مولانا مودودی مرحوم و مغفور (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) ہمارے عہد کے وہ ممتاز فرزند ِ اسلام ہیں‘ جنھوں نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے قابل قدر فریضہ انجام دیا۔ اس ضمن میں انھوں نے مسلمانوں کو ایمان و عمل کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی اور غیرمسلموں کے ذہنوں سے ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے کا اہتمام کیا‘ جن کے باعث وہ اسلام کے بارے میں مخالفانہ پروپیگنڈے سے متاثر ہوچکے تھے۔
اسلام پر تشدد پسندی کے الزام کا مولانا مودودیؒ نے جس ایمانی جرأت اور تقابلی و تجزیاتی مطالعے کے ذریعے الجہاد فی الاسلام کی صورت میں جواب دیا ہے‘ ان کا یہ استدلال آج کی صورت حال میں بھی پوری طرح متعلق‘ موثر اور قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے ایک جانب ہندو مہاسبھائیوں کی یلغار کے پس پردہ محرکات کا خاکہ پیش کیا‘ دوسری جانب مغربی استعمار کے ذہن میں موجود توسیع پسندانہ عزائم کی سیاسی و مذہبی بنیادوں کو بے نقاب کیا‘ تیسری جانب مسلمانوں میں موجود ذہنی شکست خوردگی کو دُور کرنے کے لیے انھیں غیرنسلی اور درحقیقت عقلی سطح پر دعوتِ غوروفکر دی۔ اس مقصد کے لیے مولانا نے کسی جذباتی اپیل کا سہارا نہیں لیا۔ اسی لیے مولانا مودودیؒ کا یہ اسلوب‘ اپنی انفرادیت اور افادیت کے اعتبار سے ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
مولانا مودودیؒ کی دعوت کے اولین مخاطب مسلمان تھے۔ وہ مسلمان‘ جنھیں آبائی سطح پر تو ایمانی دولت نصیب ہو چکی تھی‘ لیکن اس دولت کی قدر وقیمت اور نعمت کے تقاضوں کا احساس ان میں بڑی حد تک ناپید تھا۔ عموماً مسلم دنیا میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ عبادات میں کچھ باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش سے اور دینی امور سے وابستہ چند تہواروں یا تقریبوں کا اہتمام کرلینے سے تقاضاے ایمان پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس مولانا مودودیؒ نے دین اسلام کے آفاقی تصور کو پیش کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے نشان دہی کی کہ دین اسلام اور اسلامی دین داری کو کسی خاص طبقے کی اجارہ داری (priesthood) سے منسوب کرنے کی اسلام میں کوئی گنجایش موجود نہیں ہے۔ یوں انھوں نے اسلام کے چشمہ ٔ صافی تک پہنچنے کی راہ میں حائل پیشوائیت اور پاپائیت کو مسترد کرتے ہوئے برملا کہا‘ کہ فہم دین اور دین داری کا تعلق کسی بھی خاص طبقے یا نسل سے نہیں ‘ بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا تعلق تقویٰ سے ہے۔ اس طرح انھوں نے تمام مسلمانوں کو اسلام کا علم حاصل کرنے‘ اس پرعمل کرنے اور دوسروں تک اسے پہنچانے کا عظیم الشان کام سمجھایا‘ اور ایمان‘ عمل‘ جستجو کے سیدھے راستے پر چلنے کا راستہ دکھایا۔
اس میدان میں مولانا مودودیؒ کے دو ٹوک لہجے اور منفرد پیغام نے انھیں زندگی بھر اپنوں اور دوسروں کے عتاب کا نشانہ بنائے رکھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس یلغار میں اسلام سے منسوب اور اسلام کے مخالف دونوں حلقوں کے موثر طبقوں نے مشترکہ طور پر مولانا مودودیؒ کی مزاحمت کی۔ مگر وہ اسلام کے اس پیغام کی وضاحت اور عمل کی دعوت کو پیش کرنے سے سرمو پیچھے نہ ہٹے۔ ان کی یہ جرأت گفتار اور دعوتِ پیہم انھیں بلند مرتبہ عطا کرتی ہے۔
مولانا مودودیؒ کی جانب سے خدمت ِاسلام کا تیسرا دائرہ عمل یہ ہے کہ وہ روزِ اول سے مکالمے (dialogue) اور استدلال کے طرف دار اور جدوجہد میں آئین و ضابطے کی پابندی کے قائل اور تائید کنندہ رہے۔ جس زمانے میں مولانا مودودیؒ نے دعوت وتنظیم کا کام شروع کیا اور اس پیغام کو اسلامی انقلاب کے عنوان سے پیش کیا‘ یہ وہ زمانہ تھا جب انقلاب (revolution) کا مطلب کلّی تخریب تھا اور مخالف ِ انقلاب عناصر کے قتلِ عام کو بالکل جائز قرار دیا جاتا تھا۔ پھر لفظ انقلاب کو استعمال کرنے والوں کی جانب سے محکوم قوموں کے لیے نجات کا واحد راستہ یہی تجویز کیا جاتا تھا کہ استعمار کے مسلط کردہ ڈھانچے سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ تشدد ہے۔ تاہم‘ برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں مسلمانوں کے عظیم رہنما قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے آئینی جدوجہد ہی سے آزادی حاصل کی‘ اور علما میں مولانا مودودیؒ نے اسی راستے کو درست قرار دیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی و قومی یا انقلابی جدوجہد میں کمیونسٹوں‘ اور قوم پرستوں کی طرح انسانی جان کو انقلاب کا ایندھن بنانے جیسے عمل کی مولانا مودودیؒ نے کھل کر مذمت کی اور اسلامی انقلاب کی پوری جدوجہد‘ سوچ اور عمل کو خداترسی‘ احترامِ آدمیت‘ تقویٰ‘ عدل اور افہام و تفہیم کے پیمانوں کا پابند بنا دیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک موثر نظام تنظیم قائم کرکے فیصلے‘ نگرانی اور کاوش کو ایک ضابطہء کار کا پابند بنا دیا۔ مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلابی جدوجہد کے لیے کسی بھی قسم کی زیرزمین سرگرمیوں کو قطعی طور پر خارج از امکان قرار دیا‘ محلاتی سازشوںکا حصہ دار بننے سے اجتناب کرنے پر زور دیا‘ اور تشدد پسندی کے ہر رنگ اور ہر روپ کی کھل کر مخالفت کی۔ میرے نزدیک دینی طبقے میں سے جس فرد نے اس توازن اور دانش کے ساتھ زندگی بھر جدوجہد کی اس کا نام مولانا مودودیؒ ہے۔
مولانا مودودیؒ کی چوتھی خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی بھر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل رہے۔ مزید یہ کہ آئین‘ قانون اور ضابطوں کے احترام اور ان کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت مستعد رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستان میں دستور ساز اسمبلی ہی سے رجوع کیا‘ اور قرارداد مقاصد کی منظوری کے لیے ایک پہلو سے بنیادی کردار ادا کیا۔
اس ضرورت کے پورا ہونے کے بعد انھوں نے تعمیری قوتوں اور مختلف مکاتب فکر کے جیّد علماے کرام کو دستور سازی کے بنیادی کام کے لیے مجتمع ہوکر اپنا حصہ ادا کرنے کی بھرپور سعی کی۔ اس کٹھن ذمہ داری کی ادایگی کے لیے انھیں اپنے تحقیق و تصنیف کے قیمتی اوقات کی قربانی دینا پڑی اور قیدوبند کی آزمایشوں سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ لیکن انھوں نے آئین‘ آئینی اداروں‘ عدلیہ اور قانون پسندی کے راستے سے انحراف نہیں کیا۔ یہی نہیں بلکہ مولانا مودودیؒ نے اپنے رفقاے کار اور قافلے میں شریک پُرجوش نوجوانوں کو بھی بہ تکرار اسی قانون پسندی کی تلقین کی۔
مولانا مودودیؒ کا یہ وژن (vision) ہر اعتبار سے قابلِ ذکر بھی ہے اور قابلِ احترام بھی۔ آج مسلم اُمہ پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوں کو نگاہ میں رکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ یہی وہ راستہ ہے کہ جس میں آگے بڑھنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اسی راستے میں کم سے کم جانی قربانی دے کر زیادہ سے زیادہ افراد کو ہم قدم اور ہم نوا بنایا جا سکتا ہے۔
ان چار نکات کی روشنی میں‘ میرے نزدیک مولانا مودودیؒ درحقیقت عہدِحاضر میں مسلمانوں کو ایک چراغِ راہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ ایسا چراغ کہ جس کی روشنی میں ایمان‘ عمل‘ خودداری‘ بصیرت‘ جدوجہد‘ شعور اور عدل کی راہیں صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔