مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فقہی، کلامی اور سیاسی آرا سے تدریج کے ساتھ متاثر اور متفق ہونے کے بعد ان کی ذات گرامی سے آہستہ آہستہ دل چسپی، تعلق اور گرویدگی پیدا ہوتی گئی۔ اس کے نتیجے میں ان کی سیرت و کردار سے واقفیت کا داعیہ فطری طور پر پیدا ہوا، اور بہت سے منفی پہلو بھی بارسماعت ہوئے، مگر ان میں سے بیش تر معاصرت، حسد، مسلکی اختلاف کے اثر سے بے اصل و نامعتبر نکلے۔
محاسن سیرت کے سلسلے میں مجھے پہلی اطلاع یہ ملی کہ جامعہ عثمانیہ میں ] اپنے[ تقرر کی پیش کش مولانا نے اپنے اصول کی خاطر مسترد کر دی،۱؎ حالانکہ مولانا اس دور میں معاشی خستہ حالی کا شکار تھے۔ اس خبر نے مجھے مولانا مودودیؒ سے قلبی طور پر قریب تر کر دیا۔ حصول مقصد کے لیے قربانی اور تحملِ شدائد کا حوصلہ صرف عظیم انسانوں کی صفت ہے۔ اس کے بعد جب بھی مجھے ایسے حضرات ملے جن کو مولانا مودودیؒ سے کوئی معاملہ کرنے‘ ملاقات کرنے کا اتفاق ہوا تھا‘ ان سے ذکرِ یار سن کر کبھی لکھ لیتا اور کبھی حافظے کے خزانے میں جمع کر لیتا۔ ایسی ہی چند ملاقاتوں اور تاثرات کے جمع شدہ نوٹس قارئین ترجمان القرآن کے لیے پیش خدمت ہیں۔
مولانا مودودی‘ پاکستان میں تھے اور جوش صاحب بھارت میں۔ پھر جب جوش اپنے دوست جواہر لال نہرو اور ’نئے بھارت‘ سے مایوس ہو کر پاکستان آ گئے اور کراچی میں طرح اقامت ڈالی تو ایک دن مولانا مودودی سے بھی ملاقات ہو گئی۔ مولانا کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور پیرالٰہی بخش کالونی میں شیخ سلطان احمد صاحب لکھنؤ والے کے ہاں مقیم تھے۔ جوش صاحب پتا حاصل کر کے ایک دوپہر وہاں پہنچ گئے۔ پروفیسر حبیب اﷲ رشدی (م: ۱۹۶۹ئ) جوش صاحب کے ساتھ تھے۔ رشدی صاحب کا تعلق حیدرآباد‘ دکن سے تھا‘ وہ وہاں پر صف اول کے صحافی تھے‘ روزنامہ نظام گزٹ انھی نے جاری کیا تھا اور تقسیم کے بعد سے کراچی میں مقیم تھے۔ حبیب اللہ رشدی صاحب اور جوش صاحب‘ سلطان صاحب کے ہاں پہنچے۔ جب جوش صاحب کو بتایا گیا کہ مولانا مودودی کھانے اور نماز ظہر سے فراغت کے بعد آرام کر رہے ہیں‘ تو جوش نے اصرار کر کے معلوم کیا کہ مولانا کس کمرے میں سو رہے ہیں اور پھر بے تکلفی سے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ دروازہ کھلا تو ہانک لگائی ’’عوام کو جگا کر علما سو گئے‘‘۔ مولانا نے خوش دلی سے جوش صاحب کا استقبال کیا اور دیر تک یہ مجلس گرم رہی۔ بہت سے دل چسپ فقروں کا تبادلہ ہوا‘ مثلاً جب مولانا نے ذکر فرمایا: ’’اپنی قیام گاہ تبدیل کر رہا ہوں‘‘ تو‘ جوش صاحب نے پیش کش کی: ’’مولانا‘ میرے ہاں آ جائیے‘‘۔ مولانا نے برجستہ فرمایا: ’’اس میں میری بھی رسوائی ہے اور آپ کی بھی‘‘۔ گفتگو میں جوش صاحب نے مسئلہ جبر و قدر سے اپنی دل چسپی کا ذکر کیا تو مولانا نے فرمایا: ’’بگڑا ہوا شاعر ضرور جبر و قدر پر طبع آزمائی فرماتا ہے‘‘۔
حکیم صاحب‘ مولانا مودودی کے نام اور کام سے واقف تھے مگر ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ایک بار مولانا مریض کی حیثیت سے ان کے ہاں تشریف لائے۔ حکیم صاحب سے ادویہ تجویز کروانے کے بعد چودھری غلام محمد صاحب مرحوم کو نسخہ دیا کہ ’’۴۰ دن کی دوا بنوا لیں‘‘۔ مگر جب چودھری صاحب کو معلوم ہوا کہ حکیم صاحب نے ادویہ کی قیمت نہ لینے کی ہدایت کی ہے‘ تو مولانا سے آ کر یہ بات کہی۔ مولانا نے فرمایا: ’’کوئی بات نہیں ‘دوائیں لے لیجیے‘‘ (اس کے جواب میں مولانا نے لاہور پہنچتے ہی چیتی گلاب کی ایک بڑی مقدار حکیم صاحب کو بھجوا دی۔ چیتی گلاب کی کراچی میں نایابی کاذ کر آیا تھا)۔
پہلی ملاقات میں دونوں میں قرب و اتحاد کے کئی پہلو نکل آئے۔ حکیم صاحب نے جب مولانا کو دعوت طعام دی تو مولانا نے بے تامل قبول کر لی ۔اس ملاقات میں راقم بھی شریک تھا۔ مولانا اس بزمِ طعام میں بے تکلف اور شگفتہ انداز میں شریک ہوئے۔ موسم سرما تھا۔ حکیم صاحب نے مولانا سے پوچھا : ’’مولانا‘ آپ کی روٹی گرم کر دوں؟‘‘ مولانا نے فرمایا: ’’گرم روٹی اور ٹھنڈا پانی تو بڑی نعمت ہے‘‘۔ چنانچہ حکیم صاحب نے انگیٹھی پر روٹی گرم کر کے مولانا کو پیش کی‘ مگر پانی کے درجہ برودت کو ناکافی بتایا تو گلاس میں برف کی ڈلیاں ڈال دی گئیں۔ حکیم صاحب نے کہا: ’’مولانا‘ آپ کے ہاں معقولی اور منطقی انداز فکر ہم خیر آبادیوں جیسا ہے‘‘۔ اس پر مولانا نے فرمایا: ’’جی ہاں‘ میں بھی خیر آبادی مکتب فکر سے منسلک ہوں۔ میں نے معقولات کی تحصیل مولانا عبدالسلام سے کی ہے‘‘۔ اس پر حکیم صاحب بہت خوش ہوئے۔ مولانا عبدالسلام نیازی۲ سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ جب بھی وہ اجمیر آتے تو حکیم صاحب کے ہاں ہی قیام فرمایا کرتے تھے۔
کھانے سے فراغت کے بعد حکیم صاحب نے فرمایا: ’’مولانا‘ وائٹ جیسمین کا ذوق ہے؟‘‘ مولانا نے شگفتگی سے فرمایا: ’’جی‘ جیسمین بہت پی ہے مگر جب سے غبار خاطر شائع ہوئی ہے‘ چھوڑ دی‘‘۔ مولانا کا جواب سن کر کئی حضرات مسکرا دیے۔ ایک صاحب نے زیر لب فرمایا: ’’اعاظم کی اناکی بھی ایک اپنی ہی شان ہوتی ہے‘‘۔
مولانا نے چند ماہ بعد ماہرالقادری مرحوم کے نام اپنے ایک گرامی نامے میں اصل مقصد کے بعد تحریر فرمایا تھا: حکیم نصیرالدین ندوی صاحب کو میری طرف سے عرض کریں کہ آپ نے مجھے جو دوا دی تھی اس نے میری برسوں کی غلاظتیں دور کر دیں۔ اگر آپ مجھے اس کا نسخہ عنایت فرما دیں تو کرم ہو (ایسے ہی کچھ الفاظ تھے) -- ماہر صاحب نے مولانا کا یہ خط فاران میں شائع فرماتے ہوئے مولانا اور حکیم صاحب کے مراسم پر ایک نوٹ بھی لکھا تھا جس پر یہ مصرع بھی تھا ع
۱- مولانا مودودیؒ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’حیدرآباد میں ہاتھ تنگ رہتا تھا اور آمدنی قلیل تھی۔ اس لیے فاقہ کشی سے بچنے کے لیے میں چند سیر ]بھنے ہوئے[ چنے خرید کر رکھ لیتا تھا‘ تاکہ کچھ نہ ملنے کی صورت میں چنے کھا کر پانی پی لیا جائے‘‘۔
۲۔ اسی طرح ایک مرتبہ مولانا مودودی ؒنے فرمایا: ’’میں دکن سے دارالاسلام ]پنجاب[ نیا نیا آیا تھا۔ آتے ہی ترجمان القرآن کا تازہ شمارہ شائع کر دیا اور پھر دارالاسلام کے انتظامات میں مصروف ہو گیا ۔کمر کمر تک گھاس کھڑی تھی‘ وہ کٹوا رہا تھا۔ اسی دوران ایک صاحب آئے‘ پختہ عمر‘ سادہ دیہاتی لباس‘ ہاتھ میں لکڑی اور تھیلا‘ وہ مجھ سے ہی ملنے آئے تھے۔ میں نے جب اپنا تعارف کروایا تو انھوں نے تھیلے سے ترجمان القرآن کا تازہ شمارہ نکال کر‘ میرے مضمون کی ایک عبارت دکھائی جس پہ انھیں اعتراض تھا۔ میرے جواب سے مطمئن ہو کر انھوں نے رسالہ تھیلے میں رکھا اور رخصت ہونے لگے۔ میں نے تعارف چاہا تو معلوم ہوا کہ صوبہ سرحد کے ایک قصبے سے ان کا تعلق ہے۔ رسالے میں ایک قابلِ اعتراض عبارت دیکھتے ہی وہ اس پر احتجاج کے لیے لکڑی اور تھیلا ہاتھ میں لے کر چل پڑے‘ لیکن جب اعتراض رفع ہو گیا تو مطمئن ہو کر اسی وقت واپسی کے لیے تیار ہوگئے۔ میں نے انھیں پیش کش کی کہ کچھ دیر قیام کریں‘ سستا لیں‘ ماحضر تناول فرما لیں پھر واپسی ہو۔ مگر انھوں نے عذر کیا: ’’جزاک اللہ‘ مجھے کئی ضروری کام درپیش ہیں‘ بس یہ مضمون پڑھتے ہی میں بے چین ہوا‘ اورسب کام چھوڑ کر یہاں چلا آیا۔ اب چونکہ اطمینان ہو گیا ہے اس لیے ایک لمحہ ٹھیرنا بھی دوبھر ہوگا‘‘۔ مولانا مودودیؒ فرماتے تھے: ’’میں نے ان صاحب کی آمد سے بڑا اطمینان محسوس کیا کہ میں زندوں کی بستی میں آ گیا ہوں۔ ورنہ برسوں دکن میں رہا اور بہت متنازعہ فیہ مضامین لکھے‘ لیکن وہاں پر مجھے کوئی گربیان پکڑنے والا نہیں ملا تھا‘‘۔
محمدیوسف صدیقی مرحوم ہی کے حوالے سے ایک اور واقعہ بھی جی چاہتا ہے کہ ذکر کروں۔ اجتماع ٹونک کے موقعے پر یوسف صاحب نے اپنے ہاں مولانا کی دعوتِ طعام کا اہتمام کیا‘ اور اس میں خاصان شہر کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ انھی حضرات میں ایک وکیل صاحب بھی تھے۔ اﷲ بخشے بحث و مناظرہ کا انھیں خاص ذوق تھا۔ بہت بولتے تھے اور دوسرے کی ہر بات کی تردید کی کوشش میں ہر لمحے مستعد دکھائی دیتے تھے۔ کئی دن سے وہ مولانا کی نشست میں شریک ہو رہے تھے اور اپنے ’’فن‘‘ کا مظاہرہ کرتے تھے۔ خیر‘ یہ وکیل صاحب بھی اس دعوت میں بلائے گئے تھے۔ کھانے کی ڈشوں میں بکرے کا بھیجا بھی تھا۔ میزبان نے مولانا کو متوجہ کیا: ’’مولانا‘ بھیجے کی طرف بھی توجہ فرمائیں‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’ہمارے وکیل صاحب کو دیجیے۔ انھیں بھیجا کھانے کا بہت شوق ہے‘‘۔ سب شرکاے طعام وکیل صاحب کے اس ذوق و شوق سے واقف تھے‘ اس لیے وکیل صاحب سمیت سبھی نے خوب لطف لیا۔
حکیم شمس الحسن صاحب‘ عالم اور فاضلِ طب تھے۔ تاسیسِ جماعت اگست ۱۹۴۱ء سے پہلے بھی ان کا مولانا مودودیؒ سے تعلق تھا۔ پھر اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت کے بنیادی رکن بنے۔ بعد میں بعض وجوہ سے رکنیت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ لیکن ۱۹۷۱ء میں جب دیکھا کہ اشرار کے ساتھ اخیار بھی‘ اور اسلام دشمنوں کے ساتھ علماے کرام بھی جماعت اسلامی کی مخالفت میں ہم قدم ہیں‘ تو انھوں نے میدان جہاد میں کود پڑنے کا فیصلہ کر لیا اور جماعت کی رکنیت دوبارہ اختیار کر لی۔ پھر اخباری بیانات کے علاوہ خطبوں کے ذریعے مولانا امین احسن اصلاحی (م: دسمبر ۱۹۹۷ئ) وغیرہ کو جماعت کا ساتھ دینے کی تلقین کی۔ سکھرمیں جہاں وہ عرصے سے مقیم تھے ۱۵/ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۹ء کو وصال فرمایا۔
حکیم شمس الحسن صاحب سے راقم کا تعارف ۱۹۵۲ء میں ہوا۔ اس وقت وہ جماعت میں شامل نہیں تھے۔ ان کی علیحدگی میں بنیادی طور پر رفقاے جماعت سے اختلافات کو دخل تھا‘ مولانا کے افکار و نظریات سے اس وقت بھی انھیں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ مولانا کے ذاتی اوصاف و کمالات کے تووہ بے حد مداح و معترف تھے‘ اور اکثر اس قسم کے واقعات بڑی عقیدت سے سنایا کرتے تھے‘ جن سے مولانا کی عظمتِ کردار‘ وسعتِ ظرف‘ علو ہمت‘ درویش مزاجی‘ اتقا‘ توکل‘ تحمل‘ صداقت شعاری‘ ایثار‘ تدبر‘ دردمندی‘ ذہانت‘ فراست اور شگفتہ مزاجی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعد میں حکیم شمس الحسن صاحب کراچی سے سکھر منتقل ہو گئے‘ تاہم جب بھی وہ کراچی تشریف لاتے تو لازماً غریب خانے پر آنے کی زحمت فرماتے اور ہماری طویل نشست رہتی۔ ہماری گفتگو کا موضوع بیش تر مولانا مودودی کی شخصیت ہی ہوتی تھی۔
اخیار و صلحا کی داستانوں سے مجھے لڑکپن سے ہی دل چسپی رہی ہے‘ اور اس کے فوائد و ثمرات کا بھی مسلسل تجربہ ہوا ہے۔ ایک بار خیال ہوا کہ حکیم شمس الحسن کی ان قیمتی روایات کو قلم بند کر لیا جائے۔ اس حوالے سے میں نے خود حکیم صاحب سے عرض کی: ’’آپ کے حافظے میں تاریخ جماعت اور سیرت مودودی کا بڑا قیمتی سرمایہ محفوظ ہے‘ اسے ضائع نہ ہونے دیں بلکہ اسے قلم بند کر لیں۔ مجھے بحیثیت معالج معلوم ہے کہ پایانِ عمر میں بہت سا ذخیرہ لوحِ حافظہ سے محو ہو جاتا ہے اور بہت سے واقعات اور سنین مختلطہو جاتے ہیں‘‘۔ جواب میں حکیم صاحب قلم دانی سے اپنی عدم مناسبت کا عذر کرتے رہے‘ مگر میرے مسلسل اصرار کے بعد انھوں نے وعدہ کر لیا۔ جس پر یہ طے ہوا کہ حکیم صاحب سکھر سے مجھے اقساط بھیجتے رہیں گے اور میں انھیں جمع کرتا رہوں گا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے یہ سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ ایک ایروگرا م لے کر لکھنا شروع کر دیتے اور جب اس کی وسعت تنگ ہو جاتی تو مجھے روانہ کر دیتے۔ افسوس ہے کہ حکیم صاحب کے ایسے تین ہی خط آئے تھے کہ پھر داستان سنانے والا خود داستان بن گیا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ ان خطوں میں بات اس انداز سے شروع کی گئی تھی کہ جیسے کوئی مبسوط کتاب لکھنی پیشِ نظر ہو۔ اس ضمن میں سیرت مودودی کے سلسلے میں‘ حکیم صاحب کی باتیں آپ کو سناتا ہوں:
حکیم شمس الحسن نے فرمایا: ’’میں ایک زمانے میں بہاول پور میں مقیم تھا۔ وہاں مولانا مودودی کے خالہ زاد بھائی مشتاق احمد زاہدی سے جو بہاول پور کے ایک کالج میں پرنسپل تھے‘ مولانا کا تذکرہ‘ ان کے علم و فضل اور ذہانت و ذکاوت کی باتیں سنی تھیں‘ اور مولانا کی کچھ تحریریں خصوصاً مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکشوغیرہ دیکھی تھیں۔ چنانچہ‘ میں بہاول پور سے سہارن پور جاتے ہوئے لاہور اتر گیا اور مولانا کے گھر پہنچا۔ مولانا اس زمانے میں پٹھان کوٹ سے لاہور منتقل ہو گئے تھے‘ اور اسلامیہ کالج لاہور میں اعزازی پروفیسر بھی ہو گئے تھے‘ اسلامیہ پارک میں کرائے کے ایک مکان میں رہتے تھے۔ میری اطلاع پر مولانا آئے‘ بیٹھک کھول کر بیٹھ گئے۔ یہ ۱۹۳۹ء کی بات ہے‘ جب مولانا سے میری مختصر سی بات ہوئی۔
میں نے دریافت کیا: ’’آپ کیاکرنا چاہتے ہیں؟‘‘ مولانا نے فرمایا: ’’تجدید و احیاے دین‘‘۔ میں نے کہا: ’’یہ کام تنہا نہیں ہو سکتا اور ایک جماعت کے بغیر نہیں ہو سکتا‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’صحیح ہے جماعت بنانی ہو گی‘‘۔ میں نے کہا: ’’جب بھی آپ جماعت بنائیں تو میرا پتا یہ ہے‘ آپ مجھے اس کی اطلاع ضرور دیں اور مجھے اس میں آج ہی شامل سمجھیں‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’سوچ سمجھ لیجیے‘‘۔ بس اتنی سی بات کر کے میں چلا آیا۔ چند روز کے بعد قمرالدین صاحب کا خط آیاجو اس زمانے میں مولانا کے سیکرٹری تھے: ’’مولانا پوچھتے ہیں کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟‘‘ میں نے جواب لکھ دیا: ’’میں تو اپنا فیصلہ اسی وقت مولانا کو بتا آیا تھا۔ وہی میرا آخری فیصلہ ہے‘‘۔ چنانچہ اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت کی تاسیس کے سلسلے میں دعوت نامہ آیا اور میں اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور پہنچ گیا‘‘۔
حکیم شمس الحسن صاحب کے بقول: ’’تاسیسِ جماعت کے اجتماع میں شرکت سے پہلے میری مولانا سے ایک اور ملاقات بھی ہوئی تھی۔ جب میں پہلی بار مولانا مودودی سے مل کر سہارن پور پہنچا تو مدرسہ مظاہرالعلوم کے ایک عالم مولوی جمیل احمد نے مجھ سے اپنے ایک منصوبے کا ذکر کیا‘ جو بم بنانے کا کارخانہ بنانے سے متعلق تھا۔ جمیل صاحب نے سہارن پور کی اہمیت بتائی کہ: ’’یہ شہر کئی انگریزی چھائونیوں کے عین وسط میں ہے اور یہاں کا ہنگامہ بہت جلد پھیل سکتا ہے‘‘۔ میں نے ان کی تائید کی اور اپنی اعانت کا وعدہ بھی کیا‘ مگر اس شرط کے ساتھ کہ میں ایک صاحب سے وعدہ کر چکا ہوں اور پہلے ان سے اجازت لینی ضروری ہے۔ چنانچہ میں نے مولانا مودودی کو خط لکھا: ایک اہم مسئلے پر آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے اس خط کے جواب میں مولانا محترم نے مجھے چار روپے کا منی آرڈر کیا (اس دور میں سہارن پور سے لاہور تک ریل کا کرایہ چار روپے ہوتا تھا) اور کوپن پر مولانا نے لکھا: ’’یہ کرایہ ہے‘ آپ فوراً چلے آئیں‘‘۔ چنانچہ میں لاہور پہنچا اور مولانا سے اس منصوبے کاذکر کیا۔ میری بات سننے کے بعد مولانا مودودی نے ایک مفصل گفتگو فرمائی اور یہ ثابت کر دیا کہ: ’’یہ کرنے کا کام نہیں ہے۔ کرنے کا کام اقامت دین‘ اسلام کی ہمہ گیر اور ہمہ جہت جدوجہد ہے‘ جس کے نتیجے میں صرف اس ملک سے انگریز ہی نہیں‘ بلکہ ہر طاغوت کو سیادت و قیادت ِ عالم سے ہٹا دیا جائے گا‘‘۔ چنانچہ میں نے واپس سہارن پور جا کر مولوی جمیل احمد صاحب سے معذرت کر دی۔
حکیم صاحب نے بتایا: ’’اگست ۱۹۴۱ء میں تاسیسِ جماعت کا جلسہ ہوا۔ اس میں ۷۵ افراد نے رکنیت کا حلف اٹھایا تھا۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے اس وقت جو تقریر کی تھی‘ اس میں وہ خود بھی اس قدر روئے تھے کہ داڑھی تر ہوگئی تھی اور دوسرے شرکا پر بھی رقت طاری تھی‘‘۔
تاسیسِ جماعت کے کچھ عرصے بعد مولانا مودودیؒ پھر دارالاسلام‘ پٹھان کوٹ منتقل ہو گئے تھے۔ حکیم صاحب بتاتے ہیں: ’’میں ۴۳-۱۹۴۲ء میں تقریباً ایک سال تک پٹھان کوٹ میں مقیم رہا۔ وہاں میرے ذمے مہمان خانہ اور اسٹور وغیرہ کا انتظام تھا‘ ساتھ ہی میں مولانا کے دو بچوں عمر فاروق اور احمد فاروق کو پڑھایا بھی کرتا تھا۔ اسی لیے میں مولانا کے گھرانے میں ’ماسٹر صاحب‘ کہلاتا تھا۔ اس تقریباً ایک سال کے عرصے میں وہاں جو واقعات پیش آئے‘ یا مولانا سے جو واقعات سنے ان میں سے چند سناتا ہوں‘‘۔
حکیم شمس الحسن مرحوم نے فرمایا: ’’مولانا مودودی‘ دکن سے علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب جاتے ہوئے ابھی دہلی میں ٹھیرے ہوئے تھے کہ عبدالعزیز شرقی‘ علامہ کا کوئی پیغام لے کر دہلی پہنچے اور مولانا سے ملے۔ پھر مولانا‘ دہلی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو چودھری نیاز علی مرحوم‘ مولانا کے استقبال کے لیے بٹھنڈہ تک آئے تھے اور ساتھ ہی لاہور گئے تھے‘‘۔
’’پٹھان کوٹ میں مولانا مودودی کی والدہ بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ بڑی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں‘ مگر مولانا سے چھپ کر قرب و جوار کی قبروںکی زیارت کے لیے ضرور جایا کرتی تھیں۔ مولانا‘ اپنی والدہ کے اس طرح اخفا کی کوشش کے ساتھ جانے پر بس مسکرا دیا کرتے تھے‘‘۔
’’مولانا دکن سے پٹھان کوٹ تو آگئے مگر چودھری نیاز علی صاحب سے چند اصولی باتوں پر اختلاف کی وجہ سے وہاں نبھی نہیں‘ اس لیے لاہور منتقل ہو گئے۔ تاسیسِ جماعت سے پہلے منتقل ہونے کا یہ واقعہ مولانا مودودی نے مجھے بتایا تھا۔ فرمایا: ’’میں نے اچانک ایک دن پٹھان کوٹ چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا اور ٹرک لے کر اہل و عیال اور سامان کو اس پر لاد کر لاہور پہنچ گیا اور مکان کی تلاش شروع کردی۔ شام کو چوبرجی کے علاقے میں ایک مکان مل گیا‘ تو ٹرک سے سامان اور اہل و عیال کو اتارا‘‘۔
’’تاسیسِ جماعت کے کچھ ہی دن بعد قمرالدین خان‘ مولانا جعفر شاہ پھلواروی‘ مولانا محمد منظور نعمانی‘ وغیرہ نے مولانا مودودی پر اچانک تنقید شروع کر دی اور ایک تیرہ نکاتی تحریر مولانا کے خلاف لکھی۔ ان تیرہ میں سے ایک نکتہ یہ بھی تھا: ’’مولانا مودودی کے ہاں صوفہ سیٹ ہے‘‘ (وہ صوفہ بانس کا بنا ہوا تھا)۔ اور یہ کہ : ’’آپ کا پان دان اور پانوں کی ڈبیا چاندی کی ہے‘‘ (یہ دونوں چیزیں چاندی کی نہیں نِکل کی تھیں اور دکن کی مشہور فیکٹری کی بنی ہوئی تھیں)۔ مزید یہ کہ: ’’آپ کی وضع قطع علما کی سی نہیں ہے‘‘۔ چنانچہ دہلی میں مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا‘ جس میں یہ احباب جماعت سے الگ ہوگئے‘‘۔
’’اسی زمانے میںجماعت کے مکتبے کے ناظم محمد شاہ تھے‘ جنھوں نیترجمان القرآن کا ۴۰ رم کاغذ غائب کر دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنگ عظیم دوم کی وجہ سے کاغذ نایاب تھا۔ ہم نے بہت اصرار کیا کہ: ’’مولانا‘ پولیس میں رپورٹ درج کرا دیں‘‘۔ مولانا مودودی‘ برطانوی سامراج کی حکومت سے استفادے کی ان شکلوں کو جائز نہیں سمجھتے تھے‘ اس لیے انھوں نے یہ تجویز مسترد کر دی‘‘۔
’’اپنی اولاد کے سلسلے میں مولانا نے فرمایا: میں نے لڑکوں کے نام کے لیے حضرت عمر فاروقؓ کے نام کا انتخاب کیا ہے (یعنی عمر فاروق اور احمد فاروق وغیرہ) اور لڑکیوں کے نام کے لیے حضرت صدیق اکبر ؓکے گھرانے کی خواتین کے نام منتخب کیے ہیں‘ یعنی حمیرا‘ اسماء وغیرہ‘‘۔
’’پٹھان کوٹ میں مولانا مودودی درس قرآن دیا کرتے تھے‘ جس میں میرے علاوہ نعیم صدیقی‘ مولانا امین احسن اصلاحی‘ یحییٰ صاحب‘ ملک غلام علی وغیرہ شریک ہوتے تھے۔ مولانا کا درس قرآن پورا ہونے کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی نے درس دینا شروع کیا۔ اب مولانا مودودی ہمارے ساتھ سامعین کے حلقے میں بیٹھ کر مولانا امین احسن اصلاحی کا درس سنتے تھے‘‘۔
حکیم شمس الحسن نے یہ بھی فرمایا: ’’مرکز جماعت کے قیام کے زمانے میں ‘ مَیں مولانا کے بیٹوں کو پڑھاتا تھا۔ اسی دوران مولانا محترم کی اہلیہ سے میری تلخ کلامی ہو گئی ۔اس کے بعد الہ آباد کے اجتماع میں جہاں بیگم مودودی اور مولانا کی والدہ صاحبہ بھی گئی تھیں‘ وہاں پر والدہ صاحبہ نے میری تلخی ختم کرا دی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنی بیگم سے سخت تلخی سے پیش آنے اور سچی بات یہ ہے کہ گستاخی تک کر گزرنے کے باوجود ‘ مولانا مودودی نے مجھ سے نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کہا‘ نہ طرز عمل میں کوئی تبدیلی آنے دی بلکہ انھوں نے اپنی باوقار خاموشی اور باخبری پر مبنی لا تعلقی سے اس قسم کا تاثر دیا کہ دوبہن بھائیوں کی جنگ ہے ‘ہم کیوں دخل دیں۔ البتہ ایک روز کسی نے ذکر کیا تو بس یہ جملہ کہا: دو جلالی آپس میں متصادم ہو گئے ہیں‘‘۔
حکیم شمس الحسن صاحب نے ایک عجیب تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا: ’’مولانا مودودی کے صبر و ضبط کا ہم نے بار بار امتحان لیا‘ جس میں ہر بار وہ کامیاب نکلے۔ ایک بار نعیم صدیقی صاحب نے مولانا کے پاس سے آکر ہم رفقا سے کہا: ’’مولانا نے فرمایا ہے کہ میں ایک ضروری تحریر لکھ رہا ہوں‘ اس لیے کوئی صاحب ملنے نہ آئیں‘‘۔ میرے مزاج میں جو بغاوت کا مادہ ہے وہ اس دور میں ویسے بھی شباب پر تھا۔ مولانا کی ہدایت اور نعیم صدیقی صاحب کی اطلاع سنتے ہی اس جذبۂ بغاوت نے مجھے اکسایا‘ اور مولانا کی اس ہدایت کو چیلنج کرنے کے لیے میں اگلے ہی لمحے مولانا مودودی کے کمرے میں جا پہنچا اور کرسی کھینچ کر اس انداز سے مولانا کے سامنے جا بیٹھا کہ جیسے گپ شپ کرنے آیا ہوں۔ اب آپ مولانا مودودی کے ظرف کو دیکھیے‘ کہ وہ قلم رکھ کر میری طرف متوجہ ہو گئے اور میری باتوں کا جواب دینے لگے۔ جواب بھی کوئی ہاں‘ ناں میں نہیں‘ تفصیلی دیے اور گفتگو میں ایسی دل چسپی لی کہ جیسے خود اس وقت ایسی بے مقصد و بے موضوع گفتگو کے موڈ میں تھے۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے ان پر رحم آ گیا اور میں یہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا: ’’مولانا‘ آپ اپنا کام کریں‘ میں تو نعیم صاحب کی زبان سے آپ کی ہدایت سن کر‘ کہ مجھ تک کوئی نہ پہنچے بھڑک اٹھا تھا۔ بس اب بہت امتحان لے لیا‘‘۔ میں نے باہر نکلنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ مولانا نے حسب معمول شگفتگی سے جواب دیا: ’’اور پاس بھی کر دیا‘‘ ، پھر ایک خاص انداز میں فرمایا: بھئی‘ ایک کمزور آدمی کو کب تک آزمائو گے‘‘۔
شمس الحسن صاحب نے بتایا: ’’ایسے ہی ایک بار ہم چند رفقا بھاری لکڑی اٹھا کر لا رہے تھے‘ کہ میری نظر مولانا مودودی پر پڑی‘ جو اپنے چبوترے پر سفید بے داغ اور بّراق کپڑے پہنے بیٹھے لکھ رہے تھے۔ میرے ذہن میں پھر بغاوت کا کیڑا کلبلایا اور قدرے بلند آواز میں رفقا سے کہا: ’’یہ بار تو وہ اٹھائے‘ جس نے امارت کا بار اٹھایا ہے‘‘۔ مولانا نے میری یہ بات سن لی اور کوئی تاثر دیے بغیر فوراً قلم رکھ کر چبوترے سے اتر آئے اور ہماری مدد سے وہ لکڑی کاندھے پر رکھوا لی اور چلنے لگے۔ انھوں نے چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ ہم نے الحاح وزاری کے ساتھ مولانا سے درخواست کی: ’’بس کیجیے‘‘ اور بمشکل وہ لکڑی مولانا کے کندھے سے اتروائی‘‘۔
’’ایک بار ایک ہندو کانگریسی رہنما‘ جو غالباً پنڈت جواہر لال نہرو کا پرائیوٹ سیکرٹری تھا اور بڑا ذہین اور صاحب ِنظر تھا‘ بیمار ہو کر ہمارے قریب میں اپنے گائوں چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ اس کو جب دارالاسلام کی بستی اور جماعت کے کام کی سن گن لگی‘ تو اس نے مولانا مودودی سے ملنے کے لیے وقت مانگا۔ وہ جب آیا تو ہم لوگ بھی شریک محفل ہو گئے۔ چائے سے تواضع کی گئی۔ وہ مولانا مودودی کی شخصیت اور دارالاسلام کے ماحول کی شائستگی اور صفائی کے اعلیٰ معیار سے خاص طور پر متاثر ہوا‘‘ ۔
شمس الحسن صاحب نے روایت کیا: ’’ بعد میں بھی کئی بار میری اس سے ملاقات ہوتی رہی۔ اس نے کئی بار کہا: ’’مولانا مودودی میں تو مولانائوں جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ باقاعدگی‘ صفائی‘ ستھرائی‘ منطقی اندازِ فکر‘ باخبر رہنے کا اہتمام‘ پُرزوراستدلال‘ یہ باتیں مذہبی رہنمائوں میں نایاب ہیں‘ سوائے مولانا ابوالکلام آزاد کے‘‘۔
مولانا مودودی سے گفتگو میں اس نے بڑے اہم سوالات کیے اور مولانا کے جوابات پر اس کے اطمینان ہی نہیں حیرت کا بھی اظہار ہوتا تھا۔ جیسے سوچتا ہو: ایسا جواب‘ اور اس گائوں میں ایک مولوی کی زبان سے؟ -- مولانا دوران گفتگو متعدد بار اعداد و شمار پیش کرتے تو وہ چونک سا جاتا تھا۔ ایک بار اس نے مولانا کے بتائے ہوئے اعداد وشمار پر شک کا اظہار کیا تو مولانا نے حوالہ پیش کر دیا‘ غالباً کانگریس کمیٹی کی رپورٹ کا۔ آخر میں اس نے مولانا مودودی سے پوچھا: ’’آپ کو کب تک اپنے مقصد میں کامیابی کی توقع ہے؟‘‘ مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر فرمایا: ’’کم سے کم دونسلوں کے بعد‘‘۔ وہ اس جواب سے بہت ہی متاثر اور مرعوب ہوا۔
پھر اس کے بعد بھی اس سے میری کئی بار ملاقاتیں ہوئیں‘ کیوں کہ مجھے اس کے گائوں سے گزرنا ہوتا تھا۔ ان ملاقاتوں میں اندازہ یہ ہوا کہ ایک ہندو کی حیثیت سے وہ خائف بھی ہوتا تھا۔ کہتا تھا :’’جب اسلام کے لیے اتنے سائنٹی فک طریقے پر کام کیا جائے گا‘ انداز فکر اتنا غیر جذباتی اور منطقی ہوگا‘ اور حالات حاضرہ اور سیاسیات عالم پر اس گہری نظر کے ساتھ اور صحیح خطوط پر تحریک چلائی جائے گی تو اس کی کامیابی کا قوی اندیشہ ہے‘‘۔
حکیم شمس الحسن صاحب نے کہا: ’’جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد بڑے بڑے زلزلے آئے‘ باہر بھی مخالفت کا طوفان اٹھتا رہا اور اندر بھی کئی ارکان معترضانہ‘ ناقدانہ بلکہ معاندانہ سرگرمیوں میں منہمک رہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب جماعت منتشر ہونے سے نہ بچ سکے گی۔ مگر اس سارے ماحول میں مولانا کے حوصلے اور ہمت کی شاید کوئی حد نہیں تھی۔ ان کو ہم نے کبھی مایوس‘ دل گرفتہ اور پریشان نہیں دیکھا‘ بلکہ ہماری پریشانی اور نراش مولانا کے پاس جا کر دور ہو جاتی تھی۔ مولانا کی شگفتگی کی بہار ہر موسم میں پھول کھلاتی رہتی تھی‘ وہی فقرے‘ چٹکلے‘ لطف طبع‘ تبسم‘ خندہ جبینی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے مولانا کے کمرے میں نہ کسی آندھی کا گزر ہوتا تھا‘ نہ ژالہ باری ہوتی تھی اور نہ کوئی آگ برستی تھی۔ بس ہر وقت باد بہار کے جھونکے اٹھلائے پھرتے تھے۔ ہم میں سے ہر شخص نے بار بار اس تاثر کا اظہار کیا ہے کہ مولانا کی گفتگو کوئی الگ چیز ہے۔ ان کے پاس جاتے ہی ایک نوع کی ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا‘ اور ہم رفقا کے درمیان یہ جملہ تو کئی بار دہرایا گیا کہ: ’’مولانا کے کمرے کا درجہ حرارت ہمارے کمروں سے مختلف ہوتا ہے‘‘۔
ایک روز حکیم شمس الحسن صاحب نے فر مایا: ’’مولانا ہم لوگوں کے ساتھ اپنائیت‘ سادگی اور بے تکلفی سے پیش آتے تھے‘ مگر ہم میں سے بیش تر رفقا بلکہ باہر سے آنے والے مشاہیر اہل علم و اہل قلم بھی ایک حد تک مرعوبانہ انداز سے ملتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی شخص مولانا سے گفتگو میں حد سے تجاوز کر سکا ہو یا ایسا بے تکلف ہو سکا ہو کہ اس کی آواز بلند ہو گئی ہو۔ میری نظر میں اس چیز میں مولانا کی روحانیت کو دخل تھا‘‘۔
لفظ ’’روحانیت‘‘ پر میں چونکا تو شمس الحسن صاحب کہنے لگے: ’’حکیم صاحب‘ ہم تو علما کے مرکز سہارن پور میں پلے اور بڑھے۔ بڑے بڑے علما کو قریب سے دیکھا ہے۔ اوراد و وظائف اور ظاہر کے اہتمام کا نام اگر روحانیت ہے تو ایسی روحانیت بہرحال مولانا میں نہیں تھی ‘ لیکن اگر دین کی خدمت کے پرزور ولولے‘ اصلاح باطن کی مسلسل فکر و تدبیر‘ تزکیہ نفس کے لیے پیہم جدوجہد‘ انسان سے ہمدردی‘ عاجزی‘ ظلم سہنے اور سہے جانے کا ذوق‘ سخت سے سخت تنقید کا تحمل سے جواب بلکہ ہمت افزائی‘ اللہ تعالیٰ پر بھرپور بھروسا‘ رازوں کا ہر حال میں اخفا‘ جذبۂ عفو‘ درمدح خود گفتن سے کامل احتراز‘ اپنی ستایش بہ کراہت سننے پر راضی ہونے سے بھی اجتناب‘ عبادت میں خشوع و خضوع--- ان باتوں کا نام بھی اگر ’’روحانیت‘‘ ہے‘ تو یہ روحانیت مولانا مودودی میں بدرجۂ تام پائی جاتی تھی‘ اور اسی لیے وہ مستجاب الدعوات تھے۔ ان کے بہت سے خواب سچے نکلے۔ ان کی زبان سے کسی کی غیبت نہیں سنی گئی‘ بلکہ ان کی محفل میں کوئی غیبت نہیں کر سکتا تھا‘‘۔
’’نماز ایسے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے کہ میں نے آج تک کسی کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ کسی کی اعانت (اور بکثرت کرتے تھے) اخفا کے بڑے کامیاب اہتمام کے ساتھ کرتے تھے۔ اپنی مدح و ستایش سننا ان پر بڑا شاق گزرتا تھا۔ کیونکہ ا س سے زیادہ تحمل انھیں کسی اور چیز کے لیے نہیں کرنا پڑتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اپنی مدح سن کر پسینے سے تر ہوجاتے اور شرما جاتے تھے۔ میں ان کی یہ ادا دیکھنے کے لیے ان کے سامنے اکثر ان کی تعریف کر گزرتا تھا۔ اللہ معاف فرمائے‘‘۔
’’ جب دیکھتے کہ کوئی بحث پر اتر آیا ہے‘ تو چپ ہو جاتے۔ بات کرنے والے کی بات کبھی کاٹتے نہیں تھے خواہ وہ کیسی ہی غلط بات کیوں نہ کہہ رہا ہو۔ جب بولنے والا چپ ہو جاتا تو بولنا شروع کرتے۔ ان کی گفتگو کے دوران جونہی کوئی بول پڑتا تو فوراً چپ ہو جاتے‘ اسے بولنے دیتے۔ میں نے ان کو کبھی برہم اور خشم ناک نہیں دیکھا۔ ان کی کسی گفتگو میں جھنجلاہٹ کی جھلک نہیں دیکھی۔ مختصر یہ کہ ان کے ساتھ ہمیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ان کی صحبت میں رہ کر دنیا سے دل سرد ہو جاتا تھا‘‘۔
’’وہ صاف ستھرے رہتے تھے‘ جامہ زیب تھے‘ مزاج میں نفاست و لطافت تھی‘ اس لیے ان کو دور سے دیکھنے والے انھیں خوش حال اور امیر مزاج سمجھتے تھے‘ حالانکہ وہ بہت کم معاش تھے۔ ان کے ذرائع آمدنی بہت محدود تھے اور اکثر تنگ دست رہتے تھے‘ مگر انھوں نے اخراجات بہت کم کر رکھے تھے۔ ضروریات بہت محدود کر لی تھیں اور ضرورت کی چیزوں کو بہت سلیقے سے استعمال کرتے تھے۔ ان کے بعض کرتے کئی کئی سال سے ان کے پاس تھے۔ ایک بار پوچھنے پر بتایا یہ شیروانی ۲۵ سال پہلے سلوائی تھی۔ اپنے کپڑے خود دھولیتے تھے‘ گھر کے بہت سے کام خود کرتے تھے۔ ہم نے ان کو ایندھن کے لیے لکڑی کاٹتے دیکھا ہے۔ بجلی کی وائرنگ‘ گھڑی گھنٹے کی صفائی اور درستی اور دروازے کھڑکیوں کی مرمت بھی خود کر لیتے تھے۔ اس طرح ان کے بہت سے اخراجات کم ہو جاتے تھے۔ اللّٰہ اکبر‘ مگر سوء اتفاق سے یہی چیز بہت سے علماے کرام کے نزدیک قابلِ اعتراض اور علما کی ’شان‘ کے خلاف تھی اور مولانا کی دنیاداری کا ثبوت بھی قرار دی گئی‘‘۔
حکیم شمس الحسن صاحب ہی نے بتایا: ’’ایک بار رمضان میں مولانا مودودی کے اہل و عیال دہلی گئے ہوئے تھے‘ جو ملازم کھانا پکانے وغیرہ کے لیے رکھا تھا وہ فرض ناشناس‘ کاہل اور گندا تھا۔ مولانا اس کے طرزعمل سے تنگ تھے۔ ایک دن میں نے سنا کہ‘ مولانا اپنے ملازم سے کہہ رہے تھے: ’’تمھیں روز کہتا ہوں‘ مگر آج بھی سحری کے برتن اب تک بے دھلے پڑے ہیں۔ روزے میں ان کو دیکھنے سے الجھن ہوتی ہے‘‘۔ دوسری شکائتیں بیان کر کے کہنے لگے: ’’اگر تم یہ چاہتے ہو کہ جیسا برتائو دوسرے لوگ کرتے ہیں اور جس زبان کے سننے کے تم عادی ہو‘ وہی زبان میں استعمال کروں اور ویسی باتیں کہوں تو تمہیں مایوس ہونا پڑے گا‘ مجھ سے اس زبان و بیان کی توقع نہ رکھو۔ اس لیے یہی بہتر ہے کہ کوئی اور ٹھکانہ تلاش کرکے مجھے بتا دو‘‘۔ کیسے عجیب انسان تھے کہ اپنے ناہنجار ملازم سے شکایت بھی درخواست کی صورت میں کر رہے تھے!‘‘
’’اخلاق و کردار کی اصلاح و تربیت کے سلسلے میں مولانا محترم اتنے ہی ’دیرباز‘ تھے جتنے ہم ’جلدباز‘ ہوتے ہیں۔ انھیں اس نکتے پر بڑا اصرا رتھا کہ اصلاح بڑی حکمت کے ساتھ‘ بڑے تحمل سے اور بڑی تدریج سے ہونی چاہیے۔ انھوں نے ہم لوگوںکی اصلاح کے لیے بھی ایسا ہی حکیمانہ اور طویل المیعاد منصوبہ بنایا تھا۔ ہم میں سے کوئی کسی رفیق کی اخلاقی کمزوری یا کوتاہی یا نوافل سے غفلت کی طرف متوجہ کرتا تو مولانا حکمت سے لبریز لہجے میں فرماتے: ’’ان کی اصلاح ہو رہی ہے‘ مگر رفتا ر سست ہے‘ آپ مایوس کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ ایک بار ایک صاحب کی داڑھی رکھنے کا ذکر آیا تو ہم نے درخواست کی: ’’آپ ان کو متوجہ فرمائیں‘‘ تو جواب دیا: ’’داڑھی میری سنت تو نہیں ہے سنت رسولؐ ہے‘ اور انھیں بھی معلوم ہے کہ سنت رسول ہے‘ اس لیے آپ انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیں‘ تاکہ جب بھی رکھیں تو سنت رسولؐ سمجھ کر رکھیں۔ میری یا آپ کی فہمایش پر یا دکھاوے کے لیے نہ رکھیں‘‘۔ ان کو امید تھی کہ جلد ہی یہ جذبہ ان کے اندر سے ابھرے گا اور وہ ضرور داڑھی رکھیں گے۔ اسی طرح ایک صاحب کا ذکر آیا کہ: ’’ان کی داڑھی کی مقدار شرعی نہیں ہے‘‘۔ فرمایا: ’’آپ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ داڑھی کی مقدار شرعی نہیں ہے‘ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ پہلے داڑھی نہیں تھی اب داڑھی ہے۔ ان شاء اللہ بڑھ بھی جائے گی‘‘۔
حکیم شمس الحسن کے بقول: مختصر یہ کہ اخلاق و کردار کی اصلاح کے لیے ان کے کچھ تجربے اور کچھ اصول تھے‘ جن کو غلط بہرحال نہیںکہا جاسکتا۔ صوفیا کے مختلف سلسلوں میں جو اختلافات ہیں اور تورع اور تقشف کا جو اختلاف ہے وہ صوفیا کے تجربوں پر مبنی تھے‘ ایک سلسلۂ تربیت یہ بھی سہی۔
’’۱۹۳۹ء میں مولانا مجھ کو لاہور لائے تھے۔ ۱۲ روپے میری تنخواہ مقرر ہوئی تھی۔ اس زمانے میں مولانا کا محلہ چوبرجی میں قیام تھا۔ سات آٹھ مہینے کے بعد اسلامیہ پارک منتقل ہو گئے تھے۔ یہ مکان مولوی ظفر اقبال صاحب کا تھا‘ جن کے ایک بھائی ڈاکٹر ریاض قدیر بڑے قابل سرجن تھے۔ اسی مکان میں جماعت کا پہلا جلسہ ہوا تھا۔ میں جب پہنچا تو مولانا کے صرف ایک بیٹا تھا۔ اسے پیار سے جگو ]عمر فاروق[ کہتے تھے۔ پھر میرے قیام کے دوران دو بچے پیدا ہوئے‘ امن ]احمد فاروق[ اور بیٹی حمیرا۔ حمیرا کے لیے ایک آیا تھی‘ جو ضلع ہردوئی کی رہنے والی تھی۔ پھر ۱۹۴۲ء میں مولانا‘ دارالاسلام منتقل ہوگئے۔ وہ جماعت اسلامی کی بستی تھی۔ وہاں قمرالدین خان کے علاوہ ایک ماسٹر صاحب جو مولانا کے بچوں کو پڑھاتے تھے‘ ایک جیلانی صاحب تھے۔ ایک توختہ صاحب مولانا کے تانگے پر ملازم تھے‘ شاید ترکستان کے رہنے والے تھے۔ ایک منشی کاتب تھے‘ کالے سے‘ لانبے سے‘ وہ پورب کے رہنے والے تھے اور ان کا انتقال بھی وہیں ہوا تھا۔ مولانا کی والدہ صاحبہ بھی ساتھ رہتی تھیں۔ کچھ دن کے لیے مولانا کے بڑے بھائی صاحب بھی آ کر رہے تھے‘ وہ شاید حیدر آباد دکن سے آئے ہوئے تھے۔
گھر اور دفتر میں مولانا چوڑے پائینچے کا پاجامہ پہنے رہتے تھے۔ گائوں سے باہر جانا ہوتا تو شیروانی اور قدرے تنگ موہری کا پاجامہ پہنتے تھے۔ مولانا کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ کھانا بہت سادہ کھاتے تھے۔ یہ لوگ اپنے اپنے کپڑے خود دھوتے تھے۔ کپڑے دھونے کا صابن مولانا مودودی خود بناتے تھے۔ مولانا زیادہ تر سفید کپڑے پہنتے تھے‘ جو بہت اجلے ہوتے تھے‘ کیوں کہ وہ کپڑے زیادہ میلے نہیں ہونے دیتے تھے‘ جلد بدل لیتے تھے۔ایک بار مجھ سے بھی کہا : ’’کپڑے زیادہ میلے نہ ہونے دیا کرو۔ آسانی سے اور جلد صاف ہو جاتے ہیں‘‘۔ مولانا نے مجھ پر ایک بار بھی غصہ نہیں کیا اور میں نے تو ان کو کسی پر غصے ہوتے نہیں دیکھا۔ مجھ سے بہت غلطیاں ہوتی رہیں‘ قیمتی برتن توڑ دیے‘ ویسے بھی میں بہت الھڑ اور بُھلکّٹر تھا‘ اس لیے اکثر کام خراب کر دیتا‘ مگر انھوں نے کبھی ایک لفظ بھی سخت نہیںکہا۔ فروری ۱۹۴۴ء میں‘ میں اپنے گھر چلا گیا۔ ملازمت میں نے خود چھوڑی تھی‘‘۔