اسی دوران ،امام حسن البناکی جانب سے محمد البنا اور محمود الحافظ ہمارے پاس آئے۔ امام کا طریقہ کار تھا کہ جب بھی گرمیوں کا موسم آتا تو آپ اپنے ساتھیوں کومختلف علاقوںمیں داعی بناکر بھیجتے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ ہمارے نصیب میں حسن البنا کے بھائی محمد البنا اور ان کے ساتھ محمود الحافظ آئے۔ ان کے پاس اخوان المسلمون کا دعوتی لٹریچر بھی تھا۔
اخوان المسلمون کے لٹریچر میں اخوان کا یہ عقیدہ واضح کیاگیا تھا کہ:’’ ہمارے تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہیں۔ جزا و سزا کا دن برحق ہے۔ قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ،جس میں دین اوردنیا کی بھلائی ہے۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو قرآن کریم کی جماعت میں شامل کروں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کروں گا‘‘۔
میں اس وقت ثانویہ کے چوتھے سا ل میں تھا۔ محمد البنا بھی میرے ساتھ چوتھے سال میں تھے، لیکن اگلے سال جب ہم ثانویہ سے فارغ ہوئے تو وہ شعبہ ادب میں چلے گئے اور میں نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لے لیا۔
میں بات کررہاتھا کہ ہم نے فلسطین کے لیے فنڈ اکٹھا کیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ یہ فنڈ محب الدین الخطیب کو بھیجا جائے۔ محب الدین الخطیب الفتح جریدہ نکالا کرتے تھے۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کے متعلق لکھا اور لوگوں کو اس مسئلے کے حقیقی پس منظر سے روشناس کرایا۔ اس وقت مسئلہ فلسطین کے متعلق زیادہ تر دو ہی: شخص محب الدین الخطیب اور رشید رضا لکھا کرتے تھے۔ محب الدین الخطیب الفتحمیں اور رشید رضا المنارمیں لکھا کرتے تھے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ خود عالم عرب میں بھی لوگ مسئلہ فلسطین سے بے خبر تھے۔
محمد البنا اور محمو د الحافظ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ:’’فلسطین کے مسئلے سے ہماراتعلق ہے۔ ہمارے اور مجاہدین کے درمیان روابط ہیں۔ ہم انھیں اسلحہ اور مالی امداد پہنچاتے ہیں۔ آپ بھی فنڈ اکٹھا کرکے دیں ہم آگے پہنچا دیں گے‘‘۔ ان کے کہنے پر جمع شدہ فنڈ لے جا کر میں نے محب الدین الخطیب کے سپرد کردیا۔ ان حضرات کا شمار اخوان المسلمون کے بنیادی ، اہم ترین ارکان اور اوّلین داعیوں میں سے ہوتاتھا۔ انھوں نے مجھے اخوان المسلمون کی بعض کتابیں اور رسالے بھی دیے۔ پھر میں اپنے شہر واپس آگیا۔
حج کے موقع پر جامعہ ازہر نے حج کے لیے ازہری طلبہ کا ایک وفد بھیجنے کا اعلان کیا۔ حکومت نے اس وفد سے تعاون کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بحری جہاز کی کمپنی وفد سے آدھا کرایہ وصول کرے گی۔ مصری حکومت نے وفد میں شریک ہر فرد کو ۱۰مصری پائونڈ دینے کا اعلان کیا۔ دوسری جانب سعودی حکومت نے ٹیکس وغیرہ نہ لینے کااعلان کیا۔
ہمارے لیے یہ فریضہ حج اداکرنے کا سنہری موقع تھا۔ میں بھی حج وفد میں شامل ہوگیا۔ ہمارے دوست شیخ خلف السید نے حج پر جانے والوں کو اپنے گھر پر چائے کی دعوت دی۔وہ اس وقت ہمارے ساتھ طالب علم تھے۔ بعد میں وہ مجمع البحوث الاسلامیہ کے ڈائرکٹر بنے۔ چائے کی نشست کے دوران میں انھوں نے بتایا کہ الشیخ حسن البنا نے جامعہ ازہر کے حج وفد کے لیے دعوت کا اہتمام کیاتھا۔ آپ کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے کہا اللہ تیرا بھلا کرے میری تو ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی۔ تم نے موقع ضائع کردیا ، چائے کا کپ توبعد میں کبھی پی لیتے لیکن ان سے ملاقات ---؟ انھوں نے کہا کہ فکر نہ کریں شیخ حسن البنا حج وفد کو الوداع کہنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر بھی جائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خود طلبہ اور اساتذہ کے وفود کو خدا حافظ کہیں۔
مصر کی کسی جماعت یا تنظیم نے حاجیوں کو دعوت نہیں دی تھی۔ صرف امام حسن البنا نے حج پرروانہ ہونے والوں کی دعوت کا اہتمام کیا، انھیں ریلوے اسٹیشن پر الوداع کہا۔ ہم اسٹیشن پر امام حسن البنا سے ملے۔ میں ان سے مل کر بے پناہ خوش تھا۔ امام حسن البنا،کی شخصیت سنت کے مطابق ڈھلی ہوئی تھی ، ان کی داڑھی سیاہ تھی۔ انھوں نے ملتے ہوئے مجھے گلے لگالیا ، میرے لیے مسنون دعا پڑھی: استودعکم اللّٰہ دینک و امانتک و خاتم عملک و زودک اللّٰ بالتقوی۔ میں آپ کے دین آپ کی امانتوںاور آ پ کے انجام کار کو اللہ کے سپرد کرتاہوں،اللہ تعالیٰ آپ کے تقویٰ میں اضافہ فرمائے۔ پھرانھوں نے مجھے وہی بات کہی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے کہی تھی۔ انھوں نے فرمایا :’’اپنی دعائوں میں اپنے بھائی کو نہ بھولنا‘‘۔ میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔
امام حسن البنا کا ایک تعارف ان کی کتب پڑھ کر ہواتھا ،لیکن میںنے انھیں تصوراتی طور پر پہچانا تھا ، حج پر جانے والے ان کے ساتھیوں کے درمیان رہ کرمجھے خود امام البنا کو عملی طور پر جاننے کا موقع ملا۔ جیسے ہی ہم بندرگاہ پہنچے تو کچھ نوجوان ہماری بس کی طرف لپکے۔ انھوں نے ہمارا سامان اتارنا شروع کردیا۔ ان میں سے بعض نوجوان بس کے اوپر چڑھ گئے تھے اوروہ نیچے والوں کو سامان پکڑاتے۔ میںنے سمجھا شاید یہ بحری جہاز کے ملازمین ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اخوان المسلمون کے اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ نوجوان تھے، جو اپنے بھائیوں کی بے لوث خدمت کے لیے کوشاں تھے۔ ہم بحری جہاز پر سوار ہوگئے۔ جہاز والوں نے ہماری پذیرائی کی۔ ہم ازہری طلبہ کی مالی حالت کمزور تھی ،اس لیے تیسرے درجے میں سوار ہوئے۔ جامعہ کے اساتذہ صاحب استطاعت تھے، وہ دوسرے درجے میں سوار ہوئے۔ ہمارا سامان:ایک تکیہ، ایک کمبل ، ایک جاے نماز اور ایک بیگ پر مشتمل تھا۔ اخوان المسلمون کے ان نوجوانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو قرآن نہ پڑھتا اور تہجد نہ ادا کرتا ہو۔بحری جہاز میںایک کشادہ صحن تھا۔ یہ تمام نوجوان ہمارے ساتھ صحن میں باجماعت نماز اداکرتے۔ ان میں سے ایک شخص کو اذان دینے کابہت شوق تھا، وہ ڈاکٹر عبدالمنعم فتحی تھے۔ عبدالمنعم فتحی اس وقت میڈیکل کالج میں سال اول کے طالب علم تھے۔ بعدازاں وہ میڈیکل کالج کے فیکلٹی ڈین بنے۔ اشتراکی روس میں ان کے ہاتھ پر لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا۔
جب ہمارا قافلہ سعودی عرب پہنچا تو سعودیہ کے شاہ عبدالعزیز کی جانب سے ہماری رہایش کا انتظام کیاگیا تھا۔ یہ وفد ۳۵افراد پر مشتمل تھا جس میں ۴اساتذہ اور باقی طلبہ تھے۔ البتہ ازہر یونی ورسٹی کے دوسرے وفود کو شامل کرکے یہ تعداد ایک سو تک پہنچ جاتی تھی۔ شاہ عبدالعزیز کی جانب سے ترکوں کے اسکول کی ایک بڑی عمارت میں ہماری رہایش کا انتظام تھا۔ سعودی عرب کے فوجی جوانوں کی حالت خستہ تھی۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سعودی عرب میں تیل کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرمدینہ منورہ روانگی کی تیاری ہے، لیکن بس پر سوار ہونے کے لیے جھگڑا ہو رہا ہے۔چار وناچار ہم اساتذہ کے پاس گئے اور پوچھا کہ ہماری بس کون سی ہے، شیخ غرباوی نے احمد امین سے کہا کہ ہم اکٹھے آئے ہیں اور اکٹھے واپس جائیں گے‘‘۔ احمد امین نے جواب دیا :’’آپ کی بس موجود ہے۔ آپ اس میں جا کر سوار ہوجائیں‘‘۔ ہم نے کہاکہ:’’ لیکن وہ بس ہے کہاں ذرا ہمیں بھی دکھادیں‘‘۔ احمد امین نے کہا کہ:’’ تم نے اس طرح بات کرکے میری بے عزتی کی ہے‘‘۔ ہم نے جواب دیا کہ صرف اتنا ہی تو پوچھا ہے کہ ہماری بس کہاں ہے۔ اس میں بے عزتی کی کیا بات ہے۔احمد امین نے کہا کہ ہمارے ہاں اس طرح بات کرنے کو بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ غرباوی صاحب نے ہم سے کہا چھوڑیے، یہ لوگ نہیں جانتے کہ وہ اللہ کے نزدیک کتنی بڑ ی بات کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :ومن یردفیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم۔ ’’اس مسجد (حرام ) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے‘‘۔ شیخ غرباوی ہمیں وہاں سے لے گئے۔ انھوں نے کمپنی سے بات کرکے بس کا انتظام کیا۔ ہم سب سے آخر میں چلے لیکن یہ اللہ کا فضل و کرم تھا کہ سب سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ اخوان المسلمون کے طلبہ نے جھگڑا کرنے والے طلبہ کو سمجھا یاتھا کہ بس پر سوار ہونا ان کا بھی حق ہے، لیکن دوسرے طلبہ نے بات تک نہ سنی۔جن صاحب نے شیخ غرباوی سے کہا تھا کہ تم نے ہماری بے عزتی کی ہے ، ان کی بس راستہ گم کربیٹھی ،اور تین دن تک صحرا میں بھٹکتی رہی۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت مکہ سے مدینہ تک سڑک پختہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ گاڑیاں ریت پر چلتی تھیں۔ گردو غبار سے آگے جانے والی گاڑیاں نظر نہ آتی تھیں۔ بس کا ڈرائیورراستہ گم کربیٹھا اور ایسی وادی میں پہنچ گیا جس کا نام وادی النار یعنی آگ کی وادی تھا۔ واللہ اس کا نام وادی جہنم تھا۔ ان دنوں ہیلی کاپٹر وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے کہ صحرا میں گم شدہ گاڑیوں کو ان کے ذریعے تلاش کرلیا جائے۔ گم شدہ گاڑی کی تلاش کے لیے بدوئوں کو بھیجا گیا۔ بالآخر تین دن کے بعد انھیں تلاش کرلیا گیا۔لیکن معلوم ہے بھوک اور پیاس سے ان کا حال کیا ہوچکاتھا ؟ خوردو نوش کی تمام اشیا ختم ہوچکی تھیںاور وہ پینے کے لیے اپنا پیشاب تک برتن میں محفوظ کرنے پر مجبورتھے۔
اس وقت مدینہ منورہ کے دروازے شام کے وقت بند کردیے جاتے تھے۔ شام سے پہلے شہر میں داخل ہوگئے تو ٹھیک ،ورنہ مدینہ میں داخلے کے لیے صبح تک انتظا ر کرنا پڑتا۔ ہم غروب آفتاب سے پہلے مدینہ پہنچ گئے اور حکومت نے جہاں پر ہماری رہایش کا انتظام کیا تھاسیدھا وہاں چلے گئے۔ یہ قصہ اخوان المسلمون کے نوجوانوں کی سیرت کی ایک مثال ہے۔ اُن نوجوانوں کی مثال ہے جنھوں نے امام حسن البنا سے تربیت حاصل کی۔ جو نیکی ، بھلائی ، تعاون ، قربانی اور ایثار کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے۔ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے اور اللہ ان کا حامی و ناصر تھا،سبحان اللہ۔
ہم حج سے واپس مصر آئے تو میری سب سے اولین خواہش اس شخصیت سے ملاقات تھی جنھوں نے ان نوجوانوں کو تربیت دی تھی۔ یہ نوجوان جو میری ڈیوٹی پر خود برتن صاف کرتے، جو میرا سامان اٹھاتے ، جو با جماعت نماز ادا کرتے، جو قرآن پاک کی تلاوت کرتے ، جو ذکر اللہ میں مشغول رہتے ، جو تہجد پڑھتے ، صبر اور شکر کے راستے پر چلتے ،ان نوجوانوں کا شیوہ نیکی ، بھلائی ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا۔ انھی نوجوانوں کے شیخ سے ملنامیری سب سے بڑی خواہش تھی۔میں اس وقت قاہرہ میں تُصن روڈ پر مقیم تھا۔ اسی روڈ پر ایک طالب علم رہتاتھا ، جمال عامر۔ وہ فیکلٹی آف فارمیسی کا طالب علم تھا اور امام حسن البنا کے نمایندے کی حیثیت سے ہمارے شہر کا دورہ بھی کرچکاتھا۔ ایک دفعہ اسی روڈ پر میری اس سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کس جگہ مقیم ہو ؟ میں نے بتایا کہ اسی شارع پر رہتا ہوں۔ اس نے کہا میرا گھر بھی یہیں پر ہے اور بتایا کہ آج منگل کا روز ہے۔ آج الشیخ حسن البنا کا ہفتہ وار درس ہے۔ میں نے اس پر بارک اللہ فیک کہااور ہم درس سننے چلے گئے۔ اس وقت اخوان المسلمون کا مرکز ( دارالاخوان) عقبہ میںتھا۔ عقبہ ، قاہرہ کا سرسبز علاقہ ہے۔ مختلف علاقوں ،عباسیہ مصر الجدید،الشافعی،سیدہ زینب اور شُبرہ سے آنے والی ٹرامیں یہیں آکر ملتی ہیں۔ اخوان اسی گھر میں آکر آپس میں ملتے تھے۔یہ قدرے کشادہ مکان تھا۔ اس میں پانچ کمرے تھے اور ایک وسیع و عریض صحن تھا، جہاں پر کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور امام حسن البنا درس قرآن کریم دے رہے تھے۔ یہ مرکزازہر روڈ کے ساتھ ملی ہوئی سڑک پر واقع تھا۔
درس ختم ہوا تو ایسے محسوس ہوا کہ مجھ میں نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ پھر ہم ان سے ملنے کے لیے آگے بڑھے۔ انھوں نے دو ماہ کے بعد بھی مجھے پہچان لیا۔ بڑی گرم جوشی سے گلے لگایا اور کہا خوش آمدید۔ امام کو محمد البنا نے ہمارے بارے میں بتادیا تھا کہ یہ کچھ نوجوان ہیں جو جذبہ رکھتے ہیں اور انھوں نے فلسطین کے لیے فنڈ اکٹھا کیاہے۔ اس طرح میرے بارے میں ان کو کچھ اندازہ تھا۔ دفتر سے نکلنے سے پہلے ہی میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرچکاتھا کہ :’’میرا ایمان اللہ پر ہے ، میرا عمل میرے دین کے لیے ہے ، مجھے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔ ایمان ، عمل اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں‘‘۔
پھر میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن آیا۔ مصر میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے جوش و خروش سے منایا جاتاہے۔ مصر کی ہر وزارت میں بڑے بڑے شامیانے لگائے جاتے جن میں محفل اذکار کا اہتمام ہوتا۔ سب لوگوں کے دل متوجہ ہوتے ہیں ، ایسے میں انھیں سیرت کا حقیقی پیغام پہنچانے اور سمجھانے میں بہت مدد ملتی ہے۔اس لیے اخوان المسلمون بھی ان تقریبات میں پوری گرم جوشی سے حصہ لیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس سال ہم نے ان تقریبات میں انگریزوں اور یہودیوں سے بائی کا ٹ کے حوالے سے لٹریچر تقسیم کیا۔ برطانوی انگریز وں ہی نے یہودیوں کو سرزمین فلسطین دینے کا وعدہ کیااور اس طرح عالم اسلام کے سینے میں خنجر گھونپاتھا۔ انگریزوں ہی نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے فلسطین میں اس شجر خبیثہ کا بیج بویاتھا۔ انگریزوں ہی نے مال و دولت ، اسلحہ اور ہر طریقے سے یہودیوں کی مدد کی تھی۔
فلسطین زندہ باد، یہودی مردہ باد ، انگریز مردہ باد
اچانک پولیس کی گاڑیاں اخوان المسلمون کو گرفتار کرنے آگئیں۔ لوگ یہ منظر دیکھ کربڑے حیران ہوئے کہ اخوان المسلمون کے نوجوان بلاخوف ،خود پولیس کی گاڑیوں پر چڑھ گئے۔ انھوں نے انگریزوں اور یہودیوں کے خلاف نعرہ بازی کی۔ یہ بڑی دل چسپ بات تھی کہ پولیس آپ کو گرفتار کرنے آتی ہے اور آپ خود کو د کر گاڑی پر چڑھ جاتے ہیں۔
حکومت کو احساس ہواکہ یہ تو ایک ہمہ گیر اور منظم جماعت بن گئی ہے۔اس نے جماعت کو ختم کرنے کے لیے کارروائی شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اخوان المسلمون کو ثابت قدم رکھا اور یہ قافلہ رواں دواں رہا۔ اخوان، فلسطین کی مدد کے لیے لکھتے، فلسطین کے لیے تقریریں کرتے ، ان کے لیے دعائیں کرتے ، ان کے لیے فنڈ جمع کرتے۔ تب مسئلہ فلسطین عروج پر تھا۔
ہم نے مصر میں موجود یہودی تاجروں اور کمپنیوں کے بائی کاٹ کا فیصلہ کیا ،ہمارے ساتھی یہودیوں کی دکانوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور خریداروں کو یہودیوں کی دکانوں سے خریداری کرنے سے روکتے۔ ان کو کہتے :’’ تم اپنی دولت یہودیوں کو دے رہے ہو ،اس سے وہ تمھیں قتل کریں گے۔ تمھارے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں گے اور تم سے مسجد اقصیٰ کو چھینیں گے۔ ‘‘یہودیوں کی دکانیں بڑی بڑی تھیں۔ یہ دکانیں نہیں بلکہ بازار تھے۔ ان میں گھریلو استعمال کی ہرچیز فروخت ہوتی تھی اورمصر کے تمام بڑے شہروں سکندریہ ، قاہرہ ، المنصورہ، ہرجگہ ان کی شاخیں تھیں۔ جب ہم دکانوں کے دروازوں پر کھڑے ہوجاتے اور خریداروں سے کہتے :’’خریداری کرکے تم یہودیوں کی مدد کررہے ہو ، یہودی جو کچھ کررہے ہیں ، کیا تمھیں اس کی خبر نہیں ‘‘۔لوگ ہماری بات سنتے اور مانتے تھے لیکن حکومت کی طرف سے ہمارا پیچھا اور نگرانی کی جاتی اور ہمیں گرفتار کرلیا جاتا۔
امام البنا نے کہا کہ فلسطین میں صف ماتم بچھی ہے ایسے میں جشن فتح کیسا۔سودمشق جانے کا پروگرام منسوخ کردیاگیا اور مجھے امام نے کہا کہ تم ہماری طرف سے فلسطین جائو ، وہاں کی صورت حال کا جائزہ لو اور ہمارے بھائیوں کو ہماری طرف سے حوصلہ و تسلی دینے کی سعی کرو۔ میں اسی روز شام پانچ بجے کی ٹرین سے قاہرہ سے غزہ کے لیے روانہ ہوگیا اور غزہ سے ہوتے ہوئے اگلے روز صبح ۱۰ بجے فلسطین کے اہم شہر ’’یافا‘‘پہنچ گیا۔ ۳۰:۱۲بجے خطبہ جمعہ شروع ہوناتھا۔ ساتھی مجھے یافا کی مرکزی جامع مسجد لے گئے اور خطبہ جمعہ کے لیے منبر پربٹھادیا۔ میں نے فلسطینی عوام پر طاری مایوسی کو امید و حوصلے میں بدلنے کی سعی کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ آزمایش کڑی ہے لیکن یقین رکھو کہ تم تنہا نہیں نہ ہی قبلہ اول صرف تمھارا ہے ، امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قبلہ اول اور اس کا دفاع کرنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ فلسطینیوں کو متحد و منظم کرنے کی کوششوں میں مزید اضافہ کردیاگیا۔ بد قسمتی سے اس وقت وہاں ان کی کوئی قیادت موجود نہیں تھی۔ مفتی اعظم امین الحسینی کو بھی ملک چھوڑنے پر مجبور کردیاگیا تھا۔ فلسطین پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں نے مسجد اقصیٰ میں خطبہ جمعہ دیا اور پھر میں نے قریہ قریہ بستی بستی پروگرام کرنا شروع کردیے۔ میں نے ہر جگہ دیکھا کہ بیرون ملک سے لا کر بسائے گئے یہودیوں اور نسل درنسل وہاں مقیم فلسطینیوں کی آبادیوں میں بے حدتفاوت تھا۔ یہودیوں کو برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کی طرف سے بے بہا سرمایہ ، آلات اور اسلحہ فراہم کیاجا رہاتھا۔ وہ دھڑا دھڑ زمینیں خرید کر آباد ہو رہے تھے‘ جب کہ فلسطینیوں پر غربت اور بھوک مسلط تھی۔
اسی لیے میں نے ضروری سمجھا کہ میں فلسطین میں رہوں اور فلسطینیوں میں مایوسی اور احساس شکست کے بجاے امید اور مزاحمت کا حوصلہ پیدا کروں۔ میں نے وہاں سے امام البنا کو تفصیلی رپورٹ ارسال کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے تمام تر انتظامات عملاً پورے کیے جاچکے ہیں اب صرف اعلان ہوناباقی ہے۔ اس عالم میں فلسطینیوں اور عالم اسلام کی ذمہ داری میں بہت اضافہ ہوچکاہے میں نے کچھ عملی تجاویز بھی ارسال کیں۔ اسی دوران مفتیِ اعظم مصر کے سرکاری دورے پر آئے وہ مرشد عام امام البنا سے بھی آکر ملے۔ امام البنا نے انھیں میرا تجزیہ اور تجاویز دکھائیں تو انھوںنے ان سے کامل اتفاق کیا۔
۱۹۴۵ء میں عرب لیگ تشکیل دی گئی تھی اس کے پہلے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام بھی وہاں تھے اور تقریباً تمام ممالک کے سفرا بھی تھے۔ جشن کے دوران ایک بڑے ہال میں تقاریر کا اہتمام کیاگیا تھا۔ مجھے دعوت خطاب ملی تو میں نے حمد و صلوۃ کے بعد کہا کہ میں آج فلسطین کے مفتی امین الحسینی کو سلام عقیدت پیش کرتاہوں کہ وہ فلسطین کے لیے ........اتنا ہی کہاتھاکہ پورا ہال زبردست نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ دیر تک تالیاں بجتی رہیں حالانکہ ہر کوئی جانتاتھا کہ آج بننے والے ملک عبداللہ اور مفتیِ فلسطین کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مفتیِ اعظم کی وفاداری اللہ اور اس کے رسول ؐ سے تھی‘ جب کہ شاہ اردن کی تمام وفاداری اپنے عرش و اقتدار اور انگریزوں سے تھی۔ اسے شاہ کا لقب بھی اسی لیے دیا گیاتھا کہ فلسطین کے مغربی کنارے کو اردن سے ملاتے ہوئے شرق اردن اور غرب اردن کو ایک مملکت بنادیاجائے۔ شاہِ وفادار کو اس کا اقتدار اور باقی ماندہ فلسطین کو اسرائیل مان کر مسئلہ فلسطین سے نجات حاصل کرلی جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ ساری سازش ناکام بنادی ان کی یہ ناکامی جہاد و مزاحمت کے باعث ہوئی ؟
اہل فلسطین نے مسلسل قربانیاں دے کر بھی علم جہاد کو سرنگوں نہیں ہونے دیا حالانکہ انگریزوں اور ان کے غلاموں نے جہاد سے نجات کی ہر ممکن کوشش کی۔ برصغیر میں جس طرح قادیانیت کا ناپاک پودا کاشت کرکے جہاد ساقط کرنے کی کوشش کی گئی اسی طرح مشرق وسطیٰ میں بہائیت سے یہ کام لینے کی کوشش کی گئی۔ یہودیوں نے بہائیت کی بنیاد رکھی۔ بہاء کی قبر فلسطین کے شہر عکا میں تھی اور عباس بہاء کی قبر حیفا میں دونوں کو بڑی شان و شوکت سے نوازا گیا۔ کیونکہ بہائیت میںجہاد کو حرام قرا دیا گیاہے۔مصر میں بھی اس کا بڑا مرکز بنایا گیا۔ شاہ فاروق کو بھی انھی صہیونی سازشوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیاگیا۔ افسوس صد افسوس شاہ فاروق کا محل یہودیوں کا مدد گار و معاون تھا ،ملکہ کی خصوصی خادمہ یہودیہ تھی اور خود شاہ فاروق کے گرد یہودیوں اور عیسائیوں کا جھمگٹاتھا۔
’’تتجا فی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا وطمعاً۔ ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں‘‘۔ اپنے مسائل اور مشکلات ایک دوسرے سے بانٹتے اگر کسی کوکوئی مشکل ہوتی ،کسی کے بچے کی پڑھائی کا مسئلہ ہوتا یا گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو ہر ایک دوسرے سے حسب استطاعت تعاون کرتے، اس کو مشورہ دیتے۔
ان دنوں جماعت کے سیکرٹری جنرل احمد حسن الباقوری تھے۔ احمد حسن جامعہ ازہر کی یونین کے صدر بھی رہے تھے۔ انھوں نے ہی اخوان کے اسکائوٹس کا ترانہ لکھا جواخوان میں بہت مقبول ہوا:
یارسول اللہ ھل یرضیک أنا
ننفض الیوم غبارالنوم عنا
اخوۃ فی اللہ للإ سلام قمنا
لانھاب الموت لا بل نتمنی
أن یرانا اللہ فی ساح الفداء
إن نفسا ترتضی الاسلام دیناً
اوتری الإسلام فی أرض مھینا
ثم ترضی بعدہ أن تستکینا
ثم تھوی العیش نفس لن تکونا
فی عداد المسلمین العظماء
حبذا الموت یریح البائسین
فلنمت نحن فداء المسلمین
ویرد المجد للمستعبدین
سادۃ الدنیا برغم الکاشحین
ولیسد فی الأرض قانون السماء
ان للدنیا بنا أن تطھرا
قد قطعنا العھد ألانقبرا
نحن أسداللہ لا أسد الشری
أونری القرآن دستور الوری
کل شیء ماسوی الدین ھباء
أیقظت جمعیۃ الإخوان فینا
أسعدوا العالم بالإسلام حینا
روح آباء کرام فاتحینا
فاستجبنا للمعالی ثائرینا
وتسابقنا إلی حمل اللواء
غیرنا یرتاح للعیش الذلیل
إن حیینا فعلی مجد أثیل
وسوانا یرھب الموت النبیل
أوفنینافإلی ظل ظلیل
حسبنا أنا سنقضی شھداء
میں ان کے ساتھ صعید کے دورے پر بھی گیا ہوں۔ یہ ایک یاد گار سفر تھا۔ اسی سفر میں ان سے میری قربت ہوئی۔ اس یاد گار سفر کے کچھ واقعات ملاحظہ ہوں:
یہ ۱۹۳۹ء کی بات ہے کہ امام حسن البنا نے مجھ سے فرمایا:’’ تیار ہوجائیے ، آپ ہمارے ساتھ اس سال صعیدمصر جائیں گے‘‘۔ صعید میں شدید گرمی ہوتی تھی۔ لوگ گرمی سے بھاگ کر اسکندریہ اور رأس البر جاتے، جب کہ امام حسن البنا اس کے برعکس گرمی میں داخل ہوتے۔ میں نے امام حسن البنا سے پوچھا سفر کے لیے کیا درکار ہو گا۔ انھوں نے جواب دیا صرف۲جنیہ( مصری پائونڈ)۔ تب قاہرہ سے اسوان کا کرایہ دو جنیہ تھا۔ ایک جنیہ جانے کا اور ایک جنیہ واپسی کا۔ اخوان المسلمون کے بعض اور ساتھی بھی اس سفر میں شریک ہونا چاہتے تھے ، جن میں ڈاکٹر محمدالھرولی، استادطاہر ، الشیخ محمود عوض اور دیگر ساتھی شامل تھے۔ ریل کا ٹکٹ تیسرے درجے کا تھا۔ تیسرے درجے کا سفر نہایت کٹھن اور ماحول بہت خراب ہوتاتھا۔ مسافروں کا سامان ، خیمے ، بیگ اور طرح طرح کی چیزیں بکھری ہوئی ہوتیں۔ سیٹوں کے درمیان چلنا ممکن نہ تھا۔ مسافروں کا ہجو م ہوتا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود امام حسن البنا تیسرے درجے ہی میں سفر کیا کرتے تھے۔
ہم نے دوجنیہ دے دیے۔ ڈاکٹر محمد الھرولی نے کہا کہ اگر ہم اسی کرایے میں دوسرے درجے میں سوار ہوجائیں تو کیا خیال ہے۔ امام حسن البنا نے پوچھا وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا کہ ریلوے میں ایسی ٹکٹیں ہیں جو کلومیٹر کے حساب سے ہوتی ہیں۔ جنھیں کلومیٹر ٹکٹیں کہا جاتا ہے۔ دوتصویریں اور ٹکٹیں لیں۔ ریلوے آفس چلے جائیں۔ وہ کچھ پیسے لے کر ان ٹکٹوں پر دوسرے درجے کی مہر لگا دیں گے۔ امام حسن البنا نے اس کام کے لیے میری ذمہ داری لگائی۔ میں ٹکٹیں لے کر ایک دفتر سے دوسرے دفتر کا چکر لگاتارہا۔ کبھی جواب ملتا کہ متعلقہ آدمی موجود نہیں ہے تو کہیں جواب ملتا کہ کل آجانا۔بالآخر میں ناکام واپس لوٹا۔ امام حسن البنا ،نے پوچھا :کیا بنا؟۔ میں نے جواب دیا بہت سے دفتروں کے چکر لگائے لیکن کچھ نہ بنا۔ وہاں پر موجود مرکز کے سیکرٹری جناب عبدالحکیم نے کہا کہ ریلوے میں میرا ایک دوست ہے میں اس کو لکھ دیتا ہوں وہ اس سلسلے میں آپ کی مدد کرے گا۔اگلے روز میں یہ رقعہ لے کر اس شخص کے پاس پہنچا۔ وہ ایک نہایت ہی شریف اور بااخلاق انسان تھا۔ وہ ریلوے دفتر میں میرے ساتھ گیا۔وہاں پہنچے تو وہی سلسلہ جس سے مجھے کل واسطہ پڑ ا تھا۔ متعلقہ آدمی نہیں ہے، ملازم نہیں ہے ، کل آجانا، جیسے جوابات ملے۔ دفتروں میں چکر لگاتے پورا دن گزر گیا لیکن کچھ نہ بنا۔ البتہ اس شخص نے تعاون کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔ واللہ میں نے اس سے زیادہ شریف ، بااخلاق اور با ہمت شخص نہیں دیکھاتھا۔واپس حسن البنا کے پاس لوٹا ، تمام قصہ سنایا۔ انھوں نے کہا کہ اپنے آپ کو تکلیف میں مت ڈالو۔ اللہ کی مرضی یہی ہے کہ ہم سبنسہ( ٹرین کے آخر میں لگا مال بردار ڈبہ) میں سفر کریں۔
نہ درجہ اول ، نہ دوم اور نہ درجہ سوم ہم ریل کے سب سے آخری ڈبے میں سوار ہوں گے۔ ریل گاڑی کا آخری ڈبہ صرف سامان کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اس ڈبے میں کرسی ہوتی ہے نہ کوئی بیٹھنے کی جگہ۔امام البنا نے کہا :’’لگتا ہے اللہ کی مرضی یہی ہے کہ ہم اسی ڈبے میں سوار ہوں گے‘‘۔
جب ہم اگلے دن صبح ریلو ے اسٹیشن پہنچے تو گاڑی پر مسافروں کا بہت ہجوم تھا۔ اول ، دوم اور سوم سب ڈبے بھرے ہوئے تھے۔ لوگ کھڑکیوں سے لٹکے ہوئے تھے، حتیٰ کہ گاڑی کے پایدان پر بھی پائوں رکھنے کی جگہ نہ تھی ، اس دوران میںہمیں آخری ڈبے والے نے دیکھا، اس کو ہم پر ترس آیا۔ اس نے کہا:’’ محترم ادھر آجائیے ، اگلے اسٹیشن تک اس ڈبے میں سوار ہوجائیے ‘‘۔ یہ ریل گاڑی صرف بڑے اسٹیشنوں پر رکتی تھی۔ قاہرہ سے چلتی تو صرف جیزہ ، بنی سویس اور اسیوط جیسے تقریباً چھے اسٹیشنوں پر رکتی۔ اس ریل گاڑی کو ایکسپریس کہا جاتاتھا۔ ہم آخری ڈبے میں سوار ہوگئے۔ بیٹھنے کی جگہ نہ تھی۔ ہمیں کھڑے ہوکر سفر کرنا پڑا۔ ہم نے کوشش کی کہ کسی جگہ پر بیگ رکھ کر اسی کے اوپر امام حسن البنا کو بٹھایا جائے، لیکن اتنی جگہ بھی میسر نہ تھی۔ جب گاڑی منیہ کے اسٹیشن پر رکی تو بعض مسافر اترے۔ امام حسن البنا نے ایک روز پہلے کہاتھا کہ واللہ ہم آخری ڈبے ہی میں سفر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم پوری کردی۔ اس وقت سے مجھے اس شخص سے ایک طرح کا خوف محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتا تو اللہ اس کی قسم کو پورا کردیتا۔ میں نے دیکھا وہ کبھی ایسی ویسی بات نہ کیا کرتے تھے۔ ہم چھوٹے چھوٹے لوگ تیسرے درجے میں سفر کرنا ناپسند کرتے ہیں، لیکن حسن البنا جس نے پوری نسل کی تعمیر کی، جس نے نوجوانوں کی زندگیوں کو بدلا ، جو مصر کا ایک ایک شہر اور ایک ایک قصبہ پھرا ، شمال و جنوب میں کوئی ایسا شہر یا گائوں نہیں جس میں یہ خبر نہ ہو کہ یہ آدمی تیسرے درجے میں سفر کرتا ہے۔ حالانکہ تیسرے درجے میںاور خود اس قیامت کی گرمی میںسفرناقابل برداشت تھا۔
اسی دوران میں انگریزی افواج کے خفیہ ادارے کے سربراہ کلومیل کلیتون نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ معروف جنگی مجرم تھا لیکن اس نے مصر میںایک مسلمان لڑکی سے شادی کرلی۔ وہ مصریوں کے دل جیتنا چاہتاتھا۔ جب جلو س نکلے کہ اے رومیل آگے بڑھو تو اس نے امام حسن البنا سے ملاقات کرنا چاہی۔ کلومیل کلیتون امام حسن البنا کے پاس آیا۔ اس نے اس سوال سے اپنی بات شروع کی :’’اخوان المسلمون انگریزوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں ؟‘‘سوال بڑا عجیب تھا۔ امام حسن البنا کی دو صفتیں نمایاں تھیں: سچائی اور اپنی دعوت کے لیے ہر لمحہ مستعد اور بیدار رہنا۔ امام سچائی اور تجرد کی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ دوسری تجرد یعنی نہ دنیا ، نہ اقتدار ، نہ حکومت اور نہ کوئی اور چیزبس صرف اللہ کی رضا۔
امام حسن البنا نے کلومیل کلیتون سے کہا: اخوان المسلمون اس لیے انگریز حکمرانوں سے نفرت کرتے ہیں کہ انگریز ہماری زمین اور ہمارے ملک، ہماری دولت پر قابض ہیں۔ آپ کا سوال عجیب ہے کہ ہم انگریزوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔ تم انگریز لوگ مصریوں سے ایک ٹن کپاس تین جنیہ میں خریدتے ہو۔ اگر یہی کپاس تم خود کاشت کرو تو ایک ٹن پر ۱۰ جنیہ خرچہ آئے۔ کیا یہ تمھارے لیے جائز ہے ، کوئی بھی قوم اس ظلم کو برداشت نہیں کرے گی۔ تم جانتے ہو کہ جاپان نے ایک ٹن کپاس ۱۷جنیہ میں خریدنے کی پیش کش کی ہے ، لیکن تمھاری حکومت آڑے آتی ہے۔ ہم آپ سے کیسے نفرت نہ کریں‘‘۔کلومیل کلیتون نے بحث کرنا چاہی کہ:’’اخوان المسلمون ایسے ہیںویسے ہیں ‘‘۔
امام نے جواب دیا:’’خدا لگتی بات یہ ہے کہ اخوان المسلمون سچے ہیں ، وہ جھوٹ نہیں بولتے ،اگر تم ہم سے انصاف کرو تو ہم تم سے محبت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جس قیمت میں دوسرے ہم سے کپاس خریدتے ہیں تم بھی اسی قیمت پر ہم سے کپاس خریدو۔ تم قابض ہو ، غاصب ہو ‘‘۔ اس کے بعد انگریزخفیہ ادارے کے سربراہ نے مصر میں اپنے سفیر اور دوسرے ذمہ داران سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد کپاس کی قیمت تین جنیہ سے بڑھا کر آٹھ جنیہ کردی گئی۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ شیخ حسن البنا سے ملاقات کے بعد کپاس کی قیمت میں اضافہ کردیاگیا۔
انگریزمہمان نے امام حسن البنا سے پوچھا اخوان المسلمون کے پاس اتنا بڑا مرکز ہے۔ اتنی رقم کہاں سے آئی ؟ تو امام حسن البنا نے نے ازراہ تفنن جواب دیا رومیل (جرمن کمانڈ)نے پیسے دیے ہیں۔ پھرآپ نے فرمایا :’’اخوان المسلمون کے ساتھی ایک ایک پیسہ جمع کرتے ہیں۔ ہماری جماعت کے پاس جو کچھ ہے وہ اخوان المسلمون کے ساتھیوں کے تعاون سے ہے۔ اخوان المسلمون کے ساتھی اپنے اخراجات سے بچا کر پیسے جمع کرتے ہیں‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا:’’ میرے جسم پر جو لباس آپ دیکھ رہے ہیں اس کی قیمت تقریباً۶۰قرش (پیسہ )ہے، جب کہ تمھارے لباس کی قیمت ۶۰ جنیہ(پائونڈ) ہے ‘‘۔
کلومیل نے کہاکہ بادشاہ سلامت نے اخوان کی مدد کے لیے ۱۰ ہزار مصری پائونڈ کی مدد ارسال کی ہے۔ یہ ایک بڑی رقم تھی لیکن امام حسن البنا نے اس برطانوی ذمہ دار سے کہا :’’بڑے احترام سے عرض کروں گا کہ آپ پہلے شخص ہیں جس کے منہ سے سن رہا ہوں کہ شاہِ انگلستان نے اخوان المسلمون کے بیت المال کے لیے دس ہزار جنیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت شکریہ لیکن ہم آپ کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے یہ رقم لینے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ رقم ہم بادشاہ سلامت کے لیے بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ مال حرام ہے۔ امام حسن البنا نے ۱۰ہزار جنیہ کی پیش کش مسترد کر دی اور کہا کہ اگر آج ہم آپ سے رقم لیں گے تو کل دوسروں سے بھی لے سکتے ہیں۔ پھر ہم آپ کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔
یہ برطانوی فوج کے خفیہ ادارے کے سربراہ کلو میل کلیتون کا قصہ ہے جو امام حسن البنا سے کہنے آیاتھا کہ آپ برطانیہ سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔؟
امام حسن البنا نے اپنی ذات یا کسی مفاد کے لیے پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیاتھا بلکہ اس لیے حصہ لیا کہ پارلیمنٹ میں اسلام کی مضبوط آواز بلند ہو۔ پارلیمنٹ میں اسلام کا نمایندہ ہو۔ یہی امام حسن البنا کا موقف تھا وہ تشدد کو ناپسند کرتے تھے۔ بہرحال امام اور اخوان المسلمون کو اندازہ تھا کہ اس انتخابات کا نتیجہ ہمارے خلاف ہی آئے گا۔
انھوں نے ہمیں سوشلسٹوں کے ساتھ رکھا ان دنوں سوشلسٹ عناصر متحد تھے اوران کے سربراہ کا نام ہنری کریز تھا جو مصر کے مال داروں میں شمار ہوتاتھا۔ایک روز امریکیوں نے اخوان المسلمون کے ساتھیوں کومزہ چکھانے کی ٹھانی۔اخوان کے ایک ساتھی نے فوجی افسرسے ذرا کھردرے الفاظ میں بات کی ،مقصود فوجی کی شان میںکوئی گستاخی نہیں تھی، بلکہ اپنے حق کی بات تھی۔ اس پر وہ بپھر گئے ، ایسا لگ رہاتھا کہ فوجی معرکہ درپیش ہے۔ بڑی تعداد میں فوجی آگئے۔ مجھے اس چھائونی سے سوشلسٹوں کے ساتھ حوالات میں منتقل کردیا گیاتھا۔ جیل میں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ انسان کو کسی غیر قوم کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن پاک میں سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کو کہاتھا کہ لأعذبنہ عذاباً شدیداً أولأذبحنہ’’میں اسے سخت سزا دوں گا یااسے ذبح کردوں گا ‘‘۔علما اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہد ہد کو سلیمان علیہ السلام نے جو سزا دینے کا فیصلہ کیاتھا وہ یہ تھا کہ اسے غیر جنس کے پر ندوں کے ساتھ رکھا جائے گا۔ ہمیں سوشلسٹوں کے ساتھ رکھا گیا۔ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے مختلف چیز تھے۔ مزاج کے اعتبار سے پست فطرت انسان۔ سگریٹ ٹکڑے تک کے لیے ایک دوسرے سے خیانت کرتے تھے۔ اپنے بھائی کی چوری کرلیتے، ایک دوسرے کا کھانااچک کر کھاجاتے۔ آپس میں جھگڑتے۔ مختصراً یہ کہ وہ مادی جانور تھے۔ ہمیں حوالات سے فوجی چھائونی کے ڈائریکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ اس چھائونی میں شیخ یوسف قرضاوی اور دوسرے ساتھی بھی تھے۔ مجھ اکیلے کو حوالات میں لے جایا گیا۔ فوجیوں نے مجھے لاٹھیوں اور سریوں سے مارا۔ بہت شدید مارا، لیکن اللہ کی قسم، بری طرح مارنے کے بعد جب مجھے واپس لایا گیا تو کوئی درد محسوس نہیں ہو رہاتھا۔ ایسے لگ رہاتھاجیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میری آنکھ کے نیچے لوہے کا راڈ لگنے سے نشان پڑ گیاتھا لیکن الحمد للہ آنکھ کو کچھ نہ ہوا۔ اخوان پریشان تھے کہ وہ کیا کریں۔ جب میں واپس لوٹا تو مجھے حوالات میں دیگر اخوانی ساتھیوں سے الگ رکھا گیا ، مجھ پر پانی بھی بند کردیا گیا۔ اخوان کے ساتھی بہت پریشان تھے اور مجھ تک پانی پہنچانے کی کوششیں کررہے تھے۔ میرے دروازے کے نیچے پتا رکھ کر اس پر پانی ڈالتے تاکہ مجھ تک پہنچ جائے۔ ہماری سب سے بڑی مشکل گرمی تھی۔ شدید گرمی، کمرے کی چھت لوہے کی تھی۔ کمرہ گرم ہوجاتا تھا۔ تازہ ہوا کے داخلے کی کوئی صورت نہ تھی۔ دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں۔ہم تازہ ہوا لینے کے لیے اپنی ناک ٹوٹی ہوئی جالیوں کے سوراخوں پر رکھتے تھے۔ یہ امام حسن البنا کی شہادت کے کچھ ہی زمانہ بعد کی بات ہے۔
ایک اور مثال دیتاہوں۔اخوان کے ایک ساتھی احمد حسن نے بہادری دکھانا چاہی، اس کے ساتھی جو اخانہ میں گئے اور توڑ پھوڑ کی۔اسی طرز پر اخوان کے بعض دیگرساتھیوں نے بھی کارروائی کرنا چاہی، مگرامام حسن ا لبنا نے انھیں ایسا کرنے سے سختی سے منع کردیا:’’ یہ ہمارا نہیں، حکومت کا کام ہے۔ ہمارا کام دعوت ہے۔ ہم دعوت کا کام کریں گے ، ہم پارلیمنٹ کے ذریعے جوا اورشراب رکوائیں گے ‘‘۔امام حسن البنا لوگوں کی رہنمائی حکمت اور دانش سے کرتے تھے۔ وہ اتحاد کے داعی تھے۔ وہ تفرقہ پیدا کرنا نہیں چاہتے تھے ، وہ انتشار پھیلانے کو نا پسند کرتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ ہم پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی لائیں گے۔ قانون کے ذریعے تبدیلی لائیں گے ، ہم لڑائی نہیں کریں گے ، فساد نہیں کریں گے ،لیکن امن پسندی اور روشن خیالی کے راگ الاپنے والوں کو دیکھیں اسی امن کے علَم بردار کو قتل کردیا۔