مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

بیدار مغز داعی

جنرل عزیز المصری | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

شہید حسن البناکے ساتھ میرا پہلا تعارف ، ۱۹۳۷ء میں، لندن سے واپسی پر ہوا۔ میں اس وقت ولی عہد کے ساتھ تھا۔ تین حضرات میرے انتظار میں تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ اخوان المسلمون کے لوگ ہیں۔ میں نے کہا کہ میں ان لوگوں سے نہیں ملنا چاہتا ،چونکہ میں سمجھتا تھا کہ اخوان المسلمون تجدید و انقلاب کی فکر کی نمایندہ ہے۔ اگرچہ وہ جیکٹ اور پتلون میں ملبوس تھے ، تاہم ان کے لباس انتہائی سادہ تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے ہاتھ میں تسبیح کے بجاے کتاب اٹھا رکھی تھی اور وہ میرے ساتھ اسی کتاب کے مندرجات پر گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ میں نے ان لوگوں کو دیکھا ضرور مگر ملاقات سے صاف انکار کردیا۔

میرے تعجب کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اگلے روز ، تینوں میں سے ایک صاحب پھر میرے پاس تشریف لائے اورتعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں حسن البنا ہوں۔ وہ میرے کل کے رویے سے واقف تھے، مگر انھیں اس توہین پر کوئی ملال نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان جس   پس ماندگی کا شکار ہیں ، اسی نے انھیں یہ دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیںکہ ہم سب مل کر مسلمانوں کو ایک بار پھر صحیح اور درست فکر کی جانب لے جائیں۔ ایک ایسی فکر جس کے ذریعے مسلمان علم وسائنس میں بھی پیش رفت کریں اور انسانیت کی ترقی و ہدایت کے لیے مشعل راہ کا کام بھی کریں۔

اس پہلی ملاقات ہی میں حسن البنا کی شخصیت کی عظمت نکھر کر سامنے آگئی۔میں نے دیکھا کہ آپ انانیت سے یکسرپاک، ایک ہو ش مند اور بیدار مغزداعی ہیں۔ آپ خود چل کر میرے پاس تشریف لائے ،حالانکہ مجھے ، اپنے سخت رویے اور بدسلوکی کی وجہ سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ میں دوبارہ کبھی ان سے مل سکوں گا۔

اس ملاقات کے بعدسے ان کے اور میرے درمیان رابطہ و تعلق مضبوط تر ہوتا گیا۔ ہم  وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے۔ مجھے ان کے چہرے پر ایمان ،سچائی اور اخلاص کی علامات واضح نظر آتی تھیں ، جنھیں دیکھ کر ان پر میرے اعتماد و یقین میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔

جب انھیں شہید کیاگیا تو میں اس وقت غیر ملکیوں کے لیے قائم جیل کے دورے پر تھا۔ ایک افسر میرے پاس آیا ، اس کے چہرے پر غم و اندوہ کی پرچھائیاں گہری ہوچکی تھیں۔ سرکاری احکام کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے مجھے یہ غم ناک خبر سنائی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس عظیم انسان کی رحلت سے میرے سینے میں خنجر پیوست ہوگیا ہو۔ (مجلہ الدعوۃ ، قاہرہ، ۱۳فروری۱۹۵۱ء)