مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

حسن البنا، اخوان اورمغربی مفکرین

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

۲۰ویں صدی ، مغربی مفکرین کی تحریرات میںعموماً ’سیاسی اسلام‘ کی صدی قرار دی جاتی ہے۔ اسلام نے اس صدی میں مسلم امت کو نہ صرف مغربی سامراج کی غلامی سے نکلنے میں قوت محرکہ فراہم کی، بلکہ دنیا کے نقشے پر اس صدی میں وہ تحریکات اسلامی ابھریں جن کا مشترکہ ہدف اور مقصد ایک صالح اخلاقی معاشرے اور نظام حکم کا قیام تھا۔ ان تحریکات نے روایتی اسلامی تعبیر سے ہٹ کر اپنا رشتہ براہ راست قرآن و سنت سے جوڑتے ہوئے دین کی حرکی تعبیر اپنے ادب ، تنظیم اور نظام تربیت کے ذریعے امت مسلمہ کے سامنے رکھی۔ امت مسلمہ نے جو اپنے سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، نفسیاتی زوال کی چبھن کومحسوس کررہی تھی اور جس کے دیکھتے ہی دیکھتے مغربی سامراج کے زیراثر اس کے اتحاد کی علامتی خلافت کی جگہ مغربی لادینی نظام کو رائج کردیاگیاتھا۔ وہ اُمت جو الجزائر سے انڈونیشیا تک کہیں فرانسیسی ، کہیں پر تگالی،کہیں اطالوی اور کہیں انگریزی سامراج کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ اُمت نے اس صالح مقصد کے حصول کے لیے نئی فکر اور تعبیر پر الجزائر سے انڈونیشیا تک استقبال کیا۔ مختلف ناموں اور عنوانات سے اٹھنے والی اس تحریک نے امت کے سنجیدہ ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جو امت مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے، امید کی ایک کرن دکھائی اور یوں لوگ ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔

اس تناظر میںامام البنا نے اپنی تحریک اصلاح کا آغاز کیا۔ ان کی حیات ، تحریک کے تاریخی ارتقا، اشاعت فکر ، اداروں کے قیام ، سیاسی اتار چڑھائو ، مختلف عناصر کے ساتھ اتحاد اور ٹکرائو کو ایک لمحے کے لیے نظر انداز کرتے ہوئے، اس مقالے میں ہمارا مقصد صرف یہ دیکھناہے کہ بعض معروف مغربی مفکرین امام البنا اور ان کی تحریک کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ممکنہ اختصار کے ساتھ ہم صرف چند اشارات کی شکل میں اس موضوع سے بحث کریں گے۔

مغربی مفکرین بالعموم ۲۰ویں صدی کی اسلامی تحریکات کو روایت پرست ، رجعت پسند، بنیاد پرست عسکریت پسند ،ملوکیت کی پشت پناہ اور اس سے ملتے جلتے متضاد القاب سے یاد کرتے ہیں۔ عموماً یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ یہ تحریکات ایک تصوراتی اسلام (Utopia)کی طرف دعوت دیتی ہیں، جب کہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرجاتی ہیں۔ یہ ایک ایسے ماضی کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتی ہیں جو تاریخ کے اور اق میں دفن ہوچکاہے۔ ان پر یہ الزام بھی دھرا جاتا ہے کہ یہ اس بوسیدہ ڈھانچے کو کوہ کنی کرنے کے بعد ایک حیات نو بخشنے کی خواہش میں گرفتار ہیں اور یہ تحریکات تاریخ کی رفتار اور تبدیلیوں سے کوئی آگاہی نہیں رکھتیں۔ ان مفروضات کو کلید تصور کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ ان تحریکات کی پکار سے صرف وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ، خیالات میں گم رہنے والے اور اپنے مروجہ معاشروں سے عدم اطمینان رکھنے والے افراد ہیں۔اس قسم کے تصورات کی بنا پر اسلامی تحریکات کو بادی النظر میں بآسانی بنیاد پرست اور قدامت پرست یاروایت پسند کا عنوان دے دیا گیا۔

بعض جدید مغربی مفکرین نے ایک قدم آگے بڑھ کر نہ صرف اصلاح اور تبدیلی کی قیادت کے جذبے سے سرشار ان اسلامی تحریکات کو، بلکہ خود اسلام کو امن عالم اور جدید مغربی لادینی سیاست و معیشت پر مبنی نظام کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے ساتھ کسی مکالمے یا تبادلۂ خیال کے امکان کو ردکرتے ہوئے ٹکرائو اور قوت کے ذریعے زیر کرنے کی تلقین سے بھی    گریز نہیں کیا۔ بعض مغربی بنیاد پرست مفکرین مغرب کی عسکری اور معاشی برتری سے سرشار نہ صرف اسلامی احیا کی تحریکات کو بلکہ خود اسلام کو راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اپنا ہدف بنا بیٹھے۔ اس سلسلے میں معروف امریکی ماہر سیاسیات پروفیسر سیمویل پی ہن ٹنگٹن کا صرف ایک جملہ مغرب کی مذہبی بلکہ سیاسی و عسکری قیادت کے حالیہ ذہن کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتاہے:

The underlying problem for the West is not Islamic Fundamentalism, it  is Islam ,a different civilization whose people are convinced  of the  superiority of their culture and are obsessed  with the Inferiority of their power.۱؎

مغرب لیے بنیادی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام ہے۔ یہ ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی برتری پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار سے محرومی کا احساس ان پر چھایا ہوا ہے۔

اتنے واشگاف الفاظ میںاسلام کو بجاے خود ایک خطرہ قرار دینا علمی بوکھلاہٹ اور ایک بنیاد پرست ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔

ایک ہی تیرسے کئی شکار کرتے ہوئے ایک دوسرے مغربی مصنف جان لافن نے اسلامی  تحریکات اصلاح کو ایک جانب مغرب کے لیے خطرہ اور دوسری جانب خودان ممالک کے حکمرانوں اور حکمران طبقوں کے لیے سخت مہلک قرار دیا ہے۔پھر ان کا موازنہ یورپ کی اشتراکی تحریک سے کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ: ان کے ہتھکنڈے بھی وہی ہیں جو اشتراکی تنظیمات کے ہوتے ہیں یعنی یہ پیشہ ورجنونی اور ’روایتی ترقی پسند‘ہیں جو ہر لمحہ حملہ کرنے کی تاک میں صبر و استقامت سے منتظر رہتے ہیں۔ اس کے اپنے الفاظ میں یہ بات یوں کہی گئی ہے :

" The third group of millitant leader, the "traditional progressives", can for the West be the most dangerous of all, though short-term they are even more dangerous to the present political leaders of Arab regimes. Professional zeaolts , these men are more worldly wise than the ayatullahs . They know that their Islamic Ideal can be reached and held ---through political action. They use violance as a deliberate means to a desired end. Their strength is their group discipline and motivation. I have always been  struck by the similarity of their orgnization with that of European Communists - the same emphasis on self  contained cells the courier contact with other cells, the policy of working and watching  while being ready to strike. The most obvions samples are the  Muslim Brotherhood in Arab World and Jamaat-e-Islami in Pakistan.۲؎

جنگ جو قائدین کا تیسرا گروہ: ’روایت پسند ترقی پسند‘ مغرب کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے‘ اگرچہ مختصر مدت میں وہ عرب حکومتوں کے موجودہ سیاسی قائدین کے لیے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ پیشہ ور انتہا پسند‘ آیت اللہ (ملاؤں) سے زیادہ دنیاوی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اسلامی نصب العین سیاسی عمل کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے اور قائم رکھا جاسکتا ہے۔ وہ مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے تشدد کو سوچے سمجھے ذریعے کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ان کی طاقت‘ ان کا گروہی نظم و ضبط اور جذبہ ہے۔ مجھے ان کی اور یورپی کمیونسٹوں کی تنظیمی مماثلت ہمیشہ غیرمعمولی محسوس ہوئی: خود مکتفی چھوٹے چھوٹے گروہوں کی وہی اہمیت اور دوسرے گروہوں سے کوریئر کے ذریعے رابطہ، حملے کے لیے تیار رہتے ہوئے دیکھنے اور جائزہ لینے کی حکمت عملی۔ اس کی نمایاں مثال عرب دنیا میں اخوان المسلمون اور پاکستان میں جماعت اسلامی ہے۔

اگر اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو چار نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں :

امام البنا کی تحریک اشتراکی ماڈل پر ایک شدت پسند عسکری جماعت تھی جو حملہ آور ہو کر  ملکی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے ایک ایک لمحہ گن کر گزاررہی تھی۔ ثانیاً مغرب اور مغرب کی حمایت کی بنا پر جو حکمران مسلمان ممالک پر مسلط ہیں، یہ ان کی دشمن تھی۔ ثالثاً اس کا اصل ہدف کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ کرکے اپنی من مانی اسلامی تعبیر کو دوسروں پر زبردستی نافذ کردینا تھا اور رابعاً اس کی اصل قوت اس کے وہ کارکن تھے، جنھیں اشتراکی طرز کے کمیون(commune) یا حلقوں میں تربیت دے کر مذہبی فدائی بنادیا جاتاتھا جو جنون کی حد تک اطاعت امیر پر ایمان رکھتے تھے اور اس بناپر اس دور میں سب سے زیادہ مہلک خطرے اور اسلحے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

خرد مندی کے نام پر مذکورہ بالا قیاسات اور مفروضوں کی بنیاد پر کسی تحریک کا تصوراتی خاکہ بنالینا کہاں تک درست ہے اور اس قسم کے جذباتی، غیر حقیقی، متعصبانہ اور رنگ آلود بیانات معروضیت کی کسوٹی پر کہاں تک درست ثابت ہوسکتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب بجاے انفرادی قیاس آرائی میں تلاش کرنے کے ،خود ایک تحریک کے دستور اس کے زعما کی تحریرات اور اس کی اعلان کردہ حکمت عملی میں تلاش کیے جائیں تو شاید ایسی تحریکات کے ساتھ زیادہ انصاف کیاجاسکے۔ یہ بات دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ مغرب کے اکثر مصنف اپنے طولانی دعوئوں کے باوجود بہت کم معروضیت پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اکثر مفروضات ثانوی ذرائع معلومات اور پہلے سے مرتب کردہ احساسات پر تعمیر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض ایسے مغربی مفکرین بھی ہیںجو ان تحریکات اصلاح اور ان کے قائدین کے حوالے سے راے رکھنے میں جادۂ اعتدال سے قریب تر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مثلاً معروف کناڈین محقق اور میکیگل کے ادارہ تحقیقات اسلامی کے بانی، ڈائرکٹر پروفیسر ولفرڈکینٹ ول اسمتھ جنھوں نے کچھ عرصہ لاہور کے فورمین کرسچن کالج اورمسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے،جو عربی اردو اوردیگر اسلامی زبانوں سے واقفیت رکھتے تھے،وہ اخوان المسلمون پر لگائے گئے ایک فکری الزام کی تردیدان الفاظ میں کرتے ہیں:

"To regard the Ikhwan as purely reactionary would , in our judgement be false. For there is at work in it also a praise worthy constructive endeavour to build a modern society on the basis of justice and humanity, as an extrapolation from the best Values that have been experienced in the tradition from the past.۳؎

اخوان کو صرف رجعتی قرار دینا ہماری راے میں غلط ہوگا۔ اس کے اندر عدل و انسانیت اور ماضی کی روایات سے تجربے کی بنیاد پر حاصل کردہ سنہری اقدار کی بنیاد پر ایک جدید معاشرے کے قیام کے لیے ایک قابلِ تعریف تعمیری کوشش بھی بروے کار ہے۔

اسمتھ کے اس معتدل بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اخوان المسلمون‘ امام البنا اور اسی طرح سید مودودی کا دورِحاضر میں ایک عادلانہ اسلامی سیاسی نظام اور معاشرے کے قیام کی کوشش کو رجعتی تحریک کہنا ان تحریکات کے ساتھ ظلم ہے۔ ایک جانب اس فکر کے حامل مغربی مفکر نظر آتے ہیں تو دوسری جانب ایسے مفکرین کی ایک بڑی تعداد ہے جوالبنا اور ان کی تحریک کو    بنیاد پرست قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔

یہ بات کہ امام البناعسکریت پسند جنگ جو تھے اور انھوں نے اپنی تحریک کو ایک تشدد پسند جماعت بناناچاہا، یا وہ شمشیر بے نیام کے ذریعے نظام عدل و امن کو قائم کرنا چاہتے تھے، مغربی مصنفین کا ایک پسندیدہ موضوع ہے اور امام البنا ، اخوان المسلمون اور اسی رو میں جماعت اسلامی پاکستان اور دیگر دستوری اصلاحی اسلامی تحریکات کو لپیٹتے ہوئے یہ حضرات اکثر ان تحریکات کی  ’جنگ جویانہ ‘ صلاحیت پر اتنے مختلف بلکہ متضاد زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں کہ ان تحریکات کے اصل خدوخال اردگرد کے گردآلود ماحول میںدھندلاجاتے ہیں اور کبھی ابھر کر سامنے نہیں آنے پاتے۔

"This is the movement which , in one form or another, has been the most prominent-fundamentalist current in sunni Islam since its Inciption in 1928. He launched the Brotherhood as movement for education and reform of hearts and minds.۴؎

یہ وہ تحریک ہے جو ایک یا دوسری حیثیت میں‘ ۱۹۲۸ء میں اپنے آغاز کے بعد سے سنّی اسلام کی سب سے نمایاں بنیاد پرست لہر رہی ہے۔ انھوں [امام البنا] نے اخوان کو  دل و دماغ کی اصلاح و تعلیم کے لیے تحریک کی حیثیت سے شروع کیا۔

امام البنا اور اخوان پر ’بنیاد پرست‘ ہونے کا خیالی الزام اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ غیر شعوری طور پر بعض اخوانی بھی خود کو بنیاد پر ست سمجھنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔

بنیاد پرستی کے الزام کے ساتھ ہی بار بار یہ بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ امام البنا اور تحریک اخوان المسلمون گردش ایام کو پیچھے کی طرف دھکیل کر انسانیت اور مسلم دنیاکو ایک ایسے دور کی طرف لے جانا چاہتی ہے جو ماضی کا ایک ورق بن چکاہے اور جو ۲۱ویں صدی کی ٹیکنالوجی ،مادی ترقی  اور علوم میں نئی ایجادات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے یہ دعوت ،ترقی کی جگہ علمی ، فکری اور مادی زوال کی دعوت ہے اور اس بنا پر ’روشن خیال ‘دنیا کے لیے ایک شدید خطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔

The Muslim Brothers world view was articulated in conservative Islamic terms calling for the restorating an Ideal society of the distant past.۵؎

اخوان المسلمون کا تصور جہاں (ورلڈ ویو) قدامت پسند اسلامی اصلاحات میں بیان کیا گیا تھا جس میں ماضی بعید کے مثالی معاشرے کو بحال کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔

جن محققین نے براہ راست امام البنا کے خطبات اور تحریرات کا مطالعہ کیا ہے ،وہ یہ ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ گو درمیانی دور میں اخوان کے بعض اقدامات عسکری نوعیت کے تھے، لیکن مجموعی طور پر نفوس کا تزکیہ و اصلاح ہی دعوت کا مرکزی نکتہ رہا۔ چنانچہ ایک مفصل تجزیاتی تحریر میں پروفیسر جان ایل اسپوزیٹونے اخوان کی دعوت کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے۔۶؎

امام البنا کی شخصیت کا ارتقا اور ان کا تصوف سے نہ صرف متاثر ہونا بلکہ اس کو عملاً اس حدتک اختیار کرنا کہ ان کی تعلیمات اور نظام تربیت میں ایک بڑا حصہ قرآن کریم کی تلاوت ، اذکار و اوراد اور قیام الیل کے ذریعے نفوس کی اصلاح سے تعلق رکھتاہے، ان کی شخصیت اور طرز عمل ہرزاویے سے ایک روحانی پیشوا سے ملتا ہوا نظرآتاہے۔اس غالب پہلو کے باوجود ان کی دعوت کا ایک جزوی نکتہ جس سے وہ خود بہت زیادہ مطمئن نہ تھے‘ اور ان کی عسکریت ہی اکثر مغربی مفکرین کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔

امام البنا کی شخصیت اور جماعت اخوان المسلمون پر غیر مسلم محققین کی تحریرات میں نمایاں ترین اور اولین مصاد ر پر مبنی ایک تحقیقی کتاب جس کا مصنف ایک عرصے تک مصر میں امریکی خفیہ ادارے کے رکن کی حیثیت سے متعین رہا ،باربار اس بات کا تذکرہ کرتاہے کہ :

"The two continous Influnces in history so far had been classical Islamic learning and emotional discipline of  sufism.۷؎

تاریخ پر کلاسیکل اسلامی علوم اور تصوف کے جذباتی پہلو دونوں کے اثرات مسلسل رہے۔

امام البنا کے رسائل مدلل طور پر تزکیۂ نفس ،تزکیۂ خاندان اور تزکیۂ معاشرہ پر متوجہ کرتے ہیں لیکن چونکہ سید ابوالاعلی مودودی کی طرح امام البناکا پہلا دعوتی نکتہ بھی یہی ہے کہ اسلام مکمل جامع اور عملیت پر مبنی نظام حیات ہے۔ اس لیے تصوف کے واضح اور غالب اثرات کے باوجود  ان کی تحریک اور شخصیت کو سیاسی حوالے سے زیادہ نمایاں کیا جاتارہا۔ بظاہر اس کاسبب مغربی اور مغرب زدہ اذہان کا ’مذہب ‘ اور ’سیاست ‘ کو دو الگ خانوں میں تقسیم کرناہے،جس کے بعد ’مذہب ‘ سے وابستہ کسی بھی فرد کے سیاسی عمل میں حصہ لینے کو اصول سے انحراف سمجھا جاتا ہے، جب کہ   امام البناہوں یا سید مودودی، دونوں کی دعوت کا مقصد روایتی مذہبیت اور روایتی روحانیت سے بغاوت کرتے ہوئے، ایک انقلابی فکر کے ذریعے علامہ محمد اقبال کی طرح ،اسلامی فکر اور معاشرے کی تشکیل جدید کرنا تھا۔مغربی نگارشات میں اس اختیار کردہ جدید (innovative) اور غیر روایتی طرز عمل کو بہ تکرار ’قدامت پرستی ‘ اور ’روایت پرستی ‘کہنا دراصل اصطلاحات کو گڈمڈ کرکے قارئین کی فکر کو پراگندہ کرناہے۔ جس طرح امام ابن تیمیہ نے اپنے دور کی روایت پرستی کو رد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ نہ صرف مختلف تعبیراتِ فقہ حتیٰ کہ صحابہ کرام کے اجماع کو بھی وہ مقام نہیں دے سکتے جومقام اتباع قرآن و سنت کا ہے۔ چنانچہ انھوں نے فقہ کے تخلیقی عمل کو اجماعِ صحابہ کا پابند بھی کرنا پسند نہیں کیا۔ یہ طرزِفکر ہرزاویۂ نظر سے انقلابی‘ اجتہادی تھا اور روایت پرستی کے رد پر مبنی تھا، لیکن بہت سے حضرات نے اسے ’سلطنت‘ کا عنوان دے کر بزرگوں کی اطاعت کہنا شروع کردیا۔ بالکل اسی طرح امام البنا نے سلف صالح سے پوری عقیدت کے باوجود دور جدید کے معاملات میں اجتہاد پر زور دیا۔ مولانا مودودی کا بھی یہی جرم روایت پرست فقہا اور قدامت پسند صوفیا کے نزدیک ناقابل معافی فعل تھا کہ وہ معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور قانونی معاملات میں     براہِ راست قرآن وسنت کی روشنی میں جدید حل تلاش کرکے ایک اسلامی ریاست اور معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے۔

امام البنا اور سید مودودی کا حالات کا تجزیہ اور معاشرتی ، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل تلا ش کرنا نہ صرف روایت پرست فقہا اور قدامت پرست صوفیا بلکہ جدیدیت کے علم بردار مغربی مفکرین کے لیے بھی قابل قبول نظر نہیں آتا۔ اسی لیے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کو، نامعلوم خدشات اور وجوہ کی بنیاد پر یکایک بنیاد پرستی کی دعوت کا عنوان دے دیا جاتاہے:

"Thus Banna's reaction to the crisis milieu was to advocate a return to the basis of Islam the call to fundamentlism.Banna's da'wah was a direct descendent of earlier revival movements.۸؎

بحرانی حالات میں حسن البنا کا ردعمل اسلام کی اصل کی طرف رجوع کی وکالت تھا، یعنی بنیاد پرستی کی طرف دعوت۔ حسن البنا کی دعوت ماقبل احیائی تحریکوں کا راست ورثہ تھی۔

بنیاد پرستی اپنے اصطلاحی یورپی پس منظر میں مغربی لادینی تہذیب کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بنیاد پرستی کی اصطلاح کا تعلق اسلام سے ہو یا عیسائیت سے، ہر شکل میں یورپی ذہن اس کے ساتھ نباہ کرنے سے اپنے آپ کو قاصر پاتاہے، جب کہ سادہ لوح مسلمان مفکرین بنیاد پرستی کے لفظی مفہوم یعنی دین کی بنیاد ی تعلیمات پر عمل کرنے کو اس کا صحیح مفہوم سمجھتے ہوئے یورپی ذہن کی اس نفسیاتی بیماری کا صحیح طور پر ادرا ک نہیں کرپاتے، بلکہ بعض اوقات فخر سے کہتے ہیں کہ ’’الحمد للہ ارکان اسلام پر عمل کرتے ہیں اس لیے بنیاد پرست ہیں ‘‘۔ مفاہیم کا یہ غلط اختلاط ایک بڑی فکری رکاوٹ بن کر مغرب کو ایسے نتائج اخذ کرنے پر آمادہ کردیتاہے جن کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں پایا جاتا اور سادہ لوح مسلم مفکرین بھی مغربی فکر کی بعض فنی اصطلاحات سے کماحقہٗ واقفیت نہ ہونے کے سبب اس مسئلے کو سلجھانے میں کوئی پیش رفت نہیں کرپاتے۔

امام البنا جس تصوف کے قائل ہیں وہ قوم کو جگانے والا، تزکیۂ نفوس کے ذریعے معاشرتی عدل قائم کرنے والا اور مظلوم کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے جہاد پر آمادہ کرنے والا عمل ہے۔ اسی بنا پر ان کے حلقہ ہاے ذکر قائم کرنے اور اخوان کوالماثورات کا اہتمام کرنے کی ہدایت کے باوجود ان کی جو تصویر کشی مغربی مفکرین کرتے ہیں وہ نہ صرف مبالغہ آمیز بلکہ گمراہ کن حد تک غلط ہے۔ دو معروف تصنیفات ہماری راے کی توثیق کرتی ہیں۔ایک،اسحاق موسیٰ الحسینی کی تصنیف‘ جو اخوان المسلمون کی تحریک پر سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ ۹؎ دوسرے ،استاذ سعید حویٰ کی تصنیف الاخوان المسلمونبھی اس پہلو پر مستند اور براہ راست معلومات فراہم کرتی ہے۔۱۰؎

بنیادی طور پر مغربی مصنفین گھوم پھر کر جس پہلو کو اجاگر کرتے ہیں، اس کا تعلق یورپ کی تاریخ کے بعض اہم ادوار سے ہے۔ ان کے خیال میں یورپ کی معاشی ، علمی ،اور سیاسی ترقی و استحکام کا تعلق براہ راست مذہب کو پس پشت ڈال کر زندگی کے معاملات میں مادی اور ٹکنالوجیکل ترقی کو رہنما بنانے سے ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کا احیاے دین کی دعوت دینا ان اہلِ مغرب کے نزدیک تاریک ماضی کی طرف لوٹنے کے مترادف ہے اور اسی بنا پر وہ ان تحریکات کو بنیاد پرست قرار دیتے ہیں۔ امام البنا نے اپنے رسائل میں یہ بات وضاحت سے بیان کی ہے کہ ان کا تصور دین ، روایتی مذہبیت اور روایتی روحانیت دونوںسے مختلف ہے۔ وہ سید مودودی کی طرح دین کی شامل و کامل تعریف کرتے ہیں اور مذہب کو محض عبادت اور رسومات تک محدودتصور نہیںکرتے۔

اس پہلو سے دیکھا جائے تو دونوں تحریکات میں غیر معمولی فکری قربت کے باوجود انتظامی اور حکمت عملی کے بعض امور میں جزوی اختلاف پایا جاتاہے۔ جو چیز دونوں تحریکات کا امتیاز کہی جاسکتی ہے وہ دونوں کے قائدین میں غیر معمولی قوت کار اور شخصیت کی جاذبیت ہے ،جس کی بنا پر البنا ہزار ہا ارکان کے لیے ایک مرشد اور رہنما کی حیثیت اختیار کرگئے۔ بعض مغربی مصنفین بھی اس راز سے واقف نظر آتے ہیں اوربرطانوی مستشرق بشپ کینتھ کریگ اس طرف اشارہ کرتا ہے:

" The secret of its success lay in the force  and dedication of its  Ideas and in the extraordinary energy almost in its quality of al-Banna himself.He combined the meticulousness of a  watch maker with the drives of a prophet.۱۱؎

اس کی کامیابی کا راز اس کے نظریات کی طاقت اور خلوص اور حسن البنا کی طرح کی غیرمعمولی توانائی تھا۔ ان میں ایک گھڑی ساز کی باریک بینی اور ایک نبی کی قائدانہ قوتوں کا امتزاج تھا۔

اگر غور کیا جائے تو ان دوصفات سے متصف شخص کو’جنگ جو‘یا شدت پسند کہنا ایک منطقی تضاد ہی کہا جاسکتاہے۔ لیکن امام البنا کی دعوت وشخصیت سے واقفیت کے باوجود تان آکر ٹوٹتی اسی بات پر ہے کہ البنا دور جدید میں پائی جانے والی تشدد پسند تحاریک کے محرک تھے۔ امام البنا کا معاشرتی اصلاح کا تصور خود بعض مغربی مستشرقین کی زبان میں کچھ یوں نظر آتاہے کہ امام البنا کی دعوت کا پہلانکتہ یہ تھا کہ قرآن کی جدید تعبیر کی ضرورت ہے اور سائنسی حقائق کے علم کے ساتھ قرآن کے مفہوم کو بیان کیا جانا چاہیے۔ثانیاً، مغربی سامراج سے نجات کی خواہش کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی ایجادات اور تحقیقات سے استفادہ نہ کیا جائے۔ ثالثاً، سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت پر مبنی معاشی نظام سے نکل کر ایک سرمایہ کار (enterprenuer) کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ وسائل تک دسترس حاصل کرے اور معاشی میدان میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ رابعاً ،امت کے اندر مسلکی اختلافات سے بلند ہو کر صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر یک جہتی کا قیام عمل میں لایا جائے،خامساً، اسلامی معاشرے کو خودکفیل بنانا تاکہ وہ فطری انداز میں ترقی کرلے۔سادساً ،قومی افق پر اعتماد اور قومی صفات کا پیدا کرنا، تاکہ سامراجی دورکے منفی اثرات سے نجات حاصل کی جاسکے۔ ۱۲؎

البنا کی دعوت کو سمجھنے اور اتنے اچھے انداز میں بیان کردینے کے بعد بھی اگر یہی مغربی مصنفین یہ نتیجہ نکال بیٹھیں کہ البنا ایک ’جنگ جو‘،’تشدد پسند‘ رہنما تھے تو یہی کہا جاسکتاہے کہ

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یعنی مستشرقین نے البنا کی شخصیت کے حوالے سے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو تعریفی بھی ہیں اور ان کی من مانی تعبیر بھی کی جاسکتی ہے ،مثال کے طور پر:

"Hassan al-Banna, more than any Individual, can be considerd the atvair of the twentieth Century Sunni revivalism. He was the unique embodiment of the Sufi spiritualist, Islamic scholar and activist leader who possessed a rare ability to evoke  masses., support  by translating doctrinal complexities into social action.۱۳؎

کسی بھی فرد سے زیادہ‘ حسن البنا کو ۲۰ویں صدی کے سنّی اسلام کے احیا کا روح رواں قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ صوفی روحانی شیخ، مفکر اسلام ، اور سرگرم قائد کا منفرد اظہار تھے جو عوام کو اُبھارنے اور عقیدے کی پیچیدگیوںکو عوامی اقدامات میں تبدیل کرنے کا شاذ ملکہ رکھتے تھے۔

امام البنا کی ان قائدانہ روحانی صفات کی بنا پر اسی مصنف کا یہ تبصرہ ہے کہ مشہور مغربی  ماہر نفسیات ارکسن (Ereckson)نے ایک متاثر کرنے والے قائد کی جو صفات بتائی ہیں وہ سب امام البنا میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔

امام البنا نے جس تدریجی حکمت عملی سے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور ایک وسیع تر حلقہ کو   براہِ راست مخاطب کیا، وہ انبیا کے طریقِدعوت کے عین مطابق نظر آتاہے۔ البنا نے نہ صرف  عوام الناس ، وکلا ، انجینیروں ، اطبا ،تاجروں بلکہ خود فرماںروائوں کو دعوتی خطوط کے ذریعے اپنی جماعت میںشمولیت کی دعوت دی بلکہ ایک مرحلے میں فوج کے نوجوان افسران میں دعوت کی مقبولیت اس حد تک پہنچی کہ ۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب میں اخوان کی حیثیت ایک شریک کار کی قرار پائی۔

اگر تقابلی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ حکمت عملی سید مودودی کی تجویز کردہ حکمت عملی سے کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ سید مودودی ایک نظریاتی جماعت اور برسراقتدار گروہ میں ایک فاصلے کے قائل نظر آتے ہیں اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر ایک طویل فریم ورک میں فرد ، خاندان، معاشرے اور ریاست میں تبدیلی و اصلاح کے حوالے سے بے انتہا پرامید نظر آتے ہیں، جب کہ،حسن البنا نے اس اصولی موقف کے ساتھ زمینی حقائق کو اہمیت دیتے ہوئے تبدیلی قیادت کے عمل کے جلد واقع ہونے کے لیے بعض مفاہمتی اقدامات کو اختیار کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کیا۔

اس کے باوجودرچرڈ پی مچل کا خیال ہے کہ،اگرچہ البنا نے اسلامی معاشرے کے ساتھ اسلامی ریاست کے قیام پر یکساں زور دیا ،لیکن وہ اسلامی ریاست سے کیامراد لیتے تھے ، اس میں نظمِ حکومت کس قسم کا ہوگا، اس کے اندرونی اور بیرونی تعلقات کس نوعیت کے ہوں گے؟ کیامغربی سیکولر جمہوریت کے بعض عناصر جوں کے توں اسلامی ریاست میں شامل کرلیے جائیں گے۔؟ غرض اس نوعیت کے سوالات جو تفصیل طلب ہیں، ان کے بارے میں امام البنا نے کسی متعین راے کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے مقابلے میں سید مودودی نے اسلامی ریاست کے حوالے سے ایک جامع اصولی اور عملی نقشہ مرتب کیا ،اور دستوری اور انتظامی حیثیت سے جو تبدیلیاں لانی ضروری تھیں ان پر قلم اٹھایا۔۱۴؎

حسن البنا کو حالات کا پورا علم تھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی تھا۔ اس بنا پر انھوں نے حالات کو تبدیل کرنے میں جلدبازی کی جگہ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا چاہی جو دوررس نتائج پیدا کرسکے۔ اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہوسکے یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ لیکن یہ بات شواہد کی بنا پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ تدریجی حکمت عملی ایک وسیع تر وقت کے فریم ورک سے وابستہ تھی۔۱۵؎

مچل کی اس راے سے ہمیں واضح اختلاف ہے کہ چونکہ بعض سیاسی مسائل پر امام البنا کی راے متعین نہ تھی یہ قیاس کرلیا جائے کہ اسلامی معاشرت اور ریاست کے بارے میں امام البنا کے ذہن میں کوئی نقشۂ کار ہی نہ تھا۔ امام البنا اپنے دور میں حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک   اصلاحی تحریک کو لے کر اٹھے ،جسے مسلم امت کی سیاسی اور معاشی زبوں حالی کاپورا ادراک تھا۔   اس مناسبت سے علمی حلقوں میں اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے علی عبدالرازق کی کتاب نظام الحکم فی الاسلام جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیاکہ قرآن و سنت سے کسی واضح اسلامی ریاست کا نقشہ نہیں بن سکتا، زیربحث تھی، جب کہ رشید رضا نے خلافت کے عنوان پر ایک عالمانہ کتاب لکھ کر یہ سمجھانا چاہا کہ کس طرح تاریخ کے حوالے سے اسلامی ریاست کا وجود     ممکن ہے۔ اس لیے شیریںہنٹر کا یہ خیال یا  لیری پوسٹن کایہ سمجھنا کہ امام البناکے سامنے معاشرے اورر یاست کے حوالے سے کوئی واضح منصوبہ بندی اور نظام کا نقشہ موجود نہ تھا  ۱۶؎  ایک گمراہ کن تصور نظر آتاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امام البنا نے اسلامی ریاست کے عنوان سے کوئی کتاب نہ   لکھی ہو، لیکن ان کی دعوت کا بنیاد ی ہدف معاشرے کے ساتھ ساتھ ریاست کی اصلاح اور  تبدیلیِ قیادت و اقتدار تھا، جو ان کی دیگر تحریروں میں واضح نظر آتاہے۔

امام البنا کی شخصیت ، نظام تربیت اور خصوصاً اذکار اور تزکیۂ نفس پر توجہ پہ غور کیا جائے تو آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ ان کی ابتدائی تربیت اور امام غزالی سے متاثر ہونے کی بنا پر ان کا رجحان تصوف کی طرف رہا، لیکن یہ وہ تصوف نہ تھا جو معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو اہمیت نہ دیتاہو۔ البتہ مغربی مفکرین کو اس میں جو دقت پیش آتی ہے وہ امام البنا کے مائل بہ تصوف ہونے کے باوجود سیاسی زندگی میں فعال ہونا، پھر بذات خود الیکشن میں حصہ لینا اور اپنی دعوت کے نکات میں اس بات کا کھل کر اعتراف کرنا کہ ہم اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔

یہی وہ پہلو ہے جس کی بنا پر ۲۰ویں صدی کی اسلامی تحریکات کو Political Islamیا سیاسی اسلام ،کا طعنہ دیا جاتا ہے۔یہ کام نہ صرف مغربی مصنفین بلکہ ان سے متاثر بعض معروف مسلم دانش وروں نے بھی کیا، جو اسلام کی محض روایتی مذہبی تعریف پر یقین رکھتے تھے۔ وہ اس پورے عمل کودین کی سیاسی تعبیرقرار دیتے ہیں۔ امام البنا اور ان کی تحریک کے بارے میں یہ خیال درست نظر نہیں آتاکہ وہ دور جدید میں اسلامی ریاست کا واضح تصور نہیں رکھتے تھے۔ ان کی تحریرات سے ثابت ہوتاہے کہ وہ اللہ کی حاکمیت ، شورائیت ، امانت اور صلاحیت کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کے قائل تھے۔ اگرامام البنا کو زندگی کی مزید مہلت ملتی تو وہ لازمی طور پر ان اصولوں پر مبنی مفصل خاکہ تیار کرتے۔ اس کے مقابلے میں سید مودودی کو یہ امتیاز حاصل رہا کہ وہ نہ صرف اصولی طور پر بلکہ عملی طور پر، ایک اسلامی ریاست کے خدوخال، اس میں پارلیمنٹ ،عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات اور اہل کاروں کی خصوصیات کے حوالے سے اپنے خیالات کو تفصیل سے تحریری شکل میں پیش کرسکے۔

امام البنا جس معاشرے اور ریاست کی تعمیر کے لیے کوشاں تھے، اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ ظاہر ہے یہ کام ریاست کی قوت نافذہ کے بغیر نامکمل رہتا، نہ صرف یہ بلکہ ان کی جانب سے بار بار کھلے الفاظ میں بیرونی سامراج سے نجات کی دعوت میں بھی یہ بات شامل تھی کہ مقامی آمروں ،بادشاہتوں اور موروثی نظام کی جگہ قرآن و سنت کا دیا ہوا نظام نافذ ہونا چاہیے۔

اپنے آخری ایام میں ان کو اس بات کا احساس ہوچلا تھا گو بعض حالات میں عسکری تنظیم کے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں ہوسکتاجس طرح کہ فلسطین میں اخوان المسلمون نے عملاً حصہ لے کر مسجد اقصیٰ کا دفاع کیا ، لیکن اندرونی معاملات میں مسائل کا حل، سیاسی حکمت عملی ، مکالمہ اور مسلسل تعلیم وتربیت ہی سے کیا جاسکتاہے۔

یہ عجب اتفاق ہے کہ امام البنا اور ان کی تحریک کو اپنی دعوت کے اصولوں کے لیے ایک امن پسند ، صلح جو اور داعیِ اصلاح ماننے کے باوجود، صرف جہاد فلسطین میں شرکت اور برطانوی اور اطالوی سامراج کی مخالفت کی بناپر بنیاد پرست اور شدت پسند کہا گیا۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں جہاد کشمیر کی حمایت کرنے والی جماعت اسلامی کو بنیاد پرست اور شدت پسند ہونے کا الزام دیا جاتا رہا۔ گو زمینی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ ان تحریکاتِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے اصلاح حال اور تبدیلیِ اقتدار کی دعوت دی اور اس بنا پر ان تحریکات کا جمہوریت پسندی کا ریکارڈ وقت کی سب سے زیادہ جابر و ظالم ریاست امریکا سے کئی ہزار گنا زیادہ جمہوری اور شفاف ہے۔

امام البنا جس طرح اپنی تعلیمی ، تذکیری اور تربیتی حکمت عملی کے نتیجے میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد میں عوام الناس کی سطح پر اپنی دعوت کو پھیلانے میں کامیاب ہوئے ،اس کی کوئی اور مثال ۲۰ویں صدی میں نظر نہیں آتی۔ دیگر تحریکاتِ اسلامی کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور ان کی قیادت کو تجزیہ کرنے کے بعد یہ سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ نصف صدی سے اوپر کام کرنے کے باوجود عوام میں ان کا وہ نفوذ اس درجے میںکیوںنہ ہوسکا، جو امام البنا نے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۴۸ء تک محض ۲۰سال میں حاصل کرلیاتھا اور جب ۱۹۴۹ء میں وہ شہید کیے گئے تو اخوان المسلمون دنیاے اسلام کے نقشے پر ایک بین الاقوامی تحریک بن چکی تھی۔