سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃاللہ علیہ کو اس دنیا میں تشریف لائے پورے ۱۰۰برس ہوگئے ہیں۔ ادھر میں‘ وہی جرمنی کی فاطمہ‘ آج سے ۴۰ برس قبل ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۵ء تک کے اُن دنوں کی یادیں تازہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں‘ جو میں نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں گزارے تھے۔ مولانا مودودیؒ میرے لیے اس چشمۂ رحمت کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی وساطت سے میں نے اسلام کے متعلق اپنے علم کی پیاس جی بھر کربجھانے کی کوشش کی۔ جی ہاں‘ اسلام‘ زندگی گزارنے کا وہی واحد اور سیدھا راستہ جسے میں اپنی رہنمائی کے لیے منتخب کر چکی ہوں۔
مجھے معلوم ہے کہ بہت سے علما ایسے ہیں‘ جو مولانا مودودیؒ کی ان لا تعداد تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ جن سے صرف برعظیم ہی کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان مستفید ہوئے۔ لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں نے‘ جو ۱۹۳۴ء میں جرمنی میں پیدا ہوئی‘ ان کے افکار کا ایک بہت گہرا تاثر لیا۔ ایک ایسا اثر جو صرف مجھ تک محدود نہیں رہا‘ بلکہ اس وقت یہ روس اور بوسنیا جیسے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ یہ سب کچھ کیوں اور کس طرح ہوا؟ میں ایک غیر معمولی شخصیت کے حوالے سے مختصر یادداشتوں کی بنیاد پر آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں۔
۱۹۶۰ء میں جب ۲۶ سال کی عمر میں‘ میں نے اسلام قبول کیا‘ اس وقت اپنی مرضی سے میرے پسند کردہ اس عقیدے کے بارے میں‘ جرمنی زبان میں براے نام لٹریچر دستیاب تھا‘ خصوصاً مسلمان مصنفین کا تحریر کردہ۔ خوش قسمتی سے اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ مجھے اپنی حکمت و رحمت سے باہمت لڑکی کے طور پر انگلستان لے گیا۔ یہی وہ سال ہے جب میں ایک پیارے سے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف تھی۔ اکثر اوقات گھر کی یاد مجھے بری طرح ستاتی تھی‘ ایسے میں مجھے وہاں کی زبان‘ یعنی انگریزی سیکھنے کی اشد ضرورت محسوس ہوئی‘ تاکہ کم از کم کسی سے بات چیت تو کرسکوں۔ یوں میں نے وہاں پر جو انگریزی سیکھی‘ وہ نہ صرف عمر بھر حصولِ روزگار میں میری مددگار رہی‘ بلکہ اس سے مجھے انگریزی زبان میں اسلام کے بارے میں مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ جس کتاب نے دراصل مجھے اس دین کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے قابل بنایا‘ وہ مولانا مودودی کی کتاب دینیات تھی‘ جس کا انگریزی ترجمہ ان کے ایک ہونہارساتھی پروفیسر خورشید احمد نے Towards Understanding Islam کے نام سے کیا تھا۔
۱۹۵۸ء میں جرمنی میں مسلمانوں سے میرے مکالمے کی ابتدا ہوئی۔ ۱۹۶۰ء کے اوائل میں میرے پاس قرآن حکیم کا ایک باترجمہ نسخہ اور The Road to Makkah (شاہراہ مکہ‘ مصنف علامہ محمد اسد) کا جرمن ترجمہ موجود تھا‘ تاہم‘ ان کے ساتھ ہی ساتھ وہ کتاب جس نے میرے دل و دماغ پر فیصلہ کن اثر ڈالا‘ Towards Understanding Islam ہی تھی۔ پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے بالکل سچ لکھا ہے: ’’بے شک مودودیؒ موجودہ دور میں اسلام کے سب سے زیادہ منظم مفکر ہیں‘‘۔ ان کی یہی چیز میرے لیے ایک مسلمان کی زندگی گزارنے کے لیے مہمیز ثابت ہوئی۔
مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان میرے لیے اسلام کی اولین درس گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں آنے کے بعد ہی مجھے اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل ہوئیں‘ مثلاً یہ کہ نماز کے دوران مسلمانوں کے لیے کیسا لباس پہننا مناسب ہے؟ یا یہ کہ مسلم خواتین بالعموم رمضان کے پورے ۳۰دن کے روزے نہیں رکھتیں‘ بلکہ قانون قدرت کے تابع جسمانی صحت کی بنا پر چھوڑے گئے چند روزے عیدالفطر کے بعد پورے کرتی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب میں اپنے پاکستانی مسلمان بہنوں اور بھائیوں کے درمیان گزارے گئے تین برسوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا ابھی کل کی بات ہے کہ جب میں ایمان افروز تجربے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سیکھنے کے جذبے سے سرشار تھی اور جی چاہتا تھا کہ صبح و شام کی تقسیم ختم ہو اور میں سیرت پاک اور قرآن کریم کے بحرذخار سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش میں مصروف رہوں۔
اب دیکھیے: بیگم محمودہ باوانی تھیں‘ جنھوں نے مجھے بے شمار عملی باتوں کے علاوہ عربی زبان میں قرآن مجید تلاوت کرنا سکھایا‘ اور ان کا وسیع خاندان تھا جو یہاں میرا پہلا میزبان تھا۔ دوسرے نہایت پُرجوش مسلمان بھائی‘ محسن اور جماعت اسلامی کے کارکنان جن میں کراچی سے خرم جاہ مراد اور خورشیداحمد تھے۔ بعد ازاں مشرقی پاکستان میں محمدعبدالرشید (جو آج کل کلکتہ میں رہایش پذیر ہیں)‘ جو مجھے اردو زبان سکھاتے نہیں تھکتے تھے‘ اور جن کے ساتھ ابھی تک میری خط و کتابت ہے۔ پھر اُس وقت کراچی میں بے مثل مربی اور پُرعزم داعی‘ جماعت اسلامی کے امیر چودھری غلام محمد تھے‘ جو ہمیں ملنے کے لیے جرمنی بھی تشریف لائے تھے‘ اور جن کا بہت جلد انتقال (جنوری ۱۹۷۰ئ) ہو گیا۔ میری شفیق بزرگ دوست رئیسہ بیگم‘ جو جماعت اسلامی ڈھاکہ حلقہ خواتین کی ناظمہ تھیں اور ان کے شوہر مرزا اشفاق صاحب۔ میری عزیزہ قلمی دوست نو مسلمہ بہن مریم جمیلہ‘ جنھوں نے مجھے انگریزی میں لکھنے اور پھر مجمع کے سامنے تقریر کرنے پر ہمت بندھائی‘ جس کی بصورت دیگر مجھے کبھی ہمت نہ ہوپاتی۔ مریم مجھ سے عمر میں صرف دو ماہ بڑی ہیں اور تقریباً میرے ساتھ ہی انھوں نے بھی اسلام قبول کیا تھا۔ ہم دونوں ۴۰ سال سے‘ ہر مہینے کم از کم ایک بار ایک دوسرے سے خطوں کے ذریعے تبادلہ ٔ خیال کرتے رہے ہیں۔
۱۹۶۰ء کے لگ بھگ جرمنی میں جرمن مسلمان انتہائی قلیل تعداد میں تھے‘ جب کہ آج ہمارے ہاں نبی پاکؐ کے ۳ لاکھ ۴۵ہزار کے قریب پیروکار موجود ہیں‘ جن میں سے کم از کم ۷۰ ہزار کے پاس جرمن شہریت ہے۔ البتہ جرمنی میں مسلمانوں کی اکثریت ترکی النسل ہے‘ جو وہاں ’مہمان کارکن‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں‘ اور جنھوں نے جرمنی کے مشہور و معروف ’’معاشی کرشمے‘‘ (Wirtschaftswunder) میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جنگ عظیم دوم (۴۵ - ۱۹۳۹ئ) کی بمباری سے تباہ حال جرمنی کو ترقی دینے اور ایک جنت ارضی بنانے میں ان ترک مسلمانوں نے بڑی ْجاں فشانی سے اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں تارکین وطن کی تیسری اور چوتھی نسل بھی موجود ہے‘ جن میں سے بہت سے مسلمان جرمن یونی ورسٹیوں میں پڑھتے تھے یا پڑھ رہے ہیں‘ اور اہم پیشہ ورانہ عہدوں پر فائز ہیں اور جو لوگوں کے سامنے اپنے مذہب کو متاثر کن اور قابلِ قبول انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ ان کی ایک معقول تعداد جرمنی کی شہریت حاصل کر کے مستقل طورپر یہاں رہایش پذیر ہے۔
پروفیسر عبدالجواد فلاطری نے ۱۰ سال پہلے کہا تھا: ’’نئی صدی کے آغاز پر ہمارے ہاں کم از کم ایک لاکھ مسلمان ایسے ہوں گے جو حقیقی جرمن ہوں گے‘‘۔ لیکن اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ اس عرصے میں ان کی تعداد کم از کم دوگنی ہو چکی ہے۔ اگر میں حساب میں اتنی کمزور نہ ہوتی تو ضرور یہ جاننے کی کوشش کرتی کہ تعداد میں یہ اضافہ اُس وقت کے جرمن مسلمانوں کی تعداد سے کیا نسبت رکھتا ہے‘ جب خود میں نے اسلامی اقدار وروایات میں دل چسپی لینا شروع کی تھی۔
بہرحال‘ میں ۱۹۶۰ء کے عشرے کے ان دنوں کو یاد کر رہی تھی جب ہم‘ گنتی کے چند مسلمان‘ اسلامی لٹریچر سے اپنی پیاس بجھانے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ ایسا اسلامی لٹریچر جو مستشرقین کے قلم سے نہ نکلا ہوا ہو‘ جو ہمارے عقیدے کا مطالعہ محض ایک مخصوص نوعیت کی علمی نظر سے کرتے ہیں‘ بلکہ ان لوگوں کے قلم سے لکھا گیا ہو جو خود اسلام پر عمل پیرا ہوں۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ آج بھی شاید ہی کچھ جرمن افراد ہوں گے جنھیں اتنی انگریزی آتی ہو کہ اس زبان میں لکھی کتابیں پڑھ سکیں۔ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ شکرگزار ہوں کہ اس نے ان تمام جرمن افراد میں سے‘ جو دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کے ہاتھوں روا رکھے گئے خوف ناک جرائم کے سامنے آنے کے بعد بھی انسانی اقدار کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئے تھے‘ میرے اوپر خاص مہربانی کی اور مجھے یہ شعور عطا فرمایا کہ زندگی کی قدر و قیمت مادی فوائد کے حصول سے کہیں بڑھ کر ہے‘ بشرطیکہ ہم اسلام کا سیدھا راستہ اپنا لیں۔
قبولِ اسلام کے بعد اپنے گھر پُرسکون سی زندگی گزارتے ہوئے‘ جب کہ میں نے پردے کی پابندی شروع کر دی تھی‘ اور کراچی میں پیدا ہونے والے اپنے ننھے بیٹے سیف الدین کی پرورش میں مصروف تھی‘ میں نے سوچنا شروع کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی شکر گزاری کا حق بھلا کیسے ادا کرسکتی ہوں؟
تب مجھے خیال آیا کیوں نہ میں اس ایمان پرور تحریر کو جرمن زبان میں ترجمہ کر دوں‘ جس نے مجھے اسلامی تعلیمات کی حکمتوں‘ اسلامی تاریخ کے واقعات کے منطقی ربط‘ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول آخر صلی اللہ علیہ و سلم اور حیات بعد الموت پر پختہ یقین رکھنے کے عملی فوائد کو جاننے میں اس قدر مدد دی ہے۔
اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں مجھے کافی وقت لگا۔ یوں ترجمے کے لیے مولانا مودودیؒ کی Towards Understanding Islam ہی کو سب سے پہلے منتخب کرنا ایک قدرتی بات تھی۔ مجھے یاد ہے‘ جب میں اس کے جرمن ترجمے کا کام کر رہی تھی‘ ان دنوں ننھا سیف الدین جو اپنے اردگرد کی دنیا سے نیا نیا آگاہ ہوا تھا‘ چھوٹے سے گھر میں متجسسانہ انداز میں گھومتا پھرتا تھا۔ اس کو مصروف رکھنے اور اپنے آپ کو کام میں لگانے کے لیے خود مجھے اس ڈیڑھ مربع میٹر کے بنے ہوئے لکڑی کے جنگلے میں پناہ لینا پڑتی‘ جس میں ہم یورپی لوگ اپنے بچوں کو ان کے کھلونوں سمیت ڈال دیتے ہیں‘ تاکہ وہ اپنے آپ کو چوٹ نہ لگا بیٹھیں اور نہ ہمارے کام ہی میں مخل ہوں۔ اس جنگلے میں میرے ٹائپ رائٹر کی کھٹ کھٹ کی آواز‘ اس ننھے بچے کے لیے تمام کھلونوں سے بڑھ کر دل چسپی کا باعث ہوتی تھی۔ چنانچہ مسودے پر کام میں انہماک اور ایک ایک سطر ترجمہ کرنے کا واحد طریقہ مجھے یہی نظر آیا‘ کہ میں خود اس کے پالنے میں بیٹھ جائوں اور ننھا بچہ اس کے اردگرد ہمکتا پھرے۔
جب ستمبر ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر بم گرنا شروع ہوئے تو میں اپنے بچے کے ہمراہ کوئٹہ کے قریب پٹھانوں کے علاقے میں چلی گئی اور وہاں پر تقریباً تین ماہ تک مقیم رہی۔ جلدی میں یہاں آتے وقت مجھے اپنا ٹائپ رائٹر ساتھ لانے کا خیال نہیں رہا تھا۔ لیکن میں نے اپنے نئے خاندان‘ یعنی کراچی میں رہنے والے مسلمان ساتھیوں سے خط و کتابت جاری رکھی اور غالباً اسی خط و کتابت کے ذریعے میں نے اس بات پر اظہار افسوس کیا ہو گا کہ میں یہاں ترجمے کا کام جاری رکھنے سے قاصر ہوں۔ اس بستی میں جہاں پر میں روزانہ صبح لکڑی کی مدھانی کے ذریعے اونٹ اور بکری کے دودھ میں سے دیسی طریقے سے مکھن نکالتی اور لسی بناتی تھی‘ ایک روز‘ حسب معمول صبح کے وقت میں اس سرگرمی میں مگن تھی کہ ہمارے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ دروازہ کھلنے پر معلوم ہوا کہ یہ خورشید احمد ہیں‘ جو میرا ٹائپ رائٹر لے کر آئے ہیں! فرطِ جذبات سے میرے آنسو چھلک پڑے‘ یہ سوچ کر کہ ہمارے اس انتہائی مصروف اور فاضل بھائی کو یہ بھاری بھر کم مشین‘ کراچی سے اتنے دُور دراز علاقے تک لانے کے لیے کس قدر زحمت اٹھانا پڑی ہو گی۔ اس لگن کا سرچشمہ صرف اﷲ اور اس کے رسولؐ کی رضا کی طلب ہے‘ جسے سید مودودی ؒنے جدید تعلیم یافتہ انسانوں میں لہو کی گردش کے مانند دوڑا دیا تھا۔
پاکستان سے واپس جرمنی پہنچ کر بھی میں نے اس کتاب پر کام جاری رکھا۔ مگر یہ کام کافی وقت طلب ثابت ہوا‘ کیونکہ اب ہمیں مغرب میں ایک مسلمان کے طور پر نئے سرے سے سکونت پذیر ہونا تھا۔ اس کے علاوہ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور بچے کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔یوں بعض اوقات مجھے خاندان کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے حصول معاش کی جدوجہد بھی کرنا پڑتی تھی۔ مجھ سے ملنے والوں میں جو بھی میرے اس ترجمے کے کام کے بارے میں سنتا‘ وہ میرا مذاق اڑاتا یا کم از کم اس باب میں غیر یقینی پن کا اظہار کرتا‘ کہ میں شاید ہی کبھی اپنا یہ ترجمہ مکمل کر کے اسے چھپوانے میں کامیاب ہو سکوں گی۔ لیکن جس بات کا کسی نے بھی یقین نہیں کیا تھا‘ بالآخر اﷲ کی رحمت سے حقیقت بن کر رہی۔ فرائی بورگ (Freiburg) کے مقام پر مذہبی لٹریچر شائع کرنے والی ایک کمپنی فرلاگ ہیرڈر کے جی (Verlag Herder KG) نے اس کے مسودے کو میرے ایک خاصے بے باکانہ پیش لفظ کے باوجود چھاپنے کی ہامی بھر لی۔ مولانا مودودی کی اس کتاب کو جیبی سائز میں ۹۰ئ۲ جرمن مارک کی معمولی سی قیمت میں مارکیٹ میں لایا گیا۔ اس کے پہلے صفحے پر خوب صورت عربی الفاظ میں بسم اللہ اور جرمن میں Weltanschauung Und Leben im Islam کا عنوان درج تھا۔
اس کتاب کا دیر سے منظر عام پر آنا بھی ایک خوش قسمتی ثابت ہوا‘ کیونکہ اسی دوران میں لیسٹر‘ برطانیہ میں دی اسلامک فائونڈیشن‘ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ پروفیسر خورشید احمد‘ جو اس فائونڈیشن کے سربراہ تھے‘ انھوں نے اس کتاب کے ۵ ہزار نسخے اسلامک فائونڈیشن کی جانب سے خرید کر نہ صرف جرمنی‘ بلکہ سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کی تمام پبلک لائبریریوں میں فراہم کرنے کا اہتمام کیا۔ جرمن زبان میں اسلام کے بارے میں مسلمان مصنفین کی تحریر کردہ کتابوں کی قلت کے باعث‘ اس مذہب میں دل چسپی رکھنے والے افراد کو‘ الحمدللہ اس کتاب کی بدولت یہ سہولت حاصل ہو گئی کہ اب وہ اسے لائبریری سے کرائے پر گھر لے جا کر پڑھ سکتے تھے۔ میرے خیال میں ان میں سے خاصی لائبریریوں میں یہ کتاب اب بھی دستیاب ہے۔
جیبی سائز میں یہ کتاب بہت جلد فروخت ہو گئی اور چونکہ اس کے جرمن ناشر اسے دوبارہ چھاپنے پر آمادہ نہ تھے‘ اس لیے طے پایا کہ اب اسے ’دی اسلامک فائونڈیشن‘ ہی پرکشش اور خوب صورت انداز میں شائع کرے گی۔ بعد ازاں کویت میں انٹرنیشنل اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنز (IIFSO) نے بھی اسے شائع کیا۔ ابھی دو ہفتے پہلے کی بات ہے کہ نومسلم خواتین میں سے ایک نے‘ جو مجھے باقاعدگی سے ملنے کے لیے آتی رہتی ہیں‘ مجھ سے اسلام کے بارے میں کسی معلومات افزا کتاب کی فرمایش کی‘ تو میں نے اسے مولانا مودودیؒ کی یہی کتاب پڑھنے کے لیے دے دی۔ اس نے چند دن کے بعد کتاب پڑھ کر مجھے واپس کر دی اور بتایا کہ: اسے یہ کتاب بہت اچھی لگی اور اس نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا: ’’اس کتاب کا عربی زبان میں بھی کوئی ترجمہ موجود ہے‘ جسے وہ اپنے شوہر کے لیے لے سکے‘‘؟ اُس خاتون کا خیال ہے کہ: اس کتاب کے مطالعے کے بعد وہ اسلام کے بارے میں ‘ اپنے شوہر سے جو ایک پیدایشی عرب مسلمان ہے‘ زیادہ علم اور معلومات رکھنے والی خاتون بن گئی ہے۔
اس ترجمے کا مجھے ایک ضمنی فائدہ بھی ہوا۔ اس کے ناشر ہیرڈر (Herder) نے مجھے اس ترجمے کا اتنا اعزازیہ ادا کیا جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ جب میں نے اس رقم کا نصف پروفیسر خورشید احمد صاحب کو ادا کرنا چاہا‘ کیونکہ میرے خیال میں وہ اس کتاب کے انگریزی مترجم ہونے کی حیثیت سے اس کے حق دار تھے‘ تو انھوں نے وہ رقم وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ میں نے اس رقم سے ایک اچھی سی واشنگ مشین خرید لی۔ اس طرح جو کام مجھے پہلے ہاتھ سے کرنا پڑتا تھا‘ اب اسے مشین پر کرنے کی وجہ سے وقت کی اچھی خاصی بچت ہونے لگی۔ یہ مشین ۱۰سال تک بخوبی کام کرتی رہی‘ اور اس وجہ سے مجھے موقع ملا کہ میں ترجمے کا ایک اور کام شروع کر دوں۔
یہ کام بنیادی طور پر مولانا مودودی کے ترجمہ و تفسیر کو بنیاد بنا کر دیگر عالمی شہرت یافتہ مفکرین اسلام عبداللہ یوسف علی‘ سید قطب‘ محمد اسد اور عبدالماجد دریابادی وغیرہ کے حواشی کی مدد سے جرمن زبان میں قرآن عظیم کے ترجمے کا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں انگریزی زبان سے واقف ہوں اور مجھے حلیمہ کرائوزن(Halima Krausen)عمر‘ اور حوا الشباسی (Eva El-Shabssy) اور راشا المغری (Rasha El-Mahgary) کی صورت میں بڑے محنتی اور فاضل مددگار بھی مل گئے تھے‘ جو عربی زبان کے متن کو خود ترجمہ کر سکتے تھے‘ یا ترجمہ شدہ مسودے پر نظرثانی میں میری مدد کر سکتے تھے۔ لہٰذا‘ ہم جرمن قاری کو پہلی مرتبہ قرآن کا ایک ایسا نسخہ دے سکتے تھے‘ جس کے حواشی سے آیات کے تاریخی پس منظر‘ شانِ نزول اور بے شمار ایسے پہلوئوں کو سمجھنے میں مدد مل سکے‘ جو اللہ تعالیٰ کے کلام کے وسیع مفہوم کو صحیح طرح سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ کئی آیات ایسی ہیں جن کی تشریح میں اختلاف رائے بھی سامنے آیا ۔ لہٰذا‘ ہم نے مناسب سمجھا کہ ان کے بارے میں مختلف علما کی آرا کو ایک ساتھ دے دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے صرف ایسے تشریحی مواد کو منتخب کیا گیا جو مغرب کے رہنے والے قارئین کی سمجھ میں آسانی سے آجائے۔ کیونکہ ایک انتہائی وسیع علمی ذخیرے کی موجودگی میں ہمارے لیے ضروری تھا کہ اپنے انتخاب کو جتنا ممکن ہو محدود رکھیں۔
ہمارے کام کے ابتدائی چند برسوں کے دوران میں قرآن حکیم کے اس جرمن ترجمے کے چھ چھ صفحات ہمارے جرمن رسالے الاسلام (Al-Islam) کے ہر شمارے میں قارئین کے ملاحظے کے لیے شائع کیے جاتے رہے۔ اس طرح ہمیں توقع تھی کہ ہمیں اپنے قارئین کا ردِعمل اور ان سے کچھ اچھی تجاویز بھی مل سکیں گی‘ جن کی روشنی میں ہم اس کام میں مزید بہتری پیدا کر سکیں گے۔ کتابی شکل میں کوئی چیز لانے سے پیش تر اسے قسط وار رسالے میں چھاپنے کا یہ محتاط طریقہ بھی مولانا مودودیؒ ہی کی اختراع ہے۔ لیکن اندیشہ لاحق ہوا کہ اگر ہم اس رفتار سے آگے بڑھتے رہے تواس کام کے مکمل کرنے میں ہمیں کوئی ۵۰ سال لگ جائیں گے۔ چنانچہ میونخ کے عبدالحلیم خفاجی نے مشورہ دیا کہ ہمیں قرآن کے ترجمے کو جلدوں کی صورت میں اکٹھا کر کے شائع کر دینا چاہیے‘ جن میں سے ہر ایک جلد چند سورتوں پر مشتمل ہو۔ یوں ۱۶ سال کے عرصے میں ہم نے قرآن کی کل ۲۴ جلدیں شائع کر دیں‘ جو تمام مختلف اور خوب صورت رنگوں سے مزین تھیں۔ پھر ہم نے اس کو تین تین پاروں پرمشتمل ۱۰جلدوں کی صورت میں اور بالآخر ۳ ہزار صفحات پر مشتمل پانچ جلدوں کے ایک خوب صورت سیٹ کی شکل میں شائع کر دیا‘ جن میں سے ہر جلد کا سرورق خوب صورت نیلگوں رنگ اور سنہرے الفاظ سے مزین ہے۔ اس کتاب میں الازہر یونی ورسٹی‘ قاہرہ کی طرف سے جاری کردہ تصدیقی دستاویز بھی شامل ہے۔
یہ ترجمہ جو بویریا قرآن (Bavaria Quran) کے نام سے معروف ہو گیا [بویریا پبلشنگ کمپنی‘ میونخ]‘ جب کہ مطالعہ قرآن کے حلقوں میں تفسیر کے طور پر استعمال ہونے لگا اور ماشاء اللہ اس قدر مقبول ہوا کہ ۱۹۹۶ء میں اپنی تکمیل کے تقریباً فوراً ہی بعد روسی اور بوسنیائی زبانوں میں اس کے ترجمے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ آج یہ دونوں ترجمے بھی مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہیں۔ ہسپانوی زبان میں بھی اس کا خوب صورت ترجمہ یونی ورسٹی پروفیسر صاحبان اور ان کے معاونین کی مدد سے تیار کیا جا رہا ہے اور اب تک اس کی ایک جلد کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ مستند علما اس کی جانچ پڑتال میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ طباعت کے مراحل سے گزرنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا بھی انتظار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مشکل کام میں ہماری مدد فرمائے۔
چنانچہ‘ آج قرآنِ حکیم کے بارے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے افکار‘ روس اور بوسنیا جیسے دور افتادہ علاقوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب دینی رہنما سید مودودیؒ پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور لاتعداد مسلمان اپنی دعائوں میں تشکر کے جذبات کے ساتھ ان کا ذکر کریں‘ جیسا کہ میں ان تمام برسوں میں کرتی آ رہی ہوں۔
غور وفکر پر آمادہ کرنے والے مولانا مودودیؒ کی تحریروں کے علاوہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا‘ وہ یہ تھی کہ اپنی تمام تر ان تھک روحانی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود وہ کبھی نو مسلموں کی مشکلات اور مسائل سے لاتعلق نہیں ہوئے۔ اس کی سب سے خوب صورت مثال میری عزیز دوست مریم جمیلہ ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتی ہیں‘ وہ ایک امریکی نو مسلم کی حیثیت سے نہایت مشکل صورتِ حال سے دوچار تھیں‘ خصوصاً چونکہ ان کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ یہ مولانا مودودیؒ ہی تھے‘ جنھوں نے ان کے لیے پاکستان میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کا بندوبست کیا‘ جہاں بعد میں ایک مخلص مجاہد فی سبیل اللہ محمد یوسف خان سے ان کی شادی کرا دی۔ یہ وہی یوسف خان ہیں جنھوں نے ایک جلسے میں مولانا پر قاتلانہ حملہ کر کے بھاگنے والے قاتل کو چھلانگ لگا کر پکڑلیا۔
۲۵ سال بعد اسلام آباد میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے میں اپنی زندگی میں دوسری بار پاکستان آئی تو مجھے مریم جمیلہ اور ان کے شوہر سے بالمشافہہ ملاقات کا پہلی بار موقع ملا۔ اگرچہ ہم اس سے قبل پورے ۳۰ سال تک ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ خط وکتابت کرتے رہے تھے‘ مگر یہ ملاقات ۱۹۸۶ء میں ہوئی تھی۔ میں ان دونوں کو اپنے وسیع خاندان کے ساتھ خوش و خرم اور صحت مند پاکر نہایت خوش ہوئی‘ ماشاء اللہ۔ ہم دونوں نے شفقت پدری اور دینی رہنمائی کے حوالے سے مولانا مودودی کی کئی ایمان پرور یادوں کا تبادلہ کیا۔ اگرچہ وہ آج بنفسِ نفیس ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں‘ لیکن ہمارے ذہنوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انھی کی بدولت ہماری زندگیوں میں اسلام کا پیغام رحمت ایک انقلاب بن کر آیا‘ حالانکہ ہم دنیا کے اس قدر دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہم لوگوں پر‘ یعنی عالمی مسلم برادری پر‘ ان کے احسانات کے صلے میں انھیں دارِ آخرت میں عظیم ترین اجر سے نوازے۔ آمین!