اکتوبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

جاپان میں مولانا مودودی ؒکے اثرات

حسین خاں | اکتوبر ۲۰۰۳ | جاپان میں مولانا مودودی ؒکے اثرات

Responsive image Responsive image

جاپان میں مولانا مودودیؒ کے نام اور کام کو مختلف شکلوں میں پہلی مرتبہ متعارف کروانے والوںمیں نمایاں طور پر دو افراد قابل ذکر ہیں: ایک ہیں عبدالرحمن صدیقی صاحب اور دوسرے ڈاکٹر صالح مہدی سامرای۔

عبدالرحمن صاحب جاپان آنے سے پہلے پاکستان میں مولانا مودودی کے لٹریچر کا مطالعہ کرچکے تھے‘ اور کراچی سے جماعت اسلامی کے ہمدردوں میں شامل تھے۔ یہ پاکستان سے ۳، ۴ سال کے ایک تعلیمی اسکالرشپ پر جاپان آئے تھے اور یہاں کی مشہور یونی ورسٹی ’ہی تونسوباشی‘ جو کامرس کی اختصاصی تعلیم کے لیے جاپان میں طرۂ امتیاز رکھتی ہے، اس سے بی کام کر کے پاکستان واپس چلے گئے تھے۔

دوسرے فرد عراق کے ڈاکٹر صالح مہدی سامرای تھے۔ صالح مہدی جاپان آنے سے پہلے پاکستان میں لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے زرعی کالج (اب یونی ورسٹی) سے گریجویشن کرچکے تھے۔ عراق میں وہ اخوان المسلمون سے وابستہ رہے تھے۔ اسی لیے مولانا مودودی کے نام اور کام میں انھیں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہوئی تھی۔ ملاقاتوں اور پروفیسر خورشیداحمد صاحب سے رابطے کا موقع بھی ملا تھا اور انھوں نے مولانا کی کتب کے تقریباً تمام انگریزی‘ عربی تراجم پڑھ لیے تھے۔ صالح اس زمانے میں یہاں ٹوکیو یونی ورسٹی سے زراعت کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے۔

عبدالرحمن صدیقی صاحب نے اپنی تعلیمی زندگی کے دوران ڈاکٹر صالح سامرای کے ساتھ شمع فکر مودودی کو تابناک رکھا۔

ڈاکٹر صالح سامرای کی اعانت سے مولانا مودودی کی کتاب دینیات کا جاپانی ترجمہ ۱۹۶۵ء سے قبل اشاعت پذیر ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ اسلامک سنٹر جاپان کی طرف سے زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت اور مولانا مودودی کے دوسرے بہت سارے مضامین بھی شائع کیے۔ ان کا ایک  سہ ماہی علمی نوعیت کا رسالہ کئی سالوں سے  اسلام کے نام سے جاپانی زبان میں چھپتا رہا۔ اس میں مولانا کے کئی مضامین کے ترجمے شائع ہوئے۔

۱۹۶۵ء میں میرے جاپان آنے سے پہلے تبلیغی جماعت کے ایک فرد مرحوم حاجی ارشد صاحب کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ انھوں نے دو افراد کو تیار کیا تھا، جنھوں نے بعدازاں جاپان میں دعوتِ اسلامی کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ارشد مرحوم، پاکستان ’’پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف‘‘ محکمہ کے چوٹی کے افسروں میں سے تھے۔وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے محکمہ کی فنی ٹریننگ کے لیے جاپان آئے تھے۔ ان کا ذہن چونکہ دعوتی نوعیت کا تھا، اس لیے انھوں نے انفرادی طور پر مختلف افراد کو اپنے دوران قیام متاثر کیا تھا۔ ان میں ایک تو حاجی عمر میتا جاپانی مسلمان تھے۔

حاجی ارشد مرحوم نے حاجی عمر میتا کو قرآن کریم کے جاپانی ترجمہ کے لیے آمادہ کیا اور     ڈاکٹر صالح مہدی سامرای کو جاپان میں مستقل دعوتِ اسلامی کے کام کے لیے تیار کیا۔ ڈاکٹر سامرای نے کہا: ’’میرے پاس تو وسائل کچھ نہیں  ہیں، میں اکیلا بھلا کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ حاجی ارشد مرحوم نے تبلیغی جماعت والوں کا ایمان پرور جواب دیا: ’’ دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ سے دعا مانگو، اللہ سب کچھ کر دے گا‘‘۔ چنانچہ یہی ہوا کہ بعد میں چل کر ڈاکٹر سامرای جاپان میں ایک بہت بڑے اسلامک سنٹر کے بانی بنے۔ انھی ڈاکٹر سامرای نے کویت کی وزارت اوقاف سے دینیات کے ترجمہ و اشاعت کے اخراجات کا انتظام کیا تھا۔ اسی انتظام کے تحت گذشتہ چالیس سال سے دینیات کے کئی ایڈیشن شائع ہوکر ہزاروں کی تعداد میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یوں ہزاروں جاپانی، فکر مودودی سے متعارف ہوئے ہیں۔

حاجی عمر میتا کے جاپانی ترجمہ قرآن کے لیے بھی ڈاکٹر سامرای ہی نے رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے ماہوار ڈیڑھ یا دو ہزار ڈالر کا وظیفہ مقرر کرایا تھا‘تاکہ وہ اپنی بقیہ ساری زندگی ترجمہ قرآن کے لیے صرف کریں۔ اس ترجمہ قرآن میں مولانامودودی کی تحریر کے اثرات اس طرح پڑے کہ ترجمہ قرآن کے معیار کو برقرار رکھنے اور مفہوم کو ٹھیک ٹھیک جاپانی میں منتقل کرنے کے لیے     سعودی سفارت خانے نے ایک کمیٹی مقرر کی۔ جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر مرحوم عبدالکریم سائتو، ترک ایسوسی ایشن کے صدر جناب اپنائے صاحب اور مجھے اس میں شامل کیا گیا۔ حاجی عمر میتا صاحب اپنا جاپانی ترجمہ لے کر ہر اتوار کو ٹوکیو مسجد آتے تھے۔ ہم کمیٹی کے افراد اس دن جمع ہو کر ٹوکیو مسجد کی بازو والی عمارت (جو کبھی ترک اسکول کے لیے استعمال ہوتی تھی، اور بعد میں ٹوکیو مسجد کے موذن مرحوم مینان صفا کی رہایش اور ترک ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں اور پارٹیوں کا مرکز تھی) میں عبدالکریم صاحب کے اس ترجمہ کا جائزہ لیتے تھے۔

میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن لے کر بیٹھتا تھا اور تفہیم القرآن کی تشریحات مرحوم حاجی عمرمیتا صاحب کو بتایا کرتا۔ اس طرح جاپانی زبان میں قرآن کے اس پہلے ترجمہ میں فکرمودودی کے اثرات پہنچے۔ حاجی عمر میتا نے بنیادی طور پر صرف ترجمے کا کام کیا‘ کیونکہ تشریحات پر توجہ کرنا ان کے کام میں شامل نہیں تھا۔ اس سے پیش تر قرآن کے پانچ چھ ترجمے یہاں کی مشہور پبلشنگ کمپنی اوانامی کی طرف سے شائع ہو چکے تھے، لیکن یہ سب غیر مسلم اسکالرز نے کیے تھے۔ ان تراجم میں انتہائی فاش غلطیاں تھیں۔ مسلمانوں کی طرف سے کوئی مستند ترجمہ موجود نہیں تھا۔ اس لیے پہلے مرحلے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی طرف سے کوئی مستند ترجمۂ قرآن جلد از جلد سامنے لایا جائے۔

تقریباً پانچ سال تک ہر ہفتہ اس کمیٹی کی میٹنگ میں مرحوم حاجی عمر میتا صاحب کے ترجمہ کا جائرہ لیا جاتا رہا اور ان پانچ سالوں میں تفہیم القرآن کے اثرات بھی اس ترجمے میں جا بجا شامل ہوئے۔ اس کے بعد اس کی جانچ پڑتال کے لیے سعودی سفارت خانہ نے مجھے اور حاجی عمر میتا کو دو، تین ماہ کے لیے سعودی عرب بھیجا۔ یہ غالباً ۱۹۷۰ء کے لگ بھگ کی بات تھی۔ میں، حاجی عمر میتا صاحب کی، پاکستان میں جماعت اسلامی کے مختلف افراد سے ملاقاتیں کرواتا ہوا انھیں اپنے ساتھ سعودی عرب لے گیا۔ چند ہفتے ہم لوگ مکہ مکرمہ کے ایک ہوٹل میں ٹھیرے۔ پھر گرمی کی وجہ سے حاجی عمر میتا کی خواہش پر ہمیں طائف کے ایک ہوٹل میں ٹھیرایا گیا۔ رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے مقرر کردہ علما ہمارے ہاں آتے تھے اور قرآن کریم کے مختلف چیدہ چیدہ مضامین کے جاپانی ترجمے کا انگریزی میں ترجمہ مجھ سے پوچھتے تھے، اور جو کچھ حاجی عمر میتا صاحب نے جاپانی میں ترجمہ کیا ہوا تھا، میں انھیں انگریزی میں بتاتا جاتا تھا۔ الحمدللہ کسی ایک مقام پر بھی انھیں کسی ترمیم یا اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور انھوں نے اس ترجمہ کو سندِ قبولیت عطا کی۔ اس کے بعد میں تو واپس چلاگیا لیکن حاجی عمر میتا چند ماہ سعودی عرب میں مقیم رہے۔

اس دوران چند جاپانی طلبہ جو سعودی عرب کے مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے، انھوں نے بھی اس ترجمہ کو دوبارہ بنظرِغائر دیکھا۔ یہی ترجمہ‘ رابطہ نے شائع کیا۔ پہلے بغیر عربی والا ایڈیشن اور پھر دوسرا ایڈیشن، داہنی طرف عربی اور بائیں طرف ہر آیت کا جاپانی ترجمہ اور کہیں کہیں نیچے جاپانی زبان میں حاشیے۔ یہی مستند اسلامی ترجمہ قرآن سارے جاپانی مسلمانوں اور غیرمسلم جاپانی اسکالروں کے استعمال میں ہے۔ جاپان مسلم ایسوسی ایشن تقریباً ۲۹ ڈالر یا ۳۵۰۰ ین کے عوض اس کو فروخت کرتی ہے۔

پورے جاپان میں یہی ایک ترجمہ قرآن ہے۔ اس کے بعد اوا کمپنی نے بھی پرانے ترجموں کی اشاعت تقریباً بند کر دی ہے، جو پہلے غیر مسلم جاپانی اسکالرز نے کیے تھے۔ یہ ترجمہ اب اتنا معروف ہو چکا ہے کہ روزانہ کم از کم ۲۰۰ سے یعنی ماہوار چھ سے ۹ہزار اور سالانہ ۷۲ ہزار سے ایک لاکھ سے زائد جاپانی‘ انٹرنیٹ پر اس ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں، جس پر یہ ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک جاپانی مسلمان جو ملایشیا اور لیبیا سے دینی علوم میں فارغ التحصیل ہیں، انھوں نے اپنی ویب سائٹ پر اس ترجمے کو ڈالاہوا ہے، اور ساتھ ساتھ ہر آیت کی تلاوت کی آواز کی فائل بھی لگائی ہوئی ہے، تاکہ ہر جاپانی جو عربی نہیں پڑھ سکتا، وہ اس عربی تلاوت کو سن کر اسے یاد کر سکتا ہے۔ مرحوم حاجی عمر میتا کو اپنی قبر میں کتنا ثواب پہنچ رہا ہو گا کہ روزانہ دو تین سو افراد ان کا ترجمہ پڑھ کر انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کروانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

میری بدقسمتی ہے کہ آج تک تفہیم القرآن کی پوری چھ جلدوں کا جاپانی میں ترجمہ     نہیں کرسکا‘ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے‘ جب کہ جاپان سے لاہور آنے کے بعد اچھرہ میں     مولانا مودودی کے کمرہ میں بیٹھا تھا۔مولانا نے مجھے اس شرفِ ملاقات میں تفہیم القرآن کے جاپانی ترجمے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میں جاپان میں اس کے کاپی رائٹ آپ کو دیتا ہوں‘‘۔ مولانا کے اس اعتماد اور توقع پر میں ابھی تک پورا نہیں اتر سکا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے صرف سورۃ فاتحہ کے حواشی کا ترجمہ کر کے اپنے ویب سائٹ پر شائع کیا ہے۔ اس کو اسلامک سرکل آف جاپان نے اپنے سہ ماہی رسالہ نوید سحر میں دو قسطوں میں شائع کیا ہے۔ اس کو پڑھنے والے جاپانی مسلمان اور جاپانی مسلم خواتین اس طرح کی تشریحات کو بہت پسند کر رہے ہیں۔

چند سال پہلے جب میں نے یہ سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا تو کوبے مسجد کے ازہر سے آئے ہوئے مرحوم مصری امام محمد نے مجھے اپنا سارا کاروبار چھوڑ کر اس کام پر ہمہ وقت لگ جانے کے لیے آمادہ کیا تھا اور کویت کے وزارتِ اوقاف کے نمائندے سے تعارف اور ملاقات بھی کروا دی تھی‘ لیکن قبل اس کے کہ اس کام کی منظوری وہاں سے آتی‘ امام محمد صاحب کا انتقال ہو گیا اور یہ پراجیکٹ ادھورا رہ گیا۔ امریکہ میں اسلامک سرکل کے نیویارک کے ساتھیوں نے بھی کچھ عزم کیا تھا لیکن وہ بھی خاموش ہو گئے اور میں غم روزگار میں الجھ کر اس کام کے لیے اپنے آپ کو فارغ نہیں کر سکا۔

اگر یہ پراجیکٹ آگے بڑھ سکے تو جاپان میں مولانا مودودی کے علمی کام کی جڑ انتہائی مضبوط ہوجائے گی۔ بہت سے ایسے لوگ جو تحریک اسلامی کے ساتھی نہیں ہیں‘ وہ اپنی جاپانی مسلمان بیویوں اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ جاپانی زبان میں قرآن کی تشریح کے لیے کتنے مشتاق اور مضطرب ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مسلمان جو پاکستان میں کسی بزرگ پیر کے مرید بھی ہیں، ایک رات  نوید سحر کا ایک شمارہ لے کر میرے پاس آئے اور دکھاتے ہوئے کہا: ’’مولانا مودودی کی تفہیم القرآن سے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ میری اہلیہ نے پڑھا اور بہت پسند کیا ہے‘‘۔ ان کی اطلاع سے پہلے مجھے اس کی خبر نہیں تھی کہ ہماری ویب سائٹ سے یہ ترجمہ لے کر نوید سحر نے شائع کیا ہے۔ اسی طرح ایک اور پاکستانی جو ٹوکیو میں ایک بڑی مسجد کے روحِ رواں ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان کی جاپانی اہلیہ نے یہ ترجمہ پڑھا ہے اور وہ بہت دعائیں دے رہی ہیں کہ انھیں اس کے ترجمہ قرآن سے اسلام کی بعض بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔

دراصل جاپان کی مقامی آبادی میں مردوں سے زیادہ خواتین مسلمان ہوئی ہیں۔ یہاں پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور عرب ملکوں کے مسلمانوں کا مستقل ویزا حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی جاپانی خاتون سے شادی کریں۔ صرف اسی صورت میں وہ جاپان میں مستقل طور پر روزگار کے لیے رہ سکتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر مسلمان جو یہاں مستقل رہنا چاہتے ہیں وہ کسی نہ کسی جاپانی خاتون کو مسلمان کر کے اس سے شادی کرتے ہیں اور چونکہ یہ خاتون نو مسلمہ ہوتی ہے، اس لیے ہمارے ان بھائیوں کو اپنے سے زیادہ اپنی اہلیہ اور ان کے ذریعے اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم و تربیت کی فکر رہتی ہے۔ غالباً اس طرح کی پانچ چھ ہزار جاپانی مسلمان خواتین ہوں گی اور میرے خیال میں انھی کی اکثریت وہ ۲۰۰/ ۳۰۰ افراد کی شکل میں روزانہ حاجی عمر میتا کے ترجمہ قرآن کے ویب سائٹ کو دیکھتی ہیں۔ دوسری اسلامی کتابیں بھی جاپانی زبان میں موجود ہیں، لیکن ہر نو مسلم جاپانی کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح قرآن کو پہلے سمجھے۔ اس تناظر میں تفہیم القرآن جیسی کتاب کی جاپانی میں جلد از جلد ترجمہ کی اہمیت شدت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔

مرحوم امام محمدمصری کے مشورے کے مطابق میں تفہیم القرآنکے آخری پارہ عم کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کا ترجمہ کر رہا ہوں۔ تیسویں پارے کے سورۂ فلق اور سورۂ والناس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ مرحوم امام محمد بھی مولانا مودودی سے بہت متاثر تھے۔ یہ جامعہ ازہر کی طرف سے تین سال کے لیے کوبے مسجد کی امامت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس کے بعد بھی یہ جاپان ہی میں رہے، کیونکہ جاپان میں دعوت اسلامی کی اہمیت ان کے پیش نظر تھی۔ ان کی لائبریری میں میں نے مولانا مودودی کی بہت ساری کتابوں کے عربی اور انگریزی ترجمے دیکھے۔ مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ترجمے اور کتب بھی ان کے زیر مطالعہ رہیں۔

شاہ فیصل نے جب جاپان کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کا ایک وفد ان سے ملنے گیا، جس میں میرے علاوہ مرحوم پروفیسر عبدالکریم سائتو اور کچھ دوسرے مسلمان رہنما شامل تھے۔ ہم لوگوں نے اس وقت ٹوکیو میں شاہ فیصل کے سامنے جاپان میں مسلمانوں کی تنظیم و یکجہتی اور دعوت اسلام کے فروغ کے لیے جو تجاویز رکھی تھیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر صالح مہدی سامرای کو اسلام کے مبلغ کے طور پر سعودی حکومت کے خرچ پر جاپان واپس بھیجا جائے۔ کیونکہ اس وقت تک وہ ٹوکیو یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جاپان سے واپس چلے گئے تھے، اور سعودی عرب کی جدہ یونی ورسٹی میں شعبہ زراعت کے پروفیسر کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔

 اس طرح جب ڈاکٹر سامرای دوبارہ جاپان واپس آئے تو انھوں نے عربوں سے چندہ جمع کر کے کئی لاکھ ڈالر کا ایک اسلامک سنٹر تعمیر کیا۔ پھر ڈاکٹر سامرای ہماری درخواست پر پاکستان گئے اور وہاں سے عبدالرحمن صدیقی کو جاپان لے کر آئے۔ عبدالرحمن صدیقی صاحب نے ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۹ء تک یہاں پر اسلامک سنٹر میں نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان دونوں افراد کی وجہ سے اسلامک سنٹر کی ساری سرگرمیوں میں فکر مودودی مختلف انداز میں اپنے اثرات دکھاتی رہی۔

مولانا کے کئی چیدہ چیدہ مضامین ان کے سہ ماہی رسالہ اسلام میں شائع ہوئے اور آج بھی جاپانی زبان میں ترجمہ کروا کے شائع کیے جاتے ہیں۔عبدالرحمن صدیقی صاحب نے مولانا مودودی کے ۱۴فکرانگیز کتابچے بھی شائع کر کے مفت تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔ رسالہ دینیات کو بھی چھپوا کر اہتمام کے ساتھ ہر سال دل چسپی رکھنے والے جاپانیوں میں مفت تقسیم کرنے کا سامرای صاحب اور صدیقی صاحب نے نظامِ کار بنایا۔ اب اسلامک سرکل آف جاپان نے جاپان مسجد فاؤنڈیشن کے تحت بھی اسے شائع کیا ہے ۔ مولانا مودودی کے خطبے سلامتی کا راستہ کا جاپانی ترجمہ مساجد میں مفت تقسیم ہوتا ہے۔

مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ختم ہو گئی تو اس کی جگہ جاپان مسلم ایسوسی ایشن بنی، جو اس وقت سے اب تک یعنی گذشتہ تقریباً چالیس سال سے دعوت اسلامی کے کام میں کسی نہ کسی شکل میں مشغول ہے۔ اس میں فکر مودودی کی سرایت کی ایک شکل تو یہ رہی ہے کہ اس فکر کے علم بردار غیر جاپانی مسلمان اس کی قیادت میں شامل رہے۔ کافی عرصے تک اس کے صدر ایک جاپانی بزرگ مسلمان پروفیسر عبدالکریم سائتو تھے اور میں ان کے ساتھ سیکرٹری جنرل رہا اور ڈاکٹر سامرای صاحب اس کے ڈائریکٹروں میں رہے۔ ابتدا میں یہ خیال تھا کہ جاپانی اور غیر جاپانی مسلمان سارے اکٹھے ہو کر جاپان میں دعوت اسلامی کا کام کریں۔ چنانچہ ہم سب لوگوں نے مل کر قرآن کے پہلے جاپانی ترجمے کی اشاعت اس ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کروانے کی شروعات کیں۔

ابتدا میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے بعد جاپان مسلم ایسوسی ایشن ہی کافی عرصہ تک مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت رہی۔ مجھے جاپان آنے کی دعوت دینے والی جماعت بھی یہی تھی۔ جب عبدالرحمن صدیقی صاحب کی طالب علمی کا دور ختم ہوا، اور انھوں نے پاکستان واپسی کا ارادہ کر لیا تو ان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ پاکستان سے کسی ایسے فرد کو تلاش کر کے جاپان بھیجیں جو اس ملک میں دعوت اسلامی کے کام کے لیے ہمہ وقت کارکن بن کر مستقل یہیں سکونت اختیار کر سکے۔ اتفاق سے یہ مشرقی پاکستان میں ایک کمپنی میں افسر بن کر چٹاگانگ آئے۔ اس وقت میں بھی چٹا گانگ میں اٹلی کی ایک کار کمپنی کا منیجر تھا۔ دونوں کے دفاتر قریب ہونے کی وجہ سے ان سے میری ملاقاتیں ہوتی رہیں اور انھوں نے مجھے جاپان جانے پر آمادہ کیا۔ اس وقت مجھ پر چٹاگانگ حلقہ کی جماعت کی طرف سے مزدوروں میں کام کرنے کی ذمہ داری تھی۔ الحمد للہ ہمارا اسلامی گروپ چٹاگانگ ریلوے یونین کی قیادت سے بیس سالہ دیرینہ کمیونسٹ لیڈروں کو انتخابات میں شکست دے کر اپنے ہاتھوں میں اس کی باگ ڈور لینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ ان حالات میں توقع نہیں تھی کہ مجھے چٹاگانگ حلقہ کی جماعت اسلامی کی طرف سے جاپان جانے کی اجازت ملے گی۔ لیکن امیر حلقہ مرحوم عبدالخالق صاحب نے خلاف توقع اس کی اجازت دے دی اور میری جگہ پروفیسر عثمان رمز (مرحوم) کو ڈھاکہ سے چٹاگانگ بلا کر مزدوروں کی ذمہ داری سپرد کی۔ مولانا مودودی نے بھی اس اقدام کے حق میں مشورہ دیا۔      یہ بات بعد میں بنگلہ دیش کے امیر عباس علی خان صاحب نے اپنی ایک کتاب میں اس طرح لکھی: مولانا مودودی نے حسین خاں کو جاپان دعوت اسلامی کے کام کے لیے بھیجا تھا۔

اس وقت جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے صدر مرحوم پروفیسر عبدالکریم سائتو تھے۔ انھی کے دعوت نامے اور گارنٹی کی بنا پر مجھے اور میری اہلیہ اور بچوں کو جاپانی سفارت خانہ سے ایک سال والا ویزا ملا تھا جس میں ہر سال توسیع ہو سکتی تھی۔ ٹوکیو ایرپورٹ پر میرا استقبال کرنے والوں میں پروفیسر سائتو کے علاوہ ڈاکٹر سامرای، ٹوکیو مسجد کے ترک امام و موذن وغیرہ سب مسلمانوں کے نمایندے شامل تھے۔

ان دنوں میں جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل کے طور پر میری سرگرمیوں میں ایک اور قابل ذکر بات مولانا مودودی کی رہنمائی تھی۔ وہ اس طرح کہ جاپان میں دعوت اسلامی کے کام کے سلسلے میں مولانا مودودی نے ایک خط میں مجھے کچھ ہدایات لکھ کر بھیجی تھیں۔جاپان آنے کے بعد میں پریشان تھا کہ یہاں پر دعوت کا کام کن خطوط پر کیا جائے۔ ایک ریٹائرڈ میجر‘ لندن سے ایک قادیانی مبلغ بن کر جاپان آئے تھے۔ یہ ٹوکیو کے ایک بڑے سٹیشن شی بویا پر حاچی کو میں پمفلٹ بانٹا کرتے تھے۔ یہاں ایک پارک کتے کے مجسمے کی وجہ سے مشہور ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے اس جگہ پر وقت دیتے ہیں اور پھر یہاں سے قریب ہی کسی ریسٹورنٹ یا کافی شاپ جا کر باتیں کرتے ہیں۔ یہاں پر چونکہ ہمیشہ کچھ لوگ ایک دوسرے کے انتظار میں کافی دیر تک کھڑے رہتے ہیں خصوصاً نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اس لیے یہاں پر کوئی پمفلٹ بانٹا جائے تو لوگوں کے پاس اپنے انتظار کی گھڑیاں کاٹنے کے لیے اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ پمفلٹ پڑھ لیں۔ چنانچہ قادیانی میجر صاحب اپنے ’’خود ساختہ اسلام‘‘ کے بارے میں کچھ لکھ کر لاتے تھے اور اسے پمفلٹ کے طور پر تقسیم کیا کرتے تھے۔ میرے ذہن میں بھی یہ سوال ابھرا کہ کیا مجھے بھی صحیح اسلام کے پمفلٹ لکھ کر بانٹنا چاہیے یا کوئی اور طریقہ استعمال کرنا چاہیے؟

اس کے علاوہ دعوت کے کام کے طریقہ کے بارے میں دوسرے لوگوں کو دیکھ کر کچھ اور سوالات بھی ذہن میں ابھر رہے تھے۔ نئے مذاہب کے علم بردار ‘دل چسپی رکھنے والوں سے ان کے گھروں پہ جا کر اپنے مذاہب کی تبلیغ کرتے تھے۔ اسی طرح کی بہت ساری تجویزیں ذہن میں آ رہی تھیں کہ جاپان میں دعوتِ اسلامی کے کام کو کس نہج پر اٹھایا جائے۔ اسی سلسلے میں میں نے مولانا کو ایک تفصیلی خط لکھ کر ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

مولانا مودودی کے جواب کا خلاصہ یہ تھا: ’’جاپانیوں میں سے کچھ مسلمانوں پر خصوصی توجہ  دے کر انہیں کارکن بنایا جائے ا ور مسلم ملکو ں میں اسلام کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انھیں بھیجا جائے‘‘۔

مولانا کی اس ہدایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے اور پروفیسر عبدالکریم سائتو صاحب نے مختلف مسلم سفارت خانوں اور مصر، لیبیا اور سعودی عرب کے دینی اداروں سے روابط قائم کرکے نئے نئے مسلمان بننے والے جاپانیوں کو اسکالرشپ دلانے اور انہیں جامعہ ازہر، مدینہ یونی ورسٹی اور علوم دین کے دوسرے مراکز اور مدرسوں میں بھیجنے کی کوشش کی۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر واپس جاپان آنے والوں کو اسلامک سنٹر میں ہمہ وقتی کارکن یا مشنری کے طور پر رکھنے کے لیے بھی تجویز دی تھی، لیکن اسلامک سنٹر کے سربراہ اس کوشش میں ناکام رہے یا تو انھوں نے اس کی اہمیت نہیں سمجھی یا ان دوچار جاپانیوں کو جنھوں نے ان مقاصد کے لیے اسلامک سنٹر کی ملازمت اختیار کی، وہ ان کو مطمئن نہیں رکھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس طرح کے فارغ التحصیل افراد کی صورت میں بیش تر افرادی سرمایہ ضائع ہو گیا۔ لیکن جو چند افراد لگے رہے انھوں نے جاپان مسلم ایسوسی ایشن کی طرف سے کچھ ترجمے یا اوریجنل کتابیں شائع کی ہیں، جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر صحیح مسلم کی احادیث کا تین جلدوں میں مکمل ترجمہ ہے۔ خلافتِ راشدہ اور سیرۃ صحابہ ؓ پر بھی عربی مآخذ سے ان لوگوں نے کچھ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ اس طرح فارغ التحصیل جاپانیوں کی طرف سے جاپان مسلم ایسوسی ایشن میں جو کچھ بھی کام ہو رہا ہے اس میںمولانا مودودی کی اس ہدایت کو کسی نہ کسی حد تک دخل حاصل ہے، جو انھوں نے اپنے ایک خط میں مجھے دی تھی کہ انہیں مسلم ممالک کے دینی اداروں میں بھیجا جائے۔

جاپان مسلم ایسوسی ایشن اور اسلامک سنٹر اس وقت جاپان میں بھی دعوتِ اسلامی کے فروغ کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ تیس چالیس سال قبل ان کے قیام کے وقت جو کچھ بھی فکر مودودی کے اثرات ان پر پڑے تھے‘ اس کا جائزہ لینے کے بعد دو اسلامی تنظیموں کا ذکر ازبس ضروری ہے جو اٹھی ہی مولانا مودودی کی تحریروں سے دعوتی شعور لے کر ہیں۔ ان میں ایک کا نام ہے اسلامک سرکل آف جاپان اور دوسری کا اسلامک مشن جاپان۔

انھیں آپ پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی جاپان میں تحریک اسلامی کہہ سکتے ہیں۔ اول الذکر کے سب پروگرام اردو میں ہوتے ہیں اور موخر الذکر کے بنگالی میں۔ اسلامک سرکل آف جاپان اور اسلامک مشن جاپان، دونوں کے سرگرم کارکنوں کی تعداد سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان رہتی ہے۔ کیونکہ ہر سال کارکنوںکی ایک بڑی تعداد اپنے ملک واپس چلی جاتی ہے۔ پاکستان یا بنگلہ دیش جا کر ان میں سے کچھ تو معاشرے میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور صرف انتخابات کے زمانے میں ووٹر بن جاتے ہیں اور کچھ واپس جا کر اور زیادہ سرگرم کارکن بن جاتے ہیں۔ اس کی وہی صورت حال ہے کہ جو اسلامی جمعیت طلبہ کی ہے کہ کچھ لوگ اپنی تعلیمی زندگی کے بعد حصولِ معاش اور یا شادی کے مراحل میں ضائع ہو جاتے ہیں، لیکن بالعموم ووٹر کے مقام سے نیچے نہیں گرتے اور کبھی زندگی کی اونچ نیچ کے کسی موڑ پر یکایک سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ان کی گھُٹی میں پڑا ہوا تحریک اسلامی کا مزاج کبھی یکایک رنگ لے   آتا ہے۔

جاپان میں آمد کے ابتدائی زمانے میں، میں نے یہاں کے مسلم سفیروں سے بھی کچھ ذاتی روابط پیدا کیے تھے۔ اس دوران نائجیریا اور دوسرے افریقی و عرب ممالک کے سفرا میں کچھ ایسے لوگ بھی ملے، جنھوں نے میرے ذریعے سے پاکستان سے انگریزی میں مولانا مودودی کا لٹریچر منگوایا، یا انھیں تحفہ کے طور پر بھی یہ کتابیں دیں۔

 طالب علمی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی ذمہ داریوں پر فائز رہنے کے دوران میں نے ایک مرتبہ مولانا مودودی سے گفتگو میں یہ سوال اٹھایا:’’مجھے طلبہ کے سامنے تقاریر کے جو مواقع ملتے ہیں ان میں کیا باتیں کہی جائیں؟ آیا توحید رسالت و آخرت یا قرآن کے مختلف اہم حصوں کی توضیحات یا اسلام کے سیاسی، معاشی و معاشرتی نظام کی تفصیلات یا سیرت رسولؐ، سیرت صحابہؓ کے واقعات کی تشریح کرنی چاہیے یا کچھ اور؟‘‘ مولانا مودودی نے ان سارے موضوعات کو چھوڑ کر فرمایا: ’’طلبہ کے سامنے طلبہ کے اجتماعی مسائل پر بات کریں اور جمعیت طلبہ اُنہیں کس طرح حل کرنا چاہتی ہے ان باتوں پر تقاریر میں زور دیں‘‘۔ خود مولانا مودودی کی تقریریں پاکستان کے شہر شہر میں ہمیشہ سیاسی موضوعات پر ہوا کرتی تھیں۔ جن میں اس طرح کے سوالات بھی ان سے پوچھے جاتے تھے: مولانا، عالم دین ہونے کے حوالے سے ہم تو آپ سے کچھ قرآن و حدیث کی باتیں سننا چاہتے ہیں لیکن آپ حکومت وقت کی خرابیاں گنوانے پر اپنی ساری تقریروں کو مرکوز رکھتے ہیں‘‘۔ درحقیقت پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے ذریعہ اسلامی نظام کا نفاذ فکر مودودی کی اولیں ترجیحات میں سے تھا۔

طالب علمی کی زندگی کے بعد مجھے مولانا مودودی کے اس دعوتی و تنظیمی پہلو کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا‘ جب مشرقی پاکستان کے حلقہ چٹاگانگ میں مزدوروں کے کام کا نگران بنایا گیا۔

جب جاپان آیا تو یہاں پر ایک برائے نام پاکستان ایسوسی ایشن بنی ہوئی دیکھی۔ اس کا کام سال میں ایک دفعہ کوئی ڈرامہ کرنا یا ناچ گانے کا کوئی پروگرام رکھنا تھا۔ جب ادھر توجہ کی تو       مولانا مودودی کی دانش کے اسی نسخہ کیمیا کو استعمال کیا‘ جو انسان کو فوراً قیادت کی منزل پر پہنچا دیتا ہے۔ یعنی پاکستانیوں کے مسائل میں دل چسپی لینا اور اس میں آگے بڑھ کر حصہ لینا اور ان مقاصد کے لیے  دوڑ دھوپ کرنا۔