مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

ایک مسیحی کی نظر میں

مکرم عبید پاشا | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

آپ کی مہربانی کہ آپ نے مجھے امام حسن البنا کی یاد میں کچھ لکھنے کے لیے کہا۔وہ قائد کہ جس کے لیے اللہ کی رحمت نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اس بے وفا دنیا کو چھوڑ کر اپنے رحمن و رحیم پروردگار کے حضور پہنچ جائے۔ اللہ کی رحمت نے ہمارے لیے بھی یہ چاہا کہ جس عظیم شخصیت سے  ہم محروم ہوئے ہیں وہ اپنی یادوں اور اپنے تقویٰ کے ساتھ ہمارے سامنے موجود رہے۔

اے اخوان المسلمون !اگر آپ لوگ اپنے بڑے بھائی سے محروم ہوگئے ہیں، تو آپ کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ وہ شخص جس نے ہر رشتے اور واسطے کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کررکھاتھا، اس نے انتہائی پاک دامنی کی حالت میں اپنی جان اپنے دین اور عقیدے پر نثار کردی۔ آپ لوگ جب بھی اسے یاد کریں گے تواسے معزز و محترم اور پایندہ پائیں گے۔ جب موت انسان پر قبضہ کرنے کے لیے زندگی سے برسرپیکار ہوتی ہے تو زندگی کو غلبہ اس وقت ملتا ہے  جب ایسے انسان کو یاد رکھا جائے، اور موت اس وقت غالب آتی ہے جب اسے فراموش کردیا جائے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ الشیخ حسن البنا ہم سب کے دلوں میں اپنی یادوں کی بدولت   زندہ ہیں۔ بھلا وہ شخص کیوں کر پایندہ نہ رہے جس نے دین میں اپنے پروردگار کی ہدایت اختیار کی اور دنیا میں قلب کی سلامتی کو مشعل راہ بنایا !

اے اخوان المسلمون !آپ لوگ اسے یاد کریں ،اسے بارباریاد کریں ، اسی یاد میں اس کی اور آپ لوگوں کی زندگی مضمر ہے۔ ذرا دیکھو یہ بات کون کہہ رہا ہے ؟یہ مکرم عبید ہے ، مرحوم کا مسیحی دوست ، جس نے اپنے اس مسلمان بھائی میں صدق و امانت کو یک جا پایا۔ مرحوم کو یاد کرتے وقت میں آپ کو کیسے نہ بتائوں کہ ہمارا اکثر ایک دوسرے سے ملنا جلنا رہتاتھا۔ میں اس کی عظمت و فضیلت کی گواہی کیوں نہ دوں کہ میں اسے انتہائی قریب سے جانتا ہوں۔ مجھے قسم ہے حق کی کہ یہ ایک سچی گواہی ہے ، میں اس گواہی پر اپنے رب کو گواہ ٹھیراتا ہوں۔ میں یہ شہادت زبا ن کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی گہرائی سے دے رہا ہوں۔ یہ ایک ایسے شخص کی گواہی ہے جس کے اور مرحوم کے مابین قدر مشترک ایک رب پر ایمان اور اتحاد ملّی پر ایقان تھا۔ تمام آسمانی مذاہب میں توحید صرف اس قدر کافی نہیں کہ آپ اللہ کو ایک قرار دیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ خود بھی اپنے اللہ کی خاطر ایک ہوجائیں۔ قومی وحدت کے لیے محض ملک اور خطے کایک جا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ملک کے تمام باشندوں کا متحد ہونا بھی ضروری ہے۔

صرف اخوان المسلمون اور وفد پارٹی ہی دو ایسی تنظیمیں تھیں جو’دارالاخوان‘اور’وفد پارٹی کے کلب ‘میں باہم ملاقاتوں کا اہتمام کرتی تھیں۔ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حسن البنا میرے گھر تشریف لائے اور ہم نے ذاتی دل چسپی کے امور او رقومی معاملات پر طویل تبادلۂ خیال کیا۔ مجھے ان کی باتیں سن کر ایسے لگتا تھا جیسے وہ ظاہر پرستی اور رسمی باتوں سے کوسوں دور اور بلند تر ہوں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ ہم لوگوں میں ان جیسی گہری فکروالا اور پاک ضمیر شخص کم ہی ہوگا۔

ان کی شہادت کے بعد میں نے انھیں ان کے گھر میں دیکھا۔ یہ ایک ایسی انوکھی  ملاقات و زیارت تھی جس کے کرب ناک اور خوف ناک اثرات کو میں مرتے دم تک نہ بھلا سکوں گا۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت دلی صدمہ پہنچا کہ پولیس کی نفری نے اس سڑک کا محاصرہ کررکھا ہے جس پر مرحوم کا گھر واقع تھا۔ اگر پولیس آفیسر مجھے پہچان کر وہاں سے گزرنے کی اجازت نہ دیتا تو میں تعزیت کا فریضہ سرانجام دینے سے بھی قاصر رہ جاتا۔

میں اگر سب کچھ بھی بھول جائوں تب بھی میں اس بات کو ہرگز نہ بھلا سکوں گا کہ ان کے والد بزرگوار میری اس حاضری سے کس قدر متاثر تھے۔ انھوں نے آبدیدہ ہو کر مجھے بتایا کہ مرحوم کے جنازے کے پیچھے چلنے سے عوام کو زبردستی روک دیا گیا ہے۔ مرحوم کے والد کے ماسوا ،کسی کو بھی میت کے پیچھے چلنے کی اجازت نہ تھی ، نہ کسی کو تعزیت کے لیے ان کے گھر جانے دیا گیا۔

دکھی والد نے شکریہ ادا کرتے ہوئے مجھے اپنی دعائوں سے نوازا ، میں اب تک ان دعائوں سے برکت پاتا ہوں۔میں مغموم والد محترم سے کہنا چاہتا تھا کہ تعزیت کرنا اگر ایک لازمی انسانی فریضہ ہے تو پھر مجھ سمیت ہر مصری نے یہ فریضہ انجام دیا ہے، کیونکہ ہر مصری کو ان کے فرزند ِمظلوم کی وفات کا گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ تعزیت نہ کرنا یا نہ کرنے دینا ہماری روایات اور اقدار سے انحراف ہے۔

میرے بھائیو !جی ہاں، آپ سب لوگ میرے بھائی ہیں۔ اے اخوان المسلمون !آپ لوگ وطن اور قومیت کے لحاظ سے میرے بھائی ہیں۔ آپ میرے سب سے قریبی بھائی ہیں۔ مرحوم کو  یاد کرتے وقت ،آپ ان کی اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ مرحوم ہمیشہ آزادی کی بات کیا کرتے تھے۔ وہ جیل میں رہ کر بھی اپنے ملک و قوم کی آزادی کا مطالبہ کرتے تھے۔ ظالموں نے شہید کر کے انھیں ہرغم سے آزاد کردیا۔ ان کی اس آزادی میں بیک وقت اجر بھی ہے اور جدوجہد جاری رکھنے کا پیغام بھی۔ (مجلہ الدعوۃ‘ ۱۶جمادی الاول۱۳۷۱ھ)