مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

نصف صدی پہلے کا ’گلوبل ولیج‘

| مئی۲۰۰۷ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

سائنس، جدید وسائل، تمدن اور موجودہ ذرائع آمدورفت نے دنیا کے مختلف ممالک کو ایک دوسرے سے اتنا قریب کردیا ہے اور آپس میں اس طرح ملا دیا ہے کہ وہ تمام جغرافیائی اور قدرتی حدبندیاں ختم ہوگئی ہیں جو اب تک مختلف ممالک اور ان میں بسنے والی قوموں کو ایک دوسرے سے الگ کیے ہوئے تھیں۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کہ یہ پورا کرۂ ارض (یعنی زمین) ایک ملک بن گیا ہے اور وہ قطعات جن کو ہم پہلے الگ الگ ممالک خیال کرتے تھے، اس نئے ملک کے صوبے یا اضلاع ہیں… مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگ ضرورت کے وقت ایک جگہ اس طرح جمع ہوجاتے ہیں، جس طرح ایک محلے میں بسنے والے لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر باہر گلی میں جمع ہوجاتے ہیں۔

اس تمدنی اور علمی ترقی اور آپس کے میل ملاپ کا قدرتی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ملکوں اور ملکوں میں، قوموں اور قوموں میں محبت، برادرانہ برتائو،خیرخواہی اور تعاون کے جذبات زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتے اور اخلاق و انسانیت دوسرے تمام حیوانی جذبات پر غالب آجاتے۔ لیکن ہم دیکھتے یہ ہیں کہ اس کے بالکل برعکس مختلف ممالک اور قومیں ایک دوسرے کو پھاڑ کھانے اور ملیامیٹ کرنے پر اس طرح تلے ہوئے ہیں گویا کہ وہ بھوکے بھیڑیے ہیں جن کو جغرافیائی حدبندیوں کی آہنی سلاخوں نے اس دنیا کے چڑیاگھر کے الگ الگ حصوں میں بند کر رکھا تھا، اور اب ان سلاخوں کے ٹوٹتے ہی وہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے ہیں… آخر ایسا کیوں ہے؟ اور اس کی کیا وجہ ہے کہ قوم ہو یا فرد، جو جس قدر زیادہ متمدن، ترقی یافتہ اور ظاہر میں دیوتا صورت نظر آتا ہے، وہ اسی قدر زیادہ انسانی اوصاف سے خالی اور اپنے ہم جنسوں کے لیے کتوں سے زیادہ خطرناک اور وحشی درندہ ثابت ہورہا ہے؟ ان کے شخصی کارناموں، اجتماعی پروگراموں اور اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو دیکھ کر گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید کُل جنگلی چیتے اور خونخوار درندے ہیں، جو اچھی اچھی پوشاکیں پہن کر وسائل تمدن اور حکومت کی گدیوں پر قابض ہوگئے ہیں۔

اس عالم گیر خرابی اور انسانی روگ کی جڑ تلاش کرنے کے لیے آپ تھوڑا سا غور فرمائیں گے تو آپ کو یہ صاف طور پر معلوم ہوجائے گا کہ یہ سارا فساد ان غلط افکار و نظریات اور اس بے خدا فلسفۂ زندگی کا لایا ہوا ہے جو اس وقت پوری دنیا میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ایک وبا کی طرح پھیل گئے ہیں، اور جن کو ہرقوم اور ہرملک کے لیڈروں اور ان کے نظام ہاے تعلیم و تربیت نے دانستہ یا نادانستہ اپنی اپنی قوموں اور ملکوں میں پلیگ کے جرثوموں کی طرح پھیلا دیا ہے۔(میاں طفیل محمد، ترجمان القرآن، جلد ۳۰، عدد ۶، جمادی الثانی ۱۳۶۶ھ ، مئی ۱۹۴۷ء، ص ۷-۸)