مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

میں ہم سفر رہا

شیخ عبدالمعزعبدالستار | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image
  •  سوال: اخوان اور امام البنا سے آپ کا تعارف کب اور کیسے ہوا ؟
  •  جواب :دور طالب علمی ہی سے مسئلہ فلسطین کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق تھا۔ انھی دنوں خبر ملی کہ عزالدین القسام کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس وقت تک ہم اخوان المسلمون کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ طلبہ نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کے لیے فنڈجمع کرکے جناب محب الدین الخطیب کے ذریعے عز الدین القسام تک پہنچادیا جائے۔

اسی دوران ،امام حسن البناکی جانب سے محمد البنا اور محمود الحافظ ہمارے پاس آئے۔ امام  کا طریقہ کار تھا کہ جب بھی گرمیوں کا موسم آتا تو آپ اپنے ساتھیوں کومختلف علاقوںمیں داعی بناکر بھیجتے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ ہمارے نصیب میں حسن البنا کے بھائی محمد البنا اور ان کے ساتھ محمود الحافظ آئے۔ ان کے پاس اخوان المسلمون کا دعوتی لٹریچر بھی تھا۔

اخوان المسلمون کے لٹریچر میں اخوان کا یہ عقیدہ واضح کیاگیا تھا کہ:’’ ہمارے تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہیں۔ جزا و سزا کا دن برحق ہے۔ قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ،جس میں دین اوردنیا کی بھلائی ہے۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو قرآن کریم کی جماعت میں شامل کروں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کروں گا‘‘۔

میں اس وقت ثانویہ کے چوتھے سا ل میں تھا۔ محمد البنا بھی میرے ساتھ چوتھے سال میں تھے، لیکن اگلے سال جب ہم ثانویہ سے فارغ ہوئے تو وہ شعبہ ادب میں چلے گئے اور میں نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لے لیا۔

میں بات کررہاتھا کہ ہم نے فلسطین کے لیے فنڈ اکٹھا کیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ یہ فنڈ  محب الدین الخطیب کو بھیجا جائے۔ محب الدین الخطیب الفتح جریدہ نکالا کرتے تھے۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کے متعلق لکھا اور لوگوں کو اس مسئلے کے حقیقی پس منظر سے روشناس کرایا۔ اس وقت مسئلہ فلسطین کے متعلق زیادہ تر دو ہی: شخص محب الدین الخطیب اور رشید رضا لکھا کرتے تھے۔ محب الدین الخطیب الفتحمیں اور رشید رضا المنارمیں لکھا کرتے تھے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ خود عالم عرب میں بھی لوگ مسئلہ فلسطین سے بے خبر تھے۔

محمد البنا اور محمو د الحافظ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ:’’فلسطین کے مسئلے سے ہماراتعلق ہے۔ ہمارے اور مجاہدین کے درمیان روابط ہیں۔ ہم انھیں اسلحہ اور مالی امداد پہنچاتے ہیں۔ آپ بھی فنڈ اکٹھا کرکے دیں ہم آگے پہنچا دیں گے‘‘۔ ان کے کہنے پر جمع شدہ فنڈ لے جا کر میں نے محب الدین الخطیب کے سپرد کردیا۔ ان حضرات کا شمار اخوان المسلمون کے بنیادی ، اہم ترین ارکان اور اوّلین داعیوں میں سے ہوتاتھا۔ انھوں نے مجھے اخوان المسلمون کی بعض کتابیں اور رسالے بھی دیے۔ پھر میں اپنے شہر واپس آگیا۔

  •  آپ اس وقت کہاں رہتے تھے؟
  •  ہم فاقوس میں تھے ،فاقوس مشرقی ضلع اسماعیلہ سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ برطانوی افواج کی چھائونیاں فاقوس کے قریب تھیں۔ سمگلر، برطانوی فوجی چھائونیوں سے اسلحہ اسمگل کرکے ہمیں فروخت کرتے تھے ، خود ہندستانی فوجی بھی ہمیں اسلحہ بیچ دیتے تھے ، ہم یہ اسلحہ فلسطین پہنچاتے تھے۔
  •  آپ بتا رہے تھے کہ آپ نے اخوان المسلمون کا لٹریچرپڑھا؟
  •  جی ہاں،اخوان کے ساتھیوں سے ملنے والی کتب کے بعد میںنے اخوان المسلمون کے مرکز سے مزید کتب لیں ، اخوان کا مرکز اس وقت ’ شارع سدّ‘ پر سیدہ زینب کے علاقے میں واقع ایک گھر میں تھا۔ ان گھروں کا شمار تاریخی اور آثار قدیمہ میں ہوتا ہے۔ گھر کا صحن بہت کھلا تھا۔ جہاں درخت اور پودے لگے ہوئے تھے۔ یہ گھر سڑک پر نہیں بلکہ گلی کے اندر تھا، اس وقت تک اخوان المسلمون کے ساتھ ہمارا تعلق صرف اتنا ہی تھا۔ پھر ایک سال گزر گیا۔میری خواہش تھی کہ امام البنا سے ملاقات ہو لیکن سال بھر نہ میں امام حسن البنا سے مل سکا اور نہ میرا اخوان المسلمون سے مزیدرابطہ ہوا۔ پھر میں جامعہ الازہرکی کلیہ اصول الدین میں داخل ہوگیا۔

حج کے موقع پر جامعہ ازہر نے حج کے لیے ازہری طلبہ کا ایک وفد بھیجنے کا اعلان کیا۔ حکومت نے اس وفد سے تعاون کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بحری جہاز کی کمپنی وفد سے آدھا کرایہ وصول کرے گی۔ مصری حکومت نے وفد میں شریک ہر فرد کو ۱۰مصری پائونڈ دینے کا اعلان کیا۔ دوسری جانب سعودی حکومت نے ٹیکس وغیرہ نہ لینے کااعلان کیا۔

ہمارے لیے یہ فریضہ حج اداکرنے کا سنہری موقع تھا۔ میں بھی حج وفد میں شامل ہوگیا۔ ہمارے دوست شیخ خلف السید نے حج پر جانے والوں کو اپنے گھر پر چائے کی دعوت دی۔وہ اس وقت ہمارے ساتھ طالب علم تھے۔ بعد میں وہ مجمع البحوث الاسلامیہ کے ڈائرکٹر بنے۔ چائے کی نشست کے دوران میں انھوں نے بتایا کہ الشیخ حسن البنا نے جامعہ ازہر کے حج وفد کے لیے دعوت کا اہتمام کیاتھا۔ آپ کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے کہا اللہ تیرا بھلا کرے میری تو ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی۔ تم نے موقع ضائع کردیا ، چائے کا کپ توبعد میں کبھی پی لیتے لیکن ان سے ملاقات ---؟ انھوں نے کہا کہ فکر نہ کریں شیخ حسن البنا حج وفد کو الوداع کہنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر بھی جائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خود طلبہ اور اساتذہ کے وفود کو خدا حافظ کہیں۔

مصر کی کسی جماعت یا تنظیم نے حاجیوں کو دعوت نہیں دی تھی۔ صرف امام حسن البنا نے حج پرروانہ ہونے والوں کی دعوت کا اہتمام کیا، انھیں ریلوے اسٹیشن پر الوداع کہا۔ ہم اسٹیشن پر امام حسن البنا سے ملے۔ میں ان سے مل کر بے پناہ خوش تھا۔ امام حسن البنا،کی شخصیت سنت کے مطابق ڈھلی ہوئی تھی ، ان کی داڑھی سیاہ تھی۔ انھوں نے ملتے ہوئے مجھے گلے لگالیا ، میرے لیے مسنون دعا پڑھی: استودعکم اللّٰہ دینک و امانتک و خاتم عملک و زودک اللّٰ بالتقوی۔ میں آپ کے دین آپ کی امانتوںاور آ پ کے انجام کار کو اللہ کے سپرد کرتاہوں،اللہ تعالیٰ آپ کے تقویٰ میں اضافہ فرمائے۔ پھرانھوں نے مجھے وہی بات کہی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے کہی تھی۔ انھوں نے فرمایا :’’اپنی دعائوں میں اپنے بھائی کو نہ بھولنا‘‘۔ میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔

امام حسن البنا کا ایک تعارف ان کی کتب پڑھ کر ہواتھا ،لیکن میںنے انھیں تصوراتی طور پر پہچانا تھا ، حج پر جانے والے ان کے ساتھیوں کے درمیان رہ کرمجھے خود امام البنا کو عملی طور پر جاننے کا موقع ملا۔ جیسے ہی ہم بندرگاہ پہنچے تو کچھ نوجوان ہماری بس کی طرف لپکے۔ انھوں نے ہمارا سامان اتارنا شروع کردیا۔ ان میں سے بعض نوجوان بس کے اوپر چڑھ گئے تھے اوروہ نیچے والوں کو  سامان پکڑاتے۔ میںنے سمجھا شاید یہ بحری جہاز کے ملازمین ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ   اخوان المسلمون کے اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ نوجوان تھے، جو اپنے بھائیوں کی بے لوث خدمت کے لیے کوشاں تھے۔ ہم بحری جہاز پر سوار ہوگئے۔ جہاز والوں نے ہماری پذیرائی کی۔ ہم ازہری طلبہ کی مالی حالت کمزور تھی ،اس لیے تیسرے درجے میں سوار ہوئے۔ جامعہ کے اساتذہ صاحب استطاعت تھے، وہ دوسرے درجے میں سوار ہوئے۔ ہمارا سامان:ایک تکیہ، ایک کمبل ، ایک  جاے نماز اور ایک بیگ پر مشتمل تھا۔ اخوان المسلمون کے ان نوجوانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو قرآن نہ پڑھتا اور تہجد نہ ادا کرتا ہو۔بحری جہاز میںایک کشادہ صحن تھا۔ یہ تمام نوجوان ہمارے ساتھ صحن میں باجماعت نماز اداکرتے۔ ان میں سے ایک شخص کو اذان دینے کابہت شوق تھا، وہ   ڈاکٹر عبدالمنعم فتحی تھے۔ عبدالمنعم فتحی اس وقت میڈیکل کالج میں سال اول کے طالب علم تھے۔ بعدازاں وہ میڈیکل کالج کے فیکلٹی ڈین بنے۔ اشتراکی روس میں ان کے ہاتھ پر لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا۔

  •  امام حسن البنا نے آپ کو حج کے لیے الوداع کہا ،آ پ کی ان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔۔۔۔؟
  •  جی ہاں یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ حج کے سفر کے دوران میں،میں نے  اخوان المسلمون کے نوجوانوں کے حسن سلوک سے حسن البنا کی شخصیت کو پہچانا۔ ان نوجوانوں میں کس قدر جذبہ تعاون تھااور ان میں کس قدر شرافت تھی ، وہ بھائیوں کی پکار پر مدد کے لیے کس طرح بے چین ہوجاتے تھے۔
  •  ظاہر ہے آپ اس وقت تک اخوان المسلمون میں شامل نہیں ہوئے تھے ؟
  •  نہیں میں اس وقت تک اخوان المسلمون میں شامل نہیں ہواتھا۔ البتہ زبانی طور پر تو میں اخوان المسلمون میں اس وقت شامل ہوگیاتھا جب محمد البنا ہمارے پاس آئے تھے۔ ہمارا ان سے رابطہ تھا اور انھی کے ذریعے اخون المسلمون کے حالات معلوم ہوتے رہتے تھے۔ ہم نے مقامی تنظیم بھی بنائی تھی۔ میرے ایک ساتھی کو اس تنظیم کا خزانچی اور دوسرے ساتھی کو صدر بنایا گیاتھا۔ ہمارے پاس اخوان المسلمون کا لٹریچر اور ترانے تھے ، اس کے علاوہ ہمارے علاقے میں دعوت کا کوئی خاص کام نہیں ہواتھا۔ بعد میںہم الگ الگ کالجوں میں چلے گئے تھے۔

جب ہمارا قافلہ سعودی عرب پہنچا تو سعودیہ کے شاہ عبدالعزیز کی جانب سے ہماری رہایش کا انتظام کیاگیا تھا۔ یہ وفد ۳۵افراد پر مشتمل تھا جس میں ۴اساتذہ اور باقی طلبہ تھے۔ البتہ ازہر یونی ورسٹی کے دوسرے وفود کو شامل کرکے یہ تعداد ایک سو تک پہنچ جاتی تھی۔ شاہ عبدالعزیز کی جانب سے ترکوں کے اسکول کی ایک بڑی عمارت میں ہماری رہایش کا انتظام تھا۔ سعودی عرب کے فوجی جوانوں کی حالت خستہ تھی۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سعودی عرب میں تیل کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تھے۔

  •  یہ کس سال کی بات ہے ؟
  •  یہ ۱۹۳۷ء کی بات ہے۔ بادشاہ نے ہماری مہمان داری کی ، ہمارے لیے ایک سو بکرے ، چینی ، چائے ،قہوہ اور دیگر اشیاے خوردو نوش بھیجی گئیں۔ ہم اکٹھے ایک جگہ رہے۔ اخوان المسلمون کے ساتھیوں نے کھانا پکانے ، بازار سے سامان لانے اور برتن وغیرہ دھونے کے لیے نظام کا ر وضع کیا۔ جس کے تحت مختلف ساتھیوں کے حصے میں مختلف کام آئے۔ کسی کی ذمہ داری کھاناپکانا تھا۔ کسی کی برتن دھونے اور بازار سے سامان لانے کی۔ میںبرتن دھونے والی ٹیم میں تھا۔ میری باری کے دن اخوان المسلمون کا ایک نوجوان میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں تمھاری جگہ پر برتن صاف کردیتا ہوں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا :’’اس کی ضرورت نہیں ہے ، میں برتن دھو سکتا ہوں‘‘۔ اخوان المسلمون کے نوجوان دوسروں کی خدمت میں اپنے آپ کو مصرو ف رکھتے۔ امام حسن البنا کے تربیت یافتہ نوجوانوں اور یونی ورسٹی کے دوسرے طلبہ کے درمیان بہت فرق تھا۔سامان خوردونوش میں ہمارے پاس اس وقت صرف بس بکرے ہی تھے۔ آج کی طرح دیگر ممالک کی کوئی چیز سعودی عرب میں نہیں ملتی تھی۔ دوسرے طالب علم کھانے میں طرح طرح کے عیب نکالتے۔ اخوان کے ساتھی انھیں سمجھاتے کہ :’’ہم یہاں پر صرف کھانے کے لیے نہیں آئے۔ یہ لوگ جو ہمیں کھانے فراہم کررہے ہیں ، ہماری مہمان نوازی کررہے ہیں ، ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ، ان کے لیے دعا کرنی چاہیے‘‘۔ اخوان کے نوجوان کھانے میں کبھی کوئی عیب نہ نکالتے تھے۔ انھیں اگر کھانا پسند ہوتا تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ اگرتاخیر سے پہنچنے کے باعث ان میں سے کسی ساتھی کو کھانا نہ ملتاتو کبھی یہ نہ پوچھتے ان کا کھانا کہاں ہے۔ جب پھل وغیرہ تقسیم کیے جاتے اور کسی ساتھی کو پھل نہ ملتا تووہ کبھی جھگڑ ا نہ کرتے۔ ان نوجوانوں کے صبر ، شکر، ایثارا ور ہمدردی کے بہت ہی حیران کن قصے ہیں ، کہاں تک ان تفصیلات کا تذکرہ جاری رکھوں !
  •  جی۔۔۔۔آپ جاری رکھیے یہ بہت مفید اور دل چسپ باتیں ہیں-
  •  ہم فریضہ حج کی اداکرکے فارغ ہوئے تو مدینہ منورہ جانے کی تیاری کی۔ تمام طالب علم بسوں پر سوار ہوگئے۔ ہمیں کسی بس میں نہ بیٹھنے دیا گیا۔ جس بس کے پاس جاتے وہ کہتے کہ : ’’کوئی جگہ نہیں ،یہ بس صرف شعبہ ادب کی ہے ‘‘۔ دوسری بس والوں نے کہا کہ:’’ یہ کلیۃ العلوم کی     بس ہے‘‘۔ تیسری بس والوں نے کہا کہ:’’ یہ میڈیکل کالج یا انجینیرنگ ڈیپارٹمنٹ کی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرمدینہ منورہ روانگی کی تیاری ہے، لیکن بس پر سوار ہونے کے لیے جھگڑا ہو رہا ہے۔چار وناچار ہم اساتذہ کے پاس گئے اور پوچھا کہ ہماری بس کون سی ہے،  شیخ غرباوی نے احمد امین سے کہا کہ ہم اکٹھے آئے ہیں اور اکٹھے واپس جائیں گے‘‘۔ احمد امین نے جواب دیا :’’آپ کی بس موجود ہے۔ آپ اس میں جا کر سوار ہوجائیں‘‘۔ ہم نے کہاکہ:’’ لیکن وہ بس ہے کہاں ذرا ہمیں بھی دکھادیں‘‘۔ احمد امین نے کہا کہ:’’ تم نے اس طرح بات کرکے میری بے عزتی کی ہے‘‘۔ ہم نے جواب دیا کہ صرف اتنا ہی تو پوچھا ہے کہ ہماری بس کہاں ہے۔ اس میں بے عزتی کی کیا بات ہے۔احمد امین نے کہا کہ ہمارے ہاں اس طرح بات کرنے کو بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ غرباوی صاحب نے ہم سے کہا چھوڑیے، یہ لوگ نہیں جانتے کہ وہ اللہ کے نزدیک کتنی بڑ ی بات کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :ومن یردفیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم۔ ’’اس مسجد (حرام ) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے‘‘۔ شیخ غرباوی ہمیں وہاں سے لے گئے۔ انھوں نے کمپنی سے بات کرکے بس کا انتظام کیا۔ ہم سب سے آخر میں چلے لیکن یہ اللہ کا فضل و کرم تھا کہ سب سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ اخوان المسلمون کے طلبہ نے جھگڑا کرنے والے طلبہ کو سمجھا یاتھا کہ بس پر سوار ہونا ان کا بھی حق ہے، لیکن دوسرے طلبہ نے بات تک نہ سنی۔جن صاحب نے شیخ غرباوی سے کہا تھا کہ تم نے ہماری بے عزتی کی ہے ، ان کی بس راستہ گم کربیٹھی ،اور تین دن تک صحرا میں بھٹکتی رہی۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت مکہ سے مدینہ تک سڑک پختہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ گاڑیاں ریت پر چلتی تھیں۔ گردو غبار سے آگے جانے والی گاڑیاں نظر نہ آتی تھیں۔ بس کا ڈرائیورراستہ گم کربیٹھا اور ایسی وادی میں پہنچ گیا جس کا نام وادی النار یعنی آگ کی وادی تھا۔ واللہ اس کا نام وادی جہنم تھا۔ ان دنوں ہیلی کاپٹر وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے کہ صحرا میں گم شدہ گاڑیوں کو ان کے ذریعے تلاش کرلیا جائے۔ گم شدہ گاڑی کی تلاش کے لیے بدوئوں کو بھیجا گیا۔ بالآخر تین دن کے بعد انھیں تلاش کرلیا گیا۔لیکن معلوم ہے بھوک اور پیاس سے ان کا حال کیا ہوچکاتھا ؟ خوردو نوش کی تمام اشیا ختم ہوچکی تھیںاور وہ پینے کے لیے اپنا پیشاب تک برتن میں محفوظ کرنے پر مجبورتھے۔

اس وقت مدینہ منورہ کے دروازے شام کے وقت بند کردیے جاتے تھے۔ شام سے پہلے شہر میں داخل ہوگئے تو ٹھیک ،ورنہ مدینہ میں داخلے کے لیے صبح تک انتظا ر کرنا پڑتا۔ ہم غروب آفتاب سے پہلے مدینہ پہنچ گئے اور حکومت نے جہاں پر ہماری رہایش کا انتظام کیا تھاسیدھا وہاں چلے گئے۔ یہ قصہ اخوان المسلمون کے نوجوانوں کی سیرت کی ایک مثال ہے۔ اُن نوجوانوں کی مثال ہے جنھوں نے امام حسن البنا سے تربیت حاصل کی۔ جو نیکی ، بھلائی ، تعاون ، قربانی اور ایثار کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے۔ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے اور اللہ ان کا حامی و ناصر تھا،سبحان اللہ۔

ہم حج سے واپس مصر آئے تو میری سب سے اولین خواہش اس شخصیت سے ملاقات تھی جنھوں نے ان نوجوانوں کو تربیت دی تھی۔ یہ نوجوان جو میری ڈیوٹی پر خود برتن صاف کرتے، جو میرا سامان اٹھاتے ، جو با جماعت نماز ادا کرتے، جو قرآن پاک کی تلاوت کرتے ، جو ذکر اللہ میں مشغول رہتے ، جو تہجد پڑھتے ، صبر اور شکر کے راستے پر چلتے ،ان نوجوانوں کا شیوہ نیکی ، بھلائی ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا۔ انھی نوجوانوں کے شیخ سے ملنامیری سب سے بڑی خواہش تھی۔میں اس وقت قاہرہ میں تُصن روڈ پر مقیم تھا۔ اسی روڈ پر ایک طالب علم رہتاتھا ،    جمال عامر۔ وہ فیکلٹی آف فارمیسی کا طالب علم تھا اور امام حسن البنا کے نمایندے کی حیثیت سے ہمارے شہر کا دورہ بھی کرچکاتھا۔ ایک دفعہ اسی روڈ پر میری اس سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم کس جگہ مقیم ہو ؟ میں نے بتایا کہ اسی شارع پر رہتا ہوں۔ اس نے کہا میرا گھر بھی یہیں پر ہے اور بتایا کہ آج منگل کا روز ہے۔ آج الشیخ حسن البنا کا ہفتہ وار درس ہے۔ میں نے اس پر بارک اللہ فیک کہااور ہم درس سننے چلے گئے۔ اس وقت اخوان المسلمون کا مرکز ( دارالاخوان) عقبہ میںتھا۔ عقبہ ، قاہرہ کا سرسبز علاقہ ہے۔ مختلف علاقوں ،عباسیہ مصر الجدید،الشافعی،سیدہ زینب اور شُبرہ سے آنے والی ٹرامیں یہیں آکر ملتی ہیں۔ اخوان اسی گھر میں آکر آپس میں ملتے تھے۔یہ قدرے کشادہ مکان تھا۔ اس میں پانچ کمرے تھے اور ایک وسیع و عریض صحن تھا، جہاں پر کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور امام حسن البنا درس قرآن کریم دے رہے تھے۔ یہ مرکزازہر روڈ کے ساتھ ملی ہوئی سڑک پر واقع تھا۔

  •  یہ درس کس وقت تھا؟
  •  مغرب کی نماز کے بعد درس تھا۔جس وقت ہم وہاں پہنچے تو امام حسن البنا درس دے رہے تھے۔ ان کی گفتگو منظم و مرتب تھی۔ ان کے الفاظ گویا لڑی میں پروئے ہوئے موتی تھے۔ وہ بہت کم جذباتی ہوتے۔ ان کی گفتگو دل کو بھاتی اور عقل کو اپیل کرتی۔ وہ مسلمانوں کی عظمت اور اسلام کی بڑائی کی بات کرتے۔ ان کا اسلوب جدید تھااور اس روایتی اسلوب سے ہٹ کر تھا جو ہم دوسری جماعتوں کے لوگوں اور علما کے خطبوں میں سنا کرتے تھے۔ اس وقت مصر کی جماعتیں فروعی مسائل میں گھری ہوئی تھیں، ان کی دعوت چند مخصوص موضوعات تک محدودتھی۔ ایک جماعت صرف نماز اور سنت کی دعوت دیتی تو دوسری جماعت کا زورصرف عقیدے پر ہوتا ،تیسری جماعت قبروں پر جانے سے روکنے کے لیے اپنی طاقت صرف کرتی۔ حتیٰ کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے۔ جہالت عام تھی ، لوگ ان کی باتوں میں آجاتے۔ لوگوں سے جو کچھ کہا جاتا، وہ جہالت کی وجہ سے مان لیتے تھے ،مگر امام حسن البنا جو پیغام دے رہے تھے۔ اس میں عقیدے اور عبادت کی دعوت تھی ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت تھی۔ مسلمانوں کے معیار کو بلند کرنے کی دعوت تھی۔

درس ختم ہوا تو ایسے محسوس ہوا کہ مجھ میں نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ پھر ہم ان سے ملنے کے لیے آگے بڑھے۔ انھوں نے دو ماہ کے بعد بھی مجھے پہچان لیا۔ بڑی گرم جوشی سے گلے لگایا اور کہا خوش آمدید۔ امام کو محمد البنا نے ہمارے بارے میں بتادیا تھا کہ یہ کچھ نوجوان ہیں جو جذبہ رکھتے ہیں اور انھوں نے فلسطین کے لیے فنڈ اکٹھا کیاہے۔ اس طرح میرے بارے میں ان کو کچھ اندازہ تھا۔ دفتر سے نکلنے سے پہلے ہی میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرچکاتھا کہ :’’میرا ایمان اللہ پر ہے ، میرا عمل میرے دین کے لیے ہے ، مجھے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔ ایمان ، عمل اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں‘‘۔

  •  انھوں نے آپ سے بیعت کا کہا تھا یا آپ نے ان سے درخواست کی تھی؟
  •  نہیں نہیں :میں نے خود ان سے بیعت کی درخواست کی تھی۔ انھوں نے ہم سے بیعت کا نہیں کہاتھا۔ جب ہم نے کہا کہ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں تو انھوں نے ہمیں بیعت کی حقیقت سے آگاہ کیا۔ ایمان ،عمل اور جہاد کی اہمیت بتائی اور ہماری بیعت قبول کرلی۔پھر ہم اخوان کے مرکز میں گھومتے پھرے۔اس میں مختلف شعبے تھے۔ ایک شعبہ اسکائوٹس کے لیے تھا۔ ایک شعبہ فلسطین کا تھا۔ ایک شعبہ عالم اسلام کے لیے تھا۔ مصر میں کوئی ایسی تنظیم نہیں تھی جو لوگوں کا اس طرح استقبال کرتی ہو۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ دارالاخوان میں ایک شعبہ فلسطین کے متعلق تھا۔ جس میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے ، یہودیوں کے بائی کاٹ کی مہم اور فنڈ اکٹھا کرنے کا کام ہوتاتھا۔ میں ذاتی طور پر مسئلہ فلسطین میں بہت دل چسپی لیتاتھا۔

پھر میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن آیا۔ مصر میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے جوش و خروش سے منایا جاتاہے۔ مصر کی ہر وزارت میں بڑے بڑے شامیانے لگائے جاتے جن میں محفل اذکار کا اہتمام ہوتا۔ سب لوگوں کے دل متوجہ ہوتے ہیں ، ایسے میں انھیں سیرت کا حقیقی پیغام پہنچانے اور سمجھانے میں بہت مدد ملتی ہے۔اس لیے اخوان المسلمون بھی ان تقریبات میں پوری گرم جوشی سے حصہ لیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس سال ہم نے ان تقریبات میں انگریزوں اور یہودیوں سے بائی کا ٹ کے حوالے سے لٹریچر تقسیم کیا۔ برطانوی انگریز وں ہی نے یہودیوں کو سرزمین فلسطین دینے کا وعدہ کیااور اس طرح عالم اسلام کے سینے میں خنجر گھونپاتھا۔ انگریزوں ہی نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے فلسطین میں اس شجر خبیثہ کا بیج بویاتھا۔ انگریزوں ہی نے مال و دولت ، اسلحہ اور ہر طریقے سے یہودیوں کی مدد کی تھی۔

  •  آپ نے دارالاخوان کو دیکھا۔ امام حسن البنا کے ہاتھ پر بیعت کی،  اخوان المسلمون سے منسلک ہونے کے بعد کیا سرگرمیاں رہیں؟
  •  یہودیوںکا بائی کاٹ کرنے کے حوالے سے شائع شدہ پمفلٹ اور پوسٹر تقسیم کرنے کی ذمہ داری لگائی گئی۔ پوسٹر پر ان تمام یہودیوں کے نام تھے جو اسکندریہ ، قاہرہ ، صعیدیا دوسرے شہر وں میں تجارت کررہے تھے۔ یہودی معدنیات ،ادویہ،پرفیومز ،کاسمیٹکس ہر قسم کا کاروبار کرتے تھے۔ اس پوسٹر پر مصر میں کام کرنے والی یہودی کمپنیوں کے نام تھے۔ میری اور صالح العسشماوی کی ذمہ داری یہ پمفلٹ تقسیم کرنے اور پوسٹر لگانے کی تھی۔
  •  صالح العسشماوی اس وقت اخوان کے سیکرٹری  تھے ؟
  •  جی ہاں! صالح العسشماوی اس وقت سیکرٹری تھے۔وہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہونے والے جلسوں میں پوسٹر تقسیم کرنے گئے۔ ان جلسوں میں مصر کے مختلف علاقوں کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ میری اور ایک اور ساتھی جن کا نام طاہر عبدالمحسن تھا کے ذمے شارع ازہرکے کھمبوں او ردیگر جگہوں پر پوسٹر چسپاں کرنا تھا۔ اسی طرح ان مغربی علاقوں میں پوسٹر چسپاں کرناتھے ،جہاں پر یہودیوں کے محلے تھے۔ ہم پوسٹر لگاتے ہوئے جامعہ ازہر تک پہنچ گئے۔   جامعہ ازہر میں طلبہ کی بھرپور تعداد تھی اور وہ امتحانات کی تیاری کررہے تھے۔ ہم جامعہ ازہر گئے تو ہاسٹل میں مقیم ایک طالب علم نے کہا کہ:’’ آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ اللہ آپ کو اجر دے۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔ وہ اصرار کرکے ہمارے ساتھ ہولیا۔ اس نے پوسٹر اٹھالیے۔ طاہر عبدالمحسن پوسٹر لگانے میں میری مدد کرتے۔ ہم شارع ازہر پر پوسٹر لگانے کے بعد میدان کبری کے علاقے میں گئے۔ وہاں پر بجلی سپلائی کا ایک کمرہ تھا جس پر انگلش میں لکھا ہواتھا dangerیعنی خطرہ۔ ہم نے کہا خطرہ کیسااس پر بھی پوسٹر لگاتے ہیں۔ جب ہم نے وہاں پوسٹر لگانا چاہا تو ایک پولیس والا آگیااورفرمانے لگا ’’پوسٹر لگانا منع ہے‘‘۔ ہم نے کہا نہیں یہ پوسٹر ممنوعات میں سے نہیں ہے یہ کوئی خراب پوسٹر نہیں بلکہ یہ تجارتی اطلاع سے متعلق ہے۔اس نے کہا نہیں تم یہ پوسٹر نہیں لگاسکتے۔ افسوس کہ وہ نیا طالب علم اس مکالمے سے گھبرا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ پولیس والوں نے   پیچھا کرکے اسے پکڑ لیا۔ ہم نے پولیس والوں سے اس کی جان چھڑانے کی کوشش کی، لیکن     بے سود۔ حتیٰ کہ ہم تھانے پہنچ گئے۔ وہاں تھانے والوں نے کہا کہ تم سب کو اندر کرنا چاہیے تھا۔ ہمارے اس ساتھی کو دو ہفتے تک قیدمیں رکھا گیا۔ افسوس کہ حکومت یہودیوں کا بائی کاٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے پرمصر تھی۔ ہم نے اس ساتھی کو جیل میں کمبل ، بستر ، کھانا مٹھائی وغیرہ سب کچھ بھیجا۔ اسے ایسے کمرے میں رکھا گیاتھا جہاں کچھ نہ تھا۔ وہ زمین پر سوتا تھا۔ بعدازاں جب مجھے گرفتار کیاگیا تومیں جیل کے کمرے میں اپنا چوغا اتارکر نیچے بچھا لیاکرتاتھا۔   اس وقت معلوم ہوا کہ چوغے کا کتنا فائدہ ہے۔
  •  توگویا پوسٹر لگانا مرکز میں آپ کی پہلی ذمہ داری تھی ؟
  •  جی ہاں!یہودی مصنوعات کے بائی کاٹ کی مہم میں شرکت ،پوسٹر لگانا اور فنڈ جمع کرنا  اخوان المسلمون کی تنظیم میں میرا پہلا عملی قدم تھا۔ اخوان المسلمون کے ساتھیوں نے فلسطین کے فنڈ جمع کرنے کے لیے رسیدیں چھپوائی ہوئی تھیں۔ ہم یہ رسید بک لے کر قہوہ خانوں میں گئے ، جہاں مصر کے بڑے بڑے مال دار لوگ بیٹھتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ امیر کبیر لوگ کھلے دل سے تعاون کریں گے ،لیکن اللہ کی قسم ان بڑے بڑے لوگوں کا دل بہت چھوٹاتھا۔ میں اور عبدالمحسن ایک   قہوہ خانے میں ایک شخص کے پاس گئے تو اس نے دو یا شایدپانچ پیسے دیے۔طاہر عبدالمحسن نے  اس سے کہا کہ:’’گستاخی معاف ہم بھکاری نہیں ہیں کہ تم ہم کو دو پیسے تھما رہے ہو‘‘۔ میں نے   طاہر سے کہا کہ چھوڑو جھگڑا نہ کرو ، اللہ کہیں اور سے انتظام کردے گا ،ہم وہاں سے نکل آئے سڑک پر چل رہے تھے، کہ ایک چوکیدار نے ہمیں دیکھا۔ وہ کچھ چلنے کے بعد ہماری طرف مڑا۔ اس نے ہم سے پوچھا کہ آپ کیا کررہے ہیں؟ ہم نے بتایا :’’فلسطین کے لیے فنڈ جمع کررہے ہیں۔ ‘‘اس نے جیب میں جو کچھ تھا نکال کر ہمیں دے دیا۔ ایسے غریب اور متوسط لوگ ، فلسطین کے لیے ہم سے تعاون کرتے تھے۔ یہ  ایسے ایمان والے لوگ تھے جن کے دل میں بھلائی اور خیر کا جذبہ موج زن تھا۔ مجھے اس مہم کے دوران بہت سے حقائق جاننے کا موقع ملا۔ یقینی بات ہے کہ بعض امیر لوگوں کے دلوں میں بھی بھلائی کا جذبہ ہے۔ لیکن ان کا تناسب غریب اور متوسط لوگوں سے بہت کم ہے۔
  •  مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اخوان کا کردار ناقابل فراموش ہے، اس ضمن میں کچھ اور تفصیل .......؟
  •  اقصیٰ کی آزادی کے لیے ہمارے فلسطینی بھائیوں نے جو بھی جدوجہد کی اخوان اسی کا حصہ تھے۔ ملک کے اندر بھی یہ مسئلہ ہماری سرگرمیوں کا مرکز و محور تھا ایک باراخوان المسلمون نے وزیراعظم کے خلاف مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ طے پایا کہ قاہرہ شہر کے وسط ( شارع فوادالاول ) سے مظاہرے کا آغاز کیا جائے گا۔ وہاں امریکیوںکا پڑائو تھا۔ ہم نعرے بلند کررہے تھے :

فلسطین زندہ باد،     یہودی مردہ باد ،     انگریز مردہ باد

اچانک پولیس کی گاڑیاں اخوان المسلمون کو گرفتار کرنے آگئیں۔ لوگ یہ منظر دیکھ کربڑے حیران ہوئے کہ اخوان المسلمون کے نوجوان بلاخوف ،خود پولیس کی گاڑیوں پر چڑھ گئے۔ انھوں نے انگریزوں اور یہودیوں کے خلاف نعرہ بازی کی۔ یہ بڑی دل چسپ بات تھی کہ پولیس آپ کو گرفتار کرنے آتی ہے اور آپ خود کو د کر گاڑی پر چڑھ جاتے ہیں۔

حکومت کو احساس ہواکہ یہ تو ایک ہمہ گیر اور منظم جماعت بن گئی ہے۔اس نے جماعت کو ختم کرنے کے لیے کارروائی شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اخوان المسلمون کو ثابت قدم رکھا اور   یہ قافلہ رواں دواں رہا۔ اخوان، فلسطین کی مدد کے لیے لکھتے، فلسطین کے لیے تقریریں کرتے ،   ان کے لیے دعائیں کرتے ، ان کے لیے فنڈ جمع کرتے۔ تب مسئلہ فلسطین عروج پر تھا۔

ہم نے مصر میں موجود یہودی تاجروں اور کمپنیوں کے بائی کاٹ کا فیصلہ کیا ،ہمارے ساتھی  یہودیوں کی دکانوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور خریداروں کو یہودیوں کی دکانوں سے خریداری کرنے سے روکتے۔ ان کو کہتے :’’ تم اپنی دولت یہودیوں کو دے رہے ہو ،اس سے وہ تمھیں قتل کریں گے۔ تمھارے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں گے اور تم سے مسجد اقصیٰ کو چھینیں گے۔ ‘‘یہودیوں کی دکانیں بڑی بڑی تھیں۔ یہ دکانیں نہیں بلکہ بازار تھے۔ ان میں گھریلو استعمال کی ہرچیز فروخت ہوتی تھی اورمصر کے تمام بڑے شہروں سکندریہ ، قاہرہ ، المنصورہ، ہرجگہ ان کی شاخیں تھیں۔ جب ہم دکانوں کے دروازوں پر کھڑے ہوجاتے اور خریداروں سے کہتے :’’خریداری کرکے تم یہودیوں کی مدد کررہے ہو ، یہودی جو کچھ کررہے ہیں ، کیا تمھیں اس کی خبر نہیں ‘‘۔لوگ ہماری بات سنتے اور مانتے تھے لیکن حکومت کی طرف سے ہمارا پیچھا اور نگرانی کی جاتی اور ہمیں گرفتار کرلیا جاتا۔

  •  سنا ہے امام البنا نے آپ کو اپنے نمایندے کے طور پر فلسطین بھی بھیجا؟
  •  جی ہاں:یہ ۱۹۴۶ء کی بات ہے۔ امام البنا کو شامی حکومت کی طرف سے دعوت ملی کہ  ہم شام سے فرانسیسی فوجوں کے انخلا کی پہلی سالگرہ کے موقع پر جشن فتح منا رہے ہیں۔ اخوان بھی استعمار کے خلاف مضبوط مو قف رکھتے ہیں۔ آ پ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ امام البنا نے مکتب ارشاد کے تمام ارکان سے کہا کہ شامی صدر الکوتلی کی دعوت پر شریک ہوں گے۔ ہم سب نے تیاری شروع کردی پاسپورٹ بنوالیے گئے ،بکنگ کروا لی گئی ہمیں جمعرات کے روز دمشق جانا تھا۔ سوئِ اتفاق کہ اسی روز فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کا اعلان کردیاگیا۔

امام البنا نے کہا کہ فلسطین میں صف ماتم بچھی ہے ایسے میں جشن فتح کیسا۔سودمشق جانے کا پروگرام منسوخ کردیاگیا اور مجھے امام نے کہا کہ تم ہماری طرف سے فلسطین جائو ، وہاں کی صورت حال کا جائزہ لو اور ہمارے بھائیوں کو ہماری طرف سے حوصلہ و تسلی دینے کی سعی کرو۔ میں اسی روز شام پانچ بجے کی ٹرین سے قاہرہ سے غزہ کے لیے روانہ ہوگیا اور غزہ سے ہوتے ہوئے اگلے روز صبح ۱۰ بجے فلسطین کے اہم شہر ’’یافا‘‘پہنچ گیا۔ ۳۰:۱۲بجے خطبہ جمعہ شروع ہوناتھا۔ ساتھی مجھے یافا کی مرکزی جامع مسجد لے گئے اور خطبہ جمعہ کے لیے منبر پربٹھادیا۔ میں نے فلسطینی عوام پر طاری مایوسی کو امید و حوصلے میں بدلنے کی سعی کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ آزمایش کڑی ہے لیکن یقین رکھو کہ تم تنہا نہیں نہ ہی قبلہ اول صرف تمھارا ہے ، امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قبلہ اول اور اس کا دفاع کرنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ فلسطینیوں کو متحد و منظم کرنے کی کوششوں میں مزید اضافہ کردیاگیا۔ بد قسمتی سے اس وقت وہاں ان کی کوئی قیادت موجود نہیں تھی۔ مفتی اعظم امین الحسینی کو بھی ملک چھوڑنے پر مجبور کردیاگیا تھا۔ فلسطین پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں نے مسجد اقصیٰ میں   خطبہ جمعہ دیا اور پھر میں نے قریہ قریہ بستی بستی پروگرام کرنا شروع کردیے۔ میں نے ہر جگہ دیکھا کہ بیرون ملک سے لا کر بسائے گئے یہودیوں اور نسل درنسل وہاں مقیم فلسطینیوں کی آبادیوں میں   بے حدتفاوت تھا۔ یہودیوں کو برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کی طرف سے بے بہا سرمایہ ، آلات اور اسلحہ فراہم کیاجا رہاتھا۔ وہ دھڑا دھڑ زمینیں خرید کر آباد ہو رہے تھے‘ جب کہ فلسطینیوں پر غربت اور بھوک مسلط تھی۔

  •  آپ وہاں کتنا عرصہ رہے ؟اور امام البنا کو کیا رپورٹ دی؟
  •  میں ایک ماہ کی چھٹی لے کر گیاتھا۔ تب میں وزارت اوقاف میں ملازم تھا۔ لیکن میں فلسطین میں دو ماہ رہا۔ جیساکہ میں نے کہا کہ مفتیِ اعظم امین الحسینی اور دیگر فلسطینی رہنما ، حلمی پاشا ، شیخ ابوسعود سب ملک سے باہر تھے۔ امین الحسینی کو انگریزوں نے گرفتارکرناچاہا تو وہ عراق چلے گئے تھے اور الرشید علی گیلا کے عہد انقلاب میں وہیں رہے۔ بعد میں وہ پولینڈ چلے گئے پھر عالمی جنگ کا پورا عرصہ وہیں رہے۔ دوسری عالمگیر جنگ میں جب سربوں نے بوسنیا ،ہرزیگووینا کے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور ان کے خاتمے کی کوشش کی تو مفتیِ اعظم نے بوسنیا کے مسلمانوں کی بہت مدد کی۔ اسی دوران انھوں نے اتحادیوں کے مخالف رہنمائوں سے ذاتی گہرے تعلقات قائم کیے۔

اسی لیے میں نے ضروری سمجھا کہ میں فلسطین میں رہوں اور فلسطینیوں میں مایوسی اور احساس شکست کے بجاے امید اور مزاحمت کا حوصلہ پیدا کروں۔ میں نے وہاں سے امام البنا کو تفصیلی رپورٹ ارسال کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے تمام تر انتظامات عملاً پورے کیے جاچکے ہیں اب صرف اعلان ہوناباقی ہے۔ اس عالم میں فلسطینیوں اور عالم اسلام کی ذمہ داری میں بہت اضافہ ہوچکاہے میں نے کچھ عملی تجاویز بھی ارسال کیں۔ اسی دوران مفتیِ اعظم مصر کے سرکاری دورے پر آئے وہ مرشد عام امام البنا سے بھی آکر ملے۔ امام البنا نے انھیں   میرا تجزیہ اور تجاویز دکھائیں تو انھوںنے ان سے کامل اتفاق کیا۔

  •  اس وقت پڑوسی ممالک کی حکومتوں کا کیا رویہ تھا؟
  •  ایک طرف فلسطینی ماتم عروج پر تھا لیکن عین انھی دنوں اردن میں عیش و عشرت اور جشن طرب کی محفلیں تھیں۔ کیونکہ انگریزوں نے ہر مسلم حکمران کو مخصوص کردار سونپ رکھاتھا۔ اور بجاے اس کے کہ کوئی فلسطینی عوام کی مدد کو پہنچتاوہ اپنے حال میں مست اور اپنے اپنے حصے کا کام کررہے تھے۔مثال کے طور پر اردن کے امیر عبداللہ کو جو اس وقت امیرشرق اردن کہلاتاتھا،انگریزوں نے اچانک شاہ شرق اردن کا لقب دے دیا تاکہ اس کے باپ کو خوش کیا جاسکے جو عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد خلیفۃ المسلمین بننے کا خواب دیکھ رہاتھا۔ ’امیر شرق اردن‘ کے بجاے ’شاہ شرق اردن‘  کہلوانے سے سرخاب کا کون سا پَر لگ جاناتھا یہ خود وہ بھی جانتاتھا۔ لیکن اس موقع پر پورے اردن میں بڑا جشن منایا گیا۔ میں اس وقت فلسطین میں تھا۔ مجھے وہاں دعوت نامہ موصول ہوا۔ میں اس ارادے سے چلا گیا کہ وہاں کوئی ذمہ دار مل جائے تو اسے فلسطین کی صورت حال سے آگاہ کروں ، وہاں پہنچا تو بہت بڑے پیمانے پر خوردونوش اور نشاط و طرب کا اہتمام کیاگیاتھا۔ عجیب امر یہ تھا کہ یہ جشن امیر سے بادشاہ بننے کا تھا اور اس تقریب کا مرکزی میزبان برطانوی جنرل گیلپ تھا۔ اسی نے سب سے پہلے مسلمانوں کا استقبال کیااور اسی نے سب سے آخر میں خدا حافظ کہا۔

۱۹۴۵ء میں عرب لیگ تشکیل دی گئی تھی اس کے پہلے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام بھی وہاں تھے اور تقریباً تمام ممالک کے سفرا بھی تھے۔ جشن کے دوران ایک بڑے ہال میں تقاریر کا اہتمام کیاگیا تھا۔ مجھے دعوت خطاب ملی تو میں نے حمد و صلوۃ کے بعد کہا کہ میں آج فلسطین کے مفتی امین الحسینی کو سلام عقیدت پیش کرتاہوں کہ وہ فلسطین کے لیے ........اتنا ہی کہاتھاکہ پورا ہال زبردست نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ دیر تک تالیاں بجتی رہیں حالانکہ ہر کوئی جانتاتھا کہ آج بننے والے ملک عبداللہ اور مفتیِ فلسطین کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مفتیِ اعظم کی وفاداری اللہ اور اس کے رسول ؐ سے تھی‘ جب کہ شاہ اردن کی تمام وفاداری اپنے عرش و اقتدار اور انگریزوں سے تھی۔ اسے شاہ کا لقب بھی اسی لیے دیا گیاتھا کہ فلسطین کے مغربی کنارے کو اردن سے ملاتے ہوئے شرق اردن اور غرب اردن کو ایک مملکت بنادیاجائے۔ شاہِ وفادار کو اس کا اقتدار اور باقی ماندہ فلسطین کو اسرائیل مان کر مسئلہ فلسطین سے نجات حاصل کرلی جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ ساری سازش ناکام بنادی ان کی یہ ناکامی جہاد و مزاحمت کے باعث ہوئی ؟

اہل فلسطین نے مسلسل قربانیاں دے کر بھی علم جہاد کو سرنگوں نہیں ہونے دیا حالانکہ انگریزوں اور ان کے غلاموں نے جہاد سے نجات کی ہر ممکن کوشش کی۔ برصغیر میں جس طرح قادیانیت کا ناپاک پودا کاشت کرکے جہاد ساقط کرنے کی کوشش کی گئی اسی طرح مشرق وسطیٰ میں بہائیت سے یہ کام لینے کی کوشش کی گئی۔ یہودیوں نے بہائیت کی بنیاد رکھی۔ بہاء کی قبر فلسطین کے شہر عکا میں تھی اور عباس بہاء کی قبر حیفا میں دونوں کو بڑی شان و شوکت سے نوازا گیا۔ کیونکہ بہائیت میںجہاد کو حرام قرا دیا گیاہے۔مصر میں بھی اس کا بڑا مرکز بنایا گیا۔ شاہ فاروق کو بھی انھی     صہیونی سازشوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیاگیا۔ افسوس صد افسوس شاہ فاروق کا محل یہودیوں کا مدد گار و معاون تھا ،ملکہ کی خصوصی خادمہ یہودیہ تھی اور خود شاہ فاروق کے گرد یہودیوں اور عیسائیوں کا جھمگٹاتھا۔

  •  اخوان المسلمون میں اسی مصری معاشرے کے نوجوان تھے۔ امام حسن البنا نے ان نوجوانوں کو کس طرح تبدیل کیا ، کیا ان کے پاس پارس تھا؟
  •  الکلمہ الطیبۃ ،اچھی نصیحت اور حکمت کے ساتھ دعوت: ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃوجادلھم بالتی ھی احسن(اے نبی ؐاپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو ، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کروایسے طریقے سے جو بہترین ہو)۔  وہ قائل کرنے والے انسان تھے۔ وہ اپنی راے میں متشدد نہیں تھے۔ وہ نوجوانوں کے ساتھ رابطہ رکھتے۔انھوں نے نوجوانوں کے لیے ہفتہ وار درس رکھا ہواتھا۔ نوجوانوں کے لیے اسرہ کا خاص نظام بنایا۔ ہر پانچ نوجوانوں کا ایک اسرہ بنایا۔ اسرہ کے افراد آپس میں ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ ہفتے میں ایک بار اکٹھے ہوتے۔ ان کے درمیان تعلق رہتا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔ یہ تعاون نہ صرف روحانی تھا بلکہ مادی بھی تھا۔ اسرہ کے افراد کسی دن نفلی روزہ رکھنے کا پروگرام بنا کر اکٹھے افطار کرتے۔ مل کر مطالعہ کرتے۔ ایک کتاب متعین کرلی جاتی جسے مل کر پڑھتے اور استفادہ کرتے۔ اسرہ کے اوپرذرا وسیع تر نظام تھا، جسے کتیبہ کا نام دیاگیاتھا۔ کتیبہ پانچ اسروں پرمشتمل ہوتاتھا۔ گویا ہرکتیبہ تقریباً ۲۵ نوجوانوں پر مشتمل ہوتا۔کتیبہ کے افراد مہینے میںایک دفعہ اکٹھے ہوکر شب بیداری کرتے۔ شیخ حسن البنا یا اخوان المسلمون کا کوئی اور رہنما ان کے پروگرام میں شریک ہوتا۔ وہ قیام اللیل کرتے ، تہجد ادا کرتے اور قرآن کی اس آیت کے مصداق رات گزارتے :

’’تتجا فی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا وطمعاً۔ ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں‘‘۔ اپنے مسائل اور مشکلات ایک دوسرے سے بانٹتے اگر کسی کوکوئی مشکل ہوتی ،کسی کے بچے کی پڑھائی کا مسئلہ ہوتا یا گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو ہر ایک دوسرے سے حسب استطاعت تعاون کرتے، اس کو مشورہ دیتے۔

  •  یہ کتیبـے ہر مہینہ جمع ہوتے تھے ؟
  •  جی ہاں !کتیبے ہر مہینے جمع ہوتے ، البتہ اسرہ کے افراد ہر ہفتے میں ایک بار اکٹھے ہوتے۔

ان دنوں جماعت کے سیکرٹری جنرل احمد حسن الباقوری تھے۔ احمد حسن جامعہ ازہر کی یونین کے صدر بھی رہے تھے۔ انھوں نے ہی اخوان کے اسکائوٹس کا ترانہ لکھا جواخوان میں بہت مقبول ہوا:

یارسول اللہ ھل یرضیک أنا
ننفض الیوم غبارالنوم عنا

اخوۃ فی اللہ للإ سلام قمنا
لانھاب الموت لا بل نتمنی

أن یرانا اللہ فی ساح الفداء

إن نفسا ترتضی الاسلام دیناً
اوتری الإسلام فی أرض مھینا

ثم ترضی بعدہ أن تستکینا
ثم تھوی العیش نفس لن تکونا

فی عداد المسلمین العظماء

حبذا الموت یریح البائسین
فلنمت نحن فداء المسلمین

ویرد المجد للمستعبدین
سادۃ الدنیا برغم الکاشحین

ولیسد فی الأرض قانون السماء

ان للدنیا بنا أن تطھرا
قد قطعنا العھد ألانقبرا

نحن أسداللہ لا أسد الشری
أونری القرآن دستور الوری

کل شیء ماسوی الدین ھباء

أیقظت جمعیۃ الإخوان فینا
أسعدوا العالم بالإسلام حینا

روح آباء کرام فاتحینا
فاستجبنا للمعالی ثائرینا

وتسابقنا إلی حمل اللواء

غیرنا یرتاح للعیش الذلیل
إن حیینا فعلی مجد أثیل

وسوانا یرھب الموت النبیل
أوفنینافإلی ظل ظلیل

حسبنا أنا سنقضی شھداء

  •  آپ امام کے ہم سفربھی رہے؟
  •  جی ہاں !میں ان کا ساتھی اور معاون بن گیا۔ میں ان کے ساتھ مختلف علاقوں کے دوروں پرجاتا۔ میں ان کے ساتھ اشبیک ، بنھا، المنصورہ ، زقازیق کے شہروں میں گیا ، وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کسی ساتھی کو لے جاتے تھے۔ اخوان المسلمین کے ساتھیوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اسے امام حسن البنا کے سامنے رکھا جاتا۔ جس کے لیے ہم تعاون کرتے۔
  •  آپ امام کے ساتھ صعید کے دورے پربھی گئے؟
  •  امام حسن البنا کا معمول تھا کہ وہ گرمیوں میں صعید یعنی بالائی مصر کا دورہ کرتے۔ وہ دوماہ تک وہاں ٹھہرتے۔صعید قاہرہ سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔ قاہرہ اور اسوان کے درمیان تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔آنا جانا اتنا آسان نہ تھا، اس لیے امام البنا سال میں ایک ہی دفعہ گرمیوں کے موسم میں ان شہروں کا دورہ کیا کرتے تھے۔ صعید ،موسم گرما میں مصر کا سب سے گرم علاقہ ہوتاہے، حسن البنا یہ پورا عرصہ اسی علاقے میں گزاراکرتے تھے۔

 میں ان کے ساتھ صعید کے دورے پر بھی گیا ہوں۔ یہ ایک یاد گار سفر تھا۔ اسی سفر میں  ان سے میری قربت ہوئی۔ اس یاد گار سفر کے کچھ واقعات ملاحظہ ہوں:

یہ ۱۹۳۹ء کی بات ہے کہ امام حسن البنا نے مجھ سے فرمایا:’’ تیار ہوجائیے ، آپ ہمارے ساتھ اس سال صعیدمصر جائیں گے‘‘۔ صعید میں شدید گرمی ہوتی تھی۔ لوگ گرمی سے بھاگ کر اسکندریہ اور رأس البر جاتے، جب کہ امام حسن البنا اس کے برعکس گرمی میں داخل ہوتے۔ میں نے امام حسن البنا سے پوچھا سفر کے لیے کیا درکار ہو گا۔ انھوں نے جواب دیا صرف۲جنیہ( مصری پائونڈ)۔ تب قاہرہ سے اسوان کا کرایہ دو جنیہ تھا۔ ایک جنیہ جانے کا اور ایک جنیہ واپسی کا۔   اخوان المسلمون کے بعض اور ساتھی بھی اس سفر میں شریک ہونا چاہتے تھے ، جن میں ڈاکٹر محمدالھرولی، استادطاہر ، الشیخ محمود عوض اور دیگر ساتھی شامل تھے۔ ریل کا ٹکٹ تیسرے درجے کا تھا۔ تیسرے درجے کا سفر نہایت کٹھن اور ماحول بہت خراب ہوتاتھا۔ مسافروں کا سامان ، خیمے ، بیگ اور طرح طرح کی چیزیں بکھری ہوئی ہوتیں۔ سیٹوں کے درمیان چلنا ممکن نہ تھا۔ مسافروں کا ہجو م ہوتا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود امام حسن البنا تیسرے درجے ہی میں سفر کیا کرتے تھے۔

ہم نے دوجنیہ دے دیے۔ ڈاکٹر محمد الھرولی نے کہا کہ اگر ہم اسی کرایے میں دوسرے درجے میں سوار ہوجائیں تو کیا خیال ہے۔ امام حسن البنا نے پوچھا وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا کہ ریلوے میں ایسی ٹکٹیں ہیں جو کلومیٹر کے حساب سے ہوتی ہیں۔ جنھیں کلومیٹر ٹکٹیں کہا جاتا ہے۔ دوتصویریں اور ٹکٹیں لیں۔ ریلوے آفس چلے جائیں۔ وہ کچھ پیسے لے کر ان ٹکٹوں پر دوسرے درجے کی مہر لگا دیں گے۔ امام حسن البنا نے اس کام کے لیے میری ذمہ داری لگائی۔ میں ٹکٹیں لے کر ایک دفتر سے دوسرے دفتر کا چکر لگاتارہا۔ کبھی جواب ملتا کہ متعلقہ آدمی موجود نہیں ہے تو کہیں جواب ملتا کہ کل آجانا۔بالآخر میں ناکام واپس لوٹا۔ امام حسن البنا ،نے پوچھا :کیا بنا؟۔ میں نے جواب دیا بہت سے دفتروں کے چکر لگائے لیکن کچھ نہ بنا۔ وہاں پر موجود مرکز کے سیکرٹری جناب عبدالحکیم نے کہا کہ ریلوے میں میرا ایک دوست ہے میں اس کو لکھ دیتا ہوں وہ اس سلسلے میں آپ کی مدد کرے گا۔اگلے روز میں یہ رقعہ لے کر اس شخص کے پاس پہنچا۔ وہ ایک نہایت ہی شریف اور بااخلاق انسان تھا۔ وہ ریلوے دفتر میں میرے ساتھ گیا۔وہاں پہنچے تو وہی سلسلہ جس سے مجھے کل واسطہ پڑ ا تھا۔ متعلقہ آدمی نہیں ہے، ملازم نہیں ہے ، کل آجانا، جیسے جوابات ملے۔ دفتروں میں چکر لگاتے پورا دن گزر گیا لیکن کچھ نہ بنا۔ البتہ اس شخص نے تعاون کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔ واللہ میں نے اس سے زیادہ شریف ، بااخلاق اور با ہمت شخص نہیں دیکھاتھا۔واپس حسن البنا کے پاس لوٹا ، تمام قصہ سنایا۔ انھوں نے کہا کہ اپنے آپ کو تکلیف میں مت ڈالو۔ اللہ کی مرضی یہی ہے کہ ہم سبنسہ( ٹرین کے آخر میں لگا مال بردار ڈبہ) میں سفر کریں۔

نہ درجہ اول ، نہ دوم اور نہ درجہ سوم ہم ریل کے سب سے آخری ڈبے میں سوار ہوں گے۔ ریل گاڑی کا آخری ڈبہ صرف سامان کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اس ڈبے میں کرسی ہوتی ہے نہ کوئی بیٹھنے کی جگہ۔امام البنا نے کہا :’’لگتا ہے اللہ کی مرضی یہی ہے کہ ہم اسی ڈبے میں سوار ہوں گے‘‘۔

جب ہم اگلے دن صبح ریلو ے اسٹیشن پہنچے تو گاڑی پر مسافروں کا بہت ہجوم تھا۔ اول ، دوم اور سوم سب ڈبے بھرے ہوئے تھے۔ لوگ کھڑکیوں سے لٹکے ہوئے تھے، حتیٰ کہ گاڑی کے پایدان پر بھی پائوں رکھنے کی جگہ نہ تھی ، اس دوران میںہمیں آخری ڈبے والے نے دیکھا، اس کو ہم پر  ترس آیا۔ اس نے کہا:’’ محترم ادھر آجائیے ، اگلے اسٹیشن تک اس ڈبے میں سوار ہوجائیے ‘‘۔ یہ ریل گاڑی صرف بڑے اسٹیشنوں پر رکتی تھی۔ قاہرہ سے چلتی تو صرف جیزہ ، بنی سویس اور اسیوط   جیسے تقریباً چھے اسٹیشنوں پر رکتی۔ اس ریل گاڑی کو ایکسپریس کہا جاتاتھا۔ ہم آخری ڈبے میں سوار ہوگئے۔ بیٹھنے کی جگہ نہ تھی۔ ہمیں کھڑے ہوکر سفر کرنا پڑا۔ ہم نے کوشش کی کہ کسی جگہ پر بیگ رکھ کر اسی کے اوپر امام حسن البنا کو بٹھایا جائے، لیکن اتنی جگہ بھی میسر نہ تھی۔ جب گاڑی منیہ کے اسٹیشن پر رکی تو بعض مسافر اترے۔ امام حسن البنا نے ایک روز پہلے کہاتھا کہ واللہ ہم آخری ڈبے ہی میں سفر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم پوری کردی۔ اس وقت سے مجھے اس شخص سے ایک طرح کا خوف محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتا تو اللہ اس کی قسم کو پورا کردیتا۔ میں نے دیکھا وہ کبھی ایسی ویسی بات نہ کیا کرتے تھے۔ ہم چھوٹے چھوٹے لوگ تیسرے درجے میں سفر کرنا ناپسند کرتے ہیں، لیکن حسن البنا جس نے پوری نسل کی تعمیر کی، جس نے نوجوانوں کی زندگیوں کو بدلا ، جو مصر کا ایک ایک شہر اور ایک ایک قصبہ پھرا ، شمال و جنوب میں کوئی ایسا شہر یا گائوں نہیں جس میں یہ خبر نہ ہو کہ یہ آدمی تیسرے درجے میں سفر کرتا ہے۔ حالانکہ تیسرے درجے میںاور خود اس قیامت کی گرمی میںسفرناقابل برداشت تھا۔

  •  صعید مصرمیں کتنا عرصہ قیام رہا؟
  •  تقریباً ڈیڑھ ماہ تک ہم وہاں ٹھیرے۔ پھردوسری جنگ عظیم چھڑ گئی یہ ۱۹۳۹ء کی بات ہے۔ جب جنگ چھڑی تو ہم اقسس میں تھے۔ انگریز حسن البنا کا پیچھا کرتے۔ اسٹیشنوںپر ان کے کارندے ہوتے جو امام البنا کی خبریں پہنچاتے۔
  •  جنگ شروع ہونے پر کیاآپ واپس لوٹ آئے یا آپ نے دورہ جاری رکھا؟
  •  ہم نے دورہ جاری رکھا۔ اسوان تک پہنچے۔ اسوان میں اخوان المسلمون کے ساتھی تھے۔ وہاں صالح بکر حرب تھے جو مصر کے وزیرجنگ رہے ہیں۔ وہ حسن البنا سے محبت کرتے تھے۔ اسوان عباس محمودالعقاد کاشہر ہے۔ امام حسن البنا اسوان میں تعلیم یافتہ طبقے سے خصوصی ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ مسجد میں عام لوگوں سے بھی ملتے۔ میدانوں میں خیمے لگا کر رہنے والے لوگوںسے بھی ملتے۔
  •  جنگ میں امام حسن البنا اور اخوان المسلمون کا کیا موقف تھا؟
  •  جب جنگ چھڑی توجرمنی نے اپنی فوجیں الجزائر اور طرابلس، لیبیا میں اتاردیں۔ انگریز شکست کھاگئے۔ انگریزوں کی شکست پر مصر میں جلوس نکالے گئے۔ ان جلوسوں میں انگریزوں کے خلاف اور جرمنی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے کہا جاتا:’’اے رومیل قدم بڑھائو اے رومیل..... (رومیل جرمن افواج کا کمانڈر تھا ) تاہم اخوان المسلمون ایسے نعرے لگانے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہم ایک قابض کودوسرے قابض کی جگہ نہیں بٹھانا چاہتے ،نہ ایک ظالم کو دوسرے ظالم سے تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔اگرچہ جرمن اس وقت جابر و ظالم تھے۔ البتہ ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ انھوں نے انگریزوں کو شکست دی۔ انگریزوں کو ذلیل کیا۔

اسی دوران میں انگریزی افواج کے خفیہ ادارے کے سربراہ کلومیل کلیتون نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ معروف جنگی مجرم تھا لیکن اس نے مصر میںایک مسلمان لڑکی سے شادی کرلی۔ وہ مصریوں کے دل جیتنا چاہتاتھا۔ جب جلو س نکلے کہ اے رومیل آگے بڑھو تو اس نے امام حسن البنا سے ملاقات کرنا چاہی۔ کلومیل کلیتون امام حسن البنا کے پاس آیا۔ اس نے اس سوال سے اپنی بات شروع کی :’’اخوان المسلمون انگریزوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں ؟‘‘سوال بڑا عجیب تھا۔ امام حسن البنا کی دو صفتیں نمایاں تھیں: سچائی اور اپنی دعوت کے لیے ہر لمحہ مستعد اور بیدار رہنا۔ امام سچائی اور تجرد کی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ دوسری تجرد یعنی نہ دنیا ، نہ اقتدار ، نہ حکومت اور نہ کوئی اور چیزبس صرف اللہ کی رضا۔

امام حسن البنا نے کلومیل کلیتون سے کہا: اخوان المسلمون اس لیے انگریز حکمرانوں سے نفرت کرتے ہیں کہ انگریز ہماری زمین اور ہمارے ملک، ہماری دولت پر قابض ہیں۔ آپ کا سوال عجیب ہے کہ ہم انگریزوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔ تم انگریز لوگ مصریوں سے ایک ٹن کپاس تین جنیہ میں خریدتے ہو۔ اگر یہی کپاس تم خود کاشت کرو تو ایک ٹن پر ۱۰ جنیہ خرچہ آئے۔ کیا یہ تمھارے لیے جائز ہے ، کوئی بھی قوم اس ظلم کو برداشت نہیں کرے گی۔ تم جانتے ہو کہ جاپان نے ایک ٹن کپاس ۱۷جنیہ میں خریدنے کی پیش کش کی ہے ، لیکن تمھاری حکومت آڑے آتی ہے۔ ہم آپ سے کیسے نفرت نہ کریں‘‘۔کلومیل کلیتون نے بحث کرنا چاہی کہ:’’اخوان المسلمون ایسے ہیںویسے ہیں ‘‘۔

امام نے جواب دیا:’’خدا لگتی بات یہ ہے کہ اخوان المسلمون سچے ہیں ، وہ جھوٹ نہیں بولتے ،اگر تم ہم سے انصاف کرو تو ہم تم سے محبت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جس قیمت میں دوسرے ہم سے کپاس خریدتے ہیں تم بھی اسی قیمت پر ہم سے کپاس خریدو۔ تم قابض ہو ، غاصب ہو ‘‘۔ اس کے بعد انگریزخفیہ ادارے کے سربراہ نے مصر میں اپنے سفیر اور دوسرے ذمہ داران سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد کپاس کی قیمت تین جنیہ سے بڑھا کر آٹھ جنیہ کردی گئی۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ شیخ حسن البنا سے ملاقات کے بعد کپاس کی قیمت میں اضافہ کردیاگیا۔

انگریزمہمان نے امام حسن البنا سے پوچھا اخوان المسلمون کے پاس اتنا بڑا مرکز ہے۔ اتنی رقم کہاں سے آئی ؟ تو امام حسن البنا نے نے ازراہ تفنن جواب دیا رومیل (جرمن کمانڈ)نے پیسے دیے ہیں۔ پھرآپ نے فرمایا :’’اخوان المسلمون کے ساتھی ایک ایک پیسہ جمع کرتے ہیں۔ ہماری جماعت کے پاس جو کچھ ہے وہ اخوان المسلمون کے ساتھیوں کے تعاون سے ہے۔   اخوان المسلمون کے ساتھی اپنے اخراجات سے بچا کر پیسے جمع کرتے ہیں‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا:’’ میرے جسم پر جو لباس آپ دیکھ رہے ہیں اس کی قیمت تقریباً۶۰قرش (پیسہ )ہے، جب کہ تمھارے لباس کی قیمت ۶۰ جنیہ(پائونڈ) ہے ‘‘۔

کلومیل نے کہاکہ بادشاہ سلامت نے اخوان کی مدد کے لیے ۱۰ ہزار مصری پائونڈ کی مدد ارسال کی ہے۔ یہ ایک بڑی رقم تھی لیکن امام حسن البنا نے اس برطانوی ذمہ دار سے کہا :’’بڑے احترام سے عرض کروں گا کہ آپ پہلے شخص ہیں جس کے منہ سے سن رہا ہوں کہ شاہِ انگلستان نے اخوان المسلمون کے بیت المال کے لیے دس ہزار جنیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت شکریہ لیکن ہم آپ کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے یہ رقم لینے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ رقم ہم بادشاہ سلامت کے لیے بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ مال حرام ہے۔ امام حسن البنا نے ۱۰ہزار جنیہ کی پیش کش مسترد کر دی اور کہا کہ اگر آج ہم آپ سے رقم لیں گے تو کل دوسروں سے بھی لے سکتے ہیں۔ پھر ہم آپ کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔

یہ برطانوی فوج کے خفیہ ادارے کے سربراہ کلو میل کلیتون کا قصہ ہے جو امام حسن البنا سے کہنے آیاتھا کہ آپ برطانیہ سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔؟

  •  اس کا قبولِ اسلام ؟
  •  وہ یقینی طور پر دکھاوا تھا۔
  •  صعید کے سفر کے بعد کیا آپ اکثر اوقات امام حسن البنا کے ساتھ ہی رہے؟
  •  جی ہاںمیںاکثر دوروں میں ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ امام حسن البنا مصر کے پارلیمانی انتخابات میں امیدوار بنے۔ بادشاہ نے نحاس پاشا کو برطرف کرکے احمد ماہر کو وزیر نام زد کیا تو اس نے ۱۹۴۵ء میں پارلیمنٹ کے انتخابات کرائے۔ اخوان المسلمون نے اصرار کرکے حسن البنا کو  امید وار نامز د کیا۔میں انتخابی مہم میں بھی ان کے ہمراہ رہا۔
  •  کیا اخوان المسلمون کی جانب سے امام حسن البنا اکیلے امید وار تھے ؟
  •  جی ہاں! اخوان المسلمون کی جانب سے امام حسن البنا اکیلے امیدوار تھے۔
  •  کس حلقے اور کس شہر سے؟
  •  اسماعیلیہ سے۔ ہم انتخابات کے موقعے پر اسماعیلیہ گئے۔ شیخ حسن البنا کا مخالف امیدوار سلمان عید تھا۔ وہ اصل میں عریش کا تھا، لیکن اسماعیلیہ میں رہایش پذیرتھا۔ انگریز ہر طرح سے   اس کی حمایت کررہے تھے۔ انگریزی افواج علانیہ طور پر سڑکوں پر آگئی۔ مصری فوج اور پولیس بھی اس کے ساتھ تھی۔ اسماعیلیہ میں برطانوی فوج کی بہت بڑی چھائونی تھی۔ انتخابات کے دن   اخوان المسلمون کے پولنگ ایجنٹوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ بیلٹ بکسوں کوخود ہی ووٹوں سے بھر دیا گیا۔ مصر کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے اخوان المسلمون کے ساتھیوں نے پولنگ اسٹیشنوں میں گھس کر دھاندلی روکنے کا ارادہ کیا، لیکن امام حسن البنا نے انھیں منع کردیا کہ خون خرابا ہوگا۔ امام نے کارکنوں سے فرمایا :’’میرے لیے آپ کے خون کا ایک قطرہ پوری پارلیمنٹ سے زیادہ قیمتی ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نے انتخابات میں حصہ لے کر دنیا پر ثابت کیا ہے کہ ہم امن کے داعی ہیں، ہم لڑائی کے ذریعے نہیں،پارلیمنٹ کے ذریعے سے تبدیلی چاہتے ہیں‘‘۔ امام حسن البنا نے اخوان المسلمون کے ساتھیوں کو برطانوی فوج اور مصری پولیس سے ٹکرانے سے منع کردیا۔ انھوں نے کہا :  ’’ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ و جو چاہیں کریں ،کہیں جا کر تو جواب دیں گے‘‘۔

امام حسن البنا نے اپنی ذات یا کسی مفاد کے لیے پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیاتھا بلکہ اس لیے حصہ لیا کہ پارلیمنٹ میں اسلام کی مضبوط آواز بلند ہو۔ پارلیمنٹ میں اسلام کا نمایندہ ہو۔ یہی امام حسن البنا کا موقف تھا وہ تشدد کو ناپسند کرتے تھے۔ بہرحال امام اور اخوان المسلمون کو اندازہ تھا کہ اس انتخابات کا نتیجہ ہمارے خلاف ہی آئے گا۔

  •  اس وقت اخوان المسلمون کے خلاف قید و بندکی مہم جاری تھی ؟
  •  جی ہاں، امام حسن البنا بھی گرفتار ہوئے تھے اور ان کے بھائی عبدالرحمن البنا اور بہت سے کارکنوںکو بھی گرفتار کیاگیا جن میں‘ مَیں بھی شامل تھا۔ پھرجب امام حسن البنا کو شہید کیاگیا میں اس وقت بھی قیدمیں تھا۔ امام حسن البنا کی شہادت پر جیل میں گھنٹیاں بجائی گئیں اور ہمیں حکومت کے حق میں بیان دینے کے لیے کہا گیا۔ ہم نے انکار کردیا اور کہا:’’ مسلمانوں کے خون کی حرمت کعبے کی حرمت سے زیادہ ہے ‘‘۔ حسن البنا کو شہید کیا گیا ہے۔ ان کا قتل ظلم ہے۔ وہ مظلوم تھے۔ ہم کیسے کہہ دیں کہ وہ شر پسند تھے ‘‘۔ یہ کہنے پر ہمیں قید میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے ایسی کوٹھڑیوں میں رکھاگیا جن میں چٹائی تک نہیں تھی۔ صبح کے وقت ایک روٹی اور دال لائی جاتی۔ ہم جب تک اس کمرے میں رہے ہم نے سورج نہیں دیکھا۔ وہ کمرہ نہایت گندا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم گند میں رہیں۔ ہمیں اس کوٹھڑی میں ایک ماہ تک رکھا گیا۔ پھر ہکتر کی فوجی چھائونی میں منتقل کردیاگیا۔ ہکتر فوجی چھائونی امریکیوں کے زیر انتظام تھی۔ امریکی فوجی اپنی عادات اور مزاج کے اعتبار سے جانور تھے۔ قضاے حاجت کے لیے پردے کا انتظام تک نہ تھا۔ ایک یہاں پر بیٹھا ہے تو دوسرا وہاں پر۔ پاکیزگی حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اخوان المسلمون کے ساتھی ایک ایک کرکے چادر تان کر کھڑے ہوجاتے تاکہ قضاے حاجت کے وقت ستر ہوسکے۔

انھوں نے ہمیں سوشلسٹوں کے ساتھ رکھا ان دنوں سوشلسٹ عناصر متحد تھے اوران کے  سربراہ کا نام ہنری کریز تھا جو مصر کے مال داروں میں شمار ہوتاتھا۔ایک روز امریکیوں نے    اخوان المسلمون کے ساتھیوں کومزہ چکھانے کی ٹھانی۔اخوان کے ایک ساتھی نے فوجی افسرسے ذرا کھردرے الفاظ میں بات کی ،مقصود فوجی کی شان میںکوئی گستاخی نہیں تھی، بلکہ اپنے حق کی بات تھی۔ اس پر وہ بپھر گئے ، ایسا لگ رہاتھا کہ فوجی معرکہ درپیش ہے۔ بڑی تعداد میں فوجی آگئے۔ مجھے اس چھائونی سے سوشلسٹوں کے ساتھ حوالات میں منتقل کردیا گیاتھا۔ جیل میں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ انسان کو کسی غیر قوم کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن پاک میں سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کو کہاتھا کہ لأعذبنہ عذاباً شدیداً أولأذبحنہ’’میں اسے سخت سزا دوں گا یااسے ذبح کردوں گا ‘‘۔علما اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہد ہد کو سلیمان علیہ السلام نے جو سزا دینے کا فیصلہ کیاتھا وہ یہ تھا کہ اسے غیر جنس کے پر ندوں کے ساتھ رکھا جائے گا۔ ہمیں سوشلسٹوں کے ساتھ رکھا گیا۔ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے مختلف چیز تھے۔ مزاج کے اعتبار سے پست فطرت انسان۔ سگریٹ ٹکڑے تک کے لیے ایک دوسرے سے خیانت کرتے تھے۔ اپنے بھائی کی چوری کرلیتے، ایک دوسرے کا کھانااچک کر کھاجاتے۔ آپس میں جھگڑتے۔ مختصراً یہ کہ وہ مادی جانور تھے۔ ہمیں حوالات سے فوجی چھائونی کے ڈائریکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ اس چھائونی میں شیخ یوسف قرضاوی اور دوسرے ساتھی بھی تھے۔ مجھ اکیلے کو حوالات میں لے جایا گیا۔ فوجیوں نے مجھے لاٹھیوں اور سریوں سے مارا۔ بہت شدید مارا، لیکن اللہ کی قسم، بری طرح مارنے کے بعد جب مجھے واپس لایا گیا تو کوئی درد محسوس نہیں ہو رہاتھا۔ ایسے لگ رہاتھاجیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میری آنکھ کے نیچے لوہے کا راڈ لگنے سے نشان پڑ گیاتھا لیکن الحمد للہ آنکھ کو کچھ نہ ہوا۔ اخوان پریشان تھے کہ وہ کیا کریں۔ جب میں واپس لوٹا تو مجھے حوالات میں دیگر اخوانی ساتھیوں سے الگ رکھا گیا ، مجھ پر پانی بھی بند کردیا گیا۔ اخوان کے ساتھی بہت پریشان تھے اور مجھ تک پانی پہنچانے کی کوششیں کررہے تھے۔ میرے دروازے کے نیچے پتا رکھ کر اس پر پانی ڈالتے تاکہ مجھ تک پہنچ جائے۔ ہماری سب سے بڑی مشکل گرمی تھی۔ شدید گرمی، کمرے کی چھت لوہے کی تھی۔ کمرہ گرم ہوجاتا تھا۔ تازہ ہوا کے داخلے کی کوئی صورت نہ تھی۔ دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں۔ہم تازہ ہوا لینے کے لیے اپنی ناک ٹوٹی ہوئی جالیوں کے سوراخوں پر رکھتے تھے۔ یہ امام حسن البنا کی شہادت کے کچھ ہی زمانہ بعد کی بات ہے۔

  •  آپ نے امام حسن البنا کے ساتھ زندگی گزاری۔ ان کی شخصیت میں آپ نے اہم صفات کیا پائیں ؟
  •  امام حسن البنا کی شخصیت کی اہم صفات لوگوں کا دل جیتناہے۔ لوگوں کو اسلام کی دعوت کے گرد جمع کرنا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن البنا ہمیشہ ایسے راستوں سے دور رہتے جو قانو ن سے متصادم ہوں۔ امام حسن البنا نے کہا سب کچھ قانون اور نظام کے مطابق ہوگا۔ہم اسی کیمپ میں تربیت حاصل کرنے جاتے جو اسکائوٹس کے لیے قائم کیاگیا تھا۔ اس میں خیمے تھے اور اسپورٹس کا سامان تھا۔ ہم وہاں پر بادشاہ کے اسکائوٹس کی حیثیت سے جاتے،تب تک ولی عہد تھا۔ وہ بادشاہ نہیں بناتھا۔

ایک اور مثال دیتاہوں۔اخوان کے ایک ساتھی احمد حسن نے بہادری دکھانا چاہی، اس کے ساتھی جو اخانہ میں گئے اور توڑ پھوڑ کی۔اسی طرز پر اخوان کے بعض دیگرساتھیوں نے بھی کارروائی کرنا چاہی، مگرامام حسن ا لبنا نے انھیں ایسا کرنے سے سختی سے منع کردیا:’’ یہ ہمارا نہیں، حکومت کا کام ہے۔ ہمارا کام دعوت ہے۔ ہم دعوت کا کام کریں گے ، ہم پارلیمنٹ کے ذریعے جوا اورشراب رکوائیں گے ‘‘۔امام حسن البنا لوگوں کی رہنمائی حکمت اور دانش سے کرتے تھے۔ وہ اتحاد کے داعی تھے۔ وہ تفرقہ پیدا کرنا نہیں چاہتے تھے ، وہ انتشار پھیلانے کو نا پسند کرتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ ہم پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی لائیں گے۔ قانون کے ذریعے تبدیلی لائیں گے ،     ہم لڑائی نہیں کریں گے ، فساد نہیں کریں گے ،لیکن امن پسندی اور روشن خیالی کے راگ الاپنے والوں کو دیکھیں اسی امن کے علَم بردار کو قتل کردیا۔

  •  آپ نے ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللّٰہ کا نام پہلی دفعہ کب سنا؟
  •  ہم نے ان کا نام ۴۰ کے عشرے میں سنا۔
  •  آپ کو ان کے بارے میںان کی تصنیفات کے ذریعے علم ہوا۔
  •  جی ہاں ان کی کتابوں کے ذریعے مثلاً  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں۔
  •  تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
  •  اسلامی تحریک کا مستقبل یقینا مامون ومحفوظ ہے، ان شا ء اللہ۔ دعوت کے لیے اپنا سب کچھ خاص طور پر اپنا سارا وقت کھپادینے کی ضرورت ہے۔ فقہ اور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔لوگوں کو سمجھ دار لیکن متحرک و فعال ہونا چاہیے ، وہ لوگ جوعلم دین و دنیا رکھتے ہوں،انھیں آگے لانا چاہیے۔