میں نے پہلی مرتبہ امام البنا کو بالائی مصر کے ضلع قنا کے شہر اسنا کے ایک دور دراز گاؤں میں دیکھا۔ جس میں زیادہ تر ہمارے قبیلے المطاعنۃ کے لوگ آباد تھے ،اس وقت تک میں سیاست، قربانی پر مبنی جدوجہد، استعمار کی خرابیوں، انگریز کے قبضے‘ اس کی ہیبت اور اسلام پر بحیثیت دین اس کے سفاکانہ حملوںسے آگاہ نہ تھا‘ اور نہ میں عیسائی مشنریوں کے جال، بیرونی ذرائع ابلاغ کی چیرہ دستیوں اور علاج و تعلیم کے پردے میں ان عالمی ایجنسیوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے لٹریچر کے سیلاب ہی سے واقف تھا، جو علم اور صحت کے نام پر الحاد واباحیت پھیلانے اور مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا تھیں۔
اگرچہ میں اس بارے میں کچھ نہ کچھ سنتا بھی رہتا تھا۔ کیونکہ میرا شمار گاؤں کے ان بچوں میں ہوتا تھا جو گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے اور اسکول کی لازمی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ پڑھنے لکھنے اور قرآن کریم حفظ کرنے کے سوا میرا مشغلہ کچھ نہ تھا‘ جب کہ میرے اکثر دوست کھیتی باڑی اور دیگر ضروریات زندگی کے حصول میں اپنے گھر والوں کی مدد کرتے تھے۔ میرے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ میں فرصت کے لمحات میں گاؤں کے ان پڑھ لوگوں کو الاہرام اخبار پڑھ کر سناؤں۔ یہ وہ واحد اخبار تھا جو میرے ایک ماموں، گاؤں کے چودھری اور مقامی سرکاری افسر کے مشترکہ تعاون سے آیا کرتا تھا۔میں نے سنا کہ اخوان المسلمون کے مرشد عام حسن البنا میرے قبیلے کے خاندانی مہمان خانہ کیمان المطاعنۃ میں بطور مہمان تشریف لارہے ہیں۔ یہ دیوان خانہ میری رہایش گاہ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔ چنانچہ میں نے اس عظیم شخصیت کی زیارت کے ارادے سے رخت سفر باندھا جس کا نام اخبارات میں مختلف حوالوں سے چھپتا رہتا تھا۔ خاص طور پر النذیر رسالے میں ان کا لکھا اداریہ میری توجہ کا مرکز ہوتا جو میرے ماموں جب بھی شہر جاتے میرے لیے لے آتے۔ یہ اگست ۱۹۳۸ء کے آخری ایام تھے ۔ یہ نووارد مہمان دُور سے اور پھر قریب سے میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ کھلے سفید، سادہ، موٹے اور کھرّے لباس میں ملبوس تھا، سر پر ترکی ٹوپی کے اوپر پگڑی بندھی ہوئی تھی، درمیانی قدوقامت‘ سرخی مائل سفید رنگ، خوب صورت متشرع داڑھی، دل میں اُترنے والی نگاہ بصیرت___ جب وہ سادہ دیہاتیوں کے جمگھٹے میں چل پھر رہاتھا تو گویا اس کے گرد نور کا ہالہ بن جاتا جسے دیکھ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی۔ وہ سیکڑوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنا جانتا تھا۔
ظہرانے کے بعد امام نے کچھ دیر آرام کیا۔ دھوپ کافی تیز تھی اور صعید مصر کے بالائی علاقوں کی گرمی ویسے بھی بہت مشہور ہے، یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا ۔آپ نے گاؤں کی مسجد میں امامت فرمائی ۔ گاؤں کا نقشہ بھی عجیب تھا۔ کوڑے کے ڈھیروں سے اٹا ہوا، جن پر گرد اڑتی رہتی تھی۔ دھوپ کی تمازت چہار اطراف سے اپنی لپیٹ میں لیے رہتی۔ اس سب کے باوجود نہ تو امام بے چین ہوئے، نہ اکتائے ،کسی تکلیف پر اُف تک نہ کی۔
ایک دن نماز کے بعد اپنی تقریر کی ابتدا اس حدیث سے کی:
وَمَا اجتَمَعَ قَومُ فِی بَیت مِن بُیُوتِ اللّٰہِ، یَتلُونَ کِتَابَہ، وَ یَتَدَارَسُونَ آیَاتِہ، ‘إِلَّا حَفَّتہُمُ المَلَائِکَۃُ وَ غَشیَتھُم الرَّحمَۃ (مسلم) کوئی گروہ ایسا نہیں ہے جو اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اس کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے او راس کی آیات کو سیکھتا اور سکھاتا ہے اِلا یہ کہ فرشتے اسے گھیر لیتے ہیں۔ اور (اللہ کی) رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے۔
پھر انھوں نے بعض آیات قرآنی کی تفسیر کی اورانھیں لوگوں کے اجتماعی حالات پر منطبق کیا۔ مجھے اب ان کی گفتگو کی تفصیل یاد نہیں ہے۔ البتہ اس کی ایک زندہ تصویر اب بھی میری عقل و دل کو جذبات سے لبریز کردیتی ہے۔قبیلے کی مختلف سرکردہ شخصیات کے دیوان خانوں کے تھکادینے والے دورے کے بعد جب رات چھا گئی اور لوگ نیند کی آغوش میں چلے گئے تو وہ تنہابیٹھ کر گہری خاموشی کے عالم میں اپنے ا ورادو وظائف پڑھنے لگے اور اپنے معمول کے مطابق نوافل اداکرنے لگے۔
اس دورے میں ان کے ہمراہ ایک ساتھی تھے۔ بھرے بھرے جسم، مضبوط ساخت کے مالک، نئے نئے ازہر سے فارغ ہوئے تھے، عمامہ و جبہ میں ملبوس۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لوگ ان کے تصنع و بناوٹ اور ان کی گفتگو میں خود پسندی کی بنا پر ان سے مطمئن نہ ہوئے۔ یوں لگا کہ گویا ایک مصنوعی شخصیت ان کے لیے بوجھ بن رہی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اسے نظر انداز کردیا اور امام البنا کے گرد ہی جمع رہے۔ اگرچہ مہمان نوازی ان کی بھی جاری رہی ۔
کیمان المطاعنۃ سے امام اصفون المطاعنۃ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ فراج طایع خاندان کے مہمان ہوئے۔ اس خاندان کے سربراہ نے کئی سال ازہر میں بغیرکوئی ڈگری لیے گزار دیے، جیسا کہ اس زمانے میں کچھ لوگوں کی روایت تھی۔ پھر وہ اس حلقے سے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوگئے اور شیخ محمد امیر کو یقین دہانی کرائی کہ وہ گاؤں میں اخوان کی شاخ قائم کریں گے۔ شیخ امیر نے بھی ازہر میں دو سال گزارے تھے اور ناگزیر وجوہ کی بنا پر اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ انھوں نے اس محرومی کی تلافی یوں کی کہ وہ ہمیشہ گاؤں کے نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے پر ابھارتے رہے۔ وہ خود انھیں اسکولوں اور قاہرہ کے اداروں اور کالجوں میں داخلہ دلانے کی مشقت برداشت کرتے۔
اس بار میں نے انھیں زیادہ قریب سے دیکھا۔ میں ایک سال بڑا ہوگیا تھا اوران سے میرے لگائو میں اضافہ ہوتا گیا۔ انھوں نے اپنے پروگرام، عبادات اور لباس میں کوئی تبدیلی نہ کی تھی۔ اس دفعہ شیخ عبد المعز عبد الستارنامی ایک دوسرا ازہری نوجوان ان کا رفیق سفر تھا۔ وہ کلیہ اصول الدین کا طالب علم تھا۔ لوگوں نے اس کے لیے بھی اسی طرح چاہت کا اظہار کیا جس طرح امام البنا کے لیے کیاتھا۔ وہ نہایت پروقار منکسر المزاج نوجوان تھا۔ ’’وہ حیا سے سر جھکاتا اور چہرے اس کے رعب سے جھک جاتے تھے‘‘۔ حسن البنا اور ان کا یہ ساتھی اصفون المطاعنۃ سے ہمارے پاس آئے تھے۔ اپنی قیام کی مدت پوری کرنے کے بعد وہ ’’إسنا‘‘روانہ ہوگئے تاکہ وہ بالائی مصر کے باقی شہروں کا دورہ مکمل کرسکیں۔
ان دنوں، جب کہ میں جوانی کی دہلیز پر دستک دے رہا تھا، میں نے محسوس کیا کہ جمعیت شبان المسلمین وقت گزاری اور خطابت کی مشق کے لیے اچھی جگہ ہے۔ اگرچہ اس وقت میرا یہ بھی خیال تھا کہ ان کے پاس واضح سیاسی لائحہ عمل نہیں ہے‘ اور وطن کی آزادی ہرگز ان کے مجوّزہ طریقے سے حاصل نہ ہوسکے گی۔ بہرحال آخر شب نشے میں مدہوش غیر ملکی فوجیوں کی نقل و حرکت ہمارے جذبات بھڑکا دیتی اور ہماری رگوں میں بغاوت اور ٹکرائو کے جذبات دوڑا دیتی۔
ایک روز اچانک میں اخوان المسلمون کے دفتر چلا گیا جو شہر کے وسط میں ایک عمارت کی زمینی منزل میں قائم تھا۔ دفترایک لیکچر ہال پر مشتمل تھا جو نماز کے اوقات میں نماز گاہ اور دفتری اوقات میں دفتر کا کام دیتا۔ تیسرے کمرے کے ساتھ طہارت خانے کا انتظام تھا۔ میں دفتر میں داخل ہواتومیرے ذہن میں اس عظیم شخصیت کی تصویر تھی جسے میں نے دو سال پہلے اپنے دیوان خانے (گاؤں) میں دیکھا تھا۔
اخوان المسلمون کی سرگرمیاں مختلف لیکچر اور دروس پرمشتمل تھیں۔ خطابت کی مشق بھی کروائی جاتی تھی۔ ایسی سفری مہمات پربھی بھیجا جاتا جن میں بھلائی کے کاموں میں تعاون کے لیے تربیت دی جاتی۔ ان سرگرمیوں میں سیکنڈری اسکولوں کے اساتذہ و طلبہ اور چھوٹے ملازمین شریک ہوتے‘ اور معہد دینی کے بعض طلبہ بھی شریک ہوجاتے۔ البتہ معہد کے اساتذہ الگ تھلگ رہتے اورصرف جمعیت شبان المسلمین میں وعظ و خطابت پر اکتفا کرتے۔
۲۰ مئی ۱۹۴۱ء کو وزیر اعظم حسین سرّی نے حسن البنا کاتبادلہ عباس اول قاہرہ پرائمری اسکول سے پرائمری اسکول قنا میں کردیا اور وہ بھی تعلیمی سال کے آخر میں۔ حسن البنا صرف منصبی ذمہ داری سنبھالنے آئے اورپھر واپس چلے گئے، کیونکہ میں نے اس سال انھیں دوبارہ نہیں دیکھا۔ میں خود بھی اپنے امتحانات میں مصروف ہوگیا۔ دوسرے سال کے آغاز میں وہ تشریف لائے اور میں اپنا پورا وقت ان کے ساتھ گزارنے لگ گیا۔
حسن البنا کی اس مضمون میں دل چسپی کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ اس مضمون کے ہرکلاس میں ہفتہ وار دو پیریڈ تھے جس کا مطلب تھا کہ وہ اسکول کے تمام طلبہ کو پڑھائیں گے جو ۱۵کلاسوں اور سیکشنوں میں پھیلے ہوئے تھے ۔اس طرح ان کا رابطہ تمام طلبہ سے ہوگیا جو اب دور جوانی میں داخل ہونے والے تھے اور وہ ان میں سے ایسے افرادِکار تیار کرسکتے تھے جن کی مستقبل میں ملک کو ضرورت تھی۔ عملاً انھیں اس مقصد میں کامیابی بھی ہوئی۔ پس یہ خوش باش استاد، ہمیشہ مسکراتا ہوا، پرسکون طبیعت کا مالک، شایستہ و پر وقار،ایک غیر اہم مضمون میں تمام طلبہ کی دل چسپی کا باعث بننے لگا ۔ وہ پیریڈ کا کچھ حصہ خوش خطی سکھاتاجسے بچے خوشی خوشی سیکھتے۔ وہ ان سے کھل کر گفتگو کرتا۔ ان کے ذاتی معاملات میں دل چسپی لیتا۔ ان کی محدود دنیا سے انھیں دور نہ کرتا۔ وہ ان سے بغیر سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ کے سوال و جواب کرتا:آج صبح کی نماز کس نے پڑھی ہے ؟ نماز پڑھنے والوں کو وہ انعام دیتا ،ان کی حوصلہ افزائی کرتا۔ کس نے قرآن میںسے کچھ یاد کیاہے ،وہ سنتااور تصحیح کرتا۔ پھر جب آدھی چھٹی ہوتی تو وہ ان سے اسکول کی مسجد میں ملنے کا وعدہ کرلیتا۔ایک ماہ کے اندر اندر وہ اسکول کے تمام طلبہ کے محبوب ترین استاد بن چکے تھے۔
یہ مضمون اختیار کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ خوش خطی سکھانے کا پیریڈ اپنے وقت پر ختم ہوجاتا۔ اس کے لیے انھیں پریڈکے بعد کسی تصحیح کی ضرورت ہوتی اور نہ پریڈ سے پہلے کسی تیاری کی۔ وہ دن کا بقیہ اور رات کا بڑا حصہ دعوت دین اور اسکے مددگاروں (انصار) کی تلاش میں یا عبادت و مطالعے میں صرف کردیتے۔
حسن البنا ہوٹل جبلاوی الجدید میں ٹھیرتے۔ یہ ان دنوں قنا کے اعلیٰ ہوٹلوں میں سے ایک تھا۔ اس کی عمارت آج تک قائم ہے اگرچہ مرور ایام سے اس کی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ حسن البنا کا پروگرام معمول کے مطابق یہ ہوتا کہ چار بجے ہوٹل آجاتے،کپڑے تبدیل کرتے، کچھ دیر آرام کرتے۔ پھر اخوان کے دفتر آتے اورنماز مغرب کی جماعت کرواتے۔ خشوع و خضوع سے بھرپور نماز، نہ اتنی لمبی کہ لوگ تھک جائیں اور نہ اتنی مختصر کہ صرف فرض کا بوجھ اتارنا مقصود نظر آئے۔ اس کے بعد جماعت کے دیگر معاملات نمٹاتے، اور ملاقاتیوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہوجاتے ۔ کہیں وقت دیا ہوتا تو وہاں چلے جاتے۔ کبھی کبھار دیگر اسلامی اور مسیحی تنظیموں کے ذمہ داروں سے گفتگو رہتی۔ پھر نماز عشا کے لیے تشریف لے جاتے۔ بعد میں امام غزالی کی احیاء علوم الدین سے درس دیتے۔ اس کتاب کی وہ بہت تعریف کرتے بلکہ انھوں نے ہی سب سے پہلے ہماری توجہ اس کی طرف مبذول کروائی۔ شب جمعہ نمازعشا کے بعد عام لیکچر ہوتا جس میں شہر کے کونے کونے سے لوگ شریک ہوتے‘ چاہے ان کا اخوان سے تعلق ہو یا نہ ہو۔ اس لیکچر میں عوام کو درپیش مسائل پر گفتگو رہتی اور دینی حوالے سے ان کا حل پیش کیا جاتا۔
ان کا کیا حافظہ تھا! میں جب بھی ان سے ملا انھوں نے مجھ سے میرے اہل و عیال کی فرداً فرداً نام لے کر خیریت دریافت کی۔ یہاں تک ان لوگوں کے بارے میں بھی پوچھا جن سے ان کی ملاقات صرف چند منٹ کے لیے ہوئی تھی۔
وہ فصیح عربی پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ فصیح و بلیغ، صاف، آسان اور واضح عربی میں گفتگو کرتے تھے ۔وہ اگر کسی شخص کے کردار پر خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو گفتگو کرتے تو صرف اتنا ہی ذکر کرتے جتنا کھوٹ اور باطل اور دین سے انحراف اس کے اندر دیکھتے۔ مرض کی تشخیص کرتے، علاج تجویز کرتے اور وہ تدابیر بتاتے جو کارگر ہوتیں۔ لوگوں کا انتخاب کرتے اور انھیں اکٹھا رکھنے کی سعی کرتے اوروہ ہمیشہ فرمایا کرتے: جن امورپر ہم متفق ہیں ان کے لیے ہم مل جل کر کام کریں گے‘ اورجن باتوں میں ہمیں ایک دوسرے سے اختلاف ہے ان کے بارے میں ایک دوسرے سے درگزر کا معاملہ کریں گے۔ میں نے انھیں ہر طرح کے لوگوں کے لیے فراخ دل پایا۔ جو ان سے عمراور مناصب میں بڑے تھے یا جو ان سے عمر اور مرتبے میں کم تھے‘ سب کو اہمیت دیتے اور مشکلات پر قابو پانے میں ان کی مدد کرتے۔ اس مقصد کے لیے قاہرہ میں اخوان المسلمون کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تعلقات عامہ کا ڈائریکٹوریٹ قائم ہوا۔ جس کا کام ملکی اور عالمی سطح پر اخوان کی مدد کرنا‘ ان کی روز مرہ مشکلات کا حل ڈھونڈنا تھا۔ شیخ البنا کی انتہائی خواہش ہوتی کہ اخوان ہمیشہ باہمی محبت و تعاون کی بنیاد پر جمع ہوں۔ وہ جہاں بھی جاتے اس بات کا اہتمام کرتے کہ وہ جہاں سے آ رہے ہیں وہاں کے اخوان کا سلام اپنے تمام حاضرین کو پہنچائیں۔
حسن البنا کے دامن دل کو فطرت کا حسن والہانہ طور پر کھینچتا۔ نیل کا منظر، طلوع و غروب آفتاب کے لمحات اور پہاڑوں کا رعب و جلال انھیں بہت بھلا لگتا کیونکہ وہ اس میں خدا کی قدرت دیکھتے۔ ہمیں بارہا قنا کے جنگلوں میں ان کے ساتھ تفریح کے مواقع ملے۔ یہ جنگل شہر کے کنارے صحرا کے ایک حصے میں لگائے گئے تھے ،وہاں ہم نماز مغرب پڑھتے۔ ہماری نگاہوں کو کوئی دیوار نہ روکتی اور نہ کھلے آسمان کو دیکھنے میں کوئی چیز حائل ہوتی۔چندہی ماہ گزرے تھے کہ انگریزی استعماراور اس کے اشاروں پر چلنے والی مصری حکومت نے محسوس کرلیاکہ حسن البنا بالائی مصر (صعید) میں قاہرہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ وہاں انھیں ایک نیا اور وسیع میدان میسر ہے۔ ایسے مخلص لوگوں سے ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں جنھیں تہذیبی یلغار نے خراب نہیںکیا اورخوشامد نے ان کے دل و دماغ تک راہ نہیں پائی۔ چنانچہ انھیں واپس قاہرہ بھیج دیا گیا۔
حسن البنا نے قنا سے کوچ کرنے سے پہلے رخصت کے ان لمحات میں بھی ایک عظیم کارنامہ انجام دے دیا۔ انھوں نے لوگوں کی ان سے محبت اور تعلق کو مقصدیت میں ڈھالتے ہوئے کہا:میں چاہتا ہوں کہ اخوان کا یہ دفتر کسی کرایے کی عمارت کا فلیٹ نہ ہوبلکہ خود آپ کی ملکیت ہو۔ چنانچہ ہر طبقے کی طرف سے چندے کا ڈھیر لگ گیا۔ اس مرکز کی تعمیر شہر کے بہترین مقام پر ہوئی۔ اس میں ایک بڑا لیکچر ہال، ڈسپنسری ،لائبریری، مسجد اور ایک مہمان خانہ قائم ہوگیااور دیکھتے ہی دیکھتے پورے علاقے کے عوام و خواص کے لیے مرکز نگاہ کی حیثیت اختیار کرگیا۔
ان کی روانگی کے بعد ہم نے مکمل منصوبہ بندی کی کہ ہم کیسے اہم مراکز پر انگریز کی مزاحمت کریں گے۔ بجلی و ٹیلی فون کی تنصیبات کے مراکز کو ہدف بناتے ہوئے کیسے چند منٹوں میں پورے شہر کی بجلی منقطع کردیں گے ۔ اس مہم کو کون اور کیسے سرانجام دے گا؟ چنانچہ مختلف اداروں میں کام کرنے والے ہمارے کارکن مختلف ضروری معلومات اور نقشے لے آئے۔ حسین رشدی نے بجلی منقطع کرنے کی تربیت اپنے ذمے لی کہ ہم کیسے بغیر تکلیف اٹھأئے اہم مقامات کی بجلی معطل کردیں۔ برطانوی افواج کے پڑاؤ اور اسلحے کے ذخائر کہاں کہاں ہیں‘ فوجی مداخلت کی صورت میں ہم کیسے ان کا مقابلہ کریں گے؟ مجھے نہیں معلوم ان دنوں قاہرہ میں کیا کیا ہورہاتھا، لیکن چند ہی دنوں میں حسن البنا کو رہا کردیا گیا ،اخوان المسلمون سے پابندی اٹھا لی گئی۔ اور انھوں نے اپنی سرگرمیاں مزید زور و شور سے شروع کردیں۔ اب انھیں غیر معمولی عوامی حمایت بھی حاصل تھی۔
قنا میں اخوان کی وسعت پذیر سرگرمیوں کے باوجود ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں پڑھائی کی حالت اچھی نہ تھی۔ اساتذہ کا معیار بہت پست تھا۔ تربیتی معیار بھی نہ ہونے کے برابر تھا ۔کسی کا کوئی قابل ذکر تخصص بھی نہ تھا۔ ہر استاد ہر مضمون پڑھادیتا تھا۔ شہر کی ثقافتی زندگی کا حال بھی پتلاتھا۔انھی دنوں معہد میں نئے ڈپٹی ڈائرکٹر کامل عجلان آئے جو صحافی اور ادیب تھے۔ انھوں نے ہمارے جامد افکار میں اپنے نئے اسلوب فکر و فہم سے تہلکہ برپا کردیا۔ مجھے انھوں نے گھٹن کی اس فضا سے نکل جانے کے لیے ابھارا اورمیں نے قاہرہ سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلیا‘ اور یہ فیصلہ کیا کہ انٹر میڈیٹ قاہرہ سے مکمل کروں گا۔
۹اکتوبر ۱۹۴۴ء کو میں قاہرہ پہنچا۔تب قاہرہ میںطرح طرح کے مظاہرے عروج پر تھے۔ وفد پارٹی کی حکومت تخت مصر سے نہایت تلخ چپقلش کے بعد مستعفی ہوگئی تھی۔ شاہ فاروق نے احمد ماہر پاشا کو نیا وزیر اعظم نامزدکیاتھا۔ پارلیمنٹ تحلیل کردی‘ اورپھر سے ایک ایسی سیاست کی ابتدا کردی گئی، جس کا مرکز شاہ فاروق کی ذات تھی۔
قاہرہ کے شور نے مجھے مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا۔ طلبہ کے مظاہرے رکنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اور طرح طرح کے ثقافتی اجتماعات، سوسائٹیوں، یونینوں اور یونی ورسٹیوں کی سرگرمیاں چین نہ لینے دیتی تھیں۔ ان میں سے بعض پروگراموں میں ہم ٹکٹ خرید کر شریک ہوتے تھے۔ اس لیے مجھے اخوان المسلمون کے مرکز سے دوبارہ رابطہ کرنے میں کچھ وقت لگا ۔ یہ مرکز حلمیہ الجدیدہ کے ایک اہم میدان میں واقع تھا۔یہ قاہرہ کے عین مرکزمیں واقع تھا، تب یہ علاقے کی سربرآوردہ شخصیات کا ٹھکانا ہوا کرتاتھا۔
اس میدان میں اخوان کی دو عمارتیں تھیں۔ ایک پرانی طرز کی دو منزلہ عمارت جس میں اخوان کا پرانا مرکز اور ان کے اخبار کا دفتر تھا۔ دوسری ایک کشادہ و آرام دہ عمارت تھی جو اخوان نے حال ہی میں خریدی تھی۔ عمارت خریدنے اور ایک روزنامہ نکالنے کے لیے پورے مصر کی سطح پر اہلِ مصر نے تعاون کیا تھا۔ ملک کے تمام ہی طبقات، مال دار و فقرا ، تعلیم یافتہ مزدوروں، مردوں، عورتوں اور بچوں تک نے اپنی بچتیں‘ اورزیورات تک اس مد میں دے دیے تھے۔ قاہرہ میں اس محل نما عمارت کے خوب صورت ’العربی ہال‘ میں میں نے پہلی مرتبہ حسن البنا کوقاہرہ میں دیکھا۔ ان کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں منعقدہ اجتماعات میںسے ایک اجتماع کے بعد وہ عوام کو سلام کررہے تھے۔ انھی کے درمیان ،میں نے امین الحسینی مفتی فلسطین اور بریگیڈیر صالح حرب صدر جمعیت شبان المسلمین کو دیکھا۔ وہاں دیگر بہت سی شخصیات کو میں نہیں جانتاتھا۔
میں نے مجمع چھٹ جانے کا انتظار کیا۔ پھر ان کی طرف بڑھا۔ وہ مجھے فوراً پہچان گئے اور میرا پرجوش استقبال کیا۔ پھر عادت کے مطابق میرے اہل و عیال کے بارے میں فرداً فرداً دریافت کیا۔ میری رہایش اور پڑھائی کے بارے میں پوچھا۔ پھر گاہے گاہے ملتے رہنے کے لیے کہا۔ میںاب اکثر مرکز آنے جانے لگا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ استاذ مرشد - یہ شیخ البنا کا لقب تھا‘ ہرمنگل کو عشا کے بعد درس دیتے ہیں‘ اور یہ حالات کے مطابق دو گھنٹے اور کبھی تین گھنٹے تک طویل ہوجاتا۔ قاہرہ کے کونے کونے، اور آس پاس کے شہروں اور قصبوں سے لوگ کھچے چلے آتے تھے ۔ مرکز کا صحن اورسامنے والا میدان بھر جاتے، سامنے کی شاہراہوں پر بھی تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی۔ لوگ اپنی کرسیاں ہمراہ لاتے یا قدموں پرہی کھڑے رہتے تاکہ وہ اس الہامی شخصیت کو سنیں جس کی بلاغت بے مثل تھی ،جو عوام کے دلوں تک پہنچنا جانتا تھا، صداقت جس کے عمل کی بنیاد تھی۔ ان کی گفتگو جامع ہوتی۔ دین، سیاست، معیشت، سماجیات‘ غرض یہ کہ ہر وہ موضوع جس کا تعلق زندگی سے ہوتا، ان کی تقریر اس سے سجی ہوتی۔ تقریر کے آخر میں عام سامعین کی باری ہوتی کہ وہ جو وضاحت طلب کرنا چاہیں اسے لکھ کربھیج دیں۔ پھر نصف کلومیٹر کے فاصلے تک پھیلے ہوئے عوام کے اس اجتماع کی طرف سے آمدہ سوالوں کے جوابات لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے دے دیے جاتے‘ خواہ سوال کتنا ہی حساس کیوں نہ ہوتا۔
ایک روز سوال کیا گیا کہ وزیر اعظم اسماعیل صدقی پاشا نے اخوان کو فنڈ فراہم کیے ہیں تاکہ وہ ان کو اپنی سیاست کے ڈھب پر لاسکے؟انھوں نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اصولاً جو الزام لگاتا ہے اسی کو الزام ثابت بھی کرنا چاہیے۔ کیونکہ ثبوت کی فراہمی مدّعی پر ہے۔ لیکن اگرالزام ثابت کرنے کے بجاے جھگڑے پر اتر آئے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اور اس سے یہ کہو کہ بفرض محال اگر تمھارا الزام سچا ہے تو صدقی (وزیر اعظم) نے اپنی جیب سے کچھ نہیں دیا۔دنیا کو یہ جان لینا چاہیے کہ تحریک اخوان کسی بھی صورت اپنی دعوت یا طریق کار سے ایک انچ بھی نہیں ہٹ سکتی، خواہ کوئی اس کے بدلے اسے زمین بھر سونا ہی کیوں نہ پیش کرے۔
شیخ البنا کا ایک ہفتہ وار خطاب ’جمعرات کی بات‘ سے مشہور تھا۔ یہ یونی ورسٹی کے سطح کے طلبہ کے لیے ہوتاتھا۔ اس کا رنگ وعظ و بیان کے بجاے بحث و مباحثہ کا ہوتا جس میں ہر دفعہ کسی ایک موضوع پرگفتگو اور بحث و تمحیص ہوتی تھی۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا کیونکہ یہ پروگرام شروع ہونے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھیں منصہ حیات سے غائب کردیاگیا۔
ایک دن میرے ایک رشتہ دار شیخ محمد الامیر، قاہرہ آئے۔ شیخ البنا سے گہرا تعارف رکھتے تھے۔ چنانچہ ہم ان کی زیارت کے لیے مرکز عام گئے۔ شیخ کی مصروفیات کے پیش نظر انھوں نے ہمیںاگلے دن صبح نو بجے گھر آنے کا کہا۔ مقررہ وقت پر ہم ان کے پاس پہنچے اس وقت وہ حلمیہ میں مرکزعام سے قریب سنجر الخازن روڈکے قریب قدیم قاہرہ کے گھروں میں سے ایک گھر کی پہلی منزل میں رہایش پذیر تھے۔ انھوں نے سیڑھیوں کے ساتھ متصل کمرۂ استقبال میں ہمارا استقبال کیا۔ میں نے ایک گہرے سکوت کے عالم میں اس شخص کے گھر کا جائزہ لینا شروع کیاکہ جب وہ بولتا تھا تو ہزاروں انسانوں کے جذبات جھنجھوڑ دیتا تھا، جس کے اردگرد عرب مجاہدین جمع رہتے تھے، جس کے ساتھ ہم وطنوں کی بے شمار آرزوئیں وابستہ تھیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا گھر نہایت سادہ سا تھا۔ در و دیوار تو لائبریری نے گھیر رکھے تھے۔ تیسری طرف ایک سادہ سی ڈیسک تھی جس کے سامنے بانس کی دوکرسیاں تھیں جن پر ہم بیٹھ گئے‘ جب کہ وہ خود اپنی ڈیسک پر بیٹھ گئے۔ ہم سب کے لیے چائے آگئی۔ وہ دونوں بالائی مصر (صعید) اور اس کے قصبوں میں اخوان کی تنظیم کے موضوع پر اور وہاں سے قاہرہ آنے والے نوجوانوں کی تعلیم کے بارے میں محو گفتگو ہوگئے۔
اس زمانے میں اخوان محض ایک دینی یا سیاسی گروہ نہ تھا‘ بلکہ ایسی غالب قوت تھی جو سڑک، یونی ورسٹی اور فیکٹری پر چھائی ہوئی تھی۔ اس کی حرکت ایک محکم نظام کے مطابق ہوتی تھی اور اس کے معاملات کو شعبوں اور اداروں کے ذریعے منظم کیاگیا تھا۔ وہ مصر میں پہلی ایسی جامع تنظیم تھی جو ایک مضبوط طریق کار کی روشنی میں عالم عرب و عالم اسلام کے معاملات پر نظر رکھتی تھی۔ عالم اسلامی سے رابطے اور وہاں جاری مختلف تحریکات آزادی و اصلاح سے یک جہتی کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم تھا۔ ادارے اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور جدوجہد کو مہمیز دینے کا ممکنہ حد تک اہتمام کرتے۔
شیخ البنا میری راے میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کا عمل ان کے فکر سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھا۔ ان کے عمل اور دعوت میں کوئی تضاد نہ تھا۔ میرا ان پر یقین اور محبت ایک الہامی قائد کی حیثیت سے تھی۔ ان کی شخصیت کی یہ جھلک میں مجلہ نذیر اور مجلہ دعوۃ کے مدیر مرحوم صالح عشماوی میں دیکھا کرتا تھا اگرچہ انھیں شیخ البنا جیسی بلاغت، بے ساختگی اور حکمت نہ ملی تھی۔ لیکن وہ بھی ’فنا فی الدعوت‘، زمین پر چلتا پھرتا مجسمۂ اخلاص تھے۔
دو ہفتے کے اندر اندر اس اجتماع کے نتائج سامنے آگئے۔ ۸ دسمبر ۱۹۴۸ء کو نقراشی پاشا نے افواج کے کمانڈر کی حیثیت سے اخوان المسلمون پر پابندی لگانے اور اس کی تمام املاک، فنڈ اور ادارے قبضے میں لینے کا حکم دے دیا۔ اس نے اخوان کے اخبارات پر پابندی اوراس کے ہزاروں کارکنوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے۔
حسن البنا نے کوشش کی کہ بحران کے حل کے لیے وہ وزیر اعظم سے بات کریں‘ کیونکہ وہ حکومت سے ٹکرائو نہیں چاہتے تھے۔ اگرچہ اخوان المسلمون کی قوت اور جہاد فلسطین میں عملی جنگی تجربات کے بعد وہ اس قابل تھے کہ حکومت سے ٹکرا جائیں اور فتح حاصل کریں۔ مگر شیخ البنا اس حقیقت سے خوب واقف تھے کہ ایک لاکھ سے زیادہ برطانوی فوجی قنا کے صوبے میں مناسب موقع کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور نئے سرے سے مصر پر قبضہ کے لیے تیار ہیں‘ اور یوں وہ نومولود تحریک احیا کو اس کے جنم کے ساتھ ہی دفن کردینا چاہتے ہیں۔ حسن البنا نہیں چاہتے تھے کہ یہ المیہ دوبارہ رونما ہو۔
نقراشی بہرصورت حکمران رہنا چاہتے تھے اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب شاہ فاروق اور انگریز ان سے خوش ہوں۔ چنانچہ اس نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اصلاح احوال کی کسی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ اخوان پر پابندی کے فیصلہ کے ۲۰دن بعد۲۸ دسمبر ۱۹۴۸ء کو ایک طالب علم نے نقراشی پاشا پر گولی چلادی جو اس کی موت کا باعث ہوئی۔ یہ طالب علم پولیس کی وردی میں ملبوس تھا۔
دوسری طرف کچھ ادارے یہ چاہتے تھے کہ اخوان المسلمون کے مرشد عام سے نجات حاصل ہوجائے۔ ان میں سرفہرست خود شاہ فاروق تھا، جو اس بات کو نہیں بھلا سکا تھا کہ جنگ فلسطین میں مصر کی دو بنیادی قوتوں نے حصہ لیا تھا۔ ایک تو مصری افواج جو اپنے سپریم کمانڈ‘ یعنی شاہ فاروق سے احکام لیتی تھیں‘ اوردوسرے اخوان المسلمون کے دستے جو حسن البنا سے احکام وصول کرتے تھے۔ حسن البنا کے مجاہدین اپنی تربیت قوتِ ایمانی اور بہترین اسلحے کی وجہ سے ممتاز تھے۔ قربانی اور فداکاری کے جذبے کے لحاظ سے بھی نہایت فعال اور نمایاں تھے۔ انھوں نے کسی ایک معرکے میں بھی شکست نہیں کھائی تھی۔ چنانچہ وہ (شاہ فاروق) ان سے خوف محسوس کرنے لگا۔ خود انگریز اور صہیونی بھی ان نوجوانوں کے جذبۂ قتال کو دیکھ چکے تھے۔ سو یہ ہدف پر متفق ہوگئے اور ابراہیم عبدالہادی کی حکومت کو اکسایا کہ وہ حسن البنا کو ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء بوقت شام آٹھ بجے قتل کردیں۔ حملے کے بعد حسن البنا خودٹیکسی سے اترے۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے تھے۔ انھوں نے جمعیت شبان المسلمین کے فون پر بے ہوش ہونے سے پہلے دوہندسے ڈائل کیے، لیکن پورا نمبر ڈائل کرنے سے پہلے ہی بے ہوش ہوگئے۔ انھیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے قریبی ہسپتال اور وہاں سے قصر عینی لے جایا گیااور وہاں انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔