مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

چند یادیں

عبدالحلیم وشاحی | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image
  •   ملوی میںاخوان کی ایک میٹنگ کے اختتام پر امام شہید اس رات ایک اخوانی ساتھی کے گھر قیام پذیر ہوئے۔ انھوں نے مجھ سے اپنی ڈائری منگوائی جس میں وہ روزانہ کی سرگرمیاں اور مختلف اشخاص سے ملاقاتوں کا احوال قلم بند کرتے اور بڑی باریک بینی کے ساتھ ذاتی محاسبہ بھی کرتے تھے۔ یہ سب کچھ لکھنے کے بعد انھوں نے مجھے ڈائری واپس کردی، تاکہ میں اسے ان کے بیگ میں رکھ دوں۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ کیا میں اسے کھول کر پڑھ سکتا ہوں؟ کچھ تردد کے بعد میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ امام شہید تو اسلام اور مسلمانوں کا عظیم سرمایہ ہیں اور میرا ان سے تعلق بھی اتنا گہرا ہے کہ اسے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے، چنانچہ میںنے ڈائری کھول کر ورق گردانی شروع کر دی۔

امام شہید لکھتے ہیں : میرے والد صاحب کے بیان کے مطابق قمری اعتبار سے آج رات میری عمر ۴۰ سال ہوگئی ہے۔ الحمدللہ! میں اب تک دعوت الی اﷲ کے کام پر ڈٹا ہوا ہوں، تاہم اب بھی اس کام کے لیے مطلوبہ روحانی معیار میں کمی محسوس کرتا ہوں۔ اس لیے مجھے اوراد و وظائف پر پوری توجہ دینا ہوگی‘ دعوتی کام کی وجہ سے اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ نیز منگل کے ہفتہ وار لیکچر کے لیے بھی پوری تیاری اور کوشش کرنی ہے، اسی میں بہتری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے اور وہ بھی۔

اس طرح انھو ںنے اپنا شدید احتساب کیا۔ اپنے اعمال کے یومیہ جائزے کا وہ اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔وہ ہمیں بھی ہمیشہ محاسبۂ نفس کا درس دیا کرتے تھے۔

  •  زقازیق میں استاذ حمدی بنھاوی کے گھر پر ایک دفتر عمومی کے اجرا اور اس کی تزئین و آرایش سے فراغت کے بعد جب ہم نے رسالے اور پریس کے نئے منصوبے پر کام شروع کیا تو امام شہید نے مجھ سے کہا :

میں ایک ایسا رسالہ شائع کرنا چاہتا ہوں جو کئی زبانوں میں چھپے اور دنیا بھر میں تقسیم کیا جائے۔ اسی طرح میری یہ بھی خواہش ہے کہ اخوان پوری دنیا میں پھیل کر اس فکر کو  عام کریں۔ اگر میں موت سے قبل اپنی آرزوؤں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگیا تو امید ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ضروریات کافی حد تک پوری ہوجائیں گی۔

  •  امام شہید نے فرمایا:میں اخوان سے بخوبی واقف ہوں اور مجھے ان کی صلاحیتوں کا بھی علم ہے۔ لیکن اگر وہ انتظامی معاملات میں میری مدد کرتے ہوئے مجھے بصراحت بتادیں کہ انفرادی سطح پر وہ کس کس کام کی صلاحیت رکھتے ہیں تویہ زیادہ بہتر اور مفید ثابت ہوگا۔ قرآن کریم میں بھی یہی قاعدہ بیان کیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کی گفتگو ان الفاظ میں پیش فرمائی ہے : قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ (یوسف۱۲: ۵۵) ’’ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے۔ میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں‘‘۔
  •  کسی اخوانی کمپنی سے نکالا گیا ایک ملازم امام شہید کے پاس ملازمت سے برخاستگی کی شکایت لے کر آیااور امام شہید سے کہا:’’ فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور مجھے ناحق روزگار سے محروم کردیا ہے۔‘‘ امام شہید نے اس کو جواب دیا: ’’جس نے تجھے نکالا ہے وہ اپنے کام کا خود ذمہ دار ہے اور جس کمپنی میں تم کام کرتے تھے یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے جس میں مداخلت کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر تمھیں کسی سے کوئی شکایت ہے تو انتظامیہ کو لکھو اور یقین رکھو کہ اگر تم حق پر ہو تو تمھارے ساتھ بورڈ ضرور انصاف کرے گا‘‘۔ امام شہید معاملات کو متعلقہ افراد کے حوالے کرتے تھے اور ہرذمہ دار فرد کو خود اپنی ذمہ داری کی ادایگی کا احساس دلاتے تھے۔
  •   شعبان کے آخری ایام تھے اور ہم ابوتیج میں تھے کہ امام شہید کو استاد صالح عشماوی کا خط ملا۔ امام شہید اخوان کے حالات سے آگاہی کے لیے سفر کے دوران ذمہ داران سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اور ان کا مرکزی دفتر سے فون پر رابطہ کبھی منقطع نہ ہوتا تھا ۔خط میں استاد صالح نے ماہ رمضان کی مناسبت سے ایک تحریر کا تقاضا کیا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد امام شہید الگ کمرے میں بیٹھ گئے اور ۱۰ منٹ بعد ایک بہترین تحریر لکھ لائے جسے ہم نے اسی رات بذریعہ ڈاک روانہ کردیا۔
  •   امام شہید حیران کن طور پر انتہائی تیزی سے مطالعہ کرتے تھے۔ یہ ان کی وسعت مطالعہ پر دلالت کرتا ہے ۔دن بھر کے اخبارات پڑھنے کے لیے انھیں صرف نصف گھنٹہ درکار ہوتا تھا۔ آپ مجلہ المختار بہت باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ یہ رسالہ مغربی افکار کا علَم بردار تھا۔
  •   ہم نئے قانون کے مطابق اخوان کی مختلف کمپنیوں کی تشکیل میں مصروف تھے۔ اس کام کے لیے ہمیں جامعہ ابراہیم پاشا کے کامرس کے استاد محمدکامل حارونی کی معاونت کی ضرورت پیش آئی۔ وہ ہمیں اس کی ضروری قانونی عبارات اور تقاضے بتانے لگے۔ امام شہید نے ان کی گفتگو کے بعد کہا کہ ’’آپ کا مقصد یہ‘ یہ اور یہ ہے؟‘‘تب استاد حارونی نے ان کی طرف دیکھ کر کہا: ’’آپ تو مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ اب میری کیا ضرورت ہے‘‘۔ اس بات پر ہم سب ہنس دیے۔ (مجلۃ الدعوۃ‘۱۳فروری ۱۹۵۱ء)