مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

داعی ، امام اور قائد

ڈاکٹر غازی صلاح الدین | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا امام حسن البنا کی زندگی کسی غیر مسلم کے لیے بھی قابلِ تقلید ہوسکتی ہے ، تو بلاجھجک میرا جواب ہوگا: ’ہاں‘۔ممکن ہے کہ بعض لوگ اس سوال کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیں، لیکن دراصل یہ اس مشترک انسانی رشتے کی قیمت کو نمایاں تر کرنے کی ایک کوشش ہے، جو امام شہیدحاصل کرنا چاہتے تھے اور یہی ان کی کامیابی ہے ۔

امام البنا شہید ہر لحاظ سے ایک کامیاب شخص تھے۔ اسی لیے ان کے دشمنوں کوقتل کے سوا ان سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل نظر نہ آئی ۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امام شہید کی سیرت مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے لیے ایک پُرکشش اور قابلِ تقلید نمونہ تھی۔

بہت سے بڑے لوگوں کی مانند میدان دعوت میں ان کی عملی زندگی بھی نہایت مختصر تھی، تقریباً ۲۰برس۔ابھی عمر کے ۴۲ویں برس میں تھے کہ مہلت زندگی ختم ہوگئی ۔ اس کے باوجود جب وہ اپنی زندگی کا مشن مکمل کرکے خالق حقیقی سے ملے تو ان کے افکار اور دعوت دُور دُور تک پھیل   چکی تھی ۔ آپ کی دعوت کا پھیلائو آج بھی مسلسل جاری ہے اور واقعات عالم کی تشکیل میں    بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔

امام نے کامیابی کے اس سفر میں جن صفات سے مدد لی ان میں سے ایک ہر دل عزیزی تھی۔ وہ اپنے افکار و اقوال میں عام فہم اسلوب اور دل نشین اختیارکرتے تھے۔ ایسے کلمات جوسننے والے کے دل میں براہ راست اتر جائیں، جن میں نہ تو کوئی تصنع ہوتا اور نہ تکلف۔ وہ اپنے خطاب کا رخ عامۃ المسلمین اور مسلمانوں کے سواد اعظم کی طرف رکھتے ، کبھی اسے مقتدر اور باوسائل طبقے تک محدود نہ رکھتے ۔ اگرچہ یہ طبقۂ خواص بھی دعوت کا بلا استثنا مخاطب تھا، لیکن امام اپنی قائدانہ فراست سے بھانپ گئے تھے کہ خیر اور برکت ،سواد اعظم کو مخاطب کرنے میں ہے ۔ آپ نے عوام سے ربط و تعلق بڑھایا اور عوام کے دل آپ کی ذات سے وابستہ ہو کر رہ گئے۔

امام اپنے مقاصد اور اہداف کی تکمیل کے لیے مسلسل محنت کرتے ،جو ایک بے مثل قائد کی صفت ہوا کرتی ہے ۔ انھوں نے جب دعوت کا آغاز کیا تو بظاہر دعوت کے پھیلائو اور مقبولیت کا کوئی امکان نظرنہ آتا تھا، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سارے اشارے منفی ہی تھے۔ اگر کسی عام آدمی کو وہ مشکل حالات پیش آتے جن کا سامنا امام کو تھا، تو شایدوہ اپنی قسمت کو کوستے ہوئے‘ اپنے خواب اور امیدیں دل میں لیے اس سارے کام کولپیٹ چکا ہوتا۔

امام شہید ایک ایسے منبع سے سیراب ہوئے تھے جس کی وسعت لا محدود ہے۔ آپ اس منبع کی اساس کو پا چکے تھے اور آپ کا ایمان تھا کہ اسی مرکزایمان وحرارت سے آنے والی مدد لا محدود ہے۔ ہر طرح کی مشکلات کے علی الرغم آپ اپنے سامعین تک پیغام پہنچانے اور اسے ان کے دلوں میں اتارنے میں کامیاب ہوگئے ۔ آپ مستقل مزاج بھی تھے اور مدبر بھی، اسی لیے بخوبی جانتے تھے کہ اپنے اوقات کو کیسے منظم کرنا ہے اور ترجیحات کو کیسے ترتیب دیناہے ۔ اس راز کو پانا بھی کامیاب ذہن اور کامیاب لوگوں کے امتیازات میں سے ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ شہید نہایت کم سوتے(قلیل النوم) تھے، اور اپنا زیادہ تر وقت فرائض کی ادایگی، بڑے اور اہم دعوتی امورکی تکمیل میں صرف کیا کرتے ۔ اگرچہ جماعتی ذمہ داریاں اور پھر اہل خانہ اور عزیز و اقارب کا بھی خیال رکھتے تھے، تاہم بیش تر وقت دعوت کے لیے وقف تھا۔

عظیم قائدین کی مانند ان کے پاس بھی اپنی ذات کے لیے علیحدہ سے کوئی ایسا وقت نہیں تھا کہ جسے دعوتی امور اور لوگوں کا ہجوم مکدر نہ کردیتا ہو ۔ان کے ہاں نہ تو چھٹی کا تصور تھا اور      نہ راحت وآرام ہی کا‘ بلکہ ان کی زندگی مسلسل کام اور پیہم جدوجہد سے عبارت رہی۔

وہ پورے مصر کا دورہ کرتے اور جگہ جگہ خطاب کرتے رہے۔ اپنے منہج اور اپنے افکار کو  قلم بند بھی کیااور اپنے ساتھ چلنے والوں کی بڑھتی و پھیلتی تعداد کو منظم بھی کرتے رہے ۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی دعوت کو مصر سے باہر عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک میں پھیلانا شروع کیا ۔ ان کی دعوت کا اصل جوہر یہ تھا کہ دین ایک مکمل نظام حیات ہے ۔ زندگی کا کوئی رخ اور میدان ایسا نہیں ہے، جس کے بارے میں اس میں ہدایات نہ ملتی ہوں۔

جب یہوداور مسلمانوں کے درمیان جنگ چھڑی ، اور انگریزوں نے مملکت اسرائیل کے قیام کا فیصلہ کیا تو آپ نے داد شجاعت دینے کے لیے اخوان المسلمون کے رضا کار مجاہد دستے فلسطین روانہ کیے، اور اس طرح گذشتہ صدیوں کی ذلت و پستی کے باعث بھولے ہوئے فریضۂ جہاد کے احیا کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ تاریخ مصر کے ان عشروں پر نظر رکھنے والا ہرمصنف فرد بخوبی    جان سکتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور اوپر تلے بننے والی متعدد حکومتیں مسائل اور معاملات کو  روایتی طریقے سے دیکھ رہی تھیں ۔ کسی کے پاس بھی اپنے طریقے کی سچائی اور منشور کی درستی کا   امام جیسایقین اور اعتماد نہیں تھا ۔

اپنی اس صفت کے لحاظ سے امام اپنے ہم عصرقائدین میں فائق تر بلکہ بے مثال تھے ۔ امام حسن البنا شہید کے زمانے میں مصر میں بڑے معروف خطبا موجود تھے جو کلام کریں تو لوگ خاموشی سے سنیں اور اشارہ کریں تو لوگ متوجہ ہوجائیں۔ امام حسن البناکی خطابت میں ان کی سی سحرآفرینی تو نہ تھی، لیکن آپ کے کہے ہوئے کلمات ان کے کلمات سے زیادہ سچے اور زیادہ اثر آفرین ثابت ہوا کرتے تھے ۔ عام خطبا میں سے شاید ہی کوئی مقرر مجمع عام سے اتنا قریب تر ہوتا ہو اور کوئی مجمع کسی مقرر سے شاید ہی اس قدر متاثر ہوتا ہو جتنا امام سے ہوتا۔ ان کے اور عام خطبا کے درمیان فرق یہ تھا کہ آپ کے گفتار کی گواہی آپ کا کردار دے رہا ہوتا تھا۔

پھراس میں تعجب ہی کیاتھا کہ حکومت ان سے تنگ پڑ گئی اور ہر ناپاک ہتھکنڈا آزمانے پر تل گئی۔ انھیں قاہرہ بدر کردیا گیا۔ یوں سامراجی حکمرانوں نے تو چاہا تھا کہ اس سے امام کی آواز دب جائے گی اورآپ کا اثر کمزور پڑ جائے گا لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ ان کی دعوت میں مزید وسعت آگئی اور ان کی صداکا اثر و نفوذ بڑھتا چلا گیا۔

آپ نے زندگی بھر کبھی مغربی علوم نہیں پڑھے ، نہ معاصر یورپی ثقافتی ادب کی طلب کبھی آپ کے دل میں پیدا ہوئی۔آپ کی رسمی تعلیم و تربیت دارالعلوم قاہرہ میں علوم شرعیہ تک محدود تھی ۔ لیکن اپنی فطری ذکاوت اور تاریخ کے گہرے ادراک نے انھیں مغربی تہذیب اورمنہ زور جدیدیت کے چیلنج کا گہرا فہم عطا کردیاتھا۔

امام حسن البنانے مادی تہذیب کے چیلنج کے جواب میں ایک مکمل منصوبۂ عمل پیش کیا۔ آپ کی سادہ سی فکر کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین سے رہنمائی حاصل کریں اور شریعت کو اپنے تمام معاملات میں حاکم بنائیں۔ جسے شریعت مباح قرار دے ، اسے لے لیں ۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ تہذیب جدید سرتاپا شر ہے اور انسانی دانش کا تمام ورثہ سراسر جھوٹ ہے، نہیںبلکہ مطالبہ صرف یہ رہا کہ اسلام ہی مسلمانوں کے معاملات میں بالادست ہو اور ان کی پسند و ناپسند کا مرکز بھی عملاً وہی ہو۔ وہ مسلمانوں کو ان کا وہ عقیدہ یاد دلاتے تھے جسے طویل دور انحطاط نے ان کے ذہنوں سے محو کررکھاتھا اور مغرب کی ثقافتی یلغار جسے دور کہیں دفن کر چکی تھی: یہ کہ بندے کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت ہے ۔ دین کو زندگی کے کسی بھی حصے سے جدا کرنا ممکن ہی نہیںہے۔ امام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے:’’ اسلام دین بھی ہے اور ریاست بھی ،یہ کتاب (ہدایت) بھی ہے اور تلوار بھی۔‘‘

امام البنا کے ان الفاظ نے مسلمانوں کے دل میں موجوداس آتش فشاں کو بھڑکا دیا تھا ، جسے وقتی طور پر دنیا کی محبت اورپست و ذلیل فطرت نے دبا رکھاتھا ۔ یہ وہ مسکت جواب تھا جو شیخ نے تہذیب جدید کے چیلنج کا دیا ۔ یہ تہذیب پوری دنیا کو بالعموم اپنا تابع فرمان بنانے کے لیے صدیوں تک لڑائی لڑتی رہی، اور مسلمانوں کو بالخصوص اپنے نوآبادیاتی حملوں،اورپے درپے ثقافتی یلغار کے ذریعے سے اپنے مفادات کے سامنے جھکانے کی کوششیں کرتی رہی۔

امام شہید نے اپنے علاقے کے عام باشندوں کی طرح ایک صوفیانہ فضا سے معمور گھرانے میں پرورش پائی ۔ ذکر و اذکار کی آوازوں نے آپ کی سوچ و فکر کو سنوارا، اور راتوں کی عبادت نے آپ کے کردار کوصیقل کیاتھا ۔ آپ مزاجاًنرم خو اور فطرتاًمتدین تھے ۔ دیکھنے والے کو آپ کی آنکھوں میںحیا اور چہرے پر نور ایمان کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ ہمیں امام شہیدکی زیارت کا موقع نہیں ملا، لیکن جب ان کی تصویر دیکھتے ہیں تو جذبات سے عاری عام تصاویر کے برعکس حسن و جمال اور زندگی کے ہر رنگ سے بھرپور نظر آتی ہے ۔

مدرسۂ حیات نے انھیں سکھایاتھا کہ امت کے اندر رائج الوقت دین داری کے سارے اسلوب ان کے اس سوال کا شافی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ احیاے ملت اسلامیہ کیسے ممکن ہے۔ جس صوفیانہ پس منظر نے آپ کے مزاج اور آپ کی فکر و اسلوب کو تشکیل دیا تھا ، اس نے آپ کے سامنے دین کا اصل راستہ واضح کردیا اور آپ نے زندگی کے دیگر پہلوؤں کو چھوڑکر دین کو چند وردو اذکاراور قلبی اعمال تک محدود کرنا گوارا نہ کیا ۔آپ کہا کرتے تھے کہ میرا عقیدہ شرک اور کجی سے پاک ہے۔اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے اپنی دعوت کو مجرد نظریات اور کلامی مسائل تک محدودنہ رکھاتھاکہ جن کا زندگی کے نئے پیش آمدہ مسائل سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔

وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ آپ کی ذات میں بادشاہ وقت نے اپنی نام نہاد حکمرانی کے جواز کو عظیم خطرہ محسوس ہوا۔ پھر خطرے کا یہ شعور ایوان حکومت اور اس کے کارپردازوں سے نکل کر مصر اور مصر کی دیگر سیاسی قوتوں تک سرایت کرگیا جو امام کی بقا میں اپنا زوال دیکھتی تھیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ حسن البناکا پروگرام خالصتاً اصلاحی نوعیت کا تھا ۔ آپ نے کبھی کسی کے استیصال کا نعرہ بلند نہیں کیا، بلکہ عملاً قائم شدہ نظام کی اصلاح کی طرف ہی بلایا ۔ لیکن آپ کی دعوت کی قوت و تاثیر کو دیکھ کر دوسرے آپ کے استیصال پر تل گئے۔ آپ کی زندگی کے خلاف سازش کی گئی اور بالآخر شہادت آپ کا مقدر ٹھیری۔

دشمن آپ کی ذات کے ساتھ وابستہ فضل کو نہیں پاسکے ۔ یقینا امام حسن البنا جیسے آدمی   کے لیے بہترین خاتمہ شہادت ہی ہوسکتاتھا ۔ اول تو اس لیے کہ شہادت آپ کی اور آپ کے دیگر ساتھیوں کی قلبی تمنا تھی ۔ یہی تو تھے جنھوں نے فلسطین میں کارجہاد کی تجدید کا کارنامہ انجام دیاتھا۔  شہادت سے بڑھ کراور اس سے قوی تر کوئی اور گواہی ہو نہیں سکتی جسے آدمی اپنے صدق و اخلاص پر دے سکے ۔ آج امام البناکی شہادت کو تقریباً ۶۰ برس ہوگئے ہیں لیکن امام کے افکار و نظریات   عامۃ المسلمین ،تعلیم یافتہ لوگوں اور ہر درجے کے قائدین کے افکار و نظریات میں ڈھل چکے ہیں۔