مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

اخوان اور اس کی قیادت

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مصر میں شیخ حسن البناشہید نے جس وقت احیاے اسلام کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا،قریب قریب وہی زمانہ تھا،جب اس برعظیم پاک و ہند میں بھی ٹھیک اسی مقصد کے لیے کام شروع کیا گیا۔دونوں کے درمیان شاید ایک دو برس کا فرق ہو،لیکن زمانہ تقریباً یکساں ہے۔سالہا سال تک ان سے ہم اور ہم سے وہ بے خبررہے۔حالاں کہ ایک ہی راستے پر چل رہے تھے۔ایک مدت دراز کے بعد جا کر ہمیں پتا چلاکہ مصرمیں اخوان کی تحریک انھی مقاصد کے لیے چل رہی ہے، اور اسی طرح سے سالہا سال بعد ان کو بھی یہ معلوم ہواکہ برعظیم پاک و ہند میں اسی طرح کی ایک تحریک کام کر رہی ہے۔اب یہ خدا کی مشیت ہے کہ وہاں پہلے اس کے مرشداوّل شہید ہوئے پھر مرشد ثانی بھی اپنے رب کے حضور پہنچ گئے، اور یہاں اس کام کو جس نے شروع کیاتھاوہ دونوں کا غم سہنے کے لیے آج بھی زندہ ہے۔

اخوان کی تحریک کی قدر و قیمت کا اندازہ اس ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے ۔مگر جاننے والے جانتے تھے کہ عرب ممالک میں خصوصاًاور دنیا کے دوسرے ممالک میں عموماً احیاے اسلام کے لیے جو کام ہوا،مسلمانوں میں دینی،اخلاقی بیداری پیدا کرنے کی جو خدمت انجام دی گئی اور عوام و خواص کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے اور خلوص کے ساتھ اسے سربلند کرنے کی جو کوشش کی گئی، وہ زیادہ تر اخوان ہی کی اس تحریک کا ثمرہ ہے،جسے شیخ حسن البنا نے شروع کیا،اور شیخ عبدالقادر عودہ شہید،سید قطب شہیداور حسن الہضیبی مرحوم نے پروان چڑھایا۔

عرب ممالک میںآپ عراق سے مراکش تک چلے جائیں،ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ جن لوگوں کو بھی اسلام سے گہرا اور قلبی تعلق ہے، وہ زیادہ تر اخوان ہی کے آدمی ہیںیا ان کی تحریک سے متاثر ہیں۔اسی طرح امریکا اور یورپ میں بھی آپ دیکھیں گے کہ جو عرب نوجوان اسلامی جذبے سے سرشار ہیں،وہ اکثر و بیش تراخوانی ہیں۔حتیٰ کے اخوانیت ایک طرح سے اسلامیت کا نشان بن گئی ہے ۔کوئی آدمی تعلیم یافتہ ہو اور پھر دین دار بھی ہوتو لوگ آپ سے آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ضرور اخوان میں سے ہے، یا کم سے کم اس تحریک سے متاثرہے۔حتیٰ کہ جب اسلام دشمنی کا روگ بعض عرب ممالک کو لاحق ہواتو ہر اس نوجوان کے پیچھے سی آئی ڈی لگ جاتی تھی، جو نماز پڑھتا  نظر آتاتھا۔یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس فتنے کے دور میں اخوان کی تحریک بر وقت برپا ہوگئی اور یہ تحریک نہ اٹھی ہوتی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ عرب ممالک لادینیت،قوم پرستی اور سوشلزم کے طوفان میں کس حد تک پہنچ چکے ہوتے۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ۲۵‘ ۳۰ سال پہلے عرب ممالک میںجو لوگ بھی اسلامی جذبے سے عاری تھے اور جن پر سیکولرزم اور قوم پرستی کا شیطان مسلط تھا،وہ سب انڈین نیشنل کانگریس کے حامی اور تصور پاکستان کے مخالف تھے۔صرف اخوان ہی کا گروہ ایسا تھاجو پاکستان کا حامی تھا۔آج بھی وہاں وہی پاکستان کے سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں۔مگر یہ عجیب بات ہے کہ جب اخوان پر پے در پے مظالم ہوئے تو یہاں[پاکستان میں] ان سے ہمدردی کرنے والے بہت کم تھے اور دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ان پر الزام لگانے والے اور تہمتیں گھڑنے والے بہت زیادہ پائے گئے۔حتیٰ کہ جب انصاف کی مٹی پلید کرکے اخوان کو بدترین سزائیں دی گئیںاور ان کے بہترین آدمیوں کو پھانسی پر چڑھایا گیاتو یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی جنھوں نے اس پر احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں۔افسوس کہ لوگوں کو دوست اور دشمن کی تمیز بھی نہیں رہی۔بے شعوری میں یہ احساس تک نہیں کیا گیاکہ ہم اپنے دوستوں کو برا کہہ رہے ہیں اور دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔

ہم خلوص دل سے دعا کرتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ شیخ حسن الہضیبی کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے،ان کو بلند مرتبے عطا فرمائے، ان کی قربانیوں اور خدمات کا بہترین اجر عطا فرمائے۔  جن لوگوں نے ان پر ظلم ڈھائے اور ۲۰ سال تک مسلسل ظلم و ستم ڈھاتے رہے، اللہ تعالیٰ اپنے عدل کے مطابق ان سے انتقام لے اور جس صبر و استقامت کے ساتھ مرحوم نے دین کی راہ میں ہرتکلیف کو برداشت کیااور اسلامی تحریک کی خدمت قید کی حالت میں بھی کرتے رہے، اس کا اجرجزیل انھیں عطافرمائے۔

اللہ تعالیٰ ان اخوان کو بھی بلند مرتبے عطا فرمائے، جنھوں نے فلسطین میںیہودیوں کے خلاف جنگ کی اور ایسی بہادری کے ساتھ لڑے کہ یہودی مصر اور دوسری عرب ریاستوں کی باقاعدہ افواج سے بڑھ کراخوانیوںسے ڈرتے تھے۔ان میں سے جو اس لڑائی میں شہید ہوئے، اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے اور جو اس لڑائی میں لڑے اور زندہ بچے اللہ تعالیٰ ان کو مجاہد اور غازی ہونے کا اجر عطافرمائے۔

یا اللہ! شیخ حسن البنا کو بلند مرتبے عطافرما۔ان کو اپنے مقربین میں جگہ دے۔ہم گواہ ہیں کہ یہ وہی تھے جنھوں نے احیاے اسلام کی اس تحریک کو اٹھایا۔لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں تبدیل کیںاور اس میں وہ روحِ جہاد پھونکی ،جس کی بدولت اس وقت تک بھی ہر طرح کے ظلم و ستم کے باوجودمصر کی سرزمین سے اسلامی تحریک کے اثرات نہیں مٹائے جاسکے۔

یا اللہ! ان لوگوں کی قربانیوں کو بھی قبو ل فرماجن کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا۔ شیخ عبد القادر عودہ اور سید قطب شہید کے دوسرے ساتھیوں کو وہ اجر دے جو تونے اپنی راہ میں شہید ہونے والوںکے لیے مقرر کررکھا ہے۔

یااللہ! ان لوگوں کو بھی بلند مرتبے عطا فرما جنھوں نے ظالموں کی جیلوں میں ہر طرح کی سختیاں برداشت کیںاور ایسے بدترین مظالم سہے جن کے تصور سے بھی انسان کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے، لیکن ان کے قدموں میں کبھی لغزش نہ آئی اور ان میں سے کسی نے ظالموں کے آگے  سر نہیں جھکایا، حالاں کہ ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ تیرے دین حق کی سربلندی چاہتے تھے۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، شخصیات، ص ۳۰۷-۳۱۰)


مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کے بارے میں مولانا مودودی نے فرمایا تھا کہ وہ: ’’اخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البنا کے ذاتی دوست تھے۔ انھوں نے اخوان کی دعوت کے بارے میں کہا تھا کہ جہاں میرا کام ختم ہوتا ہے وہاں سے اخوان کا کام شروع ہوتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد اخوان نے رضاکار بھرتی کرکے یہودیوں کے خلاف جہاد شروع کیا، تو مفتی صاحب ان کے شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ جب ۱۹۵۴ء میں اخوان پر ابتلا کا دور آیا تو انھوں نے اخوان کے ساتھ صدر ناصر کے سلوک پر شدید احتجاج کیا تھا۔ پھر جب [۱۹۵۴ء میں] اخوان کے نام ور قائدین کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا گیا تو انھوں نے اسے ذاتی طور پر تار دیے تھے کہ سزا نافذ نہ کی جائے۔ ۱۹۶۶ء میں سید قطب اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر بھی انھوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اخوان کا جذبۂ جہاد ان کے ابتلا کا باعث بنا، کیونکہ اسرائیل اور یہودیوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی اصل مخالف قوت دنیاے عرب میں کون سی ہے۔ اس لیے امریکا اور [اشتراکی] روس دونوں کی خواہش یہ تھی کہ اسلام کی اس اُبھرتی ہوئی طاقت کو کچل ڈالا جائے۔ افسوس کہ یہ مقصد تو کفار کا تھا، مگر پورا مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ (رفیق ڈوگر، ہفت روزہ استقلال، لاہور، ۱۴جولائی ۱۹۷۵ء۔ مولانا مودودی کے انٹرویو، دوم، ص ۲۸۶- ۲۸۷)