اکتوبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

حسن البناؒؒ اور سید مودودیؒ

مامون الھضیبی | اکتوبر ۲۰۰۳ | احیاے اسلام کے قائدین :

Responsive image Responsive image

سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اور مرشدعام حسن البناشہیدؒ قریب قریب کے زمانے میں پیدا ہوئے۔ دونوں ہی کو اللہ تعالیٰ نے کمال کی دینی بصیرت اور اصلاحی میلان عطا فرمایا۔ دونوںزندگی بھر، دعوت و عمل اور تربیت و جہاد کے میدان میں سرگرم عمل رہے، اور اپنے پیچھے ایسا سرمایہ چھوڑ گئے جس پر ہر مسلمان فخر کرتا‘ اور اس میں اپنے لیے راہِ ہدایت اورمثالی نمونہ پاتا ہے۔

دونوں رہنماؤں میںموجودبہت سی مشترک اقدار کی طرح ان کے ممالک مصر و پاکستان کے حالات میں بھی بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک اہم جغرافیائی پوزیشن او رممتاز و مؤثر تہذیبی و سیاسی مقام کے حامل ہیں۔ دونوںممالک کو انگریزی استعمارکا سامنا کرنا پڑا اور دونوں عالمی سازشوں اور داخلی فوجی آمریتوںکا شکار رہے ۔ پھرانھی دو ممالک سے دعوت اسلامی کی روشن شعاعیں پھوٹیں او رانھی دو ملکوں کو دین کے کام میں پیش رو کا مقام حاصل ہوا ‘جو اب بھی حاصل ہے۔

  • ابتدائی زندگی اور دینی رچاؤ: سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ ۱۳۲۱ ھ / ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے‘جب کہ امام حسن البناؒ کی پیدایش اس کے تین برس بعد ۱۳۲۴ ھ/ ۱۹۰۶ ء میں ہوئی۔ دونوں نے اہلِ علم وفضل کے گھرانوں میں پرورش پائی۔ دونوں کی اچھی تربیت اور دینی رہنمائی میں ان کے والد کابڑا ہاتھ رہا۔دونوں کے تزکیہ نفس میں قرآن و سنت کے اصول و قواعد سے ترتیب پانے والی ایک نوعیت کی صوفیانہ تربیت کا بڑا گہرا اثر تھا ۔دونوں ہی نے اوائل عمری ہی سے سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہونا شرو ع کردیا تھا۔

سیدمودودیؒ اہلِ بیت سے منسوب ایک خاندان کے چشم و چراغ تھے۔جس نے پہلے ہرات کی طرف اور پھراپنے جد امجد قطب الدین مودود چشتی ؒ(۵۲۷ ھ) کے زمانے میں ہندستان کی طرف ہجرت کی۔قطب الدینؒؒ سلسلہ چشتیہ کے بڑے بزرگ تھے‘ یہ سلسلہ قرآن و سنت کی پابندی کا خصوصی التزام کرتا ہے۔ ان کے والد سید احمد حسنؒ نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا‘ لیکن تصوف اور عباد ت و زہد کی طرف طبیعی میلان ان پر اکثر غالب آجاتا۔ اسی لیے وہ وکالت کو بہت زیادہ وقت نہ دے پاتے۔ جس مقدمے کو حق و انصاف کے مطابق پاتے صرف اسی کی پیروی کرتے۔ زہد کی اسی فضا میں سیدمودودیؒ نے پرورش پائی۔ ان کی زندگی پر ان کے والد گرامی کا بڑا گہرا اثر تھا۔ وہ ننھے ابو الاعلیٰ کو اپنے ساتھ مسجد لے جاتے اور انھیں اپنے ہم عصر علما کی مجالس میں بٹھاتے‘ قرآن کریم یاد کراتے۔ عربی اور فصیح اردو بولنے کی تعلیم انھیں‘ ان کے والدصاحب نے ہی دی تھی۔وہ ننھے مودودی ؒ کو انبیا ؑ کے قصے‘ اسلامی تاریخ کے سبق آموز واقعات اور ہندستان کی تاریخ کے اہم حادثات بتایا کرتے تھے۔ ابو الاعلیؒ کہتے ہیں:’’ اگر مجھ میں کوئی خراب عادت آجاتی تو وہ مجھ سے چھڑا دیا کرتے۔ ایک دن میں نے اپنے نوکر کے بچے کو مارا تو انھوں نے اسے بلایا اور کہا: ’’جیسے اس نے تمھیں مارا ہے تم بھی اسے مارو۔ اس واقعے نے مجھے ایساسبق سکھایا جو ساری زندگی میرے کام آتا رہا‘‘۔ مدرسہ بھیجنے سے قبل گھر پر ہی ان کی تعلیم کا اہتمام کیا گیا تھااور ان دونوں مراحل میں انھوں نے حصول علم میں اپناتفوق ثابت کیا۔ ابھی عنفوان شباب ہی میں تھے کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔

امام حسن البنا شہیدؒ کے والد حدیث کے بڑے عالم تھے ۔علم حدیث میں ان کی سعی وجہد کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ائمہ اربعہ کی اکثر مسندات کو فقہی ابواب کی ترتیب پر مرتب کیا۔ مسند احمدکی جو شرح انھوں نے کی وہ بہت مشہور ہے۔ حسن البناؒؒ کے و الد انھیں ہمیشہ لائبریری سے استفادے اور علمی مجالس میں شرکت پر ابھارا کرتے۔ جب امام موصوف نے قرآن حکیم کا حفظ ترک کرکے ہائی ا سکول میں داخلہ لیا تو والد صاحب نے بیٹے کے اس فیصلے پر سخت اعتراض کیا‘ اور اسکول میں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت اس وقت دی جب حسن البناؒ ؒ نے وعدہ کرلیا کہ گھر پر حفظ قرآن کی تکمیل کروں گا۔ اسی لیے ابھی نو برس کے نہیں ہوئے تھے کہ آپ نے حفظ مکمل کرلیا۔ حسن البناؒؒکے والد بھی انھیں اپنے ساتھ علما کی مجالس میں لے جایا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں انھیں ان کے والد محترم نے گھڑی سازی اور جلد سازی بھی سکھائی تھی‘ تاکہ مستقبل میں آپ کا سارا انحصار سرکاری نوکری پر ہی نہ ہو(گھڑی سازی کی وجہ سے ہی آپ نے اپنا لقب الساعاتی رکھا تھا)۔

اسی دوران امام حسن البناؒ کو مسنون تصوف سے وا قفیت حاصل ہوئی اور پھر آپ پابندی کے ساتھ سلسلہ حصافیہ کی مجالس میں شریک ہونے اوراس کے اوراد‘ وظائف اور آداب کی پا بندی کرنے لگے۔ آپ نے ان حصافی بھائیوں سے بہت کچھ سیکھا ۔اختلافی مسائل او ر مشتبہ امور سے دُوررہنا‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام کرنا‘ آپ نے یہیں سے سیکھا۔ یہیںسے آپ کی ذات میں علم کی جو ت جا گی اورخیر کے لیے سعی و جہد کا جذبہ پروان چڑھا۔

سید مودودی ؒاور حسن البنا شہیدؒ دونوں کو تحصیل علم سے بے حد لگا ئو تھا۔ حصول علم اور اس پر عمل کے رستے میں رکاوٹ بننے والی ہر چیزکو وہ قربان کردیا کرتے ۔

امام مودودی ؒ نے اد بِ عر بی‘تفسیر و حدیث اور منطق و فلسفہ کی بے شمار کتب کا مطالعہ کیا۔ صرف و نحو اور بلاغت کو درساً درساً سیکھا‘ یہا ں تک کہ عربی میں نابغہ روزگار ہو گئے اور آپ کے زبان و قلم روانی کے ساتھ فصیح زبان لکھنے اور بولنے پر قادر ہوگئے۔آپ نے بعض عربی شہ پاروںکااردو میں ترجمہ بھی کیا۔ اسی طرح آپ نے اپنی ذاتی محنت سے بغیرکسی فا ضل استاد کی نمایاںرہنمائی کے‘ اتنی انگر یزی سیکھ لی کہ علم کے ‘زندگی کے جس شعبے کے با رے میں جتنا چا ہیں پڑ ھ سکیں اور مفید اقتباسا ت کا اردو میں تر جمہ کرسکیں ۔اگرچہ وقت کی کمی نے با قا عدہ تر جمے کی مہلت نہ دی ۔

اما م حسن البناؒ قرأت کے بے حد دلدادہ تھے۔ اللہ نے آپ کو حافظہ بھی بلا کادیا تھا۔ یادداشت ایسی کہ حیرت و استعجاب بھی انگشت بدنداں رہ جا ئیں۔شا ید ہی کبھی کوئی اہم بات آپ کے ذہن سے محو ہوئی ہو۔ جب آپ نے دارالعلوم کالج (بعد میں یہیں سے آپ نے سند فراغت بھی حاصل کی) میںد اخلے کے لیے ٹیسٹ دیا تو اس وقت آپ کو۱۸ ہزار اشعار زبانی یاد تھے۔ آپ اشعار کی صورت میں مختلف عربی علوم وفنون کے متن حفظ کر نے کے بھی بے حد شو قین تھے اوریہ مشغلہ والد گرامی کی اس نصیحت کا اثر تھا کہ:من حفظ المتون حاز الفنون۔ ]جس نے متن کو حفظ کر لیا‘ اس نے سارے فنون جمع کرلیے[ بعد ازاں علوم شرعیہ کی تعلیم کے دورا ن عربی تراجم کے ذریعے مغربی مفکر ین کے خیا لات سے بھی ضروری آگا ہی بہم پہنچا لی تھی ۔

  • سماجی پس منظر اور ابتدائی جد وجہد:دونوںقائدین کا تعلق معا شرے کے متوسط طبقے سے تھا۔ اس طبقے کے افراد کو دولت‘ اختیار اور شہرت اندھا کر دیتی ہے۔ مگر یہ ان کی سلامتی طبع اور ایمانی حرارت تھی کہ ان چیزوں نے انھیںنہ خراب کیا اور نہ تنگ دستی اور غر بت ہی انھیں جھکا سکی‘ بلکہ اس چیز نے ان کو عام لوگوں سے قریب تر ہونے اور امت کے غم اور غربا کے   دکھ درد کے بارے میںحساس تر کر دیا تھا ۔ مزید برآں‘دونوں اصحاب چونکہ صاحبِ علم وفضل خاندانوںسے تعلق ر کھتے تھے‘ اس لیے بخوبی جانتے تھے کہ بارگاہ الٰہی میں کامیابی صرف اتباعِ حق‘ حسن اخلاق اور علم نافع پر خصوصی توجہ دینے میںپوشیدہ ہے۔

دو نو ں ایک اور منفرد قدر مشترک کے بھی حا مل تھے۔ دونوں کواپنی زبان پر عبور ‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ گہری وابستگی ‘عوام کے سا تھ میل جول اوران کی ہدا یت و رہنمائی کے لیے فکر مندی نے وہ دولت و حکمت عطا کی‘ جس سے وہ مشکل تر ین علوم اور عظیم الشان معانی کو بے حد آسان پیرائے اور روشن اسلوب میں پیش کرنے کے قابل بن گئے۔ ان کا طرزِبیان‘ عام خلقِ خدا کے مناسب حال ہوتا جوزبان کی واجبی سمجھ بو جھ ر کھنے وا لوں اورگہرے ادبی نکات پرنظر رکھنے والے لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کرتا۔ یہ خزانہ ان مخاطب لوگوں کے عقل و وجدان کومتوجہ کرکے ضمیر کو متحرک اور نفوس کا تز کیہ کرتا۔ یہ ایک ایسااسلوب بیان تھا جوعلم کی بلندیوں پر فائز لوگوں اور مبتد یوں‘ غرض یہ کہ کسی کے لیے بھی اجنبی نہ ٹھیرا۔

امت مسلمہ کے غموں اور دکھوں کے مداواکے لیے دونوںامام‘ کم عمری ہی میں اجتما عی زندگی کے معاملات میں فعال شرکت کرنے لگے اور انفرادی سعی و جہد پر اجتما عی جدوجہد کو تر جیح دی۔

سید مودودی ؒابھی۱۵ بر س کے تھے کہ بطور صحافی کا م کرنے لگے۔ ۱۹۱۹ ء میں جب ہندستان کے اندر تحریک خلافت کا آغاز ہوا تو سید مو دودی ؒ پورے جذبے کے ساتھ اس تحریک میںشامل ہوگئے ۔ تحر یک کا مقصد‘ خلافت عثمانیہ کی بقا کی جدو جہد اوراس کی گھات میں بیٹھے ہوئے استعماری لشکروں سے اسے بچانا تھا ۔ دشمن ‘اسلام کی سیاسی وحدت کے اس نشان کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا تھا۔ سید مودودیؒ نے اپنے زیر ادارت اخبار اور دیگر کئی اخبارات کے ادارتی صفحات میں خلافت اسلامیہ کا حقیقی نظریہ‘ اس کی ضرورت اوراس کی اصلاح وبقا کی اہمیت پر مضامین لکھ کر اپنے قلم و زبان سے اس تحریک کی اعانت اور مددکی ۔اسی طرح امام مودودیؒ نے ہندو مسلم فسادات کا باربار شکار ہونے والے مسلما نوںکی مدد کے لئے قائم انجمن کے کاموں میں بھی فعا ل شرکت کی۔ ۱۴۵۱ھ/۱۹۳۳ء میں جب ماہ نامہ ترجمان القرآنسید ابو الاعلیٰ مو دودیؒ کے زیرادارت آیا‘ تو آپ نے اس کا ہدف ’’قرآن کی دعو ت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘ ہی مقرر کیا ۔ ابتدا ئی برسوں میں کتنی ہی مشکلات تھیں جو آپ کو اس مجلے کی اشاعت کی خاطربرداشت کرنا پڑیں ۔ مشکلات میں گھرا ترجمان القرآنقریب تھا کہ بند ہی ہو جاتا‘ مگراللہ کی توفیق اورسیدیؒ کے   عزم وہمت کی بدولت رسالے میں استحکام آتا گیا اور اس کی اشاعت آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی۔ آگے چل کر یہی رسالہ ان کے پروگرام اور وژن کے پھیلائو اورتاسیس جماعت اسلامی کے اعلان کے لیے‘ راے عامہ ہموارکر نے کامؤ ثر ترین ذریعہ ثابت ہوا۔

سید مودودی ؒ نے جواں عمری میں بہت سی بلندپایہ کتب تصنیف کیں۔ جن میں پردہ‘ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘ تحریک آزادی ہند اور مسلمان اور دینیات وغیرہ شامل ہیں۔  الجہاد فی الاسلامکی تالیف کے وقت (۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ء میں) ان کی عمرصرف ۲۵برس تھی۔ اس کتاب میںمغربیوں اور ہندوؤں کے اس منفی اور ظالمانہ پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔

یہی مجلہ‘ بے مثل فلسفی شاعر اور عظیم مفکرِ اسلام‘ علامہ محمد اقبالؒ کے ساتھ ان کے مضبوط تعلقات کا باعث بنا۔یہاں تک کہ اقبالؒ نے ۱۳۵۶ھ؍۱۹۳۷ء میں سید مودودی ؒکو لاہور بلالیا‘ تاکہ پوری یکسوئی کیساتھ علمی اور دعوتی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا جاسکے۔ گویا قدرت نے اگلے ہی سال علامہ اقبال ؒ کی وفات (۱۹۳۸ئ) سے پیدا شدہ خلا کو پُر کرنا سید مودودیؒ کے مقدر میں لکھ دیا تھا۔

دوسری طرف امام حسن البناؒ ؒ بھی کم عمری ہی سے اجتماعی جدوجہد کی راہ پر چل پڑے تھے۔  وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے کہ اسکول کی ایک فلاحی تنظیم  جمعیت اخلاق الادبیۃ میں    شامل ہوئے ‘اور بعد ازاں اس کی مجلسِ منتظمہ کے صدر نشین ہوگئے۔اوائل عمری کے اسی مرحلہ میں آپ نے اپنے چند رفقا کے ساتھ مل کر ایک اور تنظیم  جمعیت منع المحرمات بھی قائم کی۔یہ تنظیم امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا کام کرتی۔پھر جب ایلیمنٹری اسکول میں داخل ہوئے تو آپ نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر جمعیت الحصافیۃ الخیریۃ کی بنیاد رکھی اور اس کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔یہ تنظیم اخلاق فاضلہ اپنانے اورمنکرات سے بچنے کی دعوت دیتی۔مصری شہر دمنہور میں آباد عیسائی پادریوں کی مشنری سرگرمیوںکی مزاحمت بھی تنظیم کی سرگرمیوں کا ایک محور تھا۔

مزید تعلیم کے لئے جب قاہرہ منتقل ہوئے توآپ کے ازہری علما کے ساتھ گرما گرم اور طویل مکالمات ہوئے‘ جس کے نتیجے میں ایک رسالہ الفتح کا اجرا عمل میں آیا۔ بعد میںایک تنظیم جمعیت شبان المسلمین بھی قائم کی گئی۔ ۱۹۱۹ء میںجب پورے مصر میں انگریزوں کے قبضے کے خلاف مظاہرے ہوئے تو آپ نے صرف۱۳ برس کی عمر میں ان مظاہروں میں شرکت کی۔

m  صحافت ایک ذریعہ:  جس طرح تمام تر مالی مشکلات کے باوجود سید مودودی ؒ کو ترجمان القرآن جاری رکھنے پر اصرار تھا‘ اسی طرح حسن البنا شہید ؒنے جب  ہفت روزہ اخوان المسلمون جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس ابتدائی اشاعت کے پیسے تک نہ تھے۔لیکن ان کے عزم و ہمت نے مشکل کا حل نکالا اور مجلے کا پہلا شمارہ صرف دو’’ جنیہہ مصری ‘‘کی سرمایہ کاری سے نکلااور دو جنیہہ کی یہ رقم بھی امام حسن البناؒ نے اپنے ایک اخوانی رفیق سے قرض لی تھی۔بعد ازاں یہ مجلہ مسلسل چار برس تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔کہا جا سکتا ہے کہ دونوں داعیوں کے سینوں میں صداے حق کی پکار مچل رہی تھی‘ جوہر صورت لوگوں تک پہنچنے کے لئے کسی راستے کی متلاشی تھی۔

اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت پر دونوں رہنما متفق تھے ‘اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی بے مثال سعی و جہد اور اپنا بہت ساقیمتی وقت صرف کیا۔دونوںپر بسا اوقات ایسا وقت بھی آیا کہ انھیں بیک وقت خود ہی صحافی ومدیراورمنتظم و ہاکر کا کردار ادا کرنا پڑا‘تاکہ اشاعت کا تسلسل برقرار رہ سکے۔اشاعت میں تسلسل کی اہمیت وہی فرد جان سکتاہے‘ جو صحافت کی اثرپذیری سے واقف ہو۔ عالمِ اسلام میں اس کی اہمیت اس لیے بھی دو چند ہوجاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر راے عا مہ کو متاثر کرنے والے ذرائع ابلاغ ‘ٹی وی اور ریڈیو وغیر ہ مکمل سرکاری کنٹرول میں ہوتے ہیں‘ اور حکّامِ وقت‘ اسلامی صحافت کو اپنی راستے کا روڑا سمجھتے ہوئے کام کی اجازت کم ہی دیتے ہیں۔ ذرا سی تنقید بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے اور بندش یا ضبطی کا حکم نامہ آجاتا ہے۔

  • اجتماعی جدوجہد پر اتفاق: دونوں رہنمائوں کا اس پر بھی اتفاق تھا کہ مطلوبہ اصلاح کسی ایک فرد کی ذاتی جدوجہد سے ممکن نہیںاور نہ اصلاح کی اجتماعی کوششیں صرف طبقہ اشرافیہ (elite class) کو ہدف بنا کر کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں‘ بلکہ اس مقصد کے لیے نہایت ضروری ہے کہ یہ کام ایک قومی تحریک کی شکل میں ہو اوربغیر کسی طبقاتی تقسیم کے قوم کے تمام افراد کو اپنا مخاطب بنایا اور خاص و عام‘ سب کو ایک ہی لڑی میں پرویا جائے۔ اس لیے کہ دعوت کا اصل ہدف تو سب لوگوں کو اللہ کی بندگی میں دینا ‘ جہنم کی آگ سے بچانا اور جنت کی کامیابیوں کی جانب گامزن کرنا ہے۔نیز یہ کہ خالق کائنات کا پیغام کسی ایک طبقے اور جماعت کے لیے خاص نہیں‘ بلکہ سب کے لیے عام ہے۔اصلاح کی وہ تما م سابقہ کوششیں جو انفراد ی جدوجہد کی غماز اور امت کے کسی ایک طبقے کو ہدف بنا کر شروع کی گئیں تھیں‘منزل مراد کو نہ پاسکیں‘اور اپنے قائد کی وفات سے حرف غلط کی طرح مٹ کر رہ گئیں۔مصر و ہندکی تاریخ اس طرح کی بہت سی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

امام مودودیؒ اورامام البنا شہیدؒ اگرچہ آپس میںکبھی ملے نہیں تھے اور نہ اُن میں کبھی کوئی رابطہ ہی رہا تھا۔ پھر بھی دونوں کو اس حقیقت کا مکمل ادراک تھا کہ اصلاح کی منزل تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ اور طریقہ ہے اور وہ ایک مجاہد اور ربانی جماعت کی تشکیل کا راستہ ہے۔ ایسی جماعت جو پورے کے پورے دین اسلام کو لے کر اٹھے اور لوگوں تک پہنچائے۔اسی کی طرف دعوت دے‘ اسی کے مطابق لوگوں کی تربیت کرے اور پھر جہاں اور جس قدر قربانی کی ضرورت پڑے‘ اس سے دریغ نہ کرے۔

اس حقیقت کے ادراک میںحسن البنا شہید ؒ کو سبقت کا مقام حاصل ہے۔انھوں نے  بہت پہلے سے ہی اپنے آپ کو اس مقصد کی خاطر تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ ابھی دار العلوم کالج کے طالب علم ہی تھے کہ آپ نے لکھا:’’ میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت یہ ہوگی کہ میں  لوگوں کا ہادی اور معلم بنوں‘‘۔کالج سے فراغت کے بعد آپ نے ۱۹۲۸ء اسماعیلیہ کے مقام پر  اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے مرشد عام قرار پائے۔ اخوان المسلمون کی شاخیں جب مصر اور گرد ونواح کے بہت سے ممالک تک پھیل گئیںتو انھوں نے اپنے ساتھیوں پر واضح کر دیا کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ سچی دعوت کو ابتلا و آزمایش کے ذریعے آزماتاہے اور یہ آزمایش ہی ہے جو مخلصین کو منافقین سے ممیزکر دیتی ہے۔

امام حسن البناؒ نے اسی لمحے کے پیش نظر راستے میں حائل ان رکاوٹوں کو بھی کھول کھول کر واضح کردیا تھا کہ: مسلمانوں کی بڑی تعداد دعوت کی حقیقت سے ناواقف ہوگی ‘ روایتی علماے کرام دین کے حقیقی فہم کو اجنبی نظروں سے دیکھیں گے‘ اور حکمران اور مراعات یافتہ طبقوں کا بغض و عناد بھی آڑے آئے گا ۔تمھیں یہ سب کچھ برداشت کرنا ہو گا اور یہی وقت ہوگا جب تم ابھی اصحابِ دعوت و عزیمت کے رستے پر پہلا قدم رکھ رہے ہوگے۔تم ضرور اس دورِ امتحان و ابتلا میں داخل ہو کر رہو گے‘جہاںپرجلاوطنیاں اور گرفتاریاں ‘ تجارتوں کے خسارے اور نوکریوں سے برطرفی تمھارا پیچھا کرے گی۔ تمھارے گھرو ںکی تلا شیاںلی جا ئیں گی اوریہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کہ تم اچھی طرح آزما نہ لیے جائولیکن ‘اس سب کچھ کے بعد اللہ کا مجاہدین سے مدد اور عمل کرنے والوں سے ثواب اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا وعدہ ہے۔

امام مودودی ؒنے اسی احساس کی تعبیر ایک ایسی مجاہد‘ مومن جماعت کی تشکیل (۲۶اگست ۱۹۴۱ئ)کی صورت میںکی ہے‘ جو تغیر احوال کا ذریعہ بن جا ئے۔ انھوںنے فرمایا: کسی ایک صا لح فرد یا متفرق طور پر بہت سے صالح افراد کے ہونے سے استخلاف فی الارض کا نظام تبدیل نہیںہوسکتاخواہ وہ افراد اپنی جگہ کیسے ہی زبردست اولیا اللہ بلکہ پیغمبر ہی کیوںنہ ہوں۔ اللہ نے استخلاف کے متعلق جتنے وعدے بھی کیے ہیںمنتشر ومنفرد افراد سے نہیں‘بلکہ ایک ایسی جماعت سے کیے ہیںجودنیا میں اپنے آپ کو عملًا خیرِ امت اور امت ِ و سط ثابت کر دے ۔(نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے گروہ کے محض وجود میں آجانے سے ہی نظامِ امامت میںتغیر واقع نہ ہو جائے گا کہ ادھر وہ بنے اُدھر اچانک آسمان سے کچھ فرشتے اتریںاورفساق وفجار کو اقتدار کی گدی سے ہٹاکر انھیںمسند نشین کر دیں) بلکہ اس جماعت کو کفر و فسق کی طاقتوںسے زندگی کے ہر میدان میںہر ہر قدم پرکش مکش اور مجا ہدہ کر نا ہوگا اور امامت ِحق کی راہ میںہر قسم کی قربانیاںدے کر اپنی محبت ِحق اوراہلیت کا ثبوت دینا پڑے گا ۔یہ ایسی شرط ہے جس سے انبیا ؑتک مستثنیٰ نہ رکھے گئے ‘کجاکہ آج کوئی اس سے مستثنیٰ ہو نے کی توقع کرے!

امام مودودی ؒ کا اس ایثار پیشہ ‘اور مجاہد جماعت کی خصوصیات کے بارے میںتصور کیا تھا؟ آپ نے اس کا ذکرہمہ گیریت اور سیلاب کے الفاظ کے ساتھ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ا سلام کو  نظامِ غالب بنانے کی تحریک اس طرح ایک ہمہ گیر سیلاب کی مانند اٹھے جس طرح مغربی تہذیب یہاںسیلاب کی مانند د ر آئی اور زند گی کے تمام شعبوں پرچھاگئی۔ اس ہمہ گیری اور سیلابیت کے بغیر نہ یہ ممکن ہے کہ مغربی تہذیب کو غلبہ اور اقتدار سے بے دخل کیا جا سکے اور نہ یہی ممکن ہے کہ نظام تعلیم‘نظام قانون ‘ نظام معیشت اور نظام سیاست کو بد ل کر ایک دوسرا تمد ن خالص اسلامی بنیادو ں پر قائم کیا جاسکے ۔

m آزمایش کا شعور: پھر جب سید مودودیؒ نے ترجمان القرآن کے ذریعے ہندستان ]یعنی موجودہ: بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان[ کے مخلص مسلمانوں کوتاسیس جماعت کے لیے اجتماع عام کی دعوت دی‘ تو لکھا: ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت ہے۔اس کے لیے ایسے لو گ درکار ہیں جو اس نظریے پر سچا ایمان رکھتے ہوں۔ وہ اس فاسد نظام‘ تہذیب و تمدن و سیاست کے خلاف عملًا بغاوت کر یں اور اس سے اور اس کے پیرووں سے تعلق توڑ لیں۔ان تمام فائدوں‘ لذتوں آسایشوں اور امیدوں کو چھوڑدیںجو اس نظام سے وابستہ ہیں۔انھیں رفتہ رفتہ ان تمام نقصانات ‘ تکلیفوں‘اور مصیبتوںکو بر داشت کرنا ہو گا جو نظام غالب کے خلاف بغاوت کرنے کا لازمی نتیجہ ہیں۔پھر ان کو وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو ایک فاسد نظام کے تسلط کو مٹانے کے لیے اور ایک صحیح نظام قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔اس انقلاب کی جدوجہد میں اپنا مال بھی قربان کرنا ہوگا‘اپنے اوقاتِ عزیز بھی صرف کرنے پڑیں گے‘ اپنے دل و دماغ اور جسم کی ساری قوتوں سے بھی کام لینا پڑے گا‘ اور قید اور جلاوطنی اورضبط اموال اور تباہی اہل و عیال کے خطرات بھی سہنے ہوں گے اور وقت پڑے تو جانیں بھی دینا پڑیں گی ۔ان راہوں سے گذرے بغیر دنیا میں نہ کبھی کوئی انقلاب برپا ہوا ہے اور نہ اب ہوسکتا ہے‘‘۔

۱۳۶۰ھ/ ۱۹۴۱ء میں تاسیسِ جماعت کے بعد جب آپ پہلے امیر منتخب ہوئے تو فرمایا: ’’میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصدِ زندگی ہے۔میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے ۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو‘ بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا ہے اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا‘کوئی ساتھ نہ دے گا تو میںاکیلا چلوں گا۔ساری دنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن ِتنہا اس سے لڑ نے میں بھی باک نہ ہوگا۔‘‘

پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی کیا کہ یہ دونوں رہنما اپنے عہد و پیمان میںایثار و قربانی کی شاہراہ پرا پنے دیگر رفقا سے نہ صرف پیش پیش تھے ‘بلکہ اْن کی ذات دوسروں کے لیے نمونہ اور مثال تھی۔ سیدمودودیؒکئی بارگرفتارکیے گئے بلکہ ایک بار تو پھانسی کی سزا بھی سنادی گئی جو بعد میں عمرقید میںبدل دی گئی۔ آپ (۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۵ء تک)‘ تقریباً ۳ سال قید میں رہے۔ جیل سے نکلے تولوگوںکا جم ِغفیر آپ کو مبارکباد ینے کے لیے جمع تھا۔اس مو قع پر آپ نے کہا:’’عز یزانِ محترم! میرے لیے قید کی سزا غیر متوقع نہیںتھی ۔سچ یہ ہے کہ ۲۲ سال قبل جب سے میںنے اس راہ پر قدم بڑھا یاہے اس وقت سے ہی مجھے ابتلا و آزمایش کے اِن مراحل کا علم تھا ۔ ہم آیندہ بھی علیٰ وجہ البصیرت اسی راہ پر گامزن رہیںگے۔تاریخ ہمیںبتا تی ہے کہ قید و بند کی یہ صعوبتیں اس راستے کا مستقل حصہ ہیں اور مستقبل میںبھی ہمیںان سے سابقہ پیش آتا رہے گا‘‘۔

سیدمودودیؒ اس وقت بھی ایمانی بلند یوں کے اعلیٰ مدارج پر فائز تھے‘ جب ۱۹۶۳ء میںآپ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ سٹیج پر عین اُس وقت گو لیا ںچلا ئی گئیں جب آپ کھڑے تقر یرکر رہے تھے ۔ ایک ساتھی نے کہا: ’’مولا نا بیٹھ جا یئے‘‘۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیںکوئی گولی مولا نا کو نہ لگ جا ئے۔ لیکن آپ ؒؒنے پو رے مو منا نہ ثبا ت کے سا تھ جواب دیا : ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھرکھڑا کو ن رہے گا؟‘‘

حسن البنا شہید ؒ نے بھی قید و بند کا مزا چکھا۔ اللہ نے اُن کے لیے اپنے راستے میں شہادت مقدر کر رکھی تھی۔ آپؒ ۱۹۴۹ء میں قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر‘ مغربی استعمار کے آلۂکار     شاہ فاروق اور انگریز ایجنٹوں کے ہاتھوں‘ صرف ۴۲ برس کی عمر میںشہید کر دیے گئے!

  • تربیت پر زور: دونوں نے ایک ہی چشمہ صافی یعنی وحی ربانی اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اپنی پیاس بجھائی تھی۔ اسی لیے دونوں کی قائم کردہ جماعتوں کے طریق کاراور ارتقائی مراحل میںبھی بے حد مشابہت پائی جاتی ہے۔ان کا ہمیشہ اس بات پر زور رہا کہ مجاہدانہ اوصاف کی حامل یہ جماعت ہمیشہ بنیادی اسلامی ماخذ‘ یعنی قرآن و سنت سے پوری طرح جڑی رہنی چاہیے۔امام مودودی ؒ کہتے ہیں: ’’ہمارا طریقۂ کار‘قرآن اور سیرتِ انبیا علیہم السلام سے ماخوذ ہے‘‘، جب کہ امام حسن البناؒ کہتے ہیں: ہماری کوشش ہے کہ یہ دعو ت بھی اُسی دعوت کی حقیقی باز گشت ہو جس کی صدا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ۱۴۰۰ سال قبل وادی بطحاء میں بلند کی تھی‘‘۔

امام حسن البناؒ نے اچھے کارکن کے لیے مطلوبہ مراتب ِ عمل بھی پوری طرح واضح کر دیے تھے۔ آپ ؒ کے نزدیک’’ کارکن کا اولین ہدف ہر پہلو سے اپنی ذات کی مکمل اصلاح ہے۔ پھر اسلامی اقدار و آداب کی پابندی اورنمایندہ مسلم گھرانے کی تشکیل‘معاشرے کی اصلاح اور راے عامہ کی اسلامی فکر کے ساتھ وابستگی پیدا کرنا اور اجتماعی زندگی کو اسی کے رنگ میں رنگنے کی کو شش کرنا‘نیز غیراسلامی اور اجنبی اقتدار سے وطن کو سیاسی و معاشی و معنوی ہر طرح سے مکمل آزادی دلانا۔ حکومت کی اس طرح اصلاح کرنا کہ وہ حقیقی اسلامی حکو مت بن جائے۔ پھرامت مسلمہ کی عالمی ہیئت کی تشکیل نو‘اور چار دانگ عالم میں اسلام کی دعوت کے پھیلائو کے ذریعے دنیا بھر کی امامت( قیادت) کرنا ‘یہاں تک کہ دین سارے کا سارا اللہ کے لیے خالص ہو جائے‘‘۔

سید مودودیؒ کا راستہ اورسوچ بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ان کی دعوت ِ اصلاح کا مرکز ومحور بھی یہی چارنکات تھے: تطہیروتعمیر افکار‘ تنظیم‘ اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت۔

دونوں قائد اس حقیقت سے باخبر تھے کہ ان عظیم اہداف کا حصول صبر اور استقامت چاہتا ہے۔ اس راستے میںعجلت پسندی اور فتح کے لیے جلدبازی کا کچھ کام نہیں۔اسی لیے عجلت پسند ساتھیوں اورپھل کو پکنے سے پہلے برتنے کے خواہش مند لوگوں سے امام حسن البناؒؒ نے یہ کہا تھا: تمھارے اس راستے کے قدم لکھے جاچکے ہیں اوراس کی حدود متعین ہوچکی ہیں۔ اور میںجس راستے کو منزل تک پہنچنے کا محفوظ ترین راستہ ہونے کی حیثیت سے اختیار کر چکا ہوں‘ اسے کبھی ترک نہیں کرسکتا۔ تم میں سے جو فرد بھی پھل کو پکنے سے پہلے برتنا چاہتا ہو‘یا پھول کو کھلنے سے پہلے توڑنے کا خواہش مند ہو‘ تو میں اس معاملے میں اس کے ساتھ نہیں ہوں۔ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس دعوت کو ترک کرے اوردوسروں کی طرف لوٹ جائے‘‘۔

امام مودودی ؒ نے ان کے بارے میں کہا: ’’ان (جلدباز لوگوں) کے لیے سینے پر گولی کھالینا‘ منظم کام کی بہ نسبت آسان ہے۔ جب وہ ایک ایسے کام کے قابل نہیں ہیں جو مہینوں صبر کا تقاضا کرتا ہو ‘تو ان کے لیے ایک منظم عمل کے تحت چلتے رہنا تو اور بھی دشوار تر ہو گا‘‘۔

یہی وجہ تھی کہ انھوں نے تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اس تربیت میںناگہانی مصائب سے بچائو‘اور طویل سفرکے لیے ضروری توشہ اور راستے کے ہر موڑ پر موجود خطرات سے بچائو کا سامان موجود تھا۔معاشرے کی اصلاح کے داعیے نے ہی انھیںخد مت خلق کے ان کاموں کی جانب متوجہ کیا‘ جن کا مقصد‘ معاشرے میں بھلائی کے بیج بونا اور خصوصی توجہ اور ہمدردی کے ساتھ اسے دین کی جانب مائل کرنا تھا ۔یہ داعیان ِحق‘ لوگوں کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھانا‘ ان کی مشکلات میں سہارا بننا اور ان سے میل جول پیدا کر کے‘ ان کے سامنے نیک نمونہ پیش کر کے اپنا مخاطب بنانا چاہتے تھے۔ مدارس کی تعمیر اور ہسپتالوں کے قیام‘ محتاجوں کی مدد اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی میں دونوں رہنمائوں کی نما یاں کاوشیں شامل رہیں۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی سرگرمیاں عام لوگوں‘ طلبہ‘ مزدوروں‘ عورتوں ٰاور پڑھے لکھے لوگوں کے وسیع حلقوں تک پھیلیں۔

  • استعمار اور اُمت کی کش مکش:  خلافت اسلامیہ کا انہدام عالمی و استعماری سازشوں اور داخلی مکر و فریب کا براہ راست نتیجہ تھا۔عام مسلمانوںپراس سانحے کا بڑا گہرا اثر تھا۔ بہت سے دلوں میں مایوسی گھر کرچکی تھی۔ہم پہلے عرض کر چکے ہیں امام مودودی ؒ نے ہندکے اندر اُس تحریک میں بڑی سرگرمی سے شرکت کی تھی جس کا مقصد‘ سقوط سے قبل خلافت کے بچائو کی تدابیر کرنا تھا‘جب کہ امام حسن البنا ؒ نے اخوان المسلمون کی بنیاد‘سقوط خلافت کے تقریبا چار برس بعد رکھی۔ آپ احیاے خلافت کے بارے میں اکثر غور وخوض کرتے کہ آخر کیا شکل ہوکہ خلافت کا ادارہ اسلام کے سیاسی نظام کا نمایندہ بن کردنیا میں دوبارہ فعال کردار ادا کر نے کے قابل ہوسکے۔

امام حسن البنا ؒکہتے: اخوان یقین رکھتے ہیں کہ خلافت ‘اتحاد اسلامی کی مظہر اور امم اسلامیہ کے باہمی ربط و ارتباط کی علامت ہے ۔ یہ شعائرِ اسلام میں سے ہے ۔ اس لیے اس کے بارے میں غور و فکر مسلمانوں پر واجب ہے۔اسی وجہ سے اخوان المسلمون نے احیاے خلافت کی کوششوںکو اپنے طریقۂ کار میں اولیت دی ہے ۔ ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ احیاے خلافت سے قبل کچھ اور اقدامات ا ٹھانے ضروری ہیں‘ مثلاً امم اسلامیہ کے درمیان باہمی تعاون میں اضافے کی کوششیں کرنااور ایک دوسرے کے ساتھ باہم معاہدات وغیرہ۔ بین الاقوامی کانفرنسوں اور موتمرات کا انعقاد ‘تاکہ    اُمت مسلمہ میں ایک ہونے کا شعور ابھر سکے ۔ ظاہر ہے کہ سیاسی اصلاح کے عمل کا آغاز‘ اپنے اپنے ملکوں میں قائم حکومتوں کی اصلاح سے ہوناتھا اور سب سے بڑی مشکل یہ درپیش تھی کہ دونوں ممالک: مصروپاکستان انگریز کے براہ راست قبضے تلے رہے تھے۔

امام مودودیؒ نے اپنی جوانی ہند میں انگریزی قبضے کی مخالفت کرتے ہوئے گزاری تھی ۔ جب ہندستان آزاد ہوا(۱۹۴۷ئ) توا نھوں نے مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں اپنی جد وجہد جاری رکھی۔ آپ نے پوری شدت کے ساتھ واحداور متحدہ ہندستانی قومیت کاانکار کیا اور اس کے بدلے ‘ مسلمانانِ ہند کی مسلم قومیت کا ساتھ دیا ۔ ان کے نزدیک دارالاسلام کا قیام اگرچہ زمین کے نہایت ہی چھوٹے خطے پرکیوں نہ ہو ‘زیادہ محبوب تھا بہ نسبت اس کے کہ مسلمان۔

جب پاکستان آزاد ہوا تو گو یا یہ سید مودودیؒ کے خوابوں کی تعبیر‘ دار الاسلام تھا ۔اس موقع پر انھوں نے اپنی بے پایاں خوشی کا اظہار اِن الفاظ میں کیا: ’’میں نئی مملکت کو صرف اپنا ملک نہیں کہتا بلکہ یہ اسلام کا وطن ہے۔ ہمیں صدیوں بعد ایک ایسا موقع ملا ہے کہ ہم اللہ کی ریاست کو اس کی حقیقی شکل میں قائم کر سکیں اور پوری دنیاکے سامنے اس دین کے اندر رکھی ہوئی فلاح ونجات کا حقیقی مظاہرہ پیش کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے ‘‘۔ لیکن جلد ہی ان کی توقعات کو اس وقت شدید دھچکا لگا ‘جب آزادی کے ایک ہی سال بعد سیاسی استبداد نے ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ پہلے گورنرجنرل قائد اعظمؒ کی وفات (۱۱ ستمبر ۴۹ئ) کے بعد امام مودودیؒ وہ پہلے سیاسی قیدی (۴اکتوبر ۱۹۴۸ئ) تھے جو کسی پاکستانی جیل میںپابند سلاسل کیے گئے۔ اس عظیم مجاہد نے اپنی بقیہ ساری زندگی پاکستان کو حقیقی اسلامی مملکت بنانے میں صرف کی‘ یعنی ایک ایسی مملکت جہاں اسلامی دستور کی حکمرانی ہو ۔ اسی راستے پر چلنے کی پاداش میں وہ گرفتار کیے گئے اور انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی جو اگرچہ نافذ نہ ہو سکی ۔ اس عظیم مقصد کی خاطرسید مودودیؒ کا جہاد جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا مطالبہ پوری قوم کا مطالبہ بن گیا اور ظالم اپنے جبر اور منہ زوری و سرکشی کے باوجودان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جماعت اسلامی نے ایک محضر نامہ تیار کیا (۱۹۶۳ئ)جس میں عوامی حقوق اور شہری آزادیوں کے مطالبے کے علاوہ یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ: پاکستان کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو اور تمام امور ِمملکت‘ اسلام کی ابدی ہدایات کی روشنی میں انجام دینا ضروری قرار دیا جائے ۔ محضر نامے پر جب قوم سے دستخط حاصل کرنے کی مہم شروع ہوئی تو دستخطی کاغذوں پر مشتمل اس منفرد دستاویز کی طوالت ۱۴ کلومیٹر ہو گئی۔ جب یہ محضرنامہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو حکومت نے ۱۹۶۴ء میں اس کا جواب‘ جماعت کی سر گرمیوں پر پابندی اور سید مودودیؒ اور دیگر ۳۶مرکزی رہنمائوں کی گرفتاری کی صورت میں دیا ۔

حریت وآزادی کے لیے امام حسن البناؒؒ کی جہادی کاوشیں بھی نہایت واضح ‘روشن اور عزم وہمت سے پرُ ہیں ۔آپ نے اخوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

ہمیشہ اس بات کا تذکرہ کیا کرو کہ ہمارے دو بنیادی اہداف ہیں: پہلا یہ کہ وطن اسلامی ہر اجنبی اقتدار سے چھٹکارا پا جائے۔ اس لیے کہ آزادی ہر انسان کا فطری حق ہے اور اس کا انکار‘ ظالم وجابر کے علاوہ اور کوئی نہیں کرتا۔ دوسرا یہ کہ اس ملک میں آزاد اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آ جائے۔ ایسی مملکت جو اسلامی احکامات پر کا ربند اور اس کے اجتماعی نظام کا نفاذ کرنے والی ہو۔ ایک ایسی ریاست جو دین کے ابدی اصولوں کا اعلان کرنے والی اور لوگوں تک اس کی حکیمانہ دعوت پہنچانے والی ہو۔ جب تک یہ مملکت قائم نہیں ہو جاتی‘ سب مسلمان قصور وار اور اپنی کوتاہی پر اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔

امام حسن البناؒؒ نے بہت سے مواقع پر استعمارکے خلاف آواز بلند کی اور مسلمانوں کو جہادپہ ابھارا ۔ ان کے نزدیک عالم اسلام کا ہروہ علاقہ جسے اجنبی اقتدار سے خطرہ ہو‘ میدان جہاد ہے۔ وہ فرمایاکرتے تھے کہ عالمِ اسلام ایک جسم کی مانند اٹوٹ انگ ہے ‘جس کے ٹکڑے نہیں ہو سکتے۔ اس کے کسی بھی ایک حصے پر جارحیت ‘پورے عالم اسلام پر جارحیت کے مترادف ہے۔ اسلام مسلمانو ں پر فرض ٹھیراتا ہے کہ وہ ا پنے خطے اور منطقے کے قائد و رہنما ہوں اور اپنے وطن میں بالادست ہو۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان پر فرض ہے کہ دوسروں کو حلقہ دعوت میں داخل کرنے کے لیے کمر ہمت کس لیں اور اسلام کے جس نور سے انھوں نے ہدایت پائی ہے‘ اس کی طرف دوسروں کی بھی رہنمائی کریں۔ امام حسن البناؒؒ نے عالم اسلام کے خلاف یورپی استعمار کے جرائم گنوانے کے بعد فرمایا:

اسلام اپنے فر ماں بر داروں سے آزادی و حریت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں۔ وہ سرداری اور جہادکو افضل گردانتاہے اگرچہ راہ میں جان و مال ہی کیوں نہ کام آتے ہوں۔غلا مانہ‘ ذلت آمیز اور بندگی کی زندگی سے موت بدرجہا بہتر ہے ۔

اپنے انھی اقوال کی عملی تصویر‘ امام شہید ؒنے جہادِ فلسطین] دیکھیے: اخوان المسلمون فی حرب فلسطین‘ استاذ کامل الشریف[ میں پیش کی ۔اور ان کی شہادت کے بعداس کی دوسری روشن مثال اخوان نے نہرِ سویز کی لڑائی (۱۹۵۶ء )میں انگریزوں کے خلاف قتال میں پیش کی۔ اس معرکے میں اخوان نے جرأت و شجاعت کی وہ مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لیے مثال بنی رہیں گی۔

  • آئینی جدوجہد کا طریقہ:  جہاں تک دستوری او ر قانونی جدو جہد کا تعلق ہے‘ امام البناؒ کے دور ہی میں مصری دستور کے اندر صراحت کر دی گئی تھی کہ مملکت کا سر کاری دین ‘اسلام ہوگا۔ مقتدرہ کے معاملات پہلے سے ہی اس دستورکے تحت چل رہے تھے ۔ مصری دستور ‘عمومی اور خصوصی آزادیوں کے لحاظ سے روحِ اسلام سے متصادم نہیں تھا ۔ البتہ کئی دفعات پرعمل در آمد نہیں ہورہا تھا‘ یا پھر ا س کی کچھ دفعات مبہم تھیں اور ان کی توضیح وتعبیر کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔ اسی لیے امام حسن البناؒ ؒ فر ماتے ہیں:’’ ہماری جدوجہد کا مقصد یہ ہے کہ مصری دستور کی ان  مبہم دفعات کی واضح تشریح کر دی جائے۔ ملک میں دستو ر کا نفاذ یقینی بنا دیا جائے‘‘۔ دستور کے بر عکس حسن البنا شہیدؒ کا قانو ن کے بارے میں نقطۂ نظر بالکل مختلف تھا ۔اس لیے کہ مصری قوانین‘ انسانی عقل و جستجوکا ماحصل تھے اور بہت سی جگہ پر دین کے احکامات سے متصادم تھے ۔ یہ قوانین ایک ایسے نظامِ فکروفلسفہ سے آئے تھے جو صریحاً اسلام مخالف تھا۔ حسن البناؒؒ کہتے ہیں :’’ اخوان المسلمون کبھی بھی اس قانون پر راضی نہ ہوں گے اوراس کی جگہ قانون کے تمام میدانوںمیں اسلامی شرعی قوانین کی ترویج کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنائیں گے‘‘ ۔

قانون اور حکومت سازی کے بارے میں دونوں رہنمائوں کا نقطۂ نظر‘ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں ان کے موقف سے مربوط تھا۔ سید مودودیؒ نے تحریک پاکستان میں فعال کردار ادا کرنے والی جماعت‘ آل انڈیامسلم لیگ کے عمومی طرز عمل اوراور مبہم انداز فکر کے خلاف موقف اختیار کیا ۔حالانکہ فی نفسہ تحریک ِ پاکستان میں اس جماعت کا فعال کردار ہی سید مودودیؒ اور مسلم لیگ کے درمیان واحد مشترکہ اساس تھی۔ دونوں کے مابین محلِ اختلاف ‘ملک کی آزادی کے بعدپاکستان کے مستقبل کے بارے میں مسلم لیگی سوچ تھی۔ مسلم لیگ ملک کو مسلم قومیت کے رنگ میں رنگاہوا دیکھتی تھی اور صرف لیبل اسلام کالگانا چاہتی تھی۔ اس کی قیادت میں با اثرافراد کی مو ثر قوت سیکو لر خیالات کی جانب مائل اور مغرب زدہ تھی ۔ مختلف مناصب پر قابض یہی اقلیت تھی‘ جس نے قیامِ پاکستان کے بعد حکمران بنتے ہی ہر عہد کو توڑنے اور اسلامی ریاست کے ہر تقاضے کو نظرانداز کرنے کی روش اختیار کی‘ اور اسی کے دورِ اقتدار میں سید مود ودیؒ کو سزاے قید وبند کا تحفہ نصیب ہوا۔ اقتدار عملاً سامراج کی تربیت یافتہ سول بیوروکریسی اور فوجی جنتا کے ہاتھ کا کھلونا بن گیا۔

امام حسن البناؒ دورِ استعمار میں قائم ہونے والی مصری سیاسی جماعتوں کو ملکی اور اسلامی مفادات کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے تھے ۔ یہ تمام جماعتیں خا ص حالات کی پیدا وار تھیں اور ان کے قیام کے پیچھے زیادہ ترشخصی مفادات کا رفرما تھے‘ نیز یہ کہ ان کا کوئی نصب العین اور طریقۂ کار بھی نہیں تھا۔پارٹی تعصب کو ابھار کر‘اور ہر جائز و ناجائز طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے اقتدار کی منزل تک پہنچنا ہی ان لوگوں کا اصل ہدف تھا۔ اسی لیے امام حسن البناؒ نے ان سیاسی جماعتوںکی تحلیل کامطالبہ کیااور کہاکہ تمام جماعتوںکو استعمار کے مقابلے اورعوامی بیداری کے لیے ایک ہی جھنڈے تلے اکٹھے ہو جاناچاہیے ۔یقینااسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔لیکن افسوس کہ دونوں کے ممالک کی صورتحال امت کے خوابوں کی سچی تعبیر کی راہ میں حائل ہوگئی ۔

  • مغربی تہذیب پر نظر:مغربی تہذیب کے حوالے سے دونوں کا موقف بے حد مضبوط تھا۔ دونوںکے مطابق تہذیبِ مغرب کی سائنس وٹکنالوجی کے میدان نمایاںپیش رفت سے فائدہ اٹھانے میںکوئی حرج نہیں ‘بلکہ یہ عین اسلامی تعلیمات ہیںجودوسروںسے اخذواکتساب کی دعوت دیتی ہیں ۔اسلام کہتاہے کہ حکمت کی بات جہاںسے ملے حاصل کرو۔ لیکن ان کایہ بھی خیال تھاکہ مغربی تہذیب نے امت مسلمہ کے خلاف بڑے بھیانک جرم کاارتکاب کیاہے ۔اس تہذیب نے اپنے آپ کو اسلام کے متبادل نظام حیات اور نظام فکروفلسفہ کے طور پر پیش کیاہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ امت کے مؤثرافراداس تہذیب کی طرف لپکنے لگے ۔

امام حسن البنا ؒ نے رائے دی: اسلام ہمیںہر اچھی چیز کے حصول کا حکم دیتاہے ‘او ریہ کہ حکمت ودانائی مومن کی گمشدہ متاع ہے‘جہاں پائے حاصل کر لے کہ وہ لوگوںکی بہ نسبت اس متاع کا زیادہ حق دار ہے۔ اس لیے کوئی امر مانع نہیںہے کہ امت مسلمہ کو جہاںسے خیر کی بات ملے ‘اسے حاصل کرلے۔ لہٰذا ہم اوروںکی مفید ایجادات سے استفادہ کریں اور اس کی تطبیق‘ اسلام کے اصولوں‘ اپنے نظام حیات اور قومی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کریں۔

امام مودودیؒ کا اس بارے میںموقف یہ تھاکہ جو کوئی بھی قوت ‘کمال اوربرتری چاہتاہے اسے چاہیے کہ دیگر قوموںسے قوت و ترقی ا ورکمال کے اسباب سیکھ لے اوران کی ذلت و پستی کے اسباب سے پہلو بچالے۔ان قوموں کی غلط ڈگرپر چل کراپنے اصول وضوابط اوراپنی ملت کے حیات بخش اصول ومبادی ہاتھ سے نہ گنوائے ۔

دونوںرہنماؤںنے مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے منفی اثرات سے خبردارکیا ۔امام حسن البناؒ کی رائے میںمغربی تہذیب کی بنیاد دین ودنیاکی دوئی کے نظریے پر قائم ہے۔خاص طورپر یہ کہ اس تہذیب میں ریاست ‘عدالت اور تعلیم کودین سے دُوررکھاگیاہے۔ اس کے ہر ہرپہلو میںمادی سوچ کارفرماہے اوراسی کوترقی وکمال کی میزان تصورکیاگیاہے ۔یہی وجہ ہے اس کے سارے مظاہر‘ محض مادیت پر مبنی ہیں‘جنھوںنے ادیان سماویہ کی تعلیمات اور ان کی بنیادوںکو منہدم کردیاہے ۔اس کے سارے اصول و مبادی‘ دین حنیف کے اُن بنیادی اصولوںسے متناقض ہیں‘جن پر اسلامی تہذیب و تمدن کا مدار ہے ‘ جب کہ اسلام نے مادیت اورروحانیت کاحسین امتزاج قائم کیاہے ۔

امام حسن البناؒ نے شک والحاداور انکارِروح و آخرت کے اثرات ‘ اباحیت پسندی‘ لذت پرستی‘ گانے بجانے کے جنون اوردنیاوی چیزوںکی بے محابا چاہت کے افراد ‘طبقات اور قوموںپر پڑنے والے اثرات بد سے آگاہ کیا ۔سودی کاروبار کی ریل پیل اور اس کے خود مغرب اور عالم اسلام پر پڑنے والے مضر اثرات کے بارے میں بھی بتا یا۔دونوں کی تعلیمی و ثقافتی جنگ کے بارے میں  آگاہ کرتے ہوئے امامؒ نے فرمایا: ’’بعض مسلمان اقوام مغربی تہذیب سے بہت زیادہ مرعوب ہیں اور اپنی اسلامی شناخت سے بے حد نالاں‘جیسے ترکی اور مصر۔ ان دونوں ممالک میں اسلامی فکر کا  سایہ روز بروز سکڑتا جا رہا ہے‘ اور اب اسے اجتماعی زندگی کے تمام میدانوںسے نکال کر مسجد ‘ زاویہ اور خانقاہ و تکیہ تک محدود کر دیاگیاہے‘‘۔

امام مودودی ؒنے بھی مغربی تہذیب کی فلسفیانہ بنیادوںسے بحث کی ہے ۔اور کہاہے کہ ہیگل نے اس دنیا کو ایک اکھاڑا بنایا تو چارلس ڈارون نے فطرت کو میدانِ جنگ سے تشبیہہ دی۔ پھر کارل مارکس کادور دورہ ہواتو اس نے بھی سوسائٹی کی کچھ ایسی ہی تصویر کشی کی ۔ جہاںتک اخلاق کی بات ہے توتہذیب ِ مغرب میں اس کی بنیاد محض منفعت اندوزی اور لذت پرستی پر قائم ہے ۔پھرامام المودودیؒ نے مسلمانوںکو اس تہذیب سے لاحق خطرات کے بارے میںبتاتے ہوئے کہا:مسلمانو ںکی مغرب سے سیاسی وعسکری شکست سے بڑھ کر خطرناک ترین بات ان کا تہذیب و ثقافت اور فلسفہ کے سامنے سپر ڈال دینا ہے ۔اس لیے کہ سیاسی غلبے نے تو صرف جسموںپہ غلبہ پایاتھا‘جب کہ اس کے تہذیبی اور فکری غلبے نے دل و دماغ اور سوچ و فکر کا دھار ا ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ استعماری قبضے نے ہمیں عسکری وسیاسی آزادی کا راستہ تو دکھایا ہے‘مگر انگریزی علم واد ب اور  تہذیب وتمد ن نے ہم مسلمانوں کے اندر سے ایسے افراد پیدا کرلیے ہیں ‘جن کے ذہن پوری طرح اس کے قبضے میں ہیں۔یہ لوگ اپنی زندگیوںکو اس طریقے سے ہٹ کر گزارنے کاسوچ بھی نہیںسکتے ‘جس کا نقشہ مغر ب نے ان کے سامنے پیش کیاہے۔

  • اسلامی اخوت و ملی یک جہتی: دونو ںقائدین کے نزدیک دعوت واخوت اسلامیہ کامفہوم عام اور سب کے لیے تھا۔ خطرات کاسامناکرنے کے لیے مومنین کی ایک دوسرے کو مد د دونوںہی کے نزدیک واجب تھی۔ امت کے شکار کے لیے گھا ت میں بیٹھے دشمن کا ‘میدان عمل کی وسعت کے باوجود‘ طریقہ ایک ہی تھا اور اس سے بچائو کی صورت بھی دونوں کے نزدیک ایک ہی تھی ۔ اسی چیز نے دونوں رہنمائوں کواپنے اپنے ملکوںکی داخلی مشکلات کے باوجود‘ عالم اسلام کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے فعال کوششیں کر نے پر مجبور کیا۔دونوںکے نزدیک اسلام وطن بھی تھااور قومیت بھی۔ امام مودودیؒ نے عالم اسلام کے اکثر حصوںکاخود دعوتی سفرکیااور اس کے مسائل کے حل کے لیے فعال جدوجہد کی۔ وہ عالم اسلام کی کئی موثر تنظیموں کے رکن تھے اور ان میںکرداربھی بے حد نمایاں طور پر اداکیا تھا۔ ان کی انتہائی کوشش رہی کہ کسی طرح بنگلہ دیش نہ بنے اور پاکستان دوٹکڑے ہونے سے بچ جائے لیکن علیحدگی پسندی کے رجحانات کے آ گے ان کی پیش نہ چلی۔ان کی جدوجہد کابڑا حصہ‘ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وقف رہا۔ وہ اسے عالم اسلام کاایک مرکزی مسئلہ قرار دیتے تھے جس کاحل صرف اور صرف جہاد فی سبیل اللہ میںمضمر تھا ۔

امام البناؒ کو اگرچہ اتنی طویل عمر نہیںملی کہ وہ عالم اسلام کی سیاحت کرتے‘ مگر ان کی دعوت نے مسلم دنیا سے سلیم الفطرت دلوں کو کھینچا۔ ان کے دور میںاخوان کامرکز‘ پورے عالم اسلام کے حریت پسندوں‘مجاہدوںاور نصرت کے متلاشیوںکا مرکز ہوتاتھا۔آخر عمر میں ان کی دل چسپیوں اور توجہات کا مرکز و محوراور ان کے مسلح جہاد کااہم ترین محاذ فلسطین ہی تھا۔ اخوانی نوجوانوںنے اس محبوب دیار کو اپنے خون سے سینچا‘ تاکہ حاسد صلیبی قوتوں کی پروردہ ‘عالمی صہیونیت کی گندگیوں میں گرنے سے بچا لیا جائے۔ لیکن عالم عرب کی  قیادت پر فائز گروہوں کی کمزوری و خیانت اور دشمنان اسلام کا اتحاد‘امامؒ کی سعی و جہد کی بار آوری میں حائل ہوگیا۔اخوان المسلمون کی تحلیل اور امام البناؒ کی شہادت کا فیصلہ اسی لیے کیا گیا تھا کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اپنے موقف میں اہم ترین مقام دیتے تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ہم امام حسن البناؒ کو پاکستان کے حالات میں خصوصی دل چسپی لیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ بات ہمیں انوکھی نہیں معلوم ہوتی۔ انھوں نے نئی مملکت ِپاکستان کوبھارت اور مغرب‘ دونوں سے لاحق خطرات سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: پاکستان دونوں اطراف سے خطرے میں گھرا ہوا ہے۔ اسے بت پرست ہندئووں کی مسلح جارحیت کا سامنا جسے استعمار کی فریب کاریوں اور اس کے جدید ترین اسلحے کی مکمل مدد حاصل ہے ۔ مغرب مختلف ممالک میںتقسیم ہونے کے باوجود ‘ پاکستان دشمنی میں ایک ہے۔یہاں تک کہ کمیونسٹ روس جو بظاہر قوموں کے حقوق‘ بالخصوص      حق خودارادیت کی مالا جپتے نہیں تھکتاوہ بھی اس نئی مملکت کے خلاف سازش میں شریک ہے۔

استاذ صالح عشماوی جو اخوان کے ترجمان النذیرکے مدیر تھے‘ انھوں نے تشکیلِ پاکستان اور اس سے وابستہ امیدوں اور توقعات پر بہت سے مقالے تحریر کیے‘اور لکھا: ’’پاکستان کی صورت میںہمیں اخوان المسلمون کی دعوت اور اصولوں کا جیتا جاگتا نمونہ ملنے کی توقع ہے۔ پاکستان کا ہرمسلمان ان اصولوں پر ایمان رکھتا ہوگاجن کی جانب اخوان دعوت د یتے آئے ہیں‘‘۔

ہندستان میںقادیانیت کا قیام و ظہور‘ انگریزی استعمار کے ساتھ گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا ۔اس نئے مذہب پر سید مودودی ؒ نے بے لاگ تنقیدکرتے ہوئے ایک مستقل کتاب قادیانی مسئلہ تحریر کی اوراس کے متبعین کے کفر کا پردہ چاک کیا ۔ مصر میں بھی اس مذہب کے ماننے والے کچھ دھوکا باز لوگ موجود تھے۔علما نے ان کے دعووں اور مذہب کا تعاقب کیااور مدلل تنقید کے ذریعے اسے باطل ثابت کیا‘جب کہ امام حسن البناؒؒ اس قافلۂ ختم نبوتؐ کے سرخیل تھے۔ قادیانیوں میں سے ایک نے امام  حسن البنا ؒ کو مناظرے کا چیلنج دیااور پھر جب امامؒ مقررہ جگہ پر پہنچے تو مناظرہ شروع ہونے سے قبل ہی قادیانی مناظر نکل بھاگے۔ اسی طرح امام حسن البناؒ ؒ نے مصر کی جمعیۃ الہدایۃ سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قادیانیت سے تائب ہو کراسلام کے دامن میں دوبارہ پناہ لینے والوں کو خوش آمدید کہیں۔

  • فکری مما ثلت: سیدمودودیؒ اور حسن البنا شہیدؒ اور ان کی برپا کردہ تحریکوں ‘اخوان المسلمون اور جماعت اسلا می کے درمیان اس قدر گہری مماثلت کی بنیادی وجہ دونوں جماعتوں کے مصادرو ماخذ کی وحدت اور طریق تربیت اور ہدف کا ایک ہونا ہے ‘نیز اس سارے کام کے پیچھے‘ صرف اور صرف دین کی نصرت و غلبے کا جذبہ کارفرما ہے۔ جن احکامات سے یہ دونوں جماعتیں اپنے وجودکا شرعی جواز حاصل کرتی ہیں‘ یعنی قرآن و سنت‘ وہ بھی ایک ہے۔جہاں تک دو نوں کے فکروعمل میں تھوڑے بہت اختلاف کا تعلق ہے تو اس کی وجہ دونوں کا دائرہ عمل( یعنی مصر و پاکستان) کا الگ الگ ہونا ہے۔ مزید یہ کہ سید مودودیؒ نے زیادہ توجہ تالیف کتب پر دی‘اور فکر اسلامی اورتحریک اسلامی کے لیے گراں قدر علمی سرمایہ چھوڑ گئے۔ان کی بیش تر کتب دوسری مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں‘حتیٰ کہ انگریزی میں ۳۹ اور عربی میں ترجمہ شدہ کتب کی تعداد ۴۸ تک پہنچ چکی ہے۔ عالم اسلام کی جن مختلف زبانوں میں ان کی کتب کے تراجم شائع ہوچکے ہیں ‘۷۰ کی دہائی تک ان کی تعداد ۱۸کے قریب تھی۔امام حسن البناؒ کو دعوت‘ عملی تربیت اور دین کی خاطر مصر کے گوشے گوشے میں سفر نے تالیف ِکتب کی مہلت نہ دی اور خاص طور پر یہ بھی کہ وہ عین جوانی میں اس وقت شہید کر دیے گئے جب ان کی عمر ابھی صرف ۴۲ برس تھی۔وہ کہا کر تے تھے کہ میں نے آ دمیوں کی تالیف کی ہے اور اب یہ آ دمی کتابیں تالیف کریں گے۔

جہاں تک جدید اصطلاحات یا ان کے مشابہہ دیگر مغربی اصطلاحات کا تعلق ہے جو سیدمودودیؒ کے لٹریچر میں موجود ہیں‘ جن کی وجہ سے علما ان کتب کے پڑھنے سے منع کرتے رہے ہیں‘ اس معاملے کو سیاق و سباق ہی میں دیکھنا چاہیے۔ سید مودودی ؒکی اصل سوچ و فکر تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کی نظر ان کی تمام کتب اور تالیفات پر ہو‘نہ کہ سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی چند عبارات پر۔ یہی وہ یک رخا پن ہے جہاں سے انسان ٹھوکر کھا تا اور غلط فہمی کا شکار ہو جا تا ہے۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ سید مودودیؒ کے خطیبانہ اسلوب کو بھی پیش نظر رکھا جائے‘ جس کے ذریعے وہ قارئین میںاسلامی و جہادی حمیت ابھارتے اور ان میں ایمانی جوش و جذبہ پیدا کرتے ہیں۔

بہر حال امام مودودیؒ کی آرا میں افراد کی تکفیر ہر گز نہیں ہے کہ یہ ایک خطرناک معاملہ ہے۔ امام مودودیؒ کا فرمان ہے: مسلمانوں کی تکفیر کے معاملے میں مکمل احتیاط نہایت ضروری ہے۔ اس معاملے میں اتنی ہی احتیاط کی ضرورت ہے جتنی کہ کسی شخص کے قتل کا فتوی صادر کرتے ہوئے ضروری ہے۔ ہم پریہ جاننا لازمی ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں توحید اور کلمہ طیبہ پر ایمان موجود ہے۔ اگر اس سے کوئی کلمہ کفریاکفریہ حرکت سرزد ہو جاتی ہے تو لازمی ہے کہ اس کے بارے میں حسن ظن قائم رکھیں‘ اور اس حرکت کو اس فرد کی جہالت و نادانی اور نا سمجھی پر محمول کریں کہ اس کا مقصد ایمان کو چھوڑ کر کفر اختیار کرنا نہیں تھا۔ ایک اور جگہ رقم طراز ہیں کہ جان و مال اور عزت کی حفاظت انسان کو مجرد کلمہ شہادت کی ادایگی اور رسالت کے اقرار سے حاصل ہو جاتی ہے اور اس کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مملکتِ اسلامیہ کے کسی شہری کا کوئی حق سلب کرے۔ اس لیے اگر کوئی اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادایگی سے انکار کرتا ہے‘ تو اسے اس کے جرم کی مناسبت سے سزا دی جائے گی۔

اما م حسن البناؒ کی رائے بھی اس سے کچھ مختلف نہیںہے۔ انھوں نے واضح طور پہ اعلان کیا کہ جو بھی شہادتین کا اقراری ہواور اس کے تقاضوں پر کاربند ہو‘ اس کے فرائض کی ادایگی کرے‘ ا س کی ہم تکفیر نہیں کرتے۔الا یہ کہ وہ کلمۂ کفر کا اقرار کرے‘ یا ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کرے یا قرآن کے کسی صریح مقام کو جھٹلائے‘ یا اس کی ایسی تفسیر کرے جس کی لغت ِعرب کسی حال میں اجازت نہیں دیتی ‘یا ایسا عمل کرے جس کی کفر کے علاوہ اور کوئی تاویل نہ کی جا سکتی ہو۔ یوں آپ نے تکفیر کا دروازہ ہی بند کر دیا جس کی وجہ سے ماضی میں مسلمانوں کو بہت سے خطرات لاحق ہوچکے تھے۔

امام مودودیؒ اور امام البناؒ دونوں محسنوں نے مصلح اور مجدد کا کردار ادا کیا اور اسلامی عمل پر گہرے نقوش مرتب کیے اور یقینا ان کی سیرت اور ان کا طریقۂ کار صدیوں تک رہنمائی کے اُفق روشن رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور اسلام کی طرف سے انھیںبہترین جزاء سے نوازے‘  وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین!