۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد‘ مولانا مودودیؒ نے معروف شخصیات کو جماعت کے پروگرام اور مقاصد سے آگاہ کرنے کے لیے اپنے رفقا کو بھیجا‘اور جماعت کے پہلے ناظم شعبہ تنظیم‘ قمرالدین صاحب کو قائداعظم ؒ سے ملاقات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ قائداعظمؒ سے ملے اور واپس آکر مولانا کو اس ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ قمرالدین چند ماہ بعد جماعت سے الگ ہوگئے تھے۔
ایک عرصے کے بعد پروفیسر قمرالدین (اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘اسلام آباد) نے قائداعظمؒ سے اپنی ملاقات کی یادداشتیں قلم بند کیں‘ اور انھیں ہفت روزہ Thinker میں شائع کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مولانا مودودی کے ایما پر ‘ میں گل رعنا (دہلی) میں قائداعظم سے ملا۔ قائداعظم ۴۵ منٹ تک بڑی توجہ سے میری بات سنتے رہے۔ پھر فرمایا: ’’مولانا ] مودودی[ کی خدمات کو میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ‘ لیکن برصغیر ] ہندستان[ کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مسلم ریاست کا حصول‘ ان کی اصلاح کردار سے زیادہ فوری اہمیت کا حامل معاملہ ہے‘‘۔قائداعظم مرحوم نے مزید فرمایا:’’جماعت اسلامی اور مسلم لیگ میں کوئی اختلاف یا تصادم نہیں ہے۔ جماعت اعلیٰ مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے تو لیگ اس فوری حل طلب مسئلے کی طرف متوجہ ہے‘ جسے اگر حل نہ کیا جا سکا تو خود جماعت کا کام دشوار ہو جائے گا۔ (ہفت روزہ Thinker‘ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ئ)
اسی مضمون میں ایک جگہ قمرالدین صاحب نے یہ بھی لکھا: ’’میں نے قائداعظم کو دعوت دی کہ لیگ اور جماعت مدغم ہو جائیں‘‘۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد‘ پروفیسرخورشیداحمد نے ۳۰ ایک سوال لکھ کر مولانا مودودی کو روانہ کیا‘ کہ وہ قمرصاحب کی مذکورہ بات کی وضاحت کریں۔ یہ سوال اور اس کا جواب آیندہ صفحات میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (یہ تحریر پہلی بار شائع ہو رہی ہے)