یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے ہر دور میں ایسے انسان پیدا کرتا ہے‘ جو حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کی‘ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور انھیں گمراہی اور انحراف سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشیت ِ حق سے اُمت مسلمہ میں بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کی شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں۔
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
مولانا مودودیؒ نے بھی عہدحاضرمیں اُمت کی بیداری اور دین کی طرف اس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ وہ قرآن و سنت اور علومِ اسلامیہ کے دیگر سرچشموں سے علم وعرفان کا نور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وفلسفے کی تہہ تک پہنچے ہوئے تھے۔ انھوں نے تجزیے اور دلیل کا راستہ اختیار کیا‘ عصرِحاضر کے علم کلام سے استفادہ کیا اور اسے اسلامی علم کلام کے سانچے میں ڈھال کر اظہار و بیان کا منفرد اسلوب اختیار کیا۔ ان پر یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم تھا کہ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو پہلے صاف اور عام فہم سوال میں خود ڈھالتے تھے‘ پھر اس کا تجزیہ کرکے بالکل آسان پیرایے میں‘ بنیادی اہمیت کے معاملات کو کھول کھول کر بیان کر دیتے تھے۔ اسلامی نظامِ زندگی خلافتِ راشدہؓ کے بعد رفتہ رفتہ گردش لیل و نہار اور حاشیہ در حاشیہ کتابوں کے انبار میں نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ تاہم‘ مولانا مودودیؒ نے اسلامی نظام زندگی کو انسانی ہدایت کے ایک واضح لائحہ عمل کے طور پر متعارف کروایا۔
مسلمانوں کے ہاں مغربی تہذیب کی حاکمانہ برتری نے عوام و خواص کے ذہنوں کو زبردست قسم کی ذہنی غلامی سے دوچار کر دیا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے جدید اسلوب اور نہایت مؤثرانداز میں تنقیحات کے مضامین کے ذریعے اس تہذیب کے فکری تار و پود بکھیر دیے۔ انھوں نے جدید تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو ایمان سے سرشار اور عقلی و علمی دلائل سے مسلح کیا۔ مزید یہ کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات‘ یکساں طور پر ایک فاضل اور ایک عام فرد کے ذہن نشین کرا دیں۔
خطبات اور دینیات بنیادی طور پر عام فرد کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں اور دعوتِ حق اور بلکہ فہم دین کے لیے یہ نہایت درجہ بنیادی اور سب سے زیادہ قیمتی کتب ہیں۔ یہ وہ کتب ہیں‘ جو فرد کا رشتہ خالق ارض و سما سے جوڑتی ہیں اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اطاعت کا درس دیتی ہیں۔ اگر پہلے مرحلے میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی شک و شبہے سے بالاتر طمانیت قلب والا تعلق جڑ جائے تو پھر زندگی کے آیندہ مراحل اس سعادت و رحمت کے راستے پر ہی گزرتے ہیں۔ ان کتب کے بعد میں اسلامی عبادات پر تحقیقی نظرکو مطالعے کا نہایت اہم جز سمجھتا ہوں۔
مولانا مودودی کے لٹریچر میں اس کے بعد جس خطبے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جو بے شمار کتابوں پر بھاری ہے‘ اس کا نام اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ مولانا مودودی نے یہ تقریر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے فرمائی تھی۔ عصرِحاضر کے اسلامی لٹریچر کو اس تقریر نے اپنی گرفت میں لے کر ایک منزل کا سراغ دیا۔ افغانستان کے عظیم انقلابی اور دانش ور منہاج الدین ’گہیز‘ شہید ]م: ۱۹۷۲ئ[ نے مجھے بتایا کہ : ’’اس تقریر (فارسی ترجمہ: برنامہ انقلاب اسلامی) نے میرے ذہن کے تمام دریچے کھول دیے ہیں اور میرے تمام اشکالات کا جواب دے دیا ہے‘‘۔ یاد رہے کہ منہاج الدین گہیزؒپہلے ایک قوم پرست رہنما تھے‘ اور اس کتاب کے مطالعے کے بعد اسلام کے داعی بن گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ مولانا مودودی کی یہ مختصر تحریریں انسانوں کی زندگیاں بدل دینے کا ذریعہ بنیں۔ اسی طرح مولانا کی تقریر شہادتِ حق نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو اللہ کی راہ پر لگا دیا۔
مولانا مودودی پر یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل تھا کہ اُن کے ذہن میں اسلامی نظام کا خاکہ اور نقشۂ کار ایک ترتیب سے ‘ دواور دو چار کی طرح واضح تھا ۔ وہ اس معاملے میں بڑے یکسو تھے کہ ایک معاشرے کو اسلامی معاشرے میں کیسے ڈھالا جائے؟ اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ اس کا عملی ڈھانچا کیا ہے؟ اور کن چیزوں کو کس ترتیب سے لانا چاہیے؟ انھوں نے اسی ترتیب سے یہ سبق لوگوں کو ذہن نشین کرا دیا۔
اسی دور میں امام حسن البنا شہید نے مصر میں ایک دوسرے انداز میں کام شروع کیا۔ بعدازاں ان کے ایک حلقہ بگوش سید قطبؒ کی بلندپایہ علمی تحریروں نے نوجوان نسل کو بڑی کثرت سے اسلام کے انقلابی پہلو کی طرف متوجہ کیا۔ ترکی میں بدیع الزماں سعید نورسی مرحوم نے دعوت‘ تربیت اور مزاحمت کی ایک منفرد تحریک برپا کی۔ ہمارے یہاں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی شخصیت ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کے ہاں حزب اللہ اور نظم اسلامی جماعت کا تصور‘ مولانا مودودی کے تصورِ جماعت اسلامی سے ملتا جلتا ہے اور پھر علامہ اقبال کے پورے کلام میں بھی اُمت مسلمہ کو نہایت دل نشین انداز میں قرآن و سنت ہی کا پیغام پہنچایا گیا ہے۔
اسلام میں رہبانیت کی گنجایش نہیں ہے‘ بلکہ اسلام ایک نظام زندگی کے طور پر‘ دعوت‘ عدل اور قوت کے ساتھ اُبھرتا نظر آتا ہے۔ اس تصورکے حوالے سے علامہ اقبال کی اسرارخودی اور رموز بے خودی میرے نزدیک مرکزی شان کی حامل ہیں۔ اسرارِخودی میں ایک مسلمان فرد کے کردار کے بنیادی عناصر اور اس کے تقاضے بتائے گئے ہیں‘ جب کہ رموز بے خودی میں علامہ اقبال نے واضح کیا ہے کہ اس کردار کے لوگوں کو ایک اسلامی قوم میں کن اصولوں کے ذریعے ڈھالا جاتا ہے۔ اس پیغام کو انھوں نے اپنی معروف نظم ’ترانہ ملی‘ میں جس عمدہ اور پُرتاثیر پیرایے میں پیش کیا ہے‘ وہ پڑھنے اور درس لینے سے تعلق رکھتا ہے ؎
چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
علامہ اقبال شعرکی زبان میں بات کرتے تھے‘ اس لیے کلام اقبال سے اسلامی نظام زندگی کی دعوت سامنے آنے کے باوجود عملی اور منطقی انداز سے ذہن نشین نہیں ہو سکتا تھا۔ شعرکا تاثر فرد کو سوچنے پر اُبھارتا‘ شعر کا مضمون اور آہنگ طبیعت میں وجد لاتا ہے۔ اسلام کے نظام حیات کے تصور کو اقبال نے خواب سے بڑھ کر جذبے میں ڈھالا‘ جب کہ مولانا مودودی نے ترتیب کے ساتھ ایک مربوط تحریر اور ایک نکھرے پروگرام میں اسے مدلل انداز میں بیان کر دیا۔
علامہ اقبال نے اپنے قارئین کے ذہنوں میں ایک بیداری پیدا کی جس کے بعد ان بیدار ضمیر لوگوں کو ایک اجتماعیت کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو مولانا مودودی نے پورا کیا۔ انھوں نے بتایا: منتشر نیکی اور اعلیٰ جذبے کو جب تک اجتماعی طاقت میں نہیں بدلا جاتا‘ وہ جذبہ اور نیکی محض ایک اعلیٰ قدر تو ہوسکتی ہے‘ مگر مثبت قوت نہیں قرار دی جا سکتی۔ اس کے مقابلے میں ابلیسی طاقت منظم بھی ہے اور موثر بھی۔ اس کی پشت پر افراد‘ اداروں اور ریاستوں کی طاقت ہے۔ مولانا مودودی نے خدا سے غافل اور ظلم پر مبنی اس جاہلیت کا جواب دینے کے لیے واضح مقصد اور شفاف طریق کار پر مشتمل ایک تحریک برپا کی۔ یہ کام انھوں نے محض تحریریں لکھ دینے کی حد تک نہیں کیا‘ بلکہ انھوں نے قرآنی حکم کے تحت اسے بنیان مرصوص بنانے کے لیے ایک ایک تنکا اکٹھا کر کے آشیانہ بنایا۔ ایک ایک فرد کو مجتمع کر کے قافلہ ترتیب دیا۔ اللہ تعالیٰ کے ایک ایک حکم کے سائے میں مطلوب اور معتدل نظامِ فکر پیش کیا۔ میں اس کارنامہ عظیم کا کسی بزرگ ہستی سے کوئی موازنہ کیے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ عصرحاضر میں یہ کاوش‘ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی احسان ہے جس کے لیے اُس نے اپنے بندے سیدابوالاعلیٰ مودودی کو خدمت کے لیے چنا ۔
جیسا کہ پہلے کہا گیاہے کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اسلامی نظم جماعت کا تصور پیش فرمایا‘ لیکن بہت جلد وہ خود ایک سیکولر نظم جماعت کا حصہ بن گئے۔ اس اقدام کو مولانا مودودی نے ایک المیہ قرار دیا اور فرمایا کہ: مولانا ابوالکلام آزادؒ اس اُمت کے فکری اور عملی دکھوں کا علاج کرنے کے لیے ایک معالج کے طور پر آئے‘ لیکن کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے مایوس ہوکر اس مریض کو لاعلاج قرار دے کر چھوڑ دیا۔ مگر میں تو اس مریض کا معالج نہیں بلکہ تیماردار ہوں۔ معالج چھوڑنا چاہے تو چھوڑ دے‘ لیکن تیماردار اپنے مریض کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ مولانا مودودیؒ کے اس قول میں کوئی دعویٰ ،تعلّی اور فخر کی بات نہیں ہے‘ بلکہ دل سوزی‘ ہمدردی اور ذمہ داری کی دعوت ہے۔
گذشتہ صدی کے آغاز میں مسلم اُمہ کس حال میں تھی‘ اس کا تذکرہ اگر بچشم تر پڑھنا ہو تو خواجہ الطاف حسین خالی مرحوم کی مسّدس پڑھیں تواُمت کی حالت ِ زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مسّدسمیں تفصیل کے ساتھ مسلم اُمہ کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ ان کے بالکل ہی متصل علامہ اقبال ایک مجاہدانہ لہجے میں کہتے ہیں ؎
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری‘ نفس مرا شعلہ بار ہوگا
اقبال نے روتے ہوئے لوگوں کے آنسو پونچھے اور انھیں حوصلہ دے کر کھڑا کیا۔ ان ہمت شکن حالات میں کھنڈرات پر کھڑے ہو کر مولانا مودودی نے اُمید کا دامن پکڑا اور ملبے کے ڈھیر سے اینٹیں چن چن کر عمارت کی تعمیر شروع کی‘ اور نظم جماعت قائم کیا۔ بلند ہمتی کے ذریعے اگلے سو سال کا صاف سیدھا نقشہ بنا کر پیش کر دیا۔ یاد رہے کہ لمبے عرصے کا منصوبہ بنانا اور صبروہمت سے منصوبے کے خدوخال واضح کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مستقبل بینی اور مستقبل کی منصوبہ سازی کا کوئی رواج نہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال ’’آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر‘‘ ہی نہیں دکھاتا‘ بلکہ پورا اور ایک واضح منظر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے‘ اور مولانا مودودی اس منظر تک پہنچنے کے لیے راستے کی مشکلات و مصائب سے نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ انھیں ان مشکلات سے عہدہ برآ ہونے اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا لائحہ عمل بھی دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے عصرِحاضر میں احیاے اسلام کی تحریک کے یہ دونوں بڑے نام یعنی علامہ اقبال اور مولانا مودودی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اُمت کو پکارتے ہیں۔ اگر کوئی کھلی آنکھوں کے ساتھ علامہ اقبال کے شعری کلیات اور مولانا مودودی کی کتب کو بغور پڑھ لے تو وہ خود اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ ان کی پکار ایمان اور عمل کی پکار ہے‘ جہاد اور اجتہاد کی پکار ہے‘ ایثار اور اقدام کی پکار ہے‘ عدل اور امن کی پکار ہے‘ اُمت اور اتحاد اُمت کی پکار ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل سے پہلے گہرے غوروفکر سے کام لیا اور بہت سے اصحاب سے یہ مشاورت کی کہ آیا جماعت بنائی بھی جائے یا نہیں؟ پھر جب جماعت بنانے کا فیصلہ ہوا توآپ نے جماعت اس لیے بنائی کہ:’’منظم شر کا مقابلہ منظم نیکی ہی کر سکتی ہے‘‘۔ آپ نے صاف طور پر کہا: ہماری دعوت‘ دعوت الی اللہ ہے۔ یہ دعوت اسوہ حسنہ کی طرف دعوت ہے۔ ہماری دعوت اپنے بانی یا جماعت کی طرف نہیں‘ مقصد کی طرف ہے۔ جماعت صرف ایک ذریعہ ہے‘ مقصد نہیں ہے۔ مقصد قرآن کریم سے لیا گیا ہے کہ اللہ کو راضی کرنا ہے۔ طریق کار سنت سے لیا گیا ہے کہ وہی آئیڈیل ہے اور وہی معیارِ حق ہے۔
مولانا مودودی نے جماعت کو کوئی فرقہ‘ گروہ یا مسلک نہیں بننے دیا‘بلکہ تمام مسلمہ مکاتب فکر کے افراد کو دعوت دی کہ وہ ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں۔ پاکستان بنانے اور پاکستان کا دفاع کرنے کے لیے اگر تمام مکاتب فکر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو پاکستان کو اس کا مقصدِ وجود دلانے کے لیے آخر کیوں وہ ٹکڑیوں میں تقسیم رہیں۔ انھوں نے یہ بھی واضح کر دیا ‘کہ وہ اپنی طرف سے کوئی نئی فکر دینے والے یا کوئی نیا راستہ تجویز کرنے والے نہیں ہیں‘ بلکہ وہ قرآن کی فکر کا تذکرہ کرنے اور اس فکر کے راستے کی نشاندہی کرنے والے‘ اللہ تعالیٰ کے ایک عاجز بندے ہیں۔ مولانا مودودی یہی کہتے تھے: آپ میری فکر نہ کریں‘ اور نہ میرے دفاع کے بارے میں پریشان ہوں بلکہ آپ مقصدِ زندگی کی فکر کریں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے راستے پر چلنے کی فکر کریں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ان تعصبات سے نکالنے کی کوشش کریں کہ جس نے انھیں کفرواستعمار کے سامنے تر نوالہ بنا دیا ہے۔
وہ کہتے تھے : جن تعصبات میں مسلم جماعتیں مبتلا ہوگئی ہیں‘ انھیں اس دلدل سے نکالیں‘ اور اصلاحی جماعتیں فرقہ بندی کی بندگلی میں پھنس کر رہ گئی ہیں‘ انھیں قرآن و سنت کی دعوت کی طرف بلائیں اور اس الجھن سے چھٹکارا دلادیں۔ اس لیے میرے نزدیک فکرِمودودی بذاتِ خود کوئی چیز نہیں ہے۔ اسی تسلسل میں یہ بات بھی بالکل واضح رہنی چاہیے کہ معیارِحق اور رہنمائی کا اول و آخر مرکز‘ قرآن و سنت ہیں۔ ماضی میں مختلف دینی تحریکیں شخصی سطح پر غلو کا شکار ہوگئی تھیں اور فی زمانہ مولانا مودودی نے برملا فرمایا کہ مجھے معیار مت سمجھیے۔ انھوں نے کھلے دل کے ساتھ لوگوں کو بلایا اور اپنی بجاے اصل مراکز دعوت کی طرف رواں دواں کر دیا۔ انھوںنے زندگی بھر جماعت کو اپنی تحریروں کا پابند نہیں بنایا‘ البتہ جماعت نے جو فیصلے کیے‘ کارکنان کو اس کی پابندی کرنے کے لیے کہا اور جب جماعت نے فیصلے میں تبدیلی کی تو انھوں نے بھی اس کو تسلیم کیا۔ وہ اپنی تحقیقات کو بھی حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں پیری مریدی‘ یا خادم و مخدوم اور آقا و کارکن کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔بلاشبہہ مولانا مودودی کی کتب روشنی کا ایک مینار ہیں‘ لیکن روشنی کا واحد مرکز یہ نہیں ہیں۔ اسی لیے جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کے نصابات میں آپ کو دکھائی دے گا کہ مولانا کی تو آدھی کتب بھی مطالعے کے لیے لازم نہیں ہیں۔ وہ ہمارے محسن ہیں اور ہم ان کے زیراحسان ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ زندگی بھر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے رہے۔ خود انھوں نے مسلم تاریخ پر جس طرح احتسابی نگاہ ڈالی‘ بالکل اسی طرح وہ بھی آنے والے تمام لوگوں کی طرح اسلام کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے۔
تیسرا پہلو جس کی طرف ہمیں آج توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ وہ مسلم اُمت کا حالِ زار ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جب ہوش سنبھالا‘ اُس وقت برطانوی استعمار نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر تسلط قائم کر رکھا تھا اور مسلم دنیا کا کم و بیش سارا ہی علاقہ محکوم تھا۔ بظاہر جو ممالک آزاد دکھائی دیتے تھے‘ وہ بھی بالواسطہ طور پر برطانیہ یا یورپی اقوام کے زیرنگین تھے۔ مولانا مودودی نے اس وقت یہ بنیادی سوال اٹھایا:
حقیقت میں یہ بڑے بنیادی سوالات تھے جن پر انھوں نے بحث کی۔ انھوں نے مرض سے پہلے مرض کے اسباب اور مرض کی شدت کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مولانا مودودی کی وہ تمام تحریریں جو ۱۹۴۰ء سے پہلے انھوں نے لکھی تھیں‘ ان میں استعمار کے چہرے کو بے نقاب کرنے اور مسلم دنیا کو بیدار کرنے کا پورا لائحہ عمل موجود ہے۔ ایک بڑے معرکے سے دوچار لوگوں کو‘ چند سو صفحات پر مشتمل یہ تحریریں پڑھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ استعمار کی دنیاوی کامیابی اور دنیا بھر میں اُمت مسلمہ کی بے کسی کا سبب کیا ہے؟اس مطالعے سے قاری کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس تسلّط اورجال کو توڑنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
مولانا مودودی ؒ نے خطبات کے ایک حصے حقیقت جہاد میں یہ بڑی پتے کی بات تحریر فرمائی ہے کہ: ’’حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔ اور یہ تقریر انھوں نے ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ کی تھی جب ہندستان غیرمنقسم تھا اور پاکستان کا وجود نہیں تھا۔ برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ تب انھوں نے فرمایا اگر اقتدار اور اختیار کے سرچشموں پر خدا کے باغی‘ خائن اور انسانیت کے دشمن لوگ بیٹھے ہوں گے تو انسانیت کبھی سکون اور عدل سے ہم کنار نہیں ہوپائے گی۔ اسی لیے آج حالات جس قدر خراب ہیں‘ ان میں کھلے عام‘ افہام و تفہیم سے‘ دلیل اور اجتماعیت سے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ مسلم دنیا میں حکومتی مناصب پر فائز لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ وہ دنیاوی طاقتوں کا ڈر اور خوف دل سے نکال دیں۔ ڈر اور خوف تو صرف مالکِ حقیقی کا ہونا چاہیے۔
مولانا مودودی نے اس کے لیے خفیہ کام کرنے سے منع فرمایا کہ خفیہ تنظیمیں اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتیں اور دنیا بھر کا بوجھ اُن پر ڈال دیا جائے تو وہ اس کی وضاحت تک کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔ مولانا نے تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے ہمیشہ منع فرمایا اور جماعت کا دستور انھی کی رہنمائی میں بنا جس نے پُرتشدد کارروائی کے لیے جماعت کے دروازے بند کر دیے۔ اس لیے ردعمل کی سیاست‘ تشدد کے عمل اور تشدد کی طرف داری سے بچنا تحریک کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مولانا مودودی نے پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس رباط (۱۹۶۹ئ) میں مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بطور لائحہ عمل جو رہنمائی دی تھی‘ اسے آج کی اسلامی تحریکات اپنے اپنے پلیٹ فارم سے اس طرح اُٹھائیں کہ ان کی قومی حکومتوں کو اس پر عمل درآمد کی راہیں سوچنی پڑیں۔
اقتصادی تعاون‘ باہم ویزے میں نرمی‘ میڈیا کی سطح پر تعاون‘ مشترکہ دفاع‘ قومی وسائل پر کنٹرول‘ تعلیمی پروگراموں میں باہم تبادلہ‘ ان سب پہلوئوں پر اپنے ملکوں اور ان کے قائدین کو تعاون کے لیے اُبھارنا چاہیے۔
مزید یہ کہ ایک ماڈل اسلامی دستور کا ڈھانچا تمام ممالک کے لیے بناکر پیش کرنا چاہیے جس میں بالکل بنیادی نکات ہوں۔ اور پھر اس کی روشنی میں ہر ملک کا تفصیلی دستور تجویز کرنا چاہیے۔ بظاہر یہ ایک علمی یا اکیڈمک قسم کی کاوش ہے‘ لیکن میرے نزدیک ایسی دستاویزات ایک بڑے انقلاب اور ہمہ گیر تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔
مولانا مودودی نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد چھوٹی بڑی ضروریات زندگی کا سوال نہیں اٹھایا تھا بلکہ اس ریاست کے عقیدے‘ مقاصد اور اہداف کا سوال اٹھایا تھا۔ آج اندازہ ہوتا ہے کہ چند سطروں کی ’قرارداد مقاصد’ اور پھر ’علما کے ۲۲ نکات‘ پاکستان کی ریاست کے دستور اور قانون سازی کی تاریخ میں کتنی اہم اور اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان دونوں دستاویزات کی تیاری اور منظوری میں‘ مولانا مودودی نے جو کلیدی رول ادا کیا‘ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے۔
علم اور عمل‘ ایمان اور جستجو‘ مولانا مودودی مرحوم و مغفور کی تمام تر جدوجہد کا محور تھے۔ آج ہمیں نہ صرف اہلِ وطن بلکہ پوری اُمت کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔