مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

عظیم داعیِ اسلام ، امام حسن البنا

سید ابوالحسن علی ندوی | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

جب مصر کا سفر [۱۹۵۱ء] پیش آیا،تو مجھے اس کی شدید خواہش تھی کہ اخوان کی تحریک کا مطالعہ کروں ،اور اس کے متعلق براہ راست معلومات حاصل کروں ۔شیخ [حسن البنا شہیدؒ] کے پرانے رفیقوں،ان کے معتمد ین اور ان کے تربیت یافتہ نوجوانوں سے ملاقات کروں اور اس عظیم الشان دعوت کی کامیابی کے اسباب معلوم کروں ۔ ۱۹۴۹ء میں شیخ کی شہادت کا واقعہ پیش آچکا تھا،لیکن میری خوش قسمتی سے اس وقت شیخ کے تمام پرانے رفقا و شرکا اور ان کے تلامذہ و حلقۂ احباب کے خواص موجود تھے ۔میری عربی تصنیف ماذا خسر العالم بانحاط المسلمین جو میرے سفر مصر سے چند ہی مہینے قبل شائع ہوئی تھی، اخوان کے حلقے میں کثرت سے پڑھی گئی تھی اور اخوان نے اپنی روایتی فراخ دلی اور بے تعصبی سے اس کو اپنے مخصوص تبلیغی لٹریچر میں جگہ دی تھی ۔یہ کتاب میرا ذریعۂ تعارف تھی۔پھر ہندی مسلمان ہونا اور ایک معروف ادارے سے تعلق رکھنا اخوان کے لیے (جو عالم اسلام کی وحدت اور تعارف و تعاون کے سب سے بڑے داعی ہیں) کافی وجہ کشش تھی۔

جہاں تک شیخ کے متعلق تاریخی وشخصی معلومات کا تعلق تھا‘ اس کے لیے سب سے مستند اور قابلِ اعتماد ذریعہ ان کے والد محترم شیخ احمد عبد الرحمن البنا کی ذات تھی،جنھوں نے ازراہ شفقتِ بزرگانہ اپنے قابل فخر و ذریعۂ نجات فرزند کے متعلق تمام ضروری و جزوی معلومات فراہم کیں۔ ان کے علاوہ شیخ کے رفیق درس وشریک کار اور اخوان کے مربی استاد بہی الخولی نے بحیثیت ایک دوست، رفیق، مشاہد و معاصر کے اپنے مشاہدات معلومات اور تاثرات سنائے۔ ان دونوں بزرگوں کے علاوہ   ان چند نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی، جو شیخ کے معتمد خاص اور دست راست رہ چکے تھے۔ ان اصحاب سے شیخ کی زندگی اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے متعلق مستند معلومات حاصل ہوئیں اور ایسا محسوس ہوا کہ ان حضرات سے ملنے کے بعد شیخ کی زیارت سے کلی طور پر محرومی نہیں رہی۔

ان اصحاب سے جو کچھ سنا اور خود شیخ [حسن البنا]کے جو اثرات دیکھے، اس سے اس بات کا یقین پیدا ہوا کہ ان کی شخصیت تاریخ کی ان غیر معمولی شخصیتوں میں سے تھی جن کو اللہ تعالیٰ کسی تحریک و دعوت کو چلانے اور کسی عہد میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے پیدا فرماتا ہے اور اس کو قیاد ت کی وسیع اور متنوع صلاحیتیں عطافرماتا ہے۔وسیع وروشن دماغ، گرم و پُرمحبت ودردمند دل،فصیح و بلیغ زبان، تسخیرکر لینے والے اخلاق، دلآویز شخصیت، یہ ان کے عناصرترکیبی تھے۔میں جب اقبال کا یہ شعر پڑھتا ہوںتو بے ساختہ شیخ حسن البنا کی شخصیت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے انھی کو دیکھ کر کہا ہے    ؎

نگاہ بلند ،سخن دل نو از، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

بدقسمتی سے جس زمانے میں میرا قیام مصرمیں تھا، اخوان کی تحریک خلاف قانون تھی اور ان کے اجتماعات نہیں ہوسکتے تھے۔لیکن اس اعتماد کی بنا پر جو ان کے ذمہ داروں کو میری ذات پر پیدا ہوگیا تھا، مجھے ان کی مخصوص مجلسوںمیں شرکت کی عزت حاصل ہوئی۔مجھے ان کے حالات و خیالات سننے اور اپنے ناچیز خیالات پیش کرنے کا موقع ملا۔ ایک مخصوص مجلس میں جس میں اخوان کی مجلس انتظامی(مکتب الارشاد) کے ارکان اوردل ودماغ شریک تھے،مجھے منضبط طور پر اپنے خیالات اور تجربات پیش کرنے کا موقع ملا۔اخوان نے ان کی جس درجہ پذیرائی کی اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اس کو علیحدہ رسالے کی شکل میں شائع کیا اور جب تک اخوان کی تحریک دوبارہ خلافِ قانون قرار نہیں دی گئی، اس کے تین اڈیشن شائع ہوئے۔ اس رسالے کا نام ہے: ارید ان اتحدث الی الاخوان٭(اخوان سے دو دو باتیں)۔ مجھے کسی دینی و سیاسی جماعت کے متعلق اتنی فراخ دلی اور عالی ظرفی کا تجربہ نہیں ہوسکا۔

اسی زمانۂ قیام میںمجھے شیخ محمد الغزالی کی معیت میں (جو اخوانی لٹریچر کے سب سے بڑے مصنف ہیں) مصر کے قصبات اور دیہاتوں میں بارہا جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر جگہ اخوان کے دینی جوش و خروش ،مہمان نوازی اور اسلام دوستی، محبت و اخلاص اور بے تعصبی و وسیع النظری کے ایسے مناظر دیکھے، جو ساری عمر یاد رہیں گے، اور جن سے شیخ حسن البنا کی تربیت و تاثیر اور ان کی    مردم گری، اور سیرت سازی کا اندازہ ہوا، اور معلوم ہوا کہ اس شعلۂ جوالہ نے کتنی ایمانی حرارت پیدا کردی ہے ۔اس تحریک کے مطالعے اور جو لوگ اس سے متعلق تھے، ان کو قریب سے دیکھنے کے بعد، میں خاص طور پر جن پہلوؤں سے متاثر ہوا وہ حسب ذیل ہیں:

۱-  اس تحریک نے ایک ایسی قوم اور سوسائٹی میں جو مغربی تہذیب اور تمدنِ جدید کی خرابیوں سے پورے طور پر متاثر ہوچکی تھی اوراس سے پہلے ترکی سلطنت اور شخصی حکومت کے اثرات سے متاثر رہ کر ’طبقۂ متر فین‘ میں شامل ہوچکی تھی،ایسی قوت عمل ،جذبۂ سرفروشی،سادگی و جفاکشی پیدا کردی، جس کی نظیر اس زمانے میں ملنی مشکل ہے اور خود اس کے ایک رہنما اور قائد (شیخ بہی الخولی) کے الفاظ میں ایک نرم و نازک قوم الشعب الرخو الرقیقمیں اس نے ایک نئی زندگی پیدا کردی، اور گویا اقبال کے اس تخیل اورتمنا کو پورا کیا    ع کبوتر کے تن نازک میںشاہیں کا جگر پیدا

ان کی اس قوت عمل ،جذبۂ سرفروشی اور عقابی شان دیکھنے کے لیے استاد کامل الشریف کی کتاب الاخوان المسلمون فی حرب فلسطین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

۲- دوسری چیز جس نے مجھے متاثر کیا وہ اخوان کی محبت و گرم جوشی اور ان کے آپس کے تعلقات ہیں۔ اتنا مستحکم رشتہ ء اخلاق و مودت اور احساس اخوت ورفاقت میں نے کم دعوتوں اور جماعتوں میں دیکھا ہے۔ اخوان کی تحریک نے ایک ایسی عالم گیربرادری پیدا کردی ،جس کا ہر فرد دوسرے فرد کو اپناحقیقی بھائی سمجھتا ہے اور بغیر کسی جماعتی عصبیت وحمیت جاہلیہ کے، اس کی مدداور حمایت کے لیے تیار رہتا ہے۔ کسی مصری اخبار نے ایک مرتبہ طنز کے طور پر لکھاتھا (اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ انتہائی اعتراف ہے) کہ اگر شیخ حسن البنا کو اسکندریہ میں چھینک آجائے تو اسوان (مصر کی جنوبی سرحد) میں یرحمک اللّٰہ  کی صدائیںبلندہوں۔ نہ صرف اپنے مرشدعام بلکہ ہر    رفیق جماعت کے لیے ان کا یہی جذبہ اورطرزعمل ہے۔ وہ عام طور پر ایک دوسرے سے تعارف انھی الفاظ میں کراتے ہیں: اخوک فی اللّٰہ فلان۔ ان کے طرز عمل اور سلوک سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس اخوت فی اللّٰہ پر عقیدہ رکھتے ہیںاور اس پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔

۳-  تیسرا پہلو جس نے مجھے بہت متاثر کیا یہ ہے کہ اس تحریک کا زندگی سے قریبی تعلق ہے۔ وہ زندگی سے بچ کر نہیں نکلتی بلکہ اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے،عوام سے اور عملی زندگی سے اس کا تعلق ہے۔ اس نے عوام کی زندگی میںدخل دیاہے،اس کی خرابیوںکی اصلاح کی ہے اورقدم قدم پراس کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔  میں سمجھتا ہوں کہ اس کی کامیابی، مقبولیت اور تاثیر میں اس کو بڑا دخل ہے ۔

۴-  اس کا چوتھاروشن پہلو یہ ہے کہ اس نے دینی و علمی اختلافات سے بچ کر اپنا کام کیا ۔یہ چیز اس کے کمزور پہلوؤں میں بھی شمار کی جاسکتی ہے، مگر عالم اسلام کے موجودہ دینی و اخلاقی زوال، الحادوزندقہ کے حملے اور مسلمانوں کے ذہنی انتشار کو پیش نظر رکھاجائے تو یہ ایک اسلامی دعوت کے لیے خوش قسمتی سمجھی جائے گی کہ وہ اپنا وقت اور قوت خالص اصلاحی و تعمیری کام اور اساسی دعوت کے فروغ میں لگائے۔

۵- اخوان کی تحریک کا سب سے کامیاب اور روشن پہلو یہ ہے کہ اس نے مصر (اور اس کی پیروی میںممالک عربیہ)کے بڑھتے ہوئے الحاد و لادینیت کے دھارے کو روکااور دین کے استخفاف و بے وقعتی اور ذہنی ارتدادوبغاوت کا جو رجحان روز افزوں تھااس پر اثر انداز ہوئی ۔جو لوگ مصر کی صحافت وادب سے واقف ہیں،وہ خوب جانتے ہیںکہ اس ملک میں دین کے خلاف ایک منظم سازش اور کوشش تھی۔ مصر کے ادیبوں اور صحافیوں ،مصنفین اور باحثین، سب نے دین کے خلاف ایک محاذ بنا رکھاتھااور انقلاب فرانس کے علم برداروں کی طرح وہ پوری مصری اسلامی سوسائٹی کو اپنے ’ترقی پسند‘ادب، اپنے’شک آفریں خیالات وتحقیقات‘اپنے طنز و تمسخر سے ڈائنامیٹ کررہے تھے اور یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا  (الانعام ۶:۱۱۲) کے مصداق تھے۔ اس متحدہ محاذ کے خلاف کسی دینی جماعت ،حتیٰ کہ ازہر تک میںآواز بلند کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ تھی۔ اخوان کے مخالفین کو بھی اعتراف ہے کہ اخوان کی تحریک نے اس مورچے کو کمزور اور خوف زدہ کردیا۔ الحاد کی علانیہ دعوت دینے اور دین کے استخفاف کی جرأت بڑے بڑے زعماے ادب کو نہ رہی ،اخوان نے غیور نوجوانوں اور صاحب حمیت مسلمانوں کا ایک ایسا لشکر پیدا کر دیا کہ ملحدین کو اپنے ملحدانہ خیالات اور تصنیفات کی اشاعت ،اور اخبارات و رسائل کو دین و اسلامی تہذیب کے ساتھ تمسخر واستہزا کی جسارت باقی نہ رہی۔ پھر اس کے ساتھ اس نے اسلام پسند ادیبوں،ناقدین اور اہل قلم اور ماہرین فن کی ایسی جماعت پیدا کی جو علمی و فنی طور پر، ان ملاحدہ کا مقابلہ کرسکیںاور اسلامی ادب کو پیش کریں۔

اخوان کا یہ کارنامہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ کوئی شخص جس کے دل میں نور ایمان ہے اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔راقم کے سامنے چونکہ ان ممالک کی سابقہ زندگی ،اور موجودہ دینی و فکری انقلاب ہے اور اس کو اپنے طویل قیام کی بنا پر اس کا مشاہدہ و تجربہ ہو چکا ہے کہ اخوان نے جدید نسل کے دل و دماغ کو کس طرح متاثر کیاہے اور دین و شعائر دین کے اظہار واعلان کی کیسی جرأت پیدا کردی ہے، اور جو لوگ دینی عقائد و حقائق کے اظہار میں شرمندگی اورحقارت محسوس کرتے تھے اب کس طرح علانیہ منظر عام پر دینی فرائض و شعائر کو ادا کرتے ہیں، اور احساس کہتری کے بجاے برتری کااحساس رکھتے ہیں۔ ان ذاتی مشاہدات وتجربات کا نتیجہ تھاکہ ہندوستان میں میری زبان سے ایک تقریر میں اخوان کے متعلق بے ساختہ یہ لفظ نکل گئے کہ: لایحبھم الا مؤمن ولا یبغضھم الا منافق (اخوان سے اسی کو محبت ہوگی جس کے دل میں ایمان ہے،اور اسی کو نفرت ہوگی جس کے دل میں نفاق ہے)۔

تاریخ اسلام میں جن جرائم اور سفاکیوں نے ملت اسلامیہ کو عظیم ترین نقصان پہنچایا ،اور تاریخ کا دھارا بدل دیا، ان میں ایک شیخ حسن البنا کا مجرمانہ قتل ہے، جس نے کم سے کم مشرق وسطیٰ کو ایک مفید ترین شخصیت سے محروم اور صالح دینی انقلاب سے عرصے تک کے لیے بہت دور کردیا۔

اگر اخوان کچھ عرصہ اور عملی سیاست میں حصہ نہ لیتے اور اپنا اصلاحی و دعوتی کام پوری  قوت سے جاری رکھتے تو ممالک عربیہ میں ایک اسلامی انقلاب برپا ہوجاتااور ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی۔ (کاروانِ زندگی ، جلد اوّل، ص ۳۷۶-۳۸۲)