جنوب مشرقی ایشیا میں جماعت اسلامی بالکل اسی طرح کے حالات و واقعات کے تناظر میں تشکیل پائی اور پروان چڑھی‘ جس طرح کے حالات کا سامنا عالم عرب میں اخوان المسلمون کو اپنی ابتدا اور تدریجی مراحل میں کرنا پڑا۔ چنانچہ جماعت اسلامی اور دنیاے عرب کی اسلامی تحریک پر اس کے یکساں اثرات پڑے۔
یہ مشابہت و مماثلت کوئی انوکھی یا ہنگامی نہ تھی۔ طنجہ سے جکارتہ تک پوری ملّت ِاسلامیہ یکساں مصائب و آلام سے دو چار تھی۔ زیادہ تر عالم عرب اور مسلم اقوام براہ راست مغربی استعمار کے زیر تسلط تھیں‘ جو ایک تاجر کے روپ میں عالم اسلام کے علاقوں میں داخل ہوئے اور اپنی سازشوں اور جدید جنگی طاقت کے بل بوتے پر ان علاقوں پر قابض ہو گئے۔ یہ استعمار آج بھی امت کی وحدت اور وجود کو پامال کر رہا ہے۔ اس کے مقاصد صرف تجارتی یا مادی نہیں تھے‘ بلکہ وہ چاہتا تھا کہ امت کا تعلیمی‘ سیاسی اور اقتصادی رابطہ اپنے دین سے منقطع کر دے۔ اسلامی تحریکیں انھی حالات و واقعات کے منطقی جواب میں مثبت لائحہ عمل لے کر برپا ہوئیں۔ ان کے قائدین اور داعیان ایک ہی چشمۂ ہدایت سے سیراب ہو رہے تھے اور اسی چشمۂ صافی سے جرعہ نوش کرکے انھوں نے مستقبل کے لیے بہت سی پاکیزہ آرزوئیں اور شان دار توقعات پروان چڑھائی تھیں۔ ان کے مقاصد میں تھا کہ وہ اپنے دین و ثقافت‘ سیاست و حکومت اور معیشت و معاشرت کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرائیں گے۔ لہٰذا‘ اس بات پر ہرگز تعجب نہ ہونا چاہیے‘ کہ امام ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃاللہ علیہ کی فکر کو بہت سے عرب ممالک کی اسلامی تحریکوں کے نوجوانوں میں بے مثال قبولیت ملی۔
سید مودودیؒ کی تقریریں اور کتابیں‘ امام حسن البنا شہیدؒ، عبدالقادر عودہ شہیدؒ، سید قطب شہیدؒ، پروفیسر محمد قطب اورشیخ محمد الغزالیؒ جیسے مصری قائدین اور دنیاے عرب کے دیگر علما کے لٹریچر کے ساتھ اسلامی تحریکوں کے لیے ثقافتی‘ تعلیمی اور فکری وحدت کا مصدور و منبع بنیں۔ اس دور میں نشروطباعت کے عمل نے بھرپور ترقی کی اور اسے خوب وسعت ملی۔ امام مودودی ؒکے لٹریچر کا عربی میں ترجمہ ہوا‘ جس سے بہت سے ممالک بالخصوص عالمِ عرب کے مسلم نوجوانوں کو فکری سطح پر بہت سہارا ملا۔ اس لیے کہ سب کے دکھ درد ایک جیسے تھے۔
امام مودودیؒ اپنے منفرد اسلوب نگارش کے ذریعے اور مسلمانوں کے ذہن کو خطاب کرنے کی اپنی جدید تعلیم سے آراستہ صلاحیت کے ذریعے تحریک اسلامی کے فرزندوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یوں اُن سے متأثر نوجوان اُسی عمل کی دعوت دینے لگے جس کی طرف خود سید دعوت دے رہے تھے۔ سید مودودی ؒکی فکر کو‘ جو اپنی حقائق پسندی اور دانش مندی کی وجہ سے معاصر اسلامی مفکرین میں ممتاز مقام رکھتی ہے‘ نوجوانوں میں خوب پذیرائی ملی۔ سید مودودیؒ کی یہ خرد مندانہ فکر اس تحرک انگیز سوچ میں ایک شاہ کار اضافہ ثابت ہوئی‘ جسے بیسویں صدی میں تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے پیش کیا تھا۔
سید مودودیؒ کی تحریروں کے جو ترجمے عربی رسائل میں شائع ہوتے ‘مسلم نوجوان پورے اشتیاق و انہماک کے ساتھ ان کی طرف لپکتے‘ وہ اسے اپنا معلوماتی سرمایہ سمجھتے‘ اپنی تقریروں اور روزمرہ کی سرگرمیوں میں اس سے مدد لیتے۔ اسٹڈی سرکلوں میں بحث کر کے انھیں ازبرکرتے۔ اس دور میں قومیت اور سیکولرازم کی فکر عام تھی۔ اس کے پیچھے بڑے بڑے ادارے کام کر رہے تھے اور بہت سی حکومتیں اس کی پشت پناہ تھیں۔ سید مودودیؒ کے لٹریچر نے قومیت اور لادینی فکر کو بے اثر بنانے اور ہزیمت سے دوچار کرنے میں زبردست عملی کردار ادا کیا۔ جارح مغربی تہذیب کے لیے یہ لٹریچر ایک زبردست جواب ثابت ہوا۔ عرب مسلم نوجوان اس لٹریچر کو اس اتحاد اور فکری وحدت کا ایک نمونہ سمجھتا تھا‘ جس کی دعوت تحریکِ اسلامی کے اوّلین قائدین نے دی تھی۔
ہم فلسطین میں رہ رہے تھے اور استعمار ہمارے سینے پر مونگ دل رہا تھا۔ اس دور میں امام مودودیؒ کے افکار اور عمل کے طریقے ہمیں فکری و عملی بیداری سے مسلح ہونے کی اہمیت کا شعور بخش رہے تھے۔ انھی سے ہمیں یہ احساس ملا‘ کہ قابض اور مسلط استعمار کا مقابلہ کرنے کے قابل ایک نسل تیار کرنے کے لیے پختہ ایمان‘ بہترین تنظیم‘ شان دار فکری و تربیتی نظام اور متحرک عمل کی ضرورت ہے۔ کراچی‘ لاہور اور دوسرے پاکستانی شہروں میں ہونے والے لاکھوں افراد کے مظاہروں سے ہمیں اپنی امت سے وابستگی اور امید کا جذبہ ملتا اور بے بس اور مجبور فلسطینیوں میں اخوتِ اسلامیہ کا احساس گہرا ہوتا۔ یہ بات میں پورے شعور سے کہہ سکتا ہوں کہ فلسطینی عوام میں جذبۂ مزاحمت بیدار کرنے کا شاید زیادہ تر کریڈٹ امام مودودیؒ کی تحریروں اور تقریروں کو جاتا ہے۔ اسی جذبۂ جہاد و مزاحمت سے سرشار ہو کر آج مسلمانوں کی بہت سی نسلیں عزت و افتخار کا پرچم تھامے ہوئے ہیں‘ جنھیں فتح و آزادی کی نوید جانفزا بہت قریب سنائی دے رہی ہے۔
اسلامی ریاست‘ تحریک اسلامی کے کارکنوں کے فکر و اخلاق‘ قرآن کریم سے تعلق اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی‘ اسلامی دستور اور مغرب کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات جیسے موضوعات پر سید مودودیؒ کی کتابیں فکری خزانوں سے لبریز انفرادیت کا نمونہ ہیں۔ یہ کتب اس فکری محرومی کا متبادل ہیں‘ جس میں امتِ مسلمہ‘ روشن اسلامی فکر کی عدمِ موجودگی کے دور میں مبتلا تھی۔ ہمارے لیے اس کردار سے آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں ہے جو عرب ممالک میں تحریک اسلامی کے مفکروں اور داعیوں نے ادا کیا۔ انھوں نے اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لٹریچر پڑھنے کی تاکید کی‘ اور انھیں نصیحت کی کہ وہ المودودیؒ کے لٹریچر سے دین حنیف کے پختہ اور درست فہم والے نظام پر عمل کریں۔ اسلامی بیداری کے ان اولین قائدین کا یقین تھا کہ ان کا فہم اسلام اور معلوماتی سرمایہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ المودودیؒ جیسے امام کبیر سے کسبِ علم نہیں کرتے۔ حالانکہ خود ان کے ہاں بھی شان دار فکری سرمایہ موجود تھا۔ یہ قافلہ ایمان و دانش میں جو امام حسن البنا شہیدؒ، سید قطب شہیدؒ،شیخ الغزالیؒ، الاستاد محمد قطب اور دیگر حضرات کی فکر سے مالا مال تھا۔
سید مودودیؒ کے اسلوب کی تازگی‘ آپ کی فکری لطافت‘ سیکولر افکار کے تجزیہ و تردید پر آپ کی مضبوط گرفت اور آپ کا سائنسی اسلوب نگارش‘ یہ وہ امتیازی خوبیاں اور نمایاں خصوصیات ہیں‘ جنھوں نے علم و فکر کے نئے نئے افق پیدا کیے۔ اس سے ایک نئی پکار بلند ہوئی جو امت مسلمہ کو اپنی شوکت رفتہ اور عظمت اخلاق کو پا لینے کی دعوت دے رہی ہے۔
ہم جب سید مودودیؒ کے علمی کاموں کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایک وسیع ذخیرئہ تحریر چھوڑنے کے باوجود آپ اپنے بلند و برتر معیار پر ہی قائم رہے اور اس سے نیچے نہیں اترے۔ ورنہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ وہ مصنفین جو زیادہ لکھتے ہیں‘ اپنے چند ایک افکار و خیالات ہی کی تکرار و اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تالیف کا ابتدائی معیار بلند اور آخری عمر میں تخلیق کا معیار پست تر ہوتا ہے‘ جب کہ مولانا اپنی تحریروں میں ترقی‘ ارتقا‘ وسعت اور پختگی کی طرف ہی مائل رہے۔ آپ کی تحریروں نے الٰہیاتی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور عمرانی فکر کے وسیع میدانوں کا احاطہ کیا۔
ہم نے المودودیؒ کی کتابوں کے عربی ترجمے پڑھے تو ترجمہ ہونے کے باوجود ان کی تحریر میں جمال و کمال پایا۔ اس پر ہم میں سے بہت سوں کی یہ حسرت اور تمنّا ہوتی ہے کہ کاش! ہم سید مودودیؒ کو ان کی اصل زبان اردو میں پڑھیں۔ اس لیے کہ کسی بھی تخلیقی شہ پارے کی اصل زبان زیادہ بلیغ‘ فصیح اور جمیل ہوتی ہے۔ علامہ مسعود عالم ندوی‘ استاد عاصم الحداد اور استاد خلیل احمد حامدیؒ دیگر حضرات نے سید مودودیؒ کی تحریروں اور تقریروں کے عربی تراجم پیش کرنے کے لیے جو ان تھک محنت اور کوشش کی‘ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ عرب قارئین پر اس کے مثبت اثرات پڑے۔
سیدیؒ کی عظمت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اپنی متعدد تصنیفات میں جس طرح اسلام کو پیش کیا ہے‘ وہی اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آپ ایک صاحبِ بصیرت قائد تھے۔ آپ نے اپنے دور میں امت کو درپیش مسائل کے بروقت و موزوں تجزیے کیے۔ آپ کی بصیرت کا یہ حال ہے کہ جب ہم آپ کی اُن تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں جو بیسویں صدی کے ۴۰ اور ۵۰کے عشروں میں لکھی گئیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آج اکیسویں صدی کے ہم لوگ ان کے مخاطب ہیں اور یہ باتیں ابھی ابھی ہم سے کہی جا رہی ہیں۔ ان تخلیقات میں وہی قوت و تازگی اور زندگی و حرارت ہے‘ جو ۵۰‘ ۶۰ سال پہلے تھی۔ نوجوان نسل کے لیے آپ کی نصیحتیں اب تک اپنی گیرائی‘ گہرائی اور انسانی جذبات و احساسات کے درست فہم کی عکاسی کر رہی ہیں۔ مستقبل میں جھانکنے میں آپ کی نظر بے مثال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریریں زندگی سے بھرپور ہیں۔ گویا ہمارے دکھوں اور مسائل کا علاج ان نصیحتوں اور ہدایات میں مضمر ہے‘ جو امام مودودی رحمۃاللہ نے آج سے نصف صدی قبل کی تھیں۔
آج ہم سید مودودیؒ کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کے ساتھ مل کر‘ آپ کی زندگی اور دعوت و قلم کے میدان میں آپ کے جہاد زندگانی کو یاد کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں ہم انھیں یاد کر رہے ہیں جب اس طرح کے عظیم لوگوں کی سخت کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ایسے عظیم انسان جو فکری و علمی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوں‘ قومی و ملّی جذبے سے سرشار ہوں اور ایک مقدس مشن کی تکمیل کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کیے ہوئے ہوں۔
ہم اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہوئے کہ امام مودودیؒ کے علمی سرمایے اور تخلیقی کارناموں کا ازسرِنو مطالعہ کریں‘ یہ یاد کرتے ہیں کہ امام مودودیؒ کی نظر کتنی عمیق تھی اور آپ کی خداداد بصیرت حقیقتِ حال کا کس قدر درست ادراک کرنے والی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولائے کریم نے اپنے اس بندے کو اپنی کتنی عظیم نعمتوں سے نوازا تھا۔