اس مختصر مضمون کا مقصد‘ معروف عالمی شخصیت مولانا مودودی کی تحریروں سے یہ بات سامنے لانا ہے کہ عصرِ حاضر کی نشات جدید کی فکر اور ترقیات کے تمدنی پہلو پر آپ کی کتنی گہری نظر تھی۔
اس مضمون میں جدیدیت (Modernity) کے مسئلے میں ذاتی رائے سے قطع نظر میں مولانا مودودی کی سوچ و فکر کو یک جا پیش کر رہی ہوں تاکہ ایک قاری اپنی جگہ یہ فیصلہ کر سکے کہ آپ عصرِحاضر میں اسلام کی نشات جدید کو جدید کاری سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کس حد تک کوشاں تھے!
اس حقیقت کا مولانا مودودی کے انتہائی معتمد اور بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر اقتصادیات پروفیسر خورشید احمد نے ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
تحریکِ اسلامی کی بین الاقوامی محاذ پر تہذیب جدید کی توجہ، قرنِ اولیٰ کے صحیح اسلامی ذرائع کی طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ اسلامی اقدار اور اصولوں پر کسی قسم کی سودے بازی اور پسپائی کے بغیر پیش آمدہ چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، گویا کہ اس کے ہاں ’جدید کاری‘ کے لیے تو ’ہاں‘ ہے، مگر مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ’جدیدیت‘ کاشکار ہونے کے لیے’ہرگز نہیں‘ ہے۔ تحریکِ اسلامی ایک طرف پوری طرح سے ترقی اور جدید کاری کا بخوبی ادراک رکھتی ہے، دوسری طرف مغرب زدگی اور سیکولرازم کا بھی شعور رکھتی ہے۔ اس کش مکش میں دونوں نظریات کے حامل انتہاپسند ہیں، خواہ وہ مغرب زدہ ہیں خواہ عام روایتی عناصر، سوچنے سے عاری ہیں۔۱ ؎
آگے چلیے، میری رائے میں مغربیت اور جدیدیت کے درمیان کوئی حد امتیاز قائم کرنا عبث ہے کہ نتائج کے لحاظ سے دونوں قطعی یکسانیت کے حامل ہیں۔
مشکل یہ آن پڑی ہے کہ بعض مغربی الفاظ جو ہماری روزمرہ کی زبان کا حصہ بن چکے ہیں، وہ اب حقیقت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب معاملہ ہم پر ہے کہ ہم ان کو اپنے ہاں جگہ دیں یا نہ دیں، اور انھیں بس اغیار کے الفاظ سمجھ کر ان سے اجتناب کریں۔ لیکن جب تک ہم اس روش پر جمے رہیں گے، مغرب، اسلام کے بارے میں کچھ سننے کا روادار نہ ہو گا --- اب جہاں پر معاشرے پر حاوی کسی اجنبی کلچر کی اصطلاحات کا غیر ضروری استعمال اپنے اندر کئی خطرات رکھتا ہے، وہاں ضروری ہے کہ اپنی پیش رفت کے لیے اسے (بڑی حکمت سے) استعمال میں لایا جائے۔ چنانچہ بعض اصحاب جو بعض مغربی الفاظ کے شدت سے خلاف ہیں، وہ بھی ان کے بعض الفاظ کو استعمال کرنا کوئی عیب خیال نہیں کرتے۔ اب اگر ان کے نزدیک ’تحریک‘ (movement) ، ’نظام‘ (system) اور ’انقلاب‘ (revolution) کے الفاظ نا پسندیدہ ہیں، تو اسلامی جمہوریت، اسلامی ری پبلک اور اسلامی سٹیٹ وغیرہ کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا بذات خود یہ الفاظ مغربیت اور اس کے مضمرات کے حامل نہیں؟ بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ قرآنِ کریم اور سنتِ نبویؐ کا کامل اور صحیح شعور ہی حقیقی رہنما ہو سکتے ہیں --- اس مقصد کے لیے صرف وہ الفاظ ہی استعمال کیے جائیں جو دونوں ثقافتوں میں غیر جانب دار (نیوٹرل) اور انسانی فکروعمل کے حامل ہوں۔ موثر(dynamic) نظریہ (ideology) اور جمہوریت (democracy) اب کسی کلچر کے لیے غیر نہیں رہے۔۲ ؎
مولانا مودودی کی پرورش اور تربیت ایک ایسے اسلامی گھرانے میں ہوئی، جہاں آپ کے والدین دونوں بے داغ پاکیزہ سیرت کے مالک تھے۔ ابھی آپ کی عمر تقریباً سترہ برس تھی کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا۔ لیکن جیسے ہی آپ عمر کے اس حصے میں داخل ہوئے، آپ کو بیرونی اثرات نے آلیا اور عارضی طور پر اسلام سے منسوب مروجہ ہیئت نے آپ کا اعتماد متزلزل کردیا‘ تا آنکہ قرآن و حدیث کے والہانہ انداز میں مطالعے نے دوبارہ اسے پوری طرح بحال کر دیا، جس کا آپ نے ان الفاظ (جولائی ۱۹۳۹ئ) میں تذکرہ کیا ہے:
’’دوسرے رفقا کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کا کیا حال ہے‘ مگر اپنی ذات کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ‘ اسلام کو جس صورت میں‘ میں نے اپنے گرد و پیش کی مسلم سوسائٹی میں پایا‘ میرے لیے اس میں کوئی کشش نہ تھی۔ تنقید و تحقیق کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد پہلا کام جو میں نے کیا‘ وہ یہی تھا کہ اس بے روح مذہبیت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکا جو مجھے میراث میں ملی تھی۔ اگر اسلام صرف اسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو شاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں میں جا ملا ہوتا‘ کیونکہ میرے اندر نازی فلسفے کی طرف کوئی میلان نہیں ہے کہ محض حیات قومی کی خاطر اجداد پرستی کے چکر میں پڑا رہوں۔ لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور ازسرنو مسلمان بنایا وہ قرآن اور سیرت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ تھا۔ اس نے مجھے انسانیت کی اصل قدروقیمت سے آگاہ کیا۔ اس نے آزادی کے اس تصور سے مجھے روشناس کیا‘ جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے لبرل اور انقلابی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس نے انفرادی حسنِ سیرت اور اجتماعی عدل کا ایک ایسا نقشہ میرے سامنے پیش کیا‘ جس سے بہتر کوئی نقشہ میں نے نہیں دیکھا --- پس درحقیقت میں ایک نو مسلم ہوں۔ خوب جانچ کر اور پرکھ کر اس مسلک پر ایمان لایا ہوں جس کے متعلق میرے دل و دماغ نے گواہی دی ہے کہ انسان کے لیے فلاح و صلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے۔ میں صرف غیر مسلموں ہی کو نہیں‘ بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں‘ اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے‘ جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے۔ بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ‘ آئو اُس ظلم و طغیان کو ختم کر دیں جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے‘ انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹا دیں اور قرآن کے نقشے پرایک نئی دنیا بنائیں‘ جس میں انسان کے لیے بحیثیت انسان کے شرف و عزت ہو‘ حریت اور مساوات ہو‘ عدل اور احسان ہو۔۳؎
مولانا مودودی نے اپنے ادبی کیریر کا آغاز تیرہ سال کی کم عمری میں، ’آزادی نسواں‘ کے حامی ایک عرب ادیب قاسم امین (قاہرہ ۱۹۰۰ئ) کی عربی تصنیف المرۃ الجدیدہ ]جدید خاتون[ کے اُردو ترجمے ] ۱۹۱۶ئ[ سے کیا۔ اس کتاب میں مصنف نے مغربی فکر کو اپناتے ہوئے ’’پردہ‘‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اگرچہ سید مودودی کے والد اور آپ کے عرب استاد نے کتاب کے مضمون سے بیزاری کا اظہار کیا‘ لیکن اس اُردو ترجمے کی ]روانی‘ سلاست اور چٹخارے دار محاورے[ زبان پر عش عش کیے بغیر نہ رہ سکے۔ تاہم بعدازاں آپ جس انداز سے ’’پردہ‘‘ کی پُرزور تائید کے ساتھ عورت کے بارے میں کلاسیکل انداز فکر کے مظہر نظر آتے ہیں‘ اسے طبعی امر سمجھنا چاہیے --- اگرچہ وہ مسودہ محفوظ نہیں‘ ] اور نہ شائع ہوا ہے[ تاہم اپنی جگہ یہ امر ایک راز ہی رہے گا کہ آپ نے اتنی کم عمری میں المرۃ الجدیدہ جیسی کتاب کو کیوں ترجمے کے لیے منتخب کیا۔
ذرا ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دیکھو‘ --- عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا --- اس کے اردگرد ایران‘ روم اور مصر کے ملک تھے‘ جن میں کچھ علوم و فنون کا چرچا تھا مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو ان سب سے جدا کر رکھا تھا۔ --- خود عرب میں کوئی اعلیٰ درجے کا تمدن نہ تھا‘ نہ کوئی مدرسہ تھا‘ نہ کوئی کتب خانہ تھا‘ نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچا تھا تمام ملک میں گنتی کے چند لوگ تھے جن کو کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا‘ مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے --- وہاں کوئی باقاعدہ حکومت بھی نہ تھی۔ کوئی قانون بھی نہ تھا --- آزادی کے ساتھ لوٹ مار ہوتی تھی --- اخلاق اور تہذیب کی اُن کو ہوا تک نہ لگتی تھی۔ (دینیات ۱۹۷۷ئ‘ ص ۶۰ - ۶۱)۴؎
پھر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنی تعلیم و تربیت سے انھی عربوں کو وحشت اور جہالت سے نکال کر اعلیٰ درجے کی مہذب قوم بنا دیا۔ جو عرب کسی قانون کی پابندی پر تیار نہ تھے‘ ان کو ایسا پابند قانون بنا دیا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی پابند قانون نظر نہیں آتی --- یہ تو وہ اثرات ہیں جو عرب قوم پر ہوئے۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز اثرات اس امی صلی اﷲ علیہ و سلم کی تعلیم سے تمام دنیا پر ہوئے --- حیرت یہ ہے کہ جنھوں نے اس کی پیروی سے انکار کیا‘ وہ بھی اس کے اثرات سے نہ بچ سکے --- اس نے قانون اور سیاست اور تہذیب و معاشرت کے جو اصول بتائے وہ اتنے پکے اور سچے اصول تھے کہ مخالفوں نے بھی چپکے چپکے ان کی خوشہ چینی شروع کر دی۔ (دینیات ‘ ص ۶۸ - ۶۹۔ ibid, p 52)
اسی پر مولانا مودودی بس نہیں کرتے‘ بلکہ جب آپ وہاں کے ماضی بعید کا مطالعہ کرتے ہیں‘ تو حاضر کے مقابلے میں آپ حیران کن انداز میں انسانیت کی سوچ کا رخ ایک صحیح طرف موڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ متعدد مقامات پر تحریر فرماتے ہیں: یہ رسول اللہؐ ہی ہیں‘ جنھوں نے انسانیت کو اوہام پرستی سے نکالا اور خردمندی کا راستہ دکھایا‘ حقیقت پسندی کے ادراک اورعقل و دانش کی قدر سکھائی۔ یہی وجہ ہے‘ جس نے انسانیت کو سائنسی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔
اسلام کا دورِ زریں‘ جو تاریخ میں سائنس اور آرٹ کی ترقی کے لحاظ سے مسلمانوں کا شان دار باب کہلاتا ہے‘ مولانا مودودی کو ذرا بھی متاثر نہیں کرتا۔ آپ کو ایک ایسی جامع خوبیوں کا معاشرہ ہی مطمئن کر سکتا ہے‘ جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہو۔ حالانکہ ایسے معاشرے کا وجود میں آنا بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
اس مطلوب اور محمود دنیا کو حقائق کی دنیا میں لانے کے لیے مولانا مودودیؒ بڑے پر اعتماد رہے ہیں۔ آپ کو امید تھی کہ آپ کی تحریک ان تمام غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرے گی جو ماضی میں ہوئی ہیں اور اس کے بجائے ماضی کے علمی اور دیگر اثاثے میں جو بھی خیر کا پہلو ہو گا‘ اسے بروئے کار لانے میں کوئی کوتاہی کرنے سے پہلو بچائے گی۔ ایسے میں جب مسلمانوں کے شان دار تاریخی ماضی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا معیار مولانا مودودی کی سوچ اور فکر سے ہم آہنگ نہیں‘ کیونکہ مولانا اسے اسلام کا تاریک ترین دور قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
]خلافت راشدہؓ کے بعد[ جاہلیت خالصہ نے حکومت اور دولت پر تسلط جمایا۔ نام خلافت کا تھا اور اصل میں وہی بادشاہی تھی‘ جس کو مٹانے کے لیے اسلام آیا تھا --- اس بادشاہی کے زیر سایہ امرا‘ حکام‘ وُلاۃ‘ اہل لشکر اور مترفین کی زندگیوں میں کم و بیش خالص جاہلیت کا نقطہ نظر پھیل گیا‘ اور اس نے ان کے اخلاق اور معاشرت کو پوری طرح ماؤف کر دیا۔ پھر یہ بالکل ایک طبعی امر تھا کہ اس کے ساتھ ہی جاہلیت کا فلسفہ‘ ادب اور ہنر بھی پھیلنا شرع ہو‘ اور علوم و فنون بھی اسی طرح مرتب و مدوّن ہوں‘ کیونکہ یہ سب چیزیں دولت اورحکومت کی سرپرستی چاہتی ہیں‘ اور جہاں دولت اور حکومت‘ جاہلیت کے قبضے میں ہوں وہاں ان پر بھی جاہلیت کا تسلط ناگزیر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یونان اور عجم کے فلسفے اور علوم و آداب نے اس سوسائٹی میں راہ پائی جو اسلام کی طرف منسوب تھی (سید مودودی تجدید و احیاے دین‘ ص ۳۸ - ۳۹)
اسی زرّیں دور کے بغداد کے دارالحکمت کو بھی مولانا مودودی تاریک دور کا دارالحکمت قرار دیتے ہیں‘ جس میں عہد عتیق کے عظیم فنون کو عربی میں منتقل کیا گیا اور جنھیں انسانی تہذیب کی تاریخ کے تمدنی واقعات میں اہم ترین واقعات قرار دیا جا سکتا ہے۔
حتیٰ کہ امت ِ مسلمہ‘ اسلامی آرٹ کے جس بیش بہا قیمتی خزینے پر بڑا فخر کرتی ہے‘ مولانا اس کے سحر کا ذرا بھی اثر نہیں لیتے اور اس کے بارے میں بڑے محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ کا اصرار ہے کہ آلایشوں سے پاک اسلامی کلچر کو ’فائن آرٹ‘ نام کی شے سے دُور کی بھی نسبت نہیں۔ اس مخصوص پس منظر میں آپ لفظ ’حسن‘ کو عیاشی کے معنوں میں لیتے ہیں‘ جسے محلات میں عیاشانہ زندگی بسر کرنے والے رؤسا نے اپنایا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جو افراد دنیا میں اسلامی نظام کو غالب کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں‘ وہ معروف معنوں میں فتونِ لطیفہ کا ادراک نہیں کر پاتے۔
مولانا مودودی نے کھلے دل سے مساجد میں لائوڈ سپیکر کے استعمال کی تائید کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس اسلامی ماحول کے آپ متمنی ہیں‘ آپ ۱۹۳۸ء میں کہتے ہیں: ’’یہ ایجاد ان ارضی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے‘ جس کا اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا ہے۔ یہ آلہ قدرتی آواز کو بلند کر دیتا ہے۔ چنانچہ شریعت کے اصولوں کے مطابق اس آلہ کا استعمال بلاشک و شبہہ جائز ہے --- کسی نوایجاد چیزکے استعمال کو مکروہ یا ناجائز ٹھیرانے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ وہ عہدِرسالت میں‘ یا عہدصحابہ میں‘ یا عہدائمہ میں موجود نہ تھی… میرا مقصد یہ ہے کہ ساینٹی فک ایجادات اور تمدن جدید کے آلات و وسائل کے متعلق مسلمان اپنا رویہ بدلیں۔ یہ آلات بجائے خود ناپاک نہیں ہیں۔ اصل میں وہ طریق استعمال ناپاک ہے جو مغرب کی باغیانہ تہذیب نے اختیار کر رکھا ہے۔ خداوندعالم نے جن چیزوں کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے‘ وہ بالیقین پاک اور مطہر ہیں۔ اور ان کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ ان سے خدائی قانون کے مطابق کام لیا جائے۔ مگر ان پر دہرا ظلم ہو رہا ہے‘ کہ جن کے پاس خدائی قانون موجود ہے‘ وہ ان سے کام نہیں لیتے اور جو ان سے کام لے رہے ہیں وہ شیطانی قانون کے متبع ہیں۔ (تفہیمات‘ دوم)
چنانچہ مولانا زندگی بھر سائنس اور ٹکنالوجی کی کامیابیوں میں گہری دل چسپی لیتے رہے۔ ۲۰جولائی ۱۹۶۹ء کو جب چاند پر پہلا انسان اترا تو مولانا مودودی نے کہا: ’’چاندپر آدمی کا اترنا بہرحال سائنس کی ترقی کا کمال ہے۔ اس کمال کا اعتراف نہ کرنا ایک علمی اور اخلاقی بخل ہے‘‘۔ (ہفت روزہ ایشیا‘ لاہور‘ جولائی ۲۵‘ ۱۹۶۹ئ‘ ص ۳)
مولانا مودودی کو پختہ یقین تھا کہ سائنس اور ٹکنالوجی اپنے اندر ایسی ایجادات کی حامل ہیں کہ خیر و شر میں سے جو چاہے‘ انھیں اپنے استعمال میں لے آئے کہ وہ دونوں کے لیے یکساں طور پر کارآمد ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ میکانکی ایجادات رفتہ رفتہ مجسم شر (inherently evil) میں ڈھلتی نظر آتی ہیں کہ جن میں نہ صرف ایک مسلم معاشرے‘ کلچر اور تہذیب کو ضرر پہنچے گا‘ بلکہ کسی احساس ذمہ داری اور جواب دہی کے احساس سے عاری یہ عمل پوری نوع انسانی کے مستقبل کو سخت نقصان پہنچاتا نظر آرہا ہے۔ کیمیکل کا بے تحاشا استعمال‘ ہلاکت خیز فضلات سے اور زمینی‘ فضائی اور آبی حیات کی تباہی‘ اوزون کا شکست و ریخت سے دوچار ہونا اور دوسری بے شمار ہلاکت خیزیاں اسی بے خدا سائنس اور خالص مادہ پرستانہ ترقی کے چند مظاہر ہیں۔ بہرحال مولانا مودودی کے ہاں سائنسی ایجادات کو دیکھنے کا ایک منفرد انداز ہے۔ وہ دسمبر ۱۹۳۷ء میں لکھتے ہیں:
’’ریڈیو بجائے خود ناپاک نہیں ہے۔ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ریڈیو کے ڈائرکٹر کو داروغۂ اربابِ نشاط یا ناشر کذب و افترا بناتی ہے۔ ہوائی جہاز ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ہوا کے فرشتے سے خدائی قانون کے بجاے شیطانی اغوا کے تحت خدمت لیتی ہے۔ سینما ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک دراصل وہ تہذیب ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی اس طاقت سے فحش اور بے حیائی کی اشاعت کا کام لیتی ہے۔ آج کل کی ناپاک تہذیب کو فروغ اسی لیے ہو رہا ہے کہ اس کو فروغ دینے کے لیے خدا کی بخشی ہوئی تمام اِن طاقتوں سے کام لیا جا رہا ہے جو اس وقت تک انسان پر منکشف ہوئی ہیں۔ اگر ہم اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں جو الٰہی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہم پر عائد ہوتا ہے تو ہمیں بھی انھی طاقتوں سے کام لینا چاہیے… اس تصریح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک جسے میں پیش کر رہا ہوں‘ نہ توکوئی ارتجاعی (reactionary) تحریک ہے اور نہ اس قسم کی ارتقائی [evolutionary] تحریک ہے جس کے پیشِ نظر صرف مادی ارتقا ہو۔ میرے پیشِ نظر جو تربیت گاہ ہے ‘اس کے لیے گروکل کانگڑی‘ ستیہ گرہ آشرم‘ شانتی نکیتن اور دیال باغ میں کوئی نمونہ نہیں ہے‘ اور اسی طرح جس انقلابی پارٹی کا تصور میرے ذہن میں ہے اس کے لیے اٹلی کی فاشست اور جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں بھی کوئی نمونہ نہیں ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی نمونہ ہے تو وہ صرف مدینۃ الرسول اور اس حزب اللہ میں ہے جسے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتب کیا تھا‘‘۔ (تنقیحات‘ ص۳۱۵- ۳۱۷)
’’مدینہ طیبہ سے مماثلت پیداکرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کرکے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالح کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسے تمدن و حضارت کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل متحجّر(fossilised) صورت میںقیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں‘ اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے اردگرد ایک حصار کھینچ لیں‘ جس کی سرحد میں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ اتباع کا یہ تصور درحقیقت روحِ اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثارِ قدیمہ بن کر رہیں اور اپنی زندگی کو تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔ وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔ اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا نہیں ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے‘ جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ زماں و مکاں کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے‘ ہم کو ’’خیر اُمت‘‘ جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (rear guard)کی حیثیت سے لگے رہیں‘ بلکہ ہمارا کام امامت ورہنمائی ہے۔ ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیر اُمت ہونے کا راز اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں پوشیدہ ہے۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کا اصلی اسوہ جس کی پیروی ہمیں کرنی چاہیے‘ یہ ہے کہ انھوں نے قوانین طبیعی کو قوانین شرعی کے تحت استعمال کر کے زمین میں خدا کی خلافت کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ ان کے عہد میں جو تمدن تھا انھوں نے اس کے قالب میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکی۔ اس وقت جتنی طبیعی قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو چکی تھی۔ ان سب کو انھوں نے اس تہذیب کا خادم بنایا اور غلبہ و ترقی کے جس قدر وسائل تمدن نے فراہم کیے تھے ان سے کام لینے میں وہ کفار و مشرکین سے سبقت لے گئے… پس نبیؐ و اصحابِ نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن کے ارتقا اور قوانین طبیعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں‘ ان کو ہم اسی طرح تہذیب اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدر اوّل میں کی گئی تھی‘‘۔ (تنقیحات‘ ص ۳۱۳-۳۱۵)
اس پس منظر میں‘ میں کہوں گی کہ مولانا مودودی ارتقایت (evolutionism) اور ترقی پسندی (progressivism) کے حق میں بڑے پرجوش تھے اور روایت پسندانہ ماضی کے سخت ناقد تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سمیت عام لوگ گم گشتہ روایات میں رہنے کے عادی ہوگئے ہیں‘ جب کہ جدید مغرب (Modern West) اپنی ہلاکت خیزیوں اور سہولت آفرینیوں کے ساتھ‘ ایک طرف جبر اور دوسری جانب جمہوریت سمیت مستقبل کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ تاہم مولانا مودودی کا ایمان ہے کہ آج بھی اگر مسلمان اللہ تعالیٰ اور سنت رسولؐ اللہ کی طرف لوٹ آئیں‘ تو نہ صرف ان کے لیے بلکہ خود نوعِ انسانی کے لیے خیروبرکت اور امن و سکون کا سامان ہوسکتا ہے۔
چنانچہ مولانا مودودی نہ صرف سائنس کی تازہ کامیابیوں کو قبول کرتے ہیں‘ بلکہ تمام صنعتی کمالات اور ٹیکنیکل آرڈر کو امرِربی کے تابع بناکر زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جن کے ہاں کوئی تبدیلی ممکن نہیں لیکن ہم کو اپنی نظریں کھلی رکھنی چاہییں اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں‘ ہم کو اس کے نتائج کے بارے میں پورا شعور و ادراک ہونا چاہیے۔