفہ

دعا دراصل انسان کے پاس اپنے سے بالا و برتر ہستی کو مخاطب کرنے کا ذریعہ ہے جس میں اس ہستی یا ذات کی تعریف کی جاتی ہے اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ دعا دنیا کی ہر تہذیب کا حصہ ہے۔ اس کا تعلق کسی مخصوص مذہبی روایت سے نہیں ہے۔ اگرچہ خدا اور بندے کے درمیان دنیا میں تعلق کے فہم کے حوالے سے دعا کی بنیادیں مختلف ہیں۔

دعا کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ یہ اللہ رب العزت اور بندے کے درمیان قربت کا ذریعہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر یقین انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ دعا انفرادی بھی ہوسکتی اور اجتماعی بھی۔ اپنی مختلف صورتوں میں دعا عبادت کا مغزہے ، مثلاًیہودی مذہب میں دعا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں گرجے دعا کے مرکز تھے۔

اپنے محدود معنوں میں مانگنے کا عمل گویا اپنی قسمت کے بارے میں روحانی قرب کا فہم حاصل کرنا ہے،جب کہ وسیع معنوں میں دعا حقیقت مطلقہ سے قرب کے یقین کا نام ہے۔ اپنے آپ کو پورے اخلاص اور سپردگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا بھی دعا ہے۔ دعا عقیدے کی روح ہے کیونکہ دعا کے بغیر عقیدہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ دعا ہی ہے جو انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق پیدا کرتی ہے۔ ہماری دعا کے نتیجے میں اللہ رب العزت بھی ہم سے مخاطب ہوتا ہے، یعنی دعا کا جواب دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے دعا سننے کا مفہوم بھی قرب الٰہی کا حصول ہی ہے۔ جس طرح بچہ اپنے والدین سے کسی شے کی فرمایش کرتا ہے اور والدین اس کی فرمایش کو پورا کردیتے ہیں، دراصل اس فرمایش کی تکمیل کی پشت پر والدین کا وہ پیار ہوتا ہے جو کہ ان کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے  دعا سننے کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور ان کی دعائوں کو قبول کرتا ہے۔

انسانی جسم کا نظام بھی بڑا عجیب ہے یہ مادی کے ساتھ ساتھ روحانی بھی ہے۔ انسان د ل و دماغ کے علاوہ شعور بھی رکھتا ہے۔ شعور کی بھی تین اقسام ہیں جن میں شعور، تحت الشعور اور لاشعور شامل ہیں۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک ایک نقطۂ نظریہ ہے کہ ہم جتنے بھی اعمال کرتے ہیں     وہ شعور سے لا شعور میں چلے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوند ی ہے:

وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا o اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۳-۱۴) ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میںلٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیںگے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا___ پڑھ نامۂ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

اللہ پاک نے انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرنے کا نہایت معتبر انتظام فرما رکھا ہے جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے :

مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ ۵۰:۱۸)کوئی بات اس کی زبان سے نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نامۂ اعمال پر اعتراض کردے کہ فلاں فلاں الزامات غلط ہیں۔ فوراً اس کی بے شمار تصاویر اس گناہ میں مصروف اس طرح دکھا دی جائیں گی جس طرح سینما کے پردے پر فلم چلتی ہے۔ ہمارا ہر عمل ، ہر لفظ اور ہر ارادہ محفوظ ہے تو پھر کوئی مجرم کیسے انکار کر سکتا ہے۔ موجودہ سائنسی ترقی نے بڑی بڑی کتب حتی کہ لائبریری کو ایک چھوٹی سی ڈی (CD)میں محفوظ کر لیا ہے۔ اسی طرح ہمارے اعمال اور الفاظ کی فلم خدائی انتظام کے تحت بن رہی ہے جو قیامت کے دن ہمارے ہاتھوں میں دے دی جائے گی جس کا نام ہے نامۂ اعما ل۔

الغرض دعا کا اصل مفہوم بندے اور اللہ رب العزت کے درمیان تعلق ہے اور یہ تعلق طبیعیاتی سے زیادہ مابعد الطبیعیاتی ہے۔ دعا سے انسان کی روحانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں وہ ایک نئی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آخر میں اتنا عرض کر دوں کہ ہم دُعا پڑھتے ہیں، دُعا مانگتے نہیں۔ اگر ہم صدقِ دل سے دُعا مانگیں تو ہمیں اپنی دعائوں کی قبولیت کا یقین حاصل ہوسکتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوند ی ہے :

وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَیَزِیْدُھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَالْکٰفِرُوْنَ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ o (الشورٰی ۴۲:۲۶) اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کیے اللہ ان کی دعا قبول فرماتا اور ان کو اپنے فضل سے بڑھاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔

ایک ماہر نفسیات آر ڈبلیو ٹرائن نے بڑی خوب صورت بات لکھی ہے: ’’اللہ بے کراں سکوں کا منبع ہے ، جب ہم اس سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ، تو ہم پر سکون برسنے لگتا ہے ، کیونکہ سکون و ہم آہنگی ایک ہی چیز ہیں۔ کروڑوں انسان گرفتارِ مصائب ہیں۔ ان کے دل و دماغ اور جسم بے چین ہیں۔ وہ لمبے لمبے سفر کرتے ، کاریں خریدتے ، محل بناتے اور دولت کے انبار لگاتے ہیں ، لیکن بے چین رہتے ہیں۔ کاش! انھیں معلوم ہوتا کہ سکون باہر سے نہیں آتا بلکہ دل ہی میں جنم لیتا ہے۔ اگر ہم روح کی پکار کو سن کر اپنی زندگی اس کے مطابق ڈھال لیں تو ہمارا دل فردوسی مسرت سے معمور ہو جائے۔ اگر ہم عدل و صداقت کو ، جن کے بل پر یہ کائنات قائم ہے، اپنا لیں تو ہم ایک ایسا عمیق اطمینان حاصل کر لیں گے، جسے کوئی فکر، کوئی پریشانی برہم نہیں کرسکے گی۔ اللہ کائنات کا پاور ہائوس (منبع توانائی) ہے ، جو شخص اپنا تعلق اس سے جوڑ لیتا ہے وہ ہر ماخذ سے توانائی حاصل کرتا اور پھر اسے دوسرے تک منتقل کرنے کا واسطہ بنتا ہے‘‘۔ لہٰذا ہمیں ہمہ وقت اپنے رب العزت سے دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ یہ تعلق قائم رہے۔

دعا جو بذات خود عبادت ہے اس سے جو لہریں دعا کرنے والے انسان کے جسم سے خارج ہوتی ہیںیہ انسان کے گرد ایک حصار بنا لیتی ہیں جو اس کو شیطانی وسوسوںسے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے فوراً انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے، یہ ایک مابعد الطبیعیاتی عمل ہے۔اس کا ادراک ہرانسان کو نہیں ہوتا لیکن ہر انسان جو دعا مانگتا ہے اس کے ساتھ یہ عمل ضرور ہوتا ہے۔اس طرح انسان ہر طرح کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔جب انسان شر سے محفوظ ہو تو یہی قرب الٰہی ہے۔گویا دعا ایک طرف تو انسان کی حفاظت جب کہ دوسری طرف قرب الٰہی کا بڑا ذریعہ ہے۔یہ تقویٰ، اخلاص اور توکل کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔

دعا یا عبادت مذہب کی عملی صورت ہے۔ جب ایک انسان اپنے خالق و مالک کے حضور، پوری عاجزی و درماندگی کے احساس کے ساتھ نجات طلب کرتا ہے تو اس کی یہ صدادعا کہلاتی ہے۔یہ چند الفاظ کا اعادہ نہیں بلکہ رب کائنات کی طرف روح کا مسلسل سفر ہے۔انسان میں تین طرح کے نفس ہیں: ایک نفس امارہ ہے جو ہمہ تن شر کی طرف راغب رہتا ہے۔ دوسرا نفس لوامہ جو گناہ پر ملامت کرتا ہے۔دعا نفس امارہ کو دبا دیتی ہے، اس طرح نفس لوامہ میں ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ نفس مطمئنہ کہلانے لگتا ہے اور اس کا سفر سیدھا جنت کی طرف ہو جاتا ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر ۸۹: ۲۷-۳۰) اے مطمئن نفس! تو اپنے رب کے پاس اس حال میں واپس جا کہ وہ تم سے خوش ہو اور تم اس سے خوش۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہوکر میری بہشت میں داخل ہو جا۔

مصیبتیں ہر انسان پر آتی ہیں۔ اللہ رب العزت کو ماننے والے اللہ کے حضور جھک کر   اس سوز و گداز سے دعائیں کرتے ہیں جس سے رحمتیں بے تاب ہوکر اُس کی طرف لپکتی ہیں۔ دعا میں عاجزی و درماندگی ہوتی ہے جس پر رحمت ِ حق جوش میں آتی ہے اور گنہگاروں پر مائل بہ کرم ہوجاتی ہے! آخر میں رب العزت سے یہی دعا ہے کہ: ’’ اے میرے رب تو ہی میری ڈھال، تو ہی میری چٹان اور میرا حصار، تو ہی میری زندگی، میرا حال اور مستقبل ہے۔ آگے بڑھ کر مجھے اپنی پناہ میں لے لے جیسے بہار ایک خزاں رسیدہ چمن کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے‘‘۔ آمین!

 

موجودہ صدی میں انسان جہاں دوسرے مسائل سے دوچار ہے وہاں اس کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی اخلاقیات کا بھی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں اس مسئلے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کردنیا بھر کی تمام حکومتوں‘ حتیٰ کہ افراد نے بھی اس اہم مسئلے پر غوروفکر شروع کر دیا ہے۔

ایک زمانے میں درخت کاٹنا کوئی جرم نہ تھا لیکن موجودہ دور میں درخت کاٹنا جرم ہے۔ جب ہم جرم کی بات کرتے ہیں تو دوسرے الفاظ میں ہم اخلاقیات کی بات کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ خیر کا تنزل‘ شر ہے۔ اسی طرح اخلاقیات کا تنزل‘ جرم ہے۔ کوئی بھی عمل اس وقت جرائم کی فہرست میں شامل ہوتا ہے جب وہ انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ درخت کاٹنا جرم میں شامل ہے کیونکہ درخت انسانی زندگی کے لیے صحت مند ماحول پیدا کرتے ہیں۔ وہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے آکسیجن کو خارج کرتے ہیں جو کہ زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ یوں ماحولیاتی اخلاقیات اور اس کائنات میں پائی جانے والی ہر جان دار شے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگرچہ موجودہ صدی میں آلودگی کا شعور بیدار ہوچکا ہے لیکن اب بھی ہم اس کے اصل اسباب کے ادراک سے گریزاں ہیں۔ یہ ذمہ داری صرف حکومت پر نہیں بلکہ پورے معاشرے اور ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے قبل کہ ان اسباب کی تلاش کی جائے جو ماحولیاتی اخلاقیات پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ مناسب ہے کہ موجودہ دور میں انسانی زندگی کے حقیقی چہرے سے پردہ اٹھایا جائے۔

سائنسی ترقی اور اضطراب

مغرب سے لے کر مشرق تک کہیں بھی نگاہ ڈالیے‘ انسانی زندگی اضطراب کا شکار ہے۔ سائنسی ترقی نے دنیا کو سمیٹ کر ایک بڑے کمرے میں تبدیل کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سائنسی ترقی کے عروج کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کا گراف گرگیا ہے۔ اخلاقی اقدار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ انسان دوسروں کے حقوق اور اپنے فرائض سے غافل ہوگیا ہے۔ اس ترقی کے نتیجے میں انسانی خواہشوں کا ایک سیلاب اُمنڈ آیا ہے۔ صنعت نے ان خواہشوں کے مطابق نئی مصنوعات کے انبار لگا دیے ہیں۔ زمین جو اپنا سینہ چیر کر انسان کے لیے اللہ رب العزت کی نعمتوں کے خزانے باہر پھینکتی ہے وہاں  بلندوبالا عمارتوں نے نیزوں کی طرح زمین کے سینے کو چیر کر بڑے بڑے شہر بسا دیے ہیں۔ خواہشات سے بھرے دل و دماغ دن رات ان شہروں میں خرید و فروخت میں مصروف ہیں اور  اپنے مقصد حیات سے دور ہوتے جار ہے ہیں۔ بازار بڑھتے جا رہے ہیں۔ مکانات اور گاڑیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسان یہ بھول رہا ہے کہ وہ کیا کھو کر‘ کیا پا رہا ہے۔ اپنے گھرکے کوڑا کرکٹ کو اٹھا کر دوسرے کے گھر کے سامنے پھینک دیتا ہے۔ بازاروں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس سے نہ صرف فضا کو نقصان پہنچا بلکہ زمین نے بھی اپنے سینے کو بند کر دیا ۔ دوعشرے پہلے تک زمین نے اپنا سینہ انسان کے لیے کھول رکھا تھا۔ وہ انسان کی صحت مند زندگی کے لیے پھل اور اناج کے ڈھیر لگا رہی تھی۔

شہروں کی ہوا کارخانوں اور گاڑیوں کے دھوئیں سے زہر آلود ہورہی ہے۔ کارخانوںکے فضلات اور انسانی غلاظت سے ندیوں کا پانی زہر آلود ہورہا ہے۔ درختوں کی کٹائی سے زمین کے درجہ حرارت میں روز بروزاضافہ ہورہا ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق جس دن زمین کا درجہ حرارت مزید تین ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا‘ گلیشیرپگھل جائیں گے‘ زمین بنجر ہو جائے گی اور سمندر کے ساحلی علاقے غرقاب ہوجائیں گے۔ یوں انسان اللہ رب العزت کے ان خزانوں سے محروم ہوجائے گا جو زمین دن رات اپنا سینہ پھاڑ کر اُگلتی ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد خدا وندی ہے:

ان لوگوں کے لیے بے جان زمین ایک نشانی ہے۔ ہم نے اُس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔ ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے‘ تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں۔ یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے۔ پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے؟ (یٰسٓ ۳۶: ۳۲-۳۵)

اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ آیت انسان سے ماحولیاتی اخلاقیات کا بھی تقاضا کرتی ہے۔

ماحولیاتی فساد

زمین کے اوپر اللہ رب العزت نے اوزون گیس کا ایک حفاظتی غلاف بنا رکھا ہے۔ اس کا کام سورج کی روشنی میں موجود الڑاوائلٹ شعاعوں کے مضر صحت اثرات سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ ان شعاعوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور انھیں زمین تک نہیں پہنچنے دیتا۔ یہ بھی جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان شعاعوں کی وجہ سے ہر سال کینسر جیسے موذی مرض میں ۱۰ ہزار افراد کا اضافہ ہو تا ہے۔ کیمیائی کھادوں اور جراثیم کُش ادویات کے استعمال سے سبزیوں اور پھلوں کے رگ و ریشوں میں بھی زہر سرایت کرتا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پورا کرۂ ارض ایک بھیانک ماحولیاتی فساد کی گرفت میں آچکا ہے جس کے ختم ہونے کی اُمید دور دور تک نظر نہیں آتی۔

یہ صورت حال ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے مضر اثرات سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد بھی زندگی کے کچھ آثار باقی رہ جاتے ہیں لیکن یہ ماحولیاتی فساد ایک ایسا تیزاب ہے جو زندگی کے رگ و پے میں آہستہ آہستہ سرایت کر کے اُسے  اندر ہی اندر ہلاک کرتا جارہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انسان ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کیے بغیر خود اپنے ہی ہاتھوں نیست و نابود ہو جائے گا۔ اس کے مضر اثرات سے بے خبر انسان بجاے شجرکاری کرنے کے جنگلات کاٹے جا رہا ہے۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اُس ملک کے کُل رقبے کا ۲۵ فی صد حصہ جنگلات پر مشتمل ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سرکاری اعدادو شمارکے مطابق پاکستان کے کُل رقبے کا چار فی صد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ شاید زمینی حقائق اس سے مختلف ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات کاٹنے کے خلاف قوانین بنائے جائیں‘ اور ان کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ مگر تمام ترحکمت عملی مسئلے کے ظاہری آثار و مظاہر تک محدود ہے۔ مسئلے کے اصل حل تک پہنچنے کا کوئی شعور و احساس کہیں نظر نہیں آتا۔ روز بروز گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے فضا میں دھوئیں کا اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے کلوروفلورو کاربن کے ذرات میں اضافہ ہورہا ہے‘ جو بیرونی فضا میں موجودہ اوزون میں شگاف کا باعث بنتے ہیں۔ کارخانوں کے آلودہ فضلات کے اخراج سے نہ صرف فضائی آلودگی بلکہ آبی آلودگی میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

ماحولیاتی اخلاقیات اور ماحولیاتی تحفظ کا تعلق ٹکنالوجی سے زیادہ انسانی رویے، خارج سے زیادہ باطن اور جسم سے زیادہ روح سے ہے۔ یہ سارا فساد اُس مادیت پسندی کا نتیجہ ہے جو خدا اور مذہب سے کٹ جانے کے بعد انسان کا مقدر بن چکی ہے۔ لہٰذا اس فساد کی روک تھام کسی بھی مادی حکمت عملی سے ممکن نہیں۔ اس کا اصل حل تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنا تعلق ایک ہمہ وقت حاضر و ناظر رہنے والی ذات‘ یعنی اللہ رب العزت سے جوڑے اور اس کا احساس پیدا کرے تاکہ ہلاکت خیز حرکتوں پر قابو پا سکے۔ دین اسلام میں عبادات سے زیادہ حقوق العباد پرزور دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو عبادات بھی در اصل معاملات ہی ہیں۔ یوں انسان ساری عمردوسرے کے حقوق اور فرائض میں ہی گزارتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا خود تجزیہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ماحولیاتی اخلاقیات کا تعلق خارجی سے زیادہ داخلی ہے۔

فکرجدید کے اثرات

موجودہ ماحولیاتی بحران کی فکری جڑیں یورپ کے اس ذہنی رویے میں تلاش کی جاسکتی ہیں جس نے انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات کا مرکز اور محور قرار دیا اور تمام ذرائع علم کو نظر انداز کر کے صرف عقل انسانی کو علم کا واحد ماخذ اور سر چشمہ قرار دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم و عقل اور انسان و کائنات کے اس تصور میں کائنات سے ماورا خالق اور رب العزت کے وجود کا کوئی خانہ نہیں تھا۔ چنانچہ حقیقت کا تصور اس حد تک محدود ہو کر رہ گیا کہ حقیقت وہی ہے جو حواس کے ذریعے جانی جاسکتی ہے اور عقل کے ذریعے ثابت کی جاسکتی ہے‘ یعنی حواس کے دائرۂ علم اور عقل کے   دائرۂ تصدیق سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ حقیقت خالص مادی حقیقت تھی۔

عقل پرستی کا یہ رویہ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوا۔ اس کے لیے مغربی فکر و فلفسہ گذشتہ تین چار سو سال سے زمین ہموار کر رہا تھا۔ اس کاآغاز مغرب میں احیاے علوم یا نشات ثانیہ کی تحریک سے ہوا جس کے زیر اثر قدیم یونان کے عقلی علوم کو ازسرنو زندہ کیا گیا اور آہستہ آہستہ انسان کے اس تصور کو استحکام حاصل ہوا جو آپ اپنی منزل اور مقصد تھا۔

اس تحریک ہی نے اُس سائنسی انقلاب کی راہ ہموار کی جو ۱۷ویں صدی میں جدید مغربی فکر و فلسفے کے بانی دیکارت کے محور پر قائم تھی۔ دیکارت نے ایک ایسی مشینی کائنات کا تصور پیش کیا جس میں کسی مابعد الطبیعیاتی عامل کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ اسی دوران گلیلیو اور کیپلر ایک ایسی فلکیات کی بنیاد ڈال چکے تھے جو خالصتاً مادی تھی۔ ان تصورات کی وجہ سے بڑے خوف ناک نتائج برآمد ہوئے اور کائنات کے تقدس کا تصور منہدم ہوگیا جس نے اب تک انسان اور کائنات کے درمیان ایک گہرا قریبی رشتہ قائم کر رکھا تھا۔

یہی وہ زمانہ ہے جب فرانسس بیکن نے علم کا ایک ایسا تصور پیش کیا جس نے علم، انسان اور فطرت کے رشتوں کو بالکل ختم کر دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ علم یا سائنس قوت ہے۔ اس سادہ جملے میں کیا کیا قباحتیں تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت یورپ میں ابھرنے والے نئے سرمایہ دار بورژوا طبقے نے اُسے اپنا بنیادی عقیدہ اور نعرہ جنگ بنا لیا۔

اس طرح ایک ایسی کائنات معرض وجود میں آئی جہاں کائنات خدا سے خالی تھی اور زمین پرانسان نے خدا سے بغاوت کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ عقل انسان کی سب سے بڑی رہنما تھی اور اس کے دل میں موجزن مادی خواہشات اس کا بنیادی محرک تھیں اور فطرت پر قبضہ، اس کا استحصال اور اس کے نتیجے میں غلبہ و تسلط اس کا نصب العین تھا۔ پھر صنعتی انقلاب شروع ہوا جس نے مصنوعات کے ڈھیر لگا دیے۔ جب یہ مسئلہ مزید آگے بڑھا تو صنعتوں کو خام مال اور اپنی پیداوار کی کھپت کے لیے بازاروں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے لیے نو آبادیات کا راستہ اختیار کیا گیا اور ایشیا و افریقہ کے ممالک یورپی طاقتوں کے زیر اقتدار آگئے۔

اگر اس ساری بحث کا عمیق جائزہ لیا جائے تو گذشتہ تین صدیوں کے دوران انسان کا فکری ارتقا باطن سے خارج کی طرف ہوا ہے جس کے نتیجے میں انسان نے اپنے روحانی مرکز سے ناتا توڑ کر اپنے لیے ایک خود مختار مادی اقتدار کے قیام کا اعلان کیا۔ یوں وہ ایک طرف کائنات کی فراخی میں گم ہو کر تنہا ہوتا چلا گیا تو دوسری طرف اس نے ساری کائنات دیگر مخلوقات اور خود انسانوں کو اپنا غلام اور ماتحت بنانے کی مہم چھیڑ دی۔

اسلام کا نقطۂ نظر

یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے ماحولیاتی اخلاقیات کے بحران کو اسلامی تصور حیات کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آئیے ذرا تفصیل سے دیکھیں کہ قرآن پاک اور سیرتِ رسول ؐ (جو وحی الٰہی کا آئینہ عمل ہے) میں انسان، کائنات، فطرت اور ان کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے۔

قرآن پاک میںارشاد خداوندی ہے کہ کائنات اور اس کی ہر چیز ایک خاص انداز پر،  ایک نظم و ترتیب اور توازن و تناسب کے ساتھ اور ایک خاص میزان پربنائی گئی ہے۔ یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ اس توازن کو برقرار رکھے۔

ارشاد خداوندی ہے :

آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔(الرحمٰن۵۵:۷)

ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور اس دنیا کو جو اُن کے درمیان ہے‘ فضول پیدا نہیں کر دیا ہے۔ یہ تو اُن لوگوں کا  گمان ہے جنھوں نے کفرکیا ہے‘ اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے۔(صٓ ۳۸:۲۷)

یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی ہیں۔ ان کو ہم نے برحق پیدا کیا ہے‘ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (الدخان۴۴:۳۸-۳۹)

ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمھارے لیے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا‘ مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔(الاعراف۷:۱۰)

جس نے تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو‘ کہیں تمھیں خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو۔ تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔(الملک ۶۷:۳-۴)

یوں قرآن پاک نے ایک ایسی کائنات کا تصور پیش کیا جو ہر لحاظ سے توازن و ترتیب سے معرض وجود میں آئی۔ یہ کائنات محض کھیل تماشا نہیں بلکہ حق کے ساتھ بنائی گئی۔ اس کی تخلیق کا ایک مقصد ہے۔ یہ کائنات انسانوں کے لیے بنائی گئی‘ نہ کہ انسان کائنات کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب اس کی حفاظت کرنا اور اس کی ترتیب کو برقرار رکھنا انسان کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اس میں نشانیاں اس کے خالق کی ہیں تاکہ عقل مند لوگ اس پر غور و فکر کریں ۔ قرآن پاک کی ۷۵۶ آیات مظاہر فطرت کے مطالعے پرزور دے رہی ہیں۔ تمام مخلوقات کو پیدا کرنے کا بنیادی مقصد اللہ رب العزت کی عبادت اور دوسری کی بھلائی ہے۔ قرآن پاک میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی ذکر ہے جنھوں نے اللہ کو اپنا رب تو نہیں مانا مگر انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے۔ اسی بھلائی کو بنیاد بنا کر ان کا     نام قرآن پاک میں شامل کیا گیا ہے۔ انھیں دوسرے لوگوں کے لیے نمونہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس کائنات میں بقاے با ہم کا اصول کار فرماہے۔

اللہ رب العزت نے کائنات میں جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں ان میں سے صرف انسان کو شعور کی دولت سے نوازا گیا۔ عقل سلیم کو بنیاد بنا کر اُسے اشرف المخلوقات کا منصب دیا گیا۔ علم کی بنیاد پر نائب کا درجہ دیا گیا۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ ان تمام صلاحیتوں کو بروے کار لا کر کائنات کے اسرار و رموز پر غور و فکر کرے۔ اُسے معلوم ہو جائے گا کہ کائنات کی تمام اشیا ایک  خاص ترتیب سے ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں‘ مثلاً انسان کو سانس لینے کے لیے پودوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پودوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حصول کے لیے جانوروں اور انسانوں دونوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایک ایٹم بھی اپنی جگہ چھوڑ دے تو پوری کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے۔

قرآن پاک اور نبی پاکؐ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان پر فرض ہے کہ وہ کائنات کے اسرار و رموز پر غور وفکر کرے‘ اپنے فرائض و حقوق کو جانتے ہوئے خیرو فلاح کا رویہ اختیار کرے۔ یہ دنیا حسین اور ہری بھری ہے‘ اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا امانت دار بنایا ہے۔ بقول اقبال: محدود معنوں میں انسان بھی خالق ہے۔ کیونکہ کائنات کی تخلیق اللہ رب العزت نے فرمائی مگر اس کی خوب صورتی کو دوبالا کرنے میں انسان بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس دنیا میں جتنے بھی قدرتی وسائل ہیں وہ سب اللہ رب العزت نے انسان کو امانت کے طور پر عطا کیے ہیں۔ یہ سب قدرتی وسائل کسی ایک ملک و قوم کی ملکیت نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسان حتیٰ کہ دوسری مخلوقات ان میں برابر کی شریک ہیں۔ جو نسل ان وسائل کو استعمال میں لاتی ہے‘ اس کی ذمہ داری ہے کہ ان قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط سے کام لے کیونکہ یہ قدرتی وسائل آنے والی نسلوں کی امانت ہیں۔ قرآن پاک کے مطابق ان قدرتی وسائل کا استعمال تمام مخلوقات کی بھلائی کے لیے ہونا چاہیے۔

یہی وہ ماحولیاتی اخلاقیات ہے جس کی ذمہ داری ہر فردپر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ وہ فطرت اور قدرتی وسائل کو اس طرح استعمال نہ کرے کہ وہ آیندہ زمانوں اور نسلوں کے لیے باقی نہ رہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اُسے زندگی کی جن نعمتوں اور فطرت کے جن انعامات سے نوازا ہے انھیں صحیح طور استعمال کرے۔ اس کے ساتھ ہی دوسری مخلوقات کو بھی ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے بلکہ زمین میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کو مزید ترقی دے‘ اور ان قدرتی وسائل کو زمین کے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے بھی استعمال کرے۔ کاشت کاری اور پھل ،پھول وغیرہ کے ذریعے اس کے حُسن کو دوبالا کیا جاسکتا ہے۔

احادیث کی روشنی میں

نبی پاکؐکا رشاد گرامی ہے:’’کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اُس نے کھیتی باڑی کی ہو، درخت لگائے ہوں اور پھر اس کھیتی یا درخت سے پرندے، آدمی یا جانور خوراک حاصل کریں تو یہ اس کے حق میں صدقہ شمار نہ ہو‘‘۔ (بخاری ‘جلد اول‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور ‘ص ۸۰۳)

موجودہ دور میں ماہرین زراعت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کسان کھیت سے صرف ۴۰ فی صد اناج حاصل کرتا ہے۔ باقی ۶۰ فی صد چرند پرند کھا جاتے ہیں۔یوں انسان کے ساتھ اللہ رب العزت نے دوسری مخلوقات کو بھی حصہ دار بنایا ہے۔ اسی تحقیق کو مد نظر رکھتے ہوئے چین والوں نے مہم چلائی اور اپنے ملک میں تمام چڑیوں کو مار ڈالا۔ اسی سال اُن کی فصل پر ایک ایسے کیڑے نے حملہ کیا جس کو صرف چڑیاں کھاتی تھیں۔اُس نے اُن کی تمام فصل کو تباہ کردیا۔ چنانچہ دوسرے سال چین والوں کو چڑیوں کو واپس لانے کی مہم چلانی پڑی۔

نبی پاکؐکا ارشاد گرامی ہے:’’جس کے پاس کوئی زمین ہے اور وہ خود زراعت نہ کرسکے تو اپنے بھائی کو دے دے‘‘۔(ایضاً)

اس حدیث میں بھائی سے مُراد صرف حقیقی بھائی نہیں بلکہ تمام مسلمان بھائی ہیں۔ اگر حقیقی بھائی کے پاس اپنی زمین ہے تو پھر پڑوسی کو دے دی جائے۔ اگر پڑوسی بھی صاحبِ جایداد ہوتو پھر کسی اور مسلمان بھائی کو دے دی جائے۔ زمین کا اصل مالک اللہ رب العزت ہے جس نے اس کو تخلیق کیا ہے۔ تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا اللہ رب العزت ہے‘ لہٰذا اس زمین پر تمام مخلوقات کا حصہ برابر ہے۔

اِسی سلسلے کی ایک اور حدیث ہے:’’اگر تم میں سے کسی پر آخری وقت آجائے‘ اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں ایک پودا ہو تو وہ پہلے اُسے لگا دے‘‘۔ (ایضاً)

اس حدیث میں درخت لگانے کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا موجودہ دور میں نباتات کا جتنا بھی علم ہے اُس کا خلاصہ اس حدیث میں بیان کردیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ ’’ صحرا کے درخت کو مت کاٹو جس سے کسی انسان یا جانور کو رزق یا سایہ حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

درج بالااحادیث میں درختوں کی کاشت کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے    کہ درخت دن رات انسان اور دوسری مخلوقات کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ یہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرتے ہیں جو انسانی صحت اور دوسری جان دار اشیا کے لیے مضر ہے اور آکسیجن جس کا دوسرا نام زندگی ہے‘ خارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ کی حمد و ثنا، بھی بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا میں جو مختلف گیسوں کا آمیزہ ہے‘ تمام گیسوں کو ایک خاص توازن میں رکھا ہوا ہے۔ اس میںنائٹروجن ۷۸فی صد، آکسیجن ۲۱ فی صد اور باقی ایک فی صد ہیں۔ آکسیجن کے اس توازن میںذرّہ بھر کمی ہوجائے تو لمحے بھر میں پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے اور اس کائنات سے زندگی کا نام و نشان مٹ جائے۔ موجودہ دور میں انسان اس توازن کو بگاڑنے میں لگا ہوا ہے۔ گاڑیوں کا دھواں، کارخانوں کے فضلات فضامیں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ میں (جو ایک خطرناک گیس ہے) شب وروز اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ہوا میں قدرتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ۴ء۰ فی صد ہے ‘ جب کہ موجودہ دور میں یہ شرح بڑھ کر چار فی صد ہوگئی ہے۔ درخت بھی ایک خاص مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ یوں فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا کے توازن کو بگاڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ جب ایک شاپنگ بیگ اٹھا کر باہر کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا جاتا ہے تویہ اُس کوڑا کرکٹ میں سلفر ڈائی آکسائیڈ (SO2) گیس پیدا کرتا ہے۔ یہ گیس ہوا میں شامل ہو کر وہاں سے آکسیجن لیتی ہے اور سلفر ٹرائی آکسائیڈ (SO3) میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ہوا میں شامل آبی بخارات کے ساتھ مل کر سلفیورک ایسڈ پیدا کرتی ہے جو تیزاب ہے۔ یوں انسان تیزاب کی بارش میں زندگی گزار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے جِلدی اِمراض میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ ماحولیاتی اخلاقیات ہے جس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآن پاک میں اللہ رب العزت کی جو صفات بیان کی گئی ہیں‘ ان کے مطابق وہ خالق ہے، ولی ہے، مالک الملک ہے، رزاق ہے، مقیت ہے، حافظ ہے۔ یہ تمام صفات اللہ رب العزت نے انسان کو بھی عطا کی ہیں‘ یعنی انسان اللہ رب العزت کی صفات کا آئینہ دار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اللہ رب العزت کی صفات لامحدود ہیں‘ جب کہ انسان میں یہ صفات محدود ہیں۔ انسان کا کام ہے کہ وہ ان صفات کو قدرتی ماحول، قدرتی وسائل کے تحفظ اور ان کی بقا اور برقراری کے تحفظ کے لیے استعمال میں لائے کیونکہ انسان زمین پراللہ کا خلیفہ ہے۔ لیکن اس حقیقت کو بھول گیا کہ اُسے اس زمین پر امن کی فضا پیدا کرنی ہے۔ اس کے بجاے وہ زمین پر فساد پھیلانے میں مصروف ہے‘ اس کے توازن کو بگاڑ رہا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے:

خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا ان کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے‘ عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔ کہہ دو‘ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں ان کا کیا انجام ہوا۔ ان میں زیادہ تر مشرک ہی تھے۔ (الروم ۳۰:۴۱-۴۲)

اس آیت کریمہ میں فسادسے یہ مراد ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو جو چیزیں، نعمتیں اور قدرتی وسائل بطور امانت بخشے‘ وہ ان کو تباہ و برباد کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے زندگی گزارنے کے جو طریقے بتلائے اور فطرت کے جو ضابطے مقرر کیے ہیں ان کی خلاف ورزی کرتا اور کائنات کے نظم و ترتیب کو بگاڑتا ہے۔ انسان جب بھی فطرت میں کوئی بگاڑ پیدا کرتا ہے اُس کا نقصان خود انسان ہی کو ہوتا ہے۔ فطرت کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ ہوا کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوگا  تو انسان کو سانس لینے میں دشواری ہوگی۔ فطرت کے لیے کوئی دشواری نہیں ہے۔

چند توجہ طلب امور

قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس بگاڑ اور فساد کی روک تھام کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ اللہ رب العزت نے ہوا، پانی، زمین، جانوروں اور نباتات کے تحفظ اور سلامتی کی اہمیت اور افادیت کواُجاگر کیا ہے‘ اور انسان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر وہ اُن کے اندر کوئی بگاڑ پیدا کرے گا تو ان چیزوں کا کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ نقصان بذات خود انسان کو ہوگا۔ چیونٹی ایک چھوٹی سی جان دار شے ہے مگر زمین کی زرخیزی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  •  پانی زندگی ھے: اللہ رب العزت نے پانی کو زندگی کی بنیاد قرار دے کر انسان کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے ہر جان دار کو پانی سے پیدا کیا‘‘۔(الانبیآء ۲۱:۳۰)

اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر جان دار کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کے جسم میں ۷۰ فی صد پانی ہے۔

ارشاد ربانی ہے: ’’اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا‘ پھر اس کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اُگائی‘ پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے‘ پھر ان سے تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں‘ اور انگور‘ زیتون اور انار کے باغ لگائے جس کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا بھی ہیں۔ یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پھل آنے اور پھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو‘ ان چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں‘‘۔(الانعام ۶:۹۹)

درج بالا آیت میں ایک وسیع موضوع کو بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت میں پانی اور پودوں دونوں کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ پانی کا پودوں اور قدرتی ماحول سے گہرا تعلق ہے۔ پودے زمین سے پانی جذب کرتے اور عمل تبخیر کے ذریعے پتوں میں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ پانی فضا میں آبی بخارات کی شکل میں شامل ہو کر نہ صرف فضا کو صاف کرتا ہے بلکہ درجہ حرارت میں بھی کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ پھلوں کا اہم جز  پانی ہے۔ پھل انسانی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ پھر درختوں کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ درخت بھی قدرتی ماحول کا اہم حصہ ہیں۔ جہاں درخت زیادہ ہوں گے وہاں کا درجہ حرارت کم ہوگا۔ درخت بذاتِ خود بارش لانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بارش فضا میں موجود آلودگی کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ بارش کا یہ پانی زمین میں جذب ہو کر چشموں کی صورت میں دوبارہ پینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ زمین فلٹر کاکام کرتی ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے:’’کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا‘ یہ پانی جو تم پیتے ہو‘ اسے تم نے بادل سے برسایاہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں‘ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بناکر رکھ دیں‘ پھر کیوں تم شکرگزار نہیں ہوتے؟‘‘(الواقعہ ۵۶:۶۸-۷۰)

اللہ رب العزت نے انسان کو میٹھا پانی عطا کیا‘ لیکن آج کا انسان کارخانوں کے فضلات سے اس کو خود ہی کھاری بنا رہا ہے۔ پانی پر تمام مخلوقات کا برابر کا حق ہے لیکن انسان نہ صرف دوسری مخلوقات کی زندگی کو کھاری پانی سے اجیرن کر رہاہے بلکہ خود اپنا بھی نقصان کر رہا ہے۔ ہیپاٹائیٹس موذی مرض کا سبب گندہ پانی ہے۔ اسی گندے پانی میں سبزیاں وغیرہ اُگائی جاتی ہیں جن کی رگوں میں گندے اجزا شامل ہو جاتے ہیں۔ ان کے کھانے سے انسان میں طرح طرح کی بیماریاں   پیدا ہوتی ہیں۔ نبی پاکؐ نے فرمایا: مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں پانی‘ نمک اور آگ   (ابن ماجہ)۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے دریافت فرمایا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! پانی والی بات تو سمجھ آگئی‘ مگر نمک اور آگ کا کیا معاملہ ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: جو شخص آگ دے گا گویا اُس نے وہ ساری چیزیں صدقہ کر دیں جو اُس آگ نے پکائی ہیں‘ اور جس نے نمک دیا‘ اُس نے ساری چیزیں صدقے میں دے دیں جن کو نمک نے اچھا بنایا‘ اور جس شخص نے کسی ایسی جگہ پانی پلایا جہاں پانی نہیں ملتا تھا تو اُس نے گویا کسی کو زندہ کر دیا‘‘۔(القرآن ‘بخاری ‘جلد دوم باب الصدقہ)

اسلام نے پانی کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے بھی منع فرمایا ہے۔ ایک دفعہ نبی پاکؐ ایک جگہ سے گزررہے تھے۔ صحابیِ رسولؐ سعدؓ وضو کر رہے تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اے سعد! اسے کیوں ضائع کر رہے ہو۔ اس پر سعدؓ نے دریافت فرمایا کہ اے اللہ کے رسولؐ! وضو میں بھی  پانی ضائع ہوتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اُس وقت بھی جب تم بہتے ہوئے دریا کے پاس  ہو‘‘۔ (مسند امام احمد ،ابن ماجہ)

احادیث میں ایسے متعدد ارشادات نبویؐ ملتے ہیں جن میں کاشت کاری کی اہمیت اور درخت لگانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ ماحولیاتی اخلاقیات اور زندگی کی حرمت کا یہی عرفان ہے جس کے تحت حرم کی حدود میں کسی جان دار کا شکار کرنے یا درخت کاٹنے کی مکمل ممانعت کی گئی ہے۔

  •  جانوروںسے سلوک: اسی طرح اللہ کے رسولؐ نے جانوروں پر ظلم اور انھیں تکلیف پہنچانے سے منع فرمایا ہے اور ان پر رحم کرنے کو اعلیٰ ترین کار خیر قرار دیا ہے۔

امام بخاریؓ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی پاکؐ نے فرمایا کہ ایک شخص سفر میں جارہا تھا کہ اُسے پیاس لگی اور وہ ایک کنویں پر گیا اور اس کا پانی پیا۔ وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے تڑپ رہا ہے اور کیچڑ کھا رہا ہے۔ اس شخص کو خیال آیا کہ یہ کتا اسی تکلیف میں ہے جس سے میں گزر چکا ہوں۔ سو وہ کنوئیں پر گیا اور اُس نے اپنے جراب میں پانی بھرا اورکتے کی پیاس بجھادی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو پسند فرمایا‘ اور اُسے بخش دیا۔ لوگوں نے سوال کیا: یارسولؐ اللہ! کیا جانوروں کی خدمت کارِ ثواب ہے؟ اس پر نبی پاکؐ نے فرمایا کہ ہاں بے شک جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے بڑا ثواب ہے۔(بخاری)

  •  قدرتی وسائل کا تحفظ:نبی پاکؐ کے زمانے میں قدرتی وسائل کے تحفظ کی غرض سے محفوظ علاقے قائم کرنے کا بھی قانون تھا۔ ان علاقوں میں موجود جنگلات، پانی کے ذخائر اور جانوروں کو کسی بھی طرح نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر جنگ کے دوران فصلوں اور باغات کو تباہ کرنے سے منع فرمایا۔ اِس کے بعد خلفاے راشدین نے اسی روایت کو جاری رکھا۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ اس اصول کے تحت مکہ مکرمہ کے اطراف میں سارے علاقے کو حرم قرار دیا گیاہے جہاں کسی بھی جانور یا درخت کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ ایک حدیث کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر نبی پاکؐ نے روز قیامت تک اسے مقدس قرار دیا۔ یہاں کے کانٹے نہ کاٹے جائیں‘ یہاں کے جانوروں کو شکار نہ کیا جائے اور یہاں کی کوئی چیز کھو جائے تو اسے کوئی نہ اٹھائے   سواے اس کے جو اٹھائے اور اُس کا اعلان کرے‘ اور یہاں کے سبزہ کو کاٹا نہ جائے‘‘۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباسؓنے مشورہ دیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! سواے اذخر کے ۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: سواے اذخر کے‘‘۔ (بخاری‘ جلد اول‘ کتاب فی القطۃ)

یہ حدیث ماحولیاتی اخلاقیات کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ نہ صرف مکہ مکرمہ بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے لازم ہے کہ ماحول کو خرابی سے بچائیں۔

خلاصۂ بحث

اس ساری بحث سے جونتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کا ماحاصل یہ ہے کہ:

  •  تمام کائنات اور اس کے مظاہر فطرت اللہ کی نشانیاں ہیں اس لیے ان کا تقدس بحال رکھناانسان کا فرض عین ہے۔
  •  انسان جس کو اللہ رب العزت نے اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے‘ اُسے دیگر مخلوقات اور خود اپنے لیے خیرو فلاح کے کام کرنے چاہییں اور اپنے رب کی عبادت کرنی چاہیے۔
  •  فطرت کے تمام قدرتی وسائل اُسے بطور امانت سونپے گئے ہیں‘ وہ اس امانت میں خیانت نہ کرے اور ان قدرتی وسائل کو خیرو فلاح کے لیے استعمال کرے اور ہر قیمت پر ان کا تحفظ کرے اور ان کی بقا کو یقینی بنائے۔ یہ اُس کا اخلاقی فریضہ ہے۔
  •  انسان خدا کی دی ہوئی نعمتوں اور قدرتی وسائل کے بے رحمانہ استعمال کو ترک کر کے زمین پر فسادپھیلانے سے گریز کرے کیونکہ یہ فساد خود اُسی کے لیے نقصان دہ ہے۔

قرآن پاک اپنے اسلوب بیان میں واحد آسمانی کتاب ہے جس میں زندگی کے تمام  شعبہ جات کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے ماحولیاتی اخلاقیات کے بارے میں قرآن پاک خاموش رہے۔ قرآنی فکر اور پاک وصاف طرز معاشرت میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ قرآنی نقطۂ نظر سے جس قدر انسان کی فکر پاکیزہ ہوگی اُسی قدر طرز معاشرت پاک وصاف ہوگا۔ اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰)

اس آیت سے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اولاد آدم کی عزت کو پاکیزہ روزی سے منسوب کیا گیا ہے۔ ماحول کے ساتھ ساتھ جسم کی پاکیزگی اور جسم کے ساتھ روح کی پاکیزگی ضروری ہے۔ روح تب ہی پاکیزہ ہوگی جب رزق پاکیزہ ہوگا اور رزق تب ہی پاکیزہ ہوگا جب انسان کی فکر پاکیزہ ہوگی۔

اِسی پاکیزگی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن پاک میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ: ’’بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں سے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۲۲)

جب انسان گناہ کرتا ہے تو گناہ بھی آلودگی ہے۔ اس سے انسان کے دل پر (فکر )پر ایک سیاہ دھبہ بن جاتا ہے لیکن جب وہ توبہ کرتا ہے‘ تو اُس کا یہ عمل سیاہ دھبے کو صاف کردیتا ہے۔ یوں دوبارہ اُس کا دل (فکر) صاف ہو جاتا ہے۔ توبہ کا اصل کام صفائی ہے۔ یہ آیت مابعد الطبیعیاتی نوعیت کی ہے۔

آخر میں اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ماحول کو پاک و صاف رکھنے اور ماحولیات کے تحفظ کے بارے میں تمام تدابیر صرف اسی وقت کار آمد ہو سکتی ہیں جب انسان کے دل میں اللہ رب العزت کا خوف، اس کی مخلوقات سے محبت، ہمدردی اور اپنے حقوق اور فرائض کی ادایگی کا تصور نقش ہوجائے اور اس کی فکر میں پاکیزگی آجائے۔ جب انسان قرآن پاک کی ہدایات پر عمل پیرا ہوگا‘ تب ہی اُسے ایک خوش گوار فضا اور صاف ستھرے ماحول میں سانس لینا نصیب ہوگا۔

اس دنیا میں تین طرح کے اصول کار فرما ہیں۔ ایک طاقت کا اصول ہے‘ ہر کوئی دوسرے کو دبانا چاہتا ہے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر کوئی خوش رہنا چاہتا ہے۔ تیسرا اصول اخلاقیات کا‘ یعنی اپنے فرائض اور حقوق کو پہچاننے کا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی خوش گوار ماحول میں اپنی زندگی  بسر کرے تو ہمیں تمام معاشروں میں اخلاقیات کے اصول کو حاوی کرنا ہوگا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ طاقت کا اصول خود بخود دم توڑ دے گا اور ہر کوئی خوش گوار ماحول میں زندگی بسر کرے گا۔

اسلام کے ماننے والوں کو دنیاکے سامنے ایک متبادل ماحولیاتی حکمتِ عملی پیش کرنا چاہیے۔