مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

لاکھوں افراد کا مرشد

احسان عبدالقدوس | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

کسی بھی ٹیکسی پر سوار ہو جائیں اور ڈرائیور سے بس اتنا کہیں: ’اخوان المسلمون جناب!‘ وہ مڑ کریہ تک نہیں پوچھے گا کہ اخوان المسلمون سے آپ کی کیا مراد ہے ، نہ یہ دریافت کرے گا کہ یہ کہاں واقع ہے۔بلکہ وہ کوئی اور سوال کیے بغیرآپ کو سیدھااخوان کے مرکز لے جائے گا۔ رخصت کرتے وقت وہ ڈرائیوروں کے عمومی رویے کے برعکس ایک دل آویز مسکراہٹ سے آپ کو نوازتے ہوئے کرایہ تک لینے سے انکار کردے گا۔ہاں !روانگی سے قبل عزت مآب استاذ حسن البنا مرشد عام اخوان المسلمون کے نام سلام پہنچانے کا آپ کو ضرورپابند کرے گا۔ مرکز پہنچ کر آپ الماریوں کے بیچ میں بنے راستوں پر چلتے جائیں تو آپ کا سامنا اخوان کے ذمہ داران سے ہوگا۔

یہ اخوان ہیں کون ؟نوجوان--- آپ ان کے چہروں کو تقویٰ اور ایمان کے نورسے جگمگاتا پائیں گے۔ ان کی آنکھوں میں جہاد اور عزیمت کی شجاعت اور ہونٹوں پر محبت و اخوت سے لبریز مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں تسبیح جس پہ ہر دم اللہ کا ذکر جاری ہے۔

لیکن اس کے باوجود وہ ماڈرن قسم کے نوجوان ہیں۔ ان میں روایتی علما اور ان کے پیروکاروں والا جمود ہے، نہ ان کی باتیں خالی خولی تعویذ گنڈوں کے گرد گھومتی ہیں، بلکہ وہ نہایت حقیقت پسند نوجوان ہیں۔ ہاں وہ اس نظام حیات کو بدلنے کے لیے صرف آخرت کی نہیں بلکہ اس دنیاوی زندگی کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ ان کے دل آسمانوں میں ہیںمگر قدم زمین پر۔ اسی کے سہارے وہ اپنے ساتھیوں میں چلتے پھرتے، ان کے کام آتے ،ان کی مشکلات حل کرتے اور ان کی ہرخوشی اور غم میں شریک رہتے ہیں۔ ان میں آپ کو، محفل کو زعفران زار بنانے والے خوش مزاج لوگ بھی ملیں گے اور معیشت و قانون ، انجینیرنگ اور میڈیکل کے اسرار و رموز سے واقف ماہرین بھی، وہ سب اکٹھے ہیں--- استاذ حسن البنا دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک قرآنی آیت اور اس کے بعدایک دو اشعار پر بات کا اختتام۔پھرکسی بات سے بات نکال کر ایک بھرپور قہقہہ ، جس میں سب حاضرین بھی شریک ہوجائیں اور زندگی مسکرا اٹھے۔

اس آدمی میں کوئی چیز بھی توغیر معمولی نہیں ہے۔ اگر آپ اسے سرراہ ملیں تو شاید ہی  قابلِ التفات ٹھیرائیں، سواے ان کے نحیف و نزار جسم ، کالی سیاہ داڑھی کے، جو ان کے انگریزی لباس اور حددرجہ جاذب نظر سرخ ٹوپی پر عجب بہار دیتی ہے۔ آپ کا ذہن یہ سوال اٹھائے بنا نہیں رہ سکتا کہ اس شخص نے اپنے ارد گرد کیسے، آخر کیسے اتنے اخوان کو اکٹھا کرلیا ہے ؟ ایسی بے مثال تنظیم کو منظم کرنے میں کیونکر کامیابی حاصل کرلی ہے۔

تھوڑی ہی دیر بعد آپ جان جائیں گے کہ اس آدمی کا اصل جوہر اس کی گفتگو کے انداز میں چھپا ہوا ہے۔ اس کا دھیما اور با وقار انداز ، افکار و خیالات کا تسلسل اور گفتگو کا باہم منطقی ربط   ہم قدم ہیں۔ اس سے بھی عجیب تر چیز یہ ہے کہ یہ آدمی آپ کے دل میں پیدا ہونے والے اعتراضات تک بھانپ جاتا ہے۔ ایسے انداز میں اپنے جوابات سے ایک کے بعد ایک شک کا کانٹا نکالتا چلا جاتا ہے کہ بحث و مباحثے کا موقع ہی نہ آئے۔

بے حد ذہین ، پہلی ہی نظر میں آپ کی شخصیت اور نفسیات کاتجزیہ کرلینے کا ماہر۔ شاید میرے داخل ہوتے ہی اس نے بھانپ لیاتھا کہ میں سیکڑوں الزامات و اعتراضات لیے ہوئے ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان سے بحث کروں۔ ان کی فطانت کا اندازہ کیجیے کہ گفت و شنید مکمل ہونے پر‘ میری روانگی سے قبل ہی مجھے جماعت کے مالیاتی حساب کی رپورٹ تھما دی۔ اس رپورٹ میں  آپ کو حیران کن نکات ملتے ہیں۔

’’یہ ایک بھائی ہیں چاہتے ہیں کہ اخوان کے مقامی دفتر کی خریداری میں حصہ ڈالیں،  لیکن اس وقت ان کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ اس لیے، انھوں نے اپنی زمین بیچ ڈالی ہے اور اس میں سے ۴۰۰مربع میٹر زمین اخوان کے لیے وقف کر دی ہے۔ اس کنٹریکٹ اور وقف شدہ پیسوں کی کاربن کاپی رپورٹ کے ساتھ نتھی ہے‘‘۔

’’یہ ایک خاتون ہیں، ان کے پاس بھی دینے کو کچھ نہیں۔ انھوں نے اپنا واحد منقولہ سرمایہ سونے کی بالیاں اخوان کے حوالے کردی ہیں‘‘۔ ان بالیوںکی تصویر بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک ہے۔ ’’یہ صاحب ممبئی (انڈیا) سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے ممبئی کمیونٹی میں کمیٹی فنڈ کی داغ بیل ڈالی ہے تاکہ اخوان المسلمون کے لیے مرکز کے قیام میں مدد دی جاسکے‘‘۔

یہ صاحب اپنی بیوی پر برہم ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے مال میں سے اخوان کے لیے ایک مصری پائونڈ وقف کردیں، لیکن بیوی چاہتی ہیں کہ ایک نہیں تین پائونڈ دینے ہیں۔ اب دونوں   اپنا جھگڑا لیے استاذ حسن البنا کے پاس آگئے ہیں۔ جھگڑا نبٹانے کی خاطرامام نے فیصلہ دیا ہے کہ آپ سے صرف دو فی صد اعانت لی جائے گی‘‘۔

’’یہ صاحب عراق سے ہیں ، انھوں نے اپنی اعانت جناب عبدالرحمن عزام پاشا کے ہاتھ ارسال کی ہے‘‘--- ’’ایک اور معاون اپنا سارے کا سارا مال اخوان کی خدمت میںپیش کرنے کا عہد کررہے ہیں کہ جماعت میرے مال میں سے جو چاہتی ہے،لے لے‘‘۔ معاونین میں کئی ارکان پارلیمنٹ کا نام بھی شامل ہے۔ کئی بڑی بڑی شخصیات اور ذہین و فطین جوان جن کے بارے میںکسی کا سان گمان بھی نہ تھا کہ استاذ حسن البنا پر اعتماد کرنے والوں میں یہ نام بھی شامل ہوسکتے ہیں۔

ملاقات کے دوران استاذ حسن البنا نے اخوان المسلمون کے فکر وفلسفے کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتایا ، کہ یہ فکر کہاں سے پھوٹی اور کہا ں تک پہنچی۔ وہ کہہ رہے تھے:’’ اسلام کے  نام لیوا اسلام کی پوری اور مکمل تفہیم و تطبیق سے قاصر تھے۔ اسلام معروف معنوں میں ایک مذہب نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل سیاسی و اقتصادی اور سماجی نظام ہے۔ مصر اپنے ارد گرد ناقص اخلاق کے حاملین پاتا تھا۔ اس میں سیاسی اقتصادی اور سماجی اصلاح کی کمی تھی‘‘۔

’’اخوان المسلمون کی فکر دوسری پارٹیوں کی مانند کسی ایک میدان میں اصلاحات تک محدود نہیں۔ ہم کسی عمومی سیاسی جماعت کی طرح نرے سیاسی ہیں نہ کمیونسٹوں کی طرح صرف اقتصادیات تک محدود بلکہ ہم بفضل خدا ہر اس مشکل کو دور کرنا چاہتے ہیں جن سے مصر بلکہ پورا مشرق دوچارہے۔ جس کے لیے اسلام اور اس کے قانونِ اساسی، قرآن کریم کے سوا کوئی دوسرا جامع اور مکمل نظام دکھائی نہیںدیتاکہ اس کے دامن رحمت میں پناہ لی جاسکے۔

امام البنا نے آغازِ کار میں اپنی مساعی کو مسلمانوں کو خرافات سے پاک اسلام کے صحیح فہم سے روشناس کروانے تک محدو د رکھا ، اسلام کی آفاقی محبت و اخوت کو لوگوں کے درمیان پروان چڑھایا۔ پھر اسلام کے سماجی ، اقتصادی نظام کے نفاذ کی کوششیں شروع کیں۔ ان کا پختہ یقین ہے کہ:’’مصر دینی حوالے سے نہایت حساس ملک ہے۔ یہاں کوئی بھی صالح تحریک اور پاکیزہ قدم صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب اسے دین کی بنیاد حاصل ہو۔ مصری اسی بنیاد پر اپنے وطن سے محبت بھی کرتے ہیں۔ مصری دین ہی کے نام پر منظم ہوتے ہیں اور بڑی سے بڑی جدوجہد کے لیے آمادہ پیکار رہتے ہیں۔ دین سے منحرف ہر دعوت یہاں ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوئی ہے‘‘۔

میں نے امام سے کہا :’’لیکن آج تو دین ہر جگہ اور زندگی کے ہر میدان میں نافذ نہیں کیاجاسکتا۔ بھلا ہم شپنگ اور فضائی قوانین کی جگہ قرآنی قوانین کیسے لاگو کرسکتے ہیں‘‘۔ امام نے اپنی ترکی ٹوپی ماتھے سے پیچھے سرکائی اور کہا :’’قرآن ابد تک کے لیے ہے۔ اسے ابد تک ہر زمانے پر نافذ ہونا ہے۔ جاہلیت کی انتہا سے لے کر وقوع قیامت تک۔ اگر آپ قرآن کی سطروں میں جھانکیں تو آپ کو وہ قوانین بھی ملیں گے جنھیں آج کی سپر پاور تلاش کررہی ہیں۔ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ہمیں جس قانون کی ضرورت بھی پڑتی ہے وہ اپنی تمام تفاصیل اور جزئیات کے ساتھ قرآن میں من و عن موجودہے۔ ہاں ہم قوانین وضع کرتے ہوئے ان بنیادی اصولوں اور حدود کا ر کو ضرور مدنظر رکھیں جو اسلام نے ہمیں بتائی ہیں‘‘۔

میں نے کہا:’’کیا آپ کو یقین ہے کہ ہمارے درمیان بسنے والے غیر مسلم اور ان کے پشت پناہ ممالک قرآنی قوانین کی تطبیق پر راضی ہوجائیں گے ، جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا وغیرہ؟‘‘ یہاں استاذ نے اپنے سامنے پڑے میز پر ہاتھ مارا اور مجلس میں موجودان کے نائب،ایک ڈاکٹر اوروکیل بھی اس گرماگرم بحث میں شریک ہوگئے۔ امام نے کہا:’’ فرض کیجئے انگریز مسلمان ہوتے اور اپنے ہاں اسلامی قوانین کا نفاذ کررہے ہوتے تو بالیقین ان میں سے کوئی ایک انگریز بھی یہ سوال کرنے والا موجود نہ ہوتا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے پر دیگر اقوام راضی ہوں گی یا نہیں ؟ یہ صرف ہماری کمزور ی اور کم ہمتی ہے جو ایسے سوالات کرنے پر مجبور کرتی ہے اور شریعت اسلامیہ کے بدلے، ادھارپر لیے ہوئے یورپی قوانین کے نفاذ پر اکساتی ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کی حالیہ کانفرنس میں اسے قابل ترمیم شریعت قرار دیا گیا ہے۔ جزیرۃ العرب میں ایک امریکی فوجی پر چوری کا مقدمہ چلا اور اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی گئی۔ فوجی کمانڈر نے جب اس پر احتجاج کیا تو شاہ عبدالعزیز بن سعود نے کہلوا بھیجاکہ یا تو عدالت کا فیصلہ نافذ ہوگا یا پھرمیں امریکی اموال کی حفاظت کی ضمانت دینے کو تیار نہیں ہوں۔ اس پر امریکا کو جھکنا پڑا اور عدالتی فیصلے کا نفاذ عمل میں آیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ شاہ عبدالعزیز کو امریکی صدر نے باقاعدہ شکریے کا خط لکھا کہ جناب کو امریکی اموال کی حفاظت کا اس قدر شدید خیال ہے۔ پھر یہ بھی پیش نظر رہے کہ حدود یعنی سزا کا نفاذ قاضی کی اپنی صواب دیدپر ہے۔ اس سلسلے میں آپؐ کا قول ہے: ادروؤا الحدود بالشبہات۔ قاضی کو پورا اختیار حاصل ہے وہ شدید سے شدید تر اور نرم سے نرم تر سزا دے سکتا ہے‘‘۔

میں نے کہا:’’ آپ کا کیا خیال ہے ؟آپ کی دعوت قدامت پرستی کی دعوت نہیں ہے ؟ ایسی دعوت تو ہمیں گروہی اختلافات کا شکار کردے گی۔انگریز انھی اختلافات کو تو ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کے لیے استعمال کرتا آیا ہے اور آج بھی ہندستان میں یہی کچھ کررہا ہے ‘‘۔

امام نے بڑے محکم لہجے میں کہا :’’اسلام نے اہل کتاب کے ساتھ بھلائی کی تلقین کی ہے۔ ہم صحیح دینی بنیادوں پر قائم ہونے والی ہر تحریک کی تائید کرتے ہیں۔ سارے مذاہب اپنے اصولوں اور اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کے باب میں متفق ہیں۔ مصر میں بسنے والے دوسرے ادیان کے پیروکاروں سے ہمارے بہترین تعلقات قائم ہیں‘‘۔

میں نے پوچھا !’’کیا آپ کی تگ و دو وزارت عظمیٰ کے منصب تک رسائی کے لیے ہے؟‘‘

جواب تھا!ہم ہر ایسی حکومت کی تائید کرتے ہیں جو صحیح دین کے نفاذ کا پروگرام رکھتی ہو۔ ایسی وزارت خواہ ہماری ہو یا کسی اور کی ، ہم ہر حال میں اس کی تائید کرتے رہیں گے۔ مصر کا موجودہ دستور میرے قول کی تائید کررہا ہے۔ دستور میں باقاعدہ درج ہے کہ دین اسلام ہمارا سرکاری مذہب ہے۔ یعنی ہمارے تمام ادارے ،قوانین اور ہمارے سرکاری اقدامات سبھی کچھ    دینِاسلام کے اصولوں کے تابع ہونے چاہییں‘‘۔