جمال بے مثال ہو تو تعریف مشکل ہوجاتی ہے، اور جمال اعمال و کردار کا ہو، تو احاطہ مشکل تر بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے۔ پروردگار عالم نے بنی نوع انسان میں ابنیاے کرام کے علاوہ کئی ایسے مومنین صادقین پیدا فرمائے جن کا ذکرِ جمیل مشک و عنبر کی حیثیت رکھتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی ان چنیدہ ہستیوں میں ایک ہستی حسن البنا شہید ہیں۔ ان کی نصف صدی پہ محیط زندگی اور پوری صدی پر محیط اثرات و ثمرات کا مطالعہ کریں، تو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تجدیدِ دین ہی کے لیے پیدا کیا تھا۔ ان کی ولادت کو سو برس گزرے تو ترجمان القرآن نے ان کی شخصیت و کردار اور ان کی دعوت و اثرات کا جائزہ لینے اور انھیں مزید متعارف کروانے کا مستحسن فیصلہ کیا۔ اگرچہ حسن البنا کا نام، ان کی تحریک اور جدوجہد تحریک اسلامی کے کسی بھی کارکن کے لیے اجنبی نہیں، لیکن اس سراپا عمل و اخلاص شخصیت کے کتنے ہی پہلو ایسے ہیں، جن سے اُردو کے قارئین ابھی تک ناآشنا ہیں۔ ان کے بارے میں لکھی جانے والی کتنی ہی ایسی مؤثر تحریریں ہیں، جو صرف عرب دان حلقوں تک محدود ہیں۔ ان کے تجربات، ان کی ہمہ گیر سوچ، انھیں درپیش خطرات، ان پر اور ان کے ساتھیوں پر توڑے جانے والے مظالم، کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جن کا احاطہ کرنے کے لیے دفتروں کے دفتر درکار ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نوزائیدہ اسلامی ریاست پاکستان پر گزرنے والے ہر نازک لمحے سے آگاہ تھے۔ یہ نہ صرف پاکستان سے ان کی گہری محبت کا مظہر اور اس سے وابستہ اُمیدوں کی دلیل ہے بلکہ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی مضبوط اسلامی بنیادوں کا واضح ثبوت بھی ہے۔ حسن البنا شہید کے صاحبزادے احمد سیف الاسلام البنا سے یہ قیمتی خطوط حاصل ہوئے۔
اشاعت خاص کے لیے ہم نے عالم اسلام کے دانش وروں اور اسلامی تحریک کے قائدین کو لکھنے کی دعوت دی تھی۔ اکثر ممالک اور اکثر تحریکوں کے ذمہ داران نے اپنی خصوصی تحریریں ارسال کیں۔ امام شہید کے اہلِ خانہ اور سفرو حضر میں ان کے ساتھیوں نے ان کے معمولات اور شخصیت کے گوشے وا کیے۔
امام حسن البنا شہید کی اپنی تحریریں بھی ان کے بلند علمی مقام، قابل رشک فکری گہرائی، باوقار اعتدال اور حیرت انگیز تنظیمی خوبیوں کو جاننے کا بہت اہم ذریعہ ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک اُردو میں ان کی صرف چند تحریریں منتقل ہوسکی ہیں۔ اُمید ہے کہ شامل اشاعت ان کی چند نگارشات، ان کی فکر کو جاننے اور ان کی علمی وجاہت سے متعارف ہونے کا اہم ذریعہ ثابت ہوں گی۔
اس اشاعت میں آپ کچھ قدیم تحریریں بھی پائیں گے، لیکن یہ سب تحریریں اس حوالے سے تازہ اور اہم ہیں کہ ابھی تک اُردو میں شائع نہیں ہوئیں۔ عظیم شخصیات کی یہ تحریریں قاری کو ایک نیا جذبۂ عمل بخشتی ہیں۔ اس سے پہلے امام شہید کی ڈائری اور ان کے بعض خطبات اور کتابچے ترجمہ ہوکر اُن کا بھرپور تعارف کرواچکے ہیں۔ لیکن اُمید ہے کہ مطالعے کے بعد آپ کا دل بھی گواہی دے گا کہ ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ترجمان القرآن کی اشاعتِ خاص اور اتنے ہی مزید صفحات پر مشتمل کتابِ خاص سے ایک بڑا خلا پر ہوا ہے۔ خواہش تو یہ تھی کہ کتاب میں شامل تمام مضامین بھی اشاعت خاص ہی میں شامل ہوں، لیکن وسائل کی کمی نے اس خواہش کی تکمیل نہیں کرنے دی۔ ان شاء اللہ بہت جلد یہ کتاب بھی آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔
اس اشاعت خاص کی تیاری ایک بڑی سعادت ہے۔ اس میں جن احباب کا تعاون حاصل رہا، اللہ تعالیٰ انھیں اجرعظیم سے نوازے۔ تاہم جملہ امور میں معاونت کے لیے پروفیسر خالد محمود، حافظ محمد عبداللہ،حمیداللہ خٹک، طارق زبیری، امجد عباسی، حیدر زیدی اور خلیل الرحمن ہمدانی کے خصوصاً شکرگزار ہیں۔یہ اشاعت اپنے آنے والے کل کو گزرے ہوئے کل سے بہتر بنانے کا پیغام ہے۔ اب اصل سوال یہ رہے گا کہ کیا ہم نے یہ پیغام پڑھ لیا، سمجھ لیا اور بہتر کے لیے عزم باندھ لیا؟ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ - وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o
عبد الغفار عزیز
۱۲ ربیع الاول ۱۴۲۸ھ