میں نے اپنے لیے یہ عنوان اس لیے اختیار کیا ہے کہ گو میں نے ابتدئے جوانی میں تقسیم ہند سے قبل مولانا مودودیؒ کی خطبات اور دینیات سرسری طور پرپڑھی تھیں لیکن میں مرحوم کے اصلی مقام سے عالم عرب ہی میں روشناس ہوا۔ مولانا سے میری پہلی ملاقات حجاز و مصر کے میرے پانچ سالہ سفرِتعلیم و مطالعہ سے واپسی پر مارچ ۱۹۵۴ء میں‘ مولانا کے مکان اچھرہ لاہور میں ضرور ہوئی تھی‘ البتہ زیادہ تفصیلی ملاقات بلکہ ملاقاتیں ۱۹۵۶ء میں دمشق میں ہوئیں جہاں میں یونی ورسٹی کے کلیتہ الشریعۃ (Shariah Faculty) میں زیر تعلیم تھا۔
مولانا مودودیؒ،اخوان المسلمون کے رہنما استاذ سعید رمضان مرحوم کی دعوت پر المؤتمر الاسلامیکی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ مولانا کے استقبال کے لیے استاذ سعید رمضان اور دیگر علماے دمشق کے ساتھ اس وقت کے شامی وزیراعظم ہبری العلی‘ ایرپورٹ گئے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں ملک غلام محمد گورنر جنرل تھے‘ اور سال ڈیڑھ سال ہی قبل مولانا مودودی مرحوم‘ قادیانیت کے خلاف تحریک چلانے کے سبب سخت آزمایش سے گزرے تھے۔ فوجی عدالت کی طرف سے پھانسی کی سزا بعض اسلامی عرب ممالک کے حکومت پاکستان پر دبائو کے سبب منسوخ ہوگئی تھی اور مرحوم قید سے بھی چھوٹ گئے تھے‘ لیکن اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی مسلسل حکومت کے معتوب رہے۔ میں نے اس کا ذکر یہاں اس لیے کیا ہے کہ حکومتی سطح پر اس عتاب کے باوجود شام کے وزیراعظم کو مولانا مرحوم کے استقبال میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ وہ ایک جمہوری حکومت کے وزیراعظم اور ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر تھے‘ کسی مذہبی سیاسی پارٹی کے رہنما نہ تھے‘ لیکن شام میں وہ زمانہ بہت اچھا تھا۔ وزیراعظم کے ایرپورٹ پر مولانا کے استقبال کا پاکستانی سفارت خانے پر اثر کا ذکر کرنا مجھے یہاں مقصود ہے۔
اس وقت وہاں لعل شاہ بخاری پاکستان کے سفیر تھے۔ ایک روز صبح کے وقت میں مولانا کے ہوٹل یرموک میں موجود تھا۔ دیکھتا ہوں کہ لعل شاہ بخاری (جو غالباً پنجاب کے ایک زمیندار خاندان سے تھے اور ان کی اکڑفوں میں ایک موقعے پر دمشق میں دیکھ چکا تھا) ہوٹل میں آئے اور ہم لوگوں کے ساتھ اوپر ہال میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں مولانا اپنے کمرے سے تشریف لائے‘ ملاقات ہوئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سفیر صاحب بڑی نیازمندی و ادب کے ساتھ مولانا کے سامنے بیٹھے رہے اور کچھ گفتگو کرتے رہے۔ ان کے انداز کو دیکھ کر میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا کہ یہ سرکاری لوگ سرکار دربار کی آئو بھگت ہی سے اپنی گردن دوسروں کے لیے جھکاتے ہیں‘ ورنہ عام طور پر ٹیڑھی رہتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر شامی وزیراعظم‘ مولانا کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ گئے ہوتے تو پاکستانی سفیر صاحب‘ مولانا مودودی ؒکے سامنے حاضری دینے کے لیے ہرگز نہ آتے۔ تاہم‘ پاکستانی حکومت کے مولانا کے ساتھ معاندانہ رویے کے سبب سفیر صاحب نے معمول کے مطابق مولانا مرحوم کے اعزاز میں کوئی استقبالیہ یا عشائیہ نہیں دیا۔
شامی حکومت کی طرف سے مولانا مودودی مرحوم کے اعزاز کی بات میں نے مولانا سے اپنی دوسری ملاقات کی مناسبت سے کہی جو ایک عرب ملک ہی میں ہوئی تھی‘ لیکن مولانا مرحوم کی عربوں میں عظمت کا ذکر دمشق کی اسلامی کانفرنس کے حوالے سے بعد میں کروں گا۔ میں چونکہ ۳۷ سال تک ملک سے باہر عرب ممالک یا انگلستان میں رہا‘ اور اس لیے جماعت اسلامی کے حلقوں میں زیادہ معروف نہیں۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ مولانا مرحوم سے دمشق ہی میں اپنی تیسری ملاقات اور اس مناسبت سے مولانا کی ذہانت کے بارے میں اپنے تاثر کا بھی اظہار کر دوں۔
دمشق کے پہلے سفر (۱۹۵۴ئ) میں عاصم الحداد صاحب مولانا کے ترجمان کی حیثیت سے رفیقِ سفر تھے‘ جو اکثر مختلف مجالس و محافل میں مولانا کی گفتگو اور تقاریر کی ترجمانی کرتے تھے۔ ایک دو مرتبہ کسی مجلس یا محفل میں ترجمانی کی سعادت راقم السطور کو بھی ملی۔ لیکن دوسری بار جب چار سال بعد مولانا ۱۹۵۹ء میں حجاز سے کار کے ذریعے جغرافیہ ارض قرآن کی تحقیق میں مدائن صالح (شمالی حجاز) اور اردن کے قدیم و اسلامی تاریخی مقامات کی سیاحت کے بعد صحراے سینا جاتے ہوئے دمشق میں تشریف لائے‘ تو میں نے حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھا کہ اب مولانا اپنے عرب ملاقاتیوں سے بآسانی عربی میں گفتگو کر لیتے تھے‘ اور روانی سے اپنا مافی الضمیرادا کر سکتے تھے۔ مجھے حیرت یہ تھی کہ ۵۵‘ ۵۶ سال کی عمر میں مولانا نے پاکستان میں رہ کر کس طرح بول چال کی اتنی عربی سیکھ لی کہ علمی موضوعات پر فصیح عربی میں گفتگو کر سکیں۔ یہ واقعی ذہانت کی ایک نادر مثال تھی۔ کیونکہ بڑی عمرمیں انسان کے لیے دوسری زبان بخوبی سیکھنا کافی مشکل ہوتا ہے‘ اور خاص طور پر ایسے لوگوں کے لیے جو تحریکی اور تصنیفی کاموں میں انتہائی مصروف زندگی گزارتے ہوں۔ مولانا کے اس علمی و تحقیقی سفر کے نتائج تفہیم القرآن پڑھنے والے اور اس میں انبیا علیہم السلام کے قصص کا مطالعہ کرنے والے بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ اگرچہ مطالعہ (reading) کی حد تک برعظیم کے علما ہی کی طرح عربی زبان پر دسترس رکھتے تھے‘ لیکن عربی زبان میں تحریر کی مشق مولانا کو نہ تھی‘ اور بیرونی دنیا میں آدمی کو شہرت دوسرے ممالک کی زبان میں تصنیفات کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔ جیسے میرے استاد اور مشفق مربیّ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو عرب ممالک میں ان کی عربی تصانیف کے سبب جو شہرت حاصل ہوئی اور جس طرح وہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے عربی اسلامی فکر پر اثرانداز ہوئے‘ اس طرح نہ کسی کو ایسی شہرت ملی اور نہ کسی نے اتنا گہرا فکری و روحانی اثر عرب ممالک میں چھوڑا۔ ہر وہ شخص جو طویل عرصے میری طرح عرب ممالک میں رہا ہو اور عربی زبان جس کی تحریر و تقریر کی دوسری زبان بن گئی ہو یہی کہے گا‘ لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس بات اور اس شخصیت کا ذکر اس مناسبت سے آ گیا کہ مولانا مودودی کی تصانیف کو‘ براہِ راست عربی زبان میں نہ ہونے کے باوجود جو شہرت و مقبولیت عرب دنیا میں حاصل ہوئی‘ وہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (مولاناعلی میاںؒ) کو چھوڑ کر برعظیم کے کسی عالم کو حاصل نہیں ہوئی۔
مولانا مودودی مرحوم کی عرب ممالک میں شہرت و مقبولیت کا کریڈٹ درحقیقت مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم کو جاتا ہے۔ اگر ان کا قلم اور ان کا ۱۹۴۹ء کا سفرِ حجاز و نجد و عراق نہ ہوتا تو مولانا مودودی مرحوم کا عرب ممالک میں اس پیمانے پر تعارف شاید نہ ہو سکتا جو مولانا مسعود عالم ندوی کی تحریر و تقریر کے سبب ہوا۔ مسعود الندوی مرحوم اپنے اس سفر سے قبل مولانا مودودیؒ کی بعض مختصر تصانیف (رسائل) کا ترجمہ کر چکے تھے اور اسے پاکستان میں طبع کرا کے اپنے ساتھ مذکورہ دیار عرب میں لے گئے تھے۔ مولانا مسعود عالم ندوی تقسیم ہند سے قبل جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔ اس سے قبل وہ نجد کے امام اصلاح و دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب پر ایک اعلیٰ تحقیقی کتاب اردو میں لکھ چکے تھے۔
مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم ۳۰ کے عشرے میں ندوہ میں جب ادب عربی کے استاد تھے تو مصر کے مشہور علمی و ادبی ماہنامے الفتح میں ان کے عربی مضامین چھپتے تھے جو ایک ہندستانی مصنف کے لیے بڑا اعزاز تھا۔ یہ مجلہ معروف ادیب محب الدین الخطیب مرحوم کی زیر ادارت نکلتا تھا۔ مولانا مسعود عالم ؒان سے دور ہی سے واقف تھے‘ لیکن راقم السطور کو ان سے ۱۹۵۳ء میں قاہرہ میں ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کا اپنا مجلہ بند ہو چکا تھا اور وہ اس وقت جامعۃالازہر کے ماہنامہ مجلہ الازہر کے ایڈیٹر تھے۔ مصر کے زمانے میں میرا مشغلہ مطالعہ ادب کے ساتھ وہاں کے علما و ادبا سے ملنا تھا اور الحمدللہ مصر کی علمی وادبی نشات ثانیہ اور بعض مصری و غیر مصری سیاسی و دینی علما سے ملنے کا شرف مجھے وہاں حاصل ہوا۔ ان میں قابل ذکر مراکش کے الامیر محمد الخطابی (الامیر عبدالکریم الریفی کے بھائی) جو وہاں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے‘ محمد علی الطاہر (مدیر مجلہ الشوریٰ)‘ الاستاذ احمد امین‘ الاستاذ احمد حسن الزیات‘ ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ (پروفیسر شریعت اسلامی‘ قاہرہ یونی ورسٹی کالج)‘ استاذ الشہید سیدقطب‘ استاذ محمود تیمور‘ المحقق الکبیر الاستاذ محمو داحمد شاکر‘ شیخ احمد الشرباصی‘ الجمعیۃ الشبان المسلمین وغیرہ شامل ہیں۔ قاہرہ کی جمعیۃالشبان المسلمین جو ایک شان دار عمارت میں قائم تھی اور جس کے صدرمصر کے سابق وزیر دفاع صالح حرب پاشا تھے‘ وہاں میرا ہر ہفتہ ہی آنا جانا ہوتا تھا‘ اور صالح حرب پاشا کے ہاں تمام آفس میں ترکی قہوہ اور سردیوں میں دارچینی پینے کو ملتی تھی۔ بڑے خوش اخلاق اور سرفروشانِ اسلام میں سے تھے۔ شیخ احمد الشرباصی سے برادرانہ تعلقات تھے۔
میں نے ان سب حضرات کا ذکر اس لیے کیا کہ ان میں سے اکثر مولانا مسعود عالم ندوی کے ترجمہ کردہ مولانا مودودی کے رسائل کے سبب مولانا مودودی سے واقف تھے‘ اور اخوان المسلمون سے منسلک تو عام نوجوان بھی مولانا مرحوم کی دعوت سے واقف اور ان کے ثناخواں تھے۔ یہ بات میں نے مصرکے بعض دور دراز گائوں میں بھی دیکھی۔ لیکن ۱۹۵۱ء میں استاد معظم مرحوم سید ابوالحسن علی ندوی کے سفر مصر کے سبب اور وہاں ان کی مسلسل تقاریر اور اہل علم و ادب اور خاص طور پر زعما اخوان المسلمون سے ربط و ضبط کے سبب‘ اب وہاں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا نام زیادہ معروف تھا اور ہے۔ اس شہرت و مقبولیت کا سبب مرحوم مولانا علی میاں کی ایک انتہائی فکر انگیز اور اچھوتے عنوان کی حامل کتاب ماذاخسرالعالم بانحطاط المسلمین (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر)بھی تھی۔ یہ انکشاف لوگوں کے لیے باعث دل چسپی ہو گا کہ خود مصنف مرحوم نے مجھ سے ۱۹۴۹ء میں لکھنؤ میں کہا تھا کہ: ’’کتاب کا یہ عنوان مولانا مودودی کا تجویز کردہ تھا‘‘ (جماعت اسلامی سے وابستہ پرانے لوگ جانتے ہیں کہ مولانا علی میاں ۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۳ء لکھنؤ میں جماعت کے ذمہ دار رہے تھے) بلکہ مصنف مرحوم کے بقول ان کے استفسار پر مولانا مودودی نے مشورہ دیا تھا کہ آپ اس موضوع پر اس عنوان سے کتاب لکھیں۔ دراصل وہ جماعت اسلامی سے وابستگی سے قبل اپنی جوانی ہی میں ایک سنجیدہ دینی مصنف کی حیثیت سے ابھر چکے تھے‘ بعد میں بعض مسائل میں اختلاف رائے کے باوجود مولانا علی میاں مرحوم نے ہمیشہ مولانا مودودی کے علم وفضل کا اعتراف کیا۔
مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم نے قیامِ پاکستان ]اگست ۱۹۴۷ئ[ کے فوراً بعد ہی پاکستان آکر یہاں جماعت اسلامی کے تحت عربی زبان میں تصنیف و تالیف کا ایک ادارہ ’’دارالعروبہ‘‘ تشکیل دیا تھا۔ اس ادارے کی طرف سے مولانا مودودی مرحوم کی متعدد کتابوں کا عربی میں ترجمہ مولانا مسعود عالم ندوی کے قلم سے ہوا‘ جو مراکش سے لے کر کویت اور یمن سے سوڈان تک بھیجی گئیں۔ ان میں مولانا مودودی مرحوم کی کتابیں النظام الاقتصادی فی الاسلام‘ النظام السیاسی فی الاسلام‘ شہادۃالحق اور بعد میں الحجاب (کتاب پردہ کا ترجمہ) وغیرہ شامل ہیں۔ مولانا مسعود عالم نے اپنے آپ کو مولانا مودودی مرحوم کی فکر کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس طرح مولانا مودودی کا تعارف عالم عرب کے اسلامی اور علمی حلقوں میں بخوبی ہو گیا اور خاص طور پر مصر و شام وغیرہ میں اخوان المسلمون کے حلقوںمیں‘ جن کے ممبران کی تعداد ۵۰ کے عشرے میں ۵لاکھ کے قریب تھی اور مصر میں وہ اہم ترین دینی و سیاسی طاقت تھی۔
مولانا مودودی کے اس تعارف میں‘ مولانا مسعود عالم ندوی کے مولانا مرحوم کی کتابوں کے عربی تراجم کے علاوہ مصری اخوانی رہنما استاذ سعید رمضان کی کاوشوں کو بھی بہت دخل تھا‘ جو اخوان پر ابتلا کے پہلے دور میں اخوان کے المرشد العام (صدر) الشہید حسن البنا کے مشورے سے ۱۹۴۸ء میں کراچی آ گئے تھے۔ ان کی یہاں اچھی پذیرائی ہوئی تھی‘ حکومتی حلقوںمیں بھی اور جماعت اسلامی کی طرف سے بھی۔ مولانا مودودی سے استاذ رمضان کا اچھا ربط و ضبط ہو گیا تھا۔ پھر جب وہ مصری انقلاب کے بعد مصر واپس گئے تو ا نھوں نے اخوان کی قیادت میں مولانا مودودی کا بخوبی تعارف کرایا۔
عالم عرب اور خاص طور پر اخوان کے فکری و دینی حلقوں میں مولانا مودودی کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اخوان کے سب سے زیادہ عظیم اور مقبول و محبوب مفکر سید قطب کی عالم عرب میں لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی تفسیر فی ظلال القرآن میں مولانا مودودی مرحوم کی کتاب الحجاب اور تفسیر سورۃ النور کے متعدد حوالے مذکور ہیں۔
اس موقعے پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مولانا مسعود عالم ندوی نے نہ صرف خود مولانا مودودی کی کتابوں کے ترجمے کیے اور مولانا کی طرف سے اخوان اور عالم عرب کے دیگر علما و مفکرین سے مراسلت جاری رکھی‘ بلکہ انھوں نے دارالعروبہ میں دو نوجوانوں عاصم الحداد اور خلیل احمد حامدی کو عربی زبان سکھا کر تحریر و تقریر میں ایسا اچھا عربی داں بنا دیا کہ انھوں نے مولانا مسعود عالم ندوی کی وفات کے بعد دارالعروبہ کے کام کو بخوبی سنبھالا اور مولانا مودودی کے عربی مترجم کے فرائض تادیر انجام دیے۔ ان دونوں صاحبان سے میری ملاقات دمشق اور مکہ مکرمہ میں علی الترتیب رہی۔ عاصم صاحب مرحوم کاذکر اوپرہو چکا ہے۔ خلیل حامدی صاحب سے ۱۹۶۵ء میں ملاقات ہوئی جب وہ رابطۃالعالم الاسلامی‘ مکہ مکرمہ میں عربی مترجم تھے اور میں اس وقت مکہ کے کلیۃالتربیہ ایجوکیشن کالج میں اسلامی تاریخ کا پروفیسر تھا۔ لیکن جماعت اسلامی کے اہل قلم حضرات نے مولانا مسعود عالم ندوی کی وفات کے بعد ان کا قرار واقعی ذکر نہیں کیا۔ ۱؎
۱۹۶۵ء میں شاہ فیصل کی تحریک سے رابطۃالعالم الاسلامی (Muslim World League) قائم ہوئی۔ اس میں استاذ سعید رمضان مرحوم کی کوششوں کا بہت دخل تھا۔ استاذ سعید رمضان اس وقت جنیوا (سوئٹرزلینڈ) میں اسلامی مرکز کے بانی اور جنرل سیکرٹری تھے۔ انھوں نے جو فہرست رابطہ کے بانی ممبران کی بنائی ان میں مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے نام سرفہرست تھے‘ اور یہ دونوں پاکستانی و ہندستانی وہاں سالانہ اجتماعات میں نمایاں طور پر اپنے افکار و آرا سے رابطہ کو فیض یاب کرتے رہے۔ مولانا مودودی نے تو چند سال بعد بعض سیاسی فکری اسباب کی بنا پر اجتماعات میں جانا بند کر دیا تھا‘ لیکن مولانا ابوالحسن علی ندوی برابر رابطہ کی خدمت کرتے رہے۔
مولانا مودودی کی فکری عظمت کا عربوں کی طرف سے بے محابا اعتراف کا میں ذاتی طور پر شاہد ہوں۔ ۱۹۵۶ء میں دمشق میں استاذ سعید رمضان مرحوم کی بلائی ہوئی موتمر اسلامی کی عالمی کانفرنس کے اختتامی اجلاس کے موقعے‘ پر دمشق یونی ورسٹی کے ہال میںکافی بڑے اسٹیج پر عرب اور اسلامی ممالک کے وفود کے سربراہان بیٹھے ہوئے تھے۔ جن میں انڈونیشیا کے سابق وزیراعظم اور حزب ماشومی کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ناصر‘ عراق کے معمر اور نامور شیخ امجد الزہاوی اور دیگر عرب علما و زعما کے ساتھ مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی بھی مسند نشین تھے۔
شام کے ایک مشہور سیاسی‘ ادیب اور عالم‘ سابق وزیر الشئون الاجتماعیہ (وزیر سماجی امور) اور اس وقت ممبر پارلیمنٹ اور کلیۃ الشریعہ دمشق یونی ورسٹی میں میرے استاذ پروفیسر محمد المبارک‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو دعوت خطاب دینے اور ان کا تعارف کرانے اسٹیج پر آئے۔ انھوں نے مولانا مودودی مرحوم کا تعارف کراتے ہوئے ان کو ’غزالی عصر‘ کے لقب سے یاد کیا‘ جو میرے علم کے مطابق مولانا مودودی مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں‘ ایک ذمہ دار عرب عالم و مصنف کی طرف سے وہ اعزاز تھا جو بیسویں صدی عیسوی میں عالم اسلام کے کسی اور مفکر و مصنف کو نہیں ملا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سے عالم عرب کے تمام مصنفین فیض یاب ہوئے اور بہت سے مصنفین نے مولانا مودودی سے اپنی تصنیفات میں خوشہ چینی کی‘ جن میں مصر کے عبداللہ السمان‘ انور الجندی اور مکہ مکرمہ کے حسن جمال اور مصر کے ڈاکٹر محمد البہی وغیرہ شامل ہیں۔ عالم عرب کے ممتاز مفکرین و زعما میں مراکش کے استاذ علال فاسی‘ الجزائر کے استاذ محمد البشیر الابراہیمی‘ مصر کے استاذ الشہید سید قطب‘ سوڈان کے حسن الترابی‘ شام کے ڈاکٹر مصطفی السباعی اور ڈاکٹر معروف الدوالیبی‘ عراق کے استاذ محمد محمود الصواف اور شیخ امجد الزہاوی وغیرہ‘ سب ہی مولانا مودودی کے علم وفضل کے معترف تھے اور ان سے ربط و ضبط رکھتے تھے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی ذات میں امت واحدہ تھے۔ ان کے فکری اثاثے سے فائدہ اٹھانا جماعت اسلامی کا فرض ہے۔ جماعت کا فرض ہے کہ وہ یاد رکھے کہ مولانا مودودی مرحوم بنیادی طور پر ایک اسلامی مفکر اور دعوت دین کے منفرد داعی تھے‘ ان کی اس راہ پر چلنا اور علمی و فکری خلا کو پُر کرنے میں ذمہ داری ادا کرنا بھی جماعت اسلامی کا فرض ہے۔