مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

مجددعصر اور اخوان: مشاہدات

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

امام حسن البناشہید کے صد سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے ترجمان القرآن نے جو خصوصی شمارہ شائع کرنے کا عزم کیا ہے، وہ بہت مستحسن و مبارک قدم ہے۔ اس موقع پر میں نے سوچا کہ اس عظیم شہید کی شخصیت و شمائل ،ان کی دعوت و تحریک ،ان کی تصنیفات و خطبات ، ان کے دعوتی خصائص و امتیازات وغیرہ پرتو بہت سے فاضل مقالہ نگار روشنی ڈالیں گے،اخوان المسلمون جوان کا سب سے بڑا کارنامہ بلکہ ان کا سرمایۂ حیات اور ان کی زندگی کا نچوڑ تھی ، کیوں نہ میں اس کے بارے میں اپنے مشاہدات پیش کروں ، کہ میں مصر اور شام میں اس سے وابستہ رہا ہوں ، اور عراق و اردن میں بھی اس تحریک کے مظاہربڑے قریب سے دیکھے ہیں۔ اس کے قائدین اور کارکنوں کے ساتھ میرا گہرا تعلق رہا ہے بلکہ میں ان کے خاندان (اسرہ ، سب سے چھوٹا تنظیمی یونٹ) کا ایک فرد رہا ہوں۔ میں نے ان کو آزادانہ اور سرفروشانہ سرگرم عمل بھی دیکھا ہے، اور ان کا وہ دور ابتلا بھی دیکھا ہے جب سرزمینِ مصر ان کے چھے ممتازشہیدوں کے لہو سے لالہ زار تھی، اور جب ان کے ہزاروں کارکن و قائدین پابند سلاسل تھے اور ہزاروں ہی خود اختیاری جلا وطنی پر مجبور تھے۔

وہ سرزمین جہاں امام حسن البناشہید پیدا ہوئے، اور جہاں ان کی عظیم عالمی اسلامی تحریک اخوان المسلمون پر وان چڑھی اور پھر ان کے خون سے لالہ زار ہوئی، یعنی مصر ، اس پر میں نے   پہلا قدم ستمبر ۱۹۵۳ء میں رکھا۔ مصرکا میرا یہ پہلا سفر جدہ سے سویز براستہ سمندر تھا۔ اس کے بعد متعدد بار فضائی اور بری راستوں (لیبیا ،مصر ) سے مصر جانا ہوا ، لیکن پہلا سفر متعدد وجوہ سے بڑا یاد گار سفر تھا۔ ایک تو یہ کہ اس کا دورانیہ خاصا طویل، یعنی تقریباً پونے دو سال تھا، کیونکہ یہ مطالعاتی اور تعلیمی سفر تھا۔دوسرے، یہ کہ اس سفر میں جوجنرل نجیب کے ہاتھوں انقلاب کے صرف ایک سال بعد پیش آیا تھا، میں نے مصر میں فوجی سیاست کے بڑے اتار چڑھائو دیکھے۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں نے اس سفر میں مختلف مراحل میں اخوان کی تحریک کو بہت قریب سے دیکھا اور  پرکھا ، اس کے راہ نمائوں کو سنا اور اس کے کارکنوں کے صبح و شام دیکھے۔ان کے عزم و ہمت کا مشاہدہ کیا اور ان کا صبر وثبات دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ میرا جو زمانہ گزرا وہ بہت ہی عزیز زمانہ تھا۔

  •  اخوان سے تعلق: اخوان سے میرا تعلق مکہ مکرمہ میں قائم ہواتھا، جہاں میں ۱۹۵۰ء کے حج سے ستمبر۱۹۵۳ء تک مقیم رہا (بیچ میں پانچ چھے ماہ کا سفر دمام کا پیش آیا )۔میں حج پر استاذ معظم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (مولاناعلی میاں)کے ساتھ گیا ہواتھا۔ حج کے موقع پر اخوان کے ایک نوجوان راہ نما اور(بعد ازاں) امام حسن البناشہید کے داماد الاستاذ سعید رمضان بھی آئے ہوئے تھے، جن سے میرے استاذ معظم مولانا علی میاں رحمتہ اللہ کا تعارف ہوا، جو بعد میں ایک مستقل دوستی اور تعلق میں تبدیل ہوگیا۔

استاذ سعید رمضان مرحوم نے مکہ کے واحد بڑے ہوٹل ’بنک مصر ‘ میں حج کے فوراً بعد ایک جلسہ منعقدکیا، جس میں حجاز کے علما ،ادبا اور دانش وروں کو دعوت دی۔ اس جلسے میں مشہور مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی (مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے والد گرامی )بھی مقرر کی حیثیت سے شامل تھے اور میں بھی حضرت مولاناعلی میاں کے ایک رفیق کی حیثیت سے موجود تھا۔ مولانا مرحوم نے اس موقعے پر عربی زبان میں،جب کہ مولانا عبدالعلیم صدیقی نے انگریزی میں تقریر کی تھی، لیکن برادرم مرحوم الاستاذ سعید رمضان کی تقریر سب پر بھاری تھی۔ اس کے کئی سال بعد دمشق میں  مؤتمر اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس کے موقعے پر ان کے جوہر دیکھنے میں آئے۔ ۱۹۵۶ ء کی   اس کانفرنس میں جو استاذ سعید رمضان ہی نے منعقد کی تھی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور    مولانا سید ابوالحسن علی ندوی بھی شریک تھے۔ میں اس وقت دمشق یونی ورسٹی کے کلیۃ الشریعہ کا   ایک طالب علم تھا۔ ڈاکٹر سعید رمضان مرحوم کی شعلہ بیانی اور زور خطابت شہید حسن البناکے اثر ہی سے تھا، وہ اپنے مرشد مرحوم کی کاپی تھے۔

استاذ سعید رمضان سے ۱۹۵۰ء میں مختصر تعارف اور ملاقات کے بعد دوسرے موسم حج کے موقعے (۱۹۵۱ء) پر اخوان کا ایک مختصر وفد ڈاکٹر عبدالعزیز کا مل کی قیادت میں مکہ مکرمہ آیاتھا۔ موصوف اسکندریہ کی فاروق یونی ورسٹی میں جغرافیہ کے استادتھے۔ ان کے ہمراہ اسکندریہ یونی ورسٹی کے بعض اخوان طلبہ بھی تھے ، ان میں سے ایک محب المحمدی الحسنی سے میری اچھی ملاقات ہوگئی۔ دوسال بعد جب میں مصر گیا تو اس وقت یہ ملاقات بہت کام آئی ، کیونکہ اس وقت یہ ساتھی قاہرہ آچکے تھے، جہاں وہ بی اے آنرز کے بین الاقوامی تعلقات میں قاہرہ یونی ورسٹی سے ڈپلومہ کررہے تھے۔ ساتھ ہی ایک نئے روزنامے الجمہوریہ میں کام بھی کرتے تھے۔ اس اخبار کے ایڈیٹر  اس زمانے میں جمال عبدالناصر کے ساتھی اور انقلابی قیادت کونسل (Revolutionary Command Council)کے رکن انور السادات تھے، جو جمال عبدالناصر کے بعد صدر بنے۔

  •  اخوان کی اخوت: مجھے اخوان کی ’اخوانیت ‘ دیکھنے کا موقع مصر میں ملا۔ اگر میں مصر جا کر ان کی طویل رفاقت اختیار نہ کرتا تو مجھے اخوان کی اس حقیقت کا پتا نہ چلتا جس پر امام  حسن البنانے ۱۹۲۸ء میں تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔ وہ بنیاد تھی سچی اسلامی اخوت، للہیت، خطرات کا مقابلہ اور اللہ تعالیٰ پر بے پناہ اعتماد۔ اس کا کریڈٹ تحریک اخوان المسلمون کے بانی اور پہلے مرشد عام حسن البنا شہید کو جاتا ہے۔ یہاں کچھ آب بیتی بھی ضروری ہے جس میں درحقیقت جگ بیتی پنہاں ہے۔

میں نے قاہرہ پہنچنے کے بعد قصر عابدین (اندرون شہر شاہ فاروق کی سابقہ قیام گاہ ) کے قریب شارع عبدالعزیز پر ایک گیسٹ ہائوس (pension)میں ایک کمرہ کرایے پر لے لیاتھا۔ یہاں مجھے رہتے ہوئے تین چار ماہ کے قریب ہوئے تھے کہ میرا اخوانی دوست، محب المحمدی جس سے دوسال قبل مکہ میں تعارف و ملاقات رہی تھی اور اس سے کچھ مراسلت بھی رہی ، اس گیسٹ ہائوس سے اصرار کرکے وسط شہر سے دو ر بلکہ قاہرہ کے الدقی نامی محلے میں مجھے اپنے فلیٹ پر    لے گیا، جو اس گیسٹ ہائوس کے مقابلے میں بہت سستاتھا۔ اس میں پانچ نوجوان اور رہتے تھے‘ جن میں دو اسکول ماسٹر تھے ، دو طالب علم اور ایک کسی کمپنی میں کلرک تھا۔ محب المحمدی اپنا کمرہ چھوڑ کر اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں رہنے جا رہے تھے اور انھوں نے مجھے اپنا کمرہ دے دیا تھا۔ یہ فلیٹ شارع جوہرپر تھا۔ ان پانچ میں سے صرف ایک مدرس غیر اخوانی تھا ، لیکن وہ بھی حامیوں میں سے تھا۔

اب میں اس اخوانی خاندان کا ایک فرد تھا۔ خاندان کا لفظ یہاں بے محل استعمال نہیں کیاگیا ہے ، بلکہ اخوان المسلمون کے مرشد عام( صدر یا امیرجماعت ) نے اپنی تحریک کا جو تنظیمی ڈھانچا بنایاتھا ، اس میں پہلے تنظیمی یونٹ یا اکائی کا نام ’اسرہ ‘(خاندان ) ہی رکھا تھا۔ اس ’اسرہ‘کے ان پانچ ممبران (بشمول محب المحمدی)کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ممبر (عضو) تھے۔ اس سے بڑی تنظیمی اکائی ’شعبہ ‘ تھی۔۱؎  ’اسرہ ‘ اور ’شعبہ ‘ کے اجلاس مقررہ اوقات پر ہوتے رہتے تھے۔ ہمارے محلے کے شعبے کا سربراہ ایک ترکی الاصل مصری نوجوان تھا اور شعبے کی میٹنگ ایک قریبی مسجد میں ہوتی تھی۔

ان سب اخوانی اور ایک غیر اخوانی بھائیوں کا مجھ سے ایسا برادرانہ اور مخلصانہ تعلق تھا کہ میں اپنی مسافرانہ حیثیت کو بھول گیاتھا اور ایسا لگتاتھا کہ واقعتا ہم ایک ہی خاندان کے فرد ہیں۔ حجاز میں رہنے کے سبب میری عربی اچھی ہوگئی تھی اور گفت و شنید میں کوئی دشواری نہ تھی ، جلد ہی میں نے مقامی مصری بولی (colloqial) بھی سیکھ لی۔ اسلامی اخوت جواخوان کا امتیازی نشان تھا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عید کے موقعے پر یہ اخوانی جو مصر کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے تھے، اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے ، ابو احمد جو سب میں سینئر تھے انھوں نے اصرار کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ ان کے گائوں جائو ں۔ میرے تکلف پر انھوں نے کہا کہ اگر تم ہمارے ساتھ نہ گئے تو ہم بھی عید کرنے اپنے گھروں کو نہ جائیں گے۔ مجبوراً میں ان کے ساتھ قاہرہ سے کافی دور ان کے گائوں دکرنس تحصیل بیت عمر گیا ، جوقاہرہ کے شمال مغرب میں واقع مشہور شہر منصورہ کے قریب تھا۔ یہاں ان لوگوں نے میری اس اہتمام سے خاطر مدارت کی جو شاید بہت سے قریبی رشتے دار بھی  نہ کرسکیں۔ یہ ایک پرخلوص اور غیر معمولی اسلامی اخوت کا سحر انگیزمشاہدہ تھا ۔

تقریباً ڈیڑ ھ سال تک میرا قاہرہ میں ان کے ساتھ قیام رہا اور اس دوران میں کتنے ہی اخوانی دوستوں سے ملا۔ سب کا طریقۂ تعارف نام بتاتے وقت یہ تھا ’اخوکم فی اللہ ‘مصطفی یا محمد وغیرہ یعنی اللہ کی خاطر تمھارا بھائی فلان۔ یہ اسلامی اخوت کا وہ پہلا سبق تھا جو بہت پہلے حسن البناشہید نے اپنی تحریک کے پیروئوں کو سکھایاتھا۔جس پروہ آج تک کاربند ہیں اور جس نے ان کو ایک ایسے مضبوط رشتے میں جوڑ دیاتھا، جس کی مثال کسی اور تحریک میں نہیں ملتی۔ اس کا بھرپور مظاہرہ اس شدید دو ر ابتلا میں ہوا جو جمال عبدالناصر کے عہد ۱۹۵۴ء سے شروع ہوا اور اس کی موت (۱۹۷۱ء) تک جاری رہا۔ اس دور میں ۲۰‘ ۲۵ ہزار کے قریب اخوان جیلوں میں تھے۔ ان کے بیوی بچوں کے مصارف وہ ہزاروں اخوانی برداشت کرتے رہے جوکہ کسی نہ کسی طریقے سے جان بچا کر خلیج ، کویت ،قطر ، سعودیہ ، بحرین وغیرہ پہنچ گئے تھے۔ یہ لوگ خفیہ طریقے سے رقم مصر بھیجتے تھے ، جوان بے سہارا خاندانوں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔

  •  مصرکا انقلاب: مصری انقلاب کے صرف ایک سال بعد میں وہاں پہنچا تھا۔ اس انقلاب میں اخوان کا ایک مرکزی کردار تھا۔ آزاد افسران فوج (الضباط الاحرار) کی جو خفیہ تنظیم  شاہ فاروق کے زمانے میں قائم تھی ، اس کی بعض خفیہ اجلاس اخوانی راہ نمائوں کے گھروں یا     خفیہ مقامات پر ہوتی تھیں۔ انقلابی قیادت کونسل (مجلس الثورۃ)جو انقلاب کے بعد قائم ہوئی ،  اس کے بعض ارکان کمال الدین حسینی اور انورالسادات وغیرہ کے اخوان سے بہت قریبی تعلقات تھے۔ انقلاب کے بعد اخوانی فکر کے جن اعلیٰ فوجی افسران کے نام منظر عام پر آئے ، ان میں سے مشہور اشخاص رشادمہنا ، کرنل ابوالمکارم عبدالحئی اور کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف کے نام اب تک مجھے یاد ہیں۔ ان سب کا اس انقلاب میں بڑا فعال کردارتھا۔ رشاد مہنا تو اس کونسل کے صدر تھے جو     شاہ فاروق کی روانگی کے بعد اس کے ولی عہد خاندان اور محلات وغیرہ کی نگرانی کے لیے بنائی گئی تھی اور کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف نے شاہ فاروق سے تخت سلطنت سے دست بردار ہونے کی دستاویز پر دستخط کرائے تھے اور اس کو جلا وطن کیاتھا۔

جنرل محمد نجیب کا جو ابتدا میں انقلابی کمانڈ کونسل کے صدر بنائے گئے تھے، اخوان سے   براہِ راست تعلق نہ تھا، لیکن وہ اپنی اسلامی سیرت کے سبب اخوان سے قریب تھے، چونکہ وہ ایک سینیرجنرل تھے اور بادشاہت کے خلاف ، اس لیے انقلابی فوجی افسران نے ان کو صدر بنانا پسند کیا۔ لیکن وہ فوجی انقلابی جو عیاشی کی طرف مائل تھے یا وہ جو بائیں بازو کی سیاست کے حامی تھے ، انھوں نے کرنل جمال عبدالناصر کو صدر بنانے اور جنرل محمد نجیب کو صدارت سے ہٹانے کی حمایت کی۔ مصری انقلاب کی تاریخ کا ایک دل چسپ پہلو جس کا میں عینی شاہد ہوں یہ ہے کہ جیسے ہی جنرل نجیب کو صدارت سے معزول کرنے کی خبر پھیلی ، عوام نے غم و غصے کے اظہار میں مظاہرے شروع کردیے۔ دو یا تین دن کے بعد انقلابی کمانڈ کونسل نے جنرل نجیب کی صدارت کے عہدے پر واپسی کا اعلان کردیا۔ یہ شاید ستمبر یا اکتوبر کامہینہ تھا۔ میں اس وقت قصرعابدین کی شارع عبدالعزیز کے فلیٹ میں ہی مقیم تھا۔ گیارہ بارہ بجے کے قریب بلڈنگ سے باہر آیا تو دیکھا کہ سڑک پر لوگ خوشی سے ناچ رہے ہیں اور راہ گیروں کو شربت پلا رہے ہیں۔ مجھے بھی ایک  دکان دارنے شربت پیش کیا ، آگے بڑھا تو دیکھا کہ قصر عابدین کے سامنے وسیع میدان میں بڑا ہجوم ہے۔ معلوم ہوا کہ تھوڑی دیر پہلے لوگ یہاں جنرل نجیب کو کاندھوں پر اٹھائے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے۔

ابتدا میں انقلابی افسران اور جنرل نجیب نے اعلان کیاتھا کہ ملک میں آزاد انتخابات کرائے جائیں گے۔ بہت سی سیاسی پارٹیوں کوالیکشن کی تیاری کا حکم بھی دے دیا گیاتھا۔ ملک میں ایک عجیب سرخوشی اور گہما گہمی کا راج تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اعلیٰ انقلابی افسران حسن البناشہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے تھے اور انھو ں نے اعلان کیا تھاکہ اخوان پر جو ظلم ہوا ہے اس کی پوری پوری تلافی کی جائے گی۔ لیکن بعد میں یہ وعدے پورے نہیں کیے گئے بلکہ بعض وہ اعلیٰ اخوانی  فوجی افسران جن کا انقلاب میں اہم کردار تھا، ان کو ملک چھوڑ کر خفیہ طور پر بھاگنا پڑا، تاکہ    جمال عبدالناصر کی داروگیرسے بچ سکیں۔ ان میں نمایاں نام کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف کاتھا ، جنھوں نے شاہ فاروق کو تخت چھوڑنے اور ملک بدر ہونے پر مجبور کیاتھا۔

انقلاب سے ڈیڑھ دوسال قبل وفدی حکومت کے عہد میں اخوان پر سے پابندی اُٹھا لی گئی۔ اخوان پر پہلی پابندی ۱۹۴۹ء میں لگی اور حسن البناشہید کے ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو سرکاری کارندوں کے ہاتھوں شہادت کے ایک سال بعد، ان کی جماعت کو پھر فکر و عمل کی آزادی مل گئی تھی۔ انقلاب کے بعد اس میں مزید سرگرمی آگئی۔ میں اپنے اخوانی دوستوں کے ساتھ محلہ الحلمیۃ الجدیدۃ کے ، مرکز اخوان میں ان کے ہفتہ وار منگل کے اجتماع میں جاتاتھا، جو بعد مغرب ہوتاتھا اور جس میں اخوان کا کوئی مقرر یا بیرونی مہمان اسلامی موضوعات پر تقریر کرتاتھا۔

 جنوری ۱۹۵۴ء کی ایسی ہی ایک شام میں نے وہاں ایران کی تحریک فدائیان اسلام کے ایک نوجوان راہ نما نواب صفوی کی تقریر سنی (ایک سال بعد شہنشاہ ایران نے ان کو پھانسی دے دی تھی )۔ فصیح و بلیغ عربی میں یہ تقریرکیاتھی ، ایک شعلہ افشانی تھی۔ دوران تقریر اخوان کا خاص مفصل نعرہ ، اللّٰہ غاتینا ، والرسول زعیمنا (مجھے زعیمنا ہی یاد ہے اور یوسف القرضاوی نے اپنی تازہ کتاب الاخوان المسلمون میں یوں ہی لکھاہے ، بعض کتابوں میں ’قدوتنا‘ ہے)، والقرآن دستورنا ، والجہاد سبیلنا و الموت فی سبیل اللہ اسمٰی امانینا، کئی ہزار افراد کی آواز میں بلند ہو رہاتھا (اللہ ہمارا مقصود و مطلوب ہے ، رسول ؐہمارے لیڈر ہیں ، قرآن ہمارا دستور ہے ، جہاد ہمارا طریقہ کار ہے اور اللہ کے راستے میں شہادت ہماری عزیز ترین آرزو ہے)۔ جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ محسوس ہورہاتھا کہ یہ تین چا ر ہزار افراد اگر چاہیں تو ابھی مرکز اخوان سے نکل کر پورے شہر پر قبضہ کرسکتے ہیں۔

انقلابی فوجی افسران جو اپنی بیرکوں وغیرہ میں خفیہ اجتماعات و ملاقاتیں کرتے تھے ، ان کو یہ عوامی مقبولیت کہاں حاصل تھی، جو اخوان کو تھی۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ انقلاب کے فوراً بعد تمام سیاسی پارٹیاں (احزاب ) غیر قانونی قرار دے دی گئی تھیں ، سواے اخوان المسلمون کے، کیونکہ اس کا سرکاری نام حزب (پارٹی ) اخوان المسلمون نہیں تھا، بلکہ جماعت اخوان المسلمون تھا، اور مصر میں ’حزب ‘ کا لفظ سیاسی پارٹی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح اخوان ہی تنہا میدان میں تھے اور ان کے ذریعے انقلاب کو عوامی مقبولیت حاصل ہو رہی تھی۔

جمال عبدالناصر اخوان کے جذبۂ جہادکا مشاہدہ کرچکاتھا ، ان کی ممتاز عسکری کارکردگی کو ۱۹۴۸ء کی پہلی جنگ فلسطین میں دیکھ چکاتھا‘ اور انقلاب سے قبل مختلف خفیہ اجتماعات میں ان کے ساتھ شریک ہوچکاتھا۔ وہ ان کی عوامی مقبولیت اور انتظامی قابلیت سے واقف تھا۔ اب انقلاب کے بعد وہ خود زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتاتھا اور اپنے قومی اشتراکی ایجنڈے پر عمل کرنا چاہتاتھا۔اخوان اپنے اسلامی فکر و عمل سے اس کے راستے میں حائل تھے۔ اس لیے اس نے اخوان کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے ۱۹۵۴ء کی ابتداسے مختلف طریقے اختیار کیے۔ پہلے جنوری ۱۹۵۴ء میں قاہرہ یونی ورسٹی میں اخوانی طلبہ اور سرکاری تنظیم ہیئۃ التحریر کے نوجوانوں کے درمیان جھڑپ کو بہانہ بنا کر اخوان پر پابندی لگادی اور بہت سے اخوانیوں کو قید وبند میں مبتلا کیا۔ پھر مارچ ۱۹۵۴ء میں یہ پابندی اٹھی تو اخوان از سرنو سرگرم عمل ہوگئے۔

  •  نھر سویز پر انگریزوں سے معاھدہ: اخوان برسوں سے انگریزوں کے نہر سویز پر قبضے کے خلاف سرگرم تھے۔ ۱۹۵۱ء میں وہ نہر سویز کے علاقے اور خاص طور پر شہر اسماعیلیہ میں جہاں بڑا برطانوی فوجی اڈا تھا، انگریزوں پر گوریلا حملے کرتے رہے تھے۔ یہ حملے جاری تھے کہ جولائی ۱۹۵۲ء کا فوجی انقلاب رونماہوگیا۔ اخوان نے فو جی حکومت پر انگریز فوج کو مصر سے نکالنے کے لیے اپنا دبائو بڑھا دیا۔ مصر میں آزاد فوجی افسران کی خفیہ تنظیم بھی انگریز ی فوجی وجود کے خلاف تھی ، اور انقلاب سے پہلے دونوں میں اس بارے میں باہمی تعاون تھا ، لیکن دونوں کے مقاصد میں فرق تھا۔ اخوان انگریزوں کے سامراجی وجود سے مصر کو بالکل پا ک کرنا چاہتے تھے کہ نہر سویز پر ان کا کسی قسم کا دعویٰ نہ رہے،جب کہ نئی انقلابی قیادت ان سے سمجھوتا چاہتی تھی، اور ان کو یہ مراعات دینے کے لیے تیار تھی کہ انگریز جب چاہیں کسی جائز وجہ کی بنا پر دوبارہ نہر سویز اور اس کے علاقے پر قبضہ کرسکتے ہیں۔

جولائی ۱۹۵۴ء میں ابتدائی طور پر ایسے ایک معاہدے پر انقلابی حکومت اور انگریز وں کے مابین دستخط ہوگئے۔ اس کمزور اور انجام کار ضرر رساں معاہدے کی تکمیل کرانے میں امریکا او ر بھارت کی نہرو حکومت کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس سلسلے میں ، میں اپنا ایک ذاتی مشاہدہ پیش کرتا ہوں۔

میں اس زمانے میں بھارتی شہریت کا حامل تھا۔ جدہ سے ایک مشہور کانگریسی سیاسی شخصیت عبداللہ مصری قاہرہ آئی ہوئی تھی۔ ان سے مکہ مکرمہ میں میری ملاقات رہی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ قاہرہ میں بھارتی سفیر علی یاور جنگ عربی زبان پڑھنا چاہتے ہیں ، آپ یہ کام انجام دیں۔ میں تیار ہوگیا۔ ہفتے میں دوتین اسباق ہوئے تھے کہ سفیر صاحب کو اقوام متحدہ جانا پڑ گیا۔ اس دوران بھارتی سفارت خانے میں میری ملاقات ملٹری اتاشی کرنل مدن سے ہوگئی۔ انھوں نے کہا کہ سفیر صاحب کی جگہ میں ان کو عربی پڑھا دیا کروں۔ یہ اپریل یا مئی ۱۹۵۴ء کا واقعہ ہے۔ ابھی مجھے انھیں پڑھاتے ہوئے صرف ایک ماہ ہوا تھا کہ انھوں نے مجھ سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں آج کل مصری فوجی حکومت اور انگریزوں کے مابین سویز کینال سے متعلق سمجھوتے کے لیے ثالثی کے طور پر گفت و شنید میں سخت مصروف ہوں ، اس لیے عربی زبان کی تعلیم کا یہ سلسلہ جاری     نہیں رہ سکتا۔ مصر کے اس اہم مسئلے میں بھارت کی ثالثی کا یہی کردار تھا جو مصر اورخاص طور پر   جمال عبدالناصر کے بھارت سے پایدار تعلق کی بنیاد بنا۔ورنہ اس سے قبل جب اسی سال کی ابتدا میں جنرل محمد نجیب اور جمال عبدالناصر کے مابین سخت اختلافات رونماہوئے تھے تو انھیں حل کرانے میں پاکستان کے سفیر طیب حسین کا بڑا ہاتھ تھا۔ تب پاکستان سے نئی مصری فوجی حکومت کی بڑی دوستی تھی ، جو بعد میں مختلف وجوہ کی بنا پر دشمنی میں تبدیل ہوگئی۔

  •  اخوان کا ردعمل: اخوان نے انگریزوں کے ساتھ اس کمزور معاہدے پر جس کی تکمیل میں امریکا اور بھارت نے بڑا کردار ادا کیا تھا، اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے اخبارات و رسائل میں بھی اس معاہدے پر تنقید کی اور اپنی تقاریر میں بھی۔اس ضمن میں ایک اہم واقعے کا میں عینی شاہد ہوں۔ ہم لوگ کبھی کبھی جمعہ کی نماز کے لیے قاہرہ کے ایک مشہور محلے فیصل الروضہ کی اخوانی مسجد جایا کرتے تھے۔ اس معاہدے کے فوراً بعد اواخر جولائی یا اگست میں اخوانی رفیق حسین الاسکندرانی کے ساتھ میں جمعہ کی نماز کے لیے اخوان کی مسجد الشریف میں گیا۔ اخوانی نوجوان مصطفی مشہور ( جو بعد میں پانچویں مرشد عام بنے) نے جمعے کا خطبہ دیا، جس میں انھوں نے بڑے سخت الفاظ میں اس کمزور اور دب کر کیے گئے معاہدے پر تنقید کی۔ وہ جب جمعہ کی نماز پڑھا چکے اور کچھ لوگ مسجد سے باہر نکلنے لگے تو وہاں مسجد میں باہر اور اندر پولیس نے گولی چلا دی۔ میں اور میرا اخوانی رفیق ابھی مسجد کے اندر ہی تھے ، گولی کی آواز سن کرہم وہاں سے نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ کچھ لوگ زخمی ہوئے اور کئی گرفتار کیے گئے۔ امام انجینیرمصطفی مشہور کی جان     بچ گئی۔ ۲۶ اکتوبر۱۹۵۴ء کے اس ڈرامے کے بعد جمال عبدالناصر نے اپنے اوپر اخوان کی طرف سے حملے کا ڈراما رچایا۔ قاہرہ میں مصطفی مشہور اسی سال گرفتار ہوئے اور انھیں ۱۰ سال کی سزا ہوئی۔

۱۹۶۴ء میں رہائی کے بعد ۱۹۶۵ء کے چوتھے دور ابتلا میں ان کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور پانچ سال کے بعد ۱۹۷۱ء میں ان کو جیل سے رہائی ملی۔ ۱۹۹۶ء میں وہ اخوان المسلمون کے پانچویں مرشد عام منتخب ہوئے(ان کے اور باقی اخوان کے مرشدین کے بارے میں ملاحظہ ہو میری کتاب تحریک اخوان پر میرا مقدمہ، ص ۲۴-۳۵)۔ ستمبر۲۰۰۳ء میں ۳۰سال بعد جب میں مصر گیا تو اس سے چند ہی برس قبل مرشد مصطفی مشہور وفات پاچکے تھے اور مامون الہضیبی چھٹے  مرشد عام تھے ، جن سے محلہ الروضہ کے چھوٹے سے مرکز اخوان میں ملاقات ہوئی، یہیں میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ یہ مرکز پرانے مرکز کے مقابلے میں جو وسط شہر کے محلہ الحلیۃ الجریدۃ میں تھا، بہت چھوٹا ہے۔

  •  ناصر کے مظالم: حسن البناشہید نے اپنی اس عظیم اور جامع اسلامی تحریک کو اپنے خون سے سینچ کر ، پامردی و ثبات کا جو درس اخوان کو دیا تھا، اس کا بدرجہ اتم ظہور میں نے ۱۹۵۴ء کے اواخر میں دیکھا۔ ۲۶اکتوبر ۱۹۵۴ء کو جب عبدالناصر اسکندریہ میں تقریر کررہاتھا کہ اس پر کسی نے پستول سے آٹھ فائر کیے ، لیکن کوئی گولی نہ تو عبدالناصر کو لگی اور نہ اسٹیج پر بیٹھے کسی اور شخص کو۔ اور عبدالناصر نے اپنی تقریر جاری رکھی۔اگلی صبح روزنامہ الاہرام اور دیگر اخبارات یہ خبر لائے کہ ایک شخص محمود عبداللطیف نے یہ حملہ کیاتھا جو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ محلہ امبابہ، قاہرہ میں رہنے والا یہ شخص پلمبر ہے۔ اخوان کے راہ نما ایڈووکیٹ ہنداوی دویر نے مبینہ طور پر جمال عبدالناصر کو  قتل کرنے کے لیے اسے ریوالوردیاتھا اور دو مصری پائونڈ اس کو اپنے گھر والوں پر صرف کرنے کے لیے دیے تھے۔ فوجی عدالت نے اس کو پھانسی کی سزا دے دی۔

یہ سال جمال عبدالناصر کے استبدادای مزاج اور پالیسیوں کے لیے آزمایش کا سال تھا۔ جنرل محمد نجیب جنھوں نے آزاد افسران کی تنظیم کے مطالبے پر انقلاب کی قیادت اور ملک کی صدارت سنبھالی ، ان سے جمال عبدالناصر سب کچھ چھیننا چاہتاتھا ، لیکن فوج کے ایک حصے نے محمدنجیب کا ساتھ دیا۔ دوسری طرف عوام نے نجیب کے لیے مظاہرے کیے اور عبدالناصر کو مجبوراً ان کا دوسری بار فوج کے کمانڈر ان چیف اور صدر جمہوریہ کی حیثیت سے تقرر کرنا پڑا۔ تیسر ی طرف اخوان المسلمون تھے جو اس بات کے لیے تیار نہ تھے کہ ملک کو قومیت اور لادینی اشتراکیت کے راستے پر چلایا جائے۔ جمال عبدالناصر ان کی عوامی قوت اور جذبۂ جہاد و قربانی سے پوری طرح واقف تھا۔ وہ یہ بھی خوب جانتا تھا کہ فاروق کی باشاہت کے خلاف مزاحم اصل قوت وہی تھے، اور فاروق کے حسن البناکو قتل کرانے کے بعد عوام کی ہمدردیاں اخوان کے ساتھ کم ہونے کے بجاے مزید بڑھ گئی ہیں۔ پھر یہ کہ وہ اس انقلاب میں بھی بڑے حصہ دار ہیں۔ کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف اخوان کے ہمدردرہے ہیں اور انھی نے شاہ فاروق کو اپنی معزولی کے پروانے پر دستخط کے لیے مجبور کرکے اٹلی کے لیے ملک بدر کیاتھا۔

اس صورت حال اور اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر جمال عبدالناصر نے اپنی خفیہ فوجی پو لیس کے ذریعے ایک بہت ہی معمولی شخص پلمبر کو یہ ڈراما رچانے کے لیے قربانی کا بکرابنایا ، تاکہ اس طرح وہ اخوان کو بدنام کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرے ،جو اس کے سب سے بڑے مدمقابل تھے۔مگر اس کے لیے اس کے کارندوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بڑا بھونڈا تھا۔ بھلا   ایک ملک کے سربراہ (اس وقت جنرل نجیب صرف نام کے صدر تھے،سارے اختیارات     جمال عبدالناصر کے ہاتھ میں تھے )اور ایک قائد انقلاب کو قتل کرنے کے لیے اخوان ایک اناڑی پلمبر کو مشن سونپتے ، پھر اس کو صر ف دو مصری پائونڈ اس کام کے لیے دیتے۔ ایک غیر جانب دار مصری مؤرخ و مصنف پروفیسر ڈاکٹر شبلی نے اپنی کتاب تاریخ الحضارۃ الاسلامیہ کی جلد ۹ میں بہت اہم دلائل دیتے ہوئے اخوان پر اس الزام کو سراسر جھوٹ قرار دیا ہے۔ (ص ۴۲۰تا۴۲۹)۲؎

اس سلسلے میں ایک ذاتی واقعہ بیان کرتا ہوں کہ اس ڈرامے سے دو تین ماہ پہلے یہ محمود عبداللطیف ہم لوگوں سے ملنے ہمارے فلیٹ پر شام کو آیاتھا۔ درمیانی قداور جسامت کا یہ شخص جو واقعتا امبابہ کا رہنے والا اور پلمبر تھا ، خاموش طبیعت کا عام اخوانی لگ رہاتھا ، اس موقع پر ہمارا اخوانی بھائی محب المحمدی بھی آگیا تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا اور محمود عبداللطیف کانام اخباروں میں آیا تو ہمیں تعجب ہوا۔ پھر یہ کہ ہمارے فلیٹ کی ان دنوں انٹیلی جنس والوں کی طرف سے نگرانی ہوتی تھی۔ اپنے ایک منزلہ فلیٹ کی سڑک پر کھلنے والی کھڑکی سے ہمارے ساتھی اکثر وہاں ایک آدمی کو کھڑا دیکھتے تھے۔ اگر محمود عبداللطیف کا اس قصے میں ہاتھ ہوتا تو اس واقعے کے بعد پولیس ہمارے فلیٹ پر دھاوا بولتی اور ہم سبھی کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کرلیتی۔

اس خود ساختہ جھوٹی کہانی کا مقصد اخوان کی اسلامی تحریک اور ان کی قوت کو تباہ کرناتھا۔ چھے اخوانی راہ نمائوں کو سخت تعذیب کے بعد پھانسی دے دی گئی، جن میں شیخ محمد فرغلی جیسے ازہری عالم اورجسٹس (ریٹائرڈ) عبدالقادر عودہ جیسے ممتاز قانون دان اور دو جلدوں میںاعلیٰ درجے کی  تحقیقی کتاب التشریع الجنائی فی الاسلام (اسلام کا فوج داری قانون ) کے مصنف بھی شامل تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر شبلی کے مطابق ان کا جرم درحقیقت صرف یہ تھا کہ وہ مارچ ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے خلاف اور جنرل محمد نجیب کی تائید میں عوامی مظاہرے کے وقت نجیب کی واپسی پر قصرعابدین (صدارتی قیام گاہ)کی بالکونی پر کھڑے تھے۔

  •  اخوان کا دورِ ابتلا: اس واقعے کو بہانہ بنا کر ہزاروں اخوان کوگرفتار کیا گیا ، پابند قید و سلاسل کیاگیا۔ ان پر وہ وحشیانہ تعذیب کی گئی جس کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن امام  حسن البنانے صبر ثبات کا جو درس ان کو دیا تھا ، اس پر وہ جمے رہے۔ چھے ممتاز اخوانی راہ نمائوں کی شہادت کے بعد عام اخوانی نوجوانوںکی زبان پر قرآن کریم کی غزوہ خندق کے موقع پر اترنے والی یہ آیت تھی : مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا (احزاب ۳۳:۲۳)’’یہ اہل ایمان میں ایسے لوگ تھے جنھوں نے اللہ سے جو عہد کیاتھا اسے پورا کردکھایا ، ان میں سے کچھ کو موت آگئی اور  ان میں سے کچھ منتظر ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘‘۔

اس دار وگیر کے زمانے میں اخوان کے ہزاروں کارکن کسی نہ کسی طریقے سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ انھی میں سے دو نوجوان محمد عرفہ اور اسماعیل ہضیبی (اخوان کے دوسرے مرشد عام کا بھتیجا جس کو ۱۵ سال قید کی سزا غیر حاضری میں سنائی گئی تھی )دمشق پہنچ گئے تھے ،وہ ثابت قدم تھے۔ میں دورانِ تعلیم ان کے ساتھ ایک سال کے قریب (۱۹۵۷ء) رہا۔ ان کی زبانوں پر بھی قرآن کریم کی یہی آیت تھی جس کا اوپر ذکرہوا ہے۔ اسی فلیٹ میں دوپہر کے کھانے پر جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہماری ملاقات کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف سے ہوئی تھی جو کسی نہ کسی طریقے سے    جمال عبدالناصر کی جیل سے بھاگ نکلے تھے اوراب ترکی جا رہے تھے۔

استاذ سعید رمضان مرحوم اور بعض دیگر اخوانی راہ نما ۱۹۵۴ء کے اس واقعے سے پہلے ہی ایک کانفرنس میں شرکت کے سبب دمشق میں موجود تھے۔ جمال عبدالناصر نے ایسے چھے ممتاز اخوانی راہ نمائوں کی مصری شہریت ختم کردی تھی۔ مصر کے بعدمیرا اکثر ان سے ملنا رہتا تھا اور ان کا ماہانہ مجلہ المسلمون قاہرہ کے بعد اب دمشق سے شائع ہونے لگاتھا۔ اس زمانے میں انھوں نے اپنے اس مجلے میں جمال عبدالناصر پر ایک مضمون لکھاتھا جس کا عنوان تھا :’فرعونِ مصر‘۔ اسی لقب سے اس کو اس کے ایک فوجی رفیق انقلاب اور سابق وزیر عبداللطیف بغدادی نے اپنی کتاب میں یاد کیا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ نصف صدی سے قبل اس شدید ابتلا اور پھر ۱۹۶۵ء میں دوسری ابتلا، پھانسیوں (سید قطب شہید کی پھانسی )، قید و بند اور جلا وطنی اور معاشی و خاندانی مصائب کے باوجود اخوان کی تنظیم آج بھی مصر میں فعال ہے۔جمال عبدالناصر کی قوم پرستانہ اشتراکیت اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ ۲۰ویں صدی کے اس فرعون کا اب کوئی نام بھی لینا پسند نہیں کرتا،جب کہ اخوان نے ان پر سیاسی پابندیوں کے باوجود آزا د حیثیت اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پرگذشتہ انتخابات میں ۸۸سے زائد نشستیں حاصل کی ہیں۔ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآئً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ(الرعد۱۳:۱۷) ’’اور جہاں تک (سلابی) جھاگوں کا تعلق ہے تو وہ  رائیگاں ہوتی ہیں اور جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے‘‘۔

امام حسن البنانے اخوان المسلمون میں جو ثبات و صلاحیت پیدا کردی تھی ، یہ اسی کافیض تھا کہ تعذیب و قتل اور مسلسل سخت ابتلا کی آندھیاں بھی ان کو ہلا نہ سکیں۔ مرد تو مرد اخوانی خواتین بھی ناصری جلادوں کے ہاتھوں جیل میں سخت تعذیب کا شکار رہیں،لیکن ان کے پاے ثبات میں جنبش تک نہیں آئی۔ ۱۹۶۵ء کے دورابتلا میں سیدہ زینب الغزالی اور سید قطب شہید کی بہنوں حمیدہ قطب اور امینہ قطب وغیرہ نے جیل خانوں میں بڑی تعذیب برداشت کی ،لیکن اپنے مشن پر قائم رہیں۔

اس تعذیب کا ایک شکار ہمارا دوست محب حسنی المحمدی بھی ہوا۔ وہ ۱۹۵۴ء میں قاہرہ یونی ورسٹی  میں بین الاقوامی تعلقات میں ایک کورس پڑھنے کے ساتھ ساتھ رات کو روزنامہ الجمہوریہ میں بھی کام کرتاتھا۔ جمال عبدالناصر کے قتل کے ڈرامے کے بعد جہاں ہزاروں اخوانی گرفتار کیے گئے تھے ،وہاں اس کو بھی گرفتار کیاگیا۔ یہ دو ہفتے جیل میں رہنے کے بعد ہم سے ملنے آیا۔ اس کا سرمونڈ دیا گیاتھا اور اس نے ہمیں پیٹھ دکھائی جو کوڑوں کی مار سے اب تک نیلی تھی اور کہیں کہیں سے کھال ادھڑی ہوئی تھی، لیکن اس کا آہنی عزم اب بھی ویسا ہی تھا۔ یہ اخوان کی  اس تنظیم میں نہ تھا ، جو   نہر سویز کے علاقے میں انگریزوں کے خلاف گوریلاحملوں کے لیے ۱۹۵۱ء میں بنائی گئی تھی جس سے مصری وفدی حکومت اور فوجی حکومت واقف تھی۔محب المحمدی کو اس کے بقول صرف شبہے میں پکڑا گیاتھا،اور محض یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کا اس تنظیم سے کوئی تعلق تو نہیں جیل میں ننگا کرکے  اس کی کھال ادھیڑ دی گئی تھی۔ خدا شاہد ہے کہ وہ ہمارے سامنے ہنستاتھا۔اس اذیت ناک عمل کی اس پر کوئی دہشت ،کوئی خوف طاری نہ تھا۔ وہ اور میرے دوسرے فلیٹ کے اخوانی ساتھی    امام حسن البناشہید کو دیکھ چکے تھے ، سن چکے تھے ، ان کے ساتھ بیٹھ چکے تھے ، ان کی صحبت نے ان نوجوانوں کو جو اَب ۷۰ برس کے بوڑھے ہیں یا دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، کندن کردیاتھا۔

  •  امام البنا اور تصوف: امام حسن البناشہید کو جوانوں سے بہت محبت تھی۔ انھوں نے اپنی تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں اس وقت رکھی جب وہ اسماعیلیہ کے شہر میں ایک اسکول ماسٹر تھے ، یعنی وہ اس وقت صرف ۲۲ سال کے ایک نوجوان تھے۔ وہ ایک وہبی لیڈر (قائدموہوب )تھے۔ بچپن ہی سے ان کو اجتماعی خیر کے کاموں کا شوق تھا۔ انھوں نے اپنے قصبے محمودیہ میں الجمعیۃ الحصافیہ الخیریۃ  اپنے اسکول کے زمانے میں بنائی تھی، جس کے وہ سیکرٹری تھے اور یہ جمعیت انھوں نے اپنے شیخ طریقت شیخ عبدالوہاب الحصافی کے نام پر بنائی تھی ، جن سے وہ طریقۂ حصافیہ میں بیعت ہوگئے تھے کہ جب وہ دمنہور کے اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ اس تعلق و تربیت سے ان کے اندر وہ روحانیت پیدا ہوگئی تھی اور ان کی تقریر وتحریر میں وہ  حلاوت و تاثیر تھی جو بہت سے دین کے مبلغین اور داعیوں میں نہیں پائی جاتی۔

امام حسن البنا نے اپنی کتاب مذکرات الدعوۃ و الداعیۃ  (حسن البناشہید کی ڈائری) میں تصوف کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ شیخ حسن البنا تصوف کے خانقاہی نظام سے متفق نہیں تھے ، تاہم وہ اس کو عبادات کا ذوق و شوق او راس میں حلاوت پیدا کرنے کاذریعہ سمجھتے تھے۔ واقعی وہ اپنے جوانی کے ابتدائی زمانے سے اس کے سبب تہجد و دیگر نوافل اور نفلی روزوں اور اذکار و اورادکے پابند تھے۔اسی ذوق عبادت کے تحت انھوں نے بعد میں اخوان کے لیے مسنون ادعیہ واوراد پر ایک چھوٹی سی کتاب الماثورات لکھی، جو عام طور پر اخوان پڑھتے ہیں۔ شیخ   حسن البنا متحرک یا تحریکی (dynamic)تصوف کے قائل تھے۔ اسی لیے جب انھوں نے  تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی جو حرکت و عمل پر مبنی تھی تو ان کے شیخ طریقت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ تب انھوں نے اپنے شیخ کے اختلاف پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنی تحریک پر عمل پیرا رہے۔

  •  حسن البنا کی دینی تڑپ: الجمعیۃ الخیریۃ کے علاوہ جو دینی عقائد کی تصحیح، اسلامی احکام پر عمل ، فلاحی کام اور عیسائی مشنریوں کے توڑ کے لیے بنائی گئی تھی، حسن البنااپنی جوانی ہی میں قاہرہ میں دوسری دینی جماعتوں ، جمعیۃ نھضۃ الاسلام‘ جمعیۃ مکارم الاخلاق الاسلامیہ کے بھی رکن رہے، لیکن انھیں اللہ تعالیٰ نے کسی اور بڑی اور ہمہ گیر اسلامی تحریک   کے لیے بنایاتھا۔ اس لیے مصر میںکسی بھی موجود دینی و سماجی جمعیت سے ان کی تسلی نہیں ہوئی۔ ان کی دینی حمیت اور تڑپ کا یہ عالم تھا کہ جب وہ قاہرہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے تھے اور ۱۷ سال کی عمر میں کالج میں زیر تعلیم تھے تو اس وقت قاہرہ میں لادینیت اور بے حیامغربی تہذیب کے اثرات زوروں پر تھے۔ اس کے سبب حسن البنا کے بقول: میںملک کے اس حال پر اتنا فکر مند تھا کہ رمضان میں دو ہفتہ تک نیند نہیں آئی۔ میں نے طے کیا کہ علما اور کسی ایسے عالم و شیخ طریقت سے  مل کر جن کا معاشرے میں اثر ہو ان پر زور دوں گا کہ وہ اس بڑھتی ہوئی لادینیت اور اباحیت کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھائیں۔

اس غرض کے لیے حسن البنا جمعیۃ نہضۃ الاسلام کے صدر شیخ یوسف الدجوی کے پاس گئے ، ان کی محفل میں کچھ علما اور ممتاز لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ نوجوان طالب علم حسن البنانے ملک میں بڑھتی ہوئی لادینیت اور بے حیائی کا شکوہ کیا۔ شیخ یوسف نے عام بزرگوں کی طرح کہا جو کچھ ہوسکتا ہے کرو کہ لایکلف اللّٰہ ---‘‘مگر خود حسن البنا کہتے ہیں :میں نے کہا نہیں، یا سیدی !  یہ کمزوری اور اپنی ذمہ داری سے فرار کی بات ہے۔ آپ کو کس کا ڈر ہے ، حکومت کا، ازہر کا ؟آپ کو گزارہ الائونس ملتا ہے ، اپنے گھر بیٹھے ہیں، کوئی کام نہیں ، اسلام کے لیے کام کیجیے۔ ہماری قوم مسلمان قوم ہے ، وہ آپ کے ساتھ ہے۔ میں نے ان لوگوںکو قہوہ خانوں میں ، سڑکوں پر اور مسجدوں میں دیکھا ہے ، وہ آپ کے ساتھ ہیں ، لیکن چونکہ کوئی ان کی راہ نمائی نہیں کررہا ہے ، اس لیے اپنے پرجوش ایمان کے باوجود وہ ایک ضائع شدہ طاقت ہیں، اور اسی سبب سے لادین اور بدکردار عناصر کے اخبارات و رسائل، جو آپ لوگوں کی لاتعلقی کے سبب سرگرم ہیں ، ان کو گمراہ کررہے ہیں۔ اگر آپ لوگ ان کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو یہ عناصر اپنے بلوں میں گھس جائیں گے۔ یا استاذ !اگر آپ اللہ کے لیے قدم اٹھانا نہیں چاہتے ہیں تو اپنی دنیا اور اپنی روٹی کے لیے ہی اٹھیے، کیونکہ اگر اسلام مٹ گیا تو ازہر بھی مٹ جائے گا ، علما بھی مٹ جائیں گے۔ پھر نہ آپ کو کچھ کھانے کے لیے ملے گا اور نہ خرچ کرنے کے لیے پیسہ ملے گا۔ اگر اسلام کے دفاع کے لیے نہیں اٹھتے تو اپنی ذات کے لیے اٹھیے، اپنی دنیا کے لیے ہی سرگرم عمل ہوجائیے۔ اگر آخرت کے لیے عمل نہ کیا، تو اے شیخ محترم! یہ دنیاا ور آخرت دونوں ہی رائیگاں جائیں گے۔

حسن البناشدت جذبات میں اسی سوز دروں سے بولتے رہے ، لیکن حاضرین میں کچھ لوگوں کو نوجوان طالب علم کا یہ لہجہ پسند نہیں آیا۔ ایک مریدنے سختی سے انھیں جھڑکا کہ ’’تم نے    شیخ کے ساتھ گستاخی کی ہے اور علماے ازہر کی بھی تو ہین کی ، اسلام کمزور نہیں پڑے گا۔ اللہ نے خوداس کی نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ تم کون ہوتے ہویہ ڈراوے دینے والے‘‘۔لیکن حاضرین میں سے ایک معززشخص احمد بے کامل نے ان صاحب کو روکا : ’’نہیں، یہ نوجوان حق بات کہہ رہا ہے ۔ تمھارا فرض ہے کہ اٹھو ، کب تک یہ بے عملی رہے گی؟ وہ تو تم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ تم اسلام کی نصرت کے لیے جمع ہوجائو۔اگر تمھیں جگہ درکار ہے تو میرا گھر موجود ہے ،پیسہ چاہیے تو خیرخواہ مسلمانوں کی کمی نہیں ، تم ہمارے راہ نما ہو ، ہم تمھارے پیچھے ہیں ، لیکن یہ حیل وحجت کسی کام کی نہیں۔۳؎

اس کے بعد شیخ یوسف الدجوی ایک دوسرے بزرگ شیخ محمد سعید کے یہاں جانے کے لیے اٹھ گئے۔ حسن البنا بھی ان کے ساتھ ہوگئے اور ان کے گھر جو کچھ پیش آیا وہ حسن البنا شہیدکی   اللہ کے یہاں مقبولیت کی پہلی نمایاں جھلک تھی۔

الامام البنا خود اس رقت آمیزاور اثر انگیز واقعے کو اس طرح بیان کرتے ہیں : ’’ہم سب شیخ دجوی کے مکان سے قریب ہی شیخ محمد سعید کے یہاں منتقل ہوگئے ، اور میں نے کوشش کی کہ  شیخ دجوی کے قریب ہی بیٹھوں ، تاکہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ بخوبی کہہ سکوں۔ اس موقعے پر رمضان کی جو مٹھائیاں ہوتی ہیں حاضر کی گئیں۔ وہ لینے کے لیے شیخ بڑھے تو میں ان کے قریب آگیا۔ شیخ نے کہا تم یہاں بھی ہمارے ساتھ آگئے۔ میں نے کہا :جی ہاں ، جب تک ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جائیں گے، آپ کو چھوڑوںگا نہیں۔ شیخ دجوی نے مجھے کھانے کے لیے مٹھائی دی اور کہا کہ یہ کھائو ،ان شاء اللہ ہم سوچیں گے۔ اس پر میں نے کہا یاسیدی! مسئلہ اب سوچتے رہنے کا نہیں ہے، ضرورت عمل کی ہے۔ اگر مجھے مٹھائی وغیرہ کھانا ہوتی تو میں ایک قرش(روپیہ ) میں خرید کر اپنے گھر میں بیٹھ کر آرام سے کھاتا اور یہاں آنے کی مشقت گوارا نہیں کرتا۔ یاسیدی!اسلام کے خلاف اتنی سخت جنگ جاری ہے او راسلام کے پیروکار ، اس کے حمایتی اورمسلمانوں کے پیشوا اس عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ جو کچھ کھا رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا آپ سے حساب نہیں لے گا؟اگر آپ لوگوں کو اپنے سوا اسلام کے کوئی اور پیشوا اور دفاع کرنے والے معلوم ہوں تو براہ کرم مجھ کو انھی کا پتا دے دیجیے، میں ان کے پاس چلا جائوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ مجھے ان کے پاس وہ مل جائے جو آپ کے پاس نہیں ( یعنی اسلام کا درد)‘‘۔

’’ایک گھڑی کے لیے عجیب خاموشی طاری ہوگئی اورپھر شیخ کی آنکھوں سے شدت سے آنسو بہنے لگے ،جس سے ان کی داڑھی تر ہوگئی اور حاضرین پر بھی گریہ طاری ہوگیا۔ شیخ نے خود ہی اس خاموشی کو توڑا اور گہرے غم اور شدید احساس میں کہا :میں کیا کرسکتا ہوں حسن؟میں نے کہا یاسیدی! معاملہ آسان ہے، لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ ۲:۲۸۶)میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اہل علم اور اصحا ب جاہ و منزلت میں سے جن میں آپ کو دینی حمیت نظر آتی ہے،آپ براہ کرم صرف ان کے نام شمار کرادیں تاکہ وہ کچھ کرنے کے بارے میں سوچیں۔ الحادی جرائد کے مقابلے میں کچھ نہیں تو ایک ہفتہ وار مجلہ ہی نکالیں ، اور ان کی کتابوں کے رد میں کتابیں اور پمفلٹ لکھیں۔ نوجوانوں کے لیے تنظیمیں بنائیں ، وعظ و نصیحت میں سرگرم ہوں ، وغیرہ وغیرہ۔ کہنے لگے خوب۔ (ایضاً ،ص-۷۷)

مٹھائی کی پرات اٹھاکر لے جانے کا حکم دیا اور کاغذ و قلم منگوایا اور مجھ سے کہا لکھو۔ ہم نام یاد کرنے لگے۔ ہم نے کچھ علما اور بڑے لوگوں کے نام لکھے جن میں سے مجھے یہ یاد ہیں ، خود یوسف الدجوی، شیخ محمد الخضرحسین (۱۹۵۲ء کے مصری فوجی انقلاب کے بعد ابتدا میں ازہر کے شیخ متعین کیے گئے تھے۔ باقی بھی سب مشہور علما تھے )، شیخ عبدالعزیز جاویش ، شیخ عبدالوہاب النجار ، شیخ محمد الخضری ،  شیخ محمداحمد ابراہیم اور شیخ عبدالعزیز الخولی۔ شیخ السید محمد رشید رضا کا نام آیا تو کہا :یہ بھی لکھو ، یہ بھی لکھو ، یہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں ہم اختلاف کریں ، بلکہ یہ اسلام و کفر کا معاملہ ہے اور شیخ رشیدرضا اپنے قلم ، علم اور اپنے مجلے سے اسلام کا بہترین دفاع کرتے ہیں۔ ‘‘(السید رشید رضا دراصل سلفی مسلک کے آدمی تھے اور تصوف و تقلید کے خلاف،جب کہ شیخ یوسف الدجوی ایک صاحب طریقت عالم تھے ، پھر بھی شیخ نے ان کا نام لکھوا یا ، ان کے مجلے سے مراد مشہورمجلہ المنارہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۷۷)

اس فہرست میں ان علما کے علاوہ ملک کے سربرآوردہ اشخاص کے نام بھی تھے۔ اس کے بعد شیخ ان لوگوں سے ملے جن کو وہ جانتے تھے اور حسن البنا ان سے ملے جن کو وہ جانتے تھے۔پھر ان سب مشاہیر علما او رسربرآور دہ شخصیات کے باہم اجتماعات ہوتے رہے۔ یہ بہت سے اہل علم کے لیے ایک انکشاف ہوگا، جس طرح میرے لیے ہوا کہ حسن البناکی ان کوششوں اور ان حضرات کے تعاون کے نتیجے میں ۲۰ویں صدی کے نصف اول میں مصر کا  المنار کے بعد مشہور ترین مجلہ  الفتح شائع ہوا، جو برسوں محب الدین الخطیب کی ادارت میں جاری رہا۔ یہی وہ مجلہ تھا جس کو ہندستان کے علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا مسعود عالم ندوی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی پڑھ کر اپنی عربی کو جلا دیتے اور اس میں اپنے مضامین شائع کرتے تھے۔ محب الدین الخطیب سے     راقم الحروف کو ملنے کی سعادت ۱۹۵۴ء میں حاصل ہوئی۔ اس وقت وہ مجلۃ الازھرکے ایڈیٹر تھے۔

امام حسن البنا نے دارالعلوم کالج کی طالب علمی کے زمانے میں جن علما اور سربرآورد ہ اشخاص کو اسلام کی خدمت اور تقویت کے لیے جمع کردیاتھا،ان سے ان کا رابطہ بعد میں بھی قائم رہا اور سربرآوردہ شخصیات میں سے احمد تیمور پاشا ، عبدالعزیز پاشا اور عبدالحمید بک سعید اور خاص کر موخرالذکر کی کوشش سے مصر کی مشہور تنظیم جمعیۃ الشبان المسلمین قائم ہوئی جومسلمان نوجوانوں کی مؤثر تنظیم تھی۔ شیخ حسن البنااس تنظیم کے سرگرم معاون تھے اور جس روز، یعنی ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کی شام کو ان کی شہادت ہوئی ، اس شام وہ اسی تنظیم کے دفترمیں بعض حکومتی نمایندوں سے میٹنگ کے لیے گئے ہوئے تھے۔ میرا بھی زمانۂ قیام مصر میں یہاں اکثر جانا رہتاتھا۔ یہ ثقافتی سماجی اور دینی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور یہاں کے شان دار آڈٹیوریم میں بعض مشہور علما و ادبا کے ساتھ مجھے ایک پروگرام میں تقریر کرنے کا موقع ملا، عنوان تھا: ’دنیا میں اسلام‘۔ میں نے ہندوپاک میں اسلام کے موضوع پر تقریر کی تھی۔صالح حرب پاشا اس زمانے میں اس کے صدر تھے۔

۲۰ویں صدی عیسوی میں جوعظیم دینی تحریکیں دنیا میں قائم ہوئیں، ان میں تحریک اخوان المسلمون(مصر)، تبلیغی جماعت (ہند)، اور جماعت اسلامی (ہندوپاکستان ) سب سے زیادہ دوررس نتائج کی حامل تھیں۔ان تحریکوں کے بانیوں میں سب سے کم عمر حسن البنا شہید تھے اور سب سے زیادہ کم عمری ہی میں، یعنی ۴۳سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ،اور ان کو شہادت کا شرف نصیب ہوا۔ پھر ان کی تحریک کو جس ابتلا و مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ارکان جس  قتل و غارت گری سے دوچار ہوئے، اگر یہ سب کچھ کسی دوسری تحریک کے ساتھ پیش آتا تونہیں  کہا جاسکتا کہ ان کا کیا انجام ہوتا، لیکن الحمدللہ یہ عظیم اور جامع اسلامی تحریک آج بھی زندہ ہے۔

امام حسن البنا کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ ان کو ۲۰ ہزار اخوانیوں کے نام یاد تھے۔ وہ کوئی بہت بڑے مصنف نہیں تھے۔ ان سے جب بعض لوگوں نے تصنیف و تالیف کے لیے کہا تو انھوں نے جواباً کہا :’’میں کتابوں کے بجاے ایسے آدمی بناناچاہتا ہوں کہ ان میں سے اگر ایک آدمی کو بھی میں کسی شہر میں بھیجوں تو وہ اس شہر کی حالت درست کردے‘‘۔ واقعی انھوں نے ایسے افراد تیار کیے۔ایسے افراد میں، سید قطب شہید نمایاں ترین تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے اخوان کی راہ نمائی کے لیے مختلف دینی موضوعات پر آٹھ رسائل تحریر کیے، جس کا ۵۰۰ صفحات پر محیط اڈیشن بیروت سے ۱۹۶۶ء میں چھپا۔بے شک وہ چودھویں ہجری کے مجدد تھے۔ رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ -