مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

شخصیت‘ مشن اور جہد ِمسلسل

زہیرالشاویش | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

۱۳ربیع الثانی ۱۳۶۸ھ بمطابق ۱۲فروری ۱۹۴۹ء ہفتے کے دن امام حسن البنا ۴۳سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ اس وقت میںاستاد محمود عبدہ کی قیادت میں چند مصری مجاہدین کے ہمراہ القدس کے قریب واقع شہر ’صورباھر‘ میں قید تھا۔ ہمیں جیل میں ان کی شہادت کی دردناک خبر ملی۔ وسط سال تک میں ان کے ساتھ ہی رہا، پھر انھیں کہیں دوسری جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔ میرے ساتھ  میرے چار بھائی اور بھی تھے، جن میں سے ضیف اللہ مراد اور کامل حتاحت شہید ہوگئے، جب کہ ابراہیم حداقی کا ہاتھ کٹ گیا اور ادیب الخیاط کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تھی۔

میں ترجمان القرآن کی اس خصوصی اشاعت کے لیے ان باتوں کو دہرانا نہیں چاہتا   جو ہمارے دوستوں اور احباب نے لکھی ہیں بلکہ میں یہاں ان لمحات کاتذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو  میں نے شہید امام اور ان کے بعض اقارب و احباب کے ساتھ گزارے ہیں۔ ان میں ان کے  والد بزرگوار اور میرے استاذ مکرم الشیخ احمد عبدالرحمن ساعاتی ، امام کے بھائی ، ان کے شاگرد ، ان کے داماد ،ان کے نواسے ،ان کے بیٹے احمد سیف الاسلام، اور بہت سے وہ لوگ جو بڑے اخلاص کے ساتھ امام کے ہم قدم رہے۔

استاذ البنا سے میری پہلی ملاقات ۱۹۴۱ء میں، مصر کے حلمیہ الزیتون کے مقام پر ہوئی۔ حلمیہ مصر میں المطریہ کے قریب واقع ہے۔ یہ وہ حلمیہ نہیں ہے جو بعد میں اخوان کا مرکز بناتھا۔ میں اپنے والد اور اپنے بھائی کے ساتھ تجارت کی غرض سے وہاں گیاتھا اور کبھی کبھار ازہر کے عمومی شعبے میں بھی جایا کرتاتھا۔ ایک روز اخوان کے بعض کارکنان نے مجھے اپنے ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ درس قرآن کے بعد میں حسن البنا کے نزدیک گیا۔ اس وقت میں نے عربی لباس پہن رکھا تھا۔ ہمارے ایک پڑوسی نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ شام کے باشندے ہیں تو انھوں نے پیار بھرے لہجے میں مجھے کہا: ابوشام شیخ العرب ، اھلاو سھلاً [شام کے شیخِ عرب ،خوش آمدید]۔

میں۱۹۴۵ء کے وسط تک اخوان کے ساتھ برابر رابطے میں رہا۔ اس کے بعد باقاعدہ   طور پر شام میں ’شباب محمدؐ، نامی تنظیم سے منسلک ہوا ، جسے ۱۹۴۶ء میں اخوان المسلمون میں ضم کردیاگیا۔ ۲۴مارچ ۱۹۴۸ء کو دوبارہ امام البنا سے اس وقت ملنے کا اتفاق ہوا جب وہ سرزمین فلسطین تک مجاہد دستوں کو پہنچانے کے سلسلے میں دمشق تشریف لائے تھے۔ اس موقعے پر انھوں نے صدر مملکت شکری القوتلی ، فلسطینی دفاع کونسل کے افراد اوراخوان کے دوسرے مجاہدین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران مجھے بھی ان کے ساتھ رہنے کی سعادت ملی۔ ایک موقع پر میرے اور ان کے درمیان ایک گرماگرم بحث چھڑگئی، جب وہ ایک رضا کار مجاہد کو مصر واپس جانے کی طرف راغب کررہے تھے۔ یاد رہے کہ میں نے اس روز اس بھائی کو کہیں چھپا رکھاتھا۔ آخر کار یہ بحث اس طرح اختتام پذیر ہوئی کہ وہ اپنے موقف سے دست بردار ہوگئے۔ اس روز ان کی فراخ دلی اور وسعت قلبی کو دیکھ کر میںحیران رہ گیا۔

۱۹۵۲ء میں جب مجھے اپنے دو اساتذہ مصطفی السباعی اور عصام العطار کے ہمراہ شام سے جلاوطنی کا حکم ملا تو میں مصر چلا گیا اور ۱۹۵۴ء کے وسط تک مصر میں رہا۔ اس کے بعد ہر مقام، اور ہرموقع پر اخوان المسلمون کے ساتھ ہی رہا۔ہر شخص کے ساتھ خواہ میرا موافق ہو یا مخالف رابطہ رکھنا میری فطرت کا حصہ بن گیا۔

امام البنا کا سب سے بڑا اور عظیم کارنامہ اخوان المسلمون کی تاسیس ہے۔ یہ جماعت مصر اور دوسرے عرب ممالک میں ایک بہت بڑی قوت کے ساتھ موجود ہے۔ معاشرے میں اثرونفوذ کے اعتبار سے سب سے زیادہ توانا اور مؤثر ہے۔اسی طرح برعظیم پاک و ہند میں استاذ ابوالا علیٰ مودودی نے بھی ایسی ہی ایک مؤثر اور عظیم جماعت کی بنیاد رکھی ہے۔

اگرچہ معاشرے میں اخوان کے حامی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن مخالفت کرنے والوں اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مدح و ذم کا اثر لیے بغیر اپنی منزل کی طرف گام زن رہے۔ ان تمام نشیب و فراز میں وہ ایک عظیم شخصیت کی حیثیت سے اُبھرے۔ انھوں نے کئی میدانوں میںبڑی اہم خدمات انجام دیں۔

  •  تصنیف و تالیف:تصنیف و تالیف کے میدان میں انھوں نے ۳۰ کتابیں لکھیں۔ یہ مختصر کتابچے وسیع معلومات اور وقیع پیغامات کے مرقع ہیں اور ان میں ایسی مفید اور نادر باتیں جمع کی گئی ہیں، جو دعوت کے مختلف پہلوئوں میں اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے دسیوں مضامین اور مقالات لکھے ہیں ، اور سیکڑوں خطبے ارشاد فرمائے ہیں ،جن کی بنیاد پر حسن البنا امام اور مرشد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
  •  میدانِ صحافت:آپ نے صحافتی میدان میں اخوان کا ایک مستقل ادارہ قائم کیا اور اس طرح وہ اخوان کے اور اخوان سے تعلق رکھنے والے احباب کے زیراہتمام نکلنے والے تمام پرچوں کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ مجلہ الشہاب کے افتتاحیہ میں انھوں نے لکھا :’’مجلہ الشہاب  ہم ان قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جو انسانیت کی حس رکھتے ہیں اور اسلام کو اپنا نظام زندگی تسلیم کرتے ہیں۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے یہ مجلہ زندگی کے ہرشعبے کے لیے قرآن پاک سے ہدایت کا سامان اور دین و شریعت سے روشنی فراہم کرتا رہے گا۔ مجلہ المنار نے درحقیقت اسلامی فکر پر مبنی ایک مکتب کو جنم دیا۔ اس مجلے نے دین اسلام کے حقائق اور مقاصد کا ہر میدان میں بڑی جرأت کے ساتھ دفاع کیا اور ملحدین اور دیگر گمراہوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑا رہا۔ بالکل اسی طرح الجزائر سے شیخ عبدالحمید بن بادیس کی زیرادارت مجلہ الشہاب نے بھی اپنے دور میں عظیم جہاد کیا۔ ہمیں امید ہے کہ اب مصر کا الشہاب ان دونوں مجلات کے مقاصد کو فروغ دے گا۔ قرآن کی دعوت کو اپنا فریضہ سمجھ کر تمام نظاموں پر اسلامی نظام کی برتری کے لیے کوشاں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری آرزوئوں کو پورا کردے اور ہمارے معاملات کو درست فرمادے۔

امام البنا کے نزدیک تمام مسلمانوں کا خواہ وہ سلفی ہوں یا صوفی یا فقہی مسالک سے منسلک ہوں ، سنی ہوں یا شیعہ یا إباضی، ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ انھوں نے اصولوں اور متفق علیہ معاملات کو اتحاد کے لیے بنیاد بنایا اور فروعی مسائل میں ہر ایک کو اختلاف راے کے ساتھ دوسروں کو برداشت کرنے کی تعلیم دی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو امام حسن البنا کے پیرو کاروں میں مختلف فرقوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگ ایک ساتھ چلتے نظر آئیں گے۔ ایک دفعہ انھوں نے جامعۃ الانصار کے مجلے کے ساتھ تعاون کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ابھی ان کے ساتھ تھوڑا ہی سفرطے کیاتھا کہ ان کو معلوم ہوا کہ وہ اس امت میں خوارج کے طریق کار پر کاربند ہیں تو اس پرفوراً ہی ان کے ساتھ تعاون ختم کردیا۔

ہمارے استاد محب الدین الخطیب نے جو الفتح اور الزہراء نامی مجلات کے بانی مدیر تھے اور بعد میں روزنامہ الاخوان المسلمون کے مدیر بنے، مجھے ذاتی طو رپر بتایا کہ: ’’حسن البنا کی یہ عادت تھی کہ وہ کبھی بھی کسی کا م کے لیے حکم نہیں صادر کرتے تھے، بلکہ ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے معاونین اور ساتھیوں کے سامنے تجاویز رکھ دیا کرتے تھے۔ نتیجتاً انھی کی پیش کردہ معقول تجاویز ہی نافذ ہو کر رہتیں،مگر کسی جبر کے ساتھ نہیں، بلکہ رغبت اور خوش دلی کے ساتھ‘‘۔

محب الدین الخطیب کی قد آور علمی شخصیت کا اندازہ آپ اس سے کریں کہ جس ازہر نے لاکھوں کی تعداد میں علما تیار کیے، اس ادارے نے اپنے مجلے الازہرکی سرپرستی اور ادارت کے لیے  بھی محب الدین الخطیب دمشقی کا نام چنا جس کا ازہر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ اس عظیم علمی شخصیت کا کمال اور فیضان تھا کہ بعد کے ادوار میںاسی ازہر یونی ورسٹی میں بکثرت اخوان کے کارکن پیدا ہوئے۔

  •  معاشرت اور باھمی تعلقات:امام حسن البنا اپنی تمام تر ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود اپنے ساتھیوں کی خوشی اور غمی میں باقاعدگی سے شریک ہوا کرتے تھے۔ قاہرہ کے دوردراز علاقوں تک میں شادی بیاہ اور جنازوں میں حاضر ہوتے اور مریضوں کی عیادت کے لیے پہنچ جاتے۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے شرکت ممکن نہ ہوتی تو کسی نمایندے کو بھیجا کرتے تھے۔ اگر  یہ بھی ناممکن ہوتا تو خط اور تار کے ذریعے تعزیت و تہنیت کرتے تھے۔

مجاہدحاجی محمد امین الحسینی کے ہاتھ میں عالم اسلام کے بڑے بڑے قائدین کی اجتماعی تصویر تھی جس میں حسن البنا ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے یہ تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ : اس اجتماع میں حسن البنا سب سے پہلے حاضر ہوئے، لیکن بعد میں ہر نئے آنے والے مہمان کی عزت اور اکرام کی خاطر اپنی نشست چھوڑ دیتے تھے۔ یہا ں تک کہ مجلس کے بالکل آخر میں جا پہنچے حالانکہ اللہ کی قسم، بہت سارے عوامل اور خصوصیات کی بنیاد پر وہی اس لائق تھے کہ صدر مجلس ہوں۔

ایک دفعہ انھوں نے ایک نوجوان طالب علم امین السکری کو جو تعلیم کے سلسلے میں برطانیہ جارہا تھا، ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے برطانیہ کے حالات کے ساتھ مختلف علوم کے بارے میں معلومات اور انگریزوں کے اخلاقیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس خط میں انھوں نے اس نوجوان کو دینی اقدار اور اسلامی شعار پر سختی سے پابندی کرنے کی تاکید کی اور یہ نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ کو  سمیع و بصیر سمجھ کر ہمیشہ اس کواپنے اوپر نگران سمجھو۔

  •  فقہ و اجتھاد: امام البنا نے بہت سارے مسائل اور معاملات میں اجتہاد سے کام لیا  اور بہت ساری ایسی راہوں سے گزرے جن کو انھوں نے خود ہی کھولا۔ ان سے پہلے ان مسائل تک کسی کی رسائی نہیں ہوئی تھی، مثلاً:سامراج کے خلاف عملی جہاد اور اس کے لیے مسلسل تیاری ، عرب اور اسلامی ممالک کے لیے ایک اصلاحی اور تعمیری پروگرام کو متعارف کرانا، پوری دنیا میں اسلامی دعوت اور اسلامی فکر کو پھیلانا وغیرہ۔
  •  خصوصی حفاظتی نظام کا قیام : اخوان المسلمون نے تحریک کے دفاع کے لیے ایک خاص حفاظتی نظام تشکیل دیا۔ اس نظام خاص کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ اس انتہائی منظم‘ مربوط اور مستحکم نظام کی نگرانی امام خود کریں گے، یا کسی اعلیٰ تربیت یافتہ اور قابلِ اعتماد شخص کو اس  ذمہ داری پر مامور کیا جائے گا۔ یہ نظام درحقیقت مشکلات سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا ، لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب وہ نظام خود حسن البنا اور اخوان المسلمون کے لیے مصیبت اور مشکلات کا باعث بن گیا۔ جس کے بارے میں حسن البنا نے خود اپنی شہادت سے پہلے کہاتھا:’’یہ لوگ (نظام خاص کے افراد ) اخوان کی صف میں نہیں رہے‘‘۔

حسن البنا کی شہادت کے بعد بھی یہ نظام‘ تنظیم سے الگ ہوکر چلتا رہا، مگر اس کی مختلف کارروائیاں اخوان کے لیے مشکلات کا باعث بنتی رہیں، حالانکہ اخوان کا بحیثیت نظم اور تنظیم اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر جیسے ہی اخوان کی قیادت مومنانہ بصیرت کی حامل شخصیت ،استاد حسن الہضیبی رحمہ اللہ کو سونپی گئی، انھو ں نے فی الفور اس نظام کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ ردعمل کے طور پر بعض افراد نے استاذ الہضیبی کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اور ان کو جماعت کی قیادت سے ہٹانے کی سعی شروع کردی ،جس کے نتیجے میں جماعت کے اندر ایک بڑا فتنہ برپا ہوا۔ اسی زمانے میں استاد حسن الہضیبی گرفتار ہوگئے ، اور جماعت کے بلند پایہ قائدین کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا۔ اس نظام سے منسلک بہت سے دوسرے لوگ بھی تھے جو اس فتنے سے نہ بچ سکے۔ حقائق گڈمڈ ہوگئے ، نظام درہم برہم ہوا اور آزمایش کا یہ سلسلہ برابر چلتا رہا، یہاں تک کہ جماعت پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ حسن الہضیبی نے دوبارہ جماعت کی قیادت سنبھالی اور اس باغی نظام کو ختم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ بالآخر یہ لوگ اخوان کی صفوں سے نکل گئے۔ا س طرح الہضیبی ؒکی فراست اور بصیرت کے نتیجے میں یہ مسئلہ ہمیشہہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔

یہاں ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام البنا نے جن لوگوں کی تربیت کی تھی وہ بہترین شخصیات ثابت ہوئیں، لیکن جن کی تربیت ادھوری رہ گئی اور انھوں نے تنظیم اور سربراہِ تنظیم کے فیصلوں کی پابندی نہ کی، وہ مفید ہونے کے بجاے نقصان دہ عناصر کی حیثیت اختیار کرگئے۔   داخلی طور پر جماعت کے اندر جتنے بھی اندوہ ناک واقعات رونما ہوئے تقریباً ان سب کا موجب اسی نظام کے افراد تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرمائے۔

  •  سرزمین شام پر اثرات : شام میں بہت سی انجمنیں متحرک تھیں۔ تقریباً ہر صوبے میں ایک اصلاحی انجمن ہواکرتی تھی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ سب کی سب (شباب سیدنامحمدؐ) کے عنوان سے اکٹھی ہوئیں۔ ۱۹۴۶ء میں ان سب نے اخوان کے پروگرام اور طریق کار سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے لیے ’جماعت الاخوان المسلمون‘ کا نام چنا۔ اردن میں کافی دیر تک جماعت کے مرکز کا نام شعبہ الاخوان ، یعنی مقامی جماعت کے عنوان سے تھا۔ لبنان میں شیخ احمد یوسف حمود مرحوم و مغفور کی زیر سرپرستی جماعت کا مرکز قائم ہواتھا ، اس وقت وہ اکیلے ہی وہاں پر اخوان المسلمون کے رکن تھے۔ انھوں نے جماعت ’عبادالرحمن ‘کے نام سے اپنے کاموں کو سماجی بہبود کے دائرے تک محدود رکھا، اور بعد میں یہی تنظیم جماعت اسلامی لبنان میںتبدیل ہوگئی جو اب تک اسی نام سے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح عراق ، کویت ، امارات اور دوسرے عرب ممالک میں اخوان کی تحریک نے مختلف ناموں سے کام کا آغاز کیا۔

اس سلسلے میں آخری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شام کے ایک معروف عالم دین   الشیخ محمد علی ظبیان کیلانی دمشقی نے عقیدہ جمعیۃ الاخوان المسلمون (جماعت اخوان المسلمون کا عقیدہ )کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون تحریر کیاہے۔ اس مضمون کا صحیح سن اشاعت تو معلوم نہیں لیکن مضمون نگار نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ یہ مضمون اخوان کے تاسیس کے دوسال بعد لکھا گیا، یعنی اندازاً ۱۹۳۰ء کا زمانہ تھا۔ اس وقت نہ ریڈیو تھا اور نہ ٹیلی ویژن، لیکن اس کے باوجو د انھیں شام میں جماعت اخوان اور اس کے عقائد کی تفصیلی معلومات پہنچ گئی تھیں۔ انھوں نے ان بہت سے کاموں کاذکر کیا جو اخوان نے سرانجام دیے ہیں، اوراپنی بات ختم کرتے ہوئے لکھا:

میری نظر میں مسلمانوں کی پس ماندگی کا سب سے بڑاسبب اپنے دین سے دوری ہے۔ ان کی اصلاح اور بہتری کی صورت یہ ہے کہ وہ صدقِ دل سے اسلامی تعلیمات و احکام کی طرف پلٹ آئیں۔ اس ہدف تک رسائی بالکل ممکن ہے، بشرطیکہ مسلمان اس کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ میں اخوان کے اصول و مبادی پر قائم اور ثابت رہنے کا وعدہ کرتاہوں اور اس کے ہر کارکن کے لیے میرے دل میں جگہ ہے، اور میں یہ بھی    وعدہ کرتا ہوں کہ اس راہ میں اپنی آخری سانس تک ایک تابع دار سپاہی کی طرح زندگی بسرکروں گا… میرے مسلمان بھائی، یہ تیرے اخوان المسلمون کے بھائیوں کا عقیدہ ہے اس کو مضبوطی سے تھام لواو راگرتم اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر اور بھلائی کا ارادہ رکھتے ہو، تو ہر روزمسلسل اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس عقیدے کی خدمت کی توفیق بخشے اور اس کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے اسی راہ میں موت بھی عطا فرمائے۔ وہی ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہتر ین کارساز ہے۔

جماعت کی تاسیس کے تھوڑے ہی عرصے بعد استاد علی طنطاوی نے کہاتھا : حقیقی معنوں اور منظم شکل میں دعوت دین کا آغاز جواں سال حسن البنا نے کیا ہے۔ میں نے اس وقت ان کو پہچان لیاتھا جب وہ میرے خالو محب الدین الخطیب کے پاس سلفیہ پریس میں آیا کرتے تھے۔ ابتدائی زمانے ہی سے وقار ، سکون اور سنجیدگی ان کی طبیعت پر غالب تھی۔ بہترین اور عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔ بڑی با ایمان شخصیت تھے۔ زبان میں بلاکی تاثیر اور فصاحت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوسروں کو قائل کرنے ، پیچیدہ اور لاینحل مسائل کو سلجھانے کی عجب صلاحیت سے نوازاتھا۔ وہ مختلف فیہ امور میں اتفاق پیدا کرنے کی بے پناہ استعداد رکھتے تھے۔

  •  میدانِ سیاست: امام حسن البنانے سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس حوالے سے اتنا زیادہ کام کیا، جس کا بیان ممکن نہیں۔ ۱لبتہ اس سلسلے میں ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں ان کی راے یہ تھی کہ:’’اخوان کے نمایندے دوسری پارٹیوں کے تحت بھی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں ‘‘بلکہ وہ اس کو بہتر سمجھتے تھے تاکہ: ’’اس طریقے سے ان تمام سیاسی پارٹیوں میں بھی اسلامی آداب و تعلیمات کو رواج دیا جاسکے‘‘۔

اس کاتجربہ بھی کیاگیاتھا اور اس کے بڑے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ بد قسمتی سے اس وقت سے آج تک اخوان کو آزادی کے ساتھ مصر اور دوسرے عرب ممالک کے انتخابات میں حصہ لینے نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود مصر اور ان تمام عرب ممالک میں جن میں آزادی اور حریت کی کچھ بھی ر مق باقی ہے، اخوان کو شان دار کامیابیاں نصیب ہوئیں۔

  •  تعلیم و تربیت:شعوری زندگی کی بالکل ابتدا میں ہی وہ اپنے گائوں محمودیہ کی مسجد میں تربیتی درس دیا کرتے تھے۔ طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے اور کبھی کبھار اجتماعی تربیتی دوروں کا انتظام بھی کرتے تھے۔ اسی دوران انھوں نے معاشرے کو منکرات سے پاک کرنے کی غرض سے    ’منع محرمات انجمن ‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ ان کی پوری زندگی ایک جہدمسلسل سے عبارت تھی۔ اپنی فراست کی بنا پر حوادث اور واقعات کا پہلے ہی ادراک کرلیا کرتے تھے۔جب دارالعلوم سے فارغ ہو کر اسماعیلیہ میں معلم مقرر ہوئے، اس وقت انھوں نے اسکول ہی میں مزدوروں کی تعلیم کا انتظام کیا۔ وہ قہوہ خانوں اور اپنے دیگر کاموں سے واپس آکر درس میں شامل ہوتے تھے۔ وہیں پر بچوں کی تعلیم کے لیے حرا انسٹی ٹیوٹ اور بچیوں کے لیے مدرسہ امہات المومنین اور نوجوان لڑکیوں کے لیے دارالتربیۃ الاسلامیہ کا قیام عمل میں لائے، جن کو بعد میں اخوان المسلمون کی تنظیم میں شامل کیا گیا۔ واضح رہے کہ ان سب تعلیمی اداروں میں انھوں نے تمام طلبہ و طالبات کی مفت تعلیم کا انتظام کیاتھا۔ بعد کے ادوار میں جماعت نے مصر ہی میں نہیں بلکہ تمام عرب اور غیرعرب ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف سطح کے تعلیمی ادارے قائم کیے۔
  •  بعض الزامات اور ان کی حقیقت :عام طور پر لوگ حسن البنا کے بارے میں اچھی راے رکھتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں۔ بعض حضرات کچھ ایسی باتیں بھی کرجاتے ہیں جن سے حسن البنا کی ایذا رسانی تو ممکن نہیں، اس لیے کہ وہ تو اپنے رب کے پاس چلے گئے ہیں، البتہ یہ باتیں تحریک اسلامی کے کام میں رکاوٹ ضرور کھڑی کردیتی ہیں۔ ذیل میں اس قسم کی دوتین باتوں کا تذکرہ کیا جا رہاہے۔
  • حسن البنا کے بارے میں کہا گیا کہ:’’ وہ شاہ فاروق کی حکومت کے حامی تھے ‘‘۔ یہ ایک صریح جھوٹ اور حقیقت سے بالکل عاری بات تھی۔حقیقت یہ ہے کہ جس حوالے سے محدودسطح پر اخوان نے حکومت کے ساتھ باہم اشتراک کیا، وہ اسکائوٹنگ اور رضا کار خدمت گزاروں کا شعبہ ہے، اور وہ بھی سال بھر میں ایک مرتبہ ایک روز کے لیے جب دوسرے قافلوں کے ساتھ اسکائوٹ کے قافلوں کو بھی قصر عابدین کے سامنے سے گزرنا ہوتاتھا۔اس سالانہ سرکاری تقریب میں اخوان کے اسکائوٹنگ گروپ کی شرکت ایک مجبوری تھی۔ اگر وہ اس میں شرکت کرنے سے انکار کرتے تو ان سے اس ادارے کا اجازت نامہ سلب کر لیا جاتا اور پھر قانونی طورپر ان کو اس میدان میں کام کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔یہ دراصل اس عسکری اور جہادی تربیت کا ایک راستہ تھاجو اخوان نے برطانوی سامراج کو مصر اور فلسطین اور فرانسیسی سامراج کو مراکش او ر سعودی عرب سے نکالنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ اگر وہ اس علامتی عمل سے وابستہ نہ ہوتے تو یہ سلسلہ رک جاتا۔
  •  ایک اور الزام جسے روزنامہ شرق الاوسط ، الحیاۃ ، الوطن العربی اور بعض دیگر خبر رساں ایجنسیوں نے ایک زمانے میں بڑے پیمانے پر نشر کیا، یہ تھا کہ حسن البنا اور ایران کے  مجتبیٰ نواب صفوی فدائیان اسلام کے رہنما کے درمیان گہرے تعلقات اور باہمی تعاون قائم تھا۔  یہ خبر بھی ایک من گھڑت اور جھوٹی خبر ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ۱۹۵۳ء کے اواخر میں، دمشق میں، میرے گھر پر ہی نواب صفوی کا اخوان کے ساتھ پہلا رابطہ ہوا اور پھر ۱۹۵۴ء میں بیت المقدس اور قاہرہ میں یہ سلسلہ آگے بڑھا، یعنی وہ امام حسن البنا کی شہادت کے کئی سال بعد اخوان سے متعارف ہو ئے تھے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان دونوں رہنمائوں کے درمیان تعاون کاکوئی معاہدہ طے پاگیا ہو۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ امام البنا نے شیعہ سنی اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں، مَیں نے اور محمدتقی قمی نے ایک ساتھ کام کیا۔
  •  جھاد اورجھد مسلسل: اس میدان میں تو وہ ازہر کے اساتذہ اور شیوخ اور دوسری پارٹیوں اور اداروں کے زعما و قائد ین میں بالکل ایک نمایاں اور امتیازی مقام رکھتے تھے۔ اس میدان میں صرف ان کے شاگردوں اور اخوان کے کارکنان نے ان کا ساتھ دیاتھا۔ ۴۰کے عشرے کے آغاز ہی سے جہادکے اہداف کے حصول کی خاطر انھوں نے مصری فوج کے اندر حلقہ قائم کرلیا اور استاد صاغ محمود لبیب کو ان فوجی دستوں کی سرپرستی اور تربیت کے لیے مقرر کیا۔    بعد میں اس شعبے میں عبدالمنعم عبدالرئوف ، جمال عبدالناصر ، عبداللطیف بغدادی ،صلاح سالم، حسین الشافعی ، حسن ابراہیم ،ابوالمکارم عبدالحئی ، معروف حضری وغیرہ نے بھی نمایاں کردار اداکیا۔عبدالمنعم عبدالرؤوف وہی شخص تھا جس نے عزیزمصری کا طیارہ ہائی جیک کرکے لیبیا پہنچادیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جرمن بہرحال انگریز استعمار سے بہتر ہے۔ اس کارروائی میں انور سادات بھی اس کے ساتھ شامل تھا۔ اگرچہ یہ دونوں گرفتار بھی ہوئے، لیکن جلد ہی وہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ مصری فوج میں واپس لوٹ آئے۔

۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب آیا تو جمال عبدالناصر فوجیوں کے اس گروہ میں شامل تھا جس نے حکومت پر قبضہ کیا،جب کہ کرنل محمد نجیب ، عبدالمنعم عبدالرئووف اور ان کے ساتھ ایک اچھا خاصاگروپ پس پردہ دھکیل دیا گیا۔ ان میں سے بعض افسران جیلوں میں بند کردیے گئے۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عبدالمنعم بہت اچھا اورپاک دل شخص تھا ، لیکن اس میں کچھ ایسی کمزوریاں تھیں جس کے باعث وہ قائد نہ بن سکا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ عطافرمائے ۔

کرنل محمد نجیب، جمال عبدالناصر اور اس وقت حکومت کے دیگر اہل کار انقلاب کے ابتدائی ایام میں فخر سے کہا کرتے تھے:’’ ہم امام حسن البنا کے اصول و مبادی اور طریق کار پر کاربند ہیں‘‘۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے ۱۲فروری ۱۹۵۴ء کو امام حسن البنا کی قبر پر حاضری دی تھی اور اس وقت ایک بہت بڑے جلسے میں بھی شرکت کی تھی۔ محمد نجیب اور جمال عبدالناصر دونوں نے اس بڑے مجمع سے خطاب کرکے اس بات کا اعلان کیاکہ وہ اسلامی نظام کے حامی اور امام حسن البنا کے پیروکار ہیں۔

  •  امام کی شھادت :جب اخوان اور حکومت کے درمیان حالات بگڑ گئے تو نقراشی نے فلسطین میں مجاہدین کی پکڑ دھکڑ شروع کرکے انھیں پہلے عسکری مراکز اور پھر مصری جیلوں میں بندکردیا۔ مصر میں اخوان کے ہزاروں کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیںاور انھیں ابی زعبل اور دیگر صحرائی جیلوں میں پابندسلاسل کر دیاگیا۔ اخوان کے تمام اسکول، مدارس، دیگر تعلیمی اداروں، دفاتر ، مراکز ، کمپنیوں اور املاک کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا۔

ایک مرتبہ حکومتی کارندے اخوان کے دفتر سے کارکنان کو گرفتار کررہے تھے تو امام حسن البنا نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے ہوئے پولیس کی گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کو منع کردیا، اور باقی سب لوگوں کو پکڑ کر لے گئے۔ یہاں تک کہ ان کی حفاظت پر مامور افراد کو بھی نہ چھوڑا۔ دراصل حکومت ان کے قتل کے لیے پہلے ہی سے منصوبہ بناچکی تھی۔

سازش کے مطابق مصطفی مرعی بین الاقوامی مسائل کمیشن کے سربراہ کی وساطت سے انھیں ’الشبان المسلمین‘ کے دفتر لایا گیا کہ:’’ حکومت اور اخوان کے درمیان جاری کشیدگی کے لیے آپ سے ایک وزیر ملاقات کرنا چاہتا ہے تاکہ باہمی مفاہمت سے کوئی حل تلاش کیا جاسکے‘‘۔   امام حسن البنا وعدے کے مطابق وہاں پہنچے لیکن کافی انتظار کے باوجود کوئی وزیر نہ آیا، جس پر آپ اپنے بہنوئی استاذ عبدالکریم منصور کے ہمراہ دفتر سے باہر نکلنے لگے کہ بجلی منقطع کردی گئی۔ آپ ٹیکسی میں بیٹھے ہی تھے کہ اندھا دھند فائرنگ کرکے آپ کو زخمی کردیا گیا۔ تاہم کاری زخموں کے باوجود آپ ’الشبان المسلمین‘کے دفتر واپس لوٹ آئے۔ وہاں سے آپ کو ’القصر العینی‘ ہسپتال پہنچا دیا گیا، لیکن آدھی رات تک آپ کو طبی امداد سے محروم رکھا گیا۔ آپ کے جسم سے مسلسل خون  بہہ رہاتھا یہاں تک کہ اسی ہسپتال میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

شاہ فاروق کے عہد میں اس قتل کی کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔ تمام وزارتوں میں اس فائل کو سیل کردیا گیا۔ یہ فائل برابر بند پڑی رہی۔ یہاں تک کہ فوجی انقلاب کا زمانہ آیا تو نئے سرے سے تحقیقات شروع ہوئیں ،جس کے نتیجے میں ۱۹۵۴ء کو امن عامہ کے ڈائرکٹر جنرل محمودعبدالمجید کو ۱۵سال اور مخبر احمد حسین جاد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ بدقسمتی سے اسی سال جب اخوان اور جمال عبدالناصر کے درمیان حالات مزید بگڑ گئے،تو ان دونوں مجرموں کو رہا کردیا گیا۔

یہ تھا امام البنا، ان کا عظیم مشن اور جہاد اورجہدمسلسل کا مختصر ساتذکرہ جس سے واضح   طور پر معلوم ہوتا ہے وہ فی الواقع امام اور مرشد تھے___ یہ بات درست ہے کہ وہ معصوم نہیں تھے ، اور بنی آدم سے خطاکا صدور ایک فطری امر ہے۔ عصمت تو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکو حاصل ہے جو براہِ راست اپنے پروردگار کا پیغام پہنچانے پر مامور تھے۔ جماعت اسلامی پاکستان کا استاذ البنا کی یادوں کا تذکرہ کرنا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ درحقیقت ہر عظیم ہستی کی خیر اور بھلائیوں کا تذکرہ ایک  اعلیٰ قدر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امام البنا کو جنت میں اعلیٰ و ارفع مقام دے اور ان کو اجرعظیم سے نوازے۔