ڈاکٹر بشری تسنیم


مقبول روزے کی شرط ایمان اور احتساب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنا احتساب اور اِصلاح کیسے ہو؟ احتساب دراصل اپنے مومنانہ معیار کو بلند کرنے کی طرف متوجہ ہونا ہے۔
ہم بُری بھلی زندگی تو گزارتے ہیں مگر اس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ کمی کہاں ہے؟خطا کیا ہے؟گناہ کیا ہیں ؟ اور ان میں ہمارا نفس کتنا آلودہ ہے؟ نیکی کے تھیلے میں کتنے سوراخ ہیں ؟ وہ سب کچھ نظروں سے اوجھل رہتا ہے جن سے نیکی کا معیار ناقص ہو جاتا ہے۔
 ہم صغیرہ و کبیرہ، ظاہر ی و باطنی،جانے اَن جانے، کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتے تو ہیں اور آپس میں ’ کہا سنا معاف کرنا‘ بھی عادتاً دُہرا لیتے ہیں، لیکن اس جملے کی روح سے بے گانہ رہتے ہیں۔ کوئی ندامت کا جذبہ اس جملے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ نہ دل کی دنیا میں شرمندگی کا جوار بھاٹا اٹھتا ہے، اور جواب دہی کے خوف کی برکھا تو کیا برسنی ہے، آنکھوں میں نمی تک نہیں آتی۔ اور دوسرا تضاد یہ ہے کہ لوگوں کے بڑے بڑے گناہوں پہ ہماری نظر رہتی ہے، مگر اپنے گناہ اور نافرمانیاں معمولی لگتی ہیں۔
فکر کرنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ کیا ہم حقوق اللہ،حقوق العباد کی ادایگی میں معیار کا بھی خیال رکھتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نیکی کے معاملے میں کم تر معیار پہ راضی ہونے کی عادت میں مبتلا ہیں اور دنیا کی خواہشات کے لیے معیار اعلیٰ ترین ہے؟ نیکی میں اپنے سے کم معیار کے لوگوں میں میل جول رکھنے کی وجہ سے اپنی معمولی نیکیاں اور کم تر عبادتیں بھی بہت اعلیٰ لگتی ہیں، اور اپنے متقی ہو جانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں :

فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۝۳۲ۧ ( النجم۵۳:۳۲) پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے؟

میزان اسی لیے تو رکھی جائے گی کہ دنیا کی چاہت کے پلڑے میں وزن زیادہ ہے یا آخرت کی چاہت میں ؟ دل کی سچی اور کھری چاہت اور نیت پر ہی اعمال کی درجہ بندی کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تلقین کی:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۸(الحشر۵۹:۱۸)، اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو ، اور ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقینا تمھارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔

اور اگر مومن اس معیار کا جائزہ لینے سے غافل ہوتا ہے تو نتیجتاً یہ معاملہ سامنے آتا ہے:

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۹ (الحشر۵۹:۱۹) ، اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انھیں خود اپنا نفس بھلا دیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ:

لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ۝۰ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰ (الحشر۵۹:۲۰)، دوزخ میں جانے والے اور جنّت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے، جنّت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔

اہل جنت میں شامل ہونے کے لیے آج اور ابھی اپنا بے لاگ احتساب کرنا ہوگا اور کل کے لیے نیکیاں جمع کرنی ہوں گی اور نیکی کا معیار بھی بلند رکھنا ہوگا تاکہ انبیاؑ کی رفاقت نصیب ہو۔
محاسبہ یا احتساب، بہتر سے بہترین کا سفر ہے اور اس سفر کی منزل جنت ہے۔ ایمان بڑھتا ہے تو احتساب کی طلب بھی بڑھتی جاتی ہے اور جب احتساب کی لگن زندگی کی لذت بن جاتی ہے تو ایمان میں اضافہ ہوتا رہتاہے۔ گویا ایمان و احتساب لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان کا پیمانہ وہی ہوگا ،جو احتساب کا ہوگا۔

احتساب اور تزکیۂ  نفس

احتساب خوب سے خوب تر کی تلاش ہے۔ نصب العین کے حصول کی بھرپور کوشش کرتےہوئے جو کمی، کوتاہی ہوجائے اس کا بر وقت تدارک کرنا احتساب ہے۔ جو غلطی ہوجائے اس کو آگے بڑھنے سے پہلے درست کر لینا احتساب ہے، تاکہ جب مالک کے سامنے کام کی رپورٹ پیش کرنے حاضر ہوں تو مالک خوش ہو جائے۔ اس کو قرآنی زبان میں ’تزکیۂ نفس‘ کہتے ہیں اور  تمام انبیا ؑ ـ بھی نفوس کے تزکیہ کے لیے مبعوث فرمائے گئے۔
ہمارا ایمان ہے کہ رب کائنات کے حضور پیشی کسی بھی لمحے متوقع ہے اور اس کی نگاہوں سے کسی بھی لمحے ہم اور ہمارے اعمال اوجھل نہیں ہو سکتے۔ اس ربّ کی عظمت کا احساس، اس کی ذات کی پہچان، اس کی رحمت کا عرفان جس قدر دل میں جاگزیں ہوگا، اسی قدر مومن:  وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر۵۹:۱۸، ہرنفس یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے) کی حقیقت سے واقف ہوگا۔ اور اس پر ہر لمحے جواب دہی کا خوف غالب رہے گا۔ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔
ایمان کا پہلا محاسبہ یہ ہے کہ توحید کا عرفان ہو۔ ’اللہ ایک ہے‘،یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اس کی ذات پہ ایمان بالغیب کے تقاضے ہر شق اور ہر شرط کے ساتھ پورا کرناہی اس کو ’ایک ماننا ہے‘۔ شرکِ خفی اور شرکِ جلی کا علم درست اور مکمل ہونا چاہیے۔ شرک تو کسی صورت معاف نہیں ہوگا۔ جب افکار و اقوال میں، اعمال و معاملات میں اللہ رب العزت کی ذات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ بھی ہو اور شک و تذبذب بھی موجود ہو،’ دنیا کیا کہے گی‘کا خو ف بھی ہو،روزی کے حصول میں کامیاب ہونے کے لیے ’مروجہ دنیاوی اصول‘ بھی سہارا لگتا ہو، مشکل کشا اللہ کی ذات کو کہنے کے باوجود، ’دست گیری‘ کے لیے غیروں کے در پہ حاضری بھی ہو، توسوچنے کی بات یہ ہے کہ ایمان کی یہ کون سی شکل ہے؟ شرک کم ہو یا زیادہ، یہ ہے وہ زہر جو توحید کو خالص نہیں رہنے دیتا۔ جس طرح زم زم سے بھرے تالاب میں شراب یا پیشاب کا ایک قطرہ بھی مل جائے وہ زم زم نہیں رہتا۔ اسی طرح شرک کا شائبہ بھی توحید کو خالص نہیں رہنے دیتا۔
ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ (البقرہ ۲:۲۰۸)’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو‘‘ اور الدِّيْنُ الْخَالِصُ  (الزمر ۳۹:۳)کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایمان وہی قابل قبول ہے، جو خالص ہو اور ہمہ پہلو مکمل ہو۔ ہم اپنے اقدامات سے ،ذاتی پسند و ناپسند کے معیار سے، خاندان و برادری کے اصولوں کو جانچ سکتے ہیں کہ ہم ایک اللہ کے کتنے فرماں بردار ہیں؟ اس ایک اللہ کے سامنے اپنے ہر عمل کی جواب دہی کا کتنا خوف رکھتےہیں؟
ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم خود اپنے محاسب بنیں اور سوچیں کہ کل اپنے ربّ کے حضور پیش ہوکر زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا حساب دینے کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج  (الحشر۵۹:۱۸)’’ہرنفس یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے  کیا سامان کیا ہے‘‘ کی تلقین سراسر ہمیں بہتر سے بہترین کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس دن جب ذرہ برابر نیکی اور بدی سامنے لائی جائے گی اور کسی پہ ظلم نہ کیا جائے گا۔جب حکم ہوگا:
اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا۝۱۴ۭ  ( بنی اسرائیل ۱۷:۱۴) پڑھ اپنا نامۂ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔
اس دن کی شرمندگی کو ذہن میں رکھنا بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ذات کو ایک اور حاضر و ناظر ماننا ہے۔ دنیا کے انسانوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنا، دراصل اللہ کی ذات کو بھلا دینا ہے۔ جو دنیا کی خاطر اللہ کو بھلا دیتا ہے تو پھر اللہ بھی اسے بھلا دیتا ہے، اور اللہ کا کسی کو   بھلا دینا یہ ہے کہ اس سے اپنی حالت بہتر کرنے کا احساس چھین لیا جائے اور اس کے لیے ہدایت کے راستے بند ہو جائیں۔

قرآن سے حقیقی تعلق

رمضان المبارک قرآن کا مہینہ ہے۔ اس میں اپنا تعلق قرآن پاک سے جوڑنے کے لیے سب سے پہلے اپنی اب تک کی غفلت کی معافی طلب کی جائے۔ قرآن پاک کے ساتھ دل کا رشتہ بنانے کے لیے اللہ کے حضور دعا کی جائے کہ وہ ہمارے دلوں کے قفل کھول دے۔ ہمارے لیے وسائل مہیا کرے اور اس کی تعلیم آسان فرمائے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایک آیت سیکھنے کا عمل شروع کیا جائے۔ راستہ منتخب کر لیا جائے تو راہیں آسان ہو جاتی ہیں ۔ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۱۷ (القمر ۵۴:۱۷) ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘
اپنے گھر، کالونی، ادارے،دفتر، بازار، غرض ہر مقام پہ کوئی وقت’ قرآنی وقت‘ بھی    مقرر ہونا چاہیے۔ اس وقت کے دوران روزانہ ایک آیت یا ایک موضوع پہ فہم قرآن کا سلسلہ ہو۔ قرآنی ما حول بنایا جائے۔ اپنی اولاد کو قرآن کے سایے میں پرورش کرنے کی شروع دن سے کوشش کی جائے۔ اس کی عظمت، اہمیت اور ضرورت کو دنیاوی تعلیم سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ ہماری نجات صرف حاملِ قرآن ہونے میں نہیں بلکہ اس کے ساتھ عاملِ قرآن ہونے میں ہے۔
آئیےاللہ رب العزت کے حضور دل کی گہرائیوں سے التجا کریں کہ وہ قرآن کو ہماری آنکھوں کا نور،دل کی بہار ،قبر کی وحشتوں کا ساتھی اور دستورِزندگی بنا دے۔ ہمیں ایسا مومن بنا دے جوچلتا پھرتا قرآن کا مظہر ہو۔ اُمت مسلمہ اللہ کی رسی کو تھام لے اور عروج اس کا مقدر ہو جائے۔ آمین!
رمضان المبارک میں مغفرت اور جنت کی بشارت اُن روزے داروں کے لیے ہے، جنھوں نے ’ایمان اور احتساب‘ کے ساتھ روزے رکھے۔ ایمان جتنا مضبوط اور خالص ہوگا مومن کے باطنی شعور میں اللہ رب العالمين کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس بھی اسی قدر زندہ رہے گا۔ اور جس کو رب کے سامنے جواب دہی کا خیال رہتا ہو وہ اپنا محاسبہ کرنے سے غافل نہیں ہو سکتا۔ محاسبہ کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ رب العزت کی نظر میں کیا پسندیدہ ہے اور کیا ناپسندیدہ۔ اس کے لیے قرآن مجید کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔
اللہ ربّ العرش نے قرآن پاک اور اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے ہر چیز کی وضاحت کر دی ہے۔ وہ سب سوال اور ان کے جواب بتا دیے ہیں، جو بندوں سے پوچھے جائیں گے۔ قرآن مجید میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔ حقوق اللہ کے بارے میں ہمارا کیا رویہ ہے؟ ایمانیات اور عبادات میں کہاں کہاں جھول ہے؟ اس پر ہمیںسوچنا اور غوروفکر کرنا ہے۔ بندے پہ کوشش کرنا اور خالص نیت رکھنا واجب ہے۔

شکرگزاری کا تقاضا

ایمان لانے کا تقاضا شکر کرنا ہے اور یہی اللہ کا حق ہے۔ جو شکر گزار ہوگا، لازماً وہ ایمان کی دولت سے مالا مال بھی ہوپائے گا۔گویا ایمان اور شکر گزاری ایک دوسرے کا جزو ہیں۔ شیطان کو اسی بات کا بہت اچھی طرح ادراک ہے۔ اسی لیے اس نے رب العزت کی بارگاہ میں یہ اظہار کر دیا تھا کہ ’تو ان میں سے کم لوگوں کو ہی شکر گزار پائے گا‘ اور خود رب العالمین نےفرمایا: وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ۝۱۳ (السبا۳۴:۱۳)’’میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں‘‘۔ شکرگزار وہ خاص بندے ہیں جو اللہ رب العرش الکريم کی نظروں میں خاص مقام رکھتے ہیں، جب کہ خاص مقام تک وہی پہنچ پاتا ہے، جو خاص خوبیوں کا مالک ہو۔ اپنے آقا کی مہربانیوں کو پہچانتا ہو،تسلیم کرتا ہو، شکرگزار ہو،اور شکرگزار ہونے کا ثبوت فرماں بردار ی کی صورت میں دیتا ہو۔ شکرگزار بندہ ہی شیطان کے پھیلائے ہوئے جال کو بروقت پہچان لیتا ہے اور اس سے بچ نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو باور کرایا کہ’میرے بندوں پہ تیرا کوئی زور نہیں چل سکے گا‘۔
اب اپنے ایمان کا احتساب ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم شیطان کے قول: وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِيْنَ  (الاعراف ۷:۱۷، اور تُو اُن میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا)کو سچ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یا اپنے رب کے قول: وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ۝۱۳ (السبا ۳۴:۱۳، میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں) پر پورا اُترنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان بندوں میں شامل ہوکر کامیاب ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ نے شیطان کو باور کرایا کہ ’’میرے بندوں پہ تیرا کوئی زور نہیں چل سکے گا‘‘۔ ہم اپنے محاسب خود ہی ہو سکتے ہیں کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ  اللہ ہم سے ’میرا بندہ‘کہہ کر مخاطب ہو؟ اور اپنی خاص رحمت کی چھتری تلے ہمیں پناہ عطا کر دے۔
رب العالمین کی طرف سے ’میرا بندہ‘ والی پیار بھری پکار سننے کے لیے ہمیں اس کا شکر گزار بندہ بننا ہوگا۔ہر نافرمانی، دراصل ناشکری کا مظہر ہے اور ہر ناشکری کا فطری نتیجہ نافرمانی ہے۔اس لیے نافرمانی سے بچنے کی شعوری کوشش کرنا ہوگی۔اللہ کے بندوں کا ہر وقت گلہ شکوہ کرنے والے بھی  اللہ کے شکرگزار نہیں ہوسکتے۔ جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔ اپنے متعلقین کے ساتھ ہر وقت گلے شکوے کرنے سے نہ خود کو خوش اور مطمئن رکھا جا سکتا ہے۔
دنیاوی لحاظ سے اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھنا ہوگا اور تقویٰ کے لحاظ سے اپنے سے بہتر لوگوں میں رہنا ہوگا۔اللہ رب العزت کی عطاکردہ نعمتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہوگا۔ اور یاد رکھنا ہوگا کہ نعمتوں کا غلط استعمال بھی ناشکر گزاری ہی ہوتا ہے، اور ایسے لوگ اللہ کے پسندیدہ نہیں ہوتے۔
قرآن پاک میںمتعدد مقام پہ ایسی بستیوں اور افراد کا ذکر ہے، جنھوں نے ناشکر گزاری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی خوش حالی کو بد حالی میں بدل دیا:

وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۝۷(ابراہیم ۱۴:۷) اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

اے اللہ، ہمیں اپنے بندوں کا بھی شکر گزار رہنا سکھا دے اور ہمیں ان قلیل خاص شکر گزار بندوں میں شامل فرمالے، جو تیرے خاص بندے ہیں اور جن پہ شیطان کا زور نہیں چل سکتا۔آمین !

صبرواستقامت

صبر کے مختلف پہلو ہیں: اپنے نفس کو نیکی پہ مائل کرنا، اس پہ اسقامت دکھانا ،نیکی کو اعلیٰ معیار پہ لانے کی سعی کرنا، سب صبر کے مختلف مظاہر ہیں۔عمل صالح کرنے کے لیے قدم بڑھانے کے دوران ، اپنے نفسِ امارہ کو سر کشی سے روکنا بھی صبر کا متقاضی ہے۔ نیکی کرنے کے لیے نفس پہ جبر کرنا پڑتا ہے تو برائی چھوڑنے کے لیے بھی نفس پہ ضبط کرنا پڑتا ہے۔دونوں صورتوں میں صابر بنے بغیر چارہ نہیں ہے۔
بندوں کو اللہ تعالیٰ نے مسابقت کے جس میدان میں اتارا ہے وہ: فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ (البقرہ ۲:۱۴۸،پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو) ہے۔ اس میں سرعت سے آگے بڑھنے کی تلقین ہے۔ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۝۰ۭ(الملک ۶۷:۲، تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے) کے معیار پہ پورا اُترنا، صبر و استقامت کا متقاضی ہے۔
بندوں میں حقوق و فرائض کی مساویانہ تقسیم سے دنیا میں معاشرتی امن وسکون کا توازن برقرار رہتا ہے، اور اس توازن کو بر قرار رکھنا سب انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ عدم توازن اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب حقوق لینا مقصدِ زندگی بن جائے اور فرائض سے پہلو تہی کی جائے۔ 
اسلامی معاشرے میں بندوں کی ایمانی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا حق لینے سے زیادہ فرض نبھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں،یعنی وسعتِ قلبی، مومن کی شان ہے۔ تنگیِ نفس ہر رشتے کی چاشنی چاٹ جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے کی جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے :

وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۹ۚ (الحشر۵۹:۹) اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

رمضان کے دوران خصوصاً طاق راتوں میں اپنے نفس کا جائزہ لیا جائے کہ حقوق و فرائض کے معاملے میں ہم اپنے نفس کو کہاں پاتے ہیں؟ تنگیِ نفس نے کتنی کا میابیوں کو ناکامیوں میں بدل دیا ہے؟ طمع ولالچ نے دل کو کتنا ویران کر رکھا ہے؟ رشتوں کی مٹھاس تنگ دلی کے سبب کس قدر کڑواہٹ میں بدل گئی ہے؟ ضد، ہٹ دھرمی اور انا کی تسکین کے لیے کتنے جنجال پال رکھے ہیں؟ حسد،غیظ و غضب کی آندھی نے محبتوں کے کتنے چراغ گل کر دیے ہیں؟ دوسروں پہ بہتان، الزام لگا کر کتنے دل توڑنے کا گناہ سرزد ہوا ہے؟ اپنے ’نفس امارہ‘ کو ’نفس مطمئنہ‘ بنانے کے لیےاپنے قصوروں کا اعتراف کرنا ،بندوں سے معافی مانگنا ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف فرمائے۔

خطا اور نسیان

 انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ خطا کا پتلا ہے۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ خطایا بھول چوک کی بازپُرس نہیں ہوگی۔ خطا وہ عمل ہے جو نیت اور ارادے کے بغیر اتفاقاً ہوجائے، جیسے چلتے چلتے کسی کے پاؤں پہ پاؤں آجائے یا ٹھوکر لگ جائے،ہاتھ سے کوئی چیز چھوٹ کر ٹوٹ جائے، کچھ رقم وغیرہ گننے میں غلطی ہو جائے۔ اس میں ایک اور چیز ہوتی ہے ’اشتباہ‘، یعنی کسی کام یا چیز میں شبہہ ہو جائے، جیسے ایک جیسی چیزوں میں سے کسی کی چیز اپنی سمجھ کر اٹھالی، وغیرہ۔
دوسرا معاملہ ’نسیان‘ ہے، یعنی بھول جانا، نماز پڑھتے ہوئے کچھ عمل بھول جانا یا شبہہ ہونا۔ بھول کر روزے میں کچھ کھا لینا، کسی کام کا یاد سے محو ہوجانا، ذہن سے نکل جانا ، یا بھول جانا، وغیرہ۔ نسیان اور خطا یا اشتباہ کی بنیاد پہ کوئی بھی عمل قابل گرفت نہیں ہوتا۔ ان کے لیے بھی دعا سکھائی گئی ہے:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ج  (البقرہ۲:۲۸۶) اے ہمارے ربّ،  ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں، ان پر گرفت نہ کر۔

لوگوں کو تکلیف ان جانے میں پہنچنے پہ ان سے معذرت کرنا ضروری ہے اور عذر قبول کرنا بھی اخلاق حسنہ ہے۔ 
دل میں آنے والے منفی خیالات بھی قابل گرفت نہیں، اِلّا یہ کہ زبان سے اظہار ہو یا عمل میں لے آیا جائے۔
انسانوں کے بے شمار نا پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ اپنی رحمت ِواسعہ کی نسبت سے معاف کرتا رہتا ہے۔ اگر اللہ ہر ناپسندیدہ عمل پہ گرفت کرتا تو کوئی جاندار زندہ رہنے کا حق دار نہ ہوتا۔ یہ اللہ کا بندوں پہ کرم ہے کہ وہ: وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ(المائدہ ۵:۱۵)، یعنی بہت سی باتوں سے درگزر کرجانے کا معاملہ کرتا ہے۔ 
نسیان،خطا یا دل کے خیالات پہ انسان ضمیر میں خلش محسوس کرتا ہے، مگر ویسی شدید خلش محسوس نہیں کرتا جو گناہ سرزد ہونے پہ ہوتی ہے۔گناہ وہی ہے جس کے ظاہر ہوجا نے پہ انسان کو رسوائی کا ڈر ہو۔اور جسے ہم معاشرے سے ، والدین، بہن بھائیوں سے چھپاتے ہیں۔ میاں یا بیوی ایک دوسرے سے اپنے غیر اخلاقی کام چھپائیں تو وہ حق تلفی کے ساتھ گناہ ہے۔ انسان کتنا نادان ہے! اپنے جیسے لوگوں سے چھپاتا ہے اور وہ جو علیم بذات الصدور ہے اس کے سامنے حاضر ہونے اور حساب دینے سے نہیں ڈرتا۔وہ جو ذرہ برابر نیکی اور برائی کو سامنے لے آئے گا۔
بعض اوقات ’نسیان‘ کے پیچھے اللہ کی حکمت کارفرما ہوتی ہے، اور کبھی شیطانی اثرات ہوتے ہیں۔ خطا اور نسیان کے بعد جو قابلِ مواخذہ اعمال ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود پامال کرنے والے اعمال ہیں۔ ان میں کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی تقسیم خود قرآن نے کی ہے ۔مثال کے طور پر قرآن میں بیان ہوتا ہے: ’’جن بڑے بڑے گناہ کے کاموں سے تمھیں منع کیا گیا ہے اگر تم ان سے بچتے رہے تو ہم تمھاری (چھوٹی موٹی) برائیوں کو تم سے (تمھارے حساب سے) محو کردیں گے اور تمھیں عزت کی جگہ داخل کریں گے‘‘(النساء۴: ۳۱)۔ ایک اور مقام پر کبیرہ گناہوں کا ذکر آتا ہے:’’اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب انھیں غصہ آئے تو معاف کردیتے ہیں‘‘(الشوریٰ ۴۲:۳۷)۔ان آیاتِ مبارکہ سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی تفریق موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہیں تو چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو اللہ معاف کردیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں میں فرق کیا ہے اور کس گناہ کو کبیرہ اور کسے چھوٹا سمجھا جائے؟یہ ایک مشکل سوال ہے اور اس پر مختلف علما کی مختلف راے ہے۔ کچھ علما گناہوں میں اس تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر گناہ اللہ کی معصیت اور نافرمانی ہے اور    یہ نافرمانی چونکہ ایک عظیم ہستی کے حکم کی ہے، اس لیے ہر گناہ، کبیرہ گناہ ہی ہے۔ اصول کے اعتبار سے یہ بات درست ہے لیکن عملی طور پر صحیح نہیں۔ اس کی دلیل خود قرآن کی اُوپر بیان کردہ آیات ہیں۔
 یہی اصول اس حدیث میں بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت سعید بن عاص سےمروی ہے کہ مسلمان فرض صلوٰۃ کا وقت پائے اور اچھی طرح وضو کرے اور خشوع وخضوع سے صلوٰۃ ادا کرے تو وہ نماز اس کے تمام پچھلے گناہوں کے لیے کفّارہ ہو جائے گی، بشرطیکہ اس سے کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو اور یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہے گا( مسلم،جلد اول،حدیث :۵۴۳)۔اس کا مطلب ہے صغیرہ گناہ وہ ہیں، جو یا تو اللہ تعالیٰ خود ہی معاف کردیتا ہے یا پھر وہ عام نیکیوں سے مٹ جاتے ہیں ۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک گناہ اگر چھوٹا ہے لیکن اس پر اصرار کیا جارہا ہے یا اس کے کرنے کی نیت اللہ سے بغاوت یا دین کا مذاق اڑانا ہے، تو وہ کبیرہ گناہ میں بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص بار بار کسی نامحرم کو دیکھ کر لذت حاصل کررہا ہے اور وہ گناہ کو چھوڑنے کی کوئی کوشش نہیں کررہا، تو یہ عمل گناہ کبیرہ میں بدل جاتا ہے: رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۝۱۹۳ۚ (اٰل عمرٰن۳:۱۹۳) ’’اے ہمارے آقا، جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو بُرائیاں ہم میں ہیں انھیں دُور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر‘‘۔ 
رمضان المبارک کی ساعتیں ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ایمان اور احتساب کے ساتھ وقت گزاریں اور شب قدر کی تلاش کریں اور جو مسنون اور قرآنی دعائیں ہیں ان کو دل کی گہرائیوں سے کریں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کی بد بختی کی نشان دہی کی ہے، جو رمضان المبارک کو پائے اور اللہ رب العالمين سے اپنے گناہوں کی بخشش نہ کروا سکے۔اسی بدبختی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی ناراضی سے بچنے کے لیے ہر مسلمان کو بھر پور محنت اور کوشش پوری لگن کے ساتھ کرنی چاہیے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَـنِّیْ ، خدایا! تو بہت ہی زیادہ معاف فرمانے والا ہے کیوں کہ معاف کرنا تجھے پسند ہے، پس تو مجھے معاف فرما دے۔

آج کے عدیم الفرصت دور میں اگر خوش قسمتی سے فرصت کے کچھ لمحات میسر آجائیں اور اہلِ خانہ مل جل کر کچھ وقت گزار سکیں تو بلاشبہہ یہ اللہ کی کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اسی بات کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصروفیت سے پہلے فرصت کو غنیمت جانو (ترمذی)۔ لہٰذا نبی کریمؐ کے اس ارشاد کے مطابق فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے فرصت کے ان لمحات کو بہترین انداز میں صرف کرنا چاہیے۔ بالخصوص انفرادی اصلاح، گھر کے ماحول کی بہتری اور بچوں کی تربیت اور کردار سازی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنا کر ایک مربوط پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم فرصت کے لمحات کی صحیح معنوں میں قدر نہیں کرتے۔ ملک کے بعض حصوں میں ہر سال گرمیوں کی اور بعض علاقوں میں سردیوں کی طویل چھٹیاں آتی ہیں۔ ان کی آمد جہاں طالب علموں،اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہے، وہاں گھر کی خواتین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اس قیمتی وقت کو کماحقہٗ استعمال نہیں کرسکتیں اور نہ ان دنوں ہی سے فیض یاب ہو پاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کی مائیں اور خصوصاً لڑکوں کے والدین ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ اس ضمن میں چند عملی نکات پیش ہیں:

  • …  پہلا مرحلہ شب و روز کے لیے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ نبی کریمؐ کے فرمان کے پیش نظر کہ صبح کے وقت میں برکت ہے، اپنے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کیجیے۔ نمازِ فجر کے بعد ہی سے دن بھر کی سرگرمیوں کا آغاز کیجیے۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت سونے کی نذر نہ کریں۔ عام طور پر تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی بچوں کا رات کے وقت جاگنا اور صبح دیر سے اُٹھنے کا معمول بن جاتا ہے جو کہ نامناسب اور خلافِ فطرت ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی نمایاں ہے کہ لوگ رات گئے اسے دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رات آرام و سکون کے لیے اور دن کام کے لیے بنایا ہے۔ اس کے لیے والدین خود عملی نمونہ پیش کریں۔

___ بچوں کی عمر، تعلیم، مصروفیات کو مدنظر رکھ کر، بچوں سے مشاورت کرکے سونے کے اوقات کا تعین کرلیا جائے اور اس پہ کاربند بھی رہا جائے۔ رشتہ دار بہنوں بھائیوں کے سامنے اس بات کا اظہار نہ کریں کہ ’’لمبی چھٹیاں ہوگئی ہیں۔ اب تو ہر وقت بچے سر پہ سوار رہیں گے‘‘۔ اگر اپنے بچوں کا استقبال ان جملوں سے کریں گی تو آپ کے اور بچوں کے درمیان پہلے دن ہی دُوری کا احساس لاشعور میں جا بسے گا، اور وہ وقت جو آپ کے حُسنِ استقبال سے بچوں کے دلوں میں بہار لا سکتا تھا ضائع ہوجائے گا۔

___ بچوں کے ساتھ مل کر ہرہفتے کا پروگرام ترتیب دیجیے۔ ان کے ذہن اور دل چسپیوں کے مطابق ذمہ داریاں بانٹ دیجیے۔ فون پہ گھنٹوں گفتگو میں مصروف رہنا، اگرچہ کوئی صحت مند سرگرمی نہیں، مگر جب آپ کی سب سے ’قیمتی متاع‘ اور وہ ’خزانے‘ آپ کے سامنے موجود ہیں، جن کی حفاظت و نگہبانی پہ آپ کے ’مستقبل‘ یعنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے تو اس خزانے کو ضائع کیوں کریں؟ جس گھر میں جتنے بچے ہیں، یقین جانیے اتنے ہی حل طلب پرچے موجود ہیں۔ اس وقت ان ’پرچوں‘ میں بہترین گریڈ حاصل کرنے کا کام دنیا کے سب کاموں سے زیادہ اہم ہے۔

  • … فجر کی نماز کے لیے اُٹھنے پہ انعام دیا جاسکتا ہے۔ ایک بھائی یا بہن کی فجر کے وقت اٹھانے کی ذمہ داری لگایئے اور پھر اس کو تبدیل کرتے رہیے تاکہ سب کو ذمہ داری کا احساس ہو، اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی میں تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔ ایک دوسرے کا حفظِ قرآن سن لیں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اجتماعی مطالعے کی ایک مختصر نشست بھی ہوسکتی ہے جس میں چند آیات کی مختصر تفسیر، ایک حدیث کا مطالعہ اور لٹریچر سے کچھ انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں وغیرہ تھوڑا تھوڑا کرکے یاد کی جائیں۔ گھر کے افراد کے ساتھ ’آج کے ایجنڈے‘ پہ بات ہو۔ سب اپنی اہم مصروفیات کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کریں۔ اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مشورہ طلب کریں اور تعاون کی پیش کش کریں۔ نبی کریمؐ کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ جس کا آج اس کے کل سے   بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا، گذشتہ کل کا جائزہ بھی لیا جائے کہ اپنے آج کو گذشتہ کل سے کیسے بہتر بنایا جائے۔ اس طرح اپنا جائزہ و احتساب اور مشورہ دینے اور قبول کرنے کی تربیت بھی ہوگی۔ اگر  چند منٹ بھی مل کر بیٹھیں گے تو اس کی برکت کے اثرات بہت جلد محسوس ہونے لگیں گے۔ نمازِ فجر ادا کر کے جلد از جلد سو جانے کی غیرفطری روایات نے انسانی روح کا حُسن غارت کر دیا ہے۔ نماز فجر کے بعد سونا ناگزیر ہو تو بھی دوبارہ اٹھنے کا وقت مقرر کردیا جائے۔ ایک زندہ قوم اٹھانی ہے تو آج کے والدین زندہ لمحوں کو اپنی زندگی میں جذب کریں۔
  • … چھٹیوں میں سب اہلِ خانہ ایک ساتھ ناشتہ، دونوں وقت کا کھانا کھائیں تو باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ بچوں اور بچیوں کو جس قدر ہوسکے اپنے قریب رکھیے۔ کمپیوٹر ایسی جگہ پہ رکھیے جہاں آپ اس پہ نظر رکھ سکیں۔ اگر آپ کو کمپیوٹر سے کوئی لگائو نہیں تو اس کی تھوڑی بہت مشق آپ کو کرنی چاہیے۔ جب چھوٹے بچوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے والدین سے زیادہ کچھ جانتے ہیں تو ایک احساسِ برتری پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا اکثر بچے اپنی مائوں کو اندھیرے میں رکھتے ہیں کہ ہم کام کررہے ہیں، حالانکہ وہ جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں مائیں ان سے غافل ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر نے اس دور کے ماں باپ کو سخت امتحان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اکثر ماں باپ نے اس آزمایش و امتحان میں کامیاب نہ ہوسکنے کا اعلان کر کے، جیسے خود کو بری الذمہ قرار دے لیا ہے۔ احساسِ مروت کو کچلنے والے آلات کا مقابلہ خلوصِ نیت، مستحکم ارادے، سچے ایمان اور مناجات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ واقعی اگر ہم یہ راز جان لیں کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی اور جب تک آنکھیں اَشک بار نہ ہوں تو مناجات بھی بے اثر رہتی ہے۔
  • … فرصت کے لمحات کو محض ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی نذر نہ ہونے دیں۔ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ان کو متبادل مصروفیات اور مشاغل دیں۔ بچوں کو ان کی عمر اور ذوق کے لحاظ سے کوئی نیا کام سکھانے کی کوشش کیجیے۔ کاغذ کے کھلونے بنانا ، کاغذ پہ تصویر بنانا، رنگ بھرنا، سلائی کرنا، کسی ڈیکوریشن پیس کو صاف کرنا___ والد لڑکوں کو ساتھ ملا کر گھر کی مرمت طلب اشیا کو ٹھیک کرسکتے ہیں کہ مل جل کر گھر کے بگڑے کام سنوارنا بھی ایک فن ہے۔ آپ کو یہ کامیابی اسی صورت میں ملے گی، جب آپ اپنی پوری توجہ، وقت اور معاونت بچے کو مہیا کریں گی۔

___  اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کرکے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کرکے کام کروایئے۔ ٹیوشن پڑھوانا مجبوری ہو تو بچے کے معاملات پر نظر رکھیں۔

___ گھر میں لان یا کیاری کی جگہ ہو تو بچے کو کوئی پودا اُگانے، اس کی نگہداشت کرنا سکھایئے۔ بچوں کی ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انھیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اپنی مصروفیات میں اس کے لیے بھی وقت رکھیں۔ یہ بچوں کا حق ہے جو انھیں ملنا چاہیے۔ والدین کی شفقت سے محرومی کے نتیجے میں بچے احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی جذبہ منفی رُخ اختیار کرلے تو بچے غلط صحبت اختیار کرلیتے ہیں اور انتقامی جذبہ سر اُٹھا لیتا ہے۔

___  بچوں کے دوستوں کو گھر بلوایئے اور ان کی عزت کیجیے، ان کو توجہ دیجیے تاکہ وہ آپ پہ اعتماد کریں۔ بچوں کے دوستوں کے گھروالوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیے۔ اگر آپ کے خیال میں ان کے گھر کے ماحول سے آپ مطمئن نہیں تو بچے کو برملا نہ کہیں___ حکمت و تدبر سے کام لیجیے تاکہ آپ کے اور بچے کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔

___  بچوں میں ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانا، اس کی تسکین کا سامان کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ اچھی اچھی کتب و رسائل پڑھنے کو فراہم کریں۔ بچوں کو کہانی سننا اچھا لگتا ہے۔ دل چسپ انداز میں کہانی سنایئے، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کہانی پڑھیے اور پھر اس پر بات چیت ہو۔ ذوقِ مطالعہ بڑھانے میں یہ مددگار ہوسکتا ہے۔ کسی اچھی لائبریری کا تعارف کروایئے اور معیاری کتب منتخب کرکے دیں۔ اس طرح اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ہوجائے گی۔

___  اچھائی اور برائی کے پہلو کی بچے کی عمر کے مطابق وضاحت کریں۔ بچوں کے ساتھ وہ پروگرام اور کارٹون دیکھے جائیں جو وہ شوق سے دیکھتے ہیں۔ ان کے اچھے اور بُرے پہلو کو بحیثیت مسلمان اُجاگر کیا جائے اور بچوں کو مسلمان ہیروز کے بارے میں بتایا جائے۔ قرونِ اولیٰ کے بچوں کی ایمانی کیفیت کی اخلاق و کردار کی کہانیاں سنائی جائیں۔ جن تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں وہاں کے ماحول اور نصابِ تعلیم کے بُرے اثرات، آپ کو اپنی محنت و خلوص سے ہی ختم کرنے ہوں گے۔ اگر ختم نہ بھی ہوں تو آثار کم تو کرنا ہی ہیں۔ آپ محنت کی مکلف ہیں۔ دو ڈھائی ماہ بچے آپ کے لیے عذابِ جاں نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے پیش نظر انھیں توجہ دینا، وقت لگانا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ یہ آپ کا اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ آپ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہیں۔ آپ راعی ہیں اور اپنی رعیت کی نگہانی آپ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت کی صورت میں بہترین تحفہ دے سکتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)

  • … روزانہ نہ سہی ہفتہ میں چند احادیث بچوں کے ذہن نشین ضرور کرائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات، محبت کے مظاہر یاد کرواتے رہیں تو بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔  کلامِ اقبال کے مختلف حصے بھی یاد کرایئے۔ یہ چیز بھی ان کی تربیت پہ بڑی خوبی سے اثرانداز ہوگی۔
  • … آج کے بچے کل کے قائد ہیں۔ مستقبل کی قیادت کی تیاری کے پیش نظر گھر کی ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لیا جاسکتا ہے، مثلاً نوعمر (teen age) بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کرکے دیکھا جائے کہ ایک دن والدین، گھر میں اپنی ذمہ داریاں، اپنی جگہ، اپنے بچوں کو سونپ کر خود ’بچے‘ بن جائیں۔ بچوں کو باری باری سے ایک دن کی ’بادشاہت‘ دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر کو سامنے لایا جاسکتا ہے، اور یہ ایک دل چسپ تجربہ بھی ہوگا۔
  • … نوعمر بچوں کو ’جج‘ بناکر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے، کھیل کے طور پر پیش کیے جائیںتاکہ ان کو انصاف کرنے، فیصلہ کرنے کی تربیت دی جاسکے۔ بچوں کی لڑائی میںصلح کرانا،  ان کی شرارتوں، نادانیوں کی اصلاح کرانے کے لیے ان سے تعاون لیا جاسکتا ہے۔ جب نوعمر بچوں سے ذمہ دار، قابلِ اعتماد ہستی کے طور پر برتائو کیا جاتا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔

___  نوعمر بچوں کو احساس دلانا کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ’راعی‘ ہیں، لہٰذا شفقت و محبت اور تحمل و برداشت سے ان کی بہتری کے لیے کوشاں رہیں۔ والدین کی نگرانی اور توجہ سے تربیت کا یہ عمل اگر آگے بڑھتا رہے تو ایک اہم پیش رفت ہوگی۔

___  لڑکوں کو باجماعت نماز کی عادت پختہ کروایئے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح نوعمر لڑکوں کو امامت کے آداب سکھائے جاسکتے ہیں۔

  • … جمعہ کو ایک روزِ خاص کے طور پر منانا___ اہلِ خانہ کا مل کر ’سورئہ کہف‘ کی تلاوت کرنا، باعث سعادت و برکت ہوگا۔ ہر فرد ایک رکوع کی تلاوت کرکے ثواب میں حصہ دار ہوسکتا ہے۔ جمعہ کی نماز کے لیے سب اہلِ خانہ تیار ہوکر مسجد میں جائیں تو گھر میں صبح سے جمعہ کی تیاری، نماز میں شرکت سے ’عید‘ کا سماں بندھ جائے گا۔ اگر اہتمام سے کسی اچھے مقرر کے خطابِ جمعہ کو سنا جائے تو جمعہ کی تربیتی اہمیت بھی اجاگر ہوگی اور دین کا فہم اور فکری غذا بھی میسر آئے گی، نیز ایک تسلسل سے ہفتہ وار تربیت کا عمل جاری رہے گا۔
  • … گھر میں یا گھر سے باہر بچوں کے ’اسلامی نغمے‘ سننا اور اس میں ہم آواز ہونا،  آپس میں رفاقت اور محبت کی خوشی کو دوچند کر دے گا۔ اس سے بے تکلفی کا ماحول پیدا ہوگا۔ یہ ذہنی دبائو کو کم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
  • … کبھی کبھار بچوں کے ساتھ ان کی ذہنی سطح پہ آکر کھیل میں شریک ہونا، ان کی باتوں میں دل چسپی لینا، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل میں مقابلہ کرنا___ کبھی جیت کر، کبھی بچوں سے ہارکر ___ دونوں کیفیات میں صحیح طرزِعمل کی تلقین سے کھیل ہی کھیل میں بچوں کی جذباتی تربیت کے ساتھ ساتھ کئی رویوں کی رہنمائی ہوگی۔ اگر صبح یا شام کے وقت بچے باقاعدہ کھیل کے میدان میں جاکر کھیل سکیں تو یہ بہت مفید سرگرمی ہوگی۔
  • … نوعمر بچوں پہ اپنے خیالات کو حاوی کرنا___ اپنی پسند اور راے کو زبردستی ٹھونسنا مناسب نہیں۔ دلیل سے بات کو منوایئے۔ یہ عمر اپنی صلاحیتوں کا اظہار چاہتی ہے۔ ان سے مشورہ لینا اور تحمل سے ان کا نقطۂ نظر سننا ان کے اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ کبھی ان کے مشورے اور راے کے سامنے اپنی راے چھوڑ بھی دینی چاہیے۔ بعض اوقات بچوں کے مشورے اور راے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ وہاں جاتی ہے، جہاں بڑوں کی نگاہ نہیں جاتی۔ بچوں کے ذہن اور عمر کو مدنظر رکھ کر بھی معاملات کو جانچا جائے۔
  • … بچوں کے ساتھ صبح یا شام کو اگر کہیں ممکن ہو تو کسی پارک میں، نہر کے کنارے یا ساحلِ سمندر پہ پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے۔ فجر کے بعد کھلی فضا میں چہل قدمی کا لطف اُٹھایئے۔ کائنات کے اس وقت کا حُسن قدرت کے قریب کرنے کا موجب ہوگا۔ بچوں کو کائنات پہ غوروفکر کی دعوت دیجیے۔
  • … طویل چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں، مثلاً خوش خطی،  مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کچھ مزید کام اور خواتین سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ سکھا سکتی ہیں۔ اپنے تجربات و مشاہدات کو آپس میں زیربحث لایا جاسکتا ہے۔ بچے ہمارا مشترکہ سرمایہ اور ہمارا مستقبل ہیں۔ بحیثیت اُمت مسلمہ ہماری ذمہ داریاں عام انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ ان کو ادا کرنے کے لیے اجتماعی سوچ اور عمل کی ضرورت ہے۔
  • … بچوں کو ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کے لیے لے کر جانا، اللہ تعالیٰ کے شکر کا جذبہ پیدا کرنا، اور دوسروں سے ہمدردی، محبت کا اظہار کرنا سکھانا، اس لیے کہ آج کے دور میں ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ ایک گھر کے افراد بھی ایک گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ یہ بیگانگی رشتوں کے باہم تعلق و تقدس کے لیے سمِّ قاتل ہے۔
  • … حلقۂ احباب ، رشتہ داروں وغیرہ کے ساتھ مل کر پکنک پہ جانا، جہاں حقوق العباد کی اہمیت اُجاگر کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اسلامی تہذیب کے آداب سکھانے میں بھی مفید ہے۔
  • … بچوں کی تربیت اور سکھانے کے عمل میں ماحول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تزکیہ و تربیت میں دعوتِ دین اور دعوتی سرگرمیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر آپ کے ہاں درس قرآن، دوست احباب کو دعوت دینا، لٹریچر تقسیم کرنا، خدمت خلق کے تحت مستحق افراد کی مدد کرنا اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا معمول ہو تو یہ عمل بغیر کسی نصیحت اور تلقین کے بچوں کو خود بخود سیکھنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس طرح اُمت کے فرض منصبی، نبی کریمؐ کے مشن اور فریضہ اقامت دین کو فطری انداز میں بخوبی آگے ادا کیا جاسکتا ہے، اور بچوں کو تحریک سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔

بیرونِ ملک پاکستانی والدین کی ذمہ داری

  • … بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی بچوں کو پاکستان کے حالات سے آگاہ کرنا، پاکستان کی تاریخ سے آگاہ کرنا، اور وطن اور اُمت سے محبت پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اگر والدین خود پاکستان کے بارے میں منفی گفتگو کریں گے تو وہ بچوں کو وطن کی محبت کیسے سکھائیں گے۔ بیرون ملک وہ پاکستانی بچے جو اُردو نہ بولنے اور نہ پڑھنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں، ان کے والدین کو احساس کرنا چاہیے کہ یہ بچے پاکستانی ہوکر بھی پاکستانی نہ ہوں گے تو پھر ان کی شناخت کیا ہوگی؟ خصوصاً وہ پاکستانی بچے جو شرق اوسط میں یا ان ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں ان کو وہاں کی شہریت بھی نہیں مل سکتی تو وہ آخرکار پاکستانی پاسپورٹ پہ ہی پاکستان آئیں گے۔ اگر اپنے وطن سے پیار ہی نہ ہوگا تو وہ اس کے لیے کیا عملی خدمات انجام دے سکیں گے، لہٰذا چھٹیوں میں ان والدین کو چاہیے کہ خاص طور پر اپنے بچوں کو پاکستان کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں سے ان کو آگاہ کریں۔ اگر ممکن ہو تو اپنے وطن کی سیاحت اور عزیز و اقربا سے ملاقات کا پروگرام بھی بنایئے۔ اس سے جہاں وطن کی قدر پیدا ہوگی وہاں بہت سے چاہنے والوں کی پُرخلوص محبتیں بھی ملیں گی جو قربت کا باعث ہوں گی۔

___ اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیوں میں کسی تفریحی مقام پہ جا رہے ہیں یا کسی رشتہ دار کے ہاں مقیم ہیں تو بھی یہ تربیت کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مظاہر، رشتہ داروں کے حقوق کی اہمیت کا ساتھ ساتھ احساس دلایا جاتا رہے۔ جتنا سفر میں انسان سیکھتا اور سکھاتا ہے___ وہ گھروں میں ممکن نہیں ہوتا___ ہروقت کا ساتھ___ کچھ نئے عوامل، سفر کے تجربات، بہت کچھ نیا سیکھنے کو ہوتا ہے۔

  • … چھٹیوں میں اسلامی تربیتی کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں، والدین وہاں بچوں کو بھیجیں اور بیرون ملک رہنے والے تربیتی ادارے ان کیمپوں میں پاکستان اور اُردو زبان سے تعلق کا کوئی پروگرام ضرور رکھیں۔
  • … گھر میں پاکستان کا تفصیلی نقشہ لٹکا کر رکھیں تاکہ بچوں کے ذہن میں ملک کا حدود اربعہ نقش ہوجائے، اور مقامات کی پہچان ہوجائے۔
  • … پاکستانی اور سب سے پہلے مسلمان ہونے کا احساس، والدین اور خصوصاً والدہ کا طرزِعمل، خود ہی بچوں میں اُجاگر کردے گا۔ بچوں میں اتنی ایمانی جرأت پیدا کیجیے کہ وہ مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے پہ فخر کرسکیں۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں سے آگاہی دیجیے۔ اگر آج ہم نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کچھ کیا ہے، یا اپنے غیرایمانی طرزِعمل سے بچوں کو غلط تاثر دیا ہے تو اس غلطی کی اصلاح کیجیے۔ غلطی کرنا اتنا بڑا عیب نہیں جتنا بڑا عیب غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ تسلیم کریں گے تو اصلاح ہوگی۔ اپنی اصلاح ہوگی تو بچوں سے کچھ کہنے کے لیے اپنے اندر اعتماد پائیں گے۔
  • … ہر والد، والدہ، اپنے خاندان کے مزاج، ماحول، حالات کو سامنے رکھ کر چھٹیوں کو اپنے لیے یادگار بناسکتا ہے۔ مسلمان ہیں، مسلمان گھرانہ ہے تو اس کو عملی طور پر ثابت بھی کرنا ہوگا۔ حسنِ نیت اور خلوص سے بھرپور کوشش کرنے والوں کو ہی اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
  • … آخرت میں وہ مسلمان والدین ہی اس ’اجرعظیم‘ کے مستحق ہوں گے جنھوں نے اولاد جیسی نعمت کو ضائع نہیں کردیا ہوگا بلکہ پوری ہوش مندی اور شعور سے ’داعی‘ کی ذمہ داریاں نبھائی ہوں گی۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸:۲۸) ’’اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔
  • … آج ہی عزم کیجیے___ پروگرام مرتب کیجیے___ چھٹیوں کے ہر دن کو ایسا بنانا ہے کہ وہ ’گزرے کل سے بہتر ہو‘۔ اِک نئے جذبے سے بچوں کے ساتھ دوستی، محبت کا رشتہ استوار کیجیے___  اپنے لیے، اُمت مسلمہ کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے، اپنی آخرت سنوارنے کے لیے۔ ضروری نہیں کہ وہ سب منصوبے جو آپ بنائیں وہ پورے ہوں۔ حالات و واقعات ان میں ردّ و بدل کروائیں گے لیکن آپ نے اس ردّ و بدل میں بھی اپنا اصلی ٹارگٹ نہیں بھولنا۔ بچے آپ کا قیمتی خزانہ ہیں___ ان سے غافل نہیں ہونا۔
  • … ایک بات کا خاص طور پر خیال رہے کہ نبی کریمؐ کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو  ثابت قدمی سے مسلسل کیا جائے۔ لہٰذا فرصت کے لمحات اور چھٹیوں کے لیے جو نظام الاوقات اور تربیتی امور طے کرلیں، انھیں باقاعدگی سے انجام دیں، اور چھٹیوں کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں، تب ہی مؤثر اور نتیجہ خیز تربیت ہوسکے گی۔ اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد، استعانت اور دعائوں کا خصوصی اہتمام بھی ضرور کیجیے۔

آیئے دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمارے شریکِ زندگی اور ہماری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے اور ہمیں وہ تقویٰ عطا کردے کہ ہم نیک لوگوں کے امام بن جائیں اور ہماری نسلیں ہمارے لیے صدقۂ جاریہ ہوں۔ آمین!

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴)

 

دور آدم علیہ السلام ہو کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ ، بنی اسرائیل کا سلسلۂ نبوت ہو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تاقیامت زمانہ ، اللہ تعالیٰ نے ازل سے ابد تک فلاح و خسران کا ایک ہی پیمانہ متعین کیا ہے۔ خلافت راشدہ کے زمانے کو ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ خود شمع اسلام کے پروانے حرص و ہوس کی آگ بھڑکانے لگے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ یہ چراغ کبھی گل نہ ہوگا۔ انبیا کی بعثت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد وہ رحمن و رحیم ذات اپنے برگزیدہ بندوں کو شمع ہدایت دے کرانسانوں کو بھٹکنے سے بچاتی رہے گی۔

۱۲ ویں صدی ہجری میں جب عالم اسلام کی حالت دگرگوں ہو رہی تھی اور تاریخ جاہلیت کا سبق دہرا رہی تھی۔ رب رحیم نے ہندستان میں سیداحمد شہید اور سید اسماعیل شہید کو شجر اسلام کی آب یاری کے لیے چنا ، ا ن کا خون بالا کوٹ کی سرزمین کو سیراب کررہاتھا تو ادھر شیخ محمد بن عبدالوہاب بن سلمان سرزمین عرب کو اندھیاروں سے نکالنے میں مصروف تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا اور اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے ارتقا کے ساتھ اور   نئی جہت کے ساتھ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے شمع رسالتؐ کے پروانوں کاانتظام فرمایا۔

یہ مغربی کفر و استبداد کا زمانہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے ’ملا کی اذاں‘ اور ’مجاہد کی اذاں‘ کو واضح کرنے کے لیے برعظیم میں علامہ اقبال ا ور سید مودودی جیسے مفکر اسلام کی آواز کو شرق و غرب میں پہنچایا اور مصر میں حسن البنا کی آواز’مجاہد کی اذاں‘ قرار پائی۔ حسن البنا نے صرف بیس سال کے عرصے میں ایسا ذہنی و فکری انقلاب برپا کردیاکہ اس کی مثال خال خال ملتی ہے۔اس فقیر منش انسان کو عاجز ی و انکساری بے حد پسند تھی۔ ان کا ایک پسندیدہ شعر تھا    ؎

ما لذۃ العیش الا صحبۃ الفقراء
ھم السلاطین و السادات والامراء

(زندگی کا لطف اللہ والوں کی صحبت ہی میں ہے، دراصل وہی ہمارے سلطان، سردار اور رہنما ہیں۔)

مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی بیان کرتے ہیں:’’جب میں ۱۹۴۶ء میں یورپ سے مصر واپس لوٹا‘ تو میں نے پہلی مرتبہ حسن البنا کو بچشم سر دیکھا۔ میں نے متعدد مرتبہ ان کی گفتگو سنی۔ مجھے ان کے اندر صاف و شفاف روح نظر آئی۔ جوں جوں ہمارے تعلقات مستحکم ہوتے گئے مجھ پر انکشاف ہوتاگیا کہ اس عظیم انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نادر خوبیوں ، اعلیٰ خصائل اور کریمانہ صفات سے نواز رکھاہے۔ گہرا اخلاص ، عقل سلیم ، عزم قوی ، بلند ہمتی ، ایثارکیشی ،ثابت قدمی ، مادی زندگی سے گریز ،دنیاوی مال و منال سے بے نیازی ان کی نمایاں صفات تھیں۔ سادگی ان کا طرۂ امتیاز تھا اور قناعت ان کے مزاج کا حصہ تھی۔یہی وہ اوصاف تھے جن کی بنا پر وہ قیادت کے منصب پہ  سرخ رو ہوئے اور زندگی کی امانت اپنے رب کے حضور شہادت کے ساتھ واپس کی‘‘۔

حسن البنا شہید کی زندگی مختصر تھی لیکن ان کی تعلیمات پُر اثر اور جدوجہد باثمر ہے۔ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کا فلسفہ انھوں نے سچ کردکھایا۔ حسن البنا شہید کے وہ انقلاب انگیز الفاظ جو آج بھی اخوان کے پروگراموں میں نعروں کی شکل میں گونجتے ہیں دلوں   کے لیے نشاط انگیز اور میدان عمل کے لیے کسی حربی ترانے سے کم نہیں: ’’اللہ ہمارا مقصود ہے رسولؐ اللہ ہمارے قائد ہیں۔ قرآن ہمارا دستور ہے۔ جہاد ہمارا راستہ ہے اور شہادت ہماری اعلیٰ ترین آرزو ہے۔یہ الفاظ محض نعرہ ہی نہیں، بلکہ حسن البنا نے اپنے جسم کے روئیں روئیں میں اور زندگی کے ہر سانس میں ان کو اُتار لیاتھا۔ ہر لفظ کو ایک عہد و پیمان سمجھ کر اپنی روح میں اُتارا اور اسی جذبے اور تابانی روح کو اپنے ساتھیوں کے دلوں میں منتقل کیا اور ان کے ظاہر و باطن کو اُجلا کردیا۔

حسن البنا شہید نے جس دور میں اسلامی انقلاب کا علَم اٹھایا اس وقت شرکیہ عقاید ، علم نجومِ و اوہام پرستی‘ فرقہ بندی‘ فقہی مسائل میں ائمہ دین کا آپس میں ٹکرائو اور متشابہات کی من مانی تاویلات کا غلبہ تھا۔ ایک دین کے پیرو کار ہوتے ہوئے بھی لوگ گروہ بندی ، تعصب ، بغض و عناد میں مبتلاتھے۔ حسن البنا شہید کے فہم و تدبر اور کردار کی پختگی و استقامت نے عوام الناس خصوصاً  تعلیم یافتہ نوجوانوں کو صحیح العقیدہ فہم عطا کیا۔

حسن البنا نے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کا حقیقی تصور اجاگر کیا۔ لوگوں نے یہ جان لیا کہ اسلام ہی مکمل ضابطہ حیات ہے،اور یہ سلطنت ، وطن ، حکومت ، رعایا، ضابطۂ اخلاق ، طاقت ، رحم، عدل ،ثقافت ،قانون ،علوم معاش میں فیصلہ کن طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام دعوت بھی ہے اور جہاد بھی۔ اسلام ہی جوش بھی ہے ہوش بھی۔ عقیدت و محبت کا منبع و سرچشمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ ہیں۔ حسن البنا شہید کی دور رس نگاہ نے تزکیہ نفس کے مروجہ خانقاہی طریقوں کے بارے میں لوگوں کا ذہن صاف کیا۔ دلیل کی روشنی میں حقیقت تک پہنچنے کی راہ سجھائی۔ حسن البنا شہید نے اپنے ممبران کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ نیک لوگوں سے تعلقا ت بنائیں۔ نیک صحبت اختیار کریں۔ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے اس کی تلاش میں اور اس کے حصول میں کوشاں رہیں۔

ان کی تعلیمات میں ’فہم ‘پہلا تربیتی نکتہ تھا جس کو انھوں نے ایک عہد و پیمان کی طرح لوگوں کی روح و عمل میں اتار دیا، اور ساتھ ہی ’اخلاص ‘ کا وہ رنگ قلب وذہن میں پختہ کردیا کہ   ان صلوٰتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمینحرز جان بن جائے۔    فہم و اخلاص کا لازمی نتیجہ ’ عمل‘ ہے اور عمل سے مراد ایسا عمل ہے کہ جو فہم اور اخلاص کا پھل ہو۔   اس پھل کو حاصل کرنے کے لیے کچھ منازل طے کرنا پڑتی ہیں۔ ان منازل کو طے کرانے کے لیے  حسن البنا شہید نے خصوصی تربیتی کورس کروائے۔ سب سے پہلے مرحلے میں مضبوط جسم کے لیے صحت کا خیال رکھنا، اس کے لیے ورزش ، محنت، مشقت ، خواہشات نفس پہ کنٹرول کی تربیت ،  نفس کے خلاف جہاداور اس سلسلے میں اپنا کڑا محاسبہ اور امتحان لیتے رہنا شامل ہے۔

دوسرا مرحلہ : قوا انفسکم و اھلیکم ناراً کی عملی تفسیر بننا۔ گھر کے ہر فرد ، حتیٰ کہ خادموں کی تربیت اور حقوق کا دینی شعور پیدا کرنا۔

تیسرا مرحلہ :معاشرے کی اصلاح ، راے عامہ کو اسلامی فکر کے لیے ہموار کرنا۔

چوتھا مرحلہ : اپنے وطن کو غیر اسلامی حکومت سے آزاد کرانے کی جدوجہد کرنا۔

پانچواں مرحلہ :حکومت کی اصلاح ،تاکہ وہ صحیح اسلامی حکومت بن سکے اور حکومت کو صحیح اسلامی خطوط پہ استوا ر رکھنے کے لیے اس کی رہنمائی کرنا۔

چھٹا مرحلہ : امت مسلمہ کے حاکمانہ وجود کا احیا کرنا۔ اس کے لیے امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کرنا--- اور امت مسلمہ کی مایوسی ، پژمردگی ، غلامانہ ذہنیت کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا۔

عمل کے اس پھل کا لازمی نتیجہ ’جہاد‘ہے۔ کفر کو دل سے ناپسند کرنا جہاد کا ابتدائی درجہ ہے اور اللہ کی راہ میں جنگ لڑنا اس کا انتہائی درجہ ہے۔ دعوت اسلام، جہاد کے ذریعے ہی زندہ ہوسکتی ہے اور یہ جہاد: وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ سے ہی مکمل ہوسکتاہے۔ حسن البنا شہید نے اسی لیے الجھاد سبیلنا کا نعرہ لگایا۔

جہاد کا لازمی تقاضا قربانی ہے۔قربانی کا لازمی حصہ ’اطاعت ‘ ہے۔ تنگی ، ترشی ، خوشی ، غمی ہرحال میں حکم مانا جائے کہ سمعنا واطعنا کی تصویر بن جائے۔ ’اطاعت کاملہ ‘ کا عہد کرنے والے لوگوں کو جہاد کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے چن لینا، منظم کرنا ، دعوت کے نظام کے مطابق چلانا--- روحانیت کے اعتبار سے یہ ایک مجاہدانہ ٹیم ہوتی ہے۔جو کسی فکر اور دل کی تنگی کے بغیر حکم سنے اور اطاعت کرے۔ اس ٹیم میں وہی لوگ شامل ہوسکتے ہیں جو تربیتی مراحل سے گزر کر جدوجہد کی قبا پہننے کے لیے پوری استعداد فراہم کرلیں۔

یہ ایک امتحان اور آزمایش ہے۔ اخوان المسلمون کے بانی ارکان نے ۵ربیع الاول ۱۳۵۹ھ کو اس امتحان اور آزمایش کے لیے عہد و پیمان کیا اور بعد کے حالات و واقعات نے   ثابت کردکھایا کہ اخوان المسلمون کے تاسیسی دستے میں کتنی استقامت اور ثابت قدمی تھی۔ اس امتحان و آزمایش کی بنیادی شرط استقامت یا ثابت قدمی ہے۔ ’’ ایمان دار لوگوں نے اپنا عہد سچاکر دکھایا ہے ان میں سے کچھ لوگ اپنی منزل کو پہنچ گئے اور باقی انتظار میں ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے مقصد میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔ اسی استقامت اور ثابت قدمی کو پالینا ممکن ہی نہیں جب تک اللہ کے رنگ میں خود کو نہ رنگ لیا جائے۔ اس رنگ کو سامنے رکھ کر دعوت و جہاد کا کام ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے اخوان المسلمون نے لوگوں کو چھے قسموں میں تقسیم کیا:

۱-مجاہد مسلمان ۲-بے دست و پا ہو کر بیٹھ رہنے والے مسلمان ۳-گناہ گار مسلمان ۴-ذمی ۵-معاہد غیر جانب دار ۶-محارب۔

اسلام کی عدالت میں ان سب لوگوں کے لیے الگ الگ حکم ہے۔ جس پہ جس قسم کا رنگ ہے اس کی روشنی میں اس سے معاملات رکھے جائیں۔ اسلام نے لوگوں کی اس تقسیم کے باوجود اخوت کا رشتہ برقرار رکھاہے۔ اخوت دو طرح کی ہے : ایک انسانی اخوت اوردوسری عقیدے کی اخوت۔حسن البنا شہید نے عقیدے کی اخوت کی بنیاد اس آیت کو بنایا: ومن یوق شح نفسہ فاؤلئک ھم المفلحون ’’جو لوگ ذاتی مفادات کی خواہش سے بچا لیے گئے وہی کامیاب ہیں‘‘ اور: والمومنون و المومنات بعضھم اولیآء بعض، ’’مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہوتے ہیں‘‘۔

اخوت کی ترویج کا لازمی تقاضا باہمی اعتماد ہے۔ امرا ومامورین کو ایک دوسرے کی قابلیت ، قائدانہ صلاحیت ، خلوص پہ مکمل اعتماد ہو۔ اعتماد قائم کرنے اور حاصل کرنے کے لیے باہمی تعارف، تعلق ، دلی وابستگی کے لیے بھرپور کوشش کی جائے۔ حسن البنا شہید نے اخوت کے معانی کو معمول کے ایسے اچھے کاموں کے ذریعے حقیقت کا رنگ دیا جو کتابوں میں لکھے ہوئے نہیں ہیں۔ اخوت کے تعلق کو بڑھانے والی اور دلوں میں محبت اور صلہ رحمی کے شعور میں اضافہ کرنے والی عادات خود بخود آتی ہیں۔اسی مناسبت سے اسلام ایک مثالی خاندان کا نقشہ سامنے لاتاہے کہ جہاں ہر مومن چاہے وہ کرہ ارضی کے کسی مقام پہ رہتا ہو ایک خاندان کا فردہے اور وہ مسلم خاندان ہے۔ جس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جسم سے تشبیہہ دی ہے۔اسی مثالی خاندان کا ایک عمل اخوان المسلمون کے ہاں ’اسرہ ‘کے نام سے رائج ہے۔ مثالی اجتماعیت کو سامنے لانے کے لیے اسرہ کی اصطلاح ۱۹۲۸ء میں استعمال کی گئی‘ جس کے لیے ۷۰ افراد کومنتخب کیاگیا۔

اس کے ایجنڈے میں یہ نکات شامل تھے:

۱-تلاوت و تجوید کی درستی ۲-خاص سورتوں اور آیات کا حفظ کرنا اور تفسیر جاننا ۳-خاص احادیث کو حفظ کرنا اور تشریح ۴-ایمان ،عبادات ، معاملات اور عام اخلاقی اصولوں کی تحریری رپورٹ بنانا ۵-اسلامی تاریخ کا مطالعہ اور اسلاف کی زندگیوں کا جائزہ ۶-سیرت کا مطالعہ ،  خاص طور پر اس کے روحانی اور عملی پہلو ، عملی زندگی میں نافذ کرکے محاسبہ کرنا۔

مرد و خواتین کے علیحدہ علیحدہ ’اسرہ جات‘ بنائے گئے۔ مردوں کے گروپ کا ایک مربی جو ان کے لیے استاد کا درجہ رکھتا ہے اور کچھ خاص وقت یا دنوں کے لیے ان کی تربیت کرتاہے۔ اس طرح خواتین کی تربیت کا انتظام ہے۔ اسرہ جات کے پروگرام میں چند لازمی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔۔مثلاً بیماروں کی عیادت ، غیرحاضر ممبران کی مزاج پرسی وغیرہ۔ کھانا کھانا،صفائی ستھرائی ،تک سب کام شرکا خود ہی انجام دیتے ہیں۔ اسرہ کے ممبران کی عملی تربیت کی جاتی ہے : 

  • پروگرام کو منظم کرنے کی تربیت
  •   تقریر لکھنے کی تربیت 
  •   اسرہ کے ثقافتی ،عملی پہلو اجاگر کرنے کی تربیت
  • حالات حاضرہ کا تجزیہ کرنے کی تربیت
  • کسی خاص موضوع پہ تحقیق کرنے کی تربیت 
  •   مختلف شعبوں میں معاشرتی ، اقتصادی پہلو سے تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ اور وسائل کی فراہمی
  • عملی تربیت میں کھیل کے مقابلے ، ورزش ، تفریح ،نامساعد حالات میں بالغ نظری کا مظاہرہ کیسے کیا جائے--- معاشی طور پر نازک حالات میں حلال کمائی کے لیے کسی بھی پیشے کو اختیار کرنا پڑے تو مختلف ہنر کی تربیت اور محنت مشقت ، ریاضت کی کڑی تربیت
  • زبان کی حفاظت کی عملی تربیت ، مجلس کے آداب ،راز کو راز رکھنے اور تنظیم کے معاملات کو امانت جاننے کی تربیت ، خطرناک  صورت حال میں استقامت و ثابت قدمی کی ضرورت کی اہمیت اور عملی تربیت۔

حسن البنا شہید کی محنت کا ثمر ایک بہترین تربیت یافتہ گرو پ کی شکل میں سامنے آیا جنھوں نے وقت کے فرعونوں کے سامنے سر نہ جھکایا۔ اس میں مرد ہی نہیں خواتین بھی شامل رہیں۔

اسرہ ،کتیبہ،رحلۃ ،المعسکر،دورہ،ندوہ ،موتمر، ان ناموں کے تحت کارکنان کو تربیت کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا۔ اب بھی یہی نظام رائج ہے اور وقت و حالات کی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر سے بہتر مسلمان مجاہد تیار کیے جارہے ہیں۔

اسرہ کے بعد کتیبہ کا مرحلہ ہے۔ اس میں بنیادی تربیت روحانی نشوو نما کی ہوتی ہے۔ روحانی نشوو نما : عبادات ، ذکر ، دعاکے ساتھ اخلاص نیت کی تجدید ، اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق ، نامساعد حالات ،بے آرامی اور مشقت کے ماحول میں خوش اسلوبی سے ڈیوٹی انجام دینے کی تربیت۔ اس نظام میں اطاعت امر کی خاص تربیت دی جاتی ہے۔ جی چاہے یا نہ چاہے ،ضر ورت ہو یا نہ ہو، طبیعت چاہے نہ چاہے جو کام جس وقت کہہ دیا گیا وہ فوراً کرنا ہے۔

اسرہ اور کتیبہ کا مقصد زیادہ تر معاشرتی ، نفسیاتی ، علمی اور روحانی پہلو کی تربیت ہے، مگر تیسرے مرحلے (رحلۃ ) کا مقصد زیادہ تر جسمانی ہے۔ اس میں جسمانی مشقت کی سخت تربیت ہوتی ہے۔ ’رحلۃ عموماً ‘ایک مہینہ میں ایک مرتبہ فجر سے مغرب تک کسی صحرا ، میدان ، شہر سے دور ، پہاڑی مقام پہ ہوتاہے۔ سخت گرم یا سخت سرد موسم میں محنت ، مشقت کی تربیت ،وسائل و ذرائع کی کمی کے ساتھ کی جاتی ہے۔

معسکر : اس شعبہ کے تحت صرف جسمانی تربیت ہی نہیں بلکہ دنیا کواسلامی فوج کی تاریخ سکھانا بھی ہے۔ اسلام میں نماز کی صورت میں روزانہ پانچ مرتبہ تربیت اور تذکیر ہوتی ہے۔ اس کا مقصد  ایک منظم و متحد امت کی اللہ کے سامنے بندگی اور خودسپردگی کا اظہار ہے‘ تاکہ اللہ کا دین غالب ہوجائے۔ معسکر کا مقصد نوع انسانی میں بھائی چارہ پیدا کرنا ہے--- وہ تمام مصائب و آلام جو نوع انسانی کے مشترک ہیں ان کا حل تلاش کرنا ایک دوسرے کے قریب آکر ہی ممکن ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی، بے راہ روی ،انشورنس ،سود ، ذرائع ابلاغ کی بے حیائی دنیا کے ہر خطے کے انسان کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ ان سب کے بارے میں صحیح نقطہ نظر پیش کرکے فلاح کی راہ دکھانا۔

دورہ : اس شعبہ کا کام کسی ایک دن ایک ہی موضوع پہ لیکچر ،ڈسکشن ،تحقیق ، قلیل المیعاد کورس تیار کرواناہے۔

ندوہ : ماہرین کا ایسا گروپ جو کسی خاص موضوع یا مسئلے پر پورے دلائل و براہین کے ساتھ اپنی راے پیش کرے تاکہ عصری چیلنجوںکا مقابلہ کیاجاسکے اور ان کا حل پیش کیاجاسکے۔

اخوان المسلمون کے ارکان کے کردار کی تعمیر کے لیے جس قدر جاںفشانی سے کام لیا جاتاہے وہ قابل تحسین ہے۔ یہ یقینا حسن البنا شہید کے اخلاص کا ثمر ہے اور اس کی آبیاری ان کے خون نے کی ہے۔ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ o (یوسف ۱۲:۹۰)

                                               

اللہ تعالیٰ کا بے شمار شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کو پانے کا موقع  عطا فرمایا اور اس میں مقدور بھر نیکی کمانے اور روزے کے اجر و ثواب حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائی۔ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ سب روزہ دار جنھوں نے قرآن پاک سے منسوب اس  ماہ مبارک میںقرآن کا فہم حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ روزہ داروں کی کوششوں کواللہ تعالیٰ رحمت خاص سے نوازتا ہے اور قرآن پاک پانے والوں کی خوشیوں میں ایک اور اضافہ عیدالفطر کا دن ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرقوم کے لیے عید اور خوشی کے دن ہیںاور آج‘ یعنی اختتام رمضان پر ہماری عید کا دن ہے‘‘۔ نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو فرمایا: ’’تم سال میں دو دن خوشی منایا کرتے تھے۔ اب خدا نے تم کو ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں‘ یعنی ’’عیدالفطر اور عیدالاضحی‘‘۔

  • شبِ عید: عیدالفطر کی رات کو فرشتوں میں بوجہ خوشی کے دھوم مچ جاتی ہے اور    اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتے ہیں کہ بتائو‘ مزدور اپنی مزدوری پوری کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اُجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی‘ اسی لیے اس رات کا نام فرشتوں میں لَیْلَۃُ الْجَائِزَۃِ  یعنی ’انعام کی رات‘ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو دونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا‘ نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا‘ جس دن اوروں کے دل مُردہ ہوجائیں گے (ابن ماجہ)۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’جو ان پانچ راتوں کو جاگے گا تو اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی: ۱- ذی الحجہ کی آٹھویں رات ۲- ذی الحجہ کی نویں رات ۳- ذی الحجہ کی دسویں رات ۴-عیدالفطر کی رات ۵- شعبان کی پندرھویں رات۔

  • چاند رات: ہمارے معاشرے میں ایک خاص قسم کا تاثر رکھتی ہے جس میں خوشی و مسرت اور دوستوں‘ رشتہ داروں کی ملاقاتوں پر دلی خوشی کا احساس پایا جاتا ہے۔ وہ رات جس کو ’انعام کی رات‘ کا نام دیا گیا وہ گھروں‘ بازاروں میں ’قید سے نجات‘ کا تاثردیتی ہے۔ لگتا ہے وہ تمام جکڑے ہوئے شیطان اپنے لائولشکر اور تمام تر ہتھیاروں‘ چال بازیوں کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں‘ محلوں‘ بازاروں پر پل پڑتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی نہ ذہن وہ جگمگاتے ہوئے لگتے ہیں نہ دلوں میں وہ نور کا سماں ہوتا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا فحاشی و بے حیائی کے علم بردار بن کر سامنے آتا ہے۔ گویا کہ شیطان کی فوجیں حملہ کرنے کو تیار بیٹھی تھیں۔ اوراب ذہنوں‘ دلوں اور نظروں کو گندگی اور نجس میں مبتلا کرنے کا حکم آگیا۔ کتنے نادان ہیں ہم کہ سارا ماہِ مبارک جتنی مزدوری کی وہ ضائع کردی۔ بازاروں میں شیطان خوب کھیل کھیلتا ہے۔ مردوں اور عورتوں سے حیا‘ پاکیزگی‘ حرمت‘ غیرت دبے پائوں رخصت ہوجاتی ہے۔ چاند رات میں بازاروں کی رونق دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں رمضان المبارک کے کچھ اثرات رہ گئے ہیں۔

ہم سب کو اپنے معمولات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم ان مقدس ساعات میں کہاں اور کیا کرنے میں مصروف ہوں گے‘ جب اللہ رب العزت روزہ داروں میں اپنی رحمت خاص سے انعامات تقسیم فرما رہے ہوں گے۔ کیا ہم دنیا کی چیزوں کی طلب میں اخروی انعام کو بھول جاتے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نظرعنایت اور خصوصی انعام کی اہمیت نہیں ہے؟ عید کی تیاری کے سب مراحل اگر پہلے پورے کرلیے جائیں تواس مقدس‘ عظیم رات کے ایک ایک لمحے سے بخوبی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

  • عید کا دن: ترغیب منذری میں درج ہے کہ: ’’عید کی صبح کو اللہ تعالیٰ بہت سارے فرشتوں کو شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ گلی کوچوں‘ راستوں میں کھڑے ہوکر پکارتے ہیں جن کی پکار کو انسان اور جنات کے علاوہ سب سنتے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں: اے اُمت محمدیہ کے لوگو! تم اپنے رب کریم کی طرف نکلو‘ جو بہت انعام دیتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ جب روزے دار عیدگاہ میں پہنچ جاتے ہیں توا للہ تعالیٰ ان فرشتوں سے فرماتا ہے: ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہیے جنھوں نے اپنے کام احسن طریقے سے انجام دے دیے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: اے ہمارے آقا! ان کا بدلہ یہی ہے کہ ان کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو ان کے رمضان کے روزے اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش ہوگیا اور ان کو بخش دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میںاپنی عزت اور جلال کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا و آخرت کی جو کچھ بھی بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا‘ اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے تمھاری خطائوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اورمجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا اور ذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو   میں نے معاف کردیا۔ تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی‘ میں تم سے راضی ہوگیا۔ یہ اعلان اور انعامِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اُٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں‘‘۔

حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ الفطر فرض ہے جو لوگوں کو ان گناہوں سے پاک کرے گا جو رمضان میں روزے کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوئے۔ جو نماز عید سے قبل ادا کرے گا اس کی زکوٰۃ الفطر قبول ہوگی۔ جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو اسے صدقہ و خیرات کا ثواب مل جائے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے گلی کوچوں میں ایک آدمی بھیج کر یہ اعلان کرایا کہ: ’’آگاہ ہوجائو‘ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد‘ عورت‘ آزاد‘ غلام چھوٹے بڑے پر واجب ہے‘‘۔ (ترمذی)

جو لوگ زکوٰۃ لینے کے مستحق ہیں وہ صدقہ فطر لینے کے بھی مستحق ہیں۔ گھر کا سربراہ اپنے گھر کے ہر فرد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ بچہ اگر ایک دن کا بھی ہو تب بھی صدقہ فطر دینا ہوگا۔

عید کی صبح اُٹھ کر روز مرہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر عید کی نماز کے لیے تیاری کرنا واجب ہے۔ اگر اس دن حسبِ عادت رمضان المبارک کی طرح سحری کے وقت اُٹھے اور نماز تہجد  ادا کرے‘ اپنے رب سے مزدوری لینے کی رات اور ان مبارک ساعات کواپنے لیے توشۂ آخرت بناسکتا ہے۔ شب ِ عید کی بہت فضیلت ہے۔ جو عید کی رات جاگ کر عبادت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور قیامت کے دن اس کا دل زندہ رہے گا۔

شب ِعید کو آج ہمارے گھر‘ گلیاں اور بازار جو نقشہ پیش کرتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں محاسبۂ نفس کی اشد ضرورت ہے۔ مزدور اپنی مزدوری لینے کے بجاے شیطانی مشغولیات سے دلوں کو مُردہ کر رہے ہوتے ہیں‘ اور وہ تمام اجر و ثواب جو پورے رمضان المبارک میں سمیٹا ہوتا ہے‘ ضائع ہوجاتا ہے۔

عید کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھاکر گھر سے روانہ ہونا سنت ِ نبویؐ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاق عدد عموماً سات کھجوریں کھا کر گھر سے عید کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ (طبرانی)

عیدگاہ پیدل جانا احسن ہے بوجہ عذر سواری پر جانا بھی جائزہے۔ (ترمذی)

مرد ‘ خواتین‘ بچے‘ سب عیدگاہ جائیں۔ اس نماز کو شہر سے باہر ادا کرنا سنت ہے۔ بلاعذر شرعی اس نماز کو شہر میں پڑھ لینا خلافِ سنت ہے۔ سارے شہر کی گلی کوچوں اور راستوں سے مسلمان اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے ایک کھلے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ سب قوموں کے تہوار ہوتے ہیں اور بالعموم وہ اپنے تہوار مناتے وقت کھیل تماشے‘ پینے پلانے اور ناچ گانے وغیرہ میں کھوجاتی ہیں۔ مسلمانوں کے تہوار اپنے رب کی حمدوثنا سے شروع ہوتے ہیں اور جائز حدود میں سیروتفریح‘ کھیل کود‘ میل جول‘ کھانے پکانے‘ دعوتِ طعام کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔ غرض‘ اسلام کی بنیادی باتوں سے کسی بھی موقع پر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ ایسی حرکات جو انسانوں کو حیوانوں کے درجے پر لے آئیں قطعی منع ہیں۔ مومنوں کا اپنی افرادی قوت کا مظاہرہ کرنا بھی خوشی کے موقع پر جائز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گروہ کی شکل میں عیدگاہ کی طرف جانے اور بلند آواز سے تکبیر پڑھنے کی تلقین کی اور یہ کہ ایک راستے سے جائو تو واپسی پر دوسرے راستے سے آئو۔

  • نمازِ عید اور خواتین: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام گھر والے جشن عید منانے اور خوشی و مسرت کے موقع پر عیدگاہ میں حاضر ہوں۔ آپؐ نے مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی عورت کے پاس چادر (برقعہ) نہ ہو تو کوئی دوسری عورت اپنی چادر میںاس کو لے جائے (بخاری‘ مسلم)۔ جو عورت عذر شرعی کی بنا پر نماز کے لیے نہ جاسکتی ہو‘ اس کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم ہے۔ وہ بھی مسلمانوں کے اس خوشیوں بھرے میلے میں ضرور شریک ہو۔

عید کے دن بیش تر گھرانوں میں خواتین کو عیدگاہ لے جانے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ ان کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی کتنی تاکید کی ہے۔ رحمتوں اور بخششوں کی اس دولت سے خواتین کیوں محروم رہیں جو نمازِعید اوراجتماع عید پر اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر نچھاور ہوتی ہے۔ تاہم اس بات کا خصوصی خیال کیاجائے کہ خواتین باپردہ ہوں اور بنائو سنگھار‘ زیور پہننے کے معاملے میں احتیاط برتیں۔ پردہ فرض عبادت ہے۔ اس سے روگردانی حکم الٰہی کی صریح نافرمانی ہے۔ گھر میں محرم مردوں کے سامنے عید کا بنائو سنگھار وغیرہ احسن طریقہ ہے۔ اجتماع عید میں نیا لباس سنت ہے۔ خوشبو بھی وہ ہونی چاہیے جو رنگت میں نمایاں ہو۔

نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ نماز کے بعد امام اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر خطبہ دے اور ہرشخص باادب ہوکر خطبہ سنے۔ اگر عورتوں تک امام کی آواز نہ پہنچتی ہو تو امام الگ انھیں دوبارہ خطبہ سنائے (بخاری و مسلم)۔ اس تاکید سے خواتین کا عیدگاہ میں حاضر ہونے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

  • عید، شعائر اسلام: جمعہ کی طرح عید بھی شعائر اسلام ہے۔ اس کا احترام اور اس کے تقاضے سنت ِ نبویؐ کے مطابق پورا کرنا ہر مومن‘ مرد عورت اور بچے پر واجب ہے۔

عید کے دن نماز سے پہلے گھر سے روانہ ہونے سے لے کر (تمام راستے) اور نماز کھڑی ہونے تک زیادہ سے زیادہ تکبیریں پڑھنا چاہییں۔ ساری فضا ایک نورانی احساس اور پاکیزہ جذبے سے معمور ہوجائے اور دشتِ و جبل نامِ حق سے گونج اُٹھے۔

عید کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو پڑھاکرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ عِیْشَۃً نَّقِیَّۃً وَّمِیْتَۃً سَوِیَّۃً وَّمَرَدًّا غَیْرَ مَخْزِیٍّ وَّلَا فَاضِحٍ … اَللّٰھُمَّ لَا تُھْلِکْنَا فُجَآئَ ۃً وَلَا تَاْخُذْنَا بَغَتَۃً وَلَا تَعْجَلْ عَنْ حَقٍّ وَّلَا وَصِیَّۃٍ … اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَفَافَ وَالْغِنٰی وَالْبَقَـآئَ وَالْھُدٰی وَحُسْنَ عَاقِبَۃِ الْاٰخِرَۃِ وَالدُّنْیَا وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّکِّ وَالشِّقَاقِ وَالرِّیَائِ وَالسَّمْعَۃِ فِیْ دِیْنِکَ - یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب o

خدایا! ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ خدایا! ہمارا لوٹنا ذلت و رسوائی کا نہ ہو۔ خدایا! ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا‘ نہ اچانک پکڑنا اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ خدایا! ہم تجھ سے حرام سے اور دوسروں کے سامنے سوال بننے کی فضیحت سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ‘ ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی‘ نفس کا غنٰی‘ بقا‘ ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب‘ ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق‘ ریا‘ بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے پناہ چاہتے ہیں۔  اے دلوں کے پھیرنے والے رب! ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنااور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرمانا۔ بے شک تو سب کچھ دینے والا ہے۔

اسلامی تہواروں میں نہ شراب و قمار ہے نہ لہو و لعب اور نہ انسانیت سوز نظارے بلکہ خاکساری و خشیت الٰہی کے جلوے ہیں۔ ایثار و مساوات کے مجسمے اور ہمدردی و غم خواری کے نمونے ہیں۔ اتحاد و اتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویرنظرآتی ہے۔ مسلمانوں کی عیدوں میں نہ کھیل تماشا ہے نہ وقت کے ضیاع کا کوئی عمل‘ بلکہ ان خوشی کے دنوں میں بھی عبادتِ الٰہی اور ذکر و تسبیح و تہلیل ہے۔ مومن اپنی دنیا کی آسایشوں کے بجاے آخرت کے لیے ہرلمحہ فکرمند رہتا ہے۔ اسی لیے عید کی تیاریوں میں مگن ہوکر ایسا ہوش و خرد سے بے بہرہ نہیں ہوجاتا کہ فرائض کی بجاآوری تک بھول جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ شب عید‘ شاپنگ‘ مہندی‘ چوڑیوں‘ سلائیوں اور میچنگ کی فکر میں گزر جاتی ہے اور نمازفجر سے غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ گھڑیاں رب کی رضا کے حصول کی خصوصی گھڑیاں ہیں‘ اور تحائف خصوصاً عید کارڈز کا انتخاب تو ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کارڈز اور ٹی وی‘ ویڈیو‘ سی ڈی کے ذریعے فحاشی پھیلاتے ہیں اور جو لوگ ان کو خرید کر فحاشی پھیلانے میں ممدومعاون بنتے ہیں‘ سب کے لیے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر ہے۔ یہ قرآن کا صریح حکم ہے۔

  • عید اور فکرِ آخرت: عید کی حقیقی خوشیوںکو محض دنیاوی خوشیوں کا محور نہیں جاننا چاہیے بلکہ توشۂ آخرت پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں:

۱- جس دن گناہ سے محفوظ رہے اور کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔

۲-جس دن دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے اس کی وہ عید ہے۔

۳- جس دن وزخ کے پُل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔

۴- جس دن دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔

۵- جس دن اپنے رب کی رضا کو پالے اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کرے وہ عید کا دن ہے۔

حضرت علیؓ کوکسی نے عید کے دن دیکھا کہ آپ خشک روٹی کھا رہے ہیں۔ دیکھنے والے نے کہا: اے ابوترابؓ! آج عید ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ہماری عید اس دن ہے جس دن کوئی گناہ نہ کیا ہو۔

وہب بن منبہؓ کو کسی نے عید کے دن روتے دیکھا تو کہا: آج تو مسرت و شادمانی کا دن ہے۔ حضرت وہبؓ نے فرمایا: یہ خوشی کادن اس کے لیے ہے جس کے روزے مقبول ہوگئے۔

حضرت شبلیؒ نے عید کے دن لوگوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ کر فرمایا: لوگ عید میں مشغول ہوکر وعید کو بھول گئے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ عید کے آداب و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا۔ عید توان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے آج بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا‘ عید تو ان لوگوںکی ہے جنھوں نے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔

عید ان لوگوں کی نہیں جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا دیں اور بہت سے کھانے پکائے‘ عید تو ان کی ہے جنھوں نے حتی الامکان نیک بننے کی کوشش کی اور نیک بنے رہنے کا عہد کیا۔

عید ان کی نہیں جو دنیاوی زینت کے ساتھ نکلے‘ عید تو ان کی ہے جنھوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کو زادِ راہ بنایا۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ عمدہ سواریوں پر سواری کی‘ عید توان کی ہے جنھوں نے گناہوں کو ترک کر دیا۔

عید ان کی نہیں جنھوں نے اعلیٰ درجے کے فرش سے (قالینوں سے) اپنے مکانوں کو آراستہ کرلیا‘ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔

عید ان کی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہوگئے‘ عید ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کیا۔

اللہ رب العزت اُمت مسلمہ کوحقیقی عید سے ہم کنار فرمائے۔ آمین!

بچوں کی تربیت کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو عموماً والدین پر آکر ختم ہوجاتی ہے‘ جب کہ ان کی تربیت میں دوسرے رشتے داروں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ یہ حصہ یہ رشتہ دار غیرشعوری طور پر ادا کرتے ہیں۔ دادا دادی اور نانا نانی کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے۔ انھیں ہم   ’بزرگ والدین‘کہہ سکتے ہیں۔ یہ تربیت میں اپنے حالات کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ کردار ضرور    ادا کرتے ہیں‘ لیکن اس کی ضرورت ہے کہ یہ کردار شعوری طور پر ادا کیا جائے اور ’بزرگ والدین‘ اس باب میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں کہ اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کے بعد اب انھیں اپنے بچوں کے بچوں کی بھی تربیت میں حصہ لینا ہے۔

ان بنیادی رشتوں کا کیا کردار ہو؟موجودہ طرزِ معاشرت اور ترجیحات کی تبدیلی نے ان کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کمزور کر دیا ہے۔ ان رجحانات کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے ’بزرگ والدین‘ کا کردار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اسلامی تہذیب میں یہ رشتے ’شجرسایہ دار‘ کی حیثیت سے مستحکم و مضبوط مقام رکھتے ہیں۔ اسی مقام کی پاس داری ہمارا مطمح نظر ہے۔ بچے جنت کے پھول‘ گھر کی رونق اور زندگی میں رعنائیوں کے پیام بر ہوتے ہیں۔ والدین کے لیے ان کے قہقہے‘ معصوم باتیں‘ سکون اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں‘ جب کہ دادا دادی‘ نانا نانی کے لیے ان کا والہانہ تعلق ماضی کی حسین یادوں سے وابستہ رکھنے کا سبب بنتا ہے    ؎

اگر کوئی شعیب آئے میسر

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

اس کے مصداق ’مستقبل کے والدین‘ کہلانے والے ان بچوں کو مناسب تربیت اور توجہ مل جائے تو تعمیرملت کا سامان کر کے نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہی بچے‘ خاندان اور ملک و ملت کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب فارغ اوقات میں اور بالخصوص شام کے سائے پھیلتے ہی بچے آج کی طرح ٹیلی ویژن‘ کیبل یا انٹرنیٹ سے دل بہلانے کے بجاے دادا دادی‘   نانا نانی کے پاس جمع ہو جاتے اور ان سے پرستان کی پریوں اور کوہ قاف کی حیرت انگیز شہزادیوں کے بارے میں کہانیاں سنا کرتے تھے جن کا اختتام ہمیشہ کسی اخلاقی قدر سے وابستہ ہوتا تھا۔   الف لیلیٰ‘ راجا رانی‘ ٹارزن‘ عمروعیار‘ حاتم طائی کی کہانیاں بچوں کو کچھ نہ کچھ سبق دے کر ہی ختم ہوتیں۔ اسی طرح تاریخِ اسلام کے سچے واقعات‘ صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم کی روشن مثالیں دے کر بچوں کو نیک اور صالح فطرت سے قریب تر رکھا جاتا۔ غرض‘ ہر گھر میں اپنی علمی استعداد کے مطابق اور ماحول کے پیش نظر بچوں سے ذہنی‘ قلبی اور جسمانی قرب و تعلق بزرگوں کے ساتھ قائم رہتا تھا۔ دین دار گھرانوں میں نماز‘ چھوٹی سورتیں‘ دعائیں یاد کروانا انھی ’بزرگ والدین‘ کا کام ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ سب کچھ ایک خواب بن چکا ہے۔ غربت‘ جہالت‘ بے شمار مصروفیات اور مشینی زندگی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ ’بزرگ والدین‘ کی حکیمانہ باتیں اور دادی‘نانی کی لوریاں پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ٹی وی‘ انٹرنیٹ اور کیبل کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔

’بزرگ والدین‘ تنہائی کا شکار ہیں۔ معمولاتِ زندگی سے عملی طور پر معطل ہوجانے کا احساس ان کو نفسیاتی و جسمانی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ بچوں کے والدین دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد تھکے ہارے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ بھی انٹرنیٹ اور کیبل میں راحت کا سامان تلاش کرتے ہیں‘ یا پھر دیگر سرگرمیاں یا ذمہ داریاں ان کو گھریلو ماحول سے دُور رکھتی ہیں۔ بچوں پہ   ہوم ورک‘ ٹیوشن‘ نصابی کتب کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کے افراد میں مل جل کر بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کی حسرت دل میں لیے سو جاتے ہیں اور موجودہ دور کا المیہ ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے کہ والدین اور اولاد میں خلیج تیزی سے وسیع ہوتی جارہی ہے۔ (اس میں والدین کا ’بزرگ والدین‘ کے ساتھ اور بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ) ترجیحات کے تعین‘ حالات و ماحول اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو دیکھا جائے تو والدین کی حالت قابلِ رحم نظر آنے لگتی ہے (قطع نظر اس کے کہ یہ سب کچھ ان کا خودساختہ ہے یا یہ حقیقت میں ذمہ داریوں کا بوجھ ہے)۔ بہرحال ان حالات میں اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی کے رکھ رکھائو اور اخلاقی اقدار کی عمارت کو قائم رکھنا ہی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

’بزرگ والدین‘ (دادا دادی‘ نانا نانی) بننے سے پہلے ایک اہم مرحلہ اور بنیادی رشتہ ’قانونی والدین‘ (ساس‘ سسر) کا ہے۔ قانون ایسی پابندی ہے جسے انسان سزا یا نقصان کے خوف سے نبھاتا ہے یا پھر محبت سے (محبت سے اُسی صورت میں‘ جب کہ انسان کو ہر پہلو سے اُس میں مفاد اور خیرنظرآتا ہو)۔ قانونی رشتے بھی اسی اصول کے تحت جڑے رہتے ہیں ورنہ وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ قانونی (in-law) رشتے کا مغربی تصور انسانوں کو دلی محبت‘ لگائو‘ سمجھوتہ اور ایثار کرنے میں مانع ہے۔ بہت سے الفاظ‘ بہت سے معاملات‘ رشتوں کی چاشنی کا حقیقی حسن غارت کر دیتے ہیں۔ اُردو زبان ان معاملات میں بہت خوب صورت پہلو رکھتی ہے۔ جہاں Grand ‘Uncle ‘ Ant جیسے نامکمل اور بے اثر رشتوں کے بجاے ہر رشتے کی مکمل شخصیت کا ادراک‘ فہم اور قدرومنزلت کا بھرپور اظہار موجود ہے: دادا‘ دادی‘ نانا نانی‘ تایا‘ چچا‘ پھوپھی‘ خالہ‘ ماموں۔ پھر اُس کے ساتھ منجھلے‘ چھوٹے‘ بڑے کا سابقہ لاحقہ رشتے کو مزید پُرتاثیر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح سسرالی رشتوں کا تشخص دو خاندانوں کے باہم تعلقات کو نکھار دیتا ہے۔

وَھُوَالَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہ‘ نَسَبًا وَّصِہْرًاط(الفرقان ۲۵:۵۴)

اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا‘ پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔

معاشرے میں سسرال (ساس‘ سسر) کے درجے کو پہنچ جانا‘ خصوصاً کسی لڑکی کا ساس بننا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسے دور کا آغاز ہے جہاں نفسیات بدل جاتی ہیں‘ توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاںانسانوں کے اصل روپ‘ اس کی انصاف پسندی‘ باطنی رویے اور اعلیٰ ظرفی کی پہچان ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کے سسرال خصوصاً ساس نندوں کا کردار ہی یہ حقیقت متعین کرتا ہے کہ وہ بہو یا بھابی کے ساتھ کس قسم کا سلوک و رویہ رکھ کر اور اُسے کون سا مقام دے کر اپنی آیندہ نسل سے کس قسم کے تعلق کو پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کھیتی جہاں سے اپنی فصل حاصل کرنا ہے اس کے ساتھ جذباتی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ معاشی روابط کیسے ہیں؟ کیا کچھ لینے کی توقعات وابستہ ہیں اور دینے کے لیے بھی کچھ اخلاقی اقدار مدنظر ہیں یا نہیں؟ گھر کی بہو کو جو ماحول میسر ہے جن خوش گوار یا تلخ حالات کا وہ سامنا کرتی ہے اور جن مختلف طبیعتوں سے اُسے نباہ کرنا پڑتا ہے اور جتنی عزتِ نفس کے ساتھ وہ اپنے بچے کی آبیاری کرتی ہے‘ بچہ ان سب اثرات کو لے کر دنیا میں آتا ہے۔ غرض بہو کو جو عزت‘ محبت‘ شفقت ملنی چاہیے وہ نہ دی جائے تو یہ رویہ اپنی آیندہ نسل پہ سراسر ظلم کرنا ہے۔ یہی وہ شجر ہے جس کی کوکھ سے نام و نسب وابستہ ہے۔ لڑکی کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کی ہتک‘ تحقیر اورانھیں کم تر جاننے کا ہندوانہ احساس قابلِ گرفت ہے۔

اسی طرح ہمارے معاشرے میں ’داماد‘ تکبر‘ نخوت‘ نازبرداریاں اٹھوانے والا‘ بیوی کے پیارے رشتوں کو پامال کرنے (الا ماشا اللہ) والی عجیب و غریب شخصیت ہوتی ہے۔ داماد کی حددرجہ اہمیت اور بہو کے بنیادی حقوق کی پامالی‘ یہ افراط و تفریط ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل کی جڑ ہے جس نے بے شمار گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

مشترک خاندانی نظام ہو تو بیٹوں کی اولاد کے ساتھ روابط کا سلسلہ پہلے روز سے ہی    براہِ راست شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شہر میں مگر علیحدہ گھر میں رہنے والی اولاد ___ دوسرے شہر میں مکین یا پھر بیرون ملک مقیم اولاد کے ساتھ ’بزرگ والدین‘ اپنا تعلق اور ذمہ داریاں کیسے نبھائیں‘ یہ ہمارا اصل موضوع ہے۔

اولاد کہیں بھی مقیم ہو‘ دُور‘ بہت دُور یا نزدیک بہرحال دل کے پاس ہمیشہ رہتی ہے اور رہنی بھی چاہیے۔ مگر محبت کا جب تک اظہار نہ ہو وہ ایک ایسی شے ہے جو ملفوف ہو۔ حجم اور قیمت میں کتنی ہی زیادہ ہو جب تک ظاہر نہ ہو‘ کسی کام کی نہیں۔ محبت کو چھپائے رکھنا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ظلم ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اظہار محبت کی تلقین کی ہے۔ لیکن آج کے مشینی دور میں‘ والدین اپنے بچوں کو بھرپور شفقت و محبت نہیں دے پاتے۔ دادا دادی اور نانا نانی کے پاس یہ فرصت کتنی مفید ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جس انداز سے محبت نہ دے سکے اب وہ اس کمی کو اپنے بچوں کی اولاد کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔

تربیت کے مختلف اسلوب

محبت کے اظہار کے لیے آپ اپنی صوابدید (حالات‘ صحت‘ ماحول‘ فاصلے) کے مطابق تدابیر متعین کرسکتے ہیں اور تعلق بڑھا سکتے ہیں۔

  • براہِ راست تعلق: اظہارِ محبت اور شفقت کے لیے براہ راست تعلق کی حسبِ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں: اسکول لانا اور لے جانا‘ ہوم ورک میں تھوڑی بہت مدد‘ بچوں کے دوستوں سے دل چسپی‘ اسکول کے معمولات پہ خوش دلی سے بات چیت‘ شام کو ہلکی پھلکی تفریح‘ ہفتہ وار مجلس‘ کارکردگی پہ انعام (چاہے معمولی ہی ہو)‘ بچوں کی باتوں کو توجہ سے سننا‘ حوصلہ افزائی‘ شاباشی دینا___ محبت و شفقت کی بنیاد ہیں۔

دوسرے شہر میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فون کے ذریعے بات کرنا‘ کوئی دلچسپ بات جو بچے کو یاد رہے‘ گاہے بگاہے ان کو خطوط‘ ای میل‘ تصاویر بھیجنا‘ اور اُن سے خصوصی طور پر خط اپنے ہاتھ کی ڈرائنگ‘ تصویر کا تقاضا کرنا‘ باہم دلوں کو قریب رکھنے کا باعث بنے گا۔ بچوں کے ارسال کردہ خطوط اور اشیا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھیں گے تو بڑے ہونے پر یہی چیزیں لازوال اور سچی خوشی کا باعث بنیں گی۔

  • تحفے تحائف دینا : یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس سے محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر بچے کو لازمی ضرورت کی چیز خرید کر تحفہ میں دی جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے‘ خصوصاً وہ چیز جو بچے کے والدین خرید کر دینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔ بچوں کے ہاتھ میں رقم دینے کے بجاے اسکول / کالج کی لازمی ضرورت کی چیزخرید کر دینا ان کے اور ان کے والدین کے دلوں میں قدرو منزلت بڑھا دے گی۔
  • مشاغل میں دل چسپی: بچوں کے ساتھ مل کر کچھ تخلیقات عمل میں لائی جائیں۔ اگر آپ ترنم کے ساتھ گاسکتے ہوں‘ دستکاری‘ سلائی یا لکڑی کا کوئی ہنر جانتے ہوں تو اپنے ان پیارے بچوں کو ایسے مشاغل سے روشناس کرایئے۔ اس طرح کے مشاغل میں بچوں کو شریک کرنے سے ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں آپ کا یہ ہنر یادگار حیثیت اختیار کرجائے گا۔ قریب رہنے والے‘ بیرون شہر یا بیرونِ ملک رہنے والے بچوں سے جب بھی رابطہ ہو‘ ان کے ساتھ ہر ملاقات کو یادگار بنانے کا خصوصی پلان ہونا چاہیے۔ ہفتہ وار‘ ماہانہ‘ ششماہی یا سالانہ‘ جب بھی ملاقات ہو‘ بزرگ والدین کا نقش بچے اپنی عمر کے ساتھ ساتھ مضبوط تر اور حسین تر اور یادگار بناتے جائیں۔
  • ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی:بچوں کو پڑھ کر سنانا ایک انتہائی دل چسپ عمل ہے۔ اپنے بچپن کی کتابیں ان کو پڑھنے کے لیے دی جائیں یا ان کے والدین کے بچپن میںزیراستعمال رہنے والی کتابوں کو مل کر پڑھنے پڑھانے میں خاص مزہ ہے۔ بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ اس سے تلفظ‘ روانی عبارت‘ لہجہ اور تقریر کی مشق ہوگی۔
  • ماضی کی یادیں اور تجربات:بچوں کو اپنے ماضی کی دل چسپ کہانیاں اور واقعات سنائیں‘ اپنے محلے اور شہر کے خاص کرداروں کا اور ماحول کا تذکرہ کریں۔ دور رہنے والے بچوں کو اپنی آواز میں کہانی‘ نظم‘ باہم بچوں کی مجلس‘ بات چیت کو ریکارڈ کر کے بھیجا جائے یا ویڈیو فلم بنا لی جائے۔ اپنے بچپن اور جوانی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی عمر کے مطابق گفت و شنید کی جائے۔ اپنی ناکامیوں اور نقصانات کو واضح کریں کہ ان کی کیا وجوہات تھیں۔ بچوں سے سوال کیا جائے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کیا کرتے؟ بچوں کی ذہنی استعداد جاننے کا یہ بہترین ذریعہ ہے اور ان کی رہنمائی کرنے کا بھی۔
  • شخصیت کی تعمیر: جب بھی موقع ملے بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ساتھ کھیلا جائے۔ ان کے بنائے ہوئے گھروں میں مہمان بن کر جایا جائے۔ فٹ بال‘ لوڈو‘ کیرم اور اندرون خانہ کھیلوں میں شریک ہوا جائے۔ بچوں میں ہار جیت کا صحیح تصور پیدا کیا جائے اور اعلیٰ ظرفی اور دوسروں کی کامیابی پہ خوش ہونے کی تربیت کی جائے۔

بچے ننھے ہوں یا نوجوان‘ ان کو بولنے اور اپنا ما فی الضمیربیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ انہماک اور توجہ سے بات سننا‘ بچے کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بات سنا رہا ہو تو دوسرا بچہ اس میں مخل نہ ہو۔

ہر عمر کے بچوں کے ذاتی رجحانات آپ کے علم میں ہونے چاہییں۔ ہر بچہ آپ کو اپنا رازداں ساتھی سمجھے۔ یقین کیجیے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے رازداں ساتھی بن گئے‘ ان کے ننھے منے دکھ اور سکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔

اپنے بیٹے اور بیٹی کے بچوں سے دلی محبت پیدا کرنے کا ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ ان کے والدین کو اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ یہ نہ ہو کہ بچے کوا پنے دکھوں کی داستان (اپنی اولاد کی نافرمانیوں کے قصے) سنانے لگیں۔ ننھے بچوں کے دل میں ان کے والدین کی عزت و توقیر بڑھانا آپ کے لیے ہی نافع ہے۔ خصوصاً بہو اور داماد کے بارے میں۔

بچوں کو ترجیحات کے تعین کا احساس دلانا ایک اہم فریضہ ہے‘ یعنی کس وقت کون سا کام اہم ہے‘ کون سا بچہ کس عمر میں ہے‘ اُس کے لیے کیا اہم ہے۔ اس ضمن میں نماز‘ قرآن‘ اسلامی لٹریچر کی طرف توجہ دلانا‘ ان کی نگرانی کرنا‘ بچوں میں باہم مسابقت کرانا اور انعام دینا جیسے امور اہم ہیں۔ پیارومحبت سے تعلیمی مدارج اور کارکردگی کے بارے میں پوچھنا‘ مشکل میں آسانی تلاش کرکے دینا‘ بچوں کے تعلیمی رجحانات کا اور دیگر مشاغل کا بنظر غائر جائزہ لینا اور ان کے والدین کے ساتھ گفت و شنید کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا‘ ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

  • گہریلو امور میں دل چسپی لینا: اگر والدین اور بچوں میںکوئی تنازعہ ہوجائے‘ (تعلیم‘ روزگار یا شادی کے معاملے میں) تو غیر جانب داری سے حالات کا جائزہ لینا اور بچے کے مؤقف کو ٹھنڈے دل سے سننا اور والدین اور بچوں کے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کر کے دینا ’بزرگ والدین‘ کا فرض ہے۔
  • بچیوں سے خصوصی لگاؤ: لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو شایستگی اور رکھ رکھائو سکھانا خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ بچیوں کے رجحانات کا ان کی عمر کے مطابق خیال رکھا جانا چاہیے۔ بچیوں کی جذباتی عمر ایک مضبوط‘ بااعتماد شخصیت کا سہارا چاہتی ہے۔ لڑکیاں قاہرانہ نظر سے زیادہ محبت و شفقت اور رحمت کی نظر کی طلب گار ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا دستِ شفقت ان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔

چند احتیاطیں

کچھ معاملات اور باتیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔

  • کہلانے پلانے میں بے اعتدالی: ’بزرگ والدین‘ کو اپنے بچوں کی نسبت ان کے بچوں کو کھلانے پلانے‘ ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے میں لطف آتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ معاملہ خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کو ان کی عادتیں خراب کرنے میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ قریب رہنے والے بچے اور دُور رہنے والے بچوں میں یہ فرق بھی ہوتا ہے کہ قریب رہنے والے بچوں کی عادات‘ مزاج‘ گھریلو ماحول اور روز مرہ کے اُتار چڑھائو سے آپ واقف ہوتے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بچوں کے والدین خصوصاً والدہ نے ان کے کھانے پینے کا جو معمول بنایا ہے اس میں خلل واقع نہ ہو۔ ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ بچے کو کس وقت‘ کتنا اور کیا کھانے کو دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ جو چیزیں آپ اپنے بچپن میں کھاتے تھے یا اپنے بچوں کو بے دریغ کھلاتے تھے‘ ان کے لیے بھی مناسب ہوں۔
  • والدین کو بے وقعت کرنا:بچوں کے قلب و نظر میں ان کے والدین کو بے وقعت کرنا ایک اخلاقی گراوٹ ہے۔ خصوصوصاً بہو یا داماد کے بارے میں منفی طرزعمل اختیار کرنا‘ ان کی گستاخیوں یا نافرمانیوں کو بچوں کے سامنے زیربحث لانا‘ یا بچوں کے ذریعے اپنی کسی حق تلفی یا رنجش کا انتقام لینا‘ اپنے پائوں پہ کلہاڑی مارنا ہے۔ بچے ایسے لوگوں کی ہرگز قدر نہیں کرتے جو ان کے والدین کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہوں۔ بہواور داماد کا آپ سے ’صہر‘ کا رشتہ ہے مگر ان کے حوالے سے بچوں کے ساتھ آپ کا ’نسب‘ کا رشتہ ہے۔ اپنے نسب کے بارے میں حددرجہ حساس اور محتاط رویہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے والدین کو عزت و توقیر سے نوازیں گے۔
  • رویے میں فرق: گھروں میں جہاں ایک سے زیادہ بیٹے بیٹیاں موجود ہوتے ہیں‘ ان کے بچوں کے ساتھ بڑوں کا رویہ بھی قابلِ غور ہے۔ جس بیٹے سے ماں باپ خوش ہیں‘ اس کی بیوی بھی پیاری لگتی ہے‘ اور اسی لحاظ سے اُس کے بچے بھی دادا دادی کے دُلارے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی بہوئوں میں سے کسی سے کسی خاص رشتہ داری یا نسبت یا کوئی اور وجہ بہوئوں کے درمیان تفریق کا باعث بنتی ہے‘ اور پھر بچے بھی خواہ مخواہ خاندانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ رویہ بھی غیرمناسب ہے۔ ساس سسر (خصوصاً ساس کو) گھریلو معاملات میں عقل و دانش کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی طرح دامادوں کے ساتھ یا نواسے نواسیوں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ لگائو اور محبت اپنی جگہ‘ مگر معاملات مبنی برعدل اور یکساں ہونے چاہییں۔
  • بے جا طرف داری: ایک اہم معاملہ جو عموماً گھروں میں بے چینی کا باعث بنتا ہے‘ بیٹی کی اولاد کے سامنے بیٹوں کی اولاد یا اس کے مخالف معاملے میں ترجیح اور افراط و تفریط ہے۔ ماموں‘ پھوپھی یا چچا‘ تایا کے بچوں میں دُوری‘ منافرت‘ بلاوجہ مسابقت، ’شریکے‘ کا احساس پیدا کرنا‘ بزرگوں کے طرزعمل کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔ کسی ایک داماد یا بہو کی بے جا حمایت‘ طرف داری بچوں پر بھی برے اثرات ڈالتی ہے۔
  • توھین آمیز رویہ :عموماً دادی کی طرف سے اس طرح کے جملے ’میرا بیٹا تو بہت اچھا تھا‘ جب سے تمھاری ماں آئی ہے…‘ سن کر بچے ہرگز اپنی دادی سے الفت محسوس نہیں کرسکتے۔ ان سے لازماً اجتناب کیا جائے۔
  • اپنی رائے پر اصرار اور ضد:اگر بچوں کی تربیت کے معاملے میں ’بزرگ والدین‘ کی رائے بچوں کے والدین سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو بزرگوں کو زیادہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اختلاف کی صورت میں والدین کی خواہشات کے پیش نظر اپنی رائے سے دست بردار ہوجانا چاہیے‘ تاہم اولاد کو بھی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواہ مخواہ اور بے جا ضد نہ کرنی چاہیے اور درست بات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بعض اوقات بچے کا نام رکھنے سے لے کر جو مخالفت شروع ہوتی ہے تو بچوں کے رشتے کرنے تک برقرار رہتی ہے۔ بچوں کے معاملات میں فیصلہ اور حتمی رائے بہرحال اُن کے والدین کا حق ہے۔

بعض ’بزرگ والدین‘ رشتوں ناطوں کے معاملے میں ایسا رویہ بنا لیتے ہیں جس سے اپنی اولاد اور بچوں کو باغی تو بنایا جا سکتا ہے‘ اپنا حامی نہیں۔ یہ طرزعمل سخت نقصان دہ غیر شرعی اور قابلِ گرفت ہے۔ رشتے ناطے کرنے کی ذمہ داری بہرحال اپنے والدین کی ہی ہوتی ہے۔ اپنی رائے دینا‘اپنے تجربات اور دلائل کی بنا پر کچھ اصرار کرنا آپ کا حق ہے مگر جبر کرنا‘ ضد سے اپنی اہمیت کو کیش کرانا‘ بچوں کی شادیوں میں رخنے ڈالنا‘ خوشی سے شریک نہ ہونا‘ دل میں رنجش رکھنا‘ قطع تعلق کرلینا یا دھمکی دینا سخت معیوب ہے اور ’بزرگ والدین‘ کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔

  • منفی طرزِعمل : اگر آپ نے بچوں کے دلوں میں اپنی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھایا کہ جس کام سے بچے کے والدین منع کرتے ہوں اور آپ نے چوری چھپے اُس کو موقع دیا‘ مدد کی‘ پھر چھپانے کے طریقے بتائے تو آپ نے اپنی نظروں میں بھی اور بچوں کی نظروں میں بھی خود کو گرا لیا۔ یہ طرزعمل جتنا بچوں کے لیے نقصان دہ ہے اُس سے کہیں زیادہ آپ کی شخصیت کے لیے باعث وبال ہے۔ ہاں‘ یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اُس کام میں مدد دیں‘ تعاون کریں جس کو بچے کے والدین مشکل سمجھ کر اُن کو کرنے نہیں دیتے اور آپ اُس کو اپنے تجربے سے کروا لیتے ہیں۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے آپ کیا کیا چھوٹے بڑے کام کرسکتے ہیں‘ اس پہ غور کیا کیجیے۔
  • بچوں کو مشتعل کرنا:بچوں کو ہر وقت دوسروں کے سامنے نظمیں‘ تقریریں وغیرہ سنانے پہ مجبور نہ کریں۔ بچے کی ذہنی اور قلبی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ ہر ملاقات پر ان کو کتابیں سنانے یا ان کو پڑھنے پر مجبور کرنا دل میں تنگی اور انقباض پیدا کرتا ہے۔ ہر وقت ہر کام‘ ہرکھیل‘ہر واقعہ‘ کہانی‘ لطیفہ یا ایک ہی جیسا طرزِعمل (ہر بچے کے ساتھ) مناسب نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو بچوں سے قلبی تعلق پیدا کرنا ہے تو جبر سے یہ کام نہیں ہوتا۔ یہ پورے صبروثبات کا متقاضی ہے۔ بچوں کو بلاوجہ قابو میں لانے کی کوشش کرنا ان کو مشتعل کرنا ہے۔
  • بچوں میں امتیاز برتنا :اپنے پوتے پوتیوں‘ نواسے نواسیوں میں کسی ایک سے کبھی ایسی بات نہ کیا کیجیے کہ ’یہ تو سب سے ہوشیار ہے‘ ذہین ہے‘ یہ میرا فرماں بردار ہے‘ یہ تو اپنے باپ کی طرح فرماں بردار ہے اور یہ اپنے باپ یا ماں کی طرح ہمیشہ سے ضدی اور گستاخ ہے‘۔ اپنے ان بچوں کی کامیابیوں پہ یکساں خوشی کا اظہار کیجیے۔ اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کی حد درجہ محبت میں آکر ان کے بچوں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ رکھنا اور کسی دوسری اولاد کے بچوں کے ساتھ معاندانہ رویہ‘ ان کی کامیابیوں اور خوشیوں میں دل کے پورے افراح کے ساتھ شریک نہ ہونا سخت ناانصافی ہے۔ یقین کیجیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے اس رعیت کے بارے میں سوال کرنا ہے۔ جذبات‘ احساسات‘ خوشی‘ غمی اور مالی و اخلاقی طور پر سب کے ساتھ انصاف کرنا آپ کے اجر و ثواب کو قائم رکھے گا۔ کسی بچے کو خوب بڑھانا اور کسی کی اہمیت کو گھٹانا اپنے خاندان کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔ اپنے دل کے میلان یا دوسروں کی طرف سے اُکسانے پہ بچوں کی صلاحیتوں کو گھٹانا بڑھانا اپنی عزت و توقیر کم کرنے کے مترادف ہے۔ باہم بچوں میں رقیبانہ اور حاسدانہ جذبات پیدا کرنا ایک بہت بڑا اخلاقی عیب ہے۔
  • بے جا خودنمائی :اپنی جوانی کی غیراخلاقی سرگرمیوں کو فخر سے بچوں کو بتانا حد درجہ حماقت ہے‘ یا پھر اپنے کارناموں کو نمک مرچ لگاکر پیش کرنا کہ بچے جان جائیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بچہ فطرت کے قریب ہوتا ہے۔ وہ سچ اور جھوٹ کا ادراک کرلیتا ہے اگرچہ اُس کو اس کے اظہار کا طریقہ نہ آتا ہو۔ ہر بات میں اپنی تعریف کرنا‘اپنے گن گانا‘ ہر وقت دوسروں پہ خود کو ترجیح دینا‘ شیخی بگھارنا‘ درحقیقت اپنی کمزور شخصیت کا اظہار ہے۔
  • ننہیال ددہیال کا فرق رکہنا :لڑکوں کو لڑکیوں پہ ترجیح دینا‘ یا ننھیال /ددھیال والوں کی برائیاں کرنا‘ یا بچوں کا ننھیال/ددھیال والوں سے قلبی تعلق برداشت نہ کرنا‘ لڑکیوں کی پے درپے پیدایش سے دل تنگ ہونا اور ان کے مقابلے میں لڑکے کی آئوبھگت کرنا‘ لڑکیوں کے والد کو بے چارہ‘ بوجھ کے تلے دبا ہوا جیسے احساسات دلانا‘ ایک طرح کا گناہ میں ملوث ہونا ہے۔ لڑکیوں کی پیدایش پہ انقباض محسوس کرنے والوں کی مذمت قرآن پاک میں کی گئی ہے۔
  • خواہ مخواہ کا رعب ڈالنا:بزرگوں کو اپنی بزرگی اور مقام و مرتبے کا احساس دلانے کے لیے رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ سلام کروانے کے لیے بچوں پہ سختی کرنا کوئی اعلیٰ اخلاق کی مثال نہیں۔ اعلیٰ اخلاق تو یہ ہے کہ آپ خود بڑھ کر بچوں کو سلام کریں‘ محبت سے‘ پیار سے‘ اور یہی سنت رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ بچے آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے جو آپ ان کو پہلے عطا کریں گے۔

حضوؐر کا بچوں سے طرزِ عمل

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوۂ کامل ہیں‘ ہمیشہ اسے پیش نظر رکھیے۔

بچوں کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِعمل انتہائی مشفقانہ تھا۔ سیرت رسولؐ کے مطالعے سے یہ بات روشن ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی عزت و توقیر کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ ان کی  عزت نفس کو پوری اہمیت دیتے تھے۔ ان کے جذبات و احساسات کو پامال نہیں کرتے تھے۔

بحیثیتِ والد‘ اور نانا کے آپؐ کا طرزِعمل ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ اپنے دوست احباب کے چھوٹے ننھے بچے‘ راستہ چلتے ہوئے‘ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ آئی ہوئی ان کی اولاد‘ دُور و نزدیک کے قرابت دار بچے‘ اجنبی بچے‘ غرض بچوں سے حضوؐر کی محبت ایسی تھی گویا کہ ان کی اپنی اولاد ہو۔ بچوں کو گود میں بٹھاتے‘ کندھے پہ سوار کرتے‘ نماز میں بچوں کو اٹھا لیتے‘      منہ چومتے‘ غمگین بچوں کا دل بہلاتے‘ بچوں کو تحفہ دیتے‘ غرض اپنی دلی محبت کا اظہار ہر ممکن طریقے سے کرتے‘ اور ساتھ ہی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ بے تکلفی سے باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جنت میں ایک گھر ہے جسے ’دارالفرح‘ (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش رکھتے ہیں ۔(کنزالعمال)

اس دور میں جب کہ ہر مسلمان غفلت و بے ہوشی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ نابالغ بچوں کی شخصیت ایسی ہے جس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ جب تک بچہ نابالغ ہوتا ہے‘ معصوم ہوتا ہے۔ ان سے اس احساس کے ساتھ ہی رحمت و شفقت کی جائے تو یقینا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس بیدار ہوجائے گا۔ ایک بڑے سے بڑے دین دار آدمی سے بہرحال ایک معصوم بچہ اللہ کی نظر میں زیادہ پیارا ہے۔

بچوں کو خوش رکھنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ ہر فرد اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اُن کو خوش رکھ سکتا ہے اور اپنی آیندہ نسل کے دلوں میں اپنی محبت کے نقوش جاگزیں کرکے     اپنی عاقبت کا سامان کر سکتا ہے اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کرسکتا ہے۔

دعا ایک لازمی امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فرقان میں دعا سکھائی:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (۲۵:۷۴) اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کاامام بنا۔

اس دعا میں ’متقین کا امام‘ بننے کی خصوصی درخواست سکھائی گئی‘ یعنی وہ نسل جو ہم پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ ’متقین‘ میں سے ہو___ اور ہم بحیثیت ’راعی‘ کے رعیت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

بچوں کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے اور ان کی عادت بنانی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں‘ نیز فوت شدہ بزرگوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کی نیکیوں کو یاد کرنا‘ کروانا اور دعا کرنا ایک اہم نکتہ ہے۔

ہمارے ہاں والدین کے حوالے سے تو بہت لٹریچر موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنا فریضہ کس طرح ادا کریں‘ لیکن غور کا مقام یہ ہے کہ خاندان میں ’بزرگ والدین‘ کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ’بیاج‘ کو خسارے سے بچاسکیں۔ ایک جوڑے کی اولاد کا دائرہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ کل تک جو صرف ماں باپ تھے‘ دادا دادی اور نانا نانی بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زندگی دیتا ہے تو ان کے سہرے کے پھول بھی کھلتے دیکھتے ہیں۔ اس طرح نئے خاندان بھی وسیع ترخاندان بن جاتے ہیں۔ بزرگ والدین کے مؤثر کردار اور خاندان کے استحکام کے پیش نظر ہی یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کے ہر والدین کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!

اس وسیع کائنات پر تفکر کی نظر ڈالیں تو چاروں طرف تا حد نگاہ اﷲ رب العزت کی بے شمار  خوب صورت نشانیاں نظر آتی ہیں۔ سروں پہ آسمان کی شکل میں خوب صورت چھت اور اس پہ سجے ہوئے سورج‘ چاند‘ ستارے‘ سیارے‘ بادلوں سے برستے پانی کے مصفا و مجلّٰی قطرے‘ سوندھی سوندھی مٹی سے جنم لیتے ہوئے پودے اور پھلوں اور پھولوں کی بہار--- رب لازوال کی نعمتوں کو نہ آج تک کوئی گن پایا ہے‘ نہ گن سکتا ہے:  فَبِاَیِّ اٰلآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ رب قدیر کی نشانیاں ہر لمحے نئی شان اور اچھوتی آن بان سے بکھری ہوئی جلوہ گر نظر آتی ہیں۔

زندگی اور موت‘ ہر ذی روح کی حقیقت ہے‘ بلکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہی ہے۔ یہی حقیقت انسان کی آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب انسان اپنی قیمتی ہستی سے محروم ہو جاتا ہے۔ جن کو عزیز از جان کہتا ہے‘ وہ بھی اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ خالق ارض و سما نے موت کو بھی اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا‘ کہ انسان کتنا بے بس مجبور ہے۔ موت کی حقیقت کا سامنا ہر نیک و بد کو کرنا ہے۔

یہ نابغۂ روزگار‘ زمین کا نمک اور پہاڑی کے چراغ اللہ تعالیٰ کی رحمت ِ واسعہ کے نشان ہوتے ہیں۔ انبیا کے وارث اور دین متین کے امین‘ وہ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی دلوں سے بھلا کب جاتے ہیں؟ وہ تو یادوں میں رچ بس جاتے ہیں۔ وہ مصروفِ عمل رہتے ہیں اور ہمیں اپنے علم سے فیض یاب کرتے رہتے ہیں۔ وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں‘ مگر بصیرت کی روشنی پھیلاتے ہوئے ہماری آنکھوں کے نور بن جاتے ہیں۔ ہمارے دکھ سکھ میں رہنما بن جاتے ہیں۔ یہ موت سے ہمکنار ہونے کے بعد حیاتِ جاوداں کو پا لیتے ہیں۔ زندگی میں فاصلوں کے بُعد حائل ہوتے ہیں‘ لیکن زندگی کا حصار ختم ہوتے ہی یہ آفاقی ہو جاتے ہیں۔ حیاتِ مستعار کا ہر لمحہ ایسے ہی انسان کو اخروی کامیابیوں کی نوید سناتا ہے۔ ایسے خوش نصیب انسانوں سے معمولی سا ناتا بھی کتنا فخر کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک مرتبہ کی زیارت‘ چند لفظوں کا تبادلہ‘ سلام دُعا کا اعزاز‘ خوش بختی کا عنوان بن جاتا ہے۔

میرے روحانی استاد‘ میرے شعور اور علم و فہم کو روشنی عطا کرنے والے محسن سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ تعلق ابدی و لازوال ہے۔ میری حیاتِ فکر کے نقشے میں سید مودودیؒ کی تصویر شامل ہے۔

مجھے اپنے بچپن اور گھر کا ایک منظر یاد آتا ہے۔ ہم چند ننھے مُنے بچے جن کو نماز کے رکوع و سجود سے واقفیت تو ہے‘ مگر نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ اور رکعتوں کی تعداد سے ناآشنا ہیں۔ ہماری نانی جان مرحومہ نے (جنھیں ہم سب اماں جی کہتے تھے) صف پہ قطار میں بٹھایا ہوا ہے۔ چھوٹی سی چُنریا میرے سر سے گرنے لگتی ہے تو اماں جی اسے دوبارہ ٹکادیتی ہیں۔ پھر انھوں نے سب بچوں کے ہاتھ دعُا کے لیے اُٹھوائے اور کئی بار کہلوایا:

’’اے اللہ‘ ہمیں نیک بنا‘‘۔

’’اے اللہ‘ اماں جی کو حج کروا دے‘‘۔

’’اے اللہ‘ مولانا مودودی کو صحت عطا فرما‘‘۔

اور پھر یہ تین دُعائیں انہماک سے سنی جاتیں‘ اور ہر وقت تاکید کی جاتی کہ ان دُعائوں کو ضرور مانگنا ہے۔ گھر میں امی جان اور اماں جی سے جو بچے قرآن پاک پڑھنے آتے‘ ان سے یہ دعائیں ورد کی طرح کروائی جاتیں۔ میری والدہ محترمہ ] اُم شاہد[ بھی علم دوستی‘ شوقِ مطالعہ اور تربیت ِ اولاد کے لیے انتہائی فکرمند اور حساس خاتون ہیں۔ بہرحال اماں جی کو اللہ تعالیٰ نے حج کی نعمت سے سرفراز فرمایا تو نانی جان نے دُعا میں تبدیلی کروا دی: ’’اے اللہ اماں جی کو پھر سے بیت اللہ کی زیارت کروا دے‘‘ اور باقی دو دُعائیں کسی تبدیلی کے بغیر جاری و ساری رہیں۔

لاشعور میں اماں جی کا حج‘ اللہ تعالیٰ کا گھر‘ مولانا مودودی کا تصور ایک ہی جگہ نقش تھا۔ مولانا کا دوسروں سے مختلف نام اور اوروں سے منفرد تذکرہ‘ بچپن کی خوب صورت‘ ان بھولی بسری یادوں میں یاد رہنے والی یاد ہے۔ اکثر سوچا کرتی تھی: یہ شخصیت کون ہے؟ کیا فرشتہ ہے؟ کوئی نبی ہے؟ نہیں‘نبی  تو نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ ہمیں اکثر بتایا جاتا تھا کہ رسولؐ اﷲ ‘ آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس لیے سوچتی کہ جب نبی کی آمد ختم ہے تو پھر یہ کوئی فرشتہ ہی ہوگا۔ اب اللہ تعالیٰ کے تصور کے ساتھ ہی ان کا خیال بھی آتا ۔ یہ رشتہ دار تو نہیں ہیں‘ نہ کبھی ہم ان کے گھر گئے‘ نہ کبھی وہ ہمارے گھر آئے۔ لیکن یہ کیا بات ہے کہ گھر میں ان کا تذکرہ رشتہ داروں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ گھر میں آنے والا ہر اخبار‘ رسالہ اور ہر فرد ان سے واقف ہے۔ وہ گھر کے فرد تونہیں‘ لیکن ہمیشہ گھر کے مکینوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

دوسرا منظر مجھے کسی جلسے کا یاد ہے۔ نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ جلسہ گاہ کی  پچھلی طرف خواتین کے لیے انتظام تھا۔ وہاں سے پردہ ہٹا کر میں باہر کو لپک آئی۔ بہت سارے لوگ‘ شور و غل اور نعرہ بازی کے اس شور سے مجھے اپنا دل زور زور سے دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا۔ مجھے خیال آ رہا تھا کہ شاید زمین کانپ رہی ہے اور اس کی لرزش میرے پائوں کے تلووں سے ہوتی ہوئی میرے دل کو بھی لرزا رہی ہے۔ میں اس وقت نہیں جان سکی کہ یہ لڑائی کا شور و غل ہے‘ یا لوگ اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بہرحال لوگوں کے سامنے اونچی جگہ پر کچھ لوگ بیٹھے نظر آئے‘ جن میں میرے نانا جان حکیم محمد عبدؒاللہ (جہانیاں) بھی تھے۔ ان کو دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ اُسی وقت کسی نے مجھ سے پوچھا :’’مولانا مودودی سے ملنا ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے سر اٹھا کر ان کو دیکھا۔ ان صاحب نے مجھے اٹھا کر سٹیج پر کھڑا کر دیا۔ نانا جان نے میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے آگے کر دیا۔

کالی شیروانی‘ کالی ڈاڑھی اور عینک‘ بس یہ سراپا مجھے یاد ہے۔ انھوں نے میرا ہاتھ تھام لیا‘ سر پر ہاتھ رکھا اور کچھ کہا بھی جو مجھے یاد نہیں۔ پھر مجھے سٹیج سے کس نے اتارا‘ نہیں معلوم‘ کالی شیروانی کے تصور کے ساتھ ہی تصویروں میں دیکھی جانے والی خانہ کعبہ کی تصویر یاد آئی اور اماں جی کی یاد کروائی ہوئی دُعا بھی۔

تیسرا تصور بھی جم غفیر کا ہے۔ خانہ کعبہ کے غلاف کی زیارت کے لیے خلقت جمع ہے۔ یہ وہ غلاف کعبہ تھا جو پاکستان میں تیار ہوا تھا اور سعودی عرب روانہ کرنے سے پہلے مختلف جگہوں پر اس کی زیارت کروائی جا رہی تھی۔ کسی عمارت کی چھت پر کھڑے ہو کر کچھ لوگ عوام کو غلافِ کعبہ کی زیارت کروا رہے تھے۔ ان میں مولانا مودودیؒ بھی شامل تھے۔ کلمہ طیبہ کا ورد لوگوں کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا۔ پاکیزہ سوچیں‘ خانہ کعبہ کا کالا غلاف‘ کلمے کا ورد‘ کالی شیروانی‘ عقیدت‘ منظم ہجوم اور حج کا سفر گڈ مڈ سے ہونے لگے۔ میں سوچتی خانہ کعبہ کے کالے غلاف اور کعبہ والے کا‘ کالی شیروانی والے سے کوئی خاص تعلق ہے۔ یہ سب کچھ ایک ساتھ ہی ذہن میں خوشبو بن کر پھیل جاتا۔

مجھے یاد نہیں مولانا مودودیؒ کی سب سے پہلے کون سی کتاب پڑھی؟ کب پڑھی؟ اور اس وقت میں نے کیا محسوس کیا؟

پھر دیکھتی ہوں کہ گھرکی ہر الماری مولانا کی کتابوں سے مزین تھی۔ میرے گھر کے سارے افراد جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے شیدائی تھے۔ میرے والد محترم عبدالغنی احسن صاحب   کو مطالعے کا شوق تھا اور ہر اچھی کتاب اور رسالہ گھر میں مستقل آتا تھا۔  چراغِ راہ‘ ایشیا‘ ترجمان القرآن‘ نور‘ عفت‘ بتول‘ الحسنات کا پہلا شمارہ غالباً ہمارے گھر آیا تو پھر یہ ساتھ آج تک قائم ہے۔ مجھے مطالعے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ نئے تو نئے پرانے سے پرانے   رسالے بھی نکال نکال کر پڑھ لیتی۔ بہت موٹی بھاری ضخیم سے ضخیم کتاب پر میرا دل نہال ہو جاتا۔ تفہیم القرآن کی جلد میرے لیے انتہائی کشش کا باعث ہوتی۔ چچا جان عبدالوکیل علوی صاحب کی کتابیں میری دست بُرد سے محفوظ نہ رہتی تھیں۔ کتابوں میں کیا لکھا ہے؟ عربی کی بھاری بھاری کتابیں اور ڈکشنریاں لے کر بیٹھنا‘ کھولنا‘ بند کرنا میرا مشغلہ ہوتا تھا۔ چچا جان اپنی کتابوں کی ترتیب اور ان میں رکھے نوٹس کو اپنی جگہ پر نہ پا کر بہت محظوظ ہوتے۔ کتابوں سے میری محبت کو انھوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا‘ لیکن کبھی کبھار ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی۔ تفہیم القرآن میں میرا انہماک دیکھ کر انھوں نے مجھ سے پوچھا: کیا کر رہی ہو؟‘‘ میں نے بتایا: ’’قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ رہی ہوں‘‘۔ اس وقت حاشیہ نمبر دیکھنے اور اس کو پڑھنے کا طریقہ سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ چچا جان نے مجھے باقاعدہ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھانا شروع کیا۔ اس وقت میں کلاس پنجم کی طالبہ تھی۔ مولانا کی صحت کے بارے میں کچھ نہ کچھ خبریں آتی رہتی تھیں کہ گردے کا آپریشن ہے۔ تکلیف ہے۔ ایسی خبر سنتے ہی ہمارے گھر میں اس طرح تشویش کی لہر دوڑ جاتی جیسے گھر کے اندر کوئی عزیز ہستی صاحب ِفراش ہو۔ دُعائوں کاسلسلہ اور بڑھ جاتا۔

اسکول کے زمانے کی بات ہے۔ سالانہ امتحان تھے۔ میری نشست کے پاس ہی ٹیچر کی نشست تھی۔ دوسری ٹیچر نے اخبار لا کر مس ناصرہ کو دکھایا: ’’دیکھو کچھ غنڈوں نے قرآن پاک جلا دیا ہے‘‘ اور مس ناصرہ نے انتہائی غصے سے کہا: ’’یہ مودودیوں کا ہی کام ہو گا‘‘۔ پرچہ حل کرتے کرتے میرا ذہن بری طرح الجھ گیا: مودودیوں سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ مولانا مودودیؒ کو کچھ کہہ رہی ہیں؟ لیکن قرآن پاک جلانے کا کام ان کا کیسے ہو سکتا ہے‘ یا ان کے کہنے سے کون کر سکتا ہے؟ -- مس ناصرہ تو خود اتنی اچھی ہیں۔ ان کو تو معلوم ہی ہو گا کہ مولانا مودودیؒ اتنے اچھے ہیں‘ وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ یہ کوئی اور بات ہو گی -- اور میں الجھی الجھی سی پرچہ حل کر کے دے آئی۔

گھر آ کر اماں جی سے تذکرہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے لاہور میں جماعت اسلامی کے دفتر پر حملہ کیا ہے اور سارا ریکارڈ جلا دیا ہے۔ ان میں تفہیم القرآنکے نسخے بھی تھے۔ اخبار میں ان جلے ہوئے قرآن کے نسخوں کی تصویر سے بھی واضح تھا کہ یہ تفہیم القرآن کی جلدیں تھیں۔ ذہن میں طرح طرح کے سوال اٹھنے لگے کہ مولانا خود اتنے اچھے ہیں‘ اگر اچھے نہ ہوتے تو قرآن کی تفسیر کیسے لکھتے؟ پھر میرے ذہن میں اللہ تعالیٰ‘ مولانا اور حج کا تصور اکٹھے آتا تھا۔ کوئی منفی بات  ذہن میں نہیں آتی تھی۔ میں یہ بات ماننے کو تیار نہ تھی کہ مولانا کو بھی لوگ بُرا سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اب تک اپنے اردگرد‘ خاندان بھر میں ان سے عقیدت کا اظہار ہی سنا اور دیکھا تھا۔ پھر اماں جی نے سمجھایا کہ اچھے لوگ‘ اچھے لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اچھے لوگوں سے حسد کرتے ہیں‘ اس لیے ان کو پسند نہیں کرتے۔ نبیوں کو بھی تو لوگ ناپسند کرتے تھے۔ بھلا نبی سے بڑھ کر بھی کوئی اچھا ہو سکتا ہے؟

زندگی میں عمر‘ تجربے اور مشاہدے کے ساتھ ساتھ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی گئی کہ  اچھے لوگوں کو تسلیم کرنے والے اور اچھائی کا دم بھرنے والے اعلیٰ ظرف لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ عزت و مرتبہ‘ علم و ہنر میں جھوٹے پُرفریب نعروں سے عزت و مقام حاصل کرنے والا‘ سچائی کو کب برداشت کر سکتا ہے۔ اندر کی جلن عبداللہ بن ابی کی ہو یا مکہ کے سرداروں کی‘ یا فی زمانہ کسی بھی عالم و قائد کی‘    یا صاحب ِاقتدار کی‘ اپنے دل کے حسد و بغض کو ظاہر کر کے ہی چھوڑتی ہے۔ یہ بھی ہر زمانے کے      کم فہم و کم ظرف لوگوں کا وطیرہ رہا ہے کہ اچھائی کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔ جب جواباً  اخلاق و کردار کی پختگی کا مظاہرہ ہو تو تنگ دلی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے‘ اور محاذ کھل جائے تاکہ صاحب ِکردار لوگوں کو نیچا دکھانے کے لیے زبان اور قلم کا ہر وار استعمال کیا جائے۔ اپنے وار کے کارگر ثابت نہ ہونے پر گھٹیا الزامات لگائے جائیں۔ یہ کیا طرفہ تماشا ہے اس دنیا کے انسانوں کا کہ خود جس اعلیٰ مقام پر جانے کا حوصلہ اور ظرف نہ ہو تو دوسروں کو اس مقام سے گرانے کے لیے توانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔ نجی زندگی میں‘ شخصی زندگی میں کیڑے نکالے جاتے ہیں اور اگر کیڑے نظر نہ آئیں تو خود ڈالے جاتے ہیں اور پھر ان کو چُن چُن کر نکالا جاتا ہے‘ دنیا کو دکھا دکھا کر۔

مولانا مودودیؒ کی زندگی میں یہ سب مرحلے‘ ہر پہلو سے آئے۔ مگر آفرین ہے اس عظیم انسان پر کہ نہ خود ڈگمگایا‘ نہ جواباً کسی کو پتھر مارا‘ نہ تیر پھینکا۔ اور اللہ جسے چاہے عزت عطا فرمائے‘ بے شک عزت اسی کے لیے ہے‘ اس کی طرف سے ہے۔ جب لوگ اُس کے بندوں کو کم تر و حقیر بنا کر پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں تو اللہ ان کو اپنے ہاں سے عزت و مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ آج دنیا مولانا کے مقام و مرتبے کو اس سے زیادہ جانتی ہے جتنا ان کی زندگی میں پہچان رہی تھی۔ نیکی اپنا دائرہ  وسیع سے وسیع تر کرتی چلی جاتی ہے‘ زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر۔ خلوصِ نیت شرط ہے۔

۱۹۷۰ء کے عام انتخابات پاکستان کے اہم ترین الیکشن تھے۔ میری زندگی میں سیاسی گہما گہمی کو دیکھنے‘ پرکھنے اور کسی اجتماعی سرگرمی میں عملی طور پر ہاتھ پیر ہلانے کا پہلا تجربہ تھا۔ اُس وقت میں مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھی۔ امی جان اور بہنوں کے ساتھ گھر گھر‘ گلی محلے میں جا کر انتخابی مہم کا کام کرنا بہت دل چسپ اور اہم لگتا تھا۔ پاکستان کے ساتھ محبت اور اس کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے تگ و دو کا احساس اجاگر ہو رہا تھا۔ جذبہ‘ شوق اور لگن کے جذبات و احساسات انگڑایاں لے رہے تھے۔ عجیب سرخوشی اور سرمستی کا عالم تھا۔ ہمارے خاندان اور ملنے جلنے والوں کا ہر بچہ جماعت اسلامی کے پرچم ‘ بیج‘ اسٹکرز جمع کرنے میں مگن تھا۔ یہی مشغلہ بن گیا۔ لڑکے چھتوں پر چڑھ چڑھ کر جماعت اسلامی کا پرچم بلند سے بلند جگہ پر لگانے میں مصروف تھے۔ روزانہ گھروں کی چھتوں پر لگے ہوئے پرچم گنے جاتے کہ کس جماعت کے پرچم زیادہ ہیں‘ اور کہاں جماعت اسلامی کا پرچم کتنا بلند لگا ہوا ہے؟ وہ جوش اور ولولہ‘ ایسا والہانہ تھا کہ گویا حق و باطل کے معرکے کا اسی الیکشن کے بعد فیصلہ ہو جائے گا۔ مہم کے دوران مولانا مودودیؒ کے بیانات مشعلِ راہ ہوتے۔ ہفت روزہ آئین میں عصری مجالس کی روداد حالات حاضرہ کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتی تھی۔

الیکشن کا دن ہم سب بچوں کے لیے انتہائی پُرتجسس اور ناقابل بیان بے چینی سے بھرپور دن تھا۔ ہمارے خاندان کا ہر فرد‘ خواتین و مرد اور بچے کسی نہ کسی طور پر الیکشن کے کارکن تھے۔ سب بہت پُرامید‘ اور خوش تھے۔ مگر جب رات کو نتائج آنے لگے تو وہ گلے‘ شکوے ایک احتجاج بن کر میرے وجود میں سرایت کر گئے کہ ’’معتبر‘ سچے‘ اچھے لوگ کیوں پسند نہ کیے گئے‘‘ اور میں یہ سوچ سوچ کر روتی تھی کہ قوم کے اس فیصلے سے میرے مولانا کو کتنا دکھ ہوا ہو گا‘ ان کا دل کتنا بے چین ہو گا‘ اور وہ تو مجھ سے بھی زیادہ رو رہے ہوں گے۔ اب مولانا کے رونے کا تصور کرتے ہی مجھے بے تحاشا رونا آتا چلا جاتا‘ اور میں اپنی دانست میں مولانا کو تسلیاں دینے لگتی۔ خیالوں میں مولانا سے باتیں کرتی۔ سب لوگوں کی شکایتیں کرتی۔ سوال پوچھتی کہ لوگ آپ سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ آپ کی کتابوں کو کیوں نہیں پڑھتے؟ آپ کا نام دیکھ کر لوگ کیوں نازیبا الفاظ کہتے ہیں؟ اچھے لوگ جیلوں میں کیوں جاتے ہیں؟

اور پھر مولانا مودودی ؒ ہی کے لٹریچر سے مجھے سارے سوالوں کا جواب ملتا چلا جاتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کے گھر پہلی مرتبہ جانے کا واقعہ میری زندگی کا خوشگوار ترین دن تھا۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ چچا جان اور چچی جان کے ہمراہ جانا ہوا تھا۔ چچی جان ( پروفیسرثریا بتول علوی صاحبہ) کو  کسی مسئلے پر مولانا سے رائے لینا تھی۔ مولانا مرحوم سفید براق کرتے پاجامے میں ملبوس تھے۔ میں نے مولانا سے آٹوگراف لیا تو انھوں نے یہ لکھ کر دیا: ’’اللہ کا خوف اور اس کی محبت ہر بھلائی کی جڑ ہے‘‘۔ براہ راست مولانا کی زیارت شعور کے ساتھ‘ میرے لیے ہفت اقلیم سے کم نہ تھی۔ لاشعور میں بسی ہوئی اس ماورائی سی شخصیت سے میری ملاقات‘ کہاں میں کہا ںیہ مقام‘ اللہ اللہ ---!

چچا جان محترم عبدالوکیل علوی‘ جناب نعیم صدیقی مرحوم کے ساتھ مل کر تصنیف و تالیف کا کام کرتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کے گھر سے قریب ہی ان کا دفتر تھا۔ تعلیم کے دو سال (میٹرک) میں نے اپنے مہربان چچا جان کے گھر گزارے تھے۔ ان دنوں مجھے زندگی کے مشاہدات سے بہت کچھ سیکھنے کا اور تاریخ کا رُخ موڑ دینے والی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ ہماری رہایش اچھرہ میں تھی۔ مولانا مرحومؒ کی رہایش گاہ سے قریب ہی۔ مولانا کا دفتر لکھنے پڑھنے کا کمرہ‘ گھر کے دیگر مقامات جہاں ان کو چلتے پھرتے دیکھا‘ لان میں بیٹھتے‘ کھانا کھاتے‘ عصر کے وقت چائے پیتے‘ غرض وہ سارے مناظر مجھے بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ براہ راست گفتگو تو نہ ہونے کے برابر‘  بس سلام جواباً سلام۔ درخواست دُعا اور دُعا جو یہی ہوتی: ’’اللہ آپ کو دین و دنیا کی ساری بھلائیاں عطا فرمائے‘‘ اور یہ دُعا میرے لیے سرمایۂ افتخار رہی۔

لاہور سے جہانیاں واپس آئی تو اسلامی جمعیت طالبات‘ جہانیاں شہر کی نظامت سونپی گئی۔ اس سلسلے میں مولانا کی شفقت‘ رہنمائی میرے لیے فخر و انبساط کا باعث رہی۔ میرا دل خوشی سے بھر جاتا‘ جب میں سوچتی کہ مولانا جیسی عظیم شخصیت کی زندگی میں کوئی ایک لمحہ ایسا بھی تھا جب انھوں نے میرے لیے سوچا‘ دُعا دی اور اپنے قیمتی وقت سے مجھے بھی نوازا۔ تحریکی ذمہ داریوں کے علاوہ مولانا کی مہربانیوں‘ دُعائوں‘ شفقتوں نے مجھے ذاتی و نجی زندگی میں بے شمار الجھنوں سے نجات دی‘ اور ہمیشہ ان کی دُعا اور مشورے نے دلی تسکین عطا کی۔ مولانا کا لٹریچر میرے لیے ہمیشہ رہنمائی کا باعث بنتا ہے۔ تفہیم القرآن ہو‘  ترجمان القرآن ہو یا کوئی کتاب‘ میرے قلب و ذہن کو سیدھی راہ پر رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوئی ہے۔ مولانا کا ہر لفظ‘ ہر جملہ اور ہر کتاب میرے لیے قرآن و حدیث کو سمجھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یقینا ہم پر یہ شکر و احسان واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دور پُر فتن میں اپنے دین کی سمجھ بوجھ عطا کرنے کو اس بندۂ مومن کے علم سے فیض یاب ہونے کا موقع نصیب فرمایا۔

مولانا مودودیؒ کی صحت کے بارے میں تو مدتوں سے جانتے تھے کہ کیا حال ہے؟ اور ان کی صحت کی دُعا‘ اپنی دعائوں کا لازمی حصہ بچپن ہی سے مقرر ہو چکا تھا۔ خرابی صحت کے باوجود مولانا کی خدمت دین قابل رشک تھی۔ اور یہ بات تصور میں نہ آتی تھی کہ مولانا اس سے زیادہ بھی بیمار ہو جائیں گے۔ دل مطمئن سا رہتا کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا سے ابھی بہت سا کام لینا ہے۔ فروری ۱۹۷۷ء میں مولانا کی آخری مرتبہ زیارت کی۔ میرے شوہر مجھے مولانا کے گھر لے گئے تھے۔ چند دن پہلے ہماری شادی ہوئی تھی۔ بیگم مودودیؒ نے ہماری شادی کے بارے میں انھیں بتایا۔ مولانا نے مبارک باد دی اور خصوصی طور پر چائے پلائی۔ عصری مجلس سے اٹھ کر مولانا گھر کے بیرونی لان میں جا کر کرسی پر تشریف فرما تھے۔ غروب ہوتے سورج کی سنہری شعاعیں ان کے پروقار چہرے کو اور زیادہ منور کر رہی تھیں۔ امریکہ سے آئے ہوئے ان کے بیٹے کے بچے لان میں کھیل کود رہے تھے اور مولانا ان کو دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ یہ مولانا کی آخری زیارت تھی!

چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم سے مجھے سعودی عرب جانے کا شرف حاصل ہوا۔ حرم شریف میں داخل ہو کر خانہ کعبہ پر نظر پڑی اور اچانک کچھ مناظر لاشعور میں ابھرنے لگے: کالی شیروانی‘ اماں جی‘ غلاف کعبہ۔ اب بھی لوگوں کا ہجوم تھا‘ مختلف کلمات کی آوازیں‘ عقیدت و محبت کا ماحول اور وہ دُعا جو میری مناجات کا حصہ تھی۔ مولانا کی صحت کے لیے دعا بے اختیار زبان پر آ گئی اور اماں جی کے لیے دعا‘ اور یہ کہ اے اللہ ہمیں نیک بنا۔ دعائیں ہمیشہ اپنی تازگی برقرار رکھتی ہیں۔ مولانا کی صحت کے بارے میں تشویش ناک خبریں آتی رہتی تھیں‘ اور دل دست دعا بن جاتا۔

جدہ کے جس علاقے (روئیس) میں ہمارا گھر تھا‘ وہیں مولانا مرحوم کی بڑی صاحبزادی حمیرا مودودی رہایش پذیر تھیں۔ اس بات کی مجھے ازحد خوشی تھی۔ ان سے ملاقاتیں مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی‘ جنھوں نے حق ہمسایگی بھی خوب نبھایا۔ مولانا کی صحت کے بارے میں معلومات انھی سے ملتی رہتی تھیں۔ حمیرا باجی سے جدہ میں ہی پہلی ملاقات ہوئی تھی‘ بہت محبت سے ملی تھیں۔ مولانا سے شباہت کا حصہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ان کو ہی ملا ہے۔ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ ان کے گھر ترجمۂ قرآن کی ہفتہ وار کلاس ہوتی تھی۔ جدہ کے علاقے (بلد) میں ذاکر صدیقی صاحب کے گھر ان کا درس ہوا کرتا تھا۔ وہاں جب جاتے تو حمیرا باجی کے شوہر انظر بھائی ہم دونوں کو لے جاتے اور واپسی پر میرے شوہر ہم دونوں کو گھر لے آتے۔ باہم ملاقاتوں اور دروس میں شرکت سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اپنے محبوب و محترم قائد کی پیاری بیٹی کی زبانی ان سے متعلق ڈھیر ساری باتیں کر کے دل شاد ہوتا تھا۔ حمیرا باجی مجھے اکثر گھرداری‘ تعلق داری کے متعلق اپنے تجربات سے فیض یاب کرتی رہتی تھیں۔ ہم لوگ روئیس میں حمیرا باجی کی ہمسایگی میں تقریباً دو سال رہے۔ ان کی طرف سے مشفقانہ برتائو‘ میرے لیے پردیس میں کافی حوصلہ بخش تھا۔

مولانا مودودیؒ کی عالمانہ عظمت سے تو ایک دنیا واقف تھی۔ نجی زندگی کسی بھی قائد کی عظمت و توقیر میں چار چاند لگاتی ہے۔ حمیرا باجی سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ اپنے عظیم باپ کی گھریلو زندگی کے بے مثال پہلوئوں سے آگاہ کرتی تھیں۔ بیٹیوں سے خصوصی محبت کے تذکرے ہوتے‘ بیٹوں پر بیٹیوں کو زیادہ اہمیت دینے کا ذکر ہوتا کہ ان کی دلجوئی کا وہ کتنا زیادہ خیال کرتے تھے۔

حمیرا باجی اکثر ذکر کرتیں: ’’ابا جان عام انسانوں سے کسی قدر مختلف ہیں۔ ہر چیز‘ ہر معاملے‘ ہرواقعے پر ان کا ردعمل دوسروں سے مختلف‘ مگر گہرائی کے ساتھ حقیقت پسندانہ ہوتا ہے۔ اعتراضات اور تنقید کے معاملے میں ان کی قوتِ برداشت ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے‘ نہ دل برداشتہ ہوتے اور نہ حوصلہ ہارتے ہیں۔ ان کا عزم و حوصلہ پہاڑ کی طرح ہے۔ جب ایک حقیقت کو جان لیا تو استقامت کا بلند و بالا پہاڑ بن کر جم گئے‘‘۔

طائف میں جماعت اسلامی کے کارکن کوئی نہ کوئی پروگرام طے کرتے رہتے تھے۔ اکثر ہی حمیرا باجی کے ساتھ وہاں جانا ہوتا تھا۔ بہنوں سے باہم ملاقاتوں میں مولانا کا ذکر آتا بلکہ حمیرا باجی سے ان کے عظیم باپ کی بابت ہی باتیں ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا: ’’آپ کو مولانا جیسے جلیل القدر باپ کی بیٹی ہونا کیسا لگتا ہے؟‘‘ تو انھوں نے اپنے کالج کی طالبات کے بارے میں بتایا: ’’جب جدہ کالج میں پہلی مرتبہ اپنی کلاس لینے گئی تو لڑکیوں نے مجھ سے میرا تعارف پوچھا۔ جب میں نے اپنا نام حمیرا مودودی بتایا تو سب نے اتنی خوشی کا اظہار کیا کہ میں دم بخود رہ گئی‘‘۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے لوگوں میں جو بدگمانیاں تھیں ان کے بارے میں اکثر خواتین سوال کرتی تھیں تو حمیرا بتاتیں: ’’ابا جان نے روک ٹوک  اور ڈانٹ ڈپٹ سے ہماری تربیت نہیں کی۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا‘ کام کرنا‘ پڑھنا لکھنا‘ باہم رویے‘ ہمت وحوصلہ برداشت‘ گھر والوں کے ساتھ تعاون وغیرہ میں ہمارے لیے تربیت کا سامان ہوتا تھا‘ اور کوئی باپ اپنے بچوں کو اس سے بہتر طریقے سے تربیت نہیں دے سکتا کہ اُس کا کردار اجلا ہو اور اس کے قول و عمل میں کوئی تضاد نہ ہو‘‘۔

مئی ۱۹۷۹ء کے آخری ہفتے میں مولانا مودودیؒ کو علاج کے سلسلے میں ان کے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق امریکہ لے گئے۔ حمیرا باجی سے مولانا کی صحت کے بارے میں معلومات ملتی رہتی تھیں۔ پہلے ماہ وہاں علاج سے صحت قدرے بہتر ہو گئی تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ مولانا نے سیرت سرور عالم پر دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ ہم سب ہر اجتماع میں اور ہر طواف و عمرہ میں مولانا کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعائیں کرتے۔

۲۰اگست ۱۹۷۹ء کو معلوم ہوا کہ مولانا کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے اور ڈاکٹروں نے پیٹ کے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ ۴ ستمبر ۱۹۷۹ء کو مولانا کا آپریشن تھا۔ اس دن مولانا کی صحت کے لیے خصوصی طور پر حرم شریف جا کر دعا کی اور ان کے لیے بہت سے لوگوں نے خصوصی طواف و عمرہ کی نیت کی۔ آپریشن کامیاب ہونے کی خبر نے سب کو مطمئن کر دیا۔

۶ ستمبر ۱۹۷۹ء کو مولانا دل کے شدید دورے سے دوچار ہوئے۔ امت مسلمہ پر ایک کڑا وقت افغانستان پر روس کے حملے کی صورت میں آن پڑا تھا اور انقلاب کے بعد ایران کے حالات بھی مخدوش تھے۔ ادھر مولانا کی صحت کا اتار چڑھائو اہل دل کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔ ایک ہفتہ بعد مولانا پر دل کا ایک اور سخت دورہ پڑا مگر پھر حالت سنبھل گئی۔

۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء کو شام ساڑھے پانچ بجے میں حمیرا باجی کے ہاں گئی۔ کچھ دن پہلے وہ پاکستان گئی تھیں اور معلوم ہوا کہ واپس آ گئی ہیں۔ مولانا کے بڑے بھائی سید ابوالخیر مودودی ؒکی رحلت پر تعزیت بھی کرنا تھی۔ جب ان کے ہاں پہنچی تو عجیب سی اداسی کا احساس ہوا۔ رابعہ (حمیرا کی بیٹی) بھی خاموش خاموش دروازہ کھولنے آئی۔ حمیرا باجی کی حالت دیکھ کر ایک دم دل اداس ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ ابھی ابھی امریکہ بات ہوئی ہے کہ مولانا کی طبیعت بے حد خراب ہے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ اماں کو بھی سکون آور انجکشن لگا کر سُلایا ہوا ہے۔ کچھ دیر حمیرا باجی کے پاس بیٹھی‘ صحت و عافیت کی دعائیں کرتے رہے۔ مغرب کی نماز ادا کر کے بوجھل دل لیے میں گھر آئی۔ حمیرا باجی نے مولانا کی صحت یابی کے لیے صدقہ قربانی کے لیے رقم دی کہ جب مکہ مکرمہ جانا ہو تو قربانی کروادیں۔ مولانا کا چہرہ بار بار نظروں کے سامنے آتا۔ مولانا کے وہ خطوط جو انھوں نے میرے استفسارات کے جواب میں لکھے تھے‘ نکالے‘ ان کو پڑھتی رہی۔ رات کو کافی دیر تک ہم میاں بیوی مولانا کا تذکرہ کرتے رہے۔ سوچا کہ مولانا کی صحت یابی کے لیے خصوصی عمرہ کرنے جائیں گے اور قربانی بھی کر آئیں گے۔ مگر ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کی دوپہر کو خواجہ مجاہد صاحب دفتر سے آئے تو ان کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔ میں نے بے چینی سے صرف ایک لفظ پوچھا ’’خیریت؟‘‘ تو الفاظ ان کے منہ سے اٹک اٹک کر نکلے ’’مولانا انتقال فرما گئے ہیں‘‘۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔  ہمیں ان کی بیماری کی تفصیلات کا علم تھا اور دل کو ایسی خبر کا دھڑکا بھی لگا ہوا تھا۔ مگر پھر بھی لگ رہا تھا: ’’یہ کوئی غیر متوقع بات ہو گئی ہے‘‘۔ اپنی دعائوں اور محبتوں کا کتنا مان تھا اور مجھے تو بچپن سے مولانا کی صحت کی دُعا کا جواب ملتا رہا تھا کہ شاید ہم جیسوں کی دُعائیں رائیگاں نہیں جا رہی ہیں۔

مولانا کا ناتواں وجود ہمارے لیے ایک قوی سہارا تھا۔ وہ بیمار تھے مگر بیمار امت کے لیے نسخۂ شفا تھے۔ ایک ایک کر کے جسم کا ہر حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا رہا‘ لیکن عالم اسلام کے ہر گوشے کے لیے وہ باعث طمانیت تھے۔ وہ ماہِ تمام موت کی اٹل چادر کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ اس ماہتاب کے پس پردہ جانے سے اندھیرا چھا گیا تھا۔ مولانا کی وفات سے گویا سارا عالم اسلام سوگوار ہو گیا تھا۔ ہم فوراً حمیرا باجی کے ہاں پہنچے۔ ان کی آنکھیں متورم ہو رہی تھیں۔ میں پہنچی تو وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں۔ میں نے دکھی دل سے سلام کیا اور پاس بیٹھ گئی اور صرف اتنا کہا: ’’حمیرا باجی! میں چاہتی ہوں کہ کوئی مجھے تسلی کے دو لفظ کہہ دے‘ میں آپ سے کیا کہوں گی؟‘‘ حمیرا باجی نے کہا: ’’بشریٰ! وہ جیسے میرے باپ تھے ویسے ہی تمھارے بھی باپ تھے‘ ہم سب کا غم مشترک ہے‘‘۔ اور انھوں نے مجھے سینے سے لگا لیا‘ پھر ہم دونوں بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔ ان کا خونی رشتہ تھا اور میرا روحانی رشتہ تھا مگر غم تو مشترک تھا۔ خونی رشتے بھی اٹوٹ ہیں اور روحانی رشتے بھی ابدی۔ کچھ دیر ایک دوسرے کو تسلی و تشفی دے کر ہم نے قرآن خوانی شروع کر دی۔ کچھ دیر بعد ہم گھر آ گئے۔

حمیرا باجی نے پاکستان روانہ ہونے کی تیاری کرنا تھی‘ اور ہم نے ایک دن پہلے مکہ مکرمہ جانے کا جو پروگرام بنایا تھا‘ اس کے مطابق مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ حرم شریف جا کر اللہ سے اپنا دکھ کہا‘ کچھ سکون ملا۔ بیت اللہ‘ خانہ کعبہ کا غلاف‘ مولانا کی کالی شیروانی‘ صحت کی دعا--- روحانی تعلق کی ابتدا ایک لاشعور میں بسے خیال سے وابستہ تھی‘ اور وہ روحانی تعلق آج نئی طرز پر پھر زندہ ہو رہاتھا۔ طواف کرتے ہوئے سارے خیالات‘ مناظر‘ مرحلے اور باتیں ترتیب سے یاد آتی گئیں اوراَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ]یوسف ۱۲:۸۶۔ میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا[کہہ کر سکینت بھی ملتی گئی۔ معلوم ہو رہا تھا کہ وہ روحانی تعلق اب آفاقی ہوتا جا رہا ہے‘ جہاں زمان و مکاں کی قید نہیں رہتی۔ علامہ اقبال کی ایک دعا کی قبولیت کا احسا س اب ہو رہا تھا     ؎

تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند

اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی

تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ

ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی 

اور وہ ماہِ تمام سید مودودیؒ کی صورت میں طلوع ہوا اور اس صدی کا سب سے بڑا مفکر کہلایا۔

سید مودودیؒ کو شاہ فیصل ایوارڈ دینے کی تقریب میں نے جدہ ٹی وی پر براہ راست دیکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا میں بھی عزت و مقام عطا فرماتا ہے: ’’ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر‘ ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ وہ ہو مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسرکرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔ (النحل ۱۶:۹۷)

مولانا کی وفات اور پھر پاکستان میں جنازے و تدفین کی تفصیلات اخبارات سے معلوم ہوتی رہیں۔ جب حمیرا باجی پاکستان سے واپس آئیں تو مزید تفصیلات سے آگاہی ہوئی۔ سعودی عرب کی ہر مسجد میں آیندہ جمعہ کو غائبانہ نماز جنازہ کا اعلان سرکاری طور پر کیا گیا۔ ہم نے حرم شریف مکہ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ کی سعادت حاصل کی۔

کچھ عرصے بعد بیگم مودودیؒ کی جدہ میں تشریف آوری ہوئی۔ انھوں نے حمیرا باجی کے گھر قرآن کی ہفتہ وار کلاس رکھی اور ترتیب سے قرآن پاک کا ترجمہ شروع کر وا دیا۔ جدہ کے مختلف علاقوںسے خواتین بہت شوق سے شریک ہوتیں۔ مولانا کی بیگم سے شرف ملاقات بھی حاصل ہوتا‘ اور مولانا کے بارے میں گفتگو بھی ضرور ہوتی۔ بیگم مودودی مرحومہ کے ساتھ میں نے کئی بار طائف کا سفر کیا اور راستے میں ان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں طواف کی سعادت بھی حاصل کی۔ ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت بھی بہت یادگار ہے۔ طائف میں ڈاکٹر عبدالحق کے گھر قیام ہوتا تھا۔ ان کی بیگم فرحانہ بے حد مخلص خاتون تھیں۔ ان کے گھر پروگرام ہوتا تھا۔ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ خواتین عموماً مولانا کے بارے میں پوچھتیں کہ وہ بطور شوہر کیسے تھے؟

بیگم صاحبہ فرماتیں :’’ مولانا بہت صابر و شاکر اور تحمل و برداشت والے انسان تھے۔ اپنی تکلیف اور بیماری کو انھوں نے کبھی گھر والوں کے لیے باعث آزار نہیں بنایا۔ میرے رشتہ داروں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ جب کچھ فرصت ملتی تو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹا دیتے۔ رات کو کوئی بچہ  بے چین ہوتا یا روتا تو خود اٹھ کر کندھے سے لگا کر اسے خاموش کر اتے اور ٹہل ٹہل کر اُسے بہلاتے۔ میری نیند اور میرے آرام کا ہمیشہ بہت خیال رکھتے تھے۔ وقت کے بے حد پابند تھے۔ ایک منٹ کی دیر سویر پر بہت اذیت محسوس کرتے تھے۔ گھریلو معاملات میں پوری دل چسپی لیتے تھے۔ شروع شروع میں میرے لیے خاص طور پر خریداری کر کے لاتے تھے‘ مگر جب بیماری اور مصروفیت کی وجہ سے نہ لا سکتے تھے تو افسوس کرتے تھے کہ بیوی! جو میں تمھیں پہنانا چاہتا ہوں‘ جو چیزتمھارے لیے پسند کرتا ہوں‘ خودنہیں لا سکتا۔ ان کا بہت اعلیٰ ذوق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بیوی بھی خوب سے خوب تر پہنے‘ اوڑھے اور جتنے وسائل میں آسانی سے ممکن ہو‘ رانی بن کر رہے بلکہ وہ تو یہ چاہتے تھے کہ میں کام کاج نہ کروں‘ ہمیشہ گھر کاکام کرنے کے لیے معاون و ملازم رکھ کر دیے‘‘ -- پھر آخر میں کہتیں: ’’بھئی وہ تو بے حد مہربان انسان اور شفیق شوہر تھے‘‘۔ بیگم مودودیؒ کا یہ بھرپور جملہ ان کی ساری زندگی کی عکاسی کرتا تھا۔

کچھ عرصے بعد محترمہ حمیرا مودودی پاکستان منتقل ہو گئیں‘ تو یہ محفلیں بھی ختم ہو گئیں۔ جب ہم ۱۹۹۰ء میں سعودی عرب سے مستقل پاکستان منتقل ہوئے تو لاہور آ گئے۔

فیروز پور روڈ سے گزرتے اور اچھرہ کو پار کرتے ہوئے ہر مرتبہ خیال آتا کہ اپنے محبوب و محترم راہبر سے ملنے جائوں‘ مگر جیتے جاگتے مولانا کے تصور اور اس گھر کو ذہن سے نکالنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک دن رہا نہ گیا اور ہم ۵- اے ذیلدار پارک کے سامنے کھڑے تھے۔ اس وقت میرا ذہن بالکل بھول گیا کہ مولانا کی وفات ہو چکی ہے۔ گیٹ سے اندر اسی عالم میں داخل ہوئے۔ تینوں بچے اور شوہر بھی ساتھ تھے۔ سیدھے برآمدے میں جا رکے۔ وقت وہی تھا جو عصری مجلس کا ہوتا تھا۔

میرے شوہر نے داہنے گیٹ کے پاس لان کے کنارے کی طرف اشارہ کیا۔ میں تو عالم استعجاب میں گنگ ہو کر رہ گئی۔ ’’یہ مولانا ہیں‘‘؟ نہیں‘ میں نے تو مولانا کو اسی لان میں کرسی پر بیٹھے دیکھا تھا۔ میں خودآج تک حیران ہوں کہ مولانا کی قبر پر فاتحہ خوانی کے ارادے سے جانے کے باوجود میں اس قبر کو دیکھ کر اتنی پریشان کیوں ہو گئی تھی۔ میری ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ میں اس جگہ کو دیکھوں جو سطح زمین سے اُبھری ہوئی تھی‘ اور ۱۲ برس گزرنے کے باوجود دل تسلیم نہ کرنے پر بضد تھا کہ یہ مولانا کی آرام گاہ ہے۔ مجھے اس دن ایسا لگا کہ مولانا تو تنہا ہیں‘ اکیلے ہیں۔ اف! وحشت کا یہ عالم میرے روئیں روئیں میں سرایت کرنے لگا۔ اس دن یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ اکیلی قبر کا تصور دیکھنے والوں پر کیا قیامت ڈھاتا ہے۔ شہر خموشاں کی اپنی رونق ہوتی ہے۔ پھر میں نے مولانا سے خیالوں ہی خیالوں میں ڈھیر ساری باتیں کیں۔ دل کا بوجھ ہلکا تو ہوا‘ مگر خلا کبھی پُر نہ ہو گا۔ گھر میں کوئی موجود نہ تھا۔ ملازم ہی تھا جس نے ہمیں جا نماز لا کر دی۔ ہم نے لان میں عصر کی نماز پڑھی اور وہاں سے گھر آ گئے۔ مولانا سے یہ ملاقات ۵ - اے ذیلدار پارک میں بہت ہی رنجیدہ اور افسردہ کرنے والی تھی۔ مولانا کو اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ربع صدی ہو گئی ہے۔ مگرآنے والی کئی صدیوں تک ’’لائٹ ہائوس‘‘ کا فریضہ انجام دینے والا‘ میری طرح اور لاکھوں لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

جب بھی بزرگانِ دین کے حالاتِ زندگی پڑھا کرتی تھی تو سوچتی تھی کہ کاش! میں امام ابوحنیفہؒ‘ امام شافعیؒ‘ امام احمد بن حنبلؒ، امام ابن تیمیہؒ، سید احمد شہیدؒ جیسے کسی انسان کے ز مانے میں پیدا ہوئی ہوتی‘ اور اُن سے دین کا فیض حاصل کرتی۔ مولانا سے دلی عقیدت‘ اور دینی فہم و شعور کے حوالے سے جو تعلق ہے اُس پر بجاطور پر اظہار تشکر کیا جا سکتا ہے۔ مجھ جیسے نہ جانے ساری دنیا میں کتنے مسلمان ہیں جن کو اپنے مسلمان ہونے کا حقیقی شعور اس شخص کے مومنانہ انداز دلبری کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔ ایسے عظیم انسان کے احسان کا حق ادا ہونا مشکل ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں کا یہ کمال و اعجاز ہے کہ ہم آج بھی ان کو اپنے پاس پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے جب بھی اپنی زندگی کی کسی بھی الجھن کو اپنے لیے پریشان کن پایا تو مولانا سے روحانی تعلق میرے کام آیا۔ اللہ رب العزت نے اس پیارے بندے کے ذریعے مجھے سیدھی سچی راہ دکھائی۔ مجھے حوصلہ بخشا‘ زندگی کے بے شمار لاینحل مسئلوں اور مغموم و دل مضطر کو سکون و عافیت کا مژدہ سنایا۔

چند دن پہلے ]اپریل ۲۰۰۳ئ[ بیگم مودودیؒ بھی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں۔  انا للّٰہ وانا  الیہ راجعون۔ ایک مرتبہ طائف کی کسی محفل میں ایک خاتون نے کہا: ’’مولانا کو اللہ نے ۷۰ حوریں دی ہوں گی تو مولانا نے کیا کہا ہو گا‘‘۔ دوسری خاتون نے کہا: ’’مولانا نے اللہ تعالیٰ سے کہا ہو گا کہ   میری بیوی کب آئے گی؟ وہی ٹھیک ہے‘‘۔ اس خاتون کی بات سن کر بیگم مودودیؒ بے حد محظوظ ہوئیں۔ بیگم مووددیؒ انتہائی شاکرو صابر خاتون تھیں‘ بہت حوصلے والی‘ اللہ والی‘ ملنسار‘ محبت کرنے والی۔ یہ ان کا عظیم الشان حوصلہ ہی تھا کہ روزانہ اپنے شوہر کی جدائی کا غم تازہ ہوتا ہو گا قبر کو دیکھ کر‘ اور صبر کی منزل سے ہر روز گزر کر آتی ہوں گی۔ شوہر بھی ایسا جس کی مثال ملنا مشکل ہو۔ میرے دل کو عجب ڈھارس ہے کہ اب مولانا تنہا نہیں ہیں۔ بیگم مودودیؒ کی آرام گاہ قریب ہے۔ بے مثال شوہر کی مثالی بیوی۔ زندگی کے ساتھی‘ ہمیشہ کے ساتھی۔ اللہ دونوں کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین!

اللہ تعالیٰ نے والدین کو جس اعزازسے نوازاہے وہ اسلام کے سوا دُنیا کا کوئی بھی مذہب اور کوئی تمدن عطا نہیں کر سکا۔ مائیں تو ساری دنیا میں قابل احترام ہیں مگر ایک مسلمان ماں کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی محبت میں مٹھاس اور اس کے دل میں ایثار و قربانی کا بے مثل جذبہ رکھ دیا ہے۔ اپنی صفت رحمت و شفقت سے وافر حصہ اس رشتے کو عطا کر دیا۔ وہ رب العزت خود خالق ہے ‘صفت ِتخلیق عورت کو عطا کر کے اسے عظمت کی بلندیوںتک پہنچا دیا۔ اپنے بچے سے محبت کا یہ انداز اس خالق کائنات اور رب العالمین نے ہی عطا کیا ہے کہ تکلیف پہ تکلیف اُٹھا کر ماں بچے کو جنم دیتی ہے‘ مگر اس پہ ایک نظر ڈالتے ہی تمام دکھ‘ تکالیف بھول جاتی ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت ہے کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی بچوں کو پیار کرتی ہے اورہر چھوٹا بچہ اس کے لیے کشش رکھتاہے۔ مگر یہ محبت اور کشش عورت ہونے کے ناطے فطری جذبے تک محدود رہتی ہے۔ یہی نوعمر لڑکی جب تخلیقی مراحل کا حصہ بن کر خود ماں کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو بچہ اور اس کا ہر کام اس کی زندگی کا مشن بن جاتا ہے۔ اپنے بچے کا آرام ماں کی اوّلین ترجیح ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت و شفقت اور رحم کی یہ صفت نہ رکھ دیتا تو شاید دنیا میں بچوں کی سب سے بڑی دشمن ماں ہی ہوتی۔ جس قدر تکلیف دہ مرحلوں سے ماں پرورش کے دوران گزرتی ہے‘ اس کا اندازہ اُسی ذات باری تعالیٰ کوہے‘ جبھی تو ایک مسلمان ماں کو اعلیٰ ترین ’’اعزازات‘‘ سے نوازا گیا۔ ان عظمتوں کو حاصل کرنا‘ اور انھیں شعوری طور پر برقرار رکھنا بھی مائوں کی ذمہ داری ہے۔ والدین کی ذمہ داری اسی روز سے شروع ہوجاتی ہے‘ جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے والدین کو بہت سے ادوار اور بے شمار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

اگر اُمت مسلمہ کے ہر گھرسے ایک بچہ بھی اسلام کے انسانِ مطلوب کی صورت میں نصیب ہو جائے تو آیندہ ایک دو عشروں میں ہی دُنیا میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ برپا ہو سکتا ہے۔ اس خوش نصیبی کو پانے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی اور تطہیر افکار و اعمال ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی بھی فرد یا قوم کے مقدر کو سنوار سکتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت کرکے قوم کی تعمیرنو میں اپنا حصہ ادا کریں‘ اور ایک مہم کے طور پر ہر مسلمان کو اس کی اہمیت کا شعور دیا جائے۔کسی بھی مرد و عورت کی عملی زندگی کا آغاز نکاح سے ہوتا ہے۔ پھر باقی پوری زندگی میں دونوں نسل نو کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہو جاتے ہیں۔ کسی مرحلے میں عورت کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور کہیں مرد کی‘ اور اس میں مختلف مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔

پہلا مرحلہ: نکاح ‘ زوجین کا باہمی تعلق

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ نکاح کا رشتہ دو اجنبی مرد و عورت کو باہم مضبوط رشتے میں جوڑ دیتا ہے۔ حقوق و فرائض کی ادایگی میں بدنیتی وہ زہر ہے جو ہر اچھے سے اچھے کام کو عیب دار بنا دیتا ہے‘ بلکہ ہرے بھرے پھل دار باغ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔ زوجین کو اپنے اپنے حقوق و فرائض کا کتاب و سنت کی روشنی میں پورا شعور ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ شادی سے پہلے بچوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ کریں۔

زوجین کا باہمی تعلق: میاں بیوی کا باہمی تعلق ’’ایک دوسرے کے لیے لباس‘‘ کا ہی ہونا چاہیے۔ معنوی طور پر بھی‘باطنی اور روحانی طور پر بھی۔ زوجین کا باہم رشتہ محض صنفی جذبات کی تسکین کا ذریعہ ہی نہ سمجھا جائے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوجین کے باہم تعلق کو جس شائستگی اور وقار کے ساتھ نبھانے کاطریقہ بتایا ہے اس کو مدنظر رکھا جائے۔ زوجین کو باہم محبت بڑھانے کے لیے‘ اس کو قائم و استوار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرنا چاہیے‘ جس سے میاں بیوی کے دلوں میں دُوری پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی میاں بیوی کے درمیان‘ رنجش‘ جدائی یا بدگمانی ڈال کر ہوتی ہے اور یہ کام کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتاہے۔

نسل نو کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنا والداور والدہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دی ہے اور اس کھیتی میں جس قسم کا بیج ہوگا ویسا ہی پھل نصیب ہوگا۔ جس طرح ایک جاہل‘ نالائق‘ ذمہ داریوں سے لاپروا باغباں اپنے کھیت اور باغ سے کماحقہ ٗ رزق حاصل نہیں کر سکتا‘ اسی طرح اسلامی شعور اور ذوقِ آگہی سے بے بہرہ مرد اور عورت اپنی اولاد سے پوری طرح فیض یاب نہیں ہو سکتے۔

دوسرا مرحلہ : پیدایش سے پہلے اور بعد

ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کے لیے باعث سعادت اور معاشرے کے لیے باعث رحمت ہوگا۔ بچوں کی پیدایش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا‘ چاہے وہ کسی بھی سوچ کے ساتھ ہو‘ نرم سے نرم الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔

بچے کا تعلق ابتدائی دنوں ہی سے ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سا خلیہ (cell)محض ایک جرثومہ نہیں‘ بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہء آغاز ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لیے اُسے منتخب کیا ہے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے‘ نہ اپنی تکلیف کو دوسروں کے لیے باعث آزار بنائے بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کے روز مرہ کے فرائض کو اجر کے حساب سے زیادہ نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔

باپ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لیے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟ ہمہ وقت اللہ کا ذکر‘ نماز کی پابندی‘ باوضو رہنا‘ پاکیزہ گفتار ہونا‘ جسمانی ‘ روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے اس میں اُس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے‘ جو والدین کی زندگی کا سرمایہ اور توشۂ آخرت ہے۔ اس زمانے میں جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے۔

مدت حمل میں بچہ ماں سے خوراک ہی حاصل نہیں کرتا‘ بلکہ وہ اس کے جذبات‘ احساسات‘ خوشی اور غم میں بھی شریک ہوتا ہے۔ ماں کی افسردگی‘ بے چینی اور بے آرامی کا بھی اُس پر اثر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ کیا سوچتی ہے؟ اس کا دل کن جذبوں سے آراستہ رہتا ہے؟ بچے کی شخصیت اسی کا پرتو ہوتی ہے۔

ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو ’’مثالی مسلمان‘‘ بنانا چاہتی ہوگی تو وہ ضرور شعور و آگہی کے ساتھ ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی‘ خود بھی ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان اور لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کااثر یہ ہوا کہ نومولود کی جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔

ایک ذمہ دار اور حسّاس مسلمان ماں وہ ہے‘ جو زمانۂ حمل میں قرآن پر غوروفکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انجام دے اور علم کی محفلوں میں پورے انہماک سے شریک ہو۔ یہ ہماری دیکھی آزمائی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآنی کلاسوںمیں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات و اطوار میں نمایاں تبدیلی محسوس کی‘ جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پا رہا تھا۔

ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبروقناعت اور قوت برداشت کی صفات کو اجاگر کرنا چاہیے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں‘ مثلاً بغض‘ کینہ‘ حسد‘ تکبر‘ اور جھوٹ ‘ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ بے جا‘ لایعنی‘ غیر ضروری بحث مباحثہ و گفتگو سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقینا اس کی عبادت‘ ذکرو تسبیح‘ نماز‘ روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادایگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہوگی۔

جسمانی غذا کے ساتھ ساتھ روحانی غذا بھی اعلیٰ اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار اور اعلیٰ ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف‘ جھگڑالو‘ پژمردہ حاسد‘ احساس برتری یا احساس کمتری کی ماری‘ ناشکری اور بے صبری عورت قوم و ملّت کو اعلیٰ کردار کا سپوت کیسے دے سکتی ہے۔

بیرونی ماحول اور ماں کے اپنے فکروعمل سے جنین اثرات قبول کرتا ہے۔ اس بات کا تجربہ مشاہدہ کرنے کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ نے حاملہ خواتین کو مختلف ماحول اور سرگرمیوں میں رکھا۔ اس جائزے میں ایک یورپی ماں کا اپنا تجربہ ہے: ’’جب میں نے یہ بات سنی کہ جنین پہ ماحول کا اور ماں کے اپنے اندازِ فکر وعمل کا اثر ہوتا ہے تو میں نے کمپیوٹر کی تعلیم سیکھتے ہوئے اپنے بچے کو شعوری طور پر مخاطب کر کے ہر سبق دہرایا اور ہر عمل میں اُس کو اپنے ساتھ محسوس کیا۔ پیدایش کے چند سال بعد وہ بچہ کمپیوٹر کے بارے میں رازداں نکلا‘‘۔

اسی ادارے نے تحقیق کے بعد بتایا کہ ’’پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ صرف جینیاتی (موروثی) اثرات ہی مزاج بنانے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مگر اب ماحول کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ پژمردہ مائوں کے بچے بھی پژمردہ پیدا ہوتے ہیں۔ جیرالڈین ڈاسن نے واشنگٹن یونی ورسٹی میں منعقدہ ایک سیمی نار میں اپنا مشاہدہ بیان کیا کہ: ’’جن بچوں کی مائیں پژمردگی کا شکار ہوتی ہیں‘ ان کے بچوں کے دماغ کا بایاں حصہ جس کا تعلق خوشی‘ دل چسپی اور دیگر مثبت عادات سے ہے‘ اپنا کام بہتر طریقے پر انجام نہیں دے سکتا‘‘۔

اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرُعزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصاً شوہر کا رویہ اورانداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیرمعمولی صورت حال میں شوہر کی ذمہ داریاں بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ رفیقہ حیات کی ذہنی ‘ جسمانی‘ روحانی طمانیت کے لیے شوہر کو بھرپور طریقے سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرضِ عین ہے جس کی اس سے بازپرس ہوگی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دُنیا میں لانے کے لیے عورت کو جتنی آسانیاں آرام‘ ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے ‘ لازماً اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پائیں گے۔

حاملہ خاتون کو کچھ بیماریوں سے حفاظتی ٹیکے اور دوائیاں دی جاتی ہیں‘ تاکہ خاتون اور اس کا بچہ بیماریوں سے محفوظ رہے۔ بالکل اسی طرح کچھ روحانی بیماریوں سے بھی حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں۔ ہر عورت اپنے عیب و محاسن کا جائزہ لے اور جو عیوب انسان کی زندگی کو عیب دار بناتے ہیں ان سے بچنے کے لیے مکمل توجہ کے ساتھ کوشش کرے‘ جس طرح رمضان میں اہتمام کر کے کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جسمانی بیماریوں کا علاج ضروری ہے تو اخلاقی بیماریوں کا سدِّباب بھی ہونا چاہیے۔

تیسرا مرحلہ: ولادت‘رضاعت ‘ ابتدائی چند سال

نومولود‘ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو بچہ جننے کی تکلیف برداشت کرنے پر بے حساب اجر وثواب کی بشارت سنائی ہے۔ اگر ایمان و ایقان کی کھیتی شاداب ہو اور اس پورے عمل کو اللہ اور رسولؐ کی رضا کا وسیلہ سمجھا جائے تو پھر درد کی ہر لہر کو برداشت کرنے پر بے حد و حساب ثواب ملتا ہے۔ نومولود لڑکا ہو یا لڑکی‘ خوشی کا اظہار فطری ہے۔ لڑکی اللہ کی طرف سے رحمتوں کا پیغام لے کر آتی ہے اور ایک فرشتہ گھروالوں کو ان رحمتوں کی خوش خبری سناتا ہے۔ جس عورت کے ہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرے‘ دل میں تنگی و ناگواری نہ لائے تو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی خوش خبری سنائی ہے۔

نام: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بچوں کو اچھے نام دو۔ عبداللہ‘ عبدالرحمن‘ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ نام ہیں‘‘۔ انبیا علیہم السلام کے ناموں پہ بچے کا نام رکھنے کی تلقین کی گئی۔ معنی کے لحاظ سے پسندیدہ‘ بامعنی‘ خوب صورت‘ خوشی‘ کامیابی‘ سکون و وقار والے ناموں کا اہتمام کرنا سنت نبویؐ ہے۔

لڑکے یا لڑکی کا جو بھی نام منتخب کیا جائے‘ اس کو پورے شعور کے ساتھ دل کی گہرائی سے احساس کرتے ہوئے پکارا جائے‘ کہ یہ نام نہیں حقیقت میں ایک دعا ہے‘ ایک آرزو ہے‘ تمنا ہے‘ آئیڈیل ہے جس کو پانا ہے۔ بچوں کو پیار ہی پیار میں بے معنی ناموں سے پکارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

رضاعت: پیدایش کے فوراً بعد ہر جان دار مخلوق کا نومولود اپنی ماں کی طرف کشش رکھتا ہے‘ چاہے اُس کا انڈوں سے ظہور ہو یا رحم مادر سے۔ دودھ پلانے والے جانوروں میں مشاہدات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کو اور ماں اپنے بچے کو ایک دوسرے کی بو (smell)سے پہچانتے ہیں۔

قدرت نے نوزائیدہ شیرخوار بچے کی ساری کائنات ماں کی گود اور ماں کے دودھ سے وابستہ کر دی ہے۔ بچے کو شروع ہی سے ماں کا قرب نصیب ہونا چاہیے۔ آج کل بچے کو ہسپتالوں میں ماں سے دُور نرسری میں رکھا جاتا ہے جس سے ماں اور بچہ ایک دوسرے کی مخصوص بو اور تعلق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو دو سال تک دودھ پلانے کی ہدایت کی ہے۔ یہی دو سال کا عرصہ بچے میں تعلیم حاصل کرنے کی قوت اور ذہنی دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔

بچہ رات کو بھوک سے روئے اور ماں اپنی نیند کی قربانی دے کر پوری محبت اور خوش دلی سے اسے دودھ پلائے تو فرشتے اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ہمارے لیے قابل تقلید بزرگوں کی مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کانوں میں کوئی بہترین پیغام‘ آیاتِ الٰہی ‘لوری کی صورت میں سناتی تھیں۔

بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کو ۴۰ دن کے اندر اندر قرآن پاک کی تلاوت سنا دی جائے تو اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔ اس زمانے میں بچہ زیادہ تر سویا رہتا ہے۔ ماں بھی اکثر کاموں سے فارغ ہوتی ہے اور زیادہ تربچے کے قریب ہی رہتی ہے۔ گھر کی دیگر ذمہ داریاں عموماً دوسرے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران کیسٹ کے ذریعے ہلکی آواز میںقرآن پاک کی تلاوت بچے کے سرہانے لگا دی جائے۔ سوتے جاگتے بچے کو قرآن پاک کی تلاوت سے مانوس کیا جائے۔

بچہ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے ’’اللہ‘‘ کا نام سکھایا جائے۔ اذان کی آواز پر متوجہ کیا جائے۔ کلمہ طیبہ‘ بسم اللہ‘ السلام علیکم جیسے بابرکت کلمات سے بچے کی زبان کو تر کیا جائے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بچے کی زبان کھل جائے تو بچہ کو سورہ فرقان کی یہ آیت یاد کروائی جائے:

الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا o (الفرقان ۲۵: ۲)

وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘ جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ‘ جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے‘ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

ابتدائی چند سال: پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ: ’’صرف موروثی اثرات ہی مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘‘۔ مگر اب سائنس دان یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ : ’’بچپن کا ماحول بھی بچے کے مزاج کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچپن کے تجربات پتھر پہ لکیر ہوتے ہیں‘‘۔ مثبت اور خوش گوار مشاہدات‘ جذبات و احساسات کا حامل بچہ اپنے لاشعور سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں قوتِ اعتماد‘ قوتِ فیصلہ اور سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔

دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچے کو اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کے لیے بہترین ماحول چاہیے۔ شخصیت کی صحت مندانہ نشوونما کے لیے ایک صحت مند تصورِ ذات بہت ضروری ہے۔ بچے کا ابتدائی تصور ذات‘ اُسے والدین اور اہل خانہ ہی فراہم کرتے ہیں۔ بہرحال جو اثرات ایک مرتبہ قائم ہو جائیں وہ ختم تو نہیں ہوتے‘ البتہ بعد کے حالات اُس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘ ماحول اسے یہود و نصاریٰ بنا دیتے ہیں‘‘۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک پانی کا چشمہ اپنے فطری بہائو کے ساتھ فطری راستے پر بہہ رہا ہے۔ اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو پانی فطری راستے کی بجائے مختلف اطراف میں بہنا شروع کر دے گا۔

چند سال کا بچہ ذرا سمجھ دار ہو جاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا سائنس دان ہوتا ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کااظہار کرنا چاہتا ہے‘ تاکہ اگلے مرحلے میں وہ اپنے ذہن کی مزید نشوونما کر سکے۔

بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے‘ جس طرح جسمانی غذا بہ تدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہوگی‘ کم ہوگی‘ بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔ بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے ‘ نامکمل اور ناقص ہو تو بچہ روحانی طور پر کمزور‘ بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے‘ اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لیے بھی پیدایش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدایش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ وہ نیت کی درستی‘ فرائض کی ادایگی میں پابندی اور قلب و نگاہ کو شعوری مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے!

بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے اور ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اُسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے۔ یا اُس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس کام سے خوش ہوں گے۔ شروع ہی سے بچے کے قلب و ذہن اور رگ و پے میں اللہ تعالیٰ کی محبت‘ رضا اورخوشی کا احساس بھی اسی طرح دلانا چاہیے۔

مسلمان مائوں کے لیے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انھی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی سرفرازی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالیٰ کو تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید!

والدین کا اپنا طرزعمل بچوں کے لیے سب سے بڑا استاد ہے۔ بچے خاموشی سے اس طرزعمل کو  نوٹ کرتے اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو آپس میں یا دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے‘ یا آپس میں کھیلتے ہوئے‘ ان کی سرگرمیوں اور پلاننگ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین‘ رشتہ داروں اور استادوں سے کیا سیکھ رہے ہیں اور ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ کی حقیقت بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔

چوتھا مرحلہ: نماز کی پابندی

ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود‘ اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہوگا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے ‘ شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دُور کرنا چاہتاہے‘ اسی لیے اس کی ادایگی نفس پر گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں: ’’بے شک نمازبے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ مرد حضرات خود باجماعت نماز کی پابندی کریں‘ لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت‘ انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ بازار جانے‘ کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پالینے کی آرزو پیدا کی جائے۔

نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اُسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر میں ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انھی کے ساتھ نماز کی ادایگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اُٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اُٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ--- صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر فجر کی پوری نماز کی (فرض و سنت کے ساتھ) پابندی کرائی جائے۔

دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بہ تدریج باقی نمازیں۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ‘ شعور‘ آگہی اوردعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی۔

پردے کی پابندی: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جب تیرے اندر حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتا پھرے‘‘۔ سب سے پہلے تو خود والدین کو اس لفظ کا معنوی و حقیقی‘ اخلاقی و مذہبی لحاظ سے شعور ہونا چاہیے۔ شرم و حیا سے عاری گفتگو‘ انداز و اطوار ‘ حرکات و سکنات اور لب و لہجہ باقی تمام محاسن پر پانی پھیردیتا ہے۔ اگر اس باب میں احتیاط و شائستگی نہیں اختیار کی جاتی تو پھر بڑی باقاعدہ عبادت گزاری کا بھی بچے پر کوئی تاثر نہیں جم سکتا۔

لڑکے اور لڑکیوں کو عمر کے ساتھ ساتھ لباس کا احساس دلایا جائے۔  اگرچہ سالگرہ منانا اسلامی تہذیب کا رواج نہیں ہے‘ تاہم سالگرہ کا دن بچے میں خود احتسابی کے تصور کے ساتھ متعارف کروا دیا جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چھوٹے بچے کو سالگرہ کے دن اخلاقی نصاب کا کوئی ایک قرینہ سکھایا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ جس ماحول میں گفتگو سے لے کراعمال تک حیا نہ ہو اُس میں بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں شرم و حیا کا تصور کیسے جاگزیں ہو سکتا ہے؟ جس معاشرے میں بچے ‘ جوان اور بوڑھے ایک ہی جیسے فحش و عریاں ماحول میں سانس لے رہے ہوں اور سب حیا سے عاری ہو جائیں تو انھیں ذلت و رسوائی سے کون بچا سکتا ہے۔

گھروں میں نوعمری میں ہی لڑکے لڑکیوں کی نشست و برخاست کا انتظام علیحدہ ہونا چاہیے۔ نرسری اور پرائمری اسکول عام طور پر مخلوط ہی ہوتے ہیں۔ انتہائی چھوٹی عمر میں بھی مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم کیا جائے یا بچوں کو وہاں نہ بھیجا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اسی عمر میں بچوں کو مخلوط اداروں میں بھیجنے سے پہلے یہ شعور دیا جائے کہ کان‘ آنکھ اور دل کے بارے میں حساب دینا ہو گا۔

معاشرتی تقاضے: بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بچوں کے درمیان عدل اور انصاف کا برتائو اہم نکتہ ہے۔

والدین کی طرف سے بچوں کے درمیان بلاوجہ تفریق و امتیاز‘ نہایت قابل گرفت بات ہے۔ خصوصاً ایسے والدین کی طرف سے جو خود تو صالح ہیں اور اولاد کی طرف سے پریشان ہیں کہ وہ حق کو نہیں سمجھتی۔ ایسے بچوں کے ساتھ متشددانہ رویہ حالات کو مزید خراب کر دیتا ہے۔ پہلے عرض کیا جا چکا کہ بچے کا اپنے والدین خصوصاً ماں کے ساتھ مناسب تعلق قائم نہ ہو--- ماں کی مصروفیات چاہے کتنی ہی صائب اور ضروری کیوں نہ ہوں--- بچے سے دُوری اور لاتعلقی اپنا اثر دکھا کر رہتی ہے۔ بعد میں اگر حالات درست ہو جائیں‘ تعلق بحال ہو جائے‘ کمی دُور ہو جائے تو فبھا ورنہ یہ تعلق کی کمی اور تشنگی دُور نہیں ہوپاتی۔ بعض اوقات تو منفی ردعمل سامنے آتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ لڑکوں کو ’’قوام‘‘ کے درست معنی سمجھائیں‘ اور بتائیں کہ وہ عورتوں کے آقا اور مالک نہیں بلکہ وہ ان آبگینوں کے نازک جذبات ‘ احساسات‘ خواہشات اور ضروریات کے نگہبان ہیں۔ ہمارے معاشرے نے جو جھوٹی شان ‘ تمکنت‘ رعونت‘ کرختگی اور آمرانہ روش لڑکوں کے ذہنوں میں بے جا طور پر بٹھا دی ہے‘ وہ اسلام اور اخلاق دونوں حوالوں سے غلط ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ عورت کو بحیثیت ماں‘ بیٹی‘ بیوی اور بہن کے قدرومنزلت دی جائے۔ یاد رہے‘ کہ ظلم کے کھیتوں میں کبھی بھی محبتوں اور شفقتوں کے پھول نہیں کھلتے۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی‘ بہن اور بیٹی کے ساتھ ظلم یا خود پسندی کا رویہ اختیار کرے گا‘ تو ویسا ہی بیمار معاشرہ پیدا ہوگا‘ جیسا ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہمیں اس معاشرے کو نہیں بدلنا؟

عمومی سیرت و کردار کی پختگی:  بچوں سے اپناتعلق (قلبی و ذہنی) مضبوط کرنے کے لیے گھرمیں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ ضروری نہیں کہ اس میں خشک اور یبوست زدہ ماحول ہی ہو۔ خوش گوار ماحول کے ساتھ علمی و ادبی گفتگو اور مسائل پہ تبادلۂ خیال ہو۔ بچوں کے آپس میں تنازعات پہ افہام و تفہیم ہو۔ بچوں کو دوسروں کی طرف سے صرف تعریف سننے کا عادی نہ بنایا جائے۔

والدین عموماً بچوں کی بہت سی عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظراندازکرتے رہتے ہیں‘ مگر بالغ ہوجانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ بچے توغلط رخ پہ جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش‘ تعلیم و تربیت ہر سال‘ ہر مہینے‘ ہر ہفتے‘ ہر دن اور ہر گھنٹے اور ہر لحظے کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری (ڈیوٹی) ہے۔

جب زمین کے اندر بیج ہر قسم کے موسم‘ مصائب و آلام سے گزر کر ایک ثمربار درخت بنتا ہے۔ اس وقت اس درخت (باغ) کو پہلے سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کو سمیٹنا‘فائدہ اٹھانا اور آیندہ کی منصوبہ بندی کرنا عقل مندی کی نشانی ہے۔ اسی طرح جوان اولاد‘ والدین کے لیے ثمربار درخت ہے۔ اس وقت اس کو ضائع کرنا‘ اس سے لاپروا ہونا‘غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا‘ ساری محنت اکارت کر دینے کے مترادف ہے۔

نفسیاتی‘ ذہنی‘ جسمانی و صنفی تبدیلیاں بچوں کو ایک نئے موڑ پہ لاکھڑا کرتی ہیں۔

اس وقت والدین کی شفقت‘ اعتماد‘ گھر کے ماحول میں بچوں کی اہمیت انھیں سکون مہیا کرتی ہے۔ اس دور کے ذہنی و جسمانی اور ارتقائی مراحل قابل اعتماد رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لڑکے کے لیے باپ کی بھرپور توجہ‘ رہنمائی اور محبت اسے بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنا ‘اس عمر کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ الل ٹپ پرورش پانے والے بچے غلط انداز فکر کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اپنا بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔

اس عمر میں بچوں کو گھر کے ماحول سے سکون و طمانیت ملے۔ ننھیال‘ ددھیال میں ان کی شخصیت کو مانا اور تسلیم کیا جائے‘ لڑکے کو گھر کی خواتین والدہ‘ بہنیں‘ خالائیں‘ پھوپھیاں غرض محرم خواتین شفقت و محبت دیں‘ والد اسے اپنا دست و بازو گردانے تو اس کی ایک پرُاعتماد شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح لڑکی کو گھر کے مرد‘ والد‘ بھائی‘ ماموں‘ چچا اپنے دست شفقت سے نوازیں اور والدہ اور دیگر رشتے دار خواتین اس کی شخصیت کو تسلیم کریں‘ تو شائستہ اطوار اور زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔

معاشرے میں جس بے راہ روی کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ وہ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو راہِ راست پرلانے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی اور فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس کے متبادل چیزیں لا کر دینے میں دیر کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔

پانچواں مرحلہ: رشتوں کی تلاش

والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کی مناسب وقت پر شادی کر دیں۔ اس میں کسی قسم کی طمع و حرص اور اَنا کا دخل نہ ہو۔ نیک نیتی سے اُسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کریں‘ جو معیار اللہ اور اس کے رسولؐ نے قائم کیا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ والدین اپنے بیٹے کے لیے پسند و ناپسند کا پیمانہ دوسرا رکھیں اور اپنی بیٹی کے لیے کوئی مختلف پیمانہ مقرر کریں--- اسی طرح جو بلند معیار اپنی بیٹی کے لیے ہے‘ وہی دوسروں کی بیٹی کے لیے قائم نہ رکھا جائے تویہ کھلی منافقت اور سراسر بدنیتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ تعلیم‘ خاندان‘ اسٹیٹس اورمعاش میں کفو کو نظرانداز نہ کریں۔ لیکن‘ جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ شعورو آگہی‘ اندازِ فکروفہماور نظریات میں بھی ’کفو‘ کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ازدواجی زندگی اور تربیت اولاد کے سلسلے میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے قائم کرنے کے لیے جو ترتیب بتائی ہے اسی کو مدنظر رکھا جائے‘ یعنی: دین‘ حسب نسب‘ شکل و صورت۔ جس چیز کو سب سے آخر میں رکھا گیا ہے لوگ اسی کو اول و آخر قرار دیتے ہیں۔ اگر کام کی فطری ترتیب کو اُلٹ دیا جائے تو معاشرہ ابتری کا شکار ہو جاتا ہے۔

بچے کی تربیت میں دیگر رشتہ داروں کا کردار

ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام بہت سی خوبیوں اور کئی خرابیوں کا مرقع ہے۔ بچے کی شخصیت پہ مثبت و منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہر گھر میں بچے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں اور پودوں کی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ اس باغیچے کے باغبان والدین ہی ہیں اور باغبان ہی اپنے پودوں اور پھولوں پھلوں کا اصل میں ذمہ دار اور نگہبان ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ پودوں کی نشوونما کس نہج پہ شروع ہوئی اور اب کس مرحلے میں ہے۔ پودوں کی کانٹ چھانٹ اور کیاریوں کی صفائی ستھرائی باغبان کا ہی کام ہے۔ ایک ترتیب دیے گئے باغیچے میں پھول‘ پھل پودے جب بہار دے رہے ہوتے ہیں تو باغبان ہی نہیں دیگر دیکھنے والے بھی آسودگی اور نظروں میں تراوٹ محسوس کرتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ہوتا۔ بہتر سے بہترین بنانے کی لگن سے کوئی والدین غافل نہیں ہوتے۔ فرق صرف دنیا یا آخرت میں سرخرو ہونے کے تصور میں ہے۔

بچوں کی وہ خوشیاں جن کا تعلق حصولِ دین سے ہو‘ ان میں سب کو بھرپور خوشی منانی چاہیے‘ مثلاً علم قرآن و حدیث کے حصول پہ خوشی‘ چھوٹے بچے کی دُعا‘ آیت یا دینی امور میں نمایاں کامیابی‘ نماز‘ روزہ‘ غرض ہر نیکی کا صلہ خوشی‘ محبت ‘ حوصلہ افزائی اور انعام کی صورت میں دیا جائے۔ دین سے بے بہرہ لوگ دنیاوی کامیابیوں پہ جشن مناتے ہوں تو مسلمان بچے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوششوں میں ہونے والی کامیابیوں کی خوشیاں کیوں نہ منائیں؟--- وہ تقریبات جو شرعاً جائز ہیں ان کوباوقار طریقے سے اسلامی تہذیب و فکر کے ساتھ منایا جائے۔

اُمت مسلمہ جس پرآشوب دَور سے گزر رہی ہے اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے‘ کہ آج ہی صدق دل سے ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے اور نسل نو کی بحیثیت ایک مسلمان کے‘ دوا اوردُعا دونوں کے ساتھ آبیاری کرے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے نسل نو کو مثالی مسلمان قوم بنانے کے لیے نصرت و حمایت کی دُعا کرتے ہیں:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا  قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴)

اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے کر ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ گویا رمضان المبارک کی اہمیت روزے کی وجہ سے نہیں بلکہ نزول قرآن کی شان اس کو اہم بناتی ہے۔یہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ ’’لوگو! تمھارے پاس رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے‘ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کے لیے شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ! کہو کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی۔ اس پر تو لوگوں کو خوشی منانا چاہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘ (سورہ یونس ۱۰:۵۸)۔ گویا روزوں میں جس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ‘ وہ قرآن سے تعلق ہے۔ روزے کی شان یہ ہے کہ اس میں کلام الٰہی سے نسبت بڑھائی جائے۔

قرآن سے تعلق بڑھانے اور روزے کی شان دوبالا کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے؟

نیت

سب سے پہلے تو ہم اپنی نیت کو خالص کریں کہ تمام نیکیوں اور اعمال کا دارومدارنیت پر ہے۔ نیت شعور و احساس پیدا کرتی ہے‘ شعور بیدار ہو تو ارادہ مستحکم ہوتا ہے اور پھر محنت اور کوشش کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اسی لیے نماز ‘ روزہ اور عبادت کے لیے نیت کی تاکید کی گئی۔ اگر اعمال میں صحیح نیت کی روح ہو تو وہ اثرآفرینی ‘نشوونما اور نتیجہ خیزی کی قوت رکھتے ہیں۔ اگر نیت خالص نہ ہوگی اور آپ کام صرف اللہ تعالیٰ کے لیے نہ کریں گی تو وہ قبول نہ ہوگا ‘محض راکھ کا ڈھیر ثابت ہوگا۔

قرآن سے مضبوط تعلق

۱- خالص نیت کریں کہ رمضان المبارک میں قرآن سننا اور پڑھنا اپنے رب کی رضا کے لیے ہوگا اور اس تمنا کے ساتھ کہ یہ کلام میرے عمل کا حصہ بن جائے۔

۲- یہ بھی رمضان المبارک کی تیاری کا حصہ ہے کہ پہلے سے سوچ لیا جائے کہ کتنی مرتبہ قرآن پاک پڑھنا ہے۔ عربی متن کے ساتھ اُردو ترجمہ کتنی مرتبہ پڑھنا ہے۔ روزانہ کا پارہ اور پھر ترجمہ روز پڑھ لینا ہرگز مشکل نہیں۔ یہ نہ ہو سکے تو پورے پارے کا خلاصہ جو اکثر اخبارات میں روزانہ تراویح کے حساب سے چھپتا ہے‘ ذہن نشین کر لیا جائے۔

۳- حفظ کی کوشش کرنا ۔جو قرآن کا حصہ حفظ ہے‘ اس کو دہراتے رہنا ۔

ذا تی محاسبہ

رمضان المبارک کے آغاز پر ہی ہم کوئی ایک اچھی عادت اپنانے کا ارادہ کر لیں‘ کوئی ایک بری عادت چھوڑنے کا سوچ لیں اور پورا مہینہ اس پر کاربند رہیں۔ جس طرح ہم ہر وقت کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ظاہری لباس کو خوب سے خوب تر بنائیں‘ اسی طرح تقویٰ کا لباس بہترین سے بہترین بنانے کے لیے کوشش تیز کر دینی چاہیے۔

مطالعہ قرآن و حدیث ‘ اسلامی لٹریچر‘ نوافل‘ خیرات‘ نیکی کی جستجو‘ ذکر و دعا‘ قیام اللیل‘ شب قدر‘ اعتکاف اور اللہ کے بندوں کی مدد--- یہ وہ چیزیں ہیں جو تقویٰ کا لباس بنانے کے لیے ہمیں درکار ہیں۔ ان سب کے لیے اپنے اوقات کار اور اپنے کاموں کو منظم کرنا اور سہولت حاصل کرنا ضروری امر ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں‘ راتوں کو اپنے رب سے لو لگانے کا خاصا وقت مل سکتا ہے۔

میں یہ ضرور ذکر کرنا چاہوں گی کہ رمضان المبارک کے استقبال کے لیے ہم جہاں گھر کی صفائی خوب توجہ اور خاص محنت سے کرتے ہیں‘ کچھ ایسی ہی صفائی اپنی روحانی دنیا کی بھی کرنی چاہیے۔ تقویٰ جو دل میں اپنا مقام بناتا ہے‘ اس دل کی صفائی کتنی کر لی گئی ہے۔ کتنے اخلاقی اوصاف اس گھر میں سجائے گئے ہیں اور اخلاقی برائیوں کے کتنے جالے اور جھاڑ جھنکار‘ اس گھر میں لگے ہوئے ہیں۔ جب تک اس اندرونی گھر کی صفائی نہ ہوگی گھروں‘ کپڑوں اور جسم کی صفائی ادھوری رہے گی۔

امور خانہ داری کی منصوبہ بندی

رمضان المبارک کی پہلی سحری آپ کی جدوجہد کا بنیادی نقطہ بن سکتی ہے۔ کچن کے معاملات میں تھوڑی سی سمجھ داری سے کام لیا جائے تو بہت سا وقت اور بہت سی پریشانی سے بچا جا سکتا ہے۔

رمضا ن المبارک کی سحری و افطار کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے چند دن پہلے ہی کچھ کام کر لیے جائیں تو انتہائی سہولت رہتی ہے:

پیاز‘ لہسن اور ادرک چھیلنے پیسنے میں بہت وقت لگتا ہے‘ اگر ایک دن بچوں کو ساتھ ملا کر یا گھر میں کام کرنے والی ماسی کے ذریعے مہینے بھر کا مسالہ پسوا لیا جائے‘ پیاز سرخ کر کے پیس لی جائے اور یہ سب چیزیں شیشیوں میں بھر کر فریج میں رکھ دی جائیں تو رمضان میں بہت سی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے اور وقت بھی وافر مل جائے گا۔ بہت سی سبزیاں بھی صاف کر کے اُبال کر یا اُبالے بغیر محفوظ کی جا سکتی ہیں‘ بلکہ اب تو ایک ہی دن بہت سے کھانے پکانے کے کام کر کے باقی دنوں میں فارغ رہا جا سکتا ہے۔

افطاری میں ڈھیر سارے کھانے دسترخوان پر سجانے کے بجائے سادگی اور ون ڈش کو رواج دیا جائے۔ اس میں سہولت بھی ہے‘ بچت بھی اور صحت بھی۔ گھر میں کام کرنے والے ملازموں سے مشقت میں کمی کرنا اور ان کا ہاتھ بٹانا بہت زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہے۔ اس کے لیے بھی خصوصی اور شعوری کوشش کرنی چاہیے۔ برتنوں کا کم سے کم استعمال کیا جائے اور گھر کے ہر فرد کو ہدایت کی جائے کہ اپنا گلاس اور پلیٹ خود دھوکر رکھ دے ۔ ان کو احساس دلایا جائے کہ اس کا کتنا اجر ہے۔

عید کی تیاری

عیدالفطر کی تیاری بھی رمضان المبارک کے آنے سے پہلے مکمل کر لی جائے تو رمضان کے قیمتی وقت سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ شب قدر جیسی عظیم راتیں اور چاند رات جیسی قیمتی رات کہ اس وقت ’’مزدور‘‘ کا ’’مزدوری‘‘ لینے کا وقت ہوتا ہے‘ خواتین چوڑیوں‘ کپڑوں‘ دوپٹوں اور بٹن دھاگوں کے مسائل میں الجھی رہتی ہیں ۔ یوں شیطان ان سے وہ تمام محنتیں ضائع کرا دیتا ہے جو پورے مہینے کی تھیں۔ یاد رکھیے کہ رمضان المبارک کے دن اور رات کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ ایک پوری زندگی دے کر بھی اس کا نعم البدل ملنا محال ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے ایک فہرست بنا لی جائے کہ اس ماہ مبارک میں وہ دنیاوی امور جو انجام دینا ناگزیر ہیں‘ کون سے ہیں‘ اور کون سے کام ایسے ہیں جن کی بجاآوری ضروری نہیں۔ ترجیحات کا تعین انسان کو سچی خوشی اور کامیابی عطا کرتا ہے۔

عید کے موقع پر نئے کپڑے اور زیور بنانا آپ کا حق ہے۔ مگر کیا ہم اپنے ارد گرد تمام انسانوں کی ضروریات پوری کر چکے ہیں یا جتنا ہم کر سکتے ہیں کر لیا ہے؟ کیا ہمارے لباس پر خرچ ہونے والی رقم کا کوئی اس سے بہتر مصرف نہیں ہے؟ کیا ہم سے زیادہ ضرورت مند کوئی موجود نہیں؟

راہ خدا میں خرچ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’بندوں کے عمل اللہ کے نزدیک سات درجے پر ہیں۔ دو عمل ایسے ہیں کہ دو چیزوں کو واجب کرتے ہیں اور دو ایسے ہیں کہ ان میں بدلہ عمل کے برابر ملتا ہے۔ ایک عمل وہ ہے جس کے بدلے ۱۰ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ایک عمل ایسا ہے کہ اس کے بدلے ۷۰۰ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ایک عمل ایسا ہے کہ اس کے ثواب کی حد سوائے اللہ پاک کے اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ عمل جس کا بدلہ ۷۰۰ گنا تک ہے وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے‘ اور وہ عمل جس کے اجر کی کوئی حد نہیں‘ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا ہے۔

جب رمضان المبارک میں روزے کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس قدر ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے تو ہمیں ضرور اس کو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے پاس اگر اتنی گنجایش نہیں کہ خوب خرچ کریں تو یہ ایثار تو کر سکتے ہیں کہ بہت شان دار اور قیمتی لباس کے بجائے سادہ لباس بنالیں یا اس لباس کو کسی ایسے کو دے دیں جو زیادہ مستحق ہو۔

اپنی اور اولاد کی تربیت

رمضان المبارک میں اپنی اولاد کی طرف اس طرح خصوصی نظر کرم کریں کہ جس طرح اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ روزے کے ساتھ چند دن تو ایسی مشق کی جا سکتی ہے کہ بچوں کے سامنے ایک بہتر نمونہ موجود ہو۔ بچے کو بھی معلوم ہو کہ روزہ دار ماں اور عام دنوں میں ماں کی مہربانی میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ وہ جان لے کہ روزہ رکھنے والی ماں کتنی اچھی ماں ہوتی ہے اور پھر یہی مشق دوسرے ۱۱ مہینوں میں بھی جاری رہنی چاہیے۔ روزہ رکھ کر چیخنا چلانا روزے کو خراب کرتا ہے۔ روزہ رکھ کر بدزبانی اور غیبت کرنا حرام ہے۔ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں زبان کی حفاظت نہ کی گئی ہو۔ اپنے بچوں کو روزے کی خوب صورتی کا احساس دلائیں۔ روزے کی محبت ان کے دل میں جاگزیں کرنا چاہیے۔

افطار کے وقت ہر عمر کے بچے کو روزہ دار ہونا چاہیے۔ عمر کے لحاظ سے روزہ رکھوایا جا سکتا ہے۔ اسکول جانے والے چھوٹے بچے اسکول سے آکر عصر سے مغرب تک روزہ رکھ سکتے ہیں حتیٰ کہ دو سال کا بچہ بھی افطاری سے چند منٹ پہلے روزے کا احساس کر سکتا ہے۔ بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو افطاری کی خوشی میں شریک کرنا چاہیے۔ افطاری مغرب کی اذان سے ۱۵‘ ۲۰ منٹ پہلے تیار کر لینی چاہیے۔ تمام کاموں سے فارغ ہو کر ذکر الٰہی کیا جائے۔ تمام اہل خانہ سمیت اجتماعی و انفرادی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔

سحری کے وقت خواتین اپنے رب سے راز و نیاز کر سکتی ہیں‘ کام کاج کرتے ہوئے بھی‘ چند منٹ پہلے اٹھ کر اپنے رب کے حضور سجدہ کر کے بھی‘ اپنے گناہوں کی معافی چاہنا اللہ کو بے حد پسند ہے۔ توبہ استغفار سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے تو دنیاوی پریشانیوں سے بھی نجات ملتی ہے۔ شب قدرکی تلاش اور اس کی معراج ہر روزہ دار کی آرزو ہوتی ہے۔ اپنے قلب و روح‘ مزاج و انداز‘ فکروعمل کو اپنے اللہ کے رنگ میں رنگنے کی جستجو اور کوشش جاری رہے تو یہ نعمت بھی ملنا ناممکن نہیں۔ خودپسندی‘ عجب‘ تکبر‘ اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرنے میں مانع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو اپنا قرب عطا نہیںکرتا جو خود پسندی اور تکبر میں مبتلا ہوں۔

سحری کے وقت نفل پڑھنا یا کوئی بھی نفل نماز پڑھنے سے پہلے اعتکاف کی نیت کر لینا چاہیے۔ اگر مسجد میں نمازتراویح پڑھنے کا موقع ملے تو اس سے ضرور مستفید ہوں اور مسجد میں داخل ہوتے وقت اعتکاف کی نیت کر لی جائے۔

سالانہ منصوبہ بندی کیجیے

رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ ہر عمل نیکی کے بیج سے پھوٹ کر پھل پھول لا رہا ہوتا ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ بہار کس کے لیے ہے؟ کس کی زندگی میں؟ کس کے رمضان میں؟ لازماً گذشتہ پورے سال میں اپنے دل میں نیکیوں کے بیج بوئے ہوں گے تو موسم بہار میں رنگینی بہار نظر آئے گی۔ دلوں میں ایمان اور نیکیوں کے بیج بو کر ان کی آبیاری کتنی کی گئی‘ اسی لحاظ سے یہ بہار بھی آئے گی۔ اگر اس رمضان میں ثمربار شجر اور پھولوں کی مہکار نظر نہیں آ رہی تو اس کی تلافی ممکن ہے۔ ابھی اور آج ہی سے وہ بیج بو لیے جائیں۔ دل کی زمین جتنی زرخیز ہوگی پھل اسی کثرت سے اور خوب تر آئے گا۔

رمضان المبارک تو سالانہ نیکیوں کا میلہ ہے جس کے تین حصے بنا دیے گئے: رحمت‘ مغفرت اور آگ سے رہائی۔ ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق وصول کر رہا ہے۔جو محروم رہ گیا‘وہ نہ جانے دوبارہ اس میلے میں شریک ہو سکے گا یا نہیں؟ نیکیوں کی سیل لگی ہوئی ہے۔ کم دام دے کر زیادہ چیزیں خرید لو‘ قیمتی خرید لو۔ نفل نیکی کا فرض کے برابر اور فرض کا ۷۰ فرض کے برابر ثواب۔ رحمت خداوندی جوش میں ہے۔ خوش نصیب ہیں جواس سے فیض حاصل کرلیں۔

رمضان المبارک ہمارے لیے سالانہ امتحان کا سا درجہ رکھتا ہے۔ جنت اور رضاے الٰہی ہمارا مقصود و مطلوب ہے۔ یہی ہماری منزل ہے۔ اس منزل کو پانے کے لیے ہم درجہ بہ درجہ اُوپر کی طرف جا رہے ہیں‘ نیچے کی طرف جا رہے ہیں‘ اپنے ربّ سے قریب ہو رہے ہیں‘ یا دُور ہو رہے ہیں؟ یہ ہمارے جائزے کا وقت ہے۔ رمضان المبارک ہمارے لیے سالانہ منصوبہ بندی کا وقت ہے۔ اس رمضان اور آیندہ رمضان کے دوران ہم نے کیا حاصل کرنا ہے‘ کیا چھوڑنا ہے‘ کیا خریدنا ہے‘ کیا چیزیں ضروری ہیں‘ کتنا دین کا علم حاصل کرنا ہے اور آگے پھیلانا ہے؟ قرآن و حدیث کی تعلیم کا نصاب بنانا‘حقوق اللہ و حقوق العباد میں توازن پیدا کرنا اور خوب سے خوب تر کی تلاش کرنا کیسے ممکن ہے؟

گھر کی کون سی چیزیں ضروری خریدنا ہیں اور کن کے بغیر گزارا ہو جائے گا۔ اپنے بچوں کے لباس اور دیگر مشاغل میں سادگی کا عنصر کتنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ کون سی اخلاقی خوبیاں اپنے اندر اجاگر کرنا اور کون سی برائیاں چھوڑنی ہیں؟ اس بابرکت مہینے میں جو بھی منصوبہ بنایا جائے گا اس میں اللہ کی رحمت شامل ہوگی۔ پورا نہیں تو کچھ مفید منصوبہ پورا ہوگا۔ زندگی ایک منظم طریقے سے بسر ہوگی۔ دل کو اطمینان اور خوشی ملے گی اور آیندہ رمضان اگر نصیب ہوا تو معلوم ہو جائے گا کہ ہم اپنے دفتر میں کیا جمع کر رہے ہیں۔

رمضان کا پیغام

روزوں کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ دل کا چراغ ہے‘ عبادت اس چراغ کا تیل ہے۔ تیل ہوگا تو چراغ روشن ہوگا۔ اس چراغ کی روشنی باطن کو منور کرتی ہے‘ ظاہر کو حسن بخشتی ہے۔ مضبوط قوت ارادی کے ذریعے خواہشات و جذبات کو قابو میں کر لینے کا نام ضبط نفس ہے۔ یہ ضبط نفس ہی اصل میں پرہیزگاری اور تقویٰ ہے۔

انسان کی خواہشات اور جذبات اعتدال کی حدود سے آگے گزر جائیں تو برائی سرزد ہوتی ہے۔ خواہشات کی یہ خصوصیت ہے کہ جب ہم انھیں پورا کرتے چلے جائیں تو یہ مضبوط ہوتی ہیں‘ دباتے رہیں تو کمزور ہوتی ہیں۔ ہر خواہش نفس کو دباتے رہنے سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ روزے میں بھوک‘ پیاس کی خواہش کے دبے رہنے سے یہ خواہش پورا دن سر نہیں اُبھارتی۔ قوت ارادی سے روزے میں بھوک‘ پیاس کے احساس کو مغلوب کر لیا جاتا ہے‘ اسی طرح اپنے تمام اعضا کو قوت ارادی کے ذریعے برائی سے دُور رکھا جا سکتا ہے۔ دراصل پیٹ کے روزے سے مومن کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ جب اپنی قوت ارادی سے بھوک‘ پیاس اور نفسانی خواہشات پر قابو پا سکتے ہو تو دیگر خواہشات اور اعضا اور فکروعمل پر پابندی لگانا‘ ان پر قابو پانا تو آسان ہے۔ دنیا میں تمام جرائم اور اخلاق رذیلہ کی بنیاد پیٹ ہے۔ جس نے اس پر قابو پا لیا وہ دیگر روحانی مدارج کو طے کرنے کے لیے اپنے آپ کو کامیابی کی راہ پر گامزن سمجھے۔