مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

حسن البنا کی حکمت عملی

ابوجرۃ عبداللہ سلطانی | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

امام حسن البنا کی شخصیت اور عرب دنیا میں پھیلی ہوئی ان کی تحریک اخوان المسلمون پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ میرے پیش نظر حسن البنا کی تعلیمات کی روشنی میں اس عظیم الشان اصلاحی تحریک کے درج ذیل چار بنیادی نکات ہیں: ۱- اخوان کے فکر کا واضح ہونا ۲- مراحل کا واضح ہونا ۳-اہداف و مقاصد کا واضح ہونا ۴- وسائل و ذرائع کا واضح ہونا۔

امام اپنے کتابچے دعوتنا فی طور جدید (ہماری دعوت نئے پیرایے میں) میں رقم طراز ہیںکہ: ’’ہماری دعوت کا طریق کار اسلا م کی پہلی دعوت کے طریق کار سے مختلف نہیں ہے، بلکہ یہ دعوت حقیقی معنوں میں اسی دعوت کی بازگشت ہے جس کا نعرہ صدیوں پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں بلندکیا تھا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے ذہنوں کو نبوت کے اس روشن عہد کی طرف لوٹائیں جو وحیِ الٰہی کی عظمت کا شاہد تھا ، تاکہ اپنے پہلے معلم سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے پیش نظر اصلاح معاشرہ کے اسباق دہرائیں اور نئے سرے سے دعوتی درس کی مشق کریں‘‘۔

بہت بڑے ہدف ___ پوری انسانیت کی اصلاح کی طرف ___ یہ پہلا قدم ہے۔ اسی گذشتہ طریق کار کو پیش نظر رکھتے ہوئے، انھی خطوط پر چل کر اور اسی صاف و شفاف چشمے سے سیراب ہو کر ہی اس عظیم ہدف کی طرف پیش قدمی ممکن ہے۔ امام مالک نے ایک موقعے پر فرمایا تھا: ’’امت کا آخر اسی نسخے سے شفایاب ہوگا جو اس کے آغاز کے لیے شفایاب ثابت ہوا ہے‘‘۔

اکثر مصلحین کے ساتھ مختلف زمانوں میںبنیادی طور پر مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ یا توجذبات کے رو میں بہہ گئے اور یا بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے، غیر منظم انداز میں اصلاحی تحریک کا آغاز کردیا۔ نیک طینت عوام کا ایک گروہ ان کے گرد اکٹھا ہوگیا، جوشیلے نعرے لگائے اور ایک حدتک جذبات کا مظاہرہ کیا۔ پھر جب یہ دیکھا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود، فساد اور خرابی نہ صرف قائم ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا ہے ،تو طویل عرصہ ساتھ چلنے اور پھر فوری طور پر نتائج نہ پانے سے  دل برداشتہ ہو کر بکھر گئے۔ ان کے حوصلے پست اور عزائم شکستہ تر ہوگئے۔ بعض اوقات اصلاحی تحریک کی قیادت اقتدار کے نشے اور حکمرانی کے لالچ میں آکر باہم دست و گریبان ہوجاتی ہے۔ ان کی ساری توانائیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں صرف ہوجاتی ہیں۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے اصلاح کاوہ کام جو بڑے جوش و خروش سے شروع ہوا تھا بری طرح ناکامی کا شکار ہوجاتا ہے اور مزید فساد کا باعث بنتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اصلاحی تحریک کی وہی لیڈرشپ جو ابھی ابھی ظلم اور فساد کے خلاف برسرپیکار تھی اور بپھرے ہوئے عوام کی قیادت کررہی تھی ، کچھ لوگ اس کے دشمن ہوگئے، عوام کو ان کے خلاف ابھارا۔ اگرچہ عوام کتنا ہی ان کی پاکیزگی اور لیاقت کا دم بھریں، ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کا یہی ایک جواب ہوتا ہے کہ :  اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَo (النمل ۲۷:۵۶) ’’نکال آلِ لوط کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاک باز بنتے ہیں‘‘۔ اصلاحی تحریکوں کی تاریخ میں اس قسم کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، بلکہ ان سے قبل تمام انبیاے علیہم السلام ان مراحل سے گزرے ہیں۔

یہ چیزبھی عام طور پر مشاہدے میں آتی ہے کہ عوام الناس میں مفاد پرست ٹولے اور سرداروں کے ذریعے مفسد عناصر زور پکڑلیتے ہیں اور اصلاحی تحریک پر داروغے بن کرفیصلے صادر کرناشروع کردیتے ہیں۔ ایسے عناصر، تحریک، اس کی قیادت ، اس کے طریق کار ، پروگرام اور افراد کی      ہر لغزش و کوتاہی کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، خاص طو رپر جب ان مفسدین کے مفادات پر اصلاحی تحریک کے افکار کی ضرب پڑتی ہو : اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِکَ(طٰہٰ۲۰:۵۷)’’کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے‘‘۔ اس مناسبت سے تاریخ کے جھروکوں میں اسلامی تحریکوں کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

  •  تحریک کا نقطۂ آغاز:یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ ہر اصلاحی تحریک کا   نقطۂ آغاز کیا ہے ؟امام حسن البنا کی فکری ،دعوتی اور اصلاحی تحریک کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ انھوں نے گذشتہ تمام اصلاحی تحریکوں کے تجربات کی مناسب جانچ پرکھ کی، ان سے نئے نتائج اخذ کیے، اپنا حاصلِ مطالعہ ایک اصلاحی تحریک کے آغاز کے لیے چھے بڑے اصولوں کی صورت میں پیش کیا، اورپھر انھی اصولوں پر اپنی تحریک کی بنیادبھی رکھی۔ انھوں نے واضح کیا کہ ایک اصلاحی تحریک کے اپنے تشکیلی دور میں طریق کار ، خصوصیات ، مراحل، اہداف اور وسائل کیا ہوتے ہیں؟ یہ بھی بتایا کہ دنیا میں تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ ایک تحریک کاطریق کار وسیع تر تناظر میں ہو، اس کی منصوبہ بندی حقائق پر مبنی راستہ بنانے کی بنیاد پر ہو، اور پیش قدمی کرنے کے لیے اس کا اُفق عالمی اور معتدل ہو۔ یہی اخوان المسلمون کی تحریک کی سب سے اہم خصوصیات ہیں۔
  •  فکری بنیادیں: یہ اصول ایک وسیع تر تبدیلی کا ضامن ہونے کے ساتھ تمام اصلاحی تحریکوں کے لیے بھی مددگار ہیں۔ ان چھے اصولوں کو ہم مقصد کی وضاحت کا عنوان بھی دے سکتے ہیں۔ فکر ، مراحل ، اہداف ، وسائل اور طریق کار کی وضاحت کو ہم اس نقشے اور ترتیب کے ساتھ پیش کریں گے :

۱- تحریکی اور دیگر افکار کے درمیان واضح اور حتمی طور پر فرق بیان کرنا۔

۲-ترجیحات ( بڑے مقاصد ) کی مرحلہ وار اہداف کے طور پر حد بند ی کرنا، اور ان  اصول و حدود کی نشان دہی کرناکہ جن سے کبھی بھی مقاصد کے حصول کی خاطر تجاوز نہیں ہوناچاہیے۔

۳- راہ دعوت کے بڑے مراحل کی وضاحت کرنا ( بیج بونا ، اس کی دیکھ بھال کرنا، تنے کا زمین سے نکلنا ، اس کا مضبوط ہونا اور پھر اپنی بنیادوں پر کھڑا ہونا )۔

۴- موجودہ بگاڑ کا اندازہ کرنا ، اس کے حجم ، وسائل، پھیلاؤ اور نشوو نماکے سرچشمے کو جاننا۔

۵- اپنی افرادی قوت کا صحیح اندازہ لگانا۔ اصلاح اور تبدیلی کے لیے اپنے ساتھیوں کی قوت ارادی کا صحیح اندازہ ہونا، کیونکہ اصلاح اور تبدیلی کی کٹھن ذمہ داری انھی کو نبھانا ہوگی۔

۶-امکانات اور وسائل کو سامنے رکھنا اور انھیں اس طرح ترتیب دینا کہ ضرورت کے وقت ان کا استعمال ممکن ہوسکے ، یا کم ازکم بنیادی اہداف کے لیے ان کو بروے کار لایا جاسکے۔

ان چھے اصولوں کو امام حسن البنا کی وسیع تر اصلاحی اٹھان کی فکری بنیادوں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان کی توضیح و تشریح کے لیے بہت سی کتابوں میں مصنفین نے ان کا توصیفی اور شماریاتی حوالے سے تجزیہ کیا ہے۔ دعوتی ، تربیتی ، سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی پہلوؤں پر بحث کی ہے اور ان امور کا جائزہ لیا ہے، جن کو اس مکتب فکر کے بانی نے نئی مطلوبہ نسل کی تیاری کا ذریعہ بنایا اور جن کے بل بوتے پر ربع صدی کی قلیل مدت میں ،قرآن کی علَم بردار پہلی منفرد جماعت تیارہوئی تھی۔

امام حسن البنا کا ذہن صاف اور فکر پاکیزہ ہے۔ قاری ایک نظر ہی سے ان کی فکری گہرائی کا اندازہ کرلیتا ہے۔ ہر اس فکر کو جسے امام نے اپنی تحریروں ، خطبوں ، رسائل ، ہدایات اور عملی کام کے ذریعے پیش کیا بغیر کسی الجھاؤ کے واضح طور پر سمجھ لیتا ہے۔

  •  اُمت مسلمہ کی زبوں حالی :اسلام اور اسلامی فکر اجنبی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ علماے دین تک مغرب سے آئی ہوئی لادینیت سے مرعوب ہوچکے تھے اور مصطفی کمال پاشا نے تو لادینیت کو اسلام کے متبادل کے طور پر پیش کردیا تھا۔ ایسے ہی حوصلہ شکن حالات میں ایک بار ایک انگریز مفکر نے کچھ حساس مسائل کے متعلق امام حسن البنا سے ایک طویل انٹرویو کیا۔ ترجمان حسن البنا کے واضح جوابات نقل نہ کرپایا۔ امام نے اس کو بے چین پا کر مترجم سے کہا :’’ان صاحب سے    یہ دریافت کرو کہ کیاآپ نے قرآن پڑھا ہے اور کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے متعلق کچھ جانتے ہیں ؟کیونکہ یہی ہماری دعوت ہے ،یہی ہماری پہچان ہے اور اسی کی طرف اخوان المسلمون دعوت دیتی ہے‘‘۔

انھی واضح الفاظ اور جامع کلمات کے ساتھ ہی امام نے ایک بار ۱۹۴۱ء میں نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایاتھا :’’اسلام اور مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب وہ بڑے دل خراش حوادث سے دوچار ہوئے، ان پر بہت شدید مصائب ٹوٹے۔ اسلام دشمن قوتیں اسلام کی شمع بجھانے پر تل گئیں اور اس کے شان دار اثرات کو زائل کرنے کی سعی شروع کردی۔ اس کے بیٹوں (ماننے والوں ) کو گمراہ کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ اس کی حدود اور قوانین کو معطل کیا ،اس کے لشکر کو کمزور بنا دیا۔ اس کی تعلیمات اور احکام کو کبھی اضافہ، کبھی کمی اور کبھی من مانی تعبیر کے ذریعے بے اثر بنانے کی کوشش کی۔ اسلام کی سیاسی قوت اور اسلامی خلافت کے زوال اور اسلامی لشکر کی سستی ، بزدلی اور کمزوری نے ان دشمنان اسلام کو مزید تقویت بہم پہنچائی۔ یہاں تک کہ عالم اسلام کا خاصا بڑا حصہ اہل کفر کے قبضے میں چلاگیا اور مسلمانوں کو طاغوتی سامراج کے زیرسایہ ذلت و رسوائی کے برے دن دیکھنے پڑے‘‘۔

یہ اس ناگفتہ بہ حالت اور شکست خوردہ امت کا ایک ٹھوس تجزیہ ہے، جس کے مطابق   عالمِ اسلام کے خلاف ان تین محاذوں پرمعرکہ برپاتھا :

اندرونی محاذ : عالم اسلام میں علما کی بے بسی، عوام کی جہالت و نادانی اور مسلمانوں کی صفوں میں کمزوری اور اختلاف سے فائدہ اٹھاکرمسلمانوں کوذلت و رسوائی سے دوچار کرنے کے لیے یہ محاذ کھولاگیا۔

بیرونی محاذ :یہ محاذ اسلام دشمن عناصر کی جانب سے دین اسلام کو کھوٹا ثابت کرنے ، اس کے پیرو کاروں کو گمراہ کرنے ، عالم اسلام پر قبضہ جمانے اور اس کے ذخائر اور معادن کو چرانے کے لیے قائم کیاگیاتھا۔

معنوی محاذ :یہ محاذ ملت کفر کی طرف سے اس لیے قائم ہوا کہ اس کے ذریعے اسلام کی سیاسی قوت کو زائل کیا جائے۔ خلفاے راشدین سے ورثے میں ملے ان تمام اثاثوں یہاں تک کہ ان کی آخری دستاویزات تک کو ضائع کردیا جائے ، اسلام کی بچی کھچی فوجی قوت کو تہس نہس کردیاجائے اور عثمانی خلافت ( جس کو ’مرد بیمار کے نام‘ سے یاد کیا جاتا تھا) کے ترکے کو تقسیم کیا جائے اور بالآخر بحیثیت ملّت، مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے۔

  •  اُمت کے لیے لائحہ عمل: امام حسن البنا نے امت مسلمہ کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ان تمام جان لیوا امراض سے مسلمانوں کو آگاہ کیا۔ انھوں نے امت کی اندرونی کمزوری ،بیرونی تسلط،قیادت کے فقدان اور اسلامی خلافت سے محرومی جیسے مہیب خطرات کے بارے میں خبردار کیا۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بھروسا کرکے ان خطرات سے نبٹنے اور ان مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے ایک واضح لائحہ عمل کی شکل میںیہ نسخہ تجویز کیا:’اخوان المسلمون‘کی سب سے سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اسلام کا صحیح اور درست تصور پیش کریں ،ایسا تصور جس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ ہو، جس میں کوئی پیچیدگی اور الجھائو نہ ہو۔یہ ہماری فکر اور ہمارے لائحہ عمل کا نظری پہلو ہے۔ اسلام کو صحیح طرح سمجھنے کے بعد ہمارا دوسرا کام یہ ہے کہ ہم لوگوں سے پر زور مطالبہ کریں کہ اب اس اسلام کو عملی جامہ پہنائیں اور عملی زندگی میں اس کو نافذ کریں۔ یہ ہماری فکر اورہمارے لائحہ عمل کا عملی پہلوہے۔اس پوری تحریک اور اس کے لائحہ عمل میں اللہ کی لاریب اور محکم کتاب ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث ، سلف صالحین کا کردار اور ان کی سیرت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ہماری ساری جدوجہد سے ہمارا مقصود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول، اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا اور تمام انسانوں کے لیے راہ نمائی اورہدایت کا سامان کرنا ہے‘‘۔

امام کے یہ چند جملے اسلام کے ہر مجاہد اور دین کے ہر پاسبان کے لیے زادراہ اورنقشۂ کار (روڈمیپ) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امام کے ان چھے نکات کی تشریح سے درحقیقت اس پریشان کن سوال کا جواب اور اس بڑے چیلنج کا توڑ فراہم ہوا، جس کے سامنے عثمانی خلافت کے خاتمے سے لے کر اس وقت تک بہت ساری اسلامی اور اصلاحی تحریکیں لاجواب نظر آتی تھیں اور وہ پیچیدہ سوال یہ تھا کہ :ہمیں کیا کرنا ہے ؟یا یہ کہ :ہم کیا کرنا چاہتے ہیں ؟

اس سوال کا تفصیلی اور جامع جواب دیتے ہوئے امام حسن البنانے فرمایا :

فـرد کی تیاری: سب سے پہلے ہم ایک ایسا مسلم فرد تیار کرنا چاہتے ہیں ، جو اپنی فکروعقیدے، اخلاق و جذبات اور اپنے عمل کے لحاظ سے مکمل طور پر مسلمان ہو‘ یہی ہماری بنیاد ہے۔

مسلم گہرانا: ہم ایک مسلم گھرانا بنانا چاہتے ہیں ، ایسا گھرانا جو اپنے فکر و عقیدے ، اپنے اخلاق و جذبات اور اپنے عمل اور تصرف کے لحاظ سے مسلمان ہو۔ اس لیے ہم خواتین کے لیے بھی اتنا ہی اہتمام کرتے ہیں جتنا مردوں کے لیے، اور بچوں کے ساتھ اتنی ہی رعایت برتتے ہیں جتنی جوانوں کے ساتھ۔ ایک مسلم گھرانے کی تشکیل بھی ہمارے تربیتی پروگرام کا حصہ ہے۔

مسلم معاشرے کی تعمیر:تربیت کے ان تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم مسلم معاشرے کی تعمیر چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم دن رات ایک کرکے اپنی دعوت ہر گھر تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ہماری آواز ہر جگہ سنی جائے۔ گائوں گائوں اور شہر شہر اس کا چرچا ہو۔ اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانے میں ہم کسی بھی جائز ذریعے کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور اس سلسلے میں کوئی کوتاہی اور لاپروائی نہیں ہونے دیتے۔

اسلامی ریاست کی تشکیل: اگلے قدم میں ہم ایک ایسی اسلامی ریاست کی تشکیل چاہتے ہیں ، جومسجد کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرے۔ لوگوں کو اسی طرح اسلام کی راہ پر لگائے جس طرح اس سے پہلے ابوبکرؓ، عمرؓاور دیگر صحابہ کرامؓ نے لگایا تھا۔ ہم واشگاف الفاظ میں اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی ایسے حکومتی نظام کو نہیں مانتے جو اسلام کی بنیاد پر استوار نہ ہو اور اسلام سے راہ نمائی نہ لیتا ہو۔ ہم اسلام کی تمام اخلاقیات کو زندہ کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کریں گے اور اسی بنیاد پر اسلامی سلطنت کے قیام کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتے رہیں گے۔

متحدہ عالم اسلام:ہم عالم اسلام کے ہر اس حصے کو آپس میں جوڑیں گے جو مغربی سیاست اور یورپی لالچ کی بدولت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر شکست وریخت کا شکا رہوگیا ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس جغرافیائی تقسیم اور ان عالمی معاہدات کو تسلیم نہیں کرتے جن کی وجہ سے    عالم اسلام کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، جنھیں بڑی آسانی کے ساتھ کوئی بھی غاصب ترنوالہ بنا سکتا ہے۔ ایک بالشت بھر زمین جہاں ایک بھی کلمہ گو مسلمان بستاہو، اگر دشمن کے قبضے میں ہو تو ہماری غصب شدہ اسلامی سرزمین ہے ،اس کی آزادی ہمارا فرض ہے۔ اسی طرح عالم اسلام کے تمام حصوں کو آپس میں جوڑنا بھی ہمارے پروگرام کا حصہ ہے۔ اسلامی عقیدے کی رو سے ہر طاقت ور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر اس شخص کا حامی اور مدد گار بنے جو قرآن پاک پر ایمان رکھتا ہو۔ کسی بھی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایمان او رعقیدے کے رشتے پر دوسرے رشتوں کو مقدم رکھے۔ اسلام میں عقیدہ ہی اصل بنیاد ہے۔

سامراجی و غاصبانہ قبضے کا خاتمہ: ہمارا عزم ہے کہ ان تمام سرزمینوں پر ایک بار پھر اسلام کا پرچم بلند ہو جو کسی زمانے میں اسلام کی برکات سے فیض یاب ہوئیں اور جہاں مؤذن نے ایک بار بھی تکبیر اور تہلیل کی آواز بلند کی ہو، اور جن کو ظالم اور غاصب طالع آزمائوں نے اسلام کی روشنی اور برکات سے محروم کرکے کفر کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

وہ اپنی بات کو خوبی سے اس مختصر جملے میں سمیٹ لیتے ہیں: ’’ہم پر فرض ہے کہ ہم اس اسلامی سلطنت کی عظمت رفتہ کو لوٹانے کے لیے کوشاں رہیں جو عدل و انصاف پر مبنی تھی اور جس کا مقصد لوگوں میں ایمان کی روشنی پھیلانا او ران کو ہدایت سے ہم کنار کرنا تھا‘‘۔

اس مختصر جملے سے ہم واضح طور پر ان کے طریق کار اور پروگرام کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیا ہم اس واضح تصور کو ان لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں جو ابھی تک اپنے ان سوالات کے اسیربن کر یہ پوچھتے ہیں کہ: ہم کون ہیں ؟کیا خیرامۃ اخرجت للناس کا اعادہ اسی طریق کار کے مطابق ممکن ہے، جس کے ذریعے سے صحابہ کرامؓ کی جماعت تیار ہوئی تھی؟ امام حسن البنا نے جو طریق کار مذکورہ بالا چھے نکات میں بیان کیا ہے، کیا یہ امت کو غلامی سے نجات دلانے اور مسلمانوں کی  عظمت رفتہ کے اعادے کے لیے کامیاب نسخہ ہے ؟کیا دوسرے پروگرام ، اصلاحی تحریکیں اور طریق کار بھی اس حوالے سے موجود ہیں ؟

میں اپنے مقالے ان سوالات کے مختصر جوابات اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا، جس سے امام حسن البنا کے طریق دعوت اور اصلاحی پروگرام کی بہتر وضاحت ہوسکے۔

  •  واضح فکری بنیادیں: ہماری نظر میں حسن البنا کی فکر میں جو نیا اسلوب پایا جاتا ہے اس کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: اسلام کا وسیع تر اور جامع فہم اورمخاطبین دعوت کی نفسیات اور شخصیت سے آگاہی۔

اندرونی جھگڑوں ،اختلافات اور کھینچاتانی کے سبب اسلامی فکر کی اساسی بنیادیں ذہنوں سے محو ہوچکی تھیں۔ اجتہادی مدارس بانجھ ہوچکے تھے اور فقہی اور دینی مراکز رخصت ہونے کو تھے ، جن کے سبب اسلام کی بنیادی فکر فقہی مدارس، مختلف فکری مکاتب ، تربیتی مناہج، علمی اداروں ، تصوف کے نزاعات، متنازع اصلاحی تحریکوں، ادھوری انفرادی کوششوں اورحکومتی اداروں میں تقسیم ہو کر گردش زمانہ کی نذر ہوچکی تھی۔

اسی دوران حسن البنا نے گذشتہ عہد اور عصرحاضر کے فکری مکاتب اور اصلاحی تحریکوں کا بغور مطالعہ کیا اور ان سب کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے جدید فکری خطوط وضع کیے۔ درج ذیل تین اہم خصوصیات کی وجہ سے ان کی اس فکرکو امتیاز اور فوقیت حاصل ہے :

۱-  یہ جدید طرز فکر، انتہائی واضح ،سلیس اور عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

۲- یہ اسلام کے وسیع تر تصور، روایت اور دقیق فہم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

۳- یہ ہمہ گیریت ایک دوسرے سے تعاون کرنے سے عبارت ہے۔

میری راے میں یہ ہیں وہ بنیادی نکات، جو امام حسن البنا کی اس تجدیدی فکر کو دوسرے تمام مکاتب فکر سے جدا کر دیتے ہیں۔ یہ ہے وہ عمدہ اور اہم تجدید ی کام جس کی بدولت اسلامی دعوت اور اسلامی فکر اپنے اصل سرچشمے کی طرف لوٹی۔ اس کی برکت سے اس اضطراب کا ازالہ ہوا جو اس وقت اسلام کے بارے میں لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں پایا جاتاتھا اور اسی کے سبب اس دورنگی اور تضاد سے چھٹکارا ملا جس میں مسلمان عملی طور پر مبتلاتھے۔

امام حسن البناکا یہ کارنامہ، فکری تجدید کے میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ افکار کی پراگندکی اور اضطراب دوسری مشکلات کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور تکلیف دہ ہوا کرتا ہے۔ معاشرہ پراگندہ افکار، اجتماعی، معاشی، سیاسی او رثقافتی لحاظ سے شکست و ریخت سے دوچار تھا۔ امت مسلمہ قیادت کے بحران اور انتشار کا شکار تھی۔ کچھ کام اجتماعی اور انفرادی سطح پر اخلاص کی بنیاد پر بھی کیا گیا۔ لیکن فہم کی کمزوری مطلوبہ نتائج کے راستے میں رکاوٹ تھی۔ ہر مکتب فکر ایک مخصوص خول میں بند تھا۔ تنگ نظری اور عدمِ برداشت ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ ہر مکتب فکر کی قیادت اس کوشش میں تھی کہ صرف اسی کی فکر کو فروغ ملے۔

نمایاں طرز ھاے فکر: اس زمانے میں فکری میدان دوقسم کے طرز فکر رکھنے والوں کے لیے خالی تھا۔

صوفی طرزفکر: علم فضائل اور علم سلوک اس مکتب فکر کے اہتمام کا مرکز بنے رہے۔ بلاشبہہ اس مکتب فکر کی کچھ اچھائیاں بھی ہیں لیکن کئی کمزوریاں یا خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

فلسفی اور جدلی طرز فکر:جس کا بنیادی کا م اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات کو دفع کرنا ، فقہی مسائل پر توجہ دینا اور مناظروں او رمباحثوں کا بھرپور اہتمام کرناتھا۔ اس مکتب فکر کے اپنے منفی و مثبت پہلو ہیں۔

  •  اصولی نقطۂ نظر: اسی اثنامیں امام حسن البنا نے قرآن کریم کی سورۂ انفال(۸: ۶۱) کے ایک جامع لفظ ’واعدو‘پر ہاتھ رکھ کر پوری انسانیت کو مخاطب کرکے کہا کہ لوگو!راستہ یہاں ہے۔ انھوں نے اس کلمے کو اپنی جماعت کا شعار بنا لیا، تاکہ تیاری کا فریضہ ایک مستقل اور پایدار فریضے کے طورپر ہمیشہ امت کے سامنے رہے،جو قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں جاری و ساری رہے گا۔ قرآن کریم (مصحف شریف )کے گرد دو تلواریں بنا کر اس بات کو ذہن نشین کرایا کہ ا س قرآنی قانون اور قرآنی ہدایات کو درحقیقت حکمرانی کا اختیار حاصل ہے۔

ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے امام نے جو ارشاد فرمایا ، اس سے پوری فکرکی وضاحت ہوجاتی ہے اور مستقبل کے جامع لائحہ عمل پرروشنی پڑتی ہے: ’’ہم قرآن پاک کی جامع دعوت کی حامل تحریک ہیں۔ نفس کے تزکیے ، روح کی پاکیزگی و بالیدگی اور اللہ بزرگ و برتر سے دلوں کو جوڑنے میں ہم اہل تصوف کا تسلسل ہیں۔ خدمت خلق سے سرشار ، انسانیت کے لیے نافع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والے، مصائب اور تکالیف میں مبتلا لوگوں کے کام آنے والے ، معاشرے کے پسے ہوئے ، غریب اورنادار افراد کی امداد کے لیے ہمیشہ تیار، اورباہم برسرپیکار گروہوں میں صلح و صفائی کرانے کے ناتے ہم ایک فلاحی تنظیم ہیں۔ ہرقسم کے جہل اور فقر سے نبرد آزما اور روحانی و جسمانی تمام امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم ایک سماجی و فلاحی (social ) ادارہ ہیں۔ ہم وہ اصولی سیاسی پارٹی ہیں جس کا مقصد امت میں وحدت کا قیام ہے ، جوکہ تمام شخصی مصالح اور اغراض سے بالا تر ہو کر اہداف کا تعین کرنے، لوگوں کی راہ نمائی کرنے اور ان کو صحیح سمت دینے کے لیے کوشاں ہے۔ لوگو!سنو: جو اسلام کو صحیح   طور پر جان گیا ، وہ ہمیں اسی طرح پہچان لے گا جس طرح اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ پس اسلام کو سمجھو---پھر ہمارے حوالے سے جوکچھ کہنا چاہو کہو‘‘۔

امام حسن البنا نے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایاہے:’’میں وہ سیاح ہوں جو حقیقت کی تلاش میں نکلا ہے۔ وہ انسان ہوں جو لوگوں کے درمیان انسانیت کو ڈھونڈنے چلا ہے، اور وطن کا ایسا باشندہ ہوں جو اپنے وطن کے لیے دل کی گہرائیوں سے اسلام کے سایے تلے عزت ،آزادی، امن اور پاکیزہ زندگی کا خواہاں ہے‘‘۔

اسلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : ’’اسلام زندگی بھر کے تمام مسائل کو منظم کرتا ہے۔ اس کے ہر مسئلے میں فتویٰ اور حکم دیتا ہے اور ہر معاملے کو سلجھانے کا منظم اور واضح طریق کار پیش کرتا ہے۔ کسی بھی بنیادی اصلاح طلب مسئلے کو حل کرنے میں لاجواب ہی نہیں بلکہ ان تمام نظاموں کی اصلاح کی مکمل اہلیت رکھتا ہے جن کی اصلاح کی بنی نوع انسان کو ضرورت پیش آسکتی ہے‘‘۔

اپنی فکر کو بڑے مختصر اور جامع انداز میں یوں پیش کیا :’’ہماری فکر کا خلاصہ یہ ہے: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مومنوں کی ایک ایسی نئی نسل تیار کرنا جو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اعلیٰ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو، اس کے بلند اخلاقی معیارات پر کار بند ہو اور اپنی پوری زندگی اسلام کے رنگ میں رنگ لے: صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً (البقرہ۲:۱۳۸) ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا ؟‘‘

۱۹۲۸ء، یعنی یوم تاسیس ہی سے اس تحریک میں وہ تمام حر کی ادبیات موجود تھیں، جو اب ایک ہمہ گیر عالمی مکتب فکر کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ اس لیے کہ اخوان المسلمون ،اسلام کی پہلی دعوت کا تسلسل اور اس کی صداے بازگشت ہے۔ حقیقت میں اسی روز سے اس دعوت کا آغاز ہو گیا تھا جس دن قرآن پاک کی پہلی آیت اقرا --- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ بنیادی طور پر یہی اقرا کا کلمہ ہی مسلمان علما اور مفکرین کی تشریحات کی روشنی میں اس بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور زندگی کے تمام شعبوں کی اصلاح کے لیے ایک اصولی پروگرام کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اس سلسلے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں پوری اُمت کے لیے ایسے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے،جس کی بدولت لوگوں کے عقیدے ، اخلاق، طرز فکر، تغیر اور انقلاب کے اسالیب اور اسی طرح زندگی کے ہر میدان میں ایک تغیر رونماہوا۔لوگ، لات ، منات ،عزیٰ اور ہبل کو چھوڑکر ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوئے۔

یہ اصولی پروگرام پوری کائنات اور کائنات کی ہر ایک چیز کے لیے وضع کیاگیا۔ چنانچہ جمادات ، نباتات ، حیوانات ، انسان ، جن اور ملائکہ سب کے سب اس نظام کے پابند ہیں۔ سب  اللہ پاک کی تقدیس اور تسبیح کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔جو شخص اسلام کے اصل سرچشمے سے سیراب ہونے کاارادہ رکھتاہو، اس کے لیے اسلام کا پیغام کتنا واضح اور آسان ہے اور نشانات راہ دکھانے کے لیے اس کا طریق کار کتنا روشن ہے___ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ؓکو اپنا سفیر بنا کر یمن روانہ فرمایا تو چار مختصرجملوں میں انھیں دعوت اور تبلیغ کا پورا طریق سمجھا دیا۔ آپؐ نے فرمایا:سب سے پہلے ایمان کی دعوت (شہادتین کا اقرار )،اگر اس کو انھوں نے قبول کرلیا تو اس کے بعد ان کو اسلام کے بنیادی قواعد و ضوابط کی طرف دعوت دینا، اگر اس کو بھی انھوں نے تسلیم کرلیا تو پھر ان کو مقاصد کلمہ کی طرف دعوت، اور اس کے بعد پھر اجتہاد کا مرحلہ آتا ہے۔ کتنے واضح آسان تدریجی اسلوب کی راہ نمائی اس مثال میں ملتی ہے۔

اخوان المسلمون کی فکر کا خلاصہ اس کے بانی کی نظرمیں ان کلمات میں پیش کیا جاسکتا ہے : عالمِ اسلام اور اس کے توسط سے پوری نوع انسانیت اپنی دینی پیاس بجھانے کے لیے اس صاف و شفاف  چشمے کی طرف لوٹ آئے جس کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: ’’میں تمھارے درمیان دو ایسی چیز چھوڑ ے جا رہا ہوں، اگر تم اس پر کاربند رہے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ، اللہ کی کتاب اورمیری سنت ‘‘۔

انفرادی دعوت او رتدریجی اصلاح سے اس کا م کا آغاز ہوگا۔یہ کام فرد سازی سے    لے کرزمانے کی راہ نمائی، خلافت کی اقامت اور ہر طاغوت سے پورے عالم اسلام کی مکمل آزادی تک جاری رہے گا۔ اس ہمہ گیر تحریک میں ہمارا زادراہ گہرا اور پختہ ایمان، مستحکم تربیت ، مضبوط اخوت اور بھائی چارہ اور پیہم اور مسلسل عمل ہوگا۔ انھی عام فہم بنیادی اصولوں پر امام حسن البنا نے اپنی تحریک کے طریق کار کی بنیاد رکھی، جس نے اخوان المسلمون کی صورت میں ایک بہت     بڑی عالمی تحریک کی حیثیت اختیار کی۔

جوانوں کے نام ایک پیغام میں امام حسن البنا شہید نے اس تحریک کے مراحل اور وسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:’’اخوان المسلمون کی تحریک کے مراحل متعین اور واضح ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کو کیا کرنا ہے۔ وہ تمام وسائل بھی بالکل ہماری نگاہ کے سامنے ہیں جن کو استعمال کرکے ہم اپنے وضع کردہ مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے مسلمان فرد ، مسلم گھرانے، مسلم معاشرہ اور اس کے بعد اسلامی ریاست کا قیام ، عالم اسلام کی تمام سرزمینوں کو  یک جا کرکے ایک بڑی اسلامی مملکت کا قیام ہمارے پروگرام کا حصہ ہے ،جہاں اسلام کا پرچم سربلند ہو۔ اس کے بعد ہم تمام انسانیت کے سامنے برملا اور ہر حالت میںاس دعوت کا اعلان کریں گے اور دنیا کے کونے کونے تک اس کو پہنچائیں گے‘‘۔

m دعوت دین کی بنیادیں: یہ بات درست ہے کہ اسلام اپنی بنیادی تعلیمات کے لحاظ سے بالکل واضح ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸)’’اے نبیؐ ان سے کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے ، میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘۔ چنانچہ راستہ روشن ہے۔ دعوت الی اللہ کا مفہوم واضح ہے ، بصیرت موجود ہے ، ذمہ داری متعین ہے ، تزکیہ نفس یقینی ہے اور کفر و شرک کے شائبے سے دوری  ان سب کی بنیاد ہے۔

یہ عام بنیادی اصول ہیں جوکہ تمام داعیان دین ، مصلحین امت اور علما وفقہا کے درمیان قدر مشترک ہیں،لیکن ان کی روشنی میں کچھ خاص اصول متعین کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے سدالذراع کے دائرے میں رہ کر باریک بینی اور اعتماد کے ساتھ اپنے اہداف کی طرف  پیش قدمی کا طریق کار متعین کیا جاسکے، اور اندھیرے میں تیر چلانے والوں کے لیے غلط تاویلات کا دروازہ بند کیا جاسکے ، جوکہتے ہیں کہ جب اسلام موجود ہے تو پھر لوگوں کو اسلام کا جدید فہم حاصل کرنے کی تجویز دینے کا کیا مطلب ؟ جب اسلام کے اصول و مبادی بدیہی طور پر دین کا حصہ ہیں تو پھر اس پر نظرثانی اور نئی کانٹ چھانٹ کی کیا ضرورت ہے جس کو تم اپنے کارکنان کے لیے معیار قبولیت بناتے ہو۔ان تمام سوالات کا جواب نہایت سیدھا اور آسان ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فکر و تدبر اور زمین و آسمان کی پیدایش میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ خود اسلام نے ہمیں اجتہاد و تجدید کی طرف بلایا ہے۔

جن قابل ذکر مسائل میں نظر ثانی اور تجدید کی ضرورت ہے ان میں ایک مسئلہ وہ اصول و مبادی ہیں جن کا بنیادی تعلق میدان دعوت سے متعلقہ مسائل سے ہے ، تاکہ ایسے مشترکہ اصول وضع کیے جاسکیں جو تمام مسلمانوں کے لیے ایک مشترک فکری پس منظر قائم کرسکیں۔

اگر پوری دنیاکے مسلمان قرآن پاک کو ایک درست اور مقدس قانون کے طور پر تسلیم کرتے اور مانتے کہ : لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ (حم السجدہ ۴۱: ۴۱) ’’باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے ‘‘ تو پھرخود زمانے کے افکار و نظریات کی تصحیح و ترمیم کے لیے کچھ مشترکہ اصول وضع کرنے ہوں گے ، اور ایسے متفقہ قواعد وضوابط مرتب کرنے ہوں گے جن کے ذریعے اسلام کو سمجھا جاسکے۔ دعوت کا آغاز اس اصول کے تحت کیا جائے کہ علما دین کا اجماع حجت قاطع ہے اور ان میں اختلاف کی صورت میں فیصلہ کن حیثیت قرآن کو حاصل ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o (النساء ۴:۶۵)’’نہیںاے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جوکچھ تم فیصلہ کرو ، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ اسے پوری طرح تسلیم کرلیں‘‘۔

امام حسن البنا ارشاد فرماتے ہیں :’’میں چاہتا ہوں کہ اس وضاحت کو پرکھنے کے لیے میں ایک معیار مقر ر کروں۔ میری کوشش ہوگی کہ بات آسان اور سلیس زبان میں ہو او رقاری کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے، اور اُمت اسلامیہ میں سے کوئی بھی میری اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ وہ معیار اللہ کی کتاب ہے ، جس کے سرچشمے سے ہم سیراب ہوتے ہیں اور جس کی حکمت و دانائی کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں۔ ‘‘

امام حسن البنا نے اسلام اور اسلامی دعوت کو سمجھنے کے لیے قرآن پاک ہی کی مدد سے مراحل کا تعین کیا اور انھیں ۲۰ اصولوں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے ان اصولوں کو دو اہداف کے حصول کے لیے تمام مسلمانوں کے مابین قدر مشترک قرار دیا ہے:

۱- روزبروز بڑھتے اور شدت اختیار کرتے ہوئے اختلافات سے اجتناب۔

۲- ایک ایسی دینی قیادت کی تشکیل ، جس کی طرف اسلامی امور میں رجوع کیا جاسکے۔

یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کی صحت اور وقعت تاریخ نے ثابت کردی۔ یہ اتحاد بین المسلمین کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے جس پر بالا جماع تمام مسلمان متفق ہیں۔ یہ دور یاں ختم کرتی ہے، ایسے آسان راستوں کی نشان دہی کرتی ہے جس کے ذریعے ہم عقائد ،اصول اور سیاسی اجتہادات کے حوالے سے موجود نظریات کی درستی اور ان کا صحیح فہم و ادراک کرسکیں۔

یہ ’۲۰ اصول ‘ اتنے مشہور ہوچکے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان تہذیبی یک جہتی کے دستور کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ لہٰذا ان کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ان اصولوں کے اصل مصدر رسالۃ التعالیم اور خاص طو رپر محمد الغزالی اور یوسف القرضاوی کی تحریروں کا حوالہ دینا کافی سمجھتا ہوں۔ تاہم اپنے موقف کی وضاحت کے لیے بعض مقامات کی طرف صرف اشارہ کروں گا۔

امام حسن البنا فرماتے ہیں:’’اسلام ایک ہمہ گیر نظام ہے جو زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی ہے ، چنانچہ وہ ریاست و حکومت کے معاملات میں بھی دخل دیتاہے اور تعمیر وطن و تشکیل امت کی ذمہ داری بھی اپنے سرلیتاہے۔ وہ اخلاق و کردار اور شفقت ورحمت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے اور علم و ثقافت اور قانون وعدل کا انتظام بھی کرتا ہے۔ وہ کسب مال اور دولت و ثروت کی راہیں بھی متعین کرتا ہے۔ یہ ایک دعوت، ایک نظریہ ، ایک جہاد اور لشکر بھی ہے اور ایک سچا عقیدہ اور عبادت بھی ہے‘‘۔ گویا اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی ہے۔

دعوت کے مشترکہ اھداف: یہ ہے اسلام کی اصل حقیقت، جو اللہ کا نازل کردہ دین ہے ، زندگی کے تمام پہلوئوںکو محیط ہے۔ عملیت پسند اورمتوازن ہے اور ہر زمانے اور ہر جگہ ہرانسان کے لیے قابلِ عمل ہے۔ اصل مسئلہ ان کُلی اصولوں کے سمجھنے کا ہے کہ کس طرح ہم ان سے فروعی مسائل اخذ کرسکتے ہیں اور کس طرح ہم تدریج کے ساتھ ان سے شرعی احکام کے نفاذ کے لیے جزئیات اخذ کرسکتے ہیں ؟

اس کے جواب میں امام شہیدنے فرمایا: ’’قرآن کریم اور سنت مطہرہؐ ، اسلامی احکام کے سمجھنے میں تمام مسلمانوں کے لیے مرجع ہے ، اور قرآن بغیر کسی مشکل کے سمجھا جاسکتا ہے، جب کہ سُنت نبوی کے مطالب سمجھنے کے لیے با اعتماد ماہرین حدیث کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس بنیادی اصول سے کئی ضوابط نکلتے ہیں :

__ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی انسان معصوم نہیں ہے۔

__ سلف نے اپنے دور میں اجتہاد کیا ، اس میں جو کچھ قرآن و سنت کے موافق ہے اسے ہم قبول کریں گے او رجو مخالف ہے اسے رد کریں گے، تاہم ان پر طعن و تشنیع نہیں کریں گے۔

__  ہر عالم کا حق ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کے مطابق اجتہاد کرے۔جو لوگ عالم نہیں ہیں وہ اَئمہ دین میں سے کسی کا اتباع کریں گے، اور خود بھی کوشش کریں گے کہ کسی شرعی قاعدے کی مخالفت سے بچتے ہوئے احکام کے دلائل معلوم کریں۔

__ فقہا کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کریں او راختلاف و تفرقہ کے مسائل سے بچیں، خواہ وہ نص کے ظاہری معنی مراد لیں یا مقاصد شریعت کی روح کو مدنظر رکھیں۔

__ عقیدہ عمل کی بنیاد ہے ، نیت اعمال سے زیادہ اہم ہے ،تاہم دونوں میں کمال حاصل کرنے کی کوشش مطلوب ہے۔

__  ان معاملات میں اجتہادی راے قابل احترام اور قابل عمل ہے کہ جن کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہ ہویا نص توموجود ہو، لیکن اس میں مختلف معانی کا احتمال ہو اور جس کا مقصد مصالح عامہ کا حصول ہو۔ تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ کسی شرعی قاعدے سے متصادم نہ ہو اور عرف و عادت اور زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق ہو۔

__ فقہی اختلافات کو تفرقہ بازی کے لیے وجہ جواز نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ اخوت و محبت اور باہمی تعاون کی فضا میں فقہی اختلافات میں بحث و جستجو کرنا عباد ت ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ حقیقت تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔

__  ہر وہ مسئلہ جس کا تعلق عمل سے نہیں، اس میں وقت صرف کرنا صحیح نہیں ہے۔ غلط ’عرف‘ شرعی الفاظ کی حقیقت کو نہیں بد ل سکتا۔ شریعت میں چیزوں کے نام نہیں ان کی حقیقت معتبرہے۔

__  یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی مسلمہ سائنسی حقیقت شریعت کے کسی قاعدے سے متصادم ہو، جو چیز قطعی ہو وہ ظنی پرمقدم ہے اور تصادم کی صورت میں شرعی اصول کا اتباع مقدم ہوگا۔

__  اسلام عقل کو وہم اور خرافات سے آزاد کرتا ہے اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ حدیث نبویؐ ہے : علم وحکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے۔ جہاں کہیں بھی اسے ملے وہ اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ (ترمذی )

یہ بنیادی اصول امام حسن البنا کی فکر کے واضح پیمانے ہیں۔ امام حسن البنا شروع ہی سے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ اصل مسئلہ جو اسلام اورمسلمانوں کے درمیان حائل ہے، وہ مقاصد شریعت کے صحیح فہم کا نہ ہونا اور ان بنیادی اصولوں کے معیار کا فقدان ہے۔ حسن البنا شہید نے اپنے ۲۰اصولوں میں ان باتوںکی وضاحت کی ہے۔ چھٹی سالانہ کانفرنس سے خطاب میں یہ کہتے ہوئے اس پر مہرتصدیق ثبت کی کہ :’’ میرے بھائیو! اچھی طرح سے جان لوکہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے اوپر احسان کیا اور تمھیں اسلام کا صحیح اور وسیع تر مفہوم عطا کیا جو زمانے کو ساتھ لے کر چلتا ہے ، تمام امتوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ، اور لوگوں کو خوشی فراہم کرتا ہے۔ جو جمود ، اباحیت اور فلسفیانہ پیچیدگیوں سے پاک ہے ، جس میں کوئی افراط و تفریط نہیں ہے ، جو قرآن و سنت اور سلف صالحین کی سیرت سے منصفانہ طریقے سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ ایک سچے مومن کے دل سے تم نے اسے قبول کیا اور اسی سے آپ نے عقیدہ و عبادت ، وطن و شہریت ، حکومت و قوم ، قرآن و تلوار اور اللہ کی سرزمین پر مسلمانوں کی نیابت کی پہچان حاصل کی‘‘۔

  •  نصب العین: امام حسن البنا نے بنیادی طور پر صرف ایک ہی ہدف کو اپنا نصب العین بنایا جو باقی تمام متعلقہ اہداف کا سرچشمہ ہے۔ وہ تمام آرزوئیں اور خواہشات اس سے خارج ہوجاتی ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی زندگی کو لاحق ہوتی رہی ہیں۔ بنیادی ہدف کو بالکل واضح ، بلند اور محبوب ہونا چاہیے۔ اسے صرف وہ حاصل کرسکتا ہے جو اس کو خوب اچھی طرح    سمجھ لے اور اس کے لیے اپنے دل میں اخلاص پیدا کرلے۔ وہ پہلے مرحلے میں لوگوں کو اللہ سے جوڑے اور دوسرے مرحلے میں اپنی آرزوئوں کو جنت کے لیے مؤخر کرے۔ یہ بلند نصب العین  اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے ، جس کے لیے امام حسن البنانے تگ و دو کی ، اسے اپنا شعار بنایا اور لوگوں کو دعوت دی کہ اس کو اپنے نفس اور اپنی زندگی میں عمل میں ڈھال دیں تاکہ وہ اللہ والے   بن جائیں۔ اخوان المسلمون نے اس ہدف کو امام کی زندگی میں اور ان کی شہاد ت کے بعد اپنے متفقہ نعرے ’’اللہ ہمارا مقصود ہے‘‘ کے ذریعے دوام بخشا۔ چنانچہ امام کی زندگی ہی میں انھوں نے بھرپور جرأت اور اعتماد کے ساتھ اپنے زور دارنعروں کے ذریعے زمین کو ہلا کر رکھ دیا ، جو محض نعرے نہیں تھے بلکہ یہ ایک قابل تنفیذ پروگرام اور قابل عمل رویہ ہے۔

یہ ایسا قول فیصل ہے جو اخوان المسلمون کو تمام جماعتوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس سے   پتا چلتا ہے کہ یہ نصب العین کتنا واضح ہے ، جو اخوان المسلمون کی پہچان بن چکا ہے۔ اخوان کے کارکن اسی کو سامنے رکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اسی کو حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، اور بانیِ جماعت کی ہدایات کے مطابق اسی کے گرد جمع ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ انھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ:’’ہم کیا چاہتے ہیں ؟‘‘اور پھر خود ہی اخوان کے واضح طریق کار کے مطابق جواب دیا :’’کیا ہم مال و دولت چاہتے ہیں جو سایے کی طرح عارضی ہے ، یا ہم دنیا کے جاہ و جلال کے طلب گار ہیں ،یا ہم زمین کے اوپر حکمرانی اور سلطنت چاہتے ہیں، حالانکہ یہ زمین اللہ کی ہے اور یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط (اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ الاعراف ۷:۱۲۸)، جب کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سامنے رکھتے ہیں: تِلْکَ الدَّارُ  الْاٰخِرَۃُ  نَجْعَلُھَا  لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo (القصص ۲۸:۸۳) ’’وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ ہم اس دنیا اور اس کے جاہ و جال سے کچھ نہیں چاہتے، نہ ہم اس کے لیے کام کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف دعوت دیتے ہیں بلکہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ آپ کے سامنے صرف دو اہداف ہیں :

۱- ایک یہ کہ اسلامی ممالک ہر بیرونی تسلط سے آزادہوجائیں۔ یہ ہر انسان کا فطری حق ہے، جس کا انکار کوئی ظالم و جابر آمر ہی کرسکتا ہے۔

۲- دوسرا یہ کہ اس آزاد وطن میں ایک آزاد اسلامی سلطنت قائم ہو جو اسلام کے احکام پر عمل کرے، اس کے اجتماعی نظام کو نافذ کرے ، اس کے راست اصولوں کا اعلان کرے اور اس کی حکیمانہ دعوت کو تمام لوگوں تک پہنچائے۔ جب تک یہ حکومت قائم نہیں ہوگی تمام مسلمان گنہگار ہوں گے اور اس کے قیام کے سلسلے میں کوتاہی و لاپروائی پر اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے‘‘۔

’’ہماری دعوت کے دو نکتے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں :وطن کی آزادی اور اسلامی مملکت کا قیام‘‘۔ اس کے بعد امام حسن البنا اپنے طریقۂ کار کے مراحل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ہم چاہتے ہیں کہ پہلے ایک مسلم فرد، پھر مسلم گھرانا اور مسلم قوم پیدا ہو۔ پھر ایک مسلم حکومت قائم ہو اور پھر ایک ایسی مملکت وجود میں آئے جو تمام اسلامی حکومتوں کی قیادت کرے ، بکھرے ہوئے مسلمانوں کو یک جا کرکے انھیں ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلادے اور ان کی غصب شدہ زمین اور چھینے ہوئے علاقے بازیاب کرائے۔ پھر وہ جہاد اور دعوت الی اللہ کا علم بلند کرے تاکہ پوری دنیا اسلام کی تعلیمات سے بہرہ مند ہوجائے۔ ‘‘

اخوان المسلمون کا بنیادی ہدف لوگوں کو اللہ تعالیٰ وحدہٗ لاشریک کی عبادت، جس کے لیے ہم پیدا کیے گئے ہیں ، کے ذریعے سے اللہ کی رضا تک پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (ذاریات۵۱:۵۶) ’’میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔ اور عبادت کا حق اداکرنے کے لیے تعمیر وطن اور ہرطاغوت سے اس کی آزادی ضروری ہے، تاکہ لوگ اللہ سے جڑ سکیں اور انھیں ایمان باِللہ اور اعمالِ صالحہ پر اُبھارا جاسکے۔

یہ وسیع تر پیغام ہے جسے اخوان تمام لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ امام البنا نے اس پیغام کا دو مختصر جملوں میں خلاصہ پیش کیا :

۱- اُمت کو تمام سیاسی پابندیوں سے نجات دلانا تاکہ اسے مکمل آزادی حاصل ہوجائے۔

۲- اُمت کی تشکیل نو کرنا ، تاکہ وہ دیگر اقوام کے اندر رہ کر آگے بڑھے اور معاشرتی بلندیوں کو حاصل کرنے میں اُن کا مقابلہ کرے۔

یہ دونوں جزو لازم و ملزوم ہیں۔ تعمیر نو اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سابقہ عمارت کو گرایا نہ جائے، مثلاً ایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے غیر اللہ کا انکار کرنا ضروری ہے۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤمِنْم بِاللّٰہِ (البقرہ ۲:۲۵۶) ’’جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے‘‘۔ لہٰذا تعمیر سے پہلے آزادی ضروری ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام حسن البنا ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اخوان کے کارکنان نے ایک امر بدیہی کے طور پر اسے حفظ کرلیا اور اسی کو عملی جامہ پہنانے کی تگ و دو کرتے رہے۔ امام حسن البنا نے اپنے رسالے الٰی ایّ شیئٍ نَدعُو النَّاس؟(ہم لوگوں کو کسی چیز کی دعوت دیتے ہیں) میں اجمالاً اس کا تذکرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں: ’’ہمارا کام اجمالی طور پر یہ ہے کہ ہم مادیت، اباحیت اور الحاد کے سیلاب کی بے رحم موجوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوں ، جو ملت اسلامیہ کی وحدت کو بہالے گئی ہیں اور اسے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت اور قرآن کی ہدایت سے بھی محروم کردیا ہے‘‘۔

اسی مضمون کو اپنے دوسرے رسالے تحت رایۃ القرآن (پرچمِ قرآن تلے) میں جگہ جگہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ اس میں انھوں نے اخوان کے اصول ، اہداف ، وسائل اور کامیابی کے مختلف مراحل کا ذکرکیا اور یوں مسلم فرد سے لے کر اسلامی خلافت کے قیام تک کے خلا کو پرُ کردیا۔ اس طویل وضاحت کو ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا :’’یہ وہ پیغام ہے جو اخوان المسلمون لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہے۔ وہ امت مسلمہ سے اپیل کرتی ہے کہ اسے بھی یہ سمجھنا چاہیے اور پر عزم ہو کر اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کو اخوان المسلمون نے اپنی طرف سے نہیں بنایا، بلکہ یہ وہی پیغام ہے جو قرآن کی ہر ہر آیت میں نظر آتا ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث میں نمایاں ہے، قرون اولیٰ کے مسلمان جو اسلام کے فہم اور نفاذ کا اعلیٰ نمونہ تھے ،۱ ُن کے ہرہر عمل سے مترشح ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اس پیغام کو قبول کریں گے تو یہ صحیح ایمان و اسلام کی   نشان دہی ہوگی اور اگر انھیں اس میں کوئی نقص یا عیب نظر آئے تو پھر اللہ کی کتاب ہمارے درمیان قول فیصل ہوگی۔ وہ عدل کے ساتھ ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان فیصلہ کرے گی۔ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا یا ہمارے خلاف ، یہ معلوم ہوجائے گا : رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَo (اعراف ۷:۸۹) ’’اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما۔ یقینا تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے‘‘۔

چھٹے اجتماع عام میں امام حسن البنا نے بنیاد ی مقصد ( اللہ ہمارا مقصود ہے ) کو دو ذیلی اہداف میں تقسیم کیا، جس پر عمل کرکے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا :’’اخوان المسلمون دو مقاصد کے لیے کام کرتی ہے۔ ایک مقصد قریب ہے جس کے ثمرات اخوان میں شامل ہوتے ہی نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں یا اخوانیت اس کے اندر نظر آنے لگتی ہے۔ ایک مقصد دور ہے جس کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے، اور جس کے لیے پہلے تربیت اور اچھی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ قریب کا مقصد ہر قسم کی عام نیکیوں میں حصہ لینا اور حالات کے مطابق سماجی خدمات انجام دینا ہے۔ اخوان المسلمون کے ساتھ جیسے ہی کوئی منسلک ہوتا ہے تو اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ :

                __           اپنے نفس کو پاک اور اپنے رویے کو درست کرے۔ روح، عقل اور جسم کو ایک لمبے جہاد کے لیے تیار کرے۔

                __           اس دعوت کو اپنے خاندان ، دوستوں اور معاشرے میں عام کرے۔ کوئی بھائی   اس وقت تک صحیح مسلمان نہیں بن سکتا جب تک وہ اسلام کے احکام و اخلاق پر عمل نہ کرے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو رسولؐ اللہ نے مقرر فرمائی ہیں۔

’’میرے بھائیو!کیا تحریک اخوان صرف یہ چاہتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو اخوان کے مقاصد کا ایک جزو ہے جس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنا مقصود ہے۔ یہ توہمارا چھوٹا سا ہدف ہے کہ نیکی و اطاعت میں اپنا وقت صرف کریں اور مکمل اصلاح اور مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مناسب حالات کا انتظار کریں‘‘۔

’’اخوان المسلمون کوشش کرتی ہے کہ نظام مملکت کو نیک حکمرانوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ اسلامی خلافت کا احیا کیا جائے اور اسلام کے احکام کو نافذ کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَo (الجاثیۃ ۴۵:۱۸) ’’اس کے بعد اب ( اے نبیؐ)ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہ راہ (شریعت ) پر قائم کیا ہے۔ لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کو خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘۔

امام حسن البنا نے اپنی دعوت کی بار بار وضاحت کرنے سے کبھی بھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا ،تا کہ یہ اہداف کارکنان کے ذہنوں میں راسخ ہوجائیں اور وہ اسے حاصل کرنے کے لیے مسلسل اس کے ساتھ وابستہ رہیں ، کیونکہ وابستگی ہی اہداف کو حاصل کرنے کا راستہ ہے اگرچہ دسیوں سال بعد ہو۔

بانیِ اخوان کے پیش نظر اہداف یہ ہیں :

  • بنیادی ہدف:اللہ ہمارا مقصود ہے 
  • مقصد قریب :اسلامی جماعت کا قیام۔
  • مقصد بعید:وطن اسلامی کو ہر بیرونی تسلط سے آزاد کرانا ، اسے پھر سے اللہ تعالیٰ سے جوڑنا ،اور اس تیاری کے بعد وہ اُمت خیر کو تشکیل دینا جس کی بشارت قرآن نے پہلے ہی دے رکھی ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ  (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)
  •  وسائل و ذرائع: اخوا ن کے وسائل بھی بالکل واضح اور غیر مبہم ہیں۔ امام حسن البنا فرماتے ہیں:’’ ہمارے عام وسائل یہ ہیں کہ ہم لوگوں تک اپنی دعوت پہنچا کر انھیں قائل کرتے ہیں۔ تمام ممکنہ وسائل تبلیغ سے اپنی دعوت کو پھیلاتے ہیں، تاکہ راے عامہ اسے سمجھے اور عقیدہ و ایمان کے ساتھ اس کا ساتھ دے۔ پھر قوم سے نیک اور صالح لوگوں کو چُن کر انھیں اس فکر کا مضبوط ستون بناتے ہیں۔ پھر دستوری جنگ شروع کرتے ہیں تاکہ اس دعوت کی گونج سرکاری ایوانوں تک پہنچے۔ وہاں سے اس کی تائید میں آواز بلند ہوجائے اور وہ لوگ بھی اس راستے میں شامل ہوجائیں جو قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ہیں‘‘۔

’’اس بنیاد پر مناسب وقت آتے ہی اخوان کے امید وار قانون ساز اسمبلیوں میں منتخب ہونے کے لیے الیکشن لڑیں گے اور چونکہ ہمارا مقصد صرف رضاے الٰہی حاصل کرنا ہے، اس لیے ہمیں اللہ کی مد د پر بھروسا ہے کہ ہمیں کامیابی ملے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌo (الحج ۲۲:۴۰) ’’اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے‘‘۔

’’اس کے علاوہ ہم کبھی کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کریں گے، الایہ کہ ہمیں مجبور کیا جائے۔ ہمارامقصد واضح اور راستہ متعین ہے۔ اس میں کوئی ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے۔ ہم اپنے اس کام کے تمام نتائج کے لیے تیار ہیں۔ ہم کسی دوسرے پر اس کا بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے لیے جو اجر و ثواب ہوگا وہی بہتر اور پایدار ہے۔ حق کے راستے میں فنا ہونا دراصل بقا ہے۔ دعوت بغیر جہاد کے ممکن نہیں اور جہاد بغیر مشقت کے نہیںہوتا۔ اس انداز سے کام کرنے پر کامیابی ہمارے قریب ہوگی اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہماری حالت پر صادق آئے گا: پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر جواب نہ دیا  یہاں تک کہ پیغمبر، لوگوں سے مایوس ہوگئے، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کوپہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آجاتاہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالاہی نہیں جاسکتا۔ (یوسف۱۲:۱۱۰)

پس دعوت و تبلیغ اور منظم جدوجہد اخوان کے اہم ظاہری وسائل ہیں۔ ہم ان وسائل کے ذریعے اپنے اعلیٰ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو مطمئن اور قائل کرکے ان کے ذریعے ملکی قیادت کے لیے ایسے اہل ذمہ داروں کا انتخاب ممکن بنائیں جو معاشرے کی  تعمیر و تربیت کی ذمہ داری ادا کرسکیں اور لوگوں کو اصلاح کی تین بنیادوں پر جمع کرسکیں:

                __           اصلاح و ترقی کا درست طریق کار

                __           اس طریق کار پر یقین رکھنے والے افراد کی تنظیم

                __           ایسی باکردار قیادت کی تشکیل، جو ادارہ چلانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو اور دعوت کے لیے مطلوب نرمی سے بھی مزین ہو اور سختی و تشدد اور افراط و تفریط سے اجتناب کرتی ہو۔

امام حسن البنا نے ہماری دعوت نئے مرحلے میں ہے میں فرمایا ہے: ’’طاقت اور تشدد ہمارا ذریعہ و وسیلہ نہیں ہے۔ حق کی دعوت براہ راست روح کو مخاطب کرتی ہے ، دلوں کے ساتھ مناجات کرتی ہے ، اور دل کے بند دروازوں پر دستک دیتی ہے۔ یہ دعوت کبھی بھی زبردستی کسی کے دل میں جگہ نہیں پیدا کرسکتی۔ جو لوگ جماعتوں کی تاریخ جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ ایمان و عمل صالح اور اخوت و محبت ہی وہ بنیادیں ہیں جنھیں دعوت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان وسائل کو اخوان کے تین نعروں میں بھی بیان کیا گیا :پختہ ایمان ، بہترین تربیت ، جہدمسلسل‘‘۔    یہ منشور حسن البنا کے کتابچے بین الأمس و الیوم (آج اور کل) سے لیا گیا ہے۔

بعد میں اس کے ساتھ ایک اور وسیلے ’اخوت و محبت ‘ کا اضافہ کیا گیا ، تاکہ تربیت کے ارکان اور دعوتی سرگرمیوں کے وسائل کی تکمیل ہوجائے۔ان وسائل کے دقیق مطالعے سے دوپہلو قابل غور نظر آتے ہیں :

۱- ہر پُرامن طریقے سے دعوت عام کرنا، اس کے لیے لٹریچر، تبلیغ، وعظ و نصیحت اور خطابت و اعلان کو ذریعہ بنانا تاکہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا جا سکے اور اس کے مقاصد و اہداف کی وضاحت ہوجائے۔

۲- رفاہِ عامہ کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے دعوت کو عام کرنا ۔ اس کے لیے مختلف فلاحی ادارے ،مدارس ، سکول ،ہسپتال اور مساجد وغیرہ قائم کرنا تاکہ دین کا تصور ہر شعبۂ زندگی پر محیط ہوسکے۔ اس طرح راے عامہ کو اخوان المسلمون کی دعوت، اس کے پروگرام اور اغراض ومقاصد سے متفق اور معاون و مددگار بنایا جائے۔

اس سے یہ واضح ہوگیاکہ ہر ممکن اور جائز وسائل سے استفادہ کرنا اخوان کا امتیازی وصف ہے جو وہ داخلی اور خارجی وسائل سے حاصل کرے گی۔ داخلی وسائل سے مراد جماعت کی اندرونی قوت ، بہترین نظام کار اور وہ مضبوط حصار ہے جو اسے ہر قسم کے طوفان و سیلاب سے بچائے ،  جب کہ خارجی وسائل میں عوام سے مضبوط تعلق کی بنیاد پر ہرحالت میں صداے حق بلند کرنا ہے:

__ دستوری اور سیاسی جدوجہد کرنا، تاکہ اس دعوت کی آواز سرکاری ایوانوں تک پہنچ جائے، جب کہ ملک کے قانونی اور آئینی ادارے بھی اسے قبول کریں اور عوام بڑے پیمانے پر اس کے ہمدرد بنیں۔

__ اس دعوت کی حمایت کے لیے شرعی قواعد و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے جہاد کیا جائے۔یہ اس صورت میں ہوگا کہ جب لوگ اس دعوت کے راستے میں حائل ہوں اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو منع کریں۔ امام حسن البنا نے جہادکو چھے مراتب میں تقسیم کیا ہے۔ انھوں نے التعالیم میں فرمایا ہے کہ :جہاد کا پہلا مرتبہ دل کا انکار ہے اور آخری مرتبہ قتال ( مسلح جدوجہد )  فی سبیل اللہ ہے۔ اس کے درمیان والے درجے زبان ، قلم اور ہاتھ کے ذریعے جہاد اور جابر و ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرناہیں۔

جہاد کے مختلف درجات ہیں: سب سے پہلے عقیدہ و ایمان کی قوت پیدا کرنا ، پھر   وحدت و یگانگت کی قوت حاصل کرنا اور پھر فوجی اور اسلحے کی قوت پیدا کرنا۔ اگر یہ تمام اوصاف موجود نہ ہوں تو کسی جماعت کو طاقت ور جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ داخلی اور خارجی وسائل کے بارے میں امام حسن البنا کی تمام تفصیلات کا نچوڑ چار نکات میں واضح ہوجاتا ہے :

  • دعوت وتبلیغ
  • تعلیم و تربیت
  • نشرواشاعت
  • طاقت و جہاد۔

پانچویں اجتماع عام کے خطاب میں انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’اخوان اتنے ظاہر بین اور سطحی نہیں ہیں کہ بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں اور نتائج کا اندازہ نہ کرسکیں‘‘۔ امام حسن البنا نے اس قول کے ذریعے اجتہاد کی دعوت دی اور کارکنان کو متوجہ کیا ہے کہ حالات اور زمانے کو مد نظر رکھ کر اس کی مناسبت سے نئے وسائل ایجا د کیے جاسکتے ہیں ، بجاے اس کے کہ سایے میں بیٹھ کر چھت اور اس کے نقش و نگار سے لطف اٹھائیں۔ اگر ہر قسم کی قوت و طاقت حاصل ہوجائے اور کامیابی کے امکانات مکمل طور پہ واضح ہوں، تب بھی ہمیں اپنے اغراض ومقاصد کے حصول کی خاطر تمام قوتیں کھپا دینی چاہییں۔ ساتھ ہی ساتھ اسلامی آداب و احکام کی پابندی بھی لازم ہے۔

امام حسن البنا نے اسی اجتماع میں فرمایا کہ:’’کیا اسلام نے ہر حال میں قوت کے استعمال کا حکم دیا ہے،یا اس کے لیے کچھ حدود و قیودمتعین کی ہیں ؟کیا طاقت کا استعمال پہلا ذریعہ اور وسیلہ ہے، یا سب سے آخری حربہ ہے ؟کیا یہ ضروری نہیں کہ انسان طاقت کے استعمال کے اچھے بُرے نتائج کاموازنہ کرے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لے ؟یا اس کا فرض ہے کہ وہ بہرصورت قوت کا استعمال کرے اور کہے کہ بس اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا ؟‘‘

’’یہ سوالات انتہائی آسان ، عام فہم اور لوگوں تک پہنچانے میں نہایت آسان ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے :

۱- اسلام ایک مضبوط دین ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر نوع اور ہرقسم کی قوت پیدا کریں ، وہ قوت جو معروف ہے اور وہ بھی جو معروف نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ(الانفال ۸: ۶۰)، یعنی ہر قسم کی جائز اور ممکن  قوت و طاقت کو حاصل کرو۔

۲- اسلام یہ حکم دیتاہے کہ ہم ہر کام کو سنجیدگی سے لیں اور اسے حق ، دلیل ، بلاغت ، بیان ، اتحاد ، ایمان اور اسلحے و بازو کی طاقت سے تقویت دیں ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تواضع،  عجزو انکساری کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ طاقت کا مطلب جدوجہد کرنا اور متانت وذمہ داری ہے۔ یاَیحَیٰ خذ الکتاب بقوۃ کا یہی مطلب ہے۔

۳- اگر مسلمانوں (جماعت ) کو طاقت کے استعمال پر مجبور کیا گیا تو اس صورت میں بھی عرف و عادت ، زمانے اور حالات کے مطابق شریعت کے قواعد و ضوابط اور حدود و قیود کی پابندی لازمی ہوگی۔ اور اس قوت کو اپنے مقاصد کے حصول اور اللہ کے حقوق کی پاس داری کے لیے حکیمانہ انداز میں استعمال کرنا ہوگا۔

۴- طاقت خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اس کی طرف اس وقت رجوع کیا جائے گا، جب دیگر تمام ذرائع ناکام ہوجائیں ، لہٰذا اس کا استعمال آخری حربہ ہونا چاہیے۔ طبیب مریض کا علاج اس وقت جراحت سے نہیں کرتا ہے جب تک علاج کے دیگر طریقوں سے مایوس نہ ہوجائے۔

۵- ضرورت کے وقت طاقت کے استعمال اور عدم استعمال کے درمیان موازنہ کرنا ، اس کے منفی و مثبت اثرات کا جائزہ لینا ، اس کے استعمال کے جواز و عدم جواز وغیرہ پر غور کرنا ، یہ ساری چیزیں جاننا انتہائی ضروری ہے‘‘۔

امام حسن البنا کے سامنے یہ ساری چیزیں روز روشن کی طرح عیاں تھیں۔ یہ ان کی واضح راے ہے، تاکہ طاقت فساد کا ذریعہ نہ بنے ، اور ہمارا کام تعمیر ہے تخریب نہیں۔

خلاصہ: اس پوری بحث کو امام حسن البنا شہید کے رسالے اخوان قرآن کے سایے تلیکے کچھ اقتباسات سے سمیٹتا ہوں۔ امام نے اس رسالے میں کہا ہے کہ : ’’میرے بھائیو!ہم کوئی سیاسی جماعت نہیں ، اگرچہ اسلام کے قواعد و ضوابط کے مطابق سیاست ہماری فکر کا حصہ ہے۔ ہم محض فلاحی یا خیراتی ادارہ بھی نہیں ہیں، اگرچہ رفاہی و فلاحی کام ہمارے اولین مقاصد میں شامل ہیں۔ ہماری جماعت کوئی کھیل کی ٹیم بھی نہیں ہے ، اگرچہ جسمانی و روحانی ورزش ہمارے اہم ترین وسائل میں سے ہے۔ ہمارا اس قسم کی تنظیموں سے کوئی واسطہ نہیں، ان کے اغراض ومقاصد کسی ایک بات پرمرتکز ہوتے ہیں، بلکہ کبھی تو اس طرح کے اداروں کا قیام محض ذاتی خواہشات پر مبنی ہوتا ہے یا پھر نام پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔

’’ہم تو ایک نظریے اور عقیدے کو لے کر اٹھے ہیں۔ ہم ایک نظام اور طریق کار پر چل رہے ہیں۔ ہمارا کام کسی ایک موضوع یا کسی ایک قومیت تک محدود نہیں ہے۔ یہ دعوت کسی قسم کی جغرافیائی حدود کی پابند نہیں ہے اور نہ یہ کسی واقعے کے نتیجے میں ختم ہوسکتی ہے، یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے‘‘۔

’’ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔ ہم ان کے بعد ان کی دعوت کا جھنڈا بلند کرنے والے ہیں۔ ان کی دعوت کو عام کرنے والے ہیں جس طرح انھوں نے قرآن کی حفاظت کی، اسی طرح ہم قرآن کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ ہمارا واضح نظریہ ہے۔ یہی ہمارے اصول ہیں۔ یہ ہمارا ہدف ہے اور جائز حدود کے اندر رہ کر یہ ہمارے مختلف وسائل ہیں۔ ان میں سے جو ناقابل تغیر ہیں وہ اساسیات ہیں ، ان سے ہم ہٹ نہیں سکتے، اور جو قابل تغیر ہیں اس میں اجتہاد کرکے اسے شرعی مقاصد اور شرعی قوانین کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے۔ ہمارا پہلا اور آخری مقصد دو بنیادی باتیں ہیں :

۱-  ایمان و عمل صالح کے ساتھ دنیاکی امامت و سیادت۔

۲- آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے نتیجے میں خوش نودی اور جنت کا حصول۔

مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴:۶۹) وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔