امام حسن البناشہید کے صد سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے ترجمان القرآن نے جو خصوصی شمارہ شائع کرنے کا عزم کیا ہے، وہ بہت مستحسن و مبارک قدم ہے۔ اس موقع پر میں نے سوچا کہ اس عظیم شہید کی شخصیت و شمائل ،ان کی دعوت و تحریک ،ان کی تصنیفات و خطبات ، ان کے دعوتی خصائص و امتیازات وغیرہ پرتو بہت سے فاضل مقالہ نگار روشنی ڈالیں گے،اخوان المسلمون جوان کا سب سے بڑا کارنامہ بلکہ ان کا سرمایۂ حیات اور ان کی زندگی کا نچوڑ تھی ، کیوں نہ میں اس کے بارے میں اپنے مشاہدات پیش کروں ، کہ میں مصر اور شام میں اس سے وابستہ رہا ہوں ، اور عراق و اردن میں بھی اس تحریک کے مظاہربڑے قریب سے دیکھے ہیں۔ اس کے قائدین اور کارکنوں کے ساتھ میرا گہرا تعلق رہا ہے بلکہ میں ان کے خاندان (اسرہ ، سب سے چھوٹا تنظیمی یونٹ) کا ایک فرد رہا ہوں۔ میں نے ان کو آزادانہ اور سرفروشانہ سرگرم عمل بھی دیکھا ہے، اور ان کا وہ دور ابتلا بھی دیکھا ہے جب سرزمینِ مصر ان کے چھے ممتازشہیدوں کے لہو سے لالہ زار تھی، اور جب ان کے ہزاروں کارکن و قائدین پابند سلاسل تھے اور ہزاروں ہی خود اختیاری جلا وطنی پر مجبور تھے۔
وہ سرزمین جہاں امام حسن البناشہید پیدا ہوئے، اور جہاں ان کی عظیم عالمی اسلامی تحریک اخوان المسلمون پر وان چڑھی اور پھر ان کے خون سے لالہ زار ہوئی، یعنی مصر ، اس پر میں نے پہلا قدم ستمبر ۱۹۵۳ء میں رکھا۔ مصرکا میرا یہ پہلا سفر جدہ سے سویز براستہ سمندر تھا۔ اس کے بعد متعدد بار فضائی اور بری راستوں (لیبیا ،مصر ) سے مصر جانا ہوا ، لیکن پہلا سفر متعدد وجوہ سے بڑا یاد گار سفر تھا۔ ایک تو یہ کہ اس کا دورانیہ خاصا طویل، یعنی تقریباً پونے دو سال تھا، کیونکہ یہ مطالعاتی اور تعلیمی سفر تھا۔دوسرے، یہ کہ اس سفر میں جوجنرل نجیب کے ہاتھوں انقلاب کے صرف ایک سال بعد پیش آیا تھا، میں نے مصر میں فوجی سیاست کے بڑے اتار چڑھائو دیکھے۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں نے اس سفر میں مختلف مراحل میں اخوان کی تحریک کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا ، اس کے راہ نمائوں کو سنا اور اس کے کارکنوں کے صبح و شام دیکھے۔ان کے عزم و ہمت کا مشاہدہ کیا اور ان کا صبر وثبات دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ میرا جو زمانہ گزرا وہ بہت ہی عزیز زمانہ تھا۔
استاذ سعید رمضان مرحوم نے مکہ کے واحد بڑے ہوٹل ’بنک مصر ‘ میں حج کے فوراً بعد ایک جلسہ منعقدکیا، جس میں حجاز کے علما ،ادبا اور دانش وروں کو دعوت دی۔ اس جلسے میں مشہور مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی (مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے والد گرامی )بھی مقرر کی حیثیت سے شامل تھے اور میں بھی حضرت مولاناعلی میاں کے ایک رفیق کی حیثیت سے موجود تھا۔ مولانا مرحوم نے اس موقعے پر عربی زبان میں،جب کہ مولانا عبدالعلیم صدیقی نے انگریزی میں تقریر کی تھی، لیکن برادرم مرحوم الاستاذ سعید رمضان کی تقریر سب پر بھاری تھی۔ اس کے کئی سال بعد دمشق میں مؤتمر اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس کے موقعے پر ان کے جوہر دیکھنے میں آئے۔ ۱۹۵۶ ء کی اس کانفرنس میں جو استاذ سعید رمضان ہی نے منعقد کی تھی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی بھی شریک تھے۔ میں اس وقت دمشق یونی ورسٹی کے کلیۃ الشریعہ کا ایک طالب علم تھا۔ ڈاکٹر سعید رمضان مرحوم کی شعلہ بیانی اور زور خطابت شہید حسن البناکے اثر ہی سے تھا، وہ اپنے مرشد مرحوم کی کاپی تھے۔
استاذ سعید رمضان سے ۱۹۵۰ء میں مختصر تعارف اور ملاقات کے بعد دوسرے موسم حج کے موقعے (۱۹۵۱ء) پر اخوان کا ایک مختصر وفد ڈاکٹر عبدالعزیز کا مل کی قیادت میں مکہ مکرمہ آیاتھا۔ موصوف اسکندریہ کی فاروق یونی ورسٹی میں جغرافیہ کے استادتھے۔ ان کے ہمراہ اسکندریہ یونی ورسٹی کے بعض اخوان طلبہ بھی تھے ، ان میں سے ایک محب المحمدی الحسنی سے میری اچھی ملاقات ہوگئی۔ دوسال بعد جب میں مصر گیا تو اس وقت یہ ملاقات بہت کام آئی ، کیونکہ اس وقت یہ ساتھی قاہرہ آچکے تھے، جہاں وہ بی اے آنرز کے بین الاقوامی تعلقات میں قاہرہ یونی ورسٹی سے ڈپلومہ کررہے تھے۔ ساتھ ہی ایک نئے روزنامے الجمہوریہ میں کام بھی کرتے تھے۔ اس اخبار کے ایڈیٹر اس زمانے میں جمال عبدالناصر کے ساتھی اور انقلابی قیادت کونسل (Revolutionary Command Council)کے رکن انور السادات تھے، جو جمال عبدالناصر کے بعد صدر بنے۔
میں نے قاہرہ پہنچنے کے بعد قصر عابدین (اندرون شہر شاہ فاروق کی سابقہ قیام گاہ ) کے قریب شارع عبدالعزیز پر ایک گیسٹ ہائوس (pension)میں ایک کمرہ کرایے پر لے لیاتھا۔ یہاں مجھے رہتے ہوئے تین چار ماہ کے قریب ہوئے تھے کہ میرا اخوانی دوست، محب المحمدی جس سے دوسال قبل مکہ میں تعارف و ملاقات رہی تھی اور اس سے کچھ مراسلت بھی رہی ، اس گیسٹ ہائوس سے اصرار کرکے وسط شہر سے دو ر بلکہ قاہرہ کے الدقی نامی محلے میں مجھے اپنے فلیٹ پر لے گیا، جو اس گیسٹ ہائوس کے مقابلے میں بہت سستاتھا۔ اس میں پانچ نوجوان اور رہتے تھے‘ جن میں دو اسکول ماسٹر تھے ، دو طالب علم اور ایک کسی کمپنی میں کلرک تھا۔ محب المحمدی اپنا کمرہ چھوڑ کر اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں رہنے جا رہے تھے اور انھوں نے مجھے اپنا کمرہ دے دیا تھا۔ یہ فلیٹ شارع جوہرپر تھا۔ ان پانچ میں سے صرف ایک مدرس غیر اخوانی تھا ، لیکن وہ بھی حامیوں میں سے تھا۔
اب میں اس اخوانی خاندان کا ایک فرد تھا۔ خاندان کا لفظ یہاں بے محل استعمال نہیں کیاگیا ہے ، بلکہ اخوان المسلمون کے مرشد عام( صدر یا امیرجماعت ) نے اپنی تحریک کا جو تنظیمی ڈھانچا بنایاتھا ، اس میں پہلے تنظیمی یونٹ یا اکائی کا نام ’اسرہ ‘(خاندان ) ہی رکھا تھا۔ اس ’اسرہ‘کے ان پانچ ممبران (بشمول محب المحمدی)کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ممبر (عضو) تھے۔ اس سے بڑی تنظیمی اکائی ’شعبہ ‘ تھی۔۱؎ ’اسرہ ‘ اور ’شعبہ ‘ کے اجلاس مقررہ اوقات پر ہوتے رہتے تھے۔ ہمارے محلے کے شعبے کا سربراہ ایک ترکی الاصل مصری نوجوان تھا اور شعبے کی میٹنگ ایک قریبی مسجد میں ہوتی تھی۔
ان سب اخوانی اور ایک غیر اخوانی بھائیوں کا مجھ سے ایسا برادرانہ اور مخلصانہ تعلق تھا کہ میں اپنی مسافرانہ حیثیت کو بھول گیاتھا اور ایسا لگتاتھا کہ واقعتا ہم ایک ہی خاندان کے فرد ہیں۔ حجاز میں رہنے کے سبب میری عربی اچھی ہوگئی تھی اور گفت و شنید میں کوئی دشواری نہ تھی ، جلد ہی میں نے مقامی مصری بولی (colloqial) بھی سیکھ لی۔ اسلامی اخوت جواخوان کا امتیازی نشان تھا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عید کے موقعے پر یہ اخوانی جو مصر کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے تھے، اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے ، ابو احمد جو سب میں سینئر تھے انھوں نے اصرار کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ ان کے گائوں جائو ں۔ میرے تکلف پر انھوں نے کہا کہ اگر تم ہمارے ساتھ نہ گئے تو ہم بھی عید کرنے اپنے گھروں کو نہ جائیں گے۔ مجبوراً میں ان کے ساتھ قاہرہ سے کافی دور ان کے گائوں دکرنس تحصیل بیت عمر گیا ، جوقاہرہ کے شمال مغرب میں واقع مشہور شہر منصورہ کے قریب تھا۔ یہاں ان لوگوں نے میری اس اہتمام سے خاطر مدارت کی جو شاید بہت سے قریبی رشتے دار بھی نہ کرسکیں۔ یہ ایک پرخلوص اور غیر معمولی اسلامی اخوت کا سحر انگیزمشاہدہ تھا ۔
تقریباً ڈیڑ ھ سال تک میرا قاہرہ میں ان کے ساتھ قیام رہا اور اس دوران میں کتنے ہی اخوانی دوستوں سے ملا۔ سب کا طریقۂ تعارف نام بتاتے وقت یہ تھا ’اخوکم فی اللہ ‘مصطفی یا محمد وغیرہ یعنی اللہ کی خاطر تمھارا بھائی فلان۔ یہ اسلامی اخوت کا وہ پہلا سبق تھا جو بہت پہلے حسن البناشہید نے اپنی تحریک کے پیروئوں کو سکھایاتھا۔جس پروہ آج تک کاربند ہیں اور جس نے ان کو ایک ایسے مضبوط رشتے میں جوڑ دیاتھا، جس کی مثال کسی اور تحریک میں نہیں ملتی۔ اس کا بھرپور مظاہرہ اس شدید دو ر ابتلا میں ہوا جو جمال عبدالناصر کے عہد ۱۹۵۴ء سے شروع ہوا اور اس کی موت (۱۹۷۱ء) تک جاری رہا۔ اس دور میں ۲۰‘ ۲۵ ہزار کے قریب اخوان جیلوں میں تھے۔ ان کے بیوی بچوں کے مصارف وہ ہزاروں اخوانی برداشت کرتے رہے جوکہ کسی نہ کسی طریقے سے جان بچا کر خلیج ، کویت ،قطر ، سعودیہ ، بحرین وغیرہ پہنچ گئے تھے۔ یہ لوگ خفیہ طریقے سے رقم مصر بھیجتے تھے ، جوان بے سہارا خاندانوں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔
جنرل محمد نجیب کا جو ابتدا میں انقلابی کمانڈ کونسل کے صدر بنائے گئے تھے، اخوان سے براہِ راست تعلق نہ تھا، لیکن وہ اپنی اسلامی سیرت کے سبب اخوان سے قریب تھے، چونکہ وہ ایک سینیرجنرل تھے اور بادشاہت کے خلاف ، اس لیے انقلابی فوجی افسران نے ان کو صدر بنانا پسند کیا۔ لیکن وہ فوجی انقلابی جو عیاشی کی طرف مائل تھے یا وہ جو بائیں بازو کی سیاست کے حامی تھے ، انھوں نے کرنل جمال عبدالناصر کو صدر بنانے اور جنرل محمد نجیب کو صدارت سے ہٹانے کی حمایت کی۔ مصری انقلاب کی تاریخ کا ایک دل چسپ پہلو جس کا میں عینی شاہد ہوں یہ ہے کہ جیسے ہی جنرل نجیب کو صدارت سے معزول کرنے کی خبر پھیلی ، عوام نے غم و غصے کے اظہار میں مظاہرے شروع کردیے۔ دو یا تین دن کے بعد انقلابی کمانڈ کونسل نے جنرل نجیب کی صدارت کے عہدے پر واپسی کا اعلان کردیا۔ یہ شاید ستمبر یا اکتوبر کامہینہ تھا۔ میں اس وقت قصرعابدین کی شارع عبدالعزیز کے فلیٹ میں ہی مقیم تھا۔ گیارہ بارہ بجے کے قریب بلڈنگ سے باہر آیا تو دیکھا کہ سڑک پر لوگ خوشی سے ناچ رہے ہیں اور راہ گیروں کو شربت پلا رہے ہیں۔ مجھے بھی ایک دکان دارنے شربت پیش کیا ، آگے بڑھا تو دیکھا کہ قصر عابدین کے سامنے وسیع میدان میں بڑا ہجوم ہے۔ معلوم ہوا کہ تھوڑی دیر پہلے لوگ یہاں جنرل نجیب کو کاندھوں پر اٹھائے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے۔
ابتدا میں انقلابی افسران اور جنرل نجیب نے اعلان کیاتھا کہ ملک میں آزاد انتخابات کرائے جائیں گے۔ بہت سی سیاسی پارٹیوں کوالیکشن کی تیاری کا حکم بھی دے دیا گیاتھا۔ ملک میں ایک عجیب سرخوشی اور گہما گہمی کا راج تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اعلیٰ انقلابی افسران حسن البناشہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے تھے اور انھو ں نے اعلان کیا تھاکہ اخوان پر جو ظلم ہوا ہے اس کی پوری پوری تلافی کی جائے گی۔ لیکن بعد میں یہ وعدے پورے نہیں کیے گئے بلکہ بعض وہ اعلیٰ اخوانی فوجی افسران جن کا انقلاب میں اہم کردار تھا، ان کو ملک چھوڑ کر خفیہ طور پر بھاگنا پڑا، تاکہ جمال عبدالناصر کی داروگیرسے بچ سکیں۔ ان میں نمایاں نام کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف کاتھا ، جنھوں نے شاہ فاروق کو تخت چھوڑنے اور ملک بدر ہونے پر مجبور کیاتھا۔
انقلاب سے ڈیڑھ دوسال قبل وفدی حکومت کے عہد میں اخوان پر سے پابندی اُٹھا لی گئی۔ اخوان پر پہلی پابندی ۱۹۴۹ء میں لگی اور حسن البناشہید کے ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو سرکاری کارندوں کے ہاتھوں شہادت کے ایک سال بعد، ان کی جماعت کو پھر فکر و عمل کی آزادی مل گئی تھی۔ انقلاب کے بعد اس میں مزید سرگرمی آگئی۔ میں اپنے اخوانی دوستوں کے ساتھ محلہ الحلمیۃ الجدیدۃ کے ، مرکز اخوان میں ان کے ہفتہ وار منگل کے اجتماع میں جاتاتھا، جو بعد مغرب ہوتاتھا اور جس میں اخوان کا کوئی مقرر یا بیرونی مہمان اسلامی موضوعات پر تقریر کرتاتھا۔
جنوری ۱۹۵۴ء کی ایسی ہی ایک شام میں نے وہاں ایران کی تحریک فدائیان اسلام کے ایک نوجوان راہ نما نواب صفوی کی تقریر سنی (ایک سال بعد شہنشاہ ایران نے ان کو پھانسی دے دی تھی )۔ فصیح و بلیغ عربی میں یہ تقریرکیاتھی ، ایک شعلہ افشانی تھی۔ دوران تقریر اخوان کا خاص مفصل نعرہ ، اللّٰہ غاتینا ، والرسول زعیمنا (مجھے زعیمنا ہی یاد ہے اور یوسف القرضاوی نے اپنی تازہ کتاب الاخوان المسلمون میں یوں ہی لکھاہے ، بعض کتابوں میں ’قدوتنا‘ ہے)، والقرآن دستورنا ، والجہاد سبیلنا و الموت فی سبیل اللہ اسمٰی امانینا، کئی ہزار افراد کی آواز میں بلند ہو رہاتھا (اللہ ہمارا مقصود و مطلوب ہے ، رسول ؐہمارے لیڈر ہیں ، قرآن ہمارا دستور ہے ، جہاد ہمارا طریقہ کار ہے اور اللہ کے راستے میں شہادت ہماری عزیز ترین آرزو ہے)۔ جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ محسوس ہورہاتھا کہ یہ تین چا ر ہزار افراد اگر چاہیں تو ابھی مرکز اخوان سے نکل کر پورے شہر پر قبضہ کرسکتے ہیں۔
انقلابی فوجی افسران جو اپنی بیرکوں وغیرہ میں خفیہ اجتماعات و ملاقاتیں کرتے تھے ، ان کو یہ عوامی مقبولیت کہاں حاصل تھی، جو اخوان کو تھی۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ انقلاب کے فوراً بعد تمام سیاسی پارٹیاں (احزاب ) غیر قانونی قرار دے دی گئی تھیں ، سواے اخوان المسلمون کے، کیونکہ اس کا سرکاری نام حزب (پارٹی ) اخوان المسلمون نہیں تھا، بلکہ جماعت اخوان المسلمون تھا، اور مصر میں ’حزب ‘ کا لفظ سیاسی پارٹی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح اخوان ہی تنہا میدان میں تھے اور ان کے ذریعے انقلاب کو عوامی مقبولیت حاصل ہو رہی تھی۔
جمال عبدالناصر اخوان کے جذبۂ جہادکا مشاہدہ کرچکاتھا ، ان کی ممتاز عسکری کارکردگی کو ۱۹۴۸ء کی پہلی جنگ فلسطین میں دیکھ چکاتھا‘ اور انقلاب سے قبل مختلف خفیہ اجتماعات میں ان کے ساتھ شریک ہوچکاتھا۔ وہ ان کی عوامی مقبولیت اور انتظامی قابلیت سے واقف تھا۔ اب انقلاب کے بعد وہ خود زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتاتھا اور اپنے قومی اشتراکی ایجنڈے پر عمل کرنا چاہتاتھا۔اخوان اپنے اسلامی فکر و عمل سے اس کے راستے میں حائل تھے۔ اس لیے اس نے اخوان کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے ۱۹۵۴ء کی ابتداسے مختلف طریقے اختیار کیے۔ پہلے جنوری ۱۹۵۴ء میں قاہرہ یونی ورسٹی میں اخوانی طلبہ اور سرکاری تنظیم ہیئۃ التحریر کے نوجوانوں کے درمیان جھڑپ کو بہانہ بنا کر اخوان پر پابندی لگادی اور بہت سے اخوانیوں کو قید وبند میں مبتلا کیا۔ پھر مارچ ۱۹۵۴ء میں یہ پابندی اٹھی تو اخوان از سرنو سرگرم عمل ہوگئے۔
جولائی ۱۹۵۴ء میں ابتدائی طور پر ایسے ایک معاہدے پر انقلابی حکومت اور انگریز وں کے مابین دستخط ہوگئے۔ اس کمزور اور انجام کار ضرر رساں معاہدے کی تکمیل کرانے میں امریکا او ر بھارت کی نہرو حکومت کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس سلسلے میں ، میں اپنا ایک ذاتی مشاہدہ پیش کرتا ہوں۔
میں اس زمانے میں بھارتی شہریت کا حامل تھا۔ جدہ سے ایک مشہور کانگریسی سیاسی شخصیت عبداللہ مصری قاہرہ آئی ہوئی تھی۔ ان سے مکہ مکرمہ میں میری ملاقات رہی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ قاہرہ میں بھارتی سفیر علی یاور جنگ عربی زبان پڑھنا چاہتے ہیں ، آپ یہ کام انجام دیں۔ میں تیار ہوگیا۔ ہفتے میں دوتین اسباق ہوئے تھے کہ سفیر صاحب کو اقوام متحدہ جانا پڑ گیا۔ اس دوران بھارتی سفارت خانے میں میری ملاقات ملٹری اتاشی کرنل مدن سے ہوگئی۔ انھوں نے کہا کہ سفیر صاحب کی جگہ میں ان کو عربی پڑھا دیا کروں۔ یہ اپریل یا مئی ۱۹۵۴ء کا واقعہ ہے۔ ابھی مجھے انھیں پڑھاتے ہوئے صرف ایک ماہ ہوا تھا کہ انھوں نے مجھ سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں آج کل مصری فوجی حکومت اور انگریزوں کے مابین سویز کینال سے متعلق سمجھوتے کے لیے ثالثی کے طور پر گفت و شنید میں سخت مصروف ہوں ، اس لیے عربی زبان کی تعلیم کا یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔ مصر کے اس اہم مسئلے میں بھارت کی ثالثی کا یہی کردار تھا جو مصر اورخاص طور پر جمال عبدالناصر کے بھارت سے پایدار تعلق کی بنیاد بنا۔ورنہ اس سے قبل جب اسی سال کی ابتدا میں جنرل محمد نجیب اور جمال عبدالناصر کے مابین سخت اختلافات رونماہوئے تھے تو انھیں حل کرانے میں پاکستان کے سفیر طیب حسین کا بڑا ہاتھ تھا۔ تب پاکستان سے نئی مصری فوجی حکومت کی بڑی دوستی تھی ، جو بعد میں مختلف وجوہ کی بنا پر دشمنی میں تبدیل ہوگئی۔
۱۹۶۴ء میں رہائی کے بعد ۱۹۶۵ء کے چوتھے دور ابتلا میں ان کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور پانچ سال کے بعد ۱۹۷۱ء میں ان کو جیل سے رہائی ملی۔ ۱۹۹۶ء میں وہ اخوان المسلمون کے پانچویں مرشد عام منتخب ہوئے(ان کے اور باقی اخوان کے مرشدین کے بارے میں ملاحظہ ہو میری کتاب تحریک اخوان پر میرا مقدمہ، ص ۲۴-۳۵)۔ ستمبر۲۰۰۳ء میں ۳۰سال بعد جب میں مصر گیا تو اس سے چند ہی برس قبل مرشد مصطفی مشہور وفات پاچکے تھے اور مامون الہضیبی چھٹے مرشد عام تھے ، جن سے محلہ الروضہ کے چھوٹے سے مرکز اخوان میں ملاقات ہوئی، یہیں میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ یہ مرکز پرانے مرکز کے مقابلے میں جو وسط شہر کے محلہ الحلیۃ الجریدۃ میں تھا، بہت چھوٹا ہے۔
یہ سال جمال عبدالناصر کے استبدادای مزاج اور پالیسیوں کے لیے آزمایش کا سال تھا۔ جنرل محمد نجیب جنھوں نے آزاد افسران کی تنظیم کے مطالبے پر انقلاب کی قیادت اور ملک کی صدارت سنبھالی ، ان سے جمال عبدالناصر سب کچھ چھیننا چاہتاتھا ، لیکن فوج کے ایک حصے نے محمدنجیب کا ساتھ دیا۔ دوسری طرف عوام نے نجیب کے لیے مظاہرے کیے اور عبدالناصر کو مجبوراً ان کا دوسری بار فوج کے کمانڈر ان چیف اور صدر جمہوریہ کی حیثیت سے تقرر کرنا پڑا۔ تیسر ی طرف اخوان المسلمون تھے جو اس بات کے لیے تیار نہ تھے کہ ملک کو قومیت اور لادینی اشتراکیت کے راستے پر چلایا جائے۔ جمال عبدالناصر ان کی عوامی قوت اور جذبۂ جہاد و قربانی سے پوری طرح واقف تھا۔ وہ یہ بھی خوب جانتا تھا کہ فاروق کی باشاہت کے خلاف مزاحم اصل قوت وہی تھے، اور فاروق کے حسن البناکو قتل کرانے کے بعد عوام کی ہمدردیاں اخوان کے ساتھ کم ہونے کے بجاے مزید بڑھ گئی ہیں۔ پھر یہ کہ وہ اس انقلاب میں بھی بڑے حصہ دار ہیں۔ کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف اخوان کے ہمدردرہے ہیں اور انھی نے شاہ فاروق کو اپنی معزولی کے پروانے پر دستخط کے لیے مجبور کرکے اٹلی کے لیے ملک بدر کیاتھا۔
اس صورت حال اور اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر جمال عبدالناصر نے اپنی خفیہ فوجی پو لیس کے ذریعے ایک بہت ہی معمولی شخص پلمبر کو یہ ڈراما رچانے کے لیے قربانی کا بکرابنایا ، تاکہ اس طرح وہ اخوان کو بدنام کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرے ،جو اس کے سب سے بڑے مدمقابل تھے۔مگر اس کے لیے اس کے کارندوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بڑا بھونڈا تھا۔ بھلا ایک ملک کے سربراہ (اس وقت جنرل نجیب صرف نام کے صدر تھے،سارے اختیارات جمال عبدالناصر کے ہاتھ میں تھے )اور ایک قائد انقلاب کو قتل کرنے کے لیے اخوان ایک اناڑی پلمبر کو مشن سونپتے ، پھر اس کو صر ف دو مصری پائونڈ اس کام کے لیے دیتے۔ ایک غیر جانب دار مصری مؤرخ و مصنف پروفیسر ڈاکٹر شبلی نے اپنی کتاب تاریخ الحضارۃ الاسلامیہ کی جلد ۹ میں بہت اہم دلائل دیتے ہوئے اخوان پر اس الزام کو سراسر جھوٹ قرار دیا ہے۔ (ص ۴۲۰تا۴۲۹)۲؎
اس سلسلے میں ایک ذاتی واقعہ بیان کرتا ہوں کہ اس ڈرامے سے دو تین ماہ پہلے یہ محمود عبداللطیف ہم لوگوں سے ملنے ہمارے فلیٹ پر شام کو آیاتھا۔ درمیانی قداور جسامت کا یہ شخص جو واقعتا امبابہ کا رہنے والا اور پلمبر تھا ، خاموش طبیعت کا عام اخوانی لگ رہاتھا ، اس موقع پر ہمارا اخوانی بھائی محب المحمدی بھی آگیا تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا اور محمود عبداللطیف کانام اخباروں میں آیا تو ہمیں تعجب ہوا۔ پھر یہ کہ ہمارے فلیٹ کی ان دنوں انٹیلی جنس والوں کی طرف سے نگرانی ہوتی تھی۔ اپنے ایک منزلہ فلیٹ کی سڑک پر کھلنے والی کھڑکی سے ہمارے ساتھی اکثر وہاں ایک آدمی کو کھڑا دیکھتے تھے۔ اگر محمود عبداللطیف کا اس قصے میں ہاتھ ہوتا تو اس واقعے کے بعد پولیس ہمارے فلیٹ پر دھاوا بولتی اور ہم سبھی کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کرلیتی۔
اس خود ساختہ جھوٹی کہانی کا مقصد اخوان کی اسلامی تحریک اور ان کی قوت کو تباہ کرناتھا۔ چھے اخوانی راہ نمائوں کو سخت تعذیب کے بعد پھانسی دے دی گئی، جن میں شیخ محمد فرغلی جیسے ازہری عالم اورجسٹس (ریٹائرڈ) عبدالقادر عودہ جیسے ممتاز قانون دان اور دو جلدوں میںاعلیٰ درجے کی تحقیقی کتاب التشریع الجنائی فی الاسلام (اسلام کا فوج داری قانون ) کے مصنف بھی شامل تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر شبلی کے مطابق ان کا جرم درحقیقت صرف یہ تھا کہ وہ مارچ ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے خلاف اور جنرل محمد نجیب کی تائید میں عوامی مظاہرے کے وقت نجیب کی واپسی پر قصرعابدین (صدارتی قیام گاہ)کی بالکونی پر کھڑے تھے۔
اس دار وگیر کے زمانے میں اخوان کے ہزاروں کارکن کسی نہ کسی طریقے سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ انھی میں سے دو نوجوان محمد عرفہ اور اسماعیل ہضیبی (اخوان کے دوسرے مرشد عام کا بھتیجا جس کو ۱۵ سال قید کی سزا غیر حاضری میں سنائی گئی تھی )دمشق پہنچ گئے تھے ،وہ ثابت قدم تھے۔ میں دورانِ تعلیم ان کے ساتھ ایک سال کے قریب (۱۹۵۷ء) رہا۔ ان کی زبانوں پر بھی قرآن کریم کی یہی آیت تھی جس کا اوپر ذکرہوا ہے۔ اسی فلیٹ میں دوپہر کے کھانے پر جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہماری ملاقات کرنل عبدالمنعم عبدالرئوف سے ہوئی تھی جو کسی نہ کسی طریقے سے جمال عبدالناصر کی جیل سے بھاگ نکلے تھے اوراب ترکی جا رہے تھے۔
استاذ سعید رمضان مرحوم اور بعض دیگر اخوانی راہ نما ۱۹۵۴ء کے اس واقعے سے پہلے ہی ایک کانفرنس میں شرکت کے سبب دمشق میں موجود تھے۔ جمال عبدالناصر نے ایسے چھے ممتاز اخوانی راہ نمائوں کی مصری شہریت ختم کردی تھی۔ مصر کے بعدمیرا اکثر ان سے ملنا رہتا تھا اور ان کا ماہانہ مجلہ المسلمون قاہرہ کے بعد اب دمشق سے شائع ہونے لگاتھا۔ اس زمانے میں انھوں نے اپنے اس مجلے میں جمال عبدالناصر پر ایک مضمون لکھاتھا جس کا عنوان تھا :’فرعونِ مصر‘۔ اسی لقب سے اس کو اس کے ایک فوجی رفیق انقلاب اور سابق وزیر عبداللطیف بغدادی نے اپنی کتاب میں یاد کیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ نصف صدی سے قبل اس شدید ابتلا اور پھر ۱۹۶۵ء میں دوسری ابتلا، پھانسیوں (سید قطب شہید کی پھانسی )، قید و بند اور جلا وطنی اور معاشی و خاندانی مصائب کے باوجود اخوان کی تنظیم آج بھی مصر میں فعال ہے۔جمال عبدالناصر کی قوم پرستانہ اشتراکیت اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ ۲۰ویں صدی کے اس فرعون کا اب کوئی نام بھی لینا پسند نہیں کرتا،جب کہ اخوان نے ان پر سیاسی پابندیوں کے باوجود آزا د حیثیت اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پرگذشتہ انتخابات میں ۸۸سے زائد نشستیں حاصل کی ہیں۔ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآئً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ(الرعد۱۳:۱۷) ’’اور جہاں تک (سلابی) جھاگوں کا تعلق ہے تو وہ رائیگاں ہوتی ہیں اور جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے‘‘۔
امام حسن البنانے اخوان المسلمون میں جو ثبات و صلاحیت پیدا کردی تھی ، یہ اسی کافیض تھا کہ تعذیب و قتل اور مسلسل سخت ابتلا کی آندھیاں بھی ان کو ہلا نہ سکیں۔ مرد تو مرد اخوانی خواتین بھی ناصری جلادوں کے ہاتھوں جیل میں سخت تعذیب کا شکار رہیں،لیکن ان کے پاے ثبات میں جنبش تک نہیں آئی۔ ۱۹۶۵ء کے دورابتلا میں سیدہ زینب الغزالی اور سید قطب شہید کی بہنوں حمیدہ قطب اور امینہ قطب وغیرہ نے جیل خانوں میں بڑی تعذیب برداشت کی ،لیکن اپنے مشن پر قائم رہیں۔
اس تعذیب کا ایک شکار ہمارا دوست محب حسنی المحمدی بھی ہوا۔ وہ ۱۹۵۴ء میں قاہرہ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات میں ایک کورس پڑھنے کے ساتھ ساتھ رات کو روزنامہ الجمہوریہ میں بھی کام کرتاتھا۔ جمال عبدالناصر کے قتل کے ڈرامے کے بعد جہاں ہزاروں اخوانی گرفتار کیے گئے تھے ،وہاں اس کو بھی گرفتار کیاگیا۔ یہ دو ہفتے جیل میں رہنے کے بعد ہم سے ملنے آیا۔ اس کا سرمونڈ دیا گیاتھا اور اس نے ہمیں پیٹھ دکھائی جو کوڑوں کی مار سے اب تک نیلی تھی اور کہیں کہیں سے کھال ادھڑی ہوئی تھی، لیکن اس کا آہنی عزم اب بھی ویسا ہی تھا۔ یہ اخوان کی اس تنظیم میں نہ تھا ، جو نہر سویز کے علاقے میں انگریزوں کے خلاف گوریلاحملوں کے لیے ۱۹۵۱ء میں بنائی گئی تھی جس سے مصری وفدی حکومت اور فوجی حکومت واقف تھی۔محب المحمدی کو اس کے بقول صرف شبہے میں پکڑا گیاتھا،اور محض یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کا اس تنظیم سے کوئی تعلق تو نہیں جیل میں ننگا کرکے اس کی کھال ادھیڑ دی گئی تھی۔ خدا شاہد ہے کہ وہ ہمارے سامنے ہنستاتھا۔اس اذیت ناک عمل کی اس پر کوئی دہشت ،کوئی خوف طاری نہ تھا۔ وہ اور میرے دوسرے فلیٹ کے اخوانی ساتھی امام حسن البناشہید کو دیکھ چکے تھے ، سن چکے تھے ، ان کے ساتھ بیٹھ چکے تھے ، ان کی صحبت نے ان نوجوانوں کو جو اَب ۷۰ برس کے بوڑھے ہیں یا دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، کندن کردیاتھا۔
امام حسن البنا نے اپنی کتاب مذکرات الدعوۃ و الداعیۃ (حسن البناشہید کی ڈائری) میں تصوف کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ شیخ حسن البنا تصوف کے خانقاہی نظام سے متفق نہیں تھے ، تاہم وہ اس کو عبادات کا ذوق و شوق او راس میں حلاوت پیدا کرنے کاذریعہ سمجھتے تھے۔ واقعی وہ اپنے جوانی کے ابتدائی زمانے سے اس کے سبب تہجد و دیگر نوافل اور نفلی روزوں اور اذکار و اورادکے پابند تھے۔اسی ذوق عبادت کے تحت انھوں نے بعد میں اخوان کے لیے مسنون ادعیہ واوراد پر ایک چھوٹی سی کتاب الماثورات لکھی، جو عام طور پر اخوان پڑھتے ہیں۔ شیخ حسن البنا متحرک یا تحریکی (dynamic)تصوف کے قائل تھے۔ اسی لیے جب انھوں نے تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی جو حرکت و عمل پر مبنی تھی تو ان کے شیخ طریقت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ تب انھوں نے اپنے شیخ کے اختلاف پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنی تحریک پر عمل پیرا رہے۔
اس غرض کے لیے حسن البنا جمعیۃ نہضۃ الاسلام کے صدر شیخ یوسف الدجوی کے پاس گئے ، ان کی محفل میں کچھ علما اور ممتاز لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ نوجوان طالب علم حسن البنانے ملک میں بڑھتی ہوئی لادینیت اور بے حیائی کا شکوہ کیا۔ شیخ یوسف نے عام بزرگوں کی طرح کہا جو کچھ ہوسکتا ہے کرو کہ لایکلف اللّٰہ ---‘‘مگر خود حسن البنا کہتے ہیں :میں نے کہا نہیں، یا سیدی ! یہ کمزوری اور اپنی ذمہ داری سے فرار کی بات ہے۔ آپ کو کس کا ڈر ہے ، حکومت کا، ازہر کا ؟آپ کو گزارہ الائونس ملتا ہے ، اپنے گھر بیٹھے ہیں، کوئی کام نہیں ، اسلام کے لیے کام کیجیے۔ ہماری قوم مسلمان قوم ہے ، وہ آپ کے ساتھ ہے۔ میں نے ان لوگوںکو قہوہ خانوں میں ، سڑکوں پر اور مسجدوں میں دیکھا ہے ، وہ آپ کے ساتھ ہیں ، لیکن چونکہ کوئی ان کی راہ نمائی نہیں کررہا ہے ، اس لیے اپنے پرجوش ایمان کے باوجود وہ ایک ضائع شدہ طاقت ہیں، اور اسی سبب سے لادین اور بدکردار عناصر کے اخبارات و رسائل، جو آپ لوگوں کی لاتعلقی کے سبب سرگرم ہیں ، ان کو گمراہ کررہے ہیں۔ اگر آپ لوگ ان کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو یہ عناصر اپنے بلوں میں گھس جائیں گے۔ یا استاذ !اگر آپ اللہ کے لیے قدم اٹھانا نہیں چاہتے ہیں تو اپنی دنیا اور اپنی روٹی کے لیے ہی اٹھیے، کیونکہ اگر اسلام مٹ گیا تو ازہر بھی مٹ جائے گا ، علما بھی مٹ جائیں گے۔ پھر نہ آپ کو کچھ کھانے کے لیے ملے گا اور نہ خرچ کرنے کے لیے پیسہ ملے گا۔ اگر اسلام کے دفاع کے لیے نہیں اٹھتے تو اپنی ذات کے لیے اٹھیے، اپنی دنیا کے لیے ہی سرگرم عمل ہوجائیے۔ اگر آخرت کے لیے عمل نہ کیا، تو اے شیخ محترم! یہ دنیاا ور آخرت دونوں ہی رائیگاں جائیں گے۔
حسن البناشدت جذبات میں اسی سوز دروں سے بولتے رہے ، لیکن حاضرین میں کچھ لوگوں کو نوجوان طالب علم کا یہ لہجہ پسند نہیں آیا۔ ایک مریدنے سختی سے انھیں جھڑکا کہ ’’تم نے شیخ کے ساتھ گستاخی کی ہے اور علماے ازہر کی بھی تو ہین کی ، اسلام کمزور نہیں پڑے گا۔ اللہ نے خوداس کی نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ تم کون ہوتے ہویہ ڈراوے دینے والے‘‘۔لیکن حاضرین میں سے ایک معززشخص احمد بے کامل نے ان صاحب کو روکا : ’’نہیں، یہ نوجوان حق بات کہہ رہا ہے ۔ تمھارا فرض ہے کہ اٹھو ، کب تک یہ بے عملی رہے گی؟ وہ تو تم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ تم اسلام کی نصرت کے لیے جمع ہوجائو۔اگر تمھیں جگہ درکار ہے تو میرا گھر موجود ہے ،پیسہ چاہیے تو خیرخواہ مسلمانوں کی کمی نہیں ، تم ہمارے راہ نما ہو ، ہم تمھارے پیچھے ہیں ، لیکن یہ حیل وحجت کسی کام کی نہیں۔۳؎
اس کے بعد شیخ یوسف الدجوی ایک دوسرے بزرگ شیخ محمد سعید کے یہاں جانے کے لیے اٹھ گئے۔ حسن البنا بھی ان کے ساتھ ہوگئے اور ان کے گھر جو کچھ پیش آیا وہ حسن البنا شہیدکی اللہ کے یہاں مقبولیت کی پہلی نمایاں جھلک تھی۔
الامام البنا خود اس رقت آمیزاور اثر انگیز واقعے کو اس طرح بیان کرتے ہیں : ’’ہم سب شیخ دجوی کے مکان سے قریب ہی شیخ محمد سعید کے یہاں منتقل ہوگئے ، اور میں نے کوشش کی کہ شیخ دجوی کے قریب ہی بیٹھوں ، تاکہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ بخوبی کہہ سکوں۔ اس موقعے پر رمضان کی جو مٹھائیاں ہوتی ہیں حاضر کی گئیں۔ وہ لینے کے لیے شیخ بڑھے تو میں ان کے قریب آگیا۔ شیخ نے کہا تم یہاں بھی ہمارے ساتھ آگئے۔ میں نے کہا :جی ہاں ، جب تک ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جائیں گے، آپ کو چھوڑوںگا نہیں۔ شیخ دجوی نے مجھے کھانے کے لیے مٹھائی دی اور کہا کہ یہ کھائو ،ان شاء اللہ ہم سوچیں گے۔ اس پر میں نے کہا یاسیدی! مسئلہ اب سوچتے رہنے کا نہیں ہے، ضرورت عمل کی ہے۔ اگر مجھے مٹھائی وغیرہ کھانا ہوتی تو میں ایک قرش(روپیہ ) میں خرید کر اپنے گھر میں بیٹھ کر آرام سے کھاتا اور یہاں آنے کی مشقت گوارا نہیں کرتا۔ یاسیدی!اسلام کے خلاف اتنی سخت جنگ جاری ہے او راسلام کے پیروکار ، اس کے حمایتی اورمسلمانوں کے پیشوا اس عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ جو کچھ کھا رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا آپ سے حساب نہیں لے گا؟اگر آپ لوگوں کو اپنے سوا اسلام کے کوئی اور پیشوا اور دفاع کرنے والے معلوم ہوں تو براہ کرم مجھ کو انھی کا پتا دے دیجیے، میں ان کے پاس چلا جائوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ مجھے ان کے پاس وہ مل جائے جو آپ کے پاس نہیں ( یعنی اسلام کا درد)‘‘۔
’’ایک گھڑی کے لیے عجیب خاموشی طاری ہوگئی اورپھر شیخ کی آنکھوں سے شدت سے آنسو بہنے لگے ،جس سے ان کی داڑھی تر ہوگئی اور حاضرین پر بھی گریہ طاری ہوگیا۔ شیخ نے خود ہی اس خاموشی کو توڑا اور گہرے غم اور شدید احساس میں کہا :میں کیا کرسکتا ہوں حسن؟میں نے کہا یاسیدی! معاملہ آسان ہے، لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ ۲:۲۸۶)میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اہل علم اور اصحا ب جاہ و منزلت میں سے جن میں آپ کو دینی حمیت نظر آتی ہے،آپ براہ کرم صرف ان کے نام شمار کرادیں تاکہ وہ کچھ کرنے کے بارے میں سوچیں۔ الحادی جرائد کے مقابلے میں کچھ نہیں تو ایک ہفتہ وار مجلہ ہی نکالیں ، اور ان کی کتابوں کے رد میں کتابیں اور پمفلٹ لکھیں۔ نوجوانوں کے لیے تنظیمیں بنائیں ، وعظ و نصیحت میں سرگرم ہوں ، وغیرہ وغیرہ۔ کہنے لگے خوب۔ (ایضاً ،ص-۷۷)
مٹھائی کی پرات اٹھاکر لے جانے کا حکم دیا اور کاغذ و قلم منگوایا اور مجھ سے کہا لکھو۔ ہم نام یاد کرنے لگے۔ ہم نے کچھ علما اور بڑے لوگوں کے نام لکھے جن میں سے مجھے یہ یاد ہیں ، خود یوسف الدجوی، شیخ محمد الخضرحسین (۱۹۵۲ء کے مصری فوجی انقلاب کے بعد ابتدا میں ازہر کے شیخ متعین کیے گئے تھے۔ باقی بھی سب مشہور علما تھے )، شیخ عبدالعزیز جاویش ، شیخ عبدالوہاب النجار ، شیخ محمد الخضری ، شیخ محمداحمد ابراہیم اور شیخ عبدالعزیز الخولی۔ شیخ السید محمد رشید رضا کا نام آیا تو کہا :یہ بھی لکھو ، یہ بھی لکھو ، یہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں ہم اختلاف کریں ، بلکہ یہ اسلام و کفر کا معاملہ ہے اور شیخ رشیدرضا اپنے قلم ، علم اور اپنے مجلے سے اسلام کا بہترین دفاع کرتے ہیں۔ ‘‘(السید رشید رضا دراصل سلفی مسلک کے آدمی تھے اور تصوف و تقلید کے خلاف،جب کہ شیخ یوسف الدجوی ایک صاحب طریقت عالم تھے ، پھر بھی شیخ نے ان کا نام لکھوا یا ، ان کے مجلے سے مراد مشہورمجلہ المنارہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۷۷)
اس فہرست میں ان علما کے علاوہ ملک کے سربرآوردہ اشخاص کے نام بھی تھے۔ اس کے بعد شیخ ان لوگوں سے ملے جن کو وہ جانتے تھے اور حسن البنا ان سے ملے جن کو وہ جانتے تھے۔پھر ان سب مشاہیر علما او رسربرآور دہ شخصیات کے باہم اجتماعات ہوتے رہے۔ یہ بہت سے اہل علم کے لیے ایک انکشاف ہوگا، جس طرح میرے لیے ہوا کہ حسن البناکی ان کوششوں اور ان حضرات کے تعاون کے نتیجے میں ۲۰ویں صدی کے نصف اول میں مصر کا المنار کے بعد مشہور ترین مجلہ الفتح شائع ہوا، جو برسوں محب الدین الخطیب کی ادارت میں جاری رہا۔ یہی وہ مجلہ تھا جس کو ہندستان کے علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا مسعود عالم ندوی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی پڑھ کر اپنی عربی کو جلا دیتے اور اس میں اپنے مضامین شائع کرتے تھے۔ محب الدین الخطیب سے راقم الحروف کو ملنے کی سعادت ۱۹۵۴ء میں حاصل ہوئی۔ اس وقت وہ مجلۃ الازھرکے ایڈیٹر تھے۔
امام حسن البنا نے دارالعلوم کالج کی طالب علمی کے زمانے میں جن علما اور سربرآورد ہ اشخاص کو اسلام کی خدمت اور تقویت کے لیے جمع کردیاتھا،ان سے ان کا رابطہ بعد میں بھی قائم رہا اور سربرآوردہ شخصیات میں سے احمد تیمور پاشا ، عبدالعزیز پاشا اور عبدالحمید بک سعید اور خاص کر موخرالذکر کی کوشش سے مصر کی مشہور تنظیم جمعیۃ الشبان المسلمین قائم ہوئی جومسلمان نوجوانوں کی مؤثر تنظیم تھی۔ شیخ حسن البنااس تنظیم کے سرگرم معاون تھے اور جس روز، یعنی ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کی شام کو ان کی شہادت ہوئی ، اس شام وہ اسی تنظیم کے دفترمیں بعض حکومتی نمایندوں سے میٹنگ کے لیے گئے ہوئے تھے۔ میرا بھی زمانۂ قیام مصر میں یہاں اکثر جانا رہتاتھا۔ یہ ثقافتی سماجی اور دینی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور یہاں کے شان دار آڈٹیوریم میں بعض مشہور علما و ادبا کے ساتھ مجھے ایک پروگرام میں تقریر کرنے کا موقع ملا، عنوان تھا: ’دنیا میں اسلام‘۔ میں نے ہندوپاک میں اسلام کے موضوع پر تقریر کی تھی۔صالح حرب پاشا اس زمانے میں اس کے صدر تھے۔
۲۰ویں صدی عیسوی میں جوعظیم دینی تحریکیں دنیا میں قائم ہوئیں، ان میں تحریک اخوان المسلمون(مصر)، تبلیغی جماعت (ہند)، اور جماعت اسلامی (ہندوپاکستان ) سب سے زیادہ دوررس نتائج کی حامل تھیں۔ان تحریکوں کے بانیوں میں سب سے کم عمر حسن البنا شہید تھے اور سب سے زیادہ کم عمری ہی میں، یعنی ۴۳سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ،اور ان کو شہادت کا شرف نصیب ہوا۔ پھر ان کی تحریک کو جس ابتلا و مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ارکان جس قتل و غارت گری سے دوچار ہوئے، اگر یہ سب کچھ کسی دوسری تحریک کے ساتھ پیش آتا تونہیں کہا جاسکتا کہ ان کا کیا انجام ہوتا، لیکن الحمدللہ یہ عظیم اور جامع اسلامی تحریک آج بھی زندہ ہے۔
امام حسن البنا کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ ان کو ۲۰ ہزار اخوانیوں کے نام یاد تھے۔ وہ کوئی بہت بڑے مصنف نہیں تھے۔ ان سے جب بعض لوگوں نے تصنیف و تالیف کے لیے کہا تو انھوں نے جواباً کہا :’’میں کتابوں کے بجاے ایسے آدمی بناناچاہتا ہوں کہ ان میں سے اگر ایک آدمی کو بھی میں کسی شہر میں بھیجوں تو وہ اس شہر کی حالت درست کردے‘‘۔ واقعی انھوں نے ایسے افراد تیار کیے۔ایسے افراد میں، سید قطب شہید نمایاں ترین تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے اخوان کی راہ نمائی کے لیے مختلف دینی موضوعات پر آٹھ رسائل تحریر کیے، جس کا ۵۰۰ صفحات پر محیط اڈیشن بیروت سے ۱۹۶۶ء میں چھپا۔بے شک وہ چودھویں ہجری کے مجدد تھے۔ رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ -
میں نے اپنے لیے یہ عنوان اس لیے اختیار کیا ہے کہ گو میں نے ابتدئے جوانی میں تقسیم ہند سے قبل مولانا مودودیؒ کی خطبات اور دینیات سرسری طور پرپڑھی تھیں لیکن میں مرحوم کے اصلی مقام سے عالم عرب ہی میں روشناس ہوا۔ مولانا سے میری پہلی ملاقات حجاز و مصر کے میرے پانچ سالہ سفرِتعلیم و مطالعہ سے واپسی پر مارچ ۱۹۵۴ء میں‘ مولانا کے مکان اچھرہ لاہور میں ضرور ہوئی تھی‘ البتہ زیادہ تفصیلی ملاقات بلکہ ملاقاتیں ۱۹۵۶ء میں دمشق میں ہوئیں جہاں میں یونی ورسٹی کے کلیتہ الشریعۃ (Shariah Faculty) میں زیر تعلیم تھا۔
مولانا مودودیؒ،اخوان المسلمون کے رہنما استاذ سعید رمضان مرحوم کی دعوت پر المؤتمر الاسلامیکی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ مولانا کے استقبال کے لیے استاذ سعید رمضان اور دیگر علماے دمشق کے ساتھ اس وقت کے شامی وزیراعظم ہبری العلی‘ ایرپورٹ گئے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں ملک غلام محمد گورنر جنرل تھے‘ اور سال ڈیڑھ سال ہی قبل مولانا مودودی مرحوم‘ قادیانیت کے خلاف تحریک چلانے کے سبب سخت آزمایش سے گزرے تھے۔ فوجی عدالت کی طرف سے پھانسی کی سزا بعض اسلامی عرب ممالک کے حکومت پاکستان پر دبائو کے سبب منسوخ ہوگئی تھی اور مرحوم قید سے بھی چھوٹ گئے تھے‘ لیکن اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی مسلسل حکومت کے معتوب رہے۔ میں نے اس کا ذکر یہاں اس لیے کیا ہے کہ حکومتی سطح پر اس عتاب کے باوجود شام کے وزیراعظم کو مولانا مرحوم کے استقبال میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ وہ ایک جمہوری حکومت کے وزیراعظم اور ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر تھے‘ کسی مذہبی سیاسی پارٹی کے رہنما نہ تھے‘ لیکن شام میں وہ زمانہ بہت اچھا تھا۔ وزیراعظم کے ایرپورٹ پر مولانا کے استقبال کا پاکستانی سفارت خانے پر اثر کا ذکر کرنا مجھے یہاں مقصود ہے۔
اس وقت وہاں لعل شاہ بخاری پاکستان کے سفیر تھے۔ ایک روز صبح کے وقت میں مولانا کے ہوٹل یرموک میں موجود تھا۔ دیکھتا ہوں کہ لعل شاہ بخاری (جو غالباً پنجاب کے ایک زمیندار خاندان سے تھے اور ان کی اکڑفوں میں ایک موقعے پر دمشق میں دیکھ چکا تھا) ہوٹل میں آئے اور ہم لوگوں کے ساتھ اوپر ہال میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں مولانا اپنے کمرے سے تشریف لائے‘ ملاقات ہوئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سفیر صاحب بڑی نیازمندی و ادب کے ساتھ مولانا کے سامنے بیٹھے رہے اور کچھ گفتگو کرتے رہے۔ ان کے انداز کو دیکھ کر میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا کہ یہ سرکاری لوگ سرکار دربار کی آئو بھگت ہی سے اپنی گردن دوسروں کے لیے جھکاتے ہیں‘ ورنہ عام طور پر ٹیڑھی رہتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر شامی وزیراعظم‘ مولانا کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ گئے ہوتے تو پاکستانی سفیر صاحب‘ مولانا مودودی ؒکے سامنے حاضری دینے کے لیے ہرگز نہ آتے۔ تاہم‘ پاکستانی حکومت کے مولانا کے ساتھ معاندانہ رویے کے سبب سفیر صاحب نے معمول کے مطابق مولانا مرحوم کے اعزاز میں کوئی استقبالیہ یا عشائیہ نہیں دیا۔
شامی حکومت کی طرف سے مولانا مودودی مرحوم کے اعزاز کی بات میں نے مولانا سے اپنی دوسری ملاقات کی مناسبت سے کہی جو ایک عرب ملک ہی میں ہوئی تھی‘ لیکن مولانا مرحوم کی عربوں میں عظمت کا ذکر دمشق کی اسلامی کانفرنس کے حوالے سے بعد میں کروں گا۔ میں چونکہ ۳۷ سال تک ملک سے باہر عرب ممالک یا انگلستان میں رہا‘ اور اس لیے جماعت اسلامی کے حلقوں میں زیادہ معروف نہیں۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ مولانا مرحوم سے دمشق ہی میں اپنی تیسری ملاقات اور اس مناسبت سے مولانا کی ذہانت کے بارے میں اپنے تاثر کا بھی اظہار کر دوں۔
دمشق کے پہلے سفر (۱۹۵۴ئ) میں عاصم الحداد صاحب مولانا کے ترجمان کی حیثیت سے رفیقِ سفر تھے‘ جو اکثر مختلف مجالس و محافل میں مولانا کی گفتگو اور تقاریر کی ترجمانی کرتے تھے۔ ایک دو مرتبہ کسی مجلس یا محفل میں ترجمانی کی سعادت راقم السطور کو بھی ملی۔ لیکن دوسری بار جب چار سال بعد مولانا ۱۹۵۹ء میں حجاز سے کار کے ذریعے جغرافیہ ارض قرآن کی تحقیق میں مدائن صالح (شمالی حجاز) اور اردن کے قدیم و اسلامی تاریخی مقامات کی سیاحت کے بعد صحراے سینا جاتے ہوئے دمشق میں تشریف لائے‘ تو میں نے حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھا کہ اب مولانا اپنے عرب ملاقاتیوں سے بآسانی عربی میں گفتگو کر لیتے تھے‘ اور روانی سے اپنا مافی الضمیرادا کر سکتے تھے۔ مجھے حیرت یہ تھی کہ ۵۵‘ ۵۶ سال کی عمر میں مولانا نے پاکستان میں رہ کر کس طرح بول چال کی اتنی عربی سیکھ لی کہ علمی موضوعات پر فصیح عربی میں گفتگو کر سکیں۔ یہ واقعی ذہانت کی ایک نادر مثال تھی۔ کیونکہ بڑی عمرمیں انسان کے لیے دوسری زبان بخوبی سیکھنا کافی مشکل ہوتا ہے‘ اور خاص طور پر ایسے لوگوں کے لیے جو تحریکی اور تصنیفی کاموں میں انتہائی مصروف زندگی گزارتے ہوں۔ مولانا کے اس علمی و تحقیقی سفر کے نتائج تفہیم القرآن پڑھنے والے اور اس میں انبیا علیہم السلام کے قصص کا مطالعہ کرنے والے بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ اگرچہ مطالعہ (reading) کی حد تک برعظیم کے علما ہی کی طرح عربی زبان پر دسترس رکھتے تھے‘ لیکن عربی زبان میں تحریر کی مشق مولانا کو نہ تھی‘ اور بیرونی دنیا میں آدمی کو شہرت دوسرے ممالک کی زبان میں تصنیفات کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔ جیسے میرے استاد اور مشفق مربیّ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو عرب ممالک میں ان کی عربی تصانیف کے سبب جو شہرت حاصل ہوئی اور جس طرح وہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے عربی اسلامی فکر پر اثرانداز ہوئے‘ اس طرح نہ کسی کو ایسی شہرت ملی اور نہ کسی نے اتنا گہرا فکری و روحانی اثر عرب ممالک میں چھوڑا۔ ہر وہ شخص جو طویل عرصے میری طرح عرب ممالک میں رہا ہو اور عربی زبان جس کی تحریر و تقریر کی دوسری زبان بن گئی ہو یہی کہے گا‘ لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس بات اور اس شخصیت کا ذکر اس مناسبت سے آ گیا کہ مولانا مودودی کی تصانیف کو‘ براہِ راست عربی زبان میں نہ ہونے کے باوجود جو شہرت و مقبولیت عرب دنیا میں حاصل ہوئی‘ وہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (مولاناعلی میاںؒ) کو چھوڑ کر برعظیم کے کسی عالم کو حاصل نہیں ہوئی۔
مولانا مودودی مرحوم کی عرب ممالک میں شہرت و مقبولیت کا کریڈٹ درحقیقت مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم کو جاتا ہے۔ اگر ان کا قلم اور ان کا ۱۹۴۹ء کا سفرِ حجاز و نجد و عراق نہ ہوتا تو مولانا مودودی مرحوم کا عرب ممالک میں اس پیمانے پر تعارف شاید نہ ہو سکتا جو مولانا مسعود عالم ندوی کی تحریر و تقریر کے سبب ہوا۔ مسعود الندوی مرحوم اپنے اس سفر سے قبل مولانا مودودیؒ کی بعض مختصر تصانیف (رسائل) کا ترجمہ کر چکے تھے اور اسے پاکستان میں طبع کرا کے اپنے ساتھ مذکورہ دیار عرب میں لے گئے تھے۔ مولانا مسعود عالم ندوی تقسیم ہند سے قبل جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔ اس سے قبل وہ نجد کے امام اصلاح و دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب پر ایک اعلیٰ تحقیقی کتاب اردو میں لکھ چکے تھے۔
مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم ۳۰ کے عشرے میں ندوہ میں جب ادب عربی کے استاد تھے تو مصر کے مشہور علمی و ادبی ماہنامے الفتح میں ان کے عربی مضامین چھپتے تھے جو ایک ہندستانی مصنف کے لیے بڑا اعزاز تھا۔ یہ مجلہ معروف ادیب محب الدین الخطیب مرحوم کی زیر ادارت نکلتا تھا۔ مولانا مسعود عالم ؒان سے دور ہی سے واقف تھے‘ لیکن راقم السطور کو ان سے ۱۹۵۳ء میں قاہرہ میں ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کا اپنا مجلہ بند ہو چکا تھا اور وہ اس وقت جامعۃالازہر کے ماہنامہ مجلہ الازہر کے ایڈیٹر تھے۔ مصر کے زمانے میں میرا مشغلہ مطالعہ ادب کے ساتھ وہاں کے علما و ادبا سے ملنا تھا اور الحمدللہ مصر کی علمی وادبی نشات ثانیہ اور بعض مصری و غیر مصری سیاسی و دینی علما سے ملنے کا شرف مجھے وہاں حاصل ہوا۔ ان میں قابل ذکر مراکش کے الامیر محمد الخطابی (الامیر عبدالکریم الریفی کے بھائی) جو وہاں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے‘ محمد علی الطاہر (مدیر مجلہ الشوریٰ)‘ الاستاذ احمد امین‘ الاستاذ احمد حسن الزیات‘ ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ (پروفیسر شریعت اسلامی‘ قاہرہ یونی ورسٹی کالج)‘ استاذ الشہید سیدقطب‘ استاذ محمود تیمور‘ المحقق الکبیر الاستاذ محمو داحمد شاکر‘ شیخ احمد الشرباصی‘ الجمعیۃ الشبان المسلمین وغیرہ شامل ہیں۔ قاہرہ کی جمعیۃالشبان المسلمین جو ایک شان دار عمارت میں قائم تھی اور جس کے صدرمصر کے سابق وزیر دفاع صالح حرب پاشا تھے‘ وہاں میرا ہر ہفتہ ہی آنا جانا ہوتا تھا‘ اور صالح حرب پاشا کے ہاں تمام آفس میں ترکی قہوہ اور سردیوں میں دارچینی پینے کو ملتی تھی۔ بڑے خوش اخلاق اور سرفروشانِ اسلام میں سے تھے۔ شیخ احمد الشرباصی سے برادرانہ تعلقات تھے۔
میں نے ان سب حضرات کا ذکر اس لیے کیا کہ ان میں سے اکثر مولانا مسعود عالم ندوی کے ترجمہ کردہ مولانا مودودی کے رسائل کے سبب مولانا مودودی سے واقف تھے‘ اور اخوان المسلمون سے منسلک تو عام نوجوان بھی مولانا مرحوم کی دعوت سے واقف اور ان کے ثناخواں تھے۔ یہ بات میں نے مصرکے بعض دور دراز گائوں میں بھی دیکھی۔ لیکن ۱۹۵۱ء میں استاد معظم مرحوم سید ابوالحسن علی ندوی کے سفر مصر کے سبب اور وہاں ان کی مسلسل تقاریر اور اہل علم و ادب اور خاص طور پر زعما اخوان المسلمون سے ربط و ضبط کے سبب‘ اب وہاں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا نام زیادہ معروف تھا اور ہے۔ اس شہرت و مقبولیت کا سبب مرحوم مولانا علی میاں کی ایک انتہائی فکر انگیز اور اچھوتے عنوان کی حامل کتاب ماذاخسرالعالم بانحطاط المسلمین (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر)بھی تھی۔ یہ انکشاف لوگوں کے لیے باعث دل چسپی ہو گا کہ خود مصنف مرحوم نے مجھ سے ۱۹۴۹ء میں لکھنؤ میں کہا تھا کہ: ’’کتاب کا یہ عنوان مولانا مودودی کا تجویز کردہ تھا‘‘ (جماعت اسلامی سے وابستہ پرانے لوگ جانتے ہیں کہ مولانا علی میاں ۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۳ء لکھنؤ میں جماعت کے ذمہ دار رہے تھے) بلکہ مصنف مرحوم کے بقول ان کے استفسار پر مولانا مودودی نے مشورہ دیا تھا کہ آپ اس موضوع پر اس عنوان سے کتاب لکھیں۔ دراصل وہ جماعت اسلامی سے وابستگی سے قبل اپنی جوانی ہی میں ایک سنجیدہ دینی مصنف کی حیثیت سے ابھر چکے تھے‘ بعد میں بعض مسائل میں اختلاف رائے کے باوجود مولانا علی میاں مرحوم نے ہمیشہ مولانا مودودی کے علم وفضل کا اعتراف کیا۔
مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم نے قیامِ پاکستان ]اگست ۱۹۴۷ئ[ کے فوراً بعد ہی پاکستان آکر یہاں جماعت اسلامی کے تحت عربی زبان میں تصنیف و تالیف کا ایک ادارہ ’’دارالعروبہ‘‘ تشکیل دیا تھا۔ اس ادارے کی طرف سے مولانا مودودی مرحوم کی متعدد کتابوں کا عربی میں ترجمہ مولانا مسعود عالم ندوی کے قلم سے ہوا‘ جو مراکش سے لے کر کویت اور یمن سے سوڈان تک بھیجی گئیں۔ ان میں مولانا مودودی مرحوم کی کتابیں النظام الاقتصادی فی الاسلام‘ النظام السیاسی فی الاسلام‘ شہادۃالحق اور بعد میں الحجاب (کتاب پردہ کا ترجمہ) وغیرہ شامل ہیں۔ مولانا مسعود عالم نے اپنے آپ کو مولانا مودودی مرحوم کی فکر کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس طرح مولانا مودودی کا تعارف عالم عرب کے اسلامی اور علمی حلقوں میں بخوبی ہو گیا اور خاص طور پر مصر و شام وغیرہ میں اخوان المسلمون کے حلقوںمیں‘ جن کے ممبران کی تعداد ۵۰ کے عشرے میں ۵لاکھ کے قریب تھی اور مصر میں وہ اہم ترین دینی و سیاسی طاقت تھی۔
مولانا مودودی کے اس تعارف میں‘ مولانا مسعود عالم ندوی کے مولانا مرحوم کی کتابوں کے عربی تراجم کے علاوہ مصری اخوانی رہنما استاذ سعید رمضان کی کاوشوں کو بھی بہت دخل تھا‘ جو اخوان پر ابتلا کے پہلے دور میں اخوان کے المرشد العام (صدر) الشہید حسن البنا کے مشورے سے ۱۹۴۸ء میں کراچی آ گئے تھے۔ ان کی یہاں اچھی پذیرائی ہوئی تھی‘ حکومتی حلقوںمیں بھی اور جماعت اسلامی کی طرف سے بھی۔ مولانا مودودی سے استاذ رمضان کا اچھا ربط و ضبط ہو گیا تھا۔ پھر جب وہ مصری انقلاب کے بعد مصر واپس گئے تو ا نھوں نے اخوان کی قیادت میں مولانا مودودی کا بخوبی تعارف کرایا۔
عالم عرب اور خاص طور پر اخوان کے فکری و دینی حلقوں میں مولانا مودودی کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اخوان کے سب سے زیادہ عظیم اور مقبول و محبوب مفکر سید قطب کی عالم عرب میں لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی تفسیر فی ظلال القرآن میں مولانا مودودی مرحوم کی کتاب الحجاب اور تفسیر سورۃ النور کے متعدد حوالے مذکور ہیں۔
اس موقعے پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مولانا مسعود عالم ندوی نے نہ صرف خود مولانا مودودی کی کتابوں کے ترجمے کیے اور مولانا کی طرف سے اخوان اور عالم عرب کے دیگر علما و مفکرین سے مراسلت جاری رکھی‘ بلکہ انھوں نے دارالعروبہ میں دو نوجوانوں عاصم الحداد اور خلیل احمد حامدی کو عربی زبان سکھا کر تحریر و تقریر میں ایسا اچھا عربی داں بنا دیا کہ انھوں نے مولانا مسعود عالم ندوی کی وفات کے بعد دارالعروبہ کے کام کو بخوبی سنبھالا اور مولانا مودودی کے عربی مترجم کے فرائض تادیر انجام دیے۔ ان دونوں صاحبان سے میری ملاقات دمشق اور مکہ مکرمہ میں علی الترتیب رہی۔ عاصم صاحب مرحوم کاذکر اوپرہو چکا ہے۔ خلیل حامدی صاحب سے ۱۹۶۵ء میں ملاقات ہوئی جب وہ رابطۃالعالم الاسلامی‘ مکہ مکرمہ میں عربی مترجم تھے اور میں اس وقت مکہ کے کلیۃالتربیہ ایجوکیشن کالج میں اسلامی تاریخ کا پروفیسر تھا۔ لیکن جماعت اسلامی کے اہل قلم حضرات نے مولانا مسعود عالم ندوی کی وفات کے بعد ان کا قرار واقعی ذکر نہیں کیا۔ ۱؎
۱۹۶۵ء میں شاہ فیصل کی تحریک سے رابطۃالعالم الاسلامی (Muslim World League) قائم ہوئی۔ اس میں استاذ سعید رمضان مرحوم کی کوششوں کا بہت دخل تھا۔ استاذ سعید رمضان اس وقت جنیوا (سوئٹرزلینڈ) میں اسلامی مرکز کے بانی اور جنرل سیکرٹری تھے۔ انھوں نے جو فہرست رابطہ کے بانی ممبران کی بنائی ان میں مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے نام سرفہرست تھے‘ اور یہ دونوں پاکستانی و ہندستانی وہاں سالانہ اجتماعات میں نمایاں طور پر اپنے افکار و آرا سے رابطہ کو فیض یاب کرتے رہے۔ مولانا مودودی نے تو چند سال بعد بعض سیاسی فکری اسباب کی بنا پر اجتماعات میں جانا بند کر دیا تھا‘ لیکن مولانا ابوالحسن علی ندوی برابر رابطہ کی خدمت کرتے رہے۔
مولانا مودودی کی فکری عظمت کا عربوں کی طرف سے بے محابا اعتراف کا میں ذاتی طور پر شاہد ہوں۔ ۱۹۵۶ء میں دمشق میں استاذ سعید رمضان مرحوم کی بلائی ہوئی موتمر اسلامی کی عالمی کانفرنس کے اختتامی اجلاس کے موقعے‘ پر دمشق یونی ورسٹی کے ہال میںکافی بڑے اسٹیج پر عرب اور اسلامی ممالک کے وفود کے سربراہان بیٹھے ہوئے تھے۔ جن میں انڈونیشیا کے سابق وزیراعظم اور حزب ماشومی کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ناصر‘ عراق کے معمر اور نامور شیخ امجد الزہاوی اور دیگر عرب علما و زعما کے ساتھ مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی بھی مسند نشین تھے۔
شام کے ایک مشہور سیاسی‘ ادیب اور عالم‘ سابق وزیر الشئون الاجتماعیہ (وزیر سماجی امور) اور اس وقت ممبر پارلیمنٹ اور کلیۃ الشریعہ دمشق یونی ورسٹی میں میرے استاذ پروفیسر محمد المبارک‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو دعوت خطاب دینے اور ان کا تعارف کرانے اسٹیج پر آئے۔ انھوں نے مولانا مودودی مرحوم کا تعارف کراتے ہوئے ان کو ’غزالی عصر‘ کے لقب سے یاد کیا‘ جو میرے علم کے مطابق مولانا مودودی مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں‘ ایک ذمہ دار عرب عالم و مصنف کی طرف سے وہ اعزاز تھا جو بیسویں صدی عیسوی میں عالم اسلام کے کسی اور مفکر و مصنف کو نہیں ملا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سے عالم عرب کے تمام مصنفین فیض یاب ہوئے اور بہت سے مصنفین نے مولانا مودودی سے اپنی تصنیفات میں خوشہ چینی کی‘ جن میں مصر کے عبداللہ السمان‘ انور الجندی اور مکہ مکرمہ کے حسن جمال اور مصر کے ڈاکٹر محمد البہی وغیرہ شامل ہیں۔ عالم عرب کے ممتاز مفکرین و زعما میں مراکش کے استاذ علال فاسی‘ الجزائر کے استاذ محمد البشیر الابراہیمی‘ مصر کے استاذ الشہید سید قطب‘ سوڈان کے حسن الترابی‘ شام کے ڈاکٹر مصطفی السباعی اور ڈاکٹر معروف الدوالیبی‘ عراق کے استاذ محمد محمود الصواف اور شیخ امجد الزہاوی وغیرہ‘ سب ہی مولانا مودودی کے علم وفضل کے معترف تھے اور ان سے ربط و ضبط رکھتے تھے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی ذات میں امت واحدہ تھے۔ ان کے فکری اثاثے سے فائدہ اٹھانا جماعت اسلامی کا فرض ہے۔ جماعت کا فرض ہے کہ وہ یاد رکھے کہ مولانا مودودی مرحوم بنیادی طور پر ایک اسلامی مفکر اور دعوت دین کے منفرد داعی تھے‘ ان کی اس راہ پر چلنا اور علمی و فکری خلا کو پُر کرنے میں ذمہ داری ادا کرنا بھی جماعت اسلامی کا فرض ہے۔