جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کی آمد پہلی صدی ہجری ہی میں ہو گئی تھی۔ محمد بن قاسم دورِ اموی (۴۰ - ۱۳۲ئ) ہی کی یادگار تھے۔ غزنوی، غوری اور خلجی ادوار میں صوفیاے کرام نے دعوت و تبلیغ کی شمع روشن کیے رکھی، جن کی کوششوں سے ہزاروں افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ سولھویں صدی عیسوی (۹۳۱ھ) میں مغلیہ دور بادشاہت کا آغاز ہوا، لیکن اپنی اٹھان کے ساتھ ہی دین الٰہی کے فتنے سے دوچار ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کے مقابلے کے لیے ایک ہستی کا انتخاب کیا، جو تاریخ میں مجدد الف ثانی ؒ (۱۵۶۴ء - ۱۶۲۴ئ) کے نام سے مشہور ہے۔ اگر اس فتنے کا بروقت مقابلہ نہ کیا جاتا تو آج اس علاقے کے مسلمانوں کی شاید یہ صورت بھی نہ ہوتی اور وہ اپنے تشخص سے کلی طور پر محروم ہوجاتے۔ مجدد صاحب کے انتقال کے لگ بھگ ۸۰ سال بعد مغلیہ سلطنت کے دورِ زوال میں، کمال حاصل کرنے والی ایک اور ہستی منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی اور یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۷۰۳ء - ۱۷۶۳ئ) کی ذاتِ گرامی تھی۔
شاہ ولی ؒاللہ ۱۷۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ان کے ٹھیک ۲۰۰سال بعد ۱۹۰۳ء میں‘ آج سے ٹھیک ۱۰۰ سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک اور ہستی کا انتخاب کیا، جس سے نئی دنیا اور نئے حالات میں تجدید و اقامت دین کا ایک منفرد کارنامہ مطلوب تھا۔ یہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکی ذاتِ والا صفات تھی۔
مجددین کی تاریخ اور ان کے عظیم الشان کارناموں پر نظر ڈالیے۔ معلوم ہوگا کہ اپنے اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق انھیں راہ عمل اختیار کرنا پڑی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بن مروان بن حکم (۱۰۱ھ) کے پیشِ نظر اموی خلافت کی اصلاح تھی۔ ان سے پہلے خلافت کو ملوکیت سے بچانے کے لیے بعض متدین ہستیوں نے سیاسی محاذ پر اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھی، جن میں امام حسینؓ (۶۱ھ)، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ (۷۳ھ) حضرت زید بن علی بن امام حسین بن علیؓ (۱۲۲ھ) اور حضرت محمدبن عبداللہ بن حسن بن امام حسن بن علی (۱۴۵ھ) المعروف بالنفس الزکیہ کے نام نامی قابلِ ذکر ہیں۔
شاہ ولی ؒاللہ صاحب کی ولادت کے تین سال بعد ہی اورنگ زیب عالم گیر کا ۱۷۰۷ء میں انتقال ہوگیا۔ شاہ صاحب نے مغلیہ دور کی یہ سات حکومتیں دیکھیں: ۱- بہادر شاہ اول، جو شیعہ ہو چکے تھے۔ ۲- جہاندار شاہ، ۳- فرخ سیئر، ۴۔ محمد شاہ رنگیلے کا ۲۹ سالہ دور، ۵۔ احمد شاہ، ۶- عالم گیر ثانی اور، ۷۔شاہ عالم ثانی کا دور۔
برعظیم پاک و ہند کے مسلمان، شاہ ولی ؒاللہ صاحب کے احسانات سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ آپ کی عالی ظرفی، آپ کا سیاسی شعور‘ احکام شریعت کی حکمتوں پر آپ کی نظر، مغلیہ دور کی خرابیوں کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ، علم حدیث سے بے پناہ شغف، فقہی مسائل میں اقرب الی الکتاب والسنہ کی جستجو، غرض بے پناہ پہلو ہیں، جن کی وجہ سے آپ بجا طور ’امام الہند‘ کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ شاہ صاحب کا انتقال ۱۷۶۳ء میں ہوا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ولادت (۱۹۰۳ئ) تک یہ عرصہ ۱۴۰ سالوں پر محیط ہے۔
مولانا مودودیؒ کے کارناموں کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہو گا کہ ان ۱۴۰ سالوں میں مسلمان کس قسم کے حالات سے دوچار ہوتے رہے؟ اس اثنا میں کون سے اہم لوگ پیدا ہوئے؟ کون سی تحریکیں برپا ہوئیں اور کون سے رجحانات مسلم فکر پر اپنے اثرات مرتب کرتے رہے؟
۱۷۶۴ء میں مسلمانوں نے انگریزوں سے شکست کھا کر معاہدہ کر لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا گیا۔ اکبر شاہ ثانی کا ۳۱ سالہ دور حکومت اور ان کے فرزند ارجمند بہادر شاہ ظفر کا ۲۰سالہ دور عملاً انگریزوں کی عمل داری سے عبارت ہے۔ ۱۸۵۷ء میں یہ رہی سہی حکومت بھی جاتی رہی اور تاجِ برطانیہ کو مکمل بالادستی حاصل ہو گئی اور اس کا ’وائس رائے‘ نظام حکومت چلانے لگا۔ ۱۸۵۸ء سے ۱۹۴۷ء کا یہ پُر آشوب ۹۰ سالہ دور اپنے اندر فتح و شکست، سپردگی و استقامت، محکومیت اور بیرونی تسلط کے خلاف جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ رکھتا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے سانحے کے بعد، مسلمانوں کی قیادت نے نئے حالات میں مقابلے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کی۔ اس سے پہلے ۱۸۳۱ء میں سید احمد شہیدؒ بریلوی اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کی تحریک بھی سکھوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو چکی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے ٹھیک نو سال بعد ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا اور اس کے ٹھیک ۹سال بعد ۱۸۷۵ء میں علی گڑھ کے اداروں کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر یونی ورسٹی میں تبدیل ہو گئی۔
یہی وہ زمانہ تھا جب اشتراکیت کے نظریات دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ ۱۸۸۳ء میں کارل مارکس کا انتقال ہوگیا۔ لیکن اگلے ۶۰‘۷۰ سال میں اس تحریک نے عالمی اثرات مرتب کیے اور مسلمانوں کی فکر بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی۔
سرسید احمد خان کے جذبۂ تعمیر ملت کو سب نے سراہا، لیکن جب انھوں نے انیسویں صدی کے بعض خام سائنسی نظریات کی بنیاد پر صحیح اسناد پر مشتمل احادیث کا انکار کیا اور جنات اور ملائکہ کی من مانی تاویل و تفسیر بیان کی تو علماے حق کی طرف سے ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سائنس اور جدید علوم سے مرعوبیت کی یہ ایک واضح علامت تھی۔
۱۸۹۴ء میں دارالعلوم ندوۃالعلما کا قیام عمل میں آیا۔ شبلی نعمانی ؒاس کے روح رواں تھے۔ وہ علی گڑھ سے مایوس ہو کر اعظم گڑھ آ چکے تھے۔ شبلی نے تصنیف وتالیف و تحقیق کا نہ صرف خود اعلیٰ معیار قائم کیا، بلکہ لائق شاگردوں کی ایک کھیپ تیار کر دی۔ دارالمصنفین کی کتابوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرایا۔ چنانچہ سیرت البنیؐ، سیرت الصحابہ، سیرت الصحابیات، سیرت التابعین، سیرت الفقہا ، سیرت المحدثینوغیرہ تصنیف کی گئیں۔ ان کتابوں نے لوگوں کو صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ابتدائی جذبوں کو سمجھنے اور بدعتوں سے دور رہنے کا پختہ سبق دیا۔
مولانا مودودی ؒنے ۷۶ سال کی عمر پائی اور ۱۹۷۹ء میں انتقال فرمایا۔ ان کی زندگی کو دو بڑے ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۰۳ء سے ۱۹۴۷ء کا ۴۴ سالہ دور‘ جو قیام پاکستان سے پہلے کے زمانے پر مشتمل ہے‘ اور ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۹ء کا ۳۷ سالہ دور جو قیام پاکستان کے بعد کے زمانے پر محیط ہے۔ پہلے دور میں انھوں نے علمی اور فکری محاذ پر زبردست جہاد کیا اور دوسرے دور میں علمی اور فکری میدان کے علاوہ عملی اور سیاسی میدان میں استقامت کے بلند مینار تعمیر کیے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انھیں قادیانی مسئلہ کی تصنیف پر موت کی سزا سنائی گئی، جس پر بوجوہ عمل در آمد نہ ہوسکا۔ انھیں اپنے مبنی برحق ہونے، رب سے ملاقات کرنے اور اس کی مرضی پر کامل شرح صدر تھا۔ شاعر نے یوں ہی نہیں کہہ دیا ع
سزاے موت سن کر بھی نہ پیشانی پہ بل آیا
مولانا مودودیؒ کی فکر کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے تاریخِ اسلام، تاریخ تجدید، تاریخ اجتہاد اور تاریخ علوم اسلامی کے علاوہ اٹھارھویں‘ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران دنیا میں برپا ہونے والی دیگر تحریکوں کا مطالعہ ضروری ہوگا۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد کے یورپ اور نئی دنیا (امریکہ) کی آبادکاری اور اس کی مادی ترقی اور اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے قیام اور پھر اس کے بعد مارکس اور اینگلز کے نظریات پر مبنی اشتراکی حکومتوں کی تاسیس، سیکولرزم، لبرلزم اور مالتھس کے نظریات کی روشنی میں تحدید نسل (Birth Control) کی تحریک اور عالمِ اسلام پر مغربی استعمار کے نتیجے میں اس کے مضراثرات کا جائزہ لیے بغیر مولانا کو پوری طرح سمجھنا دشوار ہو گا۔
بڑی شخصیتیں روزروز نہیں پیدا ہوتیں۔ مولانا کی بعض کتابوں کے انگریزی تراجم کا دیباچہ خود مولانا نے راست انگریزی میں لکھا ہے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی تحریر کا ملکہ بھی انھیں حاصل تھا۔ خداداد ذہانت اور سخت محنت اور مسلسل جستجو نے ابوالاعلیٰ کو امامِ وقت بنا دیا۔
مولانا عبدالغفار حسن صاحب نے خود مجھے بتایا کہ مولانا مودودی کی اسیری کے بعد جب انھیں قائم مقام امیر مقرر کیا گیا تھا، انھوں نے مولانا کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد ان کے میز کی دراز کھولی تو اس میں ایک مسودہ دیکھا۔ یہ سنن ابی داؤد کے مضامین کا اشاریہ (انڈکس) تھا، جس میں نہ جانے مولانا کو کتنا عرصہ لگا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ آج تک ایسی قیمتی چیزکی اشاعت کا مرحلہ نہیں آیا۔
مولانا مودودیؒ نہ صرف ذہین ہیں، بلکہ جفاکش بھی ہیں۔ ذہین لوگوں کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ نسبتاً کام چور ہوتے ہیں، لیکن جہاں ذہانت اور جفاکشی کا امتزاج ہو جائے، وہاں نورٌ علٰی نورکی کیفیت ہوتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کا کام نہ صرف انسائیکلوپیڈیائی قسم کا ہے، بلکہ قریباً ہر میدان میں وہ بلندیوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔ وہ مفسر ہیں، حدیث میں ان کی نگاہ عمیق ہے۔ متکلم ہیں، داعی اور مبلغ ہیں۔ مصلح ہیں، گہرا سماجی، سیاسی اور معاشی شعور رکھتے ہیں۔ وہ تجدید کے قائل ہیں، تجدد کے نہیں۔ وہ فقیہ ہیں، ان کی عقل، وحی پر مشتمل علم کی تابع ہے۔ ان کی تحریروں میں امام شافعیؒ کی طرح استدلال کی قوت ہوتی ہے، لیکن اعتزال کے عیب سے پاک ہے۔ وہ مؤرخ بھی ہیں اور مزکی بھی۔ مولانا مودودیؒ نے اصولوں اور کلیات میں کہیں مداہنت اور چشم پوشی کا مظاہر نہیں کیا ہے۔ ان کا شمار لاَ یَخَافُونَ لَوْ مَۃَ لاَ ئِمٍ میں ہے۔ وہ حق کے اظہار میں عوامی مقبولیت کے مجروح ہو جانے کی پروا تک نہیں کرتے تھے۔
مولانا مودودیؒ کی تحریروں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو قرآن و سنت کی روشنی میں افراد، اشخاص، نظریات و رجحانات، اداروں اور تحریکوں کو جانچنے، پرکھنے اور تولنے کا تنقیدی شعور عطا کرتی ہیں۔ عقیدت اور احترام کا صحیح شعور فراہم کرتی ہیں۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفاداری کو اولین اہمیت دینے کا سبق سکھاتی ہیں۔ بزرگ اور نیک انسانوں کے درجات کا صحیح تعین کرتی ہیں۔ قرآنی حکم لاتَغْلُوا فِی دِیْنِکُمْ کے مطابق، اسے غلو سے بچاتی ہیں۔ نہ صرف مقابر پرستی، بلکہ اکابر پرستی سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی توحید بہت جامع ہے۔ ان کی تحریریں توحید ذات، توحید اسماء و صفات، توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور تکوینی توحید کے علاوہ توحید حاکمیت اور تشریعی توحید راسخ کرتی ہیں۔ شریعت کی مستقل، پائے دار اور ابدی تعلیمات کو نئے زمانے اور نئے حالات پر منطبق کرنے کا ہنر سکھاتی ہیں۔
حالات کی تبدیلی اور خیالات کی تبدیلی سے بھی ابتدائی تحریروں سے آخری زمانے کی تحریر مختلف ہو جاتی ہے۔ مولانا مودودی ؒکے ہا ں اس قسم کی چیزیں کم، بہت ہی کم ہیں اور بنیادی اصولوں میں تو بالکل نہیں ہیں، البتہ حکمت عملی میں ہیں جو ہر گز عیوب میں شمار نہیں کی جاسکتیں۔
علماے ادب نے واؤ (و) کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں، جیسے عطفیہ، استنافیہ، قسمیہ، حالیہ، زائدہ براے تاکید، بمعنی فاے تعقیب وغیرہ وغیرہ۔ میں نے تفہیم القرآن میں حرف وائو (و) کے ترجمے کا جائزہ لیا تو کھلا کہ مولانا مودودی ؒنے سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل مختلف ترجمے کیے ہیں:
اور، مگر، جب کہ، حالانکہ، درانحالیکہ، رہا، رہی، رہے، بھی، اور پھر، جو، یا، ہی اور جو، لیکن، نیز، اس لیے کہ، البتہ، ورنہ، دوسری طرف، آخرِکار، اسی طرح۔
اس طرح بعض اوقات ’واؤ‘کے ترجمے کو حذف کر دیا ہے، ورنہ عبارت سلیس نہ رہتی‘ جیسے: وکلوا وشربواکا ترجمہ کھائو پیو۔ جو لوگ بلاغت زبان کا ذوق رکھتے ہیں وہ ہر گزبے مزہ نہ ہوں گے اگر ان دو ترجموں کا تقابلی جائزہ لیتے رہیں گے۔ ترجمہ کرنے والوں کے لیے بھی ان دونوں ترجموں میں بہت کچھ رہنمائی ہے ؎
دردِ سر ہوتا ہے‘ بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستان کا سبق یاد کریں
مولانا مودودیؒ کے اس ترجمے نے برعظیم کے مسلمانوں کو خالق کائنات اور اس کے کلام سے جوڑنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سورۃ الممتحنہ کی پہلی آیت کے ترجمے پر غور کیجیے۔ مولانا نے عربی ترتیب کو اردو ترتیب میں یکسر بدل دیا، ورنہ اردو میں تعقید پیدا ہو جاتی۔ اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِھَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآئَ مَرْضَاتِیْ کے ترجمے کو پہلے رکھ دیا، جس کی وجہ سے اردو داں آدمی کے لیے مضمون پانی ہو گیا۔
ہر سورہ کی تفسیر سے پہلے، زمانۂ نزول کے بارے میں تحقیق ملتی ہے، پھر ہر سورہ کے موضوع اورمضمون کی وضاحت۔ مولانا مودودیؒ سورتوں کی تمہید صحیح اور مستند تاریخی واقعات سے اس طرح بیان کرتے ہیں، کہ اس کے مطالعے کے بعد سورہ کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔
مولانا کو اوائل عمری ہی سے مناسبتِ علم حدیث رہی ہے۔ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے جامع ترمذی اور موطا امام مالک کی سند حاصل کی، چنانچہ ساری تفسیر مستند احادیث سے مزین ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی ضعیف یا موضوع حدیث نادانستہ در آئی ہو۔ عبدالوکیل علوی صاحب نے ان تمام احادیث کی تخریج کر کے تفہیم الاحادیث کے نام سے آٹھ جلدوں میں مرتب کر دیا ہے۔
احکام میں بلاتعصب چاروں فقہی مذاہب کی تفصیلات درج کرتے ہیں۔ ہدایہ، المَدَّونہ، الرّسالۃ، کتاب الام، المغنی، بدائع الصنائع، المحلیّٰ، المنہاج، الفقہ علی المذاہب الاربعہ وغیرہ سے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ قاری مختلف مذاہب کے درمیان اصول میں اتحاد اور فروع میں اختلاف رائے کے ساتھ باہمی رواداری اور یکجہتی کا سبق سیکھتا ہے۔
تفہیم القرآن جدید ذہن کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرتی ہے۔ زبان بہت شستہ اور رواں ہے۔ دلّی کا محاورہ ‘انگریزی کے اُن الفاظ کے ساتھ مل کر (جواب اردو میں شامل ہو گئے ہیں) عجیب لطف پیدا کرتا ہے۔
اس تفسیر میں بیسویں صدی کے تمام فتنوں کا رد موجود ہے، جن کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ مولانا کی تنقید بہت سخت ہوتی ہے، لیکن زبان شائستہ۔ ’آپ‘ سے نیچے نہیں آتے۔ اہلِ تشیع کے عقائد پر بہت ہی لطیف انداز میں سوالات اٹھا تے ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے قرآنی قصص کی وضاحت کے لیے یہ مناسب سمجھا کہ بنظرِ خویش ارضِ قرآن کا مشاہدہ کیا جائے۔ چنانچہ ان سے متعلق نہایت مفید نقشے اور فوٹو فراہم کیے گئے ہیں۔ غزوات نبویؐ کے نقشہ جات سے سیرت البنیؐ کے بعض واقعات کا منظر آنکھوں میں سمٹ آتا ہے۔
یہ تفسیر‘ دین کا کلی تصور پیش کرتی ہے۔ فلسفۂ اقتصادیات و عمرانیات کے حوالے سے عدلِ اجتماعی کا جامع تصور۔
اس تفسیر کی سب سے اہم خصوصیت اس کا دعوتی مزاج ہے۔ قوانین شریعت کی حکمتوں کو کھول کر جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام کی حقانیت کا قائل کرتی ہے۔ قرآن و حدیث پر کامل ایمان و ایقان کے ساتھ قاری کو اس دور میں ایک جدید فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل کرنے کے لیے ابھارتی ہے۔
اس تفسیر کی ایک اہم خصوصیت اس کا انڈکس (اشاریہ) ہے۔ دین کے ایک ابتدائی طالب علم کے لیے یہ’ فہرست مضامین‘ نہایت مفید ہے۔ اس کو دیکھ کر اور اس کے ذریعے، تفسیر اور آیاتِ قرآنی کی طرف رجوع کر کے وہ بہت ساری ان غلط فہمیوں کو دور کر سکتے ہیں، جو اس فتنہ پرور دور نے ہمارے ذہن میں پیدا کی ہیں۔ علومِ قرآن سے دل چسپی رکھنے والا ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ، جو مشکل عربی الفاظ اور پرانی عبارتوں سے نابلد ہوتا ہے، اس کے لیے تفہیم القرآن پہلی سیڑھی ہے، اس کے مطالعے کے بعد دیگر تفاسیر کا مطالعہ آسان ہو جاتا ہے۔
میں نے یہ کتاب پڑھی ہے اور بار بار پڑھی ہے بلکہ کئی مرتبہ پڑھانے کی کوشش کی ہے۔ مجھ پر ہر مرتبہ نئے آفاق کا انکشاف ہوتا رہا ہے۔ مجھے جانے پہچانے راستوں میں بھی حیرتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور نہ جانے مستقبل میں کتنے اور نئے مناظر دیکھنے کو ملیں۔ ہر مرتبہ میرے دل سے مولانا مودودیؒ کے لیے دعائیں نکلی ہیں۔ انھوں نے کلامِ الٰہی میں اترنے کے لیے ہمارے سامنے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔
مولانا مودودی ؒکے بعض معاصر علما نے اس کتاب کی بعض عبارتوں پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ اس سے تَعَلّیِ کا پہلو نکلتا ہے کہ قرآن کو بس انھوں ہی نے سمجھا ہے‘ کسی اور نے نہیں۔ مولانا بھی انسان ہی تھے، نبیِ معصوم نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، اور اعلیٰ درجات عطا فرمائے‘ لیکن مقامِ شکر ہے کہ الحمدللہ کسی عالم نے بھی یہ ثابت نہیں کیا کہ ان الفاظ کے جو مختلف مفہوم، مولانا مودودیؒ نے عربی لغت اور عربی محاورے کے مطابق بیان کیے ہیں، وہ صحیح نہیں ہیں۔ ایک بزرگ نے لکھا کہ سورۃ الزخرف کی آیت: ھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰـہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰہٌ ط (۴۳:۸۴)کا جو مفہوم مولانا نے بیان کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے لیکن مقامِ حیرت ہے کہ ان محترم ناقد نے دوسرا متبادل مفہوم بھی نہیں بیان کیا، جو ان کے نزدیک صحیح ہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ نے سیرت النبیؐ کی آخری جلد میں، مولانا مودودیؒ کے برآمد کردہ مفہوم کی تائید کی ہے اگرچہ وہاں مولانا مودودیؒ کا حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ تواردِ تعبیر ہے۔
اس کتاب کی افادیت اور بڑھ جائے گی اگر کوئی صاحب علم اس کی شرح لکھیں۔ ذیلی عنوانات قائم کریں۔ قوسین میں جا بجا انگریزی مترادفات درج کرتے جائیں اور مزید مثالوں کا اضافہ کریں تاکہ درمیانی درجے کے قارئین بھی اس سے استفادہ کر سکیں‘ بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقہ۔
دینی مدارس میں دورۂ تفسیر سے پہلے، امام ابن تیمیہؒ کا مقدمہ التفسیر‘ حضرت شاہ ولی ؒ اللہ کی الفوزالکبیر اور مولانا مودودیؒ کی قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، ان تینوں کتابوں کو سبقاً سبقاً پڑھایا جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے بعض رسائل بھی تفسیر کا طالب علم پڑھ لے تو تعبیر کے چاروں اسکولوں کا احاطہ ہو جائے گا اور وہ بہتر انداز میں قرآن کو سمجھنے کے قابل ہو جائے گا۔
امام غزالی ؒکے تجدیدی کارناموں کی تفصیل اور بعض امور پر نقد ایک عجیب و غریب چیز ہے۔ احیاء العلوم کی احادیث پر کلام کرنا ۳۰ کے عشرے میں انتہائی جرأت مندانہ بات تھی۔ مشہور محدث محمد ناصرالدین البانی ؒ نے اب اس اہم ترین کتاب کی احادیث کی تخریج کر دی ہے، جس نے بلاشبہہ اخلاقیات کی تعمیر و تشکیل میں چھٹی صدی سے ایک موثر کردار ادا کیا ہے۔
امام ابن تیمیہؒ کے کمالات سے اردوداں طبقے کو روشناس کرانے کا سہرا بھی مولانا مودودی ؒہی کے سرہے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ تک امام ابن تیمیہؒ کی کتابوں کی رسائی اخیر عمر میں ہوئی، جس کا اعتراف انھوں نے اپنے خطوط میں کیا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ علم کا سمندر ہیں۔ ایک حلقے نے ان کی بعض تصانیف کا ترجمہ کر کے شائع کیا ہے، لیکن ابھی بہت سے گوشوں سے برعظیم کا عام قاری لاعلم ہے۔ مولانا گوہر رحمنؒ نے اپنی دو آخری تصانیف علوم القرآن (اول و دوم) اور تقلید و اجتہاد میں ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔
تجدید و احیاے دین اسلامی تحریکوں کو اپنی سرگرمیوں اور اپنی حکمت عملی کا بار بار جائزہ لینے اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر نظر ڈالنے اور اعتدال و توازن کی شاہراہ سے ہٹ جانے کے اندیشوں کے بارے میں ہمیشہ رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔ اسلامی خلافت، دراصل اقتدار اور تقویٰ کے امتزاج کا نام ہے۔ ان دونوں کے درمیان جب بھی افتراق ہو گا، دنیاوی (یعنی سیکولر) سیاست اور تصوف کے انتہا پسندانہ رجحانات جنم لیتے رہیں گے۔
۱- فتنہ قومیت کا مقابلہ: بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں یہ فتنہ اٹھا اور علما کی صف سے اٹھا۔ اقبال بھی تڑپ تڑپ گئے۔ انھیں مجبوراً نہ صرف لکھنا پڑا، بلکہ شائع بھی کرنا پڑا ؎
ان تازہ خدائوں میں نیا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
کہا جا رہا تھا، موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ علامہ اقبال ؒ(۱۹۳۸ئ) کی شاعری کو بیسویں صدی کا علم کلام کہا گیا ہے اور صحیح کہا گیا ہے۔ لیکن شاعرانہ رموز‘ تلمیحات اور کنایات پر مشتمل علم کلام سے ، استدلال کی قوت سے لیس تحریر اور قرآن و سنت کے نقلی دلائل کے علاوہ شعور عصر حاضر سے مزین عقل سلیم پر مبنی علم کلام یقینا مختلف ہے۔ یہ سعادت مولانا مودودیؒ کے حصے میں آئی۔ بلاشبہہ وہ بیسویں صدی کے عظیم متکلم ہیں۔
۲- فتنۂ انکار حدیث کا مقابلہ: منکرین حدیث ہر زمانے میں پائے گئے ہیں۔ مولانا مودودی ؒکے دور کے منکر حدیث، اصل میں اشتراکیت سے مرعوب تھے۔ مولانا نے ان کی کھوکھلی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے سب سے پہلے بنیاد پر ضرب لگائی اور خود قرآن سے ثابت کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوا کرتی تھی۔
اس کے بعد ان کے اہم ترین اعتراض : ’قرآن کی طرح سنت کتابی شکل میں محفوظ نہیں ہے‘ کا بہت ہی تفصیل سے جواب دیا کہ سنت ایک لمحے کے لیے بھی امت مسلمہ سے غائب نہیں ہوئی۔ صحابہ کرامؓ اس پر عامل رہے۔ اسے مختلف ممالک اور مختلف شہروں میں رائج کرتے رہے۔ قاضی اور مفتی اس کے مطابق فیصلے کرتے رہے۔ تابعین اور تبع تابعین اس کے ناقل، عامل اور مبلغ رہے۔ فقہا نے اس کی اساس پر قانون و فقہ کی تدوین کی اور محدثین نے ان گہرپاروں کو مختلف ملکوں‘ شہروں اور قبیلوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کتابی شکل میں محفوظ کر دیا۔ پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے تمام جزوی اعتراضات کے مسکت جوابات دیے۔ سنت کی آئینی حیثیت اور رسائل و مسائل میں اس موضوع پر مباحث کا بغور جائزہ لیجیے۔ آپ پر یہ بات روشن ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ یہ کتنا عظیم کارنامہ ہے۔
۳- فتنۂ قادیان کا مقابلہ: اس فتنے کے مقابلے میں بلاشبہہ ہزاروں علما نے بھی جرأت و استقامت سے جدوجہد کی۔ لیکن مولانا نے اپنے مخصوص استدلالی انداز میں اس فتنے کا تعاقب کیا۔
نبیِ کاذب اور ان کے خانوادے کی اخلاقی برائیوں اور پستیوں سے قطع نظر، مولانا نے اپنی توجہ صرف اس بات پر مرکوز کیے رکھی کہ کیا رسول ؐ کے بعد کوئی نبی یا رسول ہو سکتا ہے یا نہیں؟ سورۃالاحزاب کا ضمیمہ دیکھ لیجیے، ۱۴۰۰ سال کے علما‘ فقہا‘ محدثین و مفسرین کے اقوال نقل کر کے قرآنی الفاظ خاتم النبیینکی تاویل و تعبیر پر اُمت ِمسلمہ کا اجماع ثابت کیا۔
علاوہ ازیں خود مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں کو نقل کر کے ثابت کیا کہ یہ کس درجے کی حامل ہیں اور کلام نبوت سے ایسے فرد کو کوئی علاقہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات سمجھنے میں آپ دشواری محسوس کریں تو ذرا اس موضوع پر لکھی جانے والی بے شمار تحریروں کا مطالعہ کیجیے اور پھر مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو دیکھیے‘ آپ ہمارے موقف سے اختلاف کی گنجایش نہ پا سکیں گے۔
۴- اسلام کی غیر معذرت خواہانہ تشریح: اللہ تعالیٰ جب کسی شخص سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے ابتدا ہی میں ایسے اسباب فراہم کر دیتا ہے کہ وہ اپنی منزل کی طرف بآسانی گامزن ہو جائے۔
آج سے ۹۰- ۱۰۰ سال پہلے کے زمانے کو چشمِ تصور سے دیکھیے۔ تعلیم کے کیا مواقع حاصل تھے۔ ایک انتہائی ذہین و فہیم لڑکا جو عام لڑکوں سے بہت ممتاز ہے، کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چیزیں پڑھ کر ہضم کر لینا چاہتا ہے۔ لائبریریوں کو دماغ میں اتار لینا چاہتا ہے۔ مسلسل آگے پڑھنا چاہتا ہے۔ مختلف علما سے مل کر خصوصی وقت حاصل کرتا ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر ان کے گھر پہنچ جاتا ہے اور یکے بعد دیگرے ان سے کتب پڑھتا چلا جاتا ہے۔
۱۹۱۴ء میں اس لڑکے کی عمر صرف ۱۱ سال تھی، مولوی کا امتحان پاس کر لیتا ہے۔ انگریزی زبان سیکھنے کی لگن اسے مولوی محمد فاضل مرحوم کے پاس لے جاتی ہے۔ دلّی میں مولانا عبدالسلام نیازیؒ سے استفادے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ، تاریخ، ادب، سیاست، فلسفہ، تنقید، ثقافت وغیرہ وغیرہ کتنے ہی علوم ہیں، جنھیں وہ پانی کی طرح پی جانا چاہتا ہے۔
الجہاد فی الاسلام مولانا مودودیؒ کی پہلی کتاب ہے جو شائع تو ۱۹۲۷ء میں ہوئی جب مولانا صرف ۲۴ سال کے تھے لیکن ذرا اس کتاب کا پس منظر دیکھیے۔ وہ گیتا، رامائن، مہابھارت وغیرہ اچھی طرح پڑھ چکے تھے۔ بائیبل اور تلمود کا مطالعہ ہو چکا تھا۔ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی کے ہاں جامع ترمذی اور موطا امام مالک کے درس کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔
۱۹۲۳ء میں۱۹ سال کی عمر میں یہ نوجوان جمعیت علماے ہند کے اخبار الجمیعۃ کا مدیر بنادیا جاتا ہے۔ کیا ۱۸‘۱۹ برس کا نو عمر لڑکا، اتنے بڑے علما کے اخبار میں کسی حادثے کے نتیجے میں مدیر بن گیا تھا؟ ایسا حادثہ تو دو چار ماہ کے لیے گوارا کیا جا سکتا ہے، تین چار سال تک یہ ذمہ داری دینا ناممکن بات ہے۔ یہ نوجوان پہلی جنگ عظیم کی ہولناکیوں سے بخوبی واقف ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی تحریک ریشمی رومال اور مولانا محمد علی جوہرؒ اور تحریک خلافت کے نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ۱۹۲۶ء میں ۲۳ سال کی عمر میں دارالعلوم فتح پور دہلی سے سندِ فراغت حاصل کر لیتا ہے۔
ذرا الجہاد فی الاسلام کے اوراق پر نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ یہ نوجوان قرآن سے کیسے استدلال کرتا ہے، فضائل و ترغیب کے علاوہ فرضیت و مشروعیت کے لیے کیسے مستند احادیث نقل کرتا چلاجاتا ہے؟ دوسرے مذاہب سے قانونِ صلح و جنگ کے اقوال کس طرح نقل کرتا ہے۔ لیکن یہ نوجوان ایک جگہ بھی اسلام پر شرمندہ نہیں ہے، نہ قرآن سے شرمندہ، نہ احادیث سے شرمندہ‘ بلکہ وہ اسلام کو من و عن پیش کرتا ہے، غیر معذرت خواہانہ انداز میں - اور پھر بتاتا ہے کہ جہاد، انسانیت کے لیے رحمت ہے، شرپسندوں کی سرکوبی اور عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔ اللہ کے نبیوں، رسولوں اور رباَّنِیُّون کی سنت ہے۔
یہ ابتدائی عزم، یہ حوصلہ، یہ جرأت، یہ بے خوفی اور یہ غیر معذرتی انداز، اللہ کے فضل و کرم سے آخری سانس تک قائم رہا۔ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا، کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی طرف سے اس عظیم خدمت کو قبول فرمائے۔
۵- اشتراکی فتنے کا مقابلہ: پچھلے مجدّدین کے ادوار میں یونانی فلسفے کا مقابلہ درپیش تھا۔ مولانا مودودیؒ کا دور استعماریت، اشتراکیت اور سرمایہ داری کا دور تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں اشتراکی نظریات منظر عام پر آئے۔ ۱۸۴۸ء میں اشتراکی منشور منظور ہوا۔ ۱۸۸۳ء میں کارل مارکس جو ایک جرمن یہودی تھا انتقال کر گیا۔ لیکن اگلے ۶۰‘ ۷۰ سال میں انھی نظریات پر مبنی دوبڑی سلطنتیں معرض وجود میں آگئیں۔ ۱۹۱۷ء میں روس میں اشتراکی انقلاب برپا ہو۔ ۱۹۳۴ء میں چین کے اندر مائوزے تنگ نے ’طویل مارچ‘ کیا۔ ہندستان میں بھی اس تحریک نے جڑ پکڑی، جس کی تائید میں ناول لکھے گئے اور نظمیں تخلیق ہوئیں، ترانے گائے گئے اور ڈرامے سٹیج ہوئے۔ ۱۹۳۵ء میں سجاد ظہیر نے ’’ترقی پسند تحریک‘‘ کی بنیاد رکھی اور ۱۹۳۶ء میں ’’انجمن ترقی پسندمصنفین‘‘ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ اس سیلاب بلا خیز کی نذر علما بھی ہونے لگے۔ مولانا عبیداﷲ سندھی مرحوم و مغفور، شاہ ولی ؒ اللہ صاحب کا نام لے کر روس سے واپسی کے بعد ہندستانی قومیت، اشتراکیت اور اسلام کا ملغوبہ بنا کر معجون ِ مرکب کی طرح پیش کرنے لگے۔ ایک اور
صاحب ِعلم کا خیال تھا کہ موجودہ زمانے میں اشتراکیت اور اسلام کے امتزاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
علی گڑھ جیسی جگہ میں اس کے اثرات بہت تیزی سے پھیلے۔ اسلام اور اسلامی شعائر کا کھلے عام مذاق اڑایا جانے لگا۔ بعض علما بھی یہ سمجھنے لگے کہ: آخر اسلام کے اعتقادی تصورات اور نظام عبادت سے اشتراکیت کے اقتصادی تصورات کی کیا لڑائی ہے؟ مولانا مودودیؒ اس فتنے کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔ قرآن کی معاشی تعلیمات پر مبنی کتاب لکھی۔ چن چن کر احادیث سے وضاحت کی کہ اسلام کا اپنا اقتصادی نظام ہے۔ اسلام شخصی ملکیت کا حق دیتا ہے اور حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسان سے اس کی یہ آزادی چھین لے۔
۶- سرمایہ داری اورسود کے فتنے کا خاتمہ: اشتراکیوں نے مولانا مودودی ؒکے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا۔ ان کا شمار ’’دائیں بازو‘‘ میں کیا۔ امریکہ کا ایجنٹ کہا گیا۔ لیکن اسلام کا یہ سپاہی نہ اشتراکیت کا اسیر تھا اور نہ سرمایہ داری کا پابند۔ وہ خالص اور ٹھیٹھ اسلام کا قائل تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اسلام ایک مکمل خدائی نظام ہے، اور یہ کسی خارجی انسانی پیوندکاری کا محتاج نہیں۔ یہ وحی پر مشتمل تعلیمات پر قائم ہے۔ ان کی کتاب سود کے مباحث کا جائزہ لیجیے، جو تقسیم ہند کے وقت لکھی گئی۔
آج دنیا میں جہاں کہیں غیر سودی بنک کاری کی بات ہو رہی ہے‘ اس ڈور کے سرے مولانا مودودیؒ سے مل جاتے ہیں۔ مولانا کی فکر سے متاثر افراد نے ان جیسے عزم و اعتماد کو اختیار کرتے ہوئے اس طاغوتی اقتصادی نظام کے خلاف علم جہاد بلند کیے رکھا‘ اور غیر سودی نظام کے قیام کے لیے بنک کاروں اور مسلم سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا، اور ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی وغیرہ کانام بطور ہراول دستہ لیا جاسکتا ہے ؎
گرمدعی حسد سے نہ دے داد، تو نہ دے
آتش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
۷- اسلامی نظام تعلیم کے خدوخال کی وضاحت: نظام تعلیم کے حوالے سے بھی مولانا مودودیؒ کی فکر زیادہ گہری اور زیادہ عمیق ہے۔ وہ تمام اسلامی اور اقتصادی علوم کے علاوہ سائنسی علوم کو بھی اسلام میں رنگ دینا چاہتے ہیں۔ مولانا مودودی کی فکر، سرسید احمد خان کی فکر سے بہت مختلف ہے۔ پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم اور نام نہاد ’اسلامی سکول‘ دراصل سرسید ہی کی فکر کی عملی تعبیر ہیں۔ سرسید کے تعلیمی ڈھانچے میں دینیات اور جدید علوم الگ الگ رہتے ہیں، ملتے نہیں۔ آیت قرآنی: بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لاَّ یَبْـغِـیٰنِ o ( الرحمٰن۵۵:۲۰)‘ کے مصداق یہ دو دریا ہیں، جن کے درمیان ایک آڑ ہے۔ دینیات کا پروفیسر سود کو حرام بتاتا ہے‘ اور معاشیات کا پروفیسر کہتا ہے کہ اس کے بغیر دنیا نہیں چل سکتی۔ اسلامیات کا استاد کہتا ہے تم آدمؑ کی اولاد ہو‘ اور حیاتیات (بیالوجی) کا استاد کہتا ہے کہ تم بندر سے ہو۔ اس تضاد تعلیم کی پروردہ نسل ذہنی انتشار اور افتراق کاشکار رہی ہے۔
مولانا مودودیؒ چاہتے تھے کہ سماجی علوم (سوشل ساینسز) اور طبیعی علوم (فزیکل ساینسز)‘ یعنی فزکس، کیمسٹری، عمرانیات، اقتصادیات،جیالوجی (علم طبقات الارض)، فلکیات اور سائنس کے دیگر شعبوں کی کتابیں قرآن و سنت کی روشنی میں لکھی جائیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے، احادیث وحی خفی پر مشتمل ہیں۔ کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور سائنس حقیقت کی تلاش میں سفر پیہم کا نام ہے۔ کائنات کی تحقیق و جستجو کا مسافر ان تمام میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ کائنات فہمی سے قرآن فہمی میں اور قرآن فہمی سے کائنات فہمی میں مدد ملتی ہے۔ ان میں باہمی اختلاف ناممکن ہے اور بالفرض کہیں اس کا شبہہ بھی وارد ہو جائے تو یہ انسان کی کم فہمی اور کج فہمی اور تطابق کی صلاحیت کے فقدان ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری درسی کتابوں کے مصنف جدید ترین تحقیقات اور انکشافات سے کام لیتے ہوئے ایسی نصابی کتابیں مرتب کریں، جن میں قرآن و سنت کا آمیزہ (blend) ہو۔ طلبہ کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جائے کہ قرآنی حقائق بدل نہیں سکتے اور نہ غلط ثابت کیے جا سکتے ہیں‘ بلکہ سائنس بدلتی رہتی ہے اور اپنے سابقہ موقف سے بار بار رجوع کرتی رہی ہے اور رجوع کرتی رہے گی، اور اس میں اس کی عافیت ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک اصولی شاہراہ قائم کردی ہے۔ اس شاہراہ پر کام کو آگے بڑھانا اس میدان کے ماہرین کا کام ہے۔
۸- تصوف پر جامع تنقید اور اس کی اصلاح: تصوف پر مولانا مودودی ؒنے بہت کم لکھا، لیکن جو کچھ لکھا اس میں تمام اصولی اور بنیادی باتیں آ گئی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کو اس اصطلاح سے کدّ نہیں ہے ؎
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
البتہ وہ صوفیانہ رموز و اشارات سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں۔ احسان، تزکیۂ نفس اور تعلق باللہ کے عنوان سے گہرپارے ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔ اپنے مخالفین، معاصرین، اور معترضین کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ ’احسان‘ کا رہا ہے۔ کسی دینی مسئلے میں مولانا کو جہاں اختلاف کرنا پڑا، وہاں ذاتی باتوں سے ہٹ کر مولانا نے تنقید کی ہے لیکن بات ذاتیات تک پہنچنے لگی تو قلم اور زبان کو روک لیا۔ وہ احسان کے نہ صرف قائل تھے بلکہ صحیح معنوں میں اس پر عامل بھی تھے۔ ان کے بعض قریبی رفقا سے ان کی شب بیداری اور ذکر و تسبیح و مناجات کا انکشاف ہوا ہے‘ وہ ریاکاری سے کوسوں دُور تھے۔
۹- فقہی مسائل میں اعتدال کا رویہ: مولانا مودودیؒ کی فکر کی ایک اہم خصوصیت فقہی مسائل میں اعتدال ہے۔ قدیم مسائل میں وہ تعبیر و تشریح کے اختلاف کو نہ صرف روا رکھتے ہیں‘ بلکہ لوگوں کو تحمل، برداشت اور کشادہ دلی کا مشورہ دیتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں وہ تمام فقہی مسالک کی آرا بلاتعصب نقل کرتے ہیں۔ مجھے شمالی امریکہ میں عربوں اور اخوان المسلمون کے حلقے میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، میں مختلف تفاسیر اور بالخصوص تفہیم القرآن کو پڑھ کر جاتا۔ مجھے وہاں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے برخلاف ہمارے دوسرے ساتھی جو صرف مخصوص قسم کی کتابیں پڑھ کر شریک حلقہ ہوتے انھیں دیگر مسالک و مذاہب کی باتیں نہ صرف حیران بلکہ بہت حد تک پریشان کر دیتیں۔ پانچ پانچ، دس دس دس سال کی رفاقت کے باوجود فکری بُعد دور نہ ہونے پایا۔
مولانا مودودیؒ کا قاری وسیع النظر اور وسیع القلب ہو جاتا ہے، اپنے تنگ فقہی دائرے سے نکل کر اسلام کی آفاقیت اور عالم گیریت میں ضم ہو جاتا ہے۔ بعض فقہی مسائل میں وہ اجتہاد سے کام لیتے، وہ کہتے کہ جب میں تحقیق کرتا ہوں تو اقرب الی الکتاب والسنہ کی پیروی کرتا ہوں اور جب مجھے اس کا وقت اور موقع نہیں ملتا تو مذہب حنفی کا اتباع کرتا ہوں۔ دیکھیے یہ کس قدر مثبت رجحان ہے۔ نہ ہر پرانی چیز کو رد کیا اور نہ تحقیق و اجتہاد کے دروازے کو بند کیا۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے الانصاف میں لکھا ہے کہ چوتھی صدی کے بعد احناف، مالکیہ اور حنابلہ میں مجتہدین فی المذاہب بہت کم پیدا ہوئے‘جب کہ شوافع میں بہت ہوئے اور مسلسل ہوتے رہے، جس کی بنیادی وجہ ان کا علم حدیث سے گہرا شغف اور انہماک تھا۔
برعظیم ہندو پاک کے حنفی علما میں مولانا عبدالحی لکھنویؒ (م: ۱۸۶۶ئ) علامہ انور شاہ کشمیری (م: ۱۹۳۴ئ)، مولانا اشرف علی تھانویؒ (م: ۱۹۴۳ئ) وغیرہ نے دلیل کی قوت کی بنا پر یا مصلحت عامہ کے پیش نظر بعض مسائل میں حنفی مذہب کو ترک کر کے مالکی اور شافعی یا حنبلی مذہب کے مطابق فتوی ٰ دیا ہے‘ یا اپنی ترجیحی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مودودی ؒنے بھی جرابوں پر مسح اور جمع بین الصلاتین جیسے مسائل میں یہی روش اختیار کی ہے۔
جدید مسائل میں مولانا نے نئی راہیں متعین کی ہیں۔ لائوڈ سپیکر ہی کا مسئلہ لیجیے۔ ہندستان کے ایک نہایت ہی قابل احترام اور صاحب علم و تقویٰ بزرگ سے ان کا اختلاف ہوا۔ مولانا نے انتہائی احترام اور کمال درجے کی شائستگی کے ساتھ ان کے ساتھ اختلاف کیا‘ جب کہ ہر دو طرف دلائل قوی اور جذبے صادق تھے۔ لیکن مولانا مودودیؒ کا مؤقف اصح تھا۔ خواتین کے بعض مسائل کے سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مالکیہ کے موقف کو اختیار کیا ہے۔ ذرا مولانا مودودیؒ کی حقوق الزوجین اٹھا کر دیکھیے، ان مظلومات کی کس عمدہ انداز میں دادرسی ہوئی ہے۔
مولانا کے اس منہج کو مولانا کے بعد ملک غلام علی مرحوم نے اپنایا۔ مولانا تقی عثمانی مدظلہ العالی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی بعض مسائل میں حنفی مسلک ترک کر کے دیگر فقہا کی آرا کو ترجیح دی ہے، جنھیں جدید فقہی مسائل اور فقہی مقالات (اول و دوم) میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ مولانا گوہر رحمنؒ نے بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ ان کی کتاب اجتہاد و تقلید کا بغائر مطالعہ کیجیے‘ مولانا مودودی ؒکے اصول منہج سے اتفاق مل جائے گا۔
ہر لمحہ بدلتی ہوئی دنیا میں، جو عالم دین اور مفتی، علوم دینیہ پر مہارت کے باوجود اگر عصر حاضر کے بہتر شعور سے محروم رہے گا تو اس سے جدید فقہی مسائل میں بالخصوص اقتصادی اور طبی معاملات میں امت مسلمہ کی رہنمائی کا کام احسن انداز میں ممکن نہیں ہو گا۔
۱۰- جدید نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے محفوظ رکھنا: مولانا مودودیؒ کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مغربی علوم و افکار اورجدید سائنس اور ٹکنالوجی کی مرعوبیت سے نجات دلائی ہے۔ وہ سائنس اور ٹکنالوجی کو ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، مقصد نہیں۔ پردہ مولانا کی وہ شاہکار تصنیف ہے (جس کے بعض اعداد وشمار اب پرانے ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود) آج بھی جس کے مطالعے کے بعد مغرب زدہ خواتین جن میں ایمان کی رمق اور چنگاری موجود ہے‘ اپنے آپ کو ستر اور حجاب کی برکتوں سے مالا مال کر سکتی ہیں۔ اس کتاب نے کئی زندگیوں کے اندر انقلاب برپا کیا۔
اس کتاب کے دوسرے حصے میں مولانا نے جو ادبی زبان استعمال کی ہے اس پر اردو ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ فتنۂ خوشبو‘ فتنۂ لباس وغیرہ کے عنوان سے جو پیراگراف ہیں، انھیں میں اپنے دوستوں کو بار بار پڑھ کر سناتا ہوں اور کسی مرصع غزل یا مربوط نظم کی طرح داد وصول کرتا ہوں۔ تنقیحات کے مضامین نے تو کتنے ہی باکمال اور خدا ترس بزرگوں کو مولانا کی تحریروں کا شیدا بنا دیا۔
۱۱- دین کا جامع تصور: مولانا مودودیؒ کا ایک اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دین اسلام کو ایک مکمل اور جامع نظام کی حیثیت سے پیش کیا۔ رہبانیت نے اس کو محض عبادات تک محدود کرنے کی کوشش کی اور اشتراکیوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے اس قسم کی ساری گرد صاف کر کے اس کی اصل تصویر دکھا دی۔ قرآن و سنت کی تمام تعلیمات بے کم و کاست پیش کیں، نہ اس سے زیادہ، نہ اس سے کم۔ یہ دین عقائد، احکام، عبادات، معاشرت، معیشت، احکامِ صلح و جنگ، حکومت و فرمانروائی، عدالت و قضا، ا جتماعی عدل، معاملات وغیرہ وغیرہ، غرض ان تمام چیزوں پر محیط ہے، جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے۔ یہ خالقِ کائنات کا تجویز کردہ دین ہے اور اس طرزِ حیات کے علاوہ کوئی اور منہج اسے قابلِ قبول نہیں ہے۔
مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں حضرت ابوبکرؓ کی ثابت قدمی کا اعادہ کرتے ہوئے، دن کے اجالے میں اور بھری دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ میرے جیتے جی اس دین میں کانٹ چھانٹ اور کتربیونت نہیں ہو سکتی (جیسا کہ رسول ؐ کے انتقال کے بعد، بعض اہل ثروت نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا‘ مگر حضرت ابوبکرؓ ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے تھے)۔ اسلام نہ کانٹ چھانٹ پسند کرتا ہے اور نہ پیوندکاری۔ یہ ایک خالص چیز ہے۔ اَلَالِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُط (الزمر ۳۹:۳)’’یاد رکھو کہ اطاعت ِخالص کا سزا وار اﷲ ہی ہے‘‘۔
۱۲- مختلف مکاتب فکر کے علما کو اصولی موقف پر جمع کرنا: اس ناچیز کے خیال میں مولانا مودودیؒ کے کارناموں میں سب سے اہم کارنامہ جس کی آج بھی ہمیں سخت ضرورت اور احتیاج ہے، وہ مختلف المسالک علما کو فروعی اختلافات کے باوجود نفاذِ شریعت اور اقامت دین کے لیے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنا ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر (اگست ۱۹۴۱ئ) میں انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے علما فقہی اور کلامی مسائل میں میری شخصی اور ذاتی رائے کے پابند نہیں ہوں گے، بلکہ وہ اپنی تحقیق و آرا میں آزاد ہوں گے۔
مولانا مودودیؒ کے قلم کی قوت اور تحریر کی تاثیر تھی کہ بے شمار جدید تعلیم یافتہ افراد، جن میں انجینئر، سائنس دان، ڈاکٹر، ماہرین معیشت، قانون دان، ادیب، اساتذہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کتاب و سنت کے وارث علما جیسے l دارالعلوم دیوبند سے: مولانا محمد منظور نعمانی، مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل،مولانا محمد چراغ (گوجرانوالہ) مولانا عامر عثمانی، مولانا معین الدین خٹک‘ مولانا مفتی محمد یوسف وغیرہ،
یہ صلابت فکر اور ترجیحات کا یہ صحیح تعین اور مزاج کا یہ اعتدال علما کو مشترک اور متفق علیہ باتوں پر ڈٹ جانے اور صحابہ کرامؓ کی طرح جزوی اختلافات کے باوجود باہم شیر وشکر ہو جانے اور رواداری کا مظاہرہ کرنے اور دشمنان دین کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اتحاد ملت کا یہ سبق سورۂ آل عمران کا عمود ہے۔ کافروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سورہ میں تین بنیادی ہدایات دی ہیں۔
فروعی اور اجتہادی مسائل میں مولانا مودودیؒ نہ تو خود اپنی ذاتی رائے سے دست بردار ہوتے ہیں، جن کی بنیاد خود ان کی تحقیق ہوتی ہے اور نہ دوسرے علما کو اپنی آرا ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ البتہ اجتماعی امور میں وہ سب کو مشترک موقف اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور خود بھی ہمیشہ اس کے پابند رہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے علما کو یہ سبق دیا ہے کہ وہ باہمی محبت اور احترام کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے اختلاف رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے علما نے جماعت اسلامی میں شامل رہ کر، اپنی تحقیق کی روشنی میں عقیدت اور احترام کے باوجود، غلو سے بچتے ہوئے، مولانا مودودیؒ سے اختلاف کرنے کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کی ہیں۔ یہاں مولانا چراغ ؒ، مولانا معین الدینؒ خٹک، مفتی سیاح الدین کاکاخیلؒ اور مولانا گوہر رحمنؒ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے، اور یہی ہر بڑے عالم اور محقق کے شایانِ شان ہے۔
ہمیں مولانا مودودیؒ سے محبت ہے بلکہ شدید محبت، اور یہ محبت لِلّٰہ ہے، اور ان کی اسلامی خدمات کی وجہ سے ہے۔ وہ ہمارے محسن ہیں، لیکن ان سے زیادہ ہماری وفاداری رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہے، جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے لیے اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور دنیا کے دیگر تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں (متفق علیہ)۔ اور ان سے زیادہ ہماری محبت اپنے خالق اور مالک سے ہے‘ جس کے بارے میں قرآن مجید خبر دیتا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًا لِّلّٰہِط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ خود مولاناؒ نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ مَا قال کو دیکھو، مَنْ قَال کو مت دیکھو۔ ہمیں ہر قسم کے تعصب کو بالاے طاق رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے محکم نصوص اور دلیل کی قوت پر نگاہ رکھنی چاہیے۔
مولانا مودودیؒ اپنے قاری کی تربیت کچھ ایسے انداز میں کرتے ہیں کہ وہ شریعت کے منشا و مزاج کو پا کر‘ اپنی فکر میں مسائل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ لیتا ہے۔ لکیر کے اس طرف وہ مسائل ہیں جن میں تمسّک اور اعتصام لازمی ہے اور دوسری طرف وہ مسائل ہیں جہاں لچک، نرمی، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ ضروری ہوتا ہے۔ اور یہی امت وسط کے اقتصاد و اعتدال کی راہ ہے۔
۱۳- آئینی اور جمہوری راستہ: مولانا مودودیؒ نے عالم اسلام کی تمام اسلامی تحریکوں کو خفیہ جدوجہد کے بجاے آئینی اور جمہوری راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کی دنیا کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ مولانا کا مشورہ کس قدر صحیح اور صائب تھا۔ مغربی دنیا اپنے باطنی حسد کے باوجود آئینی اور جمہوری اسلامی تحریکوں کا راستہ بند کرنے کا کوئی اخلاقی جواز ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسلامی دعوت کو کھلم کھلا اور علی الاعلان ہونا چاہیے، اور یہی انبیا کا منہج ہے۔