شہید کبیر ، استاد حسن البنا نے امت کو متحد کرنے اور اس کی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے سلسلے میں جو اہم کردار ادا کیا،وہ خراج تحسین پیش کرنے کے لائق ہے۔
آپ کا شمار ان عظیم علماے اسلام میں ہوتا ہے جن کی تحریک اور کوشش سے مختلف مکاتب فکر کے مابین قربت و یک جہتی اور ہم آہنگی کے لیے ایک مثالی ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں چیدہ چیدہ معروف علما شامل تھے، اس عالمی ادارے میں:الاستاذ محمد علی علوبۃ پاشا ، عبدالمجید سلیم شیخ الازہر ، امین الحسینی مفتی فلسطین، محمد عبدالفتاح العنانی (مالکی)، الشیخ عیسیٰ منون رکن ہئیۃ کبار العلما (شافعی) ، محمد شلتوت شیخ الازہر (حنفی) ، محمد تقی قمی (از علما امامیہ)، عبدالوہاب خلاف، علی الخفیف شیخ الازہر ، علی بن اسماعیل موید علما(زیدی) ،محمد عبداللطیف سبکی(حنبلی)، استادجامع ازہر ، محمد محمدمدنی ،محمد الحسین کاشف نجف کے ایک مرجع ، سیدھبۃ الدین شہر ستانی از علما کا ظمیہ اور علامہ عبدالحسین شرف الدین جیسے جلیل القدر علما شامل تھے۔
استاد حسن البناکا علماے کرام کو یک جا کرنے کا فیصلہ ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ان کی فکر و نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مسلم اُمّہ کی یک جہتی کا یہ پہلو اخوان المسلمون کی جماعت کے بنیادی ڈھانچے اور نظم میں شامل ہے۔ خصوصاً ان کے دستور کی دوسری شق میں، جہاں اس جماعت کے مقاصد واہداف پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے :
۱- مختلف اسلامی مکاتب فکر کے مابین اتحاد و یک جہتی کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے کے لیے تگ و دوکرنا ، اس لیے کہ اسلامی اصولوں سے منحرف ا ور غیر مربوط رویوں نے مسلمانوں کو باہم متفرق کردیا ہے۔
۲-عام اسلامی عقائد و قوانین کو مختلف زبانوں میں شائع کرنا اور معاشرے کو عملاً جن چیزوں کی ضرورت ہے ، ان کی وضاحت کرنا۔
۳- اسلامی گروہوں یا قوموں کے مابین تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے قریب کرنے اور متحدرکھنے کے لیے جدوجہد کرنا۔
اگرچہ مرحوم البنا، علماے ازہر میں سے نہ تھے، تاہم وہ ایک شان دار متحرک اور مؤثر شخصیت تھے۔ ہمیں اس کا ثبوت جناب محمد تقی قمی کی اس گفتگو سے ملتا ہے جو انھوں نے جماعۃ التقریب کے بارے میں اپنی یادداشتوں میں بیان کی ہے۔ وہ جب حسن البنا کو یاد کرتے ہیں تو انھیں اپنے جسم میں ایک قسم کی حرارت ، کلام میں تازگی اور زندگی کا احساس ہوتا ہے۔
ابتدا میں حسن البناکے ازہر کے شیوخ سے کوئی قابل ذکر تعلقات نہ تھے، مگر وہ اپنے کام ، منصوبہ بندی اور خلوص میں ایک کوہ گراں تھے۔ اپنی انھی صفات کی بنا پر انھوں نے کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے نوجوانوں تک اپنی بات پہنچائی،جس کے نتیجے میں وہ ایک متقی، پرہیزگار ، مجاہد ، اسلامی تعلیم و ثقافت سے آراستہ ،بیدار مغز اور رروشن خیال نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
آپ مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور فقہوں کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی فکر کے علَم بردار تھے۔ اُمت مسلمہ کو اس کی عظمت رفتہ اور سطوت پارینہ سے ازسرنو مربوط کرنا آپ کی زندگی کا نصب العین تھا۔ ان کے اسی جذبے کی بدولت آج اخوان المسلمون ایک منفرد اسلامی جماعت ہے جو فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک ہے۔
پروفیسرمحمد علی آذر شب بتاتے ہیں کہ الشیخ البنا مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے نصب العین میں بہت دل چسپی لیتے تھے۔ الشیخ القمی بھی ہمیشہ اسی راے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ شروع میں مذکورہ بالا عالمی ادارے کے نام کے بارے میں کافی بحث ہوئی۔ مختلف نام زیربحث آئے بالآخر امام البنا نے ’تقریب ‘ (قریب لانے )کا نام تجویز کیا، کیونکہ اس ادارے کے مقاصد و اہداف کے اظہار کے لیے یہی نام زیادہ موزوں تھا ، اس لیے اس متقی مجاہد عالم کی تجویز پر اس جماعت اور اس کے ہیڈکوارٹر کا نام ’التقریب‘ ہی رکھا گیا۔
علامہ سید ہادی خسرو شاہی نے مجھے بتایا کہ ایران کے بعض بڑے علما البنا مرحوم کے عملی اقدامات کو خوب سراہتے تھے ، چنانچہ سید ہادی جب ۱۳۷۵ھ میں ایک بڑے عالم آیت اللہ سید رضا الصدرکی محفل میں حاضر ہوئے تو وہ حج کے عمرانی پہلوئوں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اور اسلامی اتحاد کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ مرحوم البنا نے اپنے حج کے سفر کے دوران مصریوں کو اہلِ تشیع کی حقیقت سے آگاہ کرنے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ انھوں نے شیعوں کے بارے میں اہل مصر میں پائے جانے والے شکو ک و شبہات ختم کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس موقع پر آیت اللہ الصدر نے حاضرین کی طرف بطور خاص توجہ کرتے ہوئے زور دے کر کہا: ’’آپ لوگ شیخ حسن البنا سے ضرور واقف ہوں گے۔ وہ ایک عظیم انسان ہیں۔ وہ اخوان المسلمون کے عالمی قائدہیں‘‘۔
یہ تھے حسن البنا جو تشکیک ،تکفیر اور تفسیق کے دور میں اپنے نظریہ و عمل میں ہم آہنگی و مطابقت پر قائم تھے ، جس کے لیے بڑی جرأت و شجاعت چاہیے۔ مسلمانوں کو باہم قریب کرنے کا یہی جذبہ حسن البناکی جماعت کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے اور اب یہ جذبہ اس جماعت کے طفیل پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس جماعت کے بنیادی اصولوں میں یہ بات داخل ہے کہ فرقہ وارانہ اور فقہی جھگڑوں سے دور رہا جائے۔اخوان ہمیشہ اسلامی جذبے سے سرشار رہے ہیں، وہ حقیقی روح اسلام سے وابستہ رہے ہیں۔ان کی جماعت کا وجود کسی ایک فقہ کے پابندحضرات تک محدود نہیں۔ وہ فروعی اختلافات سے دور رہتے ہیںاور دوسروں کو بھی ان اختلافات سے روکتے ہیں۔
حسن البنا کے جانشین بھی انھی کے نقش قدم پر چلے اور اسی روش پر زور دیا۔ چنانچہ اخوان کے ایک مرشد عام مصطفی مشہور مرحوم نے سید خسرو شاہی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا :’’اخوان المسلمون ، جب سے اپنے پہلے مرشد عام امام حسن البنا کے ہاتھوں قائم ہوئی ہے، فقہی ، مذہبی اور دینی و فکری اختلافات کے باوجود تمام مسلمانوں کو وحدت و اتحاد کی دعوت دیتی ہے ، کیونکہ مسلمان اپنے دشمنوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوئے ہیں تو تفرقہ اور تنازعات کی وجہ سے اور نفرت و بغض تک لے جانے والے اختلافات کی وجہ سے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا اور فرماتا ہے: وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَاجَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰتِ وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ-یہی وجہہے کہ آپ اخوان کی فکری بنیاد فہم دین پر دیکھتے ہیں، جسے امام حسن البنا نے اپنے ۲۰اصولوں کے ذریعے واضح کیا۔ قانون سازی کا مصدر قرآن کریم اور سنت مطہرہ ہیں۔ شہادتین ادا کرنے والے اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنے والے کسی بھی مسلمان کو ہم اس وقت تک کافر قرار نہیں دیتے، جب تک کہ وہ کسی کفر یہ عمل کا مرتکب نہ ہو۔ ہمارے یہاں امام البنا کے اس مقولے نے خوب شہرت پائی ہے، حتیٰ کہ یہ سنہری اصول کہلانے لگا ہے کہ : ’’جس چیز پر ہم متفق ہیں اس پر باہم تعاون کرتے ہیں اور جس بات پر ہم میں اختلاف ہے ، اس میں ہم ایک دوسرے کو اختلاف کا حق دیتے ہیں‘‘۔ مطلب صاف واضح ہے کہ اتفاق اصول میں اور اختلاف فروع میں ہوتا ہے۔
حسن البنا اپنے اقوال و افعال میں اس معاملے میں بہت دل چسپی لیتے تھے۔ میں نے ان کے ہم عصر بڑے علما کے ساتھ ان کی ۱۳۲۵ھ کی ایک تصویردیکھی ہے۔ ان علما میں عبدالمجید سلیم شیخ الازہر، مفتی امین الحسینی، محمد تقی قمی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تصویر دار التقریب بین المذاہب الاسلامیہ کے ایک اجتماع میں لی گئی تھی۔ ایران اور دوسرے ممالک کے شیعوں کے ساتھ اخوان کا عملی تعاون گذشتہ صدی کے ۵۰ کے عشرے سے ہے اور ایرانی انقلاب کے بعدبھی قائم ہے۔
مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد و یک جہتی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ سنیوں او رزیدی شیعوں یا اثناعشری شیعوں میں اختلافات صرف کچھ فروعات تک ہیں۔ ان میں ہر ایک اللہ کو معبودِ برحق‘ رسولؐ اللہ کو اللہ کا آخری رسولؐ، قرآن کریم کو قانون سازی کا پہلا اور سنت مطہرہ کو دوسرا مصد ر قرار دیتا ہے۔ سب ایک قبلے کی طرف رخ کرتے ہیں۔ دین لوگوںکی خواہشات کا تابع نہیں ہے، اب وقت آچکا ہے کہ تفرق کے بھڑکتے شعلوں کو بجھا کر اس فتنے کو سرے سے مٹا دیا جائے۔ (مصطفی مشہور، ۲۷ رجب ،۱۴۲۳ھ ، قاہرہ )
مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کا یہی جذبہ عظیم داعی محمد الغزالی مرحوم ، حسن الہضیبی مرحوم ، عمر تلمسانی ،سید قطب شہید، محمد حامد ابوالنصر ،مامون الہضیبی ، علامہ یوسف قرضاوی، ڈاکٹر حسن ترابی اور استاد محمد مہدی عاکف وغیرہ کی تحریروں میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک اخوان المسلمون کی سب سے بڑی صفت اعتدال اور میانہ روی ہے۔ اخوان کے بارے میں استاد محمود عبدالحلیم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’اخوان المسلمون کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے بغیر کسی انحراف یا افراط و تفریط کے، میانہ روی اور اعتدال کو اپنا رکھا ہے۔ کمال یہ ہے کہ انھوں نے یہ کامیابی انتہائی سخت نامساعد حالات ، منہ زورخو اہشات اور سخت مزاج لوگوں کی طرف سے انتہا پسندانہ افکار کے پھیلائو کے زمانے میں حاصل کی ہے‘‘۔
اتحاد و یک جہتی کا یہ جذبہ ان کے لٹریچر میں بھرپور انداز سے نظر آتا ہے۔ وہ نہج البلاغۃ کے حوالے دیتے ہیں، جس میں حضرت علیؓکے شان دار کلمات یک جا کیے گئے ہیں۔ مثلاً الاستاد عبدالحلیم حضرت علیؓ کے اس خط پر تبصرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں جوانھوں نے مصریوں کی گورنری کے بارے میں مالک بن اشتر کے نام لکھاتھا۔
یہ نتیجہ ہے امام البنا کی بلندپایہ تعلیمات ، شان دار راہ نمائی اور پوری اُمت کے لیے ان کی کھلی دعوت کا۔ مرحوم کو ایک طرف تو علما کے ایک طبقے اور دوسری طرف غالی صوفیوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا ایک سبب یہ تھاکہ آپ کی دعوت میانہ روی کی جانب بلاتی تھی۔
گذشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں امام البنا نے اخوان المسلمون کے رسالے میں ایک مضمون لکھا ، اس مضمون میں آپ نے ایک بڑے سائز کی مربع شکل بنائی۔ اس مربع کے چاروں طرف اندر: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ لکھا اور اس مربع کے مرکز میں ایک چھوٹا سامربع بنایا۔
اس کے بعد آپ نے لکھا کہ: ہمارے جو بھائی ہم پر تنقید کرتے ہیں وہ گویا اپنی دعوت کو اندرونی چھوٹے مربع تک محدود کیے ہوئے ہیں۔ یہ حضرات اپنی دعوت کو صرف ان لوگوں تک محدود کیے ہوئے ہیںجن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ان ہی کا عقیدہ صحیح ہے، حالانکہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے برعکس ہم اپنی دعوت کا رخ ہر اس شخص کی طرف کرتے ہیں جو توحید الٰہی و رسالت محمدیؐ کی گواہی دیتا ہے ، خواہ وہ شخص اسلام کی تعلیمات و افکار میں کتنا ہی کوتاہ و کمزور کیوں نہ ہو۔ ہم اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی شوکت رفتہ کو واپس لانے کے لیے اسلامی اخوت و بھائی چارے میں ہمارے ساتھ مل جائے۔ ہم اپنی اس دعوت میں اقرار شہادتین کے سوا ، اس شخص پر کوئی اور شرط عائد نہیں کرتے۔ چنانچہ ہماری اس دعوت کو اسلامی تعلیمات پر ایمان و عمل کے لحاظ سے مختلف سطحوں اور درجوں کے لوگ قبول کرتے ہیں‘‘۔
غرض یہ کہ حسن البنا اس طریق کار کو ہدایت پر چلنے اور اسلامی عمل کو معاشرے میں مکمل طور پر پھیلانے کا ایک قدرتی حل سمجھتے تھے۔ وہ اصولی و فقہی میدانوں میں پُرسکون علمی مکالمے کا دروازہ کبھی بند نہیں کرتے۔اسی طرح وہ عقائد و تاریخ کے میدان میں بھی پُرامن مکالمے پر یقین رکھتے تھے کہ یہی ایک پسندیدہ اور معقول روش ہے ،یعنی شہادتین اور ایمان و اسلام کے ارکان پر ایمان کے دائرے میں رہتے ہوئے مکالمہ۔ اللہ تعالیٰ حسن البنا پر رحم فرمائے ، آپ کو بہترین جزا دے۔ ہم آپ کی پاک روح اور عظیم فکر کو سلام پیش کرتے ہیں۔