دور آدم علیہ السلام ہو کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ ، بنی اسرائیل کا سلسلۂ نبوت ہو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تاقیامت زمانہ ، اللہ تعالیٰ نے ازل سے ابد تک فلاح و خسران کا ایک ہی پیمانہ متعین کیا ہے۔ خلافت راشدہ کے زمانے کو ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ خود شمع اسلام کے پروانے حرص و ہوس کی آگ بھڑکانے لگے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ یہ چراغ کبھی گل نہ ہوگا۔ انبیا کی بعثت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد وہ رحمن و رحیم ذات اپنے برگزیدہ بندوں کو شمع ہدایت دے کرانسانوں کو بھٹکنے سے بچاتی رہے گی۔
۱۲ ویں صدی ہجری میں جب عالم اسلام کی حالت دگرگوں ہو رہی تھی اور تاریخ جاہلیت کا سبق دہرا رہی تھی۔ رب رحیم نے ہندستان میں سیداحمد شہید اور سید اسماعیل شہید کو شجر اسلام کی آب یاری کے لیے چنا ، ا ن کا خون بالا کوٹ کی سرزمین کو سیراب کررہاتھا تو ادھر شیخ محمد بن عبدالوہاب بن سلمان سرزمین عرب کو اندھیاروں سے نکالنے میں مصروف تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا اور اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے ارتقا کے ساتھ اور نئی جہت کے ساتھ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے شمع رسالتؐ کے پروانوں کاانتظام فرمایا۔
یہ مغربی کفر و استبداد کا زمانہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے ’ملا کی اذاں‘ اور ’مجاہد کی اذاں‘ کو واضح کرنے کے لیے برعظیم میں علامہ اقبال ا ور سید مودودی جیسے مفکر اسلام کی آواز کو شرق و غرب میں پہنچایا اور مصر میں حسن البنا کی آواز’مجاہد کی اذاں‘ قرار پائی۔ حسن البنا نے صرف بیس سال کے عرصے میں ایسا ذہنی و فکری انقلاب برپا کردیاکہ اس کی مثال خال خال ملتی ہے۔اس فقیر منش انسان کو عاجز ی و انکساری بے حد پسند تھی۔ ان کا ایک پسندیدہ شعر تھا ؎
ما لذۃ العیش الا صحبۃ الفقراء
ھم السلاطین و السادات والامراء
(زندگی کا لطف اللہ والوں کی صحبت ہی میں ہے، دراصل وہی ہمارے سلطان، سردار اور رہنما ہیں۔)
مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی بیان کرتے ہیں:’’جب میں ۱۹۴۶ء میں یورپ سے مصر واپس لوٹا‘ تو میں نے پہلی مرتبہ حسن البنا کو بچشم سر دیکھا۔ میں نے متعدد مرتبہ ان کی گفتگو سنی۔ مجھے ان کے اندر صاف و شفاف روح نظر آئی۔ جوں جوں ہمارے تعلقات مستحکم ہوتے گئے مجھ پر انکشاف ہوتاگیا کہ اس عظیم انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نادر خوبیوں ، اعلیٰ خصائل اور کریمانہ صفات سے نواز رکھاہے۔ گہرا اخلاص ، عقل سلیم ، عزم قوی ، بلند ہمتی ، ایثارکیشی ،ثابت قدمی ، مادی زندگی سے گریز ،دنیاوی مال و منال سے بے نیازی ان کی نمایاں صفات تھیں۔ سادگی ان کا طرۂ امتیاز تھا اور قناعت ان کے مزاج کا حصہ تھی۔یہی وہ اوصاف تھے جن کی بنا پر وہ قیادت کے منصب پہ سرخ رو ہوئے اور زندگی کی امانت اپنے رب کے حضور شہادت کے ساتھ واپس کی‘‘۔
حسن البنا شہید کی زندگی مختصر تھی لیکن ان کی تعلیمات پُر اثر اور جدوجہد باثمر ہے۔ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کا فلسفہ انھوں نے سچ کردکھایا۔ حسن البنا شہید کے وہ انقلاب انگیز الفاظ جو آج بھی اخوان کے پروگراموں میں نعروں کی شکل میں گونجتے ہیں دلوں کے لیے نشاط انگیز اور میدان عمل کے لیے کسی حربی ترانے سے کم نہیں: ’’اللہ ہمارا مقصود ہے رسولؐ اللہ ہمارے قائد ہیں۔ قرآن ہمارا دستور ہے۔ جہاد ہمارا راستہ ہے اور شہادت ہماری اعلیٰ ترین آرزو ہے۔یہ الفاظ محض نعرہ ہی نہیں، بلکہ حسن البنا نے اپنے جسم کے روئیں روئیں میں اور زندگی کے ہر سانس میں ان کو اُتار لیاتھا۔ ہر لفظ کو ایک عہد و پیمان سمجھ کر اپنی روح میں اُتارا اور اسی جذبے اور تابانی روح کو اپنے ساتھیوں کے دلوں میں منتقل کیا اور ان کے ظاہر و باطن کو اُجلا کردیا۔
حسن البنا شہید نے جس دور میں اسلامی انقلاب کا علَم اٹھایا اس وقت شرکیہ عقاید ، علم نجومِ و اوہام پرستی‘ فرقہ بندی‘ فقہی مسائل میں ائمہ دین کا آپس میں ٹکرائو اور متشابہات کی من مانی تاویلات کا غلبہ تھا۔ ایک دین کے پیرو کار ہوتے ہوئے بھی لوگ گروہ بندی ، تعصب ، بغض و عناد میں مبتلاتھے۔ حسن البنا شہید کے فہم و تدبر اور کردار کی پختگی و استقامت نے عوام الناس خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں کو صحیح العقیدہ فہم عطا کیا۔
حسن البنا نے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کا حقیقی تصور اجاگر کیا۔ لوگوں نے یہ جان لیا کہ اسلام ہی مکمل ضابطہ حیات ہے،اور یہ سلطنت ، وطن ، حکومت ، رعایا، ضابطۂ اخلاق ، طاقت ، رحم، عدل ،ثقافت ،قانون ،علوم معاش میں فیصلہ کن طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام دعوت بھی ہے اور جہاد بھی۔ اسلام ہی جوش بھی ہے ہوش بھی۔ عقیدت و محبت کا منبع و سرچشمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ ہیں۔ حسن البنا شہید کی دور رس نگاہ نے تزکیہ نفس کے مروجہ خانقاہی طریقوں کے بارے میں لوگوں کا ذہن صاف کیا۔ دلیل کی روشنی میں حقیقت تک پہنچنے کی راہ سجھائی۔ حسن البنا شہید نے اپنے ممبران کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ نیک لوگوں سے تعلقا ت بنائیں۔ نیک صحبت اختیار کریں۔ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے اس کی تلاش میں اور اس کے حصول میں کوشاں رہیں۔
ان کی تعلیمات میں ’فہم ‘پہلا تربیتی نکتہ تھا جس کو انھوں نے ایک عہد و پیمان کی طرح لوگوں کی روح و عمل میں اتار دیا، اور ساتھ ہی ’اخلاص ‘ کا وہ رنگ قلب وذہن میں پختہ کردیا کہ ان صلوٰتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمینحرز جان بن جائے۔ فہم و اخلاص کا لازمی نتیجہ ’ عمل‘ ہے اور عمل سے مراد ایسا عمل ہے کہ جو فہم اور اخلاص کا پھل ہو۔ اس پھل کو حاصل کرنے کے لیے کچھ منازل طے کرنا پڑتی ہیں۔ ان منازل کو طے کرانے کے لیے حسن البنا شہید نے خصوصی تربیتی کورس کروائے۔ سب سے پہلے مرحلے میں مضبوط جسم کے لیے صحت کا خیال رکھنا، اس کے لیے ورزش ، محنت، مشقت ، خواہشات نفس پہ کنٹرول کی تربیت ، نفس کے خلاف جہاداور اس سلسلے میں اپنا کڑا محاسبہ اور امتحان لیتے رہنا شامل ہے۔
دوسرا مرحلہ : قوا انفسکم و اھلیکم ناراً کی عملی تفسیر بننا۔ گھر کے ہر فرد ، حتیٰ کہ خادموں کی تربیت اور حقوق کا دینی شعور پیدا کرنا۔
تیسرا مرحلہ :معاشرے کی اصلاح ، راے عامہ کو اسلامی فکر کے لیے ہموار کرنا۔
چوتھا مرحلہ : اپنے وطن کو غیر اسلامی حکومت سے آزاد کرانے کی جدوجہد کرنا۔
پانچواں مرحلہ :حکومت کی اصلاح ،تاکہ وہ صحیح اسلامی حکومت بن سکے اور حکومت کو صحیح اسلامی خطوط پہ استوا ر رکھنے کے لیے اس کی رہنمائی کرنا۔
چھٹا مرحلہ : امت مسلمہ کے حاکمانہ وجود کا احیا کرنا۔ اس کے لیے امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کرنا--- اور امت مسلمہ کی مایوسی ، پژمردگی ، غلامانہ ذہنیت کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا۔
عمل کے اس پھل کا لازمی نتیجہ ’جہاد‘ہے۔ کفر کو دل سے ناپسند کرنا جہاد کا ابتدائی درجہ ہے اور اللہ کی راہ میں جنگ لڑنا اس کا انتہائی درجہ ہے۔ دعوت اسلام، جہاد کے ذریعے ہی زندہ ہوسکتی ہے اور یہ جہاد: وجاھدوا فی اللّٰہ حق جھادہ سے ہی مکمل ہوسکتاہے۔ حسن البنا شہید نے اسی لیے الجھاد سبیلنا کا نعرہ لگایا۔
جہاد کا لازمی تقاضا قربانی ہے۔قربانی کا لازمی حصہ ’اطاعت ‘ ہے۔ تنگی ، ترشی ، خوشی ، غمی ہرحال میں حکم مانا جائے کہ سمعنا واطعنا کی تصویر بن جائے۔ ’اطاعت کاملہ ‘ کا عہد کرنے والے لوگوں کو جہاد کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے چن لینا، منظم کرنا ، دعوت کے نظام کے مطابق چلانا--- روحانیت کے اعتبار سے یہ ایک مجاہدانہ ٹیم ہوتی ہے۔جو کسی فکر اور دل کی تنگی کے بغیر حکم سنے اور اطاعت کرے۔ اس ٹیم میں وہی لوگ شامل ہوسکتے ہیں جو تربیتی مراحل سے گزر کر جدوجہد کی قبا پہننے کے لیے پوری استعداد فراہم کرلیں۔
یہ ایک امتحان اور آزمایش ہے۔ اخوان المسلمون کے بانی ارکان نے ۵ربیع الاول ۱۳۵۹ھ کو اس امتحان اور آزمایش کے لیے عہد و پیمان کیا اور بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کردکھایا کہ اخوان المسلمون کے تاسیسی دستے میں کتنی استقامت اور ثابت قدمی تھی۔ اس امتحان و آزمایش کی بنیادی شرط استقامت یا ثابت قدمی ہے۔ ’’ ایمان دار لوگوں نے اپنا عہد سچاکر دکھایا ہے ان میں سے کچھ لوگ اپنی منزل کو پہنچ گئے اور باقی انتظار میں ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے مقصد میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔ اسی استقامت اور ثابت قدمی کو پالینا ممکن ہی نہیں جب تک اللہ کے رنگ میں خود کو نہ رنگ لیا جائے۔ اس رنگ کو سامنے رکھ کر دعوت و جہاد کا کام ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے اخوان المسلمون نے لوگوں کو چھے قسموں میں تقسیم کیا:
۱-مجاہد مسلمان ۲-بے دست و پا ہو کر بیٹھ رہنے والے مسلمان ۳-گناہ گار مسلمان ۴-ذمی ۵-معاہد غیر جانب دار ۶-محارب۔
اسلام کی عدالت میں ان سب لوگوں کے لیے الگ الگ حکم ہے۔ جس پہ جس قسم کا رنگ ہے اس کی روشنی میں اس سے معاملات رکھے جائیں۔ اسلام نے لوگوں کی اس تقسیم کے باوجود اخوت کا رشتہ برقرار رکھاہے۔ اخوت دو طرح کی ہے : ایک انسانی اخوت اوردوسری عقیدے کی اخوت۔حسن البنا شہید نے عقیدے کی اخوت کی بنیاد اس آیت کو بنایا: ومن یوق شح نفسہ فاؤلئک ھم المفلحون ’’جو لوگ ذاتی مفادات کی خواہش سے بچا لیے گئے وہی کامیاب ہیں‘‘ اور: والمومنون و المومنات بعضھم اولیآء بعض، ’’مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہوتے ہیں‘‘۔
اخوت کی ترویج کا لازمی تقاضا باہمی اعتماد ہے۔ امرا ومامورین کو ایک دوسرے کی قابلیت ، قائدانہ صلاحیت ، خلوص پہ مکمل اعتماد ہو۔ اعتماد قائم کرنے اور حاصل کرنے کے لیے باہمی تعارف، تعلق ، دلی وابستگی کے لیے بھرپور کوشش کی جائے۔ حسن البنا شہید نے اخوت کے معانی کو معمول کے ایسے اچھے کاموں کے ذریعے حقیقت کا رنگ دیا جو کتابوں میں لکھے ہوئے نہیں ہیں۔ اخوت کے تعلق کو بڑھانے والی اور دلوں میں محبت اور صلہ رحمی کے شعور میں اضافہ کرنے والی عادات خود بخود آتی ہیں۔اسی مناسبت سے اسلام ایک مثالی خاندان کا نقشہ سامنے لاتاہے کہ جہاں ہر مومن چاہے وہ کرہ ارضی کے کسی مقام پہ رہتا ہو ایک خاندان کا فردہے اور وہ مسلم خاندان ہے۔ جس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جسم سے تشبیہہ دی ہے۔اسی مثالی خاندان کا ایک عمل اخوان المسلمون کے ہاں ’اسرہ ‘کے نام سے رائج ہے۔ مثالی اجتماعیت کو سامنے لانے کے لیے اسرہ کی اصطلاح ۱۹۲۸ء میں استعمال کی گئی‘ جس کے لیے ۷۰ افراد کومنتخب کیاگیا۔
اس کے ایجنڈے میں یہ نکات شامل تھے:
۱-تلاوت و تجوید کی درستی ۲-خاص سورتوں اور آیات کا حفظ کرنا اور تفسیر جاننا ۳-خاص احادیث کو حفظ کرنا اور تشریح ۴-ایمان ،عبادات ، معاملات اور عام اخلاقی اصولوں کی تحریری رپورٹ بنانا ۵-اسلامی تاریخ کا مطالعہ اور اسلاف کی زندگیوں کا جائزہ ۶-سیرت کا مطالعہ ، خاص طور پر اس کے روحانی اور عملی پہلو ، عملی زندگی میں نافذ کرکے محاسبہ کرنا۔
مرد و خواتین کے علیحدہ علیحدہ ’اسرہ جات‘ بنائے گئے۔ مردوں کے گروپ کا ایک مربی جو ان کے لیے استاد کا درجہ رکھتا ہے اور کچھ خاص وقت یا دنوں کے لیے ان کی تربیت کرتاہے۔ اس طرح خواتین کی تربیت کا انتظام ہے۔ اسرہ جات کے پروگرام میں چند لازمی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔۔مثلاً بیماروں کی عیادت ، غیرحاضر ممبران کی مزاج پرسی وغیرہ۔ کھانا کھانا،صفائی ستھرائی ،تک سب کام شرکا خود ہی انجام دیتے ہیں۔ اسرہ کے ممبران کی عملی تربیت کی جاتی ہے :
حسن البنا شہید کی محنت کا ثمر ایک بہترین تربیت یافتہ گرو پ کی شکل میں سامنے آیا جنھوں نے وقت کے فرعونوں کے سامنے سر نہ جھکایا۔ اس میں مرد ہی نہیں خواتین بھی شامل رہیں۔
اسرہ ،کتیبہ،رحلۃ ،المعسکر،دورہ،ندوہ ،موتمر، ان ناموں کے تحت کارکنان کو تربیت کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا۔ اب بھی یہی نظام رائج ہے اور وقت و حالات کی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر سے بہتر مسلمان مجاہد تیار کیے جارہے ہیں۔
اسرہ کے بعد کتیبہ کا مرحلہ ہے۔ اس میں بنیادی تربیت روحانی نشوو نما کی ہوتی ہے۔ روحانی نشوو نما : عبادات ، ذکر ، دعاکے ساتھ اخلاص نیت کی تجدید ، اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق ، نامساعد حالات ،بے آرامی اور مشقت کے ماحول میں خوش اسلوبی سے ڈیوٹی انجام دینے کی تربیت۔ اس نظام میں اطاعت امر کی خاص تربیت دی جاتی ہے۔ جی چاہے یا نہ چاہے ،ضر ورت ہو یا نہ ہو، طبیعت چاہے نہ چاہے جو کام جس وقت کہہ دیا گیا وہ فوراً کرنا ہے۔
اسرہ اور کتیبہ کا مقصد زیادہ تر معاشرتی ، نفسیاتی ، علمی اور روحانی پہلو کی تربیت ہے، مگر تیسرے مرحلے (رحلۃ ) کا مقصد زیادہ تر جسمانی ہے۔ اس میں جسمانی مشقت کی سخت تربیت ہوتی ہے۔ ’رحلۃ عموماً ‘ایک مہینہ میں ایک مرتبہ فجر سے مغرب تک کسی صحرا ، میدان ، شہر سے دور ، پہاڑی مقام پہ ہوتاہے۔ سخت گرم یا سخت سرد موسم میں محنت ، مشقت کی تربیت ،وسائل و ذرائع کی کمی کے ساتھ کی جاتی ہے۔
معسکر : اس شعبہ کے تحت صرف جسمانی تربیت ہی نہیں بلکہ دنیا کواسلامی فوج کی تاریخ سکھانا بھی ہے۔ اسلام میں نماز کی صورت میں روزانہ پانچ مرتبہ تربیت اور تذکیر ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ایک منظم و متحد امت کی اللہ کے سامنے بندگی اور خودسپردگی کا اظہار ہے‘ تاکہ اللہ کا دین غالب ہوجائے۔ معسکر کا مقصد نوع انسانی میں بھائی چارہ پیدا کرنا ہے--- وہ تمام مصائب و آلام جو نوع انسانی کے مشترک ہیں ان کا حل تلاش کرنا ایک دوسرے کے قریب آکر ہی ممکن ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی، بے راہ روی ،انشورنس ،سود ، ذرائع ابلاغ کی بے حیائی دنیا کے ہر خطے کے انسان کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ ان سب کے بارے میں صحیح نقطہ نظر پیش کرکے فلاح کی راہ دکھانا۔
دورہ : اس شعبہ کا کام کسی ایک دن ایک ہی موضوع پہ لیکچر ،ڈسکشن ،تحقیق ، قلیل المیعاد کورس تیار کرواناہے۔
ندوہ : ماہرین کا ایسا گروپ جو کسی خاص موضوع یا مسئلے پر پورے دلائل و براہین کے ساتھ اپنی راے پیش کرے تاکہ عصری چیلنجوںکا مقابلہ کیاجاسکے اور ان کا حل پیش کیاجاسکے۔
اخوان المسلمون کے ارکان کے کردار کی تعمیر کے لیے جس قدر جاںفشانی سے کام لیا جاتاہے وہ قابل تحسین ہے۔ یہ یقینا حسن البنا شہید کے اخلاص کا ثمر ہے اور اس کی آبیاری ان کے خون نے کی ہے۔ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ o (یوسف ۱۲:۹۰)