مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

شہیدابو

سناء حسن البنا | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image
  •  سوال: سب سے پہلے ہم آپ کے افراد خانہ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ؟
  •  جواب: ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ ہمارے دو بھائی، والد صاحب کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ ہم میں سب سے بڑی وفاء بہن ہیں جو مرحوم سعید رمضان کی اہلیہ بنیں، ان کے بعد احمد سیف الاسلام البنا ہیں، پھر سناء اور محمد حسام الدین (فوت ہوگئے )، ان کے بعد رجاء ہیں اور پھر صفاء تھیں (فوت ہوگئیں ) ان کے بعدہالہ ہیں اور سب سے چھوٹی بہن استشہاد ہیں جو والد صاحب کی شہادت کے بعد پیدا ہوئیں۔ ہمارے دادا ان کا نام دماء (خون) رکھنا چاہتے تھے لیکن رجسٹریشن کرنے والوں نے یہ نام رکھنے سے انکار کردیا۔ پھر میرے دادا نے بھی یہ نام پسند نہیں کیا کہ وہ ہماری بہن کی ذات کا حصہ بنناتھا اس لیے استشہاد (شہادت)تجویز کیاگیا۔ کلرک نے اس سے بھی انکار کردیا لیکن میرے دادا نے اصرار کیا اور کہا کہ اگر اس کا یہ نام نہیں لکھو گے تو میں اسے بے نام ہی رہنے دوں گا یہاں تک کہ یہ بچی تم لوگوں کے ظلم کی زنجیر توڑنے کا سبب بن جائے گی۔ اس پر مجبور ہو کر اس نے استشہاد رجسٹر کرلیا ،کیونکہ اس نے میرے ابو کی شہادت کے بعد جنم لیاتھا۔ یہ نام دادا جان ، دادی جان اور ہماری بڑی بہن وفاء نے چناتھا۔

ابو کی شہادت کے وقت وفاء باجی کی عمر ۱۷برس تھی اور سیف ۱۴سال کے تھے۔  سناء ۱۱سال کی تھی۔ رجاء ساڑھے پانچ برس کی تھیں‘ جب کہ ہالہ اڑھائی سال کی تھی۔ ہماری والدہ اس وقت بیماری سے دوچار تھیں۔ وہ دل کی مریضہ بھی تھیں۔ ہالہ کی پیدایش کے بعد امی کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ابو کی شہادت کے وقت ان پر بیماری کا حملہ شدید تھا، حتیٰ کہ ان کے معالج نے کہا کہ اسقاط کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اس ضمن میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے انھوں نے ۱۲فروری کی تاریخ طے کردی۔لیکن ۱۱فروری ۱۹۴۹ء کی شام ابو کو شہید کردیاگیا۔ امی کی طبیعت خراب ہونے کے باعث ڈاکٹر صاحب وزارت داخلہ سے خصوصی اجازت کے بعد ابو کی شہادت کے اگلے دن گھرآنے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے ہمارے گھر کا مکمل محاصرہ کیاہواتھا۔ ڈاکٹر نے اصرار کیا کہ والدہ کو ہسپتال لے جایا جائے، لیکن امی نے انکار کردیا۔ پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ یہی بات چلی۔ سیف بھائی نے امی کی کمزور صحت کے باعث اسقاط سے انکار کردیا۔ ہماری ایک رشتہ دار خاتون انھیں ایک اور ڈاکٹر کے پاس لے گئیں جنھوں نے کہا کہ ہر ۱۵روز بعد طبی معائنہ ہوتا رہے گا۔ اگر کوئی خطرہ ہوا تو پھر کوئی انتہائی فیصلہ بھی کیا جاسکتاہے۔ اللہ کو منظور تھا کہ استشہاد دنیا میں آئی اور اس کانام ابو کی شہادت کی نشانی بن گیا۔

  •  ذاتی زندگی میں امام شہید کا آپ سے برتاؤ کیساتھا ؟
  •  ابو کی پوری زندگی میں بہت واضح اور مکمل توازن تھا۔ انھوں نے ہماری تربیت میں بھی توازن برتا۔ ہماری بہن وفاء بچوں میں سب سے بڑی تھیں اور وہ گھر پر ابو کی سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتی تھیں۔ امی مصروف بھی بہت رہتی تھیں اور بیماربھی تھیں۔گھر پر میزبانی کی ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ امی کے کندھوں پر تھا۔ مرکز میں آنے والے مہمانوں کے لیے کھانا بھی بعض اوقات وہی تیارکیا کرتی تھیں۔ کبھی ایک دن میں تین تین بار کھانا پکتا۔ ابو کی شہادت کے بعد بھی اخوان کا معمول تھا کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد ہمارے گھر والوں سے ملاقات کے لیے ضرور آتے اور یہ ناممکن تھا کہ کوئی آئے اور امی اسے کچھ کھلائے پلائے بغیر جانے دیں۔ جب امی ابو قاہرہ آگئے اور وہاں اخوان کا مرکز بننے لگا تو امی نے اپنا سارا جہیزمرکز کے لیے دے دیا، یہاں تک کہ گھر کے قالین اور پردے بھی۔ یہاں میں آپ کو امی کے بارے میں مزید کچھ تفصیلات بتاتی چلوں۔ میری والدہ اسماعیلیہ شہر کے ایک درمیانے متمول گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ میری دادی اماں، ہمارے والد صاحب کے لیے مختلف گھروں کے رشتے دیکھ رہی تھیں۔ ایک رات امی کے گھر آئیں تو انھیں نسوانی آواز میں خوب صورت تلاوت قرآن کی آواز آئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ فلاں ہیں اور دورانِ نوافل تلاوت کر رہی ہیں۔ دادی نے بغیر کچھ مزید پوچھے ذہن میں ایک راے قائم کرلی۔ پھر انھوں نے دیکھا کہ اگرچہ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ ہے‘ ملازم خواتین بھی ہیں لیکن اہلِ خانہ گھر کے اکثر کام خود کرتے ہیں تو یہ راے مزید پختہ ہوگئی‘ لیکن پھر معلوم ہوا کہ ان کی منگنی کہیں اور طے ہوچکی ہے، یہ سن کر دادی اماں واپس آگئیں___ ایک روز ایسا ہوا کہ امی کا منگیتر آیا اور نانا سے کہنے لگا: اپنی صاحب زادی کو میرے ساتھ بھیج دیں ہم نے سینما جانا ہے۔ نانا نے کسی سے پوچھا:   یہ سینما کیا ہوتا ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ تو بڑی خراب چیز ہوتی ہے جس میںرقص و سرود بھی شامل ہے۔ نانا نے منگنی کی انگوٹھی لاکر ان کی ہتھیلی پر رکھ دی اور کہا: تم سے میری کسی بیٹی کی شادی نہیں ہوسکتی۔ بعد میں یہ رشتہ ابو کے ساتھ طے پا گیا۔
  •  مسلسل سفراور شدید مصروفیت کے باوجود وہ آپ لوگوں کی تربیت کے لیے کیسے وقت نکالا کرتے تھے؟
  •  ابو دوررہ کر بھی ہماری تربیت کیا کرتے تھے۔ مثلاً انھیں معلوم ہوا کہ سیف بھائی کچھ عام قسم کے ناول پڑھنے کے شوقین بنتے جارہے ہیں۔ انھوں نے منع کرنے کے بجاے تاریخ اسلامی کے واقعات اور عظیم شخصیات جیسے صلاح الدین ایوبی کے بارے میں کئی اچھی کتابیں انھیں لا کردیں،نتیجہ یہ کہ کچھ عرصہ بعد خود سیف الاسلام بھائی کی پسند بدل گئی۔ اس طرح والد صاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم جو کام بھی کریں اس کا داعیہ خود ہمارے دل سے اٹھے۔

’جدید مصر‘ نامی ایک پرائیویٹ اسکول کی پرنسپل، میرے والد صاحب سے بڑی عقیدت رکھتی تھیں۔ وہ ہر منگل کو ابو کے درس کے لیے خواتین کو جمع کیا کرتی تھیں۔ انھوں نے ابو سے پوچھا کہ:’’ آپ اپنی کوئی بیٹی داخل کروانا چاہتے ہیں‘‘۔ ابو نے رضامندی ظاہر کی تو انھوں نے مجھے وہاں براہِ راست پہلی کلاس میں داخلہ دے دیا۔ لیکن جب ابو نے دیکھا کہ پرنسپل کے لاڈ پیار کی وجہ سے میری پڑھائی کا معیار گررہاہے، تو انھوں نے مجھے وہاں سے وفاء بہن کے اسکول منتقل کردیا۔

ابو کبھی ہمیں افسردہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک بار دادی جان نے شادی کی ایک تقریب میں جانے کا پروگرام بنایا۔ طے ہوا کہ سیف بھائی ، وفاء بہن اور میں ان کے ہمراہ جائیں گے، لیکن جب روانگی کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ سامان زیادہ ہوگیا ہے اور ہمارے لیے جگہ نہیں ہے، بہ مشکل وفاء بہن اور سیف بھائی ہی بیٹھ سکتے تھے۔ اس لیے دادی جان ان دونوں کو لے گئیں اور میں اپنے کپڑوں کا بیگ تھامے وہیں کھڑی رہ گئی۔ ابو آئے انھوں نے میرے کندھے تھپتھپائے اور کہا سناء کوئی بات نہیں اور مجھے راضی کرنے کے لیے ۲۵قرش دے دیے جو اس وقت اچھی خاصی رقم تھی۔ میں پھر بھی اداس ہی رہی جس پر انھوں نے میرا بیگ اٹھایا اور مجھے ساتھ لے گئے۔

  •  کیا کبھی ان کی دعوتی سرگرمیاں انھیں آپ سے دور کردیتی تھیں؟
  •  انھوں نے کبھی ہمیں یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کام کا بوجھ اپنے ساتھ گھر لے آئے ہیں۔ مثلاً ہم نے انھیں کبھی ان لوگوں کی طرح کرتے نہیں دیکھا کہ جو گھر میں داخل ہوتے ہی چیخنا چلانا ،ڈانٹنا اور دھمکانا شروع کر دیتے ہیں۔ ابو کی زندگی میں سب سے اہم اور قابل ذکر بات ان کامنظم ہونا تھا۔ آپ والد صاحب کی زندگی کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ وہ مکمل طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی سمجھتے تھے کہ تم پر تمھارے بدن کا بھی حق ہے۔ ابو ۲۴گھنٹوں میںبہ مشکل چار گھنٹے سویا کرتے تھے۔ آپ کی ۱۰ سنہری نصیحتوں میں بھی یہ بات شامل تھی کہ ذمہ داریاں اوقات سے زیادہ ہیں۔ ان کی یہ بات ان جیسے اللہ کے مجاہدوں کے لیے تو درست تھی ،رہے ہم جیسے لوگ تو وقت ضائع کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ،غالباً ہمیں سب سے اچھی طرح یہی کام کرنا آتاہے۔ ابو ہمیشہ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھانے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر ان کے پاس مہمان ہوتے تو انھیں بھی گھر لے آتے تھے۔

ابو صبح کام پر جاتے ،دوپہر کے کھانے کے وقت آتے ، پھر بہت تھوڑا سا آرام کرتے ، یہاں تک کہ وفاء باجی کہتی ہیں ایک بار ابو نے کہا:’’ میں تھوڑی دیر آرام کرنے لگا ہوں۔ مجھے ٹھیک سات منٹ بعد جگا دینا‘‘۔ باجی کہتی ہیں کہ میں جا کر قہوہ تیار کرنے لگ گئی کہ جتنی دیر میں قہوہ  بنے گا سات منٹ ہوجائیں گے اورمیں ساتھ ہی قہوہ پیش کردوں گی۔ لیکن جیسے ہی میں قہوہ تیار کرکے پلٹنے لگی وہ میرے ساتھ کھڑے پوچھ رہے تھے۔’’ وفاء بیٹی!قہوہ بن گیا‘‘۔ ابو خود پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ذا ت کو اپنی خواہشات کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہونے دیا۔

ابو نے ہم میں سے ہر ایک کی الگ الگ فائل بنا رکھی تھی ، جس میں اس کا سارا ریکارڈ محفوظ رکھتے تھے۔ ہر بچے کے اسکول کے معاملات ، بیماری اور علاج ، حفاظتی ٹیکوں کی تاریخیں ، یہاں تک کہ ولادت سے لے کر جو جو ٹیکے لگے اور جو جو بیماری لاحق ہوئی ہر چیز کا ریکارڈ ہماری فائلوں میں رکھتے۔ یہ بھی ان کے منظم ہونے کی علامت تھی کہ کسی کام کو دوسرے کام پر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔

  •  آپ نے بتایا کہ آپ کی بڑی بہن وفاء ان کے سیکرٹری کی حیثیت رکھتی تھیں-
  •  وفاء باجی ہم میں سب سے بڑی تھیں اور ہمیشہ گھر ہی میں رہتی تھیں۔ ہماری بہن ’الاخوات المسلمات ‘ کی تاسیس کرنے والوں میں سے تھیں۔ دیگر کئی بہنیں بھی ان کے پاس آتی رہتیں اور مختلف معاملات میں ہاتھ بٹاتیں۔ امی بھی اس پورے کام میںان کے ساتھ شریک رہتیں۔ ابو انھیں ہماری بڑی بہن وفاء کے نام کی مناسبت سے اُم وفا کہہ کر مخاطب کیا کرتے‘ اور انھوں نے بھی ابو کی شہادت تک ہی نہیں‘ شہادت کے بعد بھی وفا کا حق ادا کردیا۔
  •  امام حسن البنا رحمہ اللّٰہ کے خلاف سازشیں کیسے شروع ہوئیں؟
  •  آپ کی شہادت سے پہلے ہر طرف ان کے قتل کی بات کی جانے لگی تھی۔ کبھی ہمیں یہ خبر ملتی کہ ہمارا گھر دھماکے سے اڑا دیا جائے گا۔ ابو ان باتوں پر حیرت کا اظہار کرتے اور بڑے اطمینان سے کہتے کہ:’’ کیا سب کچھ صرف مجھے قتل کرنے کے لیے کریں گے۔ کیاپوری کی پوری ریاست میرے قتل کی سازشوں میں ملوث ہوجائے گی۔ مجھے قتل کرنے کے لیے اتنے تردد کی کیا ضرورت ہے۔ میرے لیے تو ایک کرایے کا قاتل کافی ہے جو کہیں سے چھپ کر گولیاں چلائے اور بس ‘‘ہم یہ سن کر گھبراجاتے۔ ابو کو ان دنوں جس چیز کی زیادہ تکلیف تھی وہ اخوان کے کارکنان کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں تھیں۔ وہ کہا کرتے تھے:’’ مجھے اخوان کے بچوں کی آہ و بکا ہمیشہ سنائی دیتی رہتی ہے‘‘۔وہ اخوان کی رہائی کے لیے ہر وسیلہ اختیار کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس ضمن میں وہ مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کررہے تھے۔ الشبان المسلمون کے دفتر میں بعض سرکاری کارندوں سے اپنی آخری ملاقات میں انھوں نے انھیں بتایا کہ وہ شیخ نبراوی صاحب سے ملنے جائیں گے جن کی عمر اس وقت ۷۰سال کے قریب تھی، لیکن والد صاحب کے وہاں جانے سے پہلے ہی حکومتی ایجنسیوں نے جا کر شیخ نبراوی صاحب کا ڈیرہ تباہ کردیا۔ پھر انھوں نے ابو سے کہا کہ شیخ الازہر جناب مراغی صاحب ان سے الشبان المسلمون کے مرکز میں ملنا چاہتے ہیں، لیکن یہ سب انھیں شہید کرنے کی سازش ہی کا حصہ تھا۔
  •  امام البنا کی شہادت کا دن آپ کے لیے کیسا تھا ؟
  •  وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس کا ایک ایک لمحہ میری یادداشت پر ثبت ہے۔ اس روز ایک پوری بٹالین فوج نے علاقے کو گھیرا ہوا تھا۔ اس علاقے کے ہر گھر کے افراد کے نام و پتے لکھے گئے‘ اور اس روز وہاں رہایشی افراد کے علاوہ کسی کو آنے یا وہاں سے نکلنے نہیں دیاگیا۔ وہ لوگ ہمارے گھر کی بوسیدہ عمارت کے اندر بھی گھس آئے تھے۔ حالانکہ وہ گرنے کے قریب تھی، لیکن اس کی سیڑھیوں اور چھت پر فوجیوں کی بڑی تعداد براجمان تھی۔ وہ میرے دادا کو لے گئے اور اصرار کرنے لگے کہ وہ قصر عینی ہسپتال سے اپنے بیٹے کی میت وصول کریں اور وہاںسے سیدھا قبرستان چلے جائیں۔ میرے دادا نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے شہید کی اہلیہ اور بچے اس کا چہرہ دیکھ لیں تو پھر تدفین ہوگی۔ بالآخر دادا کا اصرار مان لیاگیا اور ابو کی میت گھر لائی گئی۔ دادا جان دروازے پر ہمیشہ اپنے مخصوص انداز میں دستک دیا کرتے تھے۔ انھوںنے آکر وہی مخصوص دستک دی اور کھنکارتے ہوئے امی سے کہا: ’دروازہ کھولیں‘۔ اس وقت رات کا ایک بج رہاتھا۔ ہم لوگ ان دنوں اپنے معمول کے خلاف دیر تک جاگتے رہتے تھے کیونکہ ہر طرف دہشت کی فضا قائم کردی گئی تھی اور ہمیں ابو کی شہادت قریب ہونے کایقین ہوچلاتھا۔ جیسے ہی دادا کی آواز آئی: ’دروازہ کھولیں ‘ امی کو یقین ہوگیا کہ جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ ہوچکا۔ دروازے پر دادا جان کی آواز سنتے ہی امی پکاریں: ’بالآخر انھیں مار ڈالا گیا ‘اور انھوں نے رونا شروع کردیا۔ دروازہ کھلنے پر دادا نے امی کی ڈھارس بندھائی اور کہا :’اللہ سے اجر کی امید پر صبر کریں۔‘ میرے دادا جی بہت صابر اور اللہ والے تھے۔

تھوڑی ہی دیر میں میری پھوپھیوں کو بھی معلوم ہوگیا ، ان کے گھر بھی قریب ہی تھے۔ میری ایک پھوپھی آئیں اور کمرے میں جانے لگیں جہاں ابو کی میت رکھی تھی۔ ان کے ساتھ ہی میں بھی جلدی سے چلی گئی ، کسی روکنے والے کو میرا پتا ہی نہیں چلا۔ میں نے ابو کے چہرے سے چادر ہٹائی--- اللہ کی قسم! جب تک میں زندہ ہوں ابو کا وہ مسکراتاہوا چہرہ نہیں بھلاپائوں گی۔ ایک پرسکون میٹھی سی مسکراہٹ لیے ہونٹوں میں ابو کے چمکتے ہوئے دانت نظر آرہے تھے۔ میں نے انھیں دیکھاتو بالکل یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ میری ایک سہیلی نے  جب مجھ سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ تمھارے ابو فوت ہوچکے ہیں تو میں نے اسے کہا: نہیں وہ فوت نہیں ہوئے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ کے پاس چلے گئے ہیں لیکن جلد واپس آجائیں گے۔ میں نے خود ان کا چہرہ دیکھا ہے وہ فوت نہیں ہوئے۔

پھر میرے دادا نے ابو کو غسل دیا۔ انھیں کفن پہنایا۔ گورکن تابوت لے آیا اور ابو کی میت اس میں رکھ دی گئی۔ میرے دادا فوجیوں سے مخاطب ہوئے اور کہا :’’ میرے ساتھ میرے بیٹے کا جنازہ تو اٹھوا دو‘‘۔ انھوں نے جواب دیا’’ہمیں آرڈرنہیں ہے ‘‘۔وفاء باجی چلا اٹھیں: ’’ جنازہ تو اٹھائیں کندھا کون دے گا‘‘۔ لیکن وہ نہیں مانے اس پر میری دادی جان اٹھیں اور کہا: ’’اپنے بیٹے کاجنازہ میں خود اٹھائو ں گی‘‘۔ وہ تابوت کی طرف بڑھیں تو اخوان سے تعلق رکھنے والی چند خواتین جو اس وقت اندر آنے میں کامیاب ہوگئی تھیں وہ بھی آگے بڑھیں اوراس دہشت کے عالم میں خواتین نے امام حسن البنا شہید کا جنازہ اٹھایا۔

ابو کی وفا ت کے ۱۰ سال بعد دادا اللہ کو پیارے ہوئے تو انھیں ابو کے پہلو میں دفن کرنے کے لیے لے جایا گیا۔۱؎  اس وقت ابو کی قبر کھولی گئی تو ایک حیرت ناک منظر تھا کہ ۱۰ سال بعد بھی ابوکا تابوت اسی طرح صحیح سالم تھا۔ میت کے چہرے کے اوپر جو شیشہ لگا ہوتاہے اس میں سے   نظر آیا کہ صرف تابوت ہی محفوظ نہیں بلکہ چہرے سے کفن کھلا ہوا تھا اور ابو کا چہرہ بالکل صحیح سالم تھا۔ اسی طرح آنکھیں موند رکھی تھیں۔ داڑھی کے بالوں کی جگہ کچھ نشان تھے۔ یہ اب سے تقریباً ۱۰سال پہلے کا واقعہ ہے۔

m امام کی شہادت کے بعد آپ کی والدہ مرحومہ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہوگا؟

  •  میرے بھائی سیف نے ہمارا اور امی کا بہت خیال رکھا۔ کم سنی کے باوجود انھوںنے جان لیا کہ اب گھر کی صورت حال مخصوص نوعیت کی ہے۔ ابو کی شہادت کے بعد بھی ۲۴گھنٹے ہماری نگرانی جاری رہی___ اور تو اور ان کی قبر کی بھی نگرانی کی جاتی تھی، جو وہاں دعا کے لیے جاتا گرفتار کرلیاجاتا۔ میری والدہ مرحومہ بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں۔ انھوں نے ہمیں گھر میں ہی رکھا___ کھیلنے کے لیے بھی دوسرے بچے ہمارے گھر میں آجاتے‘ ہم باہر نہیں جاتے تھے۔  ہم نے یہ وقت خوب مطالعے میں گزارا۔ ابو کی لائبریری سے بھرپور استفادہ کیا۔ میں اس وقت تک سوتی نہیں تھی جب تک ابو کی لائبریری سے لی ہوئی کتاب مکمل نہ کرلیتی۔