مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

ـنوجوانانِ اسلام بوسنیاـاور اخوان

عمر بہمن | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

دونوں عالم گیر جنگوں کے درمیانی عرصہ (۱۹۱۸ء-۱۹۳۹ء)میں بوسنیا ہرذی گووینا کے نوجوان حصولِ تعلیم کے لیے دنیا کے بڑے تعلیمی مراکز میں جایا کرتے تھے۔ واپسی پر ان معاشروں کے حقیقی نظریات بھی اپنے ساتھ لایا کرتے تھے۔ بوسنیائی مسلم طلبہ کا ایک ایسا ہی گروہ اس زمانے میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ گیا جب اخوان المسلمون اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی۔ مذکورہ طلبہ کی بوسنیا واپسی کے بعد ان کے سامنے پہلا کام بوسنیائی مسلمانوں میں اخوان کے دعوتی پروگرام کو متعارف کرانا اور پھیلانا تھا۔ اس کے فوراً بعد ان کے پیشِ نظر ایک ایسی تنظیم کو تشکیل دینا تھا جو اخوان کے طریقِ کار کے عین مطابق ہو۔ ابتدا میں اس سوچ کو عملی مشکل دینے کے لیے طے پایا کہ اخوان کے نظریات بوسنیا میں دوتنظیموں ’الہدایہ‘ اور اس کے اسی نام کے حامل اخبار (دسمبر‘ جنوری ۱۹۳۶ء فروری ۱۹۴۵ء ) نیز ـنوجوانانِ اسلامـ کے ذریعے پھیلائے جائیں گے۔

ان طلبہ میں چند نمایاں نام یہ تھے: محمد ہاندچ (۱۹۰۶ء-۱۹۴۴ء)،عالیہ اگانووچ (۱۹۰۲ء-۱۹۶۱ء)، قاسم دوبراچا (۱۹۱۰ء-۱۹۷۹ء)،ابراہیم تریبیناچ (۱۹۱۲ء-۱۹۸۲ء)، اور حسین دوظو (۱۹۱۲ء-۱۹۸۲ء)۔

خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا طلبہ میں سے چند نے حسن البنا سے ملاقات کی تھی۔ جن بوسنیائی طلبہ نے ان سے ملاقات کی، غالب گمان ہے کہ ان میں محمدہاندچ اور عالیہ آگانووچ شامل تھے جو اس عرصے میں قاہرہ میں نمایاں اسلامی اسکالر مثلاً یوسف یودیا وغیرہ کے لیکچر زمیں شرکت کیا کرتے تھے۔ قاہرہ میں ان (بوسنیائی) طلبہ نے دو تنظیمیں، Young Muslims اور’ الہدایہ‘ قائم کیں۔ پھر بعد میں ان کی مخلصانہ کاوشوں کے نتیجے میں یہی دونوں تنظیمیں بوسنیا میں بھی قائم ہوگئیں۔

جب تنظیم ’الہدایہ ‘معرضِ وجود میں آئی تو اس زمانے میں اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تھا۔جس کے بارے میں حسن البناؒ کا کہنا تھا کہ ـاس مرحلے میں ابلاغ (communication)پیش کاری (presentation) اور نظریات کے فروغ کے ساتھ ساتھ انھی نظریات کو لوگوں کے تمام طبقات تک پہنچایا جائیـ۔ ’الہدایہ‘ کا تاسیسی اجلاس ۸مارچ ۱۹۳۶ء کو بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد ہاندچ نے الہدایہ کی سرگرمیوں اور طریق کارکی وضاحت کی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کے احیا کے لیے چار بڑے طریقے بیان کیے جو دعوتی کام کے لیے نہایت اہم ہیں۔ انھوں نے خطبہ ہاے جمعہ کے لیے تحریر ی مضامین اور ذاتی کردار کی اہمیت کو بھی بیان کیا۔

سماجی اہداف کے بارے میں تصور تب تک ممکن نہیں، جب تک علما کی راہ نمائی سے بھرپور استفادہ نہ کیا جائے اور اسلامی تعلیمات کی عام اشاعت نہ کی جائے۔ تاہم نوجوانوں کو ’الہدایہ‘ کی سرگرمیوںمیں شامل کرنے کے لیے اس کی ضرورت کا احساس روزبروزبڑھتا جارہا تھا۔

نوجوانوںکے لیے قائم ان تنظیموں کی کارکردگی کی رفتار اس دوران میں بہت سست تھی۔   اس سست روی کی وجہ محمد ہاندچ کے بقول طریق کار پر عدم اتفاقـ تھی۔ نوجوانوں کا ایک گروہ ـنوجوانانِ اسلامـ کے نام ہی سے کام کرنے میں گہری دل چسپی رکھتا تھا۔ یہ تنظیم مارچ ۱۹۴۱ء کے اواخر میں قائم کی گئی تھی۔ ان نوجوانوں کی راے یہ تھی کہ’ الہدایہ‘ ایسی تنظیم ہے جو خالصتاً مذہبی علما پر مشتمل ہے۔تاہم ’الہدایہ‘ نے ان نوجوانوں کواپنے پروگراموں اور سرگرمیوں میں شامل کرنے   کے لیے بہت جدوجہد کی۔ اس کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ’ ـنوجوانانِ اسلام‘ـ نے فیصلہ کیا کہ وہ ’الہدایہ‘ کا ایک لازمی جزو ہیں اور اسی کے ایک شعبے کے طور پر کام کریں گے۔’ نوجوانانِ اسلام‘ـ کی آئینی کمیٹی کا اجلاس ۵مئی ۱۹۴۳ کو ہوا جن میں جناب قاسم دوبراچا کو اس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ ۲۷ اپریل۱۹۴۳ء کو ـ’نوجوانان اسلامـ‘کے اصول وضوابط منظور کیے گئے، جنھیں چند روز بعد’ الہدایہ‘ کے ترجمان اخبار میں شائع کیا گیا۔

ان ضوابط کے آرٹیکل نمبر۲ میں کہا گیا تھاکہ’’ ـاس شعبے (نوجوانانِ اسلام) کا مقصد مسلمان مسلمان نوجوانوں میں اسلامی روح بیدار کرنا‘ اس کے مطابق ان کی تربیت کرنا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کے سماجی و اخلاقی معیار کو بلند کرنا ہیـ‘‘۔

آرٹیکل نمبر۹ میں بیان کیا گیا کہ ـارکان پر لازم ہے کہ وہ اسلامی قوانین کے اصولوں سے بخوبی واقف ہوں، ایک اچھے مسلمان کا رویہ اپنائیں۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ اور مسلمانوں کے مفادات کے دفاع کے لیے ـنوجوانانِ اسلامـ کے ارکان کو دوسروں کے لیے ایک مثال ہونا چاہیے۔

مختلف روایتی مذہبی اداروں کی طرف سے اسلام کی جامد تشریح سے اور سخت گیر روّیہ ترک کرکے اسے ایک زیادہ قابل عمل اندازمیں تبدیل کردیاگیا۔ نوجوانوںکے جوش وجذبے اور توانائیوں کو انفرادی سطح پر مذہبی اور اخلاقی رویوں میں روحانی اعتبار سے بدلا گیا۔

تاہم یہ طے کیا گیا کہ اپنے آیندہ کے کام اور سرگرمی کے لحاظ سے ’نوجوانانِ اسلام‘ـ، ’الہدایہ‘ سے جدا اور آزادانہ سرگرمِ عمل رہے گی۔’’ـہم ارکانِ ـنوجوانانِ اسلام ہمیشہ سے مذہبی اداروں میں کسی بھی قسم کی پیشہ وارانہ مذہبی مداخلت کے مخالف رہے ہیں اور یہ رجحان بہت مضبوط رہا ہے‘‘۔ـ یہ تھے عالی جاہ عزت بیگووچ (سابق صدرِ بوسنیا وہرسیگووینا) کے الفاظ جواُن ارکان میں سے ایک تھے، جنھوں نے’ـالہدایہ‘میںشمولیت سے انکار کیا۔ ’’ہمیں شروع ہی سے اس بات کا یقین رہا ہے کہ پیشہ ور مذہبی حضرات نہ تو اسلامی تعلیمات کے احیا میں دل چسپی لیتے ہیں اور نہ ان میں اس کی اہلیت ہے ، لہٰذا ہماری نظراس سمت میں نہیں ہونی چاہیے جہاں کسی قسم کی امید ہی نہ ہوـ‘‘۔

ان وجوہ کی بنا پر تنظیم کی دیگر سرگرمیوں کے حوالے سے کچھ اور پروگرام سامنے آئے اور فیصلہ کیا گیا کہ ان سرگرمیوں کا دائرۂ کار مسلم فلاحی تنظیم ’ـمرحمت‘ـ تک پھیلایا جائے۔ ’ـنوجوانانِ اسلام‘ـ اسلامی تعلیمات کو خطابات اور دوسری مذہبی و تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے سے آگے بڑھائیں ، سرگرمیوں کاہدف نوجوان نسل ہو جو جنگ عظیم کے باعث اسکولوں میں تعلیم جاری رکھنے سے محروم رہ گئی تھی۔

جوں جوں جنگ کے خاتمے کا وقت قریب آرہا تھا، اسد کراجوِوچ تنظیم کو اپنی ـغیرقانونیـ سرگرمیوں کے لیے تیار کرنے لگے۔ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ اشتراکی حکومت کے زیر سایہ قانونی سرگرمیاں ممکن نہیں ہوسکیں گی۔ وہ تنظیم میں کلیدی شخصیت تھے ۔ان کے ہمراہ حسن ببراور خالدقائتاز جیسے مستقل ارکان تھے، جب کہ دیگرارکان اپنی تعلیم میں مصروف تھے۔انھوںنے اس دوران سب سے اہم گروہ قائم کیا،جس میں انتہائی قابل اعتماد افراد شامل تھے۔اس گروہ کا مقصد حسن البناؒ کے انداز اور نظریات کا فروغ تھا۔ ان کا نظریاتی مقصد یہ تھا کہ تنظیم کا ہر رکن جہاں وہ خود رہتا ہے اور کام کرتا ہے، اپنے الفاظ اور عمل سے اپنے حلقۂ اثر کو متاثر کرے۔ ایسے ارکان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے پیشے میں طاق ہوں اور اپنے شعبے میں مثال بننے کے لیے کوشاں ہوں۔ اس طرح عملاً ان نظریات کی قدر و قیمت کو بڑھانا تھا ۔

۱۹۴۵ء میںجب خونیںاشتراکی آمریت بر سرِاقتدار آگئی تو اس تنظیم کو جو پہلا دھچکا لگا   وہ یہ تھا کہ اشتراکی حکمرانوں کے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں اس کے ۱۳ ارکان نے جامِ شہادت نوش کیا، ان عظیم مجاہدوں کے نام درج ذیل ہیں:مصطفی باسولاجچ، حسن ببِر، عمرکوواچ، عمر ستوپاک، نصرت فضلی بیگووچ، خالد قائتاز، فکرط پولچو، ثاقب نشائچ، عاصم چام جچ، آصف سرداروچ، نورالدین گاکچ، عثمان کروپالیا اور اسد کاراجچ۔

بدقسمتی سے اشتراکی حکمرانوں کی جانب سے ظلم و ستم، پکڑ دھکڑ اور وحشیانہ تشدد کا سلسلہ یہاں تھما نہیں۔ آٹھ سو سے زائد ارکان کو طویل مدت (پانچ تا بیس سال)قید و بند کی سزائیںدی گئیں، جب کہ ساڑھے چارہزارارکان کو ایک سے چھے برس تک کی قید بامشقت کی سزائیںدی گئیں۔

۴۰سالہ اشتراکی دور حکومت میں’ـنوجوانانِ اسلامـ‘ کے خلاف مسلسل تفتیش و تحقیق کا یہ سلسلہ جاری رہا اور جھوٹے مقدمات چلتے رہے۔ ان مقدمات میں سے زیادہ تباہ کن مقدمات ۱۹۴۹ء، ۱۹۵۱ء اور ۱۹۸۳ء میں چلائے گئے۔ ایسے دو مقدمات میں راقم السطور [عمر بہمن]کو ۳۰سال قید کی سزا سنائی گئی، جو اس سلسلے کی سب سے لمبی سزا تھی۔تاہم اشتراکی حکمرانوں کی جانب سے’ـنوجوانانِ اسلام‘ـکو مٹا ڈالنے کی تمام کوششیں اور اس کی سرگرمیوں کو روکنے کے تمام حربے ناکام ثابت ہوئے۔ ان ناکامیوں کی واضح ترین مثال بوسنیا پر کی جانے والی اب تک کی وہ آخری جارحیت ہے جو اشتراکی سربیا نے بوسنیا کے اعلانِ آزادی کو روکنے کے لیے مارچ ۱۹۹۲ء میں کی تھی‘ جس کا بھیانک سلسلہ نومبر۱۹۹۵ ء تک جاری رہا‘ نوجوانانِ اسلام نے ۱۹۹۰ء میں بوسنیا میں    پہلی مسلم سیاسی جماعت Party of Democratic Action (SDA)کی بنیاد رکھی۔اس سیاسی جماعت اور اس کے صدر عالی جاہ عزت بیگووچ نے سربیا کی جارحیت کے خلاف مزاحمت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

آج ـنوجوانانِ اسلامـ کی سرگرمیاں مختلف شعبہ ہاے حیات میں جاری و ساری ہیں۔    نئی نسل تک اپنے نظریات پہنچائے جارہے ہیں۔ سابقہ جنگی قیدیوں کی دیکھ بھال، غریبوں کی مدد، مہاجرین کی دیکھ بھال، مذہبی سرگرمیوں کا انعقاد اور سرگرمیوں کی اشاعت اور مساجد کی تعمیر وغیرہ ان سرگرمیوں میں شامل ہیں۔اس جذبے کی آب یاری کے لیے جس معاصر شخصیت کا سب سے زیادہ موثر نام ہے ، وہ حسن البنا شہید ہیں۔