مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت ایسی جامع اور ہمہ گیر تھی اور ان کا کارنامۂ حیات اپنے اندر اتنے گوناگوں اور متنوع پہلو رکھتا ہے کہ آنے والے زمانوں میں اس پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ میں بھی ان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں کچھ اپنی یادوں اورتاثرات میں اربابِ شوق اور طالبان حق کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ اس موقع پر فقط چند ذاتی مشاہدات کا تذکرہ مقصود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کا جو فطری نظام بنایا ہے وہ اس کے رب اور رحیم ہونے کا تقاضا ہے۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ خاتم النبیینؐ کے بعد‘ اللہ تعالیٰ عام انسانوں میں سے کچھ خوش نصیب لوگوں کو اسی کارِ نبوت کی خدمت‘ تعمیل اور دعوتِ عام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اس سلسلے میں بیسویں صدی میں تجدید اُمت اور احیاے دین کے لیے جن افراد نے اللہ کے اس نظام اور اس کے طے کردہ منصوبے کے تحت کام کیا‘ ان میں جمال الدین افغانی‘ شکیب ارسلان‘ حلیم پاشا‘ محمدعبدہ‘رشید رضا‘ ابوالکلام آزاد‘ علامہ محمد اقبال‘ حسن البنا‘ بدیع الزماں سعید نورسی وغیرہ شامل ہیں۔ اس درخشاں کہکشاں میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا بھی ایک بہت ہی منفرد اور کئی حوالوں سے مرکزی مقام ہے۔
اس حوالے سے میں اپنے آپ کوبڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتنا کرم کیا کہ ایسے خادم دین اور ایسی عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دانش برہانی سے فیض پانے والی اس شخصیت کے افکارِ عالیہ سے اپنی فکر کو جلا بخشنے‘ اس کی صحبت میں زندگی کے اسالیب سیکھنے اور اس کی امارت و قیادت میں اجتماعی زندگی گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اسے زندگی کا حاصل اور ایک بہترین انعام سمجھتا ہوں‘ بلکہ زیادہ اہم کہ اگر کہوں کہ زندگی کا رخ متعین کرنے اور اسے بامعنی بنانے میں جس چیز نے اصل کردار ادا کیا‘ وہ یہی تعلق تھا۔ اس دل چسپ داستان کے دو حصے ہیں:ایک میری شعوری زندگی اور دوسری میری خاندانی زندگی۔
خاندانی پہلو سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ‘ میرے والد نذیر احمد قریشی کے غالباً سب سے پرانے دوست تھے۔ غالباً اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ بات خود مولانا نے مجھے بتائی اور پھر والد صاحب کے انتقال پر جو تعزیتی خط آیا تھا‘ اس میں بھی یہی تذکرہ کیا۔
مولانا مودودی جب بھوپال اور حیدرآباد سے دہلی منتقل ہوئے تو یہاں جن افراد سے ان کا اولین تعارف ہوا‘ ان میں سے ایک میرے والد گرامی بھی تھے۔ اگرچہ عملی زندگی میں ان کا معاملہ تجارت سے تھا‘لیکن سارا خاندان علمی روایت سے منسلک تھا اور ادبی ذوق کا رچائو بھی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور مفتی کفایت اللہ مرحوم سے گہرے نیازمندانہ تعلقات‘ روز و شب کا ملنا جلنا اور اٹھنا بیٹھنا تھا اور گویا ان کی مجلسی زندگی کا محور وہ حلقہ تھا جسے دلی میں مسلم شرفا کا طبقہ کہا جا سکتا ہے۔ تحریک خلافت میں والد صاحب بھی پیش پیش تھے۔ مولانا مودودی اور والد صاحب کے درمیان دوستی کا یہ آغاز ۱۹۲۰ء میں ہوا اور یہ تعلق خاطر۱۹۶۲ء میں والد صاحب کے انتقال پر ختم ہوا۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ میں نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کو ۱۹۳۸ء یا ۳۹ء میں پہلی مرتبہ دیکھا۔ تب میری عمر ۶‘ ۷ برس تھی۔ ان دنوں مولانا دلی آئے تو والد صاحب سے ملنے ہمارے ہاں تشریف لائے۔ دلی کے گھرانوں میں مردان خانہ اور زنان خانہ الگ الگ ہوتا تھا۔ وہ مردانہ حصے میں مولانا محترم سے بات چیت کر رہے تھے۔ اسی دوران والد صاحب نے مولانا سے ملانے کے لیے مجھے بلایا۔ میں نے آتے ہی مولانا کو سلام کیا۔ اس زمانے میں‘ میں نظم بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ والد صاحب نے کہا: ’’مولانا کو نظم سنائو‘‘۔ اچھی طرح یاد ہے میں نے یہ قومی نظم:
زندہ ہیں اگر زندہ دنیا کو ہلا دیں گے
مشرق کا سرا اُٹھ کر مغرب سے ملا دیں گے
دھارے میں زمانے کے بجلی کا خزانہ ہے
بہتے ہوئے پانی میں ہم آگ لگا دیں گے
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے
بڑے زور اور جذبے اور اس سے بھی زوردار اشاروں کے ساتھ یہ نظم میں نے سنائی اور مولانانے بس ایک پُروقار مسکراہٹ سے میری حوصلہ افزائی کی۔
پھر یہی نظم میں نے محمد علی ٹرافی میں پڑھی تو ڈاکٹر ذاکر حسین اس مجلس میں موجود تھے‘ وہ اُٹھ کر آئے۔ انھوں نے مجھے پیار کیا‘ اور نظم سنانے پر ایک سرٹیفیکیٹ دیا۔ اس کے برعکس مولانا مودودی کا ردعمل بڑا نپاتلا (calculated) تھا۔
دوسری ملاقات مولانا مودودی سے فروری ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔ ۱۲ فروری ۱۹۴۸ء کو ہم والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے ہمراہ دلی سے لاہور آئے۔ یہاں مسلم ٹائون میں ۲۵نمبر کوٹھی کرائے پر لی۔ جب مولانا کو علم ہوا کہ والد صاحب لاہور میں ہیں تو وہ کمالِ عنایت سے‘ نمازِمغرب سے کچھ دیر پہلے ہمارے گھر پہنچے۔ مغرب کی نماز ہم نے اپنے لان میں باجماعت پڑھی۔ مولانا نے امامت کی‘ والد صاحب کے کہنے پر میں نے اقامت پڑھی۔ مزید تفصیلات یاد نہیں ہیں۔ چند روز میں والد صاحب مولانا سے ملنے اچھرہ گئے‘ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔
۱۹۴۸ء ہی میں والد صاحب کراچی منتقل ہوگئے۔ میں چونکہ دیر سے لاہور آیا تھا‘ اس لیے یہاںکسی بڑے کالج میں داخلہ نہ ملا۔ میرے بڑے بھائی ضمیراحمد مرحوم کو ایف سی کالج میں داخلہ مل گیا تھا۔ انھوں نے وہیں سے انٹرسائنس پاس کیا۔ ایف سی کالج کے قریب ہی تعلیم الاسلام کالج میں‘ میں نے انٹر آرٹس میں داخلہ لیا۔ انگریزی‘ اُردو کے علاوہ معاشیات اور نفسیات مضامین منتخب کیے‘ اور پنجاب یونی ورسٹی سے ۱۹۴۹ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ یہاں میرے ایک ہم جماعت اقبال احمد تھے‘ جو بعد میں ڈاکٹر اقبال احمد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ ہم دونوں میں گہری دوستی تھی۔ ان کا ذہن ایک خاص نہج پر سوچتا تھا۔ ہماری دوستی دانش ورانہ تعلقات (انٹی لیکچول فیلوشپ) پر استوار تھی۔ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم ہونے کے باوجود ہم جب معاشرے اور دنیا کے معاملات پر بحث کیا کرتے‘ تو برملا یہ کہتے تھے کہ ایک اچھی نظریاتی زندگی گزارنے کے لیے ہمارے سامنے صرف دو راستے ہیں: ہم کمیونسٹ پارٹی میں جائیں گے یا پھر جماعت اسلامی میں--- اور اتفاق سے وہ دوسرے کیمپ میں چلے گئے اور میں جماعت اسلامی میں آگیا۔ حالانکہ جب ہمارے درمیان بحث ہوتی تھی‘ تو اس وقت تک مجھے جماعت اسلامی کے پروگرام اور نظامِ کار کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہ تھا مگر ہم دونوں کو‘ عمومی تاثر کی بنیاد پر‘ یہ بات ضرور معلوم تھی کہ یہ اچھے‘ مخلص اور نظریاتی لوگوں کی ایک تحریک ہے‘ جو اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کر رہی ہے۔
۱۹۴۹ء میں‘ میںکراچی آگیا۔ بھائی ضمیر‘ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوچکے تھے۔ یہاں پہنچ کر میں نے مولانا مودودی کی کتابوں خطبات‘ تنقیحات اور محمداسد کی Islam at the Crossroads کا مطالعہ کیا۔ جمعیت سے وابستہ ہوا اور رکنیت اختیار کرنے کے بعد ۱۹۵۰ء میں جمعیت کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے خرم‘ راجا (ظفراسحاق انصاری)‘ عبداللہ جعفر اور دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ پھول بلڈنگ‘ گوالمنڈی لاہور پہنچا۔ اُن دنوں اس جگہ نصراللہ خاں عزیز صاحب کے اخبار تسنیم کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ دن رات ہم وہیں رہے۔
مولانا مودودی اتوار کو اچھرہ ہی میں ہفت روزہ درس قرآن دیا کرتے تھے۔ ہم لوگ درس سننے مولانا کی رہایش گاہ پر پہنچے۔ اُنھوں نے برآمدے میں زمین پر بیٹھ کر درس دیا۔ چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ برآمدے میں اور باقی سامنے کے حصے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی ۵۰ کے قریب حاضرین تھے۔ اس درس کی لذت اور پیغام کی تاثیر آج تک محسوس کرتا ہوں۔ اس سے قبل لٹریچر پڑھنے سے شعوری طور پر مولانا سے عقیدت اور محبت تو پیدا ہو چکی تھی۔ درس کے بعد ہم لوگ آگے بڑھ کر مولانا سے ملے۔ مولانا نے مسکراتے اور کِھلے چہرے کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ میں نے ہاتھ ملاتے ہی کہا : ’’مولانا‘ میرا آپ سے ایک اور حوالے سے بھی تعلق ہے‘‘۔ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں ذرا بھنویں اُٹھا کر پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں آپ کے دوست نذیراحمد قریشی صاحب کا بیٹا ہوں‘‘ تو معاً مولانا نے آگے بڑھ کر مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس طرح تعلقات میں گرم جوشی اور شفقت کا پہلا تاثر‘ تجربے میں ڈھل گیا۔ جب میں اس کا موازنہ کرتا ہوں ۳۹-۱۹۳۸ء کی پہلی ملاقات میں نظم سنانے سے‘ تو مجھے بڑا بنیادی فرق محسوس ہوتا ہے۔ وہ ہے شخصیت کا ایک فرق‘ جس میں مقصد کی اہمیت اور مقصدیت سے وابستگی‘ اور یہ کہ مقصد کی بنیاد پر جو تعلق ہے اس میں احترام اور گرم جوشی کا معاملہ۔
مولاناکی بہت خواہش تھی کہ میرے والد صاحب جماعت میں آئیں۔ جماعت اسلامی کی تاسیس سے قبل‘ علامہ اقبال اور چودھری نیاز علی خاں کی دعوت اور ایماء پر مولانا نے جو ادارہ دارالاسلام قائم کیا تھا‘ اس کے پہلے پانچ بنیادی افراد میں والد صاحب بھی شامل تھے۔ مولانا محترم کی لائبریری میں میرے والد کی دی ہوئی درجنوں کتابیں تھیں۔ اُن میں سے ایک کتاب Social Evolution پر تھی۔ اس کے حاشیے پر مولانا نے کہیں مختصر اور کہیں مفصل تنقیدی نوٹس لکھے ہوئے تھے اور اہم حصوں کو نشان زد کیا ہوا تھا۔ یہ مولانا کا خاص طریقہ تھا کہ کتاب کے مطالعے کے دوران جہاں کوئی خیال آتا‘ تنقیدی یا تائیدی پہلو سامنے آتا‘ یا پھر کوئی سوال ذہن میں اُبھرتا تو وہ زیرمطالعہ کتاب کے حاشیے پر لکھ لیتے۔ یہ کتاب مولانا کو میرے والد نے تحفتاً دی تھی‘ میں نے مولانا سے اُسے مانگ لیا تاکہ مولانا اور والد صاحب کی دوستی کی یہ ایک میراث میرے پاس محفوظ رہے۔ ایک خط میں والد صاحب نے مولانا کو لکھا تھا کہ میری خواہش ہے کہ زندگی کا آخری حصہ آپ کے ساتھ گزاروں تو مولانا نے جواب میں لکھا تھا:’’میرے لیے یہ خبر نہایت مسرت کی موجب ہے کہ آپ اپنی زندگی کا آخری حصہ میرے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں‘ مگر اس میں دیر کیوں ہے؟ کیا‘ آپ کو اپنی تاریخ وفات معلوم ہو چکی ہے‘ جس کے لحاظ سے آپ نے تعین کر لیا ہے کہ آخری حصۂ عمر فی الواقع کون سا ہے۔ (خطوط مودودی‘ دوم‘ ص ۳۴-۳۵)
مولانا نے جس گرم جوشی اور محبت سے مجھے اپنے سینے سے لگایا‘ اس واقعے کو بیان کرنے پر والدصاحب نے نہ صرف مجھ سے کہا‘ بلکہ مولانا سے بھی بیان کیا کہ اگرچہ میں تو جماعت میں نہیں آسکا‘ لیکن اپنا بیٹا جماعت کو دے دیا ہے۔ اس طرح مولانا سے میرا ایک تعلق خاندانی ہے اور دوسرا نظریاتی۔ ان دونوں تعلقات کا ایک جگہ جمع ہونا میری خوش نصیبی ہے۔
۱۹۵۰ء کی ملاقات کے بعد مولانا مودودی سے سیکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔ سفر اور حضر میں ساتھ رہا‘ شوریٰ کے اجلاسوں اور کمیٹیوںمیں مل بیٹھے۔ انھیں بحرانوں اور مشکلات کو حل کرتے دیکھا۔ حتیٰ کہ جیل میں اکٹھے رہے ہیں۔ پھر مولانا جب کراچی آتے تو ان کی خدمت کرنے اور لانے لے جانے کا موقع ملتا تھا۔ پہلے غلام حسین عباسی ان کو گاڑی میں لے کر آتے جاتے تھے‘ پھر نواب نقی اور ان کے ڈرائیور انھیں لے کر جاتے۔ پھر میری گاڑی میں انیس ڈرائیو کرتے تھے۔ ان لاتعداد ملاقاتوں کی باتوں کو یاد کر کے انھیں بہ تمام و کمال بیان کرنا ناممکن ہے۔
جو بات سب سے زیادہ دل پر نقش ہے‘ وہ ہے ان کے ہاں زندگی کی مقصدیت۔ ان کی پوری زندگی میں‘ چاہے وہ دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ ہوں‘ یا عزیزوں اور اہل خانہ کے ساتھ‘ ہر جگہ اور ہر سطح پر معاملات کرتے وقت جو چیز سب پر حاوی نظر آتی ہے اور سب امور جس کے تابع ہیں‘ وہ زندگی کی یہی مقصدیت ہے۔ یہ چیزہمیں اللہ کے نبیؐ کے اسوے میں مرکزی پہلو کے طور پر نظرآتی ہے۔ رسول کریمؐ کا ہر قول‘ ہر فعل نمونہ اور ایک مثال ہے۔ آپ سیرت کی پوری تصویر دیکھنا چاہیں تو وہ ہے ہر معاملے میں داعی الی اللہ کا کردار۔ اسی چیز کو میں سنتِ کبریٰ کہتا ہوں۔ میں نے زندگی میں‘ اس معیار کی طرف بڑھنے‘ اتباع کرنے کی مسلسل شعوری کوشش کرنے اور اس اسوئہ رسولؐ کی اتباع کرنے والے جس انسان کو دیکھا وہ مولانا مودودی تھے۔
مولانا مودودی کے ہاں جو دوسری چیز ذہن پر نقش ہے‘ وہ ہے وقت کی قدر۔ ان کا نظم الاوقات (ٹائم مینجمنٹ) آئیڈیل تھا اور انھوں نے حیران کن حد تک منضبط زندگی (ریگولیٹڈ لائف) گزاری۔ پہلے پہل ۸ بجے صبح ہی اخبار دیکھ لیتے تھے اور بعدازاں وہ نمازِ ظہرادا کرنے کے بعددیکھتے تھے۔ ناشتے کے بعد قیم جماعت کو بلا کر چند منٹ میں جماعتی زندگی کے لیے ہدایات دے کر کمرے میں یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر علمی کام انجام دیتے اور پھر نمازِ ظہر ادا کرتے۔
دوپہر کا کھانا‘ کچھ دیر آرام‘ پھر نمازِ عصر کے بعد ایک کھلے اور دوستانہ ماحول میں‘ مغرب تک ہر خاص و عام سے ملتے ۔ نمازِ مغرب کے بعد عشا تک آرام کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے اور جب نوٹس بنانے کا کام ہوتا یا لکھنا ہوتا تو میز کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے۔ عشاء کے بعد اہلِ خانہ کے ساتھ کھانا کھاتے اور اگر زیادہ ضروری کام ہوتا تو پھر مطالعہ گاہ میں بیٹھ کر رات دیر تک کام کرتے‘ اور جب تھک جاتے تو ایک سادہ چارپائی پر لیٹ جاتے۔
غیرمعمولی حالات میں وہ اس معمول سے ہٹ بھی جاتے تھے لیکن عام طور پر اسی انداز سے شب و روز گزارتے۔ یہ سلسلہ گرمی سردی کے موسم میں یوں ہی جاری رہتا تھا۔ چودھری غلام محمد مرحوم کی خواہش پر ایک دوست نے ایئرکنڈیشنر لگوانا چاہا‘ لیکن مولاناکئی دن تک اس پر یکسو نہیں تھے کہ اپنے معیارِ زندگی میں اتنا بڑا فرق لائیں۔ بہرحال بہت زیادہ قائل کرنے پر وہ تیار ہوگئے۔ دوست نے بھی بڑا اصرار کیا کہ آپ قرآن کی تفسیر لکھ رہے ہیں‘ میں اس کام میں کچھ سہولت فراہم کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوںاس لیے آپ اجازت دیں۔
مولانا مودودی نے اپنے طریق مطالعہ کے بارے میں مجھے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا تھا: میرا طریقہ یہ ہے کہ جس موضوع پر مجھے کام کرنا ہوتا ہے‘ میں پہلے اس موضوع پر چند بنیادی چیزیں پڑھتا ہوں‘ تاکہ اُس مسئلے کے بنیادی پہلو تمام تر پس منظر کے ساتھ سامنے آجائیں۔ پھر اس موضوع پر ایک دو کتب یا کم از کم انسائیکلوپیڈیا کے متعلقہ مقالات کو دیکھ لیتا ہوں‘ تاکہ اس کا فکری اور عملی حوالہ معلوم ہو سکے اورعلمی رجحانات کے بارے میں معلومات سامنے آجائیں۔ ان چیزوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس موضوع کا حدود اربعہ کیا ہے‘ اس کے بنیادی مقدمات یا key issues کیا ہیں۔ مطالعہ کرنے کے دوران کوئی رائے قائم نہیں کرتا۔ اس کے بعد سب سے پہلے قرآن مجید کو کھولتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ ان امور پر کیا رہنمائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں سیاق و سباق کو نظراندازکر کے فقط ایک دو آیات پر غور کرنے کے بجاے پورے قرآن کریم سے مسئلے کا حل تلاش کرتا ہوں۔ پھر دیکھتا ہوں کہ سیرتؐ، سنت‘ حدیث اور خلفاے راشدینؓ کس انداز سے دستگیری کرتے ہیں۔ مطالعے کے دوران میں اپنے نوٹس بناتا ہوں۔ یہ سلسلہ میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں شروع کیا تھا اور اسے کبھی نظرانداز نہیں کیا‘ سواے اس کے کہ جیل کے زمانے میں جب تک کاغذ پنسل سے محروم رہا‘‘۔
یہ بات پورے یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ۱۹۷۹ء تک جب مولانا مودودی گرتی ہوئی صحت کے ہاتھوں تقریباً معذور ہو چکے تھے‘ تب بھی وہ مطالعہ کرتے تو ان کے پاس کاغذ اور قلم ہوتا‘ جس پر وہ ضروری نوٹس ضرور قلم بند کر لیتے۔ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ یا دوسرے عصری علوم کا مطالعہ کرنے کے دوران وہ نوٹس لیتے جاتے تھے۔ یہ نوٹس مولانا نے عربی‘ انگریزی‘ اُردو اور فارسی میں لیے۔ نوٹس تیار کرنے کے لیے اکثر وہ فل اسکیپ کاغذ کو لمبے رخ پر درمیان سے ایک تہہ دے کر کاٹ لیتے‘ جس سے وہ ایک سلپ سی بن جاتی تھی۔ اسی سلپ پر وہ نوٹس لیتے تھے۔
مولانا نے اسی ملاقات میں بتایا: ’’میں مطالعے کے دوران مفہوم اور نکات کو اپنے ذہن میں بٹھانے کے ساتھ نوٹس لینا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو پھر مراجع کو سامنے نہیں رکھتا‘ اس کے بجاے اپنے نوٹس کو سامنے رکھتا ہوں‘‘۔ یعنی جب وہ لکھنے بیٹھتے تو ان کے سامنے موضوع کی ہر چیز حسن ترتیب کے ساتھ واضح ہو چکی ہوتی اور جب لکھتے تو یوں لگتا کہ وہ لکھ نہیں رہے‘ بلکہ اپنے لوحِ ذہن میں جو کچھ وہ لکھ چکے ہیں‘ اب اسے صرف صفحۂ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔ اسی لیے لکھے ہوئے مسودے کو دیکھیںتو بالعموم بہت ہی کم کانٹ چھانٹ دکھائی دیتی۔ جب لکھتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے مضامین اور جملے القا ہو رہے ہیں۔ لکھنے کے بعد فوراً کاتب‘ یا ٹائپسٹ کو نہ دیتے‘بلکہ دوبارہ ایک ایک لفظ پڑھتے تھے۔ جہاں ضرورت ہوتی ترمیم و حذف کرتے اور جہاں زیادہ بڑے اضافے کی ضرورت محسوس کرتے‘ اسے ایک سلپ پر لکھ کر‘ پن کے ساتھ منسلک کر دیتے تھے۔ تحقیق و تصنیف کے اس طریقے کو میں نے اپنے انداز میں اپنانے کی کوشش کی‘ اور بہت مفید اور موثر پایا۔
اسی طرح ایک چیز جو میں نے مولانا سے سیکھی‘ وہ ہے وقت کا نظم و ضبط اور وقت کا صحیح استعمال۔ مولانا مودودی مقصد زندگی کے بعد جس چیز کے بارے میں سب سے زیادہ حساس تھے‘ وہ وقت تھا۔ انھیںاس امر کا شدید احساس تھا کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے‘ اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح آخرت میں صلاحیتوں کا حساب دینا ہے اسی طرح مجھے ایک ایک لمحے کا بھی حساب دینا ہے۔ لکھنے کو تو یہ بات ایک جملے میں لکھ دی ہے‘ لیکن اس کا شعور اور اسے برتنے کا اہتمام صرف مولانا مودودی کے ہاں دیکھا۔
وقت کی اس قدرومنزلت کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی زندگی میں تفریح کاعنصرنہیں تھا۔ ایسا نہیں ہے‘ بلکہ وہ سیر کا ذوق رکھتے تھے۔ جب وہ ۱۹۶۸ء میں لندن میں زیرعلاج تھے‘ اس دوران ہمارے ساتھ چار ماہ تک رہے۔ آپریشن کے بعد طبیعت بحال ہوتے ہی مولانا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے یہاں کے اہم مقامات کو دیکھنا ہے۔ برٹش میوزیم میں کئی گھنٹے گزارے پھر مانچسٹرکی پبلک لائبریری دیکھنے گئے۔ وہیں ہم کو انجیل برناباس کا نایاب نسخہ ملا‘ جس کی فوٹوکاپی تیار کروا لی گئی (جسے حاصل کر کے نہ صرف اُردو میں پروفیسر آسی ضیائی صاحب سے ترجمہ کرایا بلکہ اس کی اشاعت بھی کرائی)۔ مولانا بڑے شوق سے لندن ہی نہیں یورپ کی کتابوں کی سب سے بڑی دکان Foyls پرگئے اور متعدد کتب خریدیں۔ اس کے بعد فرمایا: ہائیڈپارک چلیں‘ اور ہم ہائیڈ پارک اور اسپیکرز کارنر گئے‘ جس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ دریاے ٹیمزدیکھنے گئے۔ اس کے بعد خواہش کر کے زیرزمین ریل کا ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک سفر کیا۔ اس ٹرین کو انگریز تو ٹیوب کہتے ہیں‘ مگر مولانا نے اسے ’نلکی‘‘ سے تعبیر کیا!
باغات کی تاریخ پر ان کے پاس بڑی وسیع معلومات تھیں۔ انھوںنے بتایا کہ باغات کس طرح ارتقا پذیر ہوئے۔ انگریزوں کے ہاں باغات کی روایت میں وہ ڈسپلن نہیں تھا۔ درخت‘ پھول‘ گھاس تو تھے مگر توازن اور روش بندی کے بغیر۔ مسلمانوں نے روش بندی کے ذریعے باغات کوایک نظم اور خوب صورتی دی۔ جب لندن میں ان کی طبیعت ذرا بہتر ہوئی تو وہ شام کو سیر کے لیے نکلتے تھے۔ تب وہ چھڑی خریدی تھی جوکرکٹ کے ایمپائروں کے پاس ہوتی ہے‘ کہ جونہی ذرا تھکن محسوس کریں تو اسے نصب کر کے سہارا لے لیں۔ یوں مولانا کے ہاں تفریح کا ایک ذوق سامنے آیا جو ان کی زندگی کا حصہ تھا۔ طبیعت میں فرحت اور زندگی میں توازن پیدا کرنے کے لیے وہ سیر کو لازمی سمجھتے تھے۔ لیکن وہ تفریح جو وقت ضائع کرنے کا ذریعہ بنے ‘ اس جانب وہ کوئی جھکائو نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح ہم نے انھیں جیل میں بھی دیکھا کہ وہ عصر سے مغرب تک ٹہلتے اور ہم اُن کے ہمراہ چلتے ہوئے ہلکی پھلکی بات چیت کرتے۔
مولانا نے بتایا: ’’بچپن میں کشتی اور بنوٹ وغیرہ سیکھی۔ اسی طرح کار چلانا بھی سیکھی‘ لیکن کار چلاتا نہیں ہوں۔ کیونکہ ہر وقت ذہن میں خیالات آتے رہتے ہیں۔ خیالات کی آمد سے کارچلانے کے دوران توجہ ہٹ جاتی ہے ‘جو خطرے سے خالی نہیں۔ انھیں ہمارے عزیز دوست غلام حسین عباسی اور میرے چھوٹے بھائی انیس کی ڈرائیونگ بہت پسند تھی۔ انیس سے کہا کہ آپ بہت اچھی ڈرائیونگ کرتے ہیں‘ تو انھوں نے کہا: ’’مولانا یہ بات آپ مجھے لکھ کر دیں‘‘۔ اس طرح مولانا نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر یہ سرٹیفکیٹ دیا کہ آپ اچھی ڈرائیونگ کرتے ہیں۔
پھر مطالعے میں مولانا مودودی کا ذوق بڑا وسعت پذیر تھا۔ مزاح‘ شعروادب اور ادبی تنقید تک پڑھنے کے لیے بھی وقت نکالتے۔ تمام معیاری ادبی رسالے ان کے ہاں آتے‘ جن میں تحریکی رسالوں کے علاوہ ہمایوں‘ نیرنگ خیال‘ نقوش‘ سویرا‘ فنون‘ ریڈرز ڈائجسٹ وغیرہ شامل تھے۔ گویا کہ قرآن و سنت‘ حدیث و فقہ‘ تاریخ و قانون اور فلسفہ میں عربی کی ادق کتب کے ساتھ ساتھ کلاسیکی لٹریچر اورمعاصر اصناف ادب کے مطالعے کو وہ ضروری چیز قرار دیتے تھے۔ اس ہلکے پھلکے لٹریچر کے لیے بھی وقت کی متعین حدود تھیں۔جب کبھی بیرونِ پاکستان جاتے تو واپسی پر‘ اس عرصہ غیرحاضری کے اخبارات: ڈان‘ پاکستان ٹائمز‘ نوائے وقت اور جنگ کے پورے فائل منگوا کر دیکھتے۔
تحریکی اداروں کے جو رسالے بھی شائع ہوتے‘ مثلاً: چراغ راہ‘ مشیر‘یثرب‘ جہانِ نو‘ آئین‘ ایشیا‘ہم قدم‘ سیارہ‘ پہلے عفت پھر بتولوغیرہ ‘وہ انھیں ضرور دیکھتے تھے۔ تفریح کے ساتھ تفریحی لائٹ لٹریچر اور تحریکی لٹریچر پر نظر رکھنے کے لیے وہ اہتمام سے وقت نکالتے تھے۔ ان کی شخصیت میں کمال کا توازن اور بے مثال وسعت نظرتھی۔
اسی طرح انھوں نے یہ روایت قائم کی کہ ہر کام اپنے وقت پر ہو۔ انھوں نے جس پروگرام کے لیے وقت دیا ہوتا‘ اس سے پانچ منٹ پہلے پہنچتے۔ مجھے نہیں یاد کہ اُن کی طلب کردہ کوئی میٹنگ تاخیرسے شروع ہوئی ہو‘ یا وہ کسی شوریٰ‘ کسی عاملہ‘ کسی اجتماع یا اجلاس میں تاخیر سے پہنچے ہوں۔ ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ مولانا محترم کراچی کے دورے پر گئے تو وہاں پی سی ایچ ایس میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ انھیں پیرالٰہی بخش کالونی میں ’’مُلا ازم کیا ہے؟‘‘ کے موضوع پر خطاب کرنا تھا اور مولانا کو اجتماع گاہ میں لے کر جانامیرے ذمے تھا۔ ہم بمشکل دو تین منٹ لیٹ پہنچے۔ لیکن میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہاں پہنچنے تک جو آخری دس منٹ گزرے اس پورے دورانیے میں وہ کتنے اضطراب میں تھے‘ اور اگر مولانا نے زندگی بھر میں مجھے ڈانٹا ہے تو صرف اُس روز۔ جب میں نے ٹریفک جام کا عذر پیش کیا تو کہا: ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا اس وقت راستے میں ٹریفک کا مسئلہ ہو سکتا ہے‘ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے چند منٹ پہلے چلتے یا دوسرا راستہ اختیار کرتے‘‘۔ دوسری طرف جماعت کے لوگ بھی قابلِ داد ہیں کہ انھوں نے مولانا کا انتظار کیے بغیر اجلاس کی کارروائی شروع کر دی ‘اور ہم اس دوران ہی پہنچے۔ گویا وقت کی قدر اور وقت کا استعمال اور وقت کا نظم و ضبط ان کے ہاں کمال درجے کو پہنچا ہوا تھا۔
مولانا کے ہاں نفاست‘ پاکیزگی‘ ذوقِ جمال اور سادگی تھی۔ ان کی میز میں نے کبھی منتشر نہیں دیکھی۔ جیل کا عرصہ اور پھر انگلستان میں گزرے ہوئے چار ماہ کی بنیاد پر اپنا مشاہدہ بیان کر سکتا ہوں: جیل میں تھے یا سفر میں‘ حتیٰ کہ بیماری کی حالت میں ہسپتال میں داخل‘ تب بھی مجال ہے کبھی اُنھوں نے اپنے کپڑے کو بے نیازی سے کسی کرسی پر‘ زمین پر یا کسی چارپائی پر ڈال دیا ہو۔ ان کو جہاں لٹکانا ہوتا‘ وہاں خود اپنے ہاتھ سے لٹکاتے‘ جہاں تہہ کر کے رکھنا ہوتا‘کپڑے کو خود ترتیب سے رکھتے‘ حتیٰ کہ دھونے والے کپڑے سلیقے سے لپیٹ دیتے۔ اس پورے عرصے میں مجھے کبھی ان کا کوئی کپڑا اُٹھا کر یہاں سے وہاں نہیں رکھنا پڑا۔
پھر لباس کے پہننے میں بھی ان کا ایک انداز تھا۔ دفتر اور گھر میں بڑے پائینچوں والا حیدرآبادی پاجامہ زیب تن کرتے۔ باہر کبھی وہ اس لباس میں نہیں گئے۔ باہر جاتے وقت تنگ موری والا پاجامہ نہیں بلکہ کم موری والا علی گڑھ پاجامہ پہنتے۔ تنگ موری والا پاجامہ مولانا کو پسند نہیں تھا۔ مکیشن شو اورشیروانی پہنتے۔ انگلستان میں جب رات کے کھانے کے بعد وہ چہل قدمی کے لیے نکلتے‘ اس وقت میں نے انھیں کبھی شیروانی پہنے بغیر باہر جاتے نہیں دیکھا۔ پھر واپس آکر اپنے گھر کے لباس میں ہمارے ساتھ بیٹھتے۔ اگرچہ وہ پان کھاتے تھے لیکن اُن کے لباس پر اس کا کوئی داغ‘ دھبا یا ہلکی سی چھینٹ تک نہیں دیکھی۔ دفتر یا مجلس میں بیٹھتے تو اگال دان پاس ہوتا۔ سفر پر جاتے تو سفری اگال دان ساتھ رکھتے۔اس کے برعکس پان کھانے والے بڑے بڑے بزرگوں اور نوابوں تک کو ہم نے نہ صرف اردگرد گل پاشی کرتے دیکھا ہے‘ بلکہ بعض اوقات تو سامنے بیٹھا بات سننے والا فرد بھی مجلس آرائی کی دو چار نشانیاں اپنے اوپر ثبت کرا لیتا ہے‘ اور اُن سے پہلے ان کے لباس کا کوئی نہ کوئی حصہ گواہی دے دیتا ہے کہ ہمیں پہننے والا پان کا شوق رکھتا ہے۔ مولانا کے کپڑے پر اورپاس بیٹھنے والے فرد کے لباس پر پان کا کوئی ہلکا سا دھبا یا نشان کبھی نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ اُنھوں نے لطیف لہجے میں کہا:’’جب اسلامی انقلاب آئے گا‘ تو پھر ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے کاروں تک میں ایش ٹرے کے ساتھ ساتھ اگال دان بھی رکھے جائیں گے‘‘۔ یہ سارے پہلو اُن کی نفاستِ طبع پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اپنے ہاتھ سے اپنے کپڑے کو سی لینا اور صحیح سی لینا اور بالکل صحیح انداز سے ترپ لینا‘ اپنے جاننے والے مردوں میں صرف مولانا کے ہاں دیکھا۔ جیل میں مجھ پر بھی یہ ابتلا گزری ہے جب ٹانکا لگانا پڑا‘ لیکن ایک بھی سیدھا نہ لگا۔ نفاست مولانا مودودی کی شخصی زندگی کا ایک بڑا اساسی ستون تھا۔ یہی چیز ان کی فکر میں بھی تھی۔ اس میں نفاست‘ سلیقہ‘ منطق‘ ہر چیز ایک دوسرے سے مربوط تھی۔ میری نگاہ میں تو حُسن نام ہی اس چیز کا ہے کہ ہر چیز توازن کے ساتھ ہو۔ یہ حُسن مولانا کی فکر میں‘ لباس میں‘ تعلقات میں‘ معاملات میں اور مولانا کی تحریر میں بھی تھا۔ اسی چیز نے ان کے فکر‘ استدلال اور پیغام میں ایک قوت اور تاثیر پیدا کی تھی۔
جب ہم نئے نئے جمعیت میں آئے توانھی دنوں مولانا کی کتاب اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر شائع ہوئی تھی۔ جس میں عبادت کا تصور اور پھر نماز اور روزے پر مولانا نے کلام کیا تھا۔ اتفاق سے ظفراسحاق انصاری اور میں نے یہ کتاب ساتھ ساتھ ہی پڑھی تھی۔ کتاب پڑھنے کے دوران ہم اس کے استدلال پر بات کر رہے تھے‘ کہ ظفر اسحاق نے ہنس کر کہا: ’’لگتا ہے مولانا نماز پڑھوا کر رہیں گے‘‘۔ مطلب یہ کہ اُن کا قاری ایک فقرے سے اتفاق کر لے تو پھر اس کے لیے فرار ممکن نہیں رہتا۔ اس چیز کو میں مولانا کے اسلوبِ بیان اور طرزِ فکر ہی نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے توازن اور اعتدال کی اثرپذیری کا ایک پہلو سمجھتا ہوں۔
ان کے ہاں سادگی کا پہلو بھی قابلِ ذکر ہے۔ تین عشروں پر پھیلے ہوئے اس تعلق کے دوران میں نے انھیں نہایت سادہ اور شفاف انسان پایا‘ جس کا ظاہروباطن ایک ہے۔ جس میں کوئی شو آف یا نمودونمایش نہیں ہے۔ ابتدائی زمانے کی بات ہے کہ اخوان سے متاثر دو نوجوانوں کو کراچی میں مولانا سے ملاقات کرانے کے لیے ناشتے پر بلایا۔ ان میں سے ابراہیم قاہرہ سے آئے اور دوسرے شام سے۔ ملاقات کے بعد انھوں نے کہا: ’’اس شخص کے چہرے‘ آداب‘ گفتگو‘ فکر اور زندگی کے انداز میں ہمیں یک رنگی اور شفافیت نظر آئی ہے اور بے ساختہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص عبدِرحمن ہے‘‘۔ یہ شفافیت اور سادگی ان کی زندگی کا ایک غیرمعمولی پہلو تھی۔
مولانا کی ذات میں بڑی شفقت بھی تھی۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ مولانا میں گرم جوشی نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے کہ کہنے والے کسی فرد کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا ہو۔ لیکن میری نگاہ میں اظہارِ شفقت و محبت میں کسی روایتی انداز کو نہ اپنانے کا سبب ‘مولانا کے فکر وعمل کا وہی ڈسپلن تھا۔
مولانا اپنی زندگی ایک ضابطے کے مطابق گزارتے تھے اور یہی پسند کرتے تھے کہ تمام لوگ وقت‘ صلاحیت اور مقصدیت کے متوازن تعلق کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اسی کے مطابق وہ افراد سے میل جول میں بھی توازن برتتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں جو عمومی کلچر ہے‘ اس میں کسی فرد کی خوش مزاجی کا معیار یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جتنا حد سے بڑھ کر بے تکلف ہونے کی کوشش کرے‘ بار بار صحت کا حال دریافت کرے‘ جا و بے جا تعریف کرے‘ چاہنے نہ چاہنے کے باوجود خوش مزاجی کا مظاہرہ کرے یا زبردستی کھانے پینے کی دعوت دے‘ تو اسے گرم جوشی کا مظہر قرار دیا جاتا ہے۔ بلاشبہہ یہ چیز مولانا مودودی میں نہیں تھی۔ لیکن اس کے مقابلے میں جس چیز کو شفقت‘ قلبی تعلق اور caring کہتے ہیں وہ مولانا میں بدرجہ اتم موجود تھی۔
مجھے اس چیز کا تجربہ خاص طور پر اس وقت ہوا جب میں ۱۹۶۴ء میں اُن کے ساتھ جیل میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ مولانا کا تعلق ہم سبھی کے ساتھ بڑا ہی پرسنل سطح پر ہے۔ ہماری ہر بات کا خیال رکھنا‘ ہم لوگ بیمار ہوئے تو ہمارے پاس آکر دیر تک بیٹھتے۔ لاہور جیل میں ہم کراچی والوں کے خیمے میں وہ اکثر تشریف لے آتے اور دو دو گھنٹے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتیں۔ لاہور جیل کے جس احاطے میں ہم لوگوں کو کراچی سے منتقل کیا گیا‘ اس کے نتیجے میں جگہ کم پڑ گئی۔ اس لیے چھولداریاں لگا کر ہمیں اُن میں رکھا گیا۔ فروری کی سردی تھی اس فضا میں مجھے بخار ہوگیا اور سخت زکام میں میری ناک بند ہوگئی‘ تو دن میں تین تین بار مولانا اپنی دوائی ’نیزل ڈراپ‘ لا کر ڈالتے۔ ایک رات بارش ہوگئی تو مولانا کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ جتنی دیر بارش ہوتی رہی‘وہ بے بسی میں جنگلے میں کھڑے رہے۔ (مولانا کے جنگلے میں سرِشام تالا ڈال دیا جاتا تھا اور ہم جنگلے کے باہر احاطے میں عارضی ٹینٹ میں رہ رہے تھے) اور برابر ہماری خیریت دریافت کرتے رہے۔ کھانے کی کوئی چیز آتی تو سب میں بٹوا دیتے‘ اگر کم ہوتی تب بھی تقسیم کر دیتے۔
نعیم صدیقی صاحب نے بتایا تھا: ’’دارالاسلام میں جماعت کے ایک نہایت ذہین نوجوان عرفان نہاتے ہوئے نہرمیں ڈوب گئے تو مولانا سخت بے چینی میں تین میل تک ان کی میت تلاش کرنے گئے اور اُن کی طبیعت پر دکھ اور افسردگی بہت نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی تھی‘‘۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شفقت کا اظہار میں نے بارہا دیکھا‘ جو ان کی شخصیت کا جزولاینفک تھا۔
شوریٰ کے موقع پر جب ہم لاہور آتے تو کسی ایک روز وہ چودھری غلام محمد مرحوم‘ حکیم اقبال حسین مرحوم‘ صادق حسین صاحب کو پیغام دینے کے لیے مجھے کہتے: ’’خورشید میاں‘ کل صبح ناشتہ نہ کیجیے گا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اگلے روز وہ ہمیں اپنے گھر پر نہاری کی دعوت دے رہے ہیں۔مولانا خود بڑے اہتمام اور پورے آداب کے ساتھ نہایت لذیذ نہاری تیار کراتے تھے اور اگلے روز ہم دس گیارہ بجے کے درمیان اُن کے کمرے میں زمین پر بیٹھ کر نہاری کھایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے‘ جب ۵-اے ذیلدار پارک میں شوریٰ کا اجلاس ہوتا تھا۔ برآمدے کے آگے شامیانہ لگا کر اور کوئلوں کی انگیٹھیاں رکھ کر جنوری فروری کا اجلاس ہوتا تھا۔
وہ ہم لوگوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے اور اس کے ساتھ بعض چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھتے‘ مثلاً: وہ مجھے انفرادی طور پر تو ’خورشیدمیاں‘ کہہ کر پکارتے‘ لیکن جب دوسرے افراد ہوتے تب ’خورشید صاحب‘ کہتے۔ یہ اُن کی شفقت اور وضع داری کا انداز تھا۔ منور کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا کرتے تھے کہ وہ ان کے دوست اخلاق صاحب کے فرزند تھے۔
اب میں ایک بات ذرا ڈرتے ڈرتے لکھ رہا ہوں‘ جس کا تعلق ان کے غیرمعمولی اعتدال سے ہے حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی۔ ان کے ہاں عبادت میں شغف‘ ذکر‘ دعا اور نوافل میں حددرجہ باقاعدگی کے ساتھ ساتھ توازن اور اعتدال بھی تھا۔ بہرحال ایک واقعے سے مجھے سخت دھچکا لگا۔ مرحوم خلیل احمد حامدی صاحب‘ چودھری غلام محمد صاحب اور مجھے ایک بار مولانا کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہم لوگ تو حرم پاک میں گھنٹوں بیٹھے عبادت کرتے۔ مگر میں نے مولانا کو دیکھا کہ وہ فرض اور سنت پڑھنے کے بعد کچھ دیر اذکارِ مسنونہ پڑھتے‘ پھر ریاض الجنہ جاتے‘ صفہ میں نفل ادا کرتے اور اس کے بعد سیدھے ہوٹل جاکر دعوتی اور دوسری دینی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے۔ اسی طرح رات کے وقت نمازِ تہجد ادا کی‘ کچھ نفل پڑھے‘ تلاوت کی اور پھر واپس ہوٹل چلے گئے اور فجر کی اذان سے پہلے حرم میں آگئے۔
دل میں یہ بات رہی کہ حرمین الشریفین میں آکر یہ اُس طریقے سے اظہار کیوں نہیں کررہے جس طرح عام لوگ کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے معمولات مختلف ہیں۔ یہاں کی غیرمعمولی صورت حال اور مصروفیات کے باوجود مولانا نے اپنے آپ کو ایک نظم و ضبط اور اعتدال میں ڈھالا ہے۔ مگر باقی تمام معمولات کا نظام بالکل ہی درہم برہم نہیں ہونے دیا۔
جب مولانا کے لیے سزاے موت کا اعلان کر کے انھیں پھانسی کی سزا پانے والوں کی کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں انھوں نے پانچ سات دن گزارے۔ میاں انور علی انسپکٹر جنرل پولیس اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرنے ایک گواہی دی۔ انور علی نے لکھا ہے اور ڈاکٹر نے خود مجھے بتایا ہے۔ یہ دونوں شہادتیں ایسی ہیں کہ انھیں جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم غیرمعمولی طور پر یہ چیز نوٹ کر رہے تھے کہ سزاے موت سننے کے بعد اس شخص کا ردعمل کیا ہے۔ انھوں نے آزاربند کے بغیر والا پاجامہ تک پہن لیا۔ اس کے بعد انھوں نے اسی طرح نماز پڑھی‘ نفل پڑھے‘ قرآن پڑھا اور پھر کتاب کا مطالعہ کیا اور یہ کتاب تھی غالباً سیرت سید احمد شہید۔ مولانا میں نہ گھبراہٹ‘ نہ کوئی آہ و بکا اور نہ کوئی ایسے آثار پائے گئے کہ یہ شخص چند روز کے فاصلے پر موت کو دیکھ کر ہل گیا ہو۔ ایسی کوئی چیز مشاہدے میں نہ آئی بلکہ اس کے برعکس موت کو آنکھوں کے سامنے دیکھ کر وہ پہلے سے بھی زیادہ پُرسکون اور ایک کوہ وقار کی طرح نظر آئے۔ ان کے صبح و شام میں وہی معمولات ‘ وہی ڈسپلن اور وہی اعتدال تھا‘ حتیٰ کہ نماز اور نوافل کے باب میں بھی وہی اعتدال کہ جو ان کا معمول تھا!
جب میں حرمین الشریفین اور پھانسی گھاٹ کے ان دونوں واقعات کو دیکھتا ہوں تو یہ امر سامنے آتا ہے: ایک طرف وہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں اور دوسری جانب اللہ کے عطاکردہ فہم دین کے مطابق جو تقاضے انھوں نے سمجھے اور ان تقاضوں کے مطابق جو نظامِ کار انھوں نے بنایا‘ اسے پورا کرنے کے لیے اوقاتِ کار کی معمولی سی تبدیلی کے بعد پوری یکسوئی کے ساتھ اسی رحمن و رحیم کے دین کی خدمت میں لگ جاتے تھے۔ اعلیٰ ترین مقام عبادت پرجا کر بھی پورا وقت نفل پڑھنے میں نہیں گزارتے‘ ایسا کرنے کے بجاے وہ بنیادی عبادت و نفل ادا کر کے جہادِ زندگانی میں مصروف ہو جاتے۔
عمرے والے واقعے کی خلش میرے دل میں اُس روز دُور ہوئی‘ جب میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح پڑھتے ہوئے اُس مقام پر پہنچا کہ جہاں ایک فرد‘ حضرت جنید کے پاس مہینہ بھر رہ کر جانے کی اجازت مانگنے لگا تواُنھوں نے پوچھا: ’’بھائی کیوں آئے تھے اور اب کیوں جا رہے ہو؟‘‘ فرد نے کہا: ’’میں اس لیے آیا تھا کہ میں نے آپ کی بڑی دھوم سنی تھی‘ عارف باللہ ہونے کی حیثیت سے۔ میں نے پورا وقت یہاں بڑے آرام سے گزارا اور بہت کچھ سیکھا ہے لیکن یہاں میں نے کوئی غیرمعمولی بات نہیں دیکھی۔ اس طرح قرآن اور اس طرح کی نماز تو میں ہر جگہ پڑھتا اور دوسروں کو پڑھتے دیکھتا تھا‘‘۔ حضرت جنید نے پوچھا :’’کیا تم نے ہمارے ساتھ رہ کر کوئی چیز شریعت کے خلاف دیکھی؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ پھر پوچھا: ’’شریعت جس طرح زندگی گزارنے کا حکم دیتی ہے‘ کیا ہم اس کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں‘ البتہ میں نے کوئی کرامت نہیں دیکھی‘‘۔ حضرت نے فرمایا: ’’بس ہم وہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو شریعت میں مطلوب ہے‘ نہ کم نہ زیادہ‘‘۔ اس واقعے کو پڑھ کر میرے دل کی خلش دور ہوگئی کہ مولانا نے مقاماتِ ربانی پر پہنچ کر بھی کیوں زیادہ وقت نوافل پڑھنے میں نہیں گزارا۔ اور حضرت جنید کا واقعہ پڑھ کر مولانا کی عظمت کا نقش اور بھی گہرا ہوگیا۔ یہ واضح ہوا کہ آزمایش ہو یا مقاماتِ ربانی کی تجلیات کا قرب‘ جس شخص نے اللہ سے اپنی جان کا سودا کرلیا ہے‘ وہ شریعت کے متعین کردہ فریم ورک میں رہ کر معمولات کے مطابق ہرکام کرتا ہے۔ یہی اصل کامیابی ہے‘ یہی اصل کرامت ہے اور یہی اصل مطلوب ہے۔
عدمِ توازن خواہ دینی معاملات میں ہو یا دنیوی امور میں‘ اس سے وہ پہلو بچاتے تھے۔ یہاں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ فرمان ذہن میں آ رہا ہے کہ جس میں انھوں نے فرمایا: دنیا اور دین دونوں کے معاملات میں غلو ناپسندیدہ ہے۔ ان ہدایات کے مطابق میں نے مولانا کی زندگی میں وہ توازن اور اعتدال پایا‘ جو اللہ کے دین کو قبول کر کے اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کا لازمی نتیجہ ہونا چاہیے۔ مولانا مودودی نے قدم قدم پر یہ اہتمام کیا‘ کہ کوئی چیز شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ شریعت کے تقاضے پورے کرنے والی ہو۔
مولانا مودودی کے ساتھ گزرے ہوئے وقت میں کرامت تو نہیں لیکن ایک چیز بارہا مشاہدے میں آئی۔ وہ یہ کہ کئی معاملات میں انسانی تدبیر کی انتہا کرلی‘ مگر راستہ بند پایا‘ جسے محاورے کی زبان میں کہتے ہیں ’’بندگلی میں پہنچ گئے‘‘۔ اس صورت حال میں جب مولانا کے پاس گئے تو انھیں اسی طرح پُرسکون چہرے‘ پُراعتماد اور اطمینان بھرے لہجے میں بات کرتے دیکھا‘ اور اکثر وہ رکاوٹ ان کی دعا اور معمولی سے استدلال یا کاوش سے دُور ہوگئی۔
اس حوالے سے بہت سے واقعات ہیں‘ لیکن یہ ایک واقعہ دیکھیے۔ ۱۹۶۴ء میں‘ مولانا مودودی‘ میاں طفیل محمدصاحب‘ چودھری غلام محمد اور دوسرے رفقا کے ساتھ میں لاہور کی جیل میں تھا۔ سپریم کورٹ نے جماعت پر پابندی غیرقانونی قرار دے دی تھی‘ لیکن ابھی ہم قید ہی تھے اور رہائی کے لیے ہائی کورٹ میں آخری سماعت ہو رہی تھی۔ جس کے لیے مجھے چودھری غلام محمدصاحب کے ہمراہ دوسری بار لاہور لایا گیا تھا کیونکہ وہ بھی کراچی جیل میں تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب متحدہ حزب اختلاف (COP) نے محترمہ فاطمہ جناح کو فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مقابلے میں متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔ ہم لوگ تو جیل میں تھے اور باہر چودھری رحمت الٰہی صاحب پوری تندہی کے ساتھ جماعت کے سیاسی و اجتماعی موقف اور عدالتی عمل سے متعلق تمام امور انجام دے رہے تھے۔ انھی کے ذریعے جماعت ‘متحدہ اپوزیشن سے رابطے میں تھی اور فاطمہ جناح کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب نے مشورے کے لیے جیل کے اندر مولانا کو پیغام بھیجا کہ کیا کیا جائے۔ اگلے روز اپوزیشن کا اجلاس تھا۔ ہمیں مغرب کے وقت یہ پیغام ملا۔ نمازِ مغرب ادا کرکے کھانا کھایا اور پھر مولانا نے ہمیں مشورے میں شریک کیا۔ چودھری غلام محمد صاحب‘ غلام جیلانی صاحب اور میری رائے یہ تھی کہ ہمیں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت اور تائید کرنی چاہیے لیکن مولانا متردد اور مضطرب تھے کہ ہم عورت کی سربراہی کے مسئلے میں ایک واضح اور اصولی موقف رکھتے ہیں۔ ہر پہلو سے ہمارے مابین دلائل کا تبادلہ ہوا۔ شریعت کی منشا اور معاشرے پرظلم و زیادتی اور ایوب خاں صاحب کے تجدد پسندانہ ذہن‘ آمرانہ اندازِ حکمرانی اور قومی یک جہتی کو درپیش خطرات اور اس کے مقابلے میں مصلحت عامہ کے اصول تک زیربحث آئے۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد ایک وقت آیا کہ ہم تو آرام کے لیے لیٹ گئے‘ مگر مولانا رات گئے تک اضطراب میں ٹہلتے اور سوچتے رہے۔ آخرکار اگلے روز صبح گیارہ بجے کے قریب یکسو ہوگئے کہ اس صورتِ حال میں فاطمہ جناح صاحبہ کی حمایت کرنی چاہیے۔ اور پھر مولانا نے اسی وقت بیٹھ کر آدھے صفحے پر مشتمل تحریر لکھی۔ سوال یہ تھا کہ اس تحریر کو باہر کیسے بھیجا جائے؟ کوئی راستہ نہیں تھا۔ آدھا دن گزر چکا تھا اور اسی شام اجلاس تھا۔ باہر ہدایت بھیجنا ضروری تھا اور راستہ بند تھا۔
اس مقصد کے لیے ہم پریشان تھے‘ مگر مولانا فیصلہ کرنے اور تحریر لکھنے کے بعد مطمئن اور پُرسکون تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد چودھری غلام جیلانی صاحب نے کہا میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل سے بات کرتا ہوں‘ وہ خود تو یہ تحریر باہر نہیں بھجوا سکے گا‘ ممکن ہے کوئی مدد کر سکے۔ یہ کہہ کر وہ نائب داروغہ جیل کو ملے اور کہا کہ اگر آپ مجھے فلاں شخص کو بلانے کے لیے فون کرنے کی اجازت دے دیں تو میں شکرگزار ہوں گا اور ہم رازداری سے پیغام بھی دے سکیں گے اور آپ پر کوئی حرف بھی نہیں آئے گا۔ اس افسر نے مسکرا کر کہا: ’’وہ تو یہ اطلاع پہلے حکومت کو دے گا‘‘۔ جیلانی صاحب مایوسی میں ابھی ڈیوڑھی سے واپس نہیں آئے تھے لیکن میں دیکھ رہا تھا مولانا جیسے اس صورت حال سے بالکل بے نیاز اور پُراعتماد ہیں‘ کہ اچانک جیلر کا کارندہ آیا کہ کوئی فرد خصوصی اجازت لے کر ملاقات کے لیے آیا ہے۔ اس طرح وہ سلپ چودھری رحمت الٰہی صاحب کو بھجوا دی۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے متعدد واقعات ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوئے۔ دراصل مولانا کو اعتماد تھا کہ جو چیز حق ہے‘ وہ ہوکر رہے گی۔
ایسا ہی واقعہ مولانا کی گردے کی پتھری کا ہے‘ جب وہ ۱۹۴۸ء میں جیل گئے تواس سے پہلے پتھری کی تکلیف بار بار تنگ کرچکی تھی۔ لیکن جیل میں جاتے ہی مولانا نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان ظالموں سے کسی سہولت کی درخواست نہ کرنی پڑی۔ خدا کا کرنا کہ پتھری اپنے راستہ سے ہٹ گئی اور ۲۸ سال ہٹی رہی۔ یہی وہ پتھری تھی جس کے اپریشن کے لیے ہم ۱۹۶۸ء میں مولانا کو انگلستان لے کر گئے تھے۔
اس میں کوئی روایتی یا مصنوعی چیز نہ تھی‘ جس طرح کہ سلوک‘ تصوف یا طریقت کے حوالے سے ہمارے کلچر میں معروف‘ منسوب یا روایت کی جاتی ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریر‘ تقریر‘ تلقین اور ملاقات میں تزکیۂ نفس کے لیے جس چیز کی طرف متوجہ کیا‘ وہ صرف قرآن اور سیرت رسولؐ کی مرکزیت‘ صحابہ کبارؓ سے منسوب مختلف پہلو تھے۔ بس یہی ماخذ مولانا کے سلوک اور طریقت کے سرچشمے تھے۔ کبھی کبھی صلحاے اُمت کی اُن روایات کو بھی دہرایا جو مذکورہ بالا کسوٹی پر پورا اُترتی تھیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ ثانوی ماخذ پر احتیاط اور توازن کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ وہ اسی ترتیب کے مطابق تربیت و تزکیہ اور ضبطِ نفس کی تعلیم دیتے اور کہتے تھے کہ: اللہ اور اس کے رسولؐ نے عبادات و معاملات کے لیے جو حکم دیا ہے کم از کم اسے تو پورے توازن سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں کسی ایک چیز پر زیادہ زور دیں گے تو مطلوب توازن بگڑ جائے گا‘‘۔
میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ مولانا محترم اگر کسی فرد میں غلطی‘کمی‘ کوتاہی یا تساہل دیکھتے تو اسے انفرادی طور پر متوجہ کرتے۔ سخت سست کہنے‘ ڈانٹنے‘ غصے میں بلندآواز میں بولنے یا دوسروں کے سامنے اس کی عزتِ نفس مجروح کرنے کے بجاے بڑے ہی پیارے انداز سے توجہ دلاتے کہ اُن کے اس توجہ دلانے کے انداز میں بڑی مٹھاس پر پیار آتا تھا۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں۔ میری بدخطی اور پروف ریڈنگ کے حوالے سے سہل انگاری پر بھی لطیف پیراے میں توجہ دلاتے۔ اور یہ کہتے: دیکھو خورشید میاں‘ میں اپنی کوئی چیز اس وقت تک چھپنے کے لیے نہیں دیتا جب تک اس کی خود پروف ریڈنگ نہ کر لوں اور یہ اطمینان نہ کر لوں کہ جن غلطیوں کی نشان دہی کی تھی‘ وہ لگ گئی ہیں یا نہیں۔ یہاں پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ میری ادارت میں ماہ نامہ چراغِ راہ کا سوشلزم نمبر شائع ہوا تو آپ نے لکھا: ’’سوشلزم نمبر میں نے بہ غور پڑھا۔ آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملے میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے۔ اپنی ہی محنت کو اس تساہل کی بدولت جس طرح آپ لوگوں نے برباد کیا ہے‘ اگر وہ کوئی اتفاقی واقعہ ہوتا تو شاید صبر بھی کیا جا سکتا تھا‘ لیکن اس سے پہلے بارہا میں آپ لوگوں کوتوجہ دلا چکا ہوں کہ کتابت کی صحت اور طباعت کی درستی کے معاملے میں لاپروائی برت کر آپ لوگ اپنے کیے کرائے پر پانی پھیر لیتے ہیں‘‘۔(خطوط مودودی‘ دوم‘ ص ۳۹۲)
پڑھنے کو تو یہ ایک مختصر سا نثرپارہ ہے ‘ لیکن دیکھا جائے تو اس میں حوصلہ افزائی اور کوتاہی کو ایک ہی جگہ نہایت خوب صورت اور جامع انداز میں بیان کر دیا ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے‘ جب جمعیت کا انگریزی پرچہ Students Voice میری ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے بالکل ابتدائی دور میں مولانا نے اپنے خط (۱۸ اگست ۱۹۵۲ئ) میں لکھا: ’’اسٹوڈنٹس وائس برابرآ رہا ہے۔ آپ لوگوں کی اس کامیاب کوشش کو دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ امید ہے کہ جو لوگ اس پرچے میں لکھنے کی مشق کریں گے وہ آگے چل کر انگریزی صحافت میں اسلام کی عمدہ ترجمانی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے‘‘ (ایضاً‘ ص ۳۹۰)۔ اس میں حوصلہ افزائی بھی ہے‘ رہنمائی اور دعا بھی‘ بلکہ پیش گوئی بھی۔ کیونکہ آنے والے زمانے میں وائس کے انھی نومشق طالب علموں میں سے ایک بڑی تعداد بعد میں تحقیق و تصنیف کے میدان میں خدمات انجام دینے والی بنی۔
میں شوریٰ اور دوسرے اجلاسوں میں اپنی روز مرہ عادت کے مطابق کوٹ پتلون ہی میں شرکت کرتا رہا‘ لیکن مولانا نے مجھے ایک بار بھی اس پر سرزنش نہیں کی۔ اس کے برعکس اسعد گیلانی صاحب اور محموداعظم فاروقی صاحب نے کئی بار ٹوکا۔
۱۹۵۷ء کے بعد جماعت ایک داخلی بحران سے گزری‘ جس میں الگ ہونے والے محترم رفقا میں سے بعض نے نہایت تکلیف دہ اسلوب میں نہ صرف پروپیگنڈا مہم چلائی بلکہ جماعت کے اندر رفقا کی یکسوئی کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سخت تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ اس دوران مولانا نے شخصی بازپرس کرنے اور کسی کا نام لیے بغیر مجموعی طور پر مختلف امور کی جانب توجہ دلائی اور اجتماعی بگاڑ کی خرابیاں بیان کر کے ان سے بچنے کی راہیں بتائیں۔ وہ تحریریں اجتماعی زندگی کو کامیابی سے گزارنے کے لیے بنیادی دستاویز کا درجہ رکھتی ہیں۔ایک روز میں نے مولانا سے اس مسئلے پر بات کی اور پوچھا آپ بعض صورتوں میں عمومی اسلوب کیوں اختیار کرتے ہیں حالانکہ خرابی چند افراد نے کی ہوتی ہے؟
مولانا محترم نے فرمایا: ’’یہ اسلوب میں نے سیرت پاکؐ سے اخذ کیا ہے۔ جب مجھے کہیں کسی فرد میں خرابی نظر آتی ہے تو اپنے انداز میں اسے سمجھانے یا توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن جب یہ دیکھتا ہوں کہ اس خرابی میں متعدد لوگ مبتلا ہو رہے ہیں تو پھر فرداً فرداً مخاطب کرنے کے بجاے عمومی انداز میں توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے‘ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے یا آپ کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینی چاہیے‘‘۔
فرمایا: ’’اگر کسی ایک صحابی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا تو آنحضوؐر اسے الگ سے سمجھاتے اور جب خرابی زیادہ پھیلتی نظر آتی تو صحابہؓ میں سے کسی فرد کا دل توڑنے کے بجاے اس طرح ہدایت دیتے یا بیان فرماتے: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں یا اس طرح کیوں نہیں کررہے و غیرہ۔ اس طرح آنحضوؐر فرد کی عزتِ نفس کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے توجہ بھی دلاتے اور اسے تنقید کا ہدف بننے سے بھی بچاتے۔
مولانا میں ایک اور بڑی قابلِ ذکر خوبی تھی۔ وہ یہ کہ حفظ مراتب کا خیال رکھنا‘ دوسرے کی عزت کرنا‘ اس کا دل رکھنا‘ اس کے مقام کے مطابق ہی نہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر عزت دینا اور اکرام کرنا۔ مولانا مودودی‘ مشرقی تہذیبی روایت کے اس صحت مند پہلو کا دل آویز نمونہ تھے۔
ایک مرتبہ کراچی میں مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور کے ہاں مجھے مولانا مودودی کے ہمراہ جانے کا موقع ملا۔ نماز کا وقت ہوگیا تو مفتی صاحب نے مولانا سے کہا: ’’آپ امامت کریں‘‘۔ مگر مولانا نے اصرار کیا : ’’نہیں‘مفتی صاحب نماز آپ ہی پڑھائیں‘‘ اور پھر مفتی صاحب کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ اس کے برعکس بیچ لگژری ہوٹل میں جمعیت الفلاح کا ایک اجلاس ہو رہا تھا۔ مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم اور مولانا عبدالحامد بدایونی مرحوم وہاں موجود تھے۔ نمازِمغرب سے پہلے تھانوی صاحب اُٹھے اور اپنے انداز میں کہنے لگے: صفیں یہاں بچھائو ‘ فلاں چیز ادھر رکھو کہ اتنی دیر میں اذان ہوگئی اور بدایونی صاحب جھٹ سے آگے بڑھ کر امامت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس طرح کا معاملہ کبھی مولانا کے ہاں نہیں دیکھا گیا۔ مولانا مودودی اپنے تمام معاصرعلماے کبار کا بڑا احترام کرتے تھے۔
ممتاز قانون دان اے کے بروہی مرحوم سے مولانا کے بڑے اچھے تعلقات تھے اور یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں‘ ان روابط کو استوار کرنے میں ابتدائی کردار میں نے ادا کیا تھا۔ بروہی صاحب سے میری ملاقات بڑے دل چسپ انداز میں ہوئی۔ یہ ۱۹۵۳ء کی بات ہے۔ بروہی صاحب حکومت سندھ کے غالباً ایڈووکیٹ جنرل تھے۔ انھوں نے Dawn میں مضمون لکھا: Can Islam give a Constitution?۔ جواب میں‘ میں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے انگریزی ترجمان اسٹوڈنٹس وائس میں دو تین صفحات پر مشتمل اسی عنوان سے اس کا جواب لکھا۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر اور خرم مرحوم کے ماموں زاہد حسین صاحب نے اس مضمون کو بہت پسند کیا۔ متعدد لوگوں کو پڑھنے کے لیے بھیجا۔ پھر ایک روز بتایا کہ بروہی صاحب نے بھی اس مضمون کو خوب سراہا ہے اور پیغام دیا ہے: ’’میں اس مضمون کے لکھنے والے سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔ جس پر میں ان کے ہاں پہنچا۔ بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ بروہی صاحب کہنے لگے: ’’میں آپ کے مضمون سے قائل تو نہیں ہوا لیکن اس موضوع پر جو بھی لکھا گیا ہے‘ اُس میںآپ کا مضمون‘ موضوع سے متعلق اور سب سے اچھا ہے‘‘۔ پھر اسی زمانے میں ان کی کتاب آئی تھی An Exercise in Self Expression وہ انھوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ دی۔ بعد میں بھی بار بار ملتے رہے۔ بہت سی کتب پڑھنے کے لیے دیتے اور شفقت کرتے رہے۔ اسی دوران میں نے ان سے کہا‘ میں یہ چاہتا ہوں کہ مولانا خطاب کریں اور آپ اس اجلاس کی صدارت کریں۔ انھوں نے کہا: ’’ضرور آئوں گا‘‘۔
اس کے بعد جب مولانا مودودی کراچی آئے تو ہم نے کراچی جمعیت کے تحت ایک پروگرام رکھا‘ جس میں صدارت بروہی صاحب کی تھی اور خطاب مولانا کا تھا۔ مولانا کی تقریر کا موضوع تھا: ’’اسلام اور مغربی تہذیب‘‘۔ یہ اجلاس عام وائی ایم سی اے ہال کراچی میں ہوا تھا۔ اسی اجلاس میں مولانا اور بروہی صاحب پہلی مرتبہ ملے تھے اور تقریر میں بروہی صاحب نے کہا تھا: ’’مولانا مودودی جیسا قانونی ذہن میں نے شاذ ہی دیکھا ہو‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے مولانا کو گھر کھانے پر بلایا۔
اسلامی قانون کی تدوین کے موضوع پر مولانا مودودی کا کراچی بار ایسوسی ایشن میں خطاب تھا۔ سامعین میں ججوں کے علاوہ تین چار سو وکلا اور مفتی محمد شفیع مرحوم اور مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم بھی شامل تھے۔ مولانا کی تقریر کے بعد مفتی محمد شفیع صاحب نے مولانا انصاری صاحب سے یہ بات کہی اور میں نے خود اپنے کانوں سے سنی کہ:’’اللہ تعالیٰ کو جس قسم کے حالات میں جو کام لینا مطلوب ہے‘ اس کے لیے اپنے کسی بندے کو وہ صلاحیت سے نواز دیتا ہے۔جس طرح مولانا مودودی صاحب نے اس محفل میں وکلا حضرات کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ اگر ہم جیسے لوگوں کو اس کیائوں‘ کیائوں میں کھڑا کر دیا جاتا تو کیا ہوتا‘‘۔ جہاں یہ بات حضرت مفتی صاحب کی طرف سے مولانا مودودی کی عظمت کا فراخ دلانہ اعتراف ہے‘ وہیں خود حضرت مفتی صاحب کی عظمت کا اظہار ہے۔
۱۹۵۳ء میں تحریک ختمِ نبوت پر انکوائری کمیشن بیٹھا۔ اُس وقت مولانا مودودی سزاے موت کے تبدیل ہونے کے بعد عمرقید کاٹ رہے تھے۔ کمیشن نے مولانا کو بیان دینے کے لیے طلب کیا۔ مولانا کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ کمیشن کے سامنے پہلا بیان دینے کے لیے مولانا نے مناسب سمجھا کہ وہ لکھ لیں۔ اس بے سروسامانی میں انھوں نے لکھا اور خوب لکھا: مولانا امین احسن اصلاحی نے فرمایا: ’’کمال ہے‘ یہ بیان مولانا نے قلم سے نہیں بلکہ الہامی انداز میں لکھا ہے‘‘۔
پھر ۱۹۶۰ء یا ۶۱ء میں ایوب صاحب کے عائلی قوانین (فیملی لاز)آئے تو اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علما کا اجلاس غالباً جامعہ اشرفیہ میں منعقد ہوا تھا۔ اس قانون پر تنقیدی تحریر‘ حرف بحرف مولانا مودودی نے لکھی تھی اور تمام علما نے اس پر دستخط ثبت کیے تھے۔ مفتی محمد حسن صاحب نے فرمایا:’’سبحان اللہ‘ اس سے بڑھ کر اور کیا لکھا جاتا؟ نہ ایک حرف کم کرنے اور نہ زیادہ کرنے کی کوئی گنجائش‘‘۔ یہ تھی مولانا مودودی کی اپنے مضمون‘ فکر اورخیالات پر گرفت۔
۱۹۶۲ء میں ایوب خاں صاحب کا دستور آیا۔ اس وقت کے سب سے نمایاں لیڈر حسین شہید سہروردی صاحب اور دوسرے سربرآوردہ سیاسی قائدین کا خیال تھا کہ اسے مسترد کر دیا جائے اور ۱۹۵۶ء کے دستور کی بحالی کی تحریک چلائی جائے۔ مولانا مودودی کا کہنا تھا:’’اس وقت یہ ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کر کے اس دستور میں اتنی ترامیم کرا دینی چاہییں کہ اس کی شکل تبدیل ہو جائے اور یہ دستور قابلِ قبول بن جائے‘‘۔ اس مکالمے کا آخری اجلاس مولانا ہی کے گھر ۵-اے‘ ذیلدار پارک اچھرہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سہروردی صاحب کے علاوہ چودھری محمد علی‘ میاں محمود علی قصوری‘ سردار شوکت حیات اور نواب زادہ نصراللہ خاں شریک تھے۔ یہ اجلاس دو تین گھنٹے جاری رہا۔ ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کمرہ کھلا اور اجلاس کے بعد قائدین باہر آئے تو میں نے سہروردی مرحوم کو چودھری محمد علی صاحب سے یہ کہتے ہوئے سنا:
Oh my God! He is a great constitutional mind!
اور محمد علی صاحب نے کہا کہ جو ترامیم مودودی صاحب نے لکھی ہیں‘ اگر فی الحقیقت یہ ترامیم ہو جائیں تو یہ دستور قابلِ قبول ہو جائے گا۔ فوج کی طرف سے دستور میں اقتدار کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حق لینے نہیں بلکہ زبردستی اختیار لینے کا معاملہ ۱۹۶۲ء میں تھا‘ اسی کی خواہش یحییٰ صاحب نے ۷۱-۱۹۷۰ء میں کی۔ بعد میںجنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء کے ریفرنڈم اور آٹھویں ترمیم (۱۹۸۵ئ) کے ذریعے یہی چاہا اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اسی چیز کو ’’قومی مفاد‘‘ قرار دیا۔ وقت کا فاصلہ اور چہروں کی تبدیلی کو نظرانداز کردیں تو بنیادی ایشو پر یہ تمام فوجی حکمران ہم آواز رہے ہیں۔
ایک بار مولانا نے مجھ سے فرمایا: بعض اوقات مجھے قلم برداشتہ لکھنا پڑتا ہے لیکن اس کے پیچھے برسوں کا غوروفکر ہوتا ہے اور میرے ذہن میں جب کوئی چیز پوری طرح بن جاتی ہے‘ تب میں لکھتا ہوں‘‘۔ یہ تصنیف و تالیف کا کمال ہے۔ اسی طرح شاعری کا معاملہ ہے۔ مشہور شاعر ٹینی سن کی شاہکار نظم ہے ’’قبلائی خاں‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ یہ نظم خواب میں مجھ پر وارد ہوئی اور اُٹھ کر میں نے لکھ ڈالی۔ یہی عالم ہمارے اپنے عظیم ترین شعرا یعنی غالب اور اقبال کا تھا۔
یہ اللہ کی دین ہوتی ہے ‘ مولانا کی بھی یہی کیفیت تھی کہ جب صورت حال پیدا ہوتی اور قلم برداشتہ بھی لکھنا پڑتا تو یوں لکھتے جیسے برسوں سے اس موضوع پر سوچ رہے تھے۔ مربوط‘ مسلسل‘ مدلل‘ موثر اور دل نشیں تحریر!
اب ایک اور حوالے سے دیکھیے: مولانا کو اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ انھیں خود اس پہلو سے اپنی زندگی میں کمی کا احساس تھا‘ وہ یہ تھا: ’’اپنے بچوں کوجتنا وقت دینا چاہیے تھا وہ میں نہیں دے سکا‘‘۔ حالانکہ مولانا گھر سے متصل ہی بیٹھتے تھے۔ رات کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھاتے تھے۔ اپنے سبھی بچوں سے محبت تھی‘ فکرمندی تھی‘ توقعات تھیں‘ تاہم ان میں سب سے زیادہ محبت جس فرد سے تھی‘ وہ اُن کے بڑے صاحبزادے عمرفاروق ہیں۔ ان کا ذکر بڑی چاہت اور بڑی اُمیدوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ بلاشبہہ عمرفاروق صاحب میں مولانا محترم کا پرتو پایا جاتا ہے۔ اور جب دوسرے صاحبزادے احمد فاروق کراچی پڑھنے کے لیے گئے تو چودھری غلام محمد صاحب کے ہمراہ مجھ سے بھی کہا: اگرچہ احمد اپنے ماموں کے ہاں مقیم ہیں‘ تاہم آپ لوگ اُن کی ضروریات کا خیال رکھیے گا‘‘۔ اتنی عظیم ذمہ داریوں کے باوجود وہ اس پہلو سے غافل نہیں تھے۔
بعض لوگ جو یہ بات کہتے ہیں کہ مولانا کے ہاں برعظیم کی اہم قومی شخصیات کے باب میں Personality Clash (شخصی تصادم) تھا‘ ایسے افراد ایک خلافِ واقعہ اور ایک قطعی غلط بات کہتے ہیں۔ ایک ایرانی نژاد امریکی نے لکھا کہ قائداعظم کے ساتھ مولانا کا شخصی تصادم تھا‘ کچھ نے کہا کہ اصلاحی صاحب کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ مولانا مودودی کی زندگی کا مجموعی کینوس اور قرائن و شواہد اس الزام کی تائیدنہیں کرتے۔ شخصی تصادم کا ایک عام مظہر یہ ہوتا ہے کہ ہدف شخصیت کا تذکرہ اپنی گفتگو میں برے بھلے اندازمیں آپ سے آپ ہوجاتا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی مولانا کو کسی شخصیت کو زیربحث لاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر کبھی بات کی تو مسائل پر اور وہ بھی مناسب حد تک۔ ۱۹۵۷ء میں جو ساتھی الگ ہوئے‘ ان کی علیحدگی اور پھر ایک مہم‘ مگر مولانا نے کبھی ان چیزوں کا جواب نہیں دیا۔ ایک دو افراد نے بہت زیادہ زور دیا تو اُن سے صرف بات کرنے کی حد تک تذکرہ کیا اور اپنی ایسی کسی تحریر کو اُچھالنے کی اجازت نہیں دی۔ دوسری جانب مسئلہ اس کے برعکس رہا بلکہ تکلیف دہ حدتک برعکس!
مولانا مودودی نے پہلے دن سے کوشش کی‘ کہ ان کی معاش آزاد ہو‘ وہ جماعت پر بوجھ نہ بنیں۔ آزاد معاش ہی کی بنیاد پر انھوں نے جماعت کی مدد کی ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی کتب کا بڑا حصہ خدا کی راہ میں وقف کردیا‘ اور کہیں بہت بعد میں جاکر گزربسرکے لیے چند کتب ’ادارہ ترجمان القرآن‘کو دیں۔ جس کوٹھی میں جماعت کا دفترتھا اس کے ایک حصے میں مولانا رہتے اور اس کا کرایہ جماعت کو ادا کرتے تھے۔ ایک دفعہ چودھری غلام محمد صاحب اور میں‘ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: ’’جماعت یہ کوٹھی آپ کو تحفتاً دینا چاہتی ہے‘‘۔
مولانا نے فرمایا: ’’نہیں‘ میں اس طرح نہیں لوں گا۔ اگرچہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں لیکن آپ مارکیٹ میں اس کی قیمت لگوا لیں‘ جنھیں میں قسطوں میں ادا کر دوں گا‘‘۔
اس پورے عرصے میں مولانا نے ایک انچ زمین بھی نہیں خریدی تھی‘ اور نہ کہیں کوئی جایداد بنائی تھی۔ہم میں سے اگر کسی نے کوئی معمولی سا تحفہ بھی پیش کرنا چاہا تو بڑے تردد کے ساتھ اور ازراہ شفقت قبول کیا۔ مولانا کے انتقال کے وقت اُن کے ترکے میں اس ایک کوٹھی اور چند کتابوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اگر کوئی فرد‘ زندگی اپنی اور اپنے اہل خانہ کے لیے گزار رہا ہوتا تو دولت کا ایک انبار چھوڑ کر بزمِ جہاں سے رخصت ہوتا مگر یہاں معاملہ برعکس تھا۔ بیرونِ پاکستان جو دو مرتبہ علاج کے لیے گئے تو اس میں اُن کے لیے سب سے بڑا ذہنی دبائو یہ ہوتا کہ اس میں ممکن ہے رفقا میں سے کوئی ساتھی زیربار آئیں اور یہ معاونت لینا ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ الحمدللہ اس سلسلے میں انھوں نے مجھے کچھ سعادت حاصل کرنے کی اجازت دی۔
جماعت اسلامی کے بیت المال میں سے ایک پائی بھی انھوں نے اپنی ذات پر خرچ نہیں کی۔ وہ کسی الیکشن میں کھڑے نہیں ہوئے۔ پاکستان اور بیرونِ پاکستان سے اچھی سے اچھی سہولیات اور بہتر سے بہتر ذرائع آمدن کے مواقع ملے‘ مگر انھوںنے ایسی کسی پیش کش کو پرکاہ کی حیثیت نہ دی اور مقصد زندگی کو اولیت دی۔
ایوب خان صاحب نے انھیں بھاری پیش کش کی اور نیازمندی کا اظہار بھی کیا‘ لیکن انھوں نے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔ اجتماعی زندگی میں اختیارات کے مسئلے پر ان کا ایک موقف تھا‘ لیکن رفقا نے استدلال پیش کیا تو اپنی راے سے رجوع کر لیا اور کثرت راے سے فیصلوں کے بجاے ان کی کوشش ہوتی کہ اتفاق رائے سے فیصلے ہوں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ مولانا پر حرف زنی کرتے ہیں‘ وہ حقائق سے زیادہ ذاتی تعصب پر اپنے اظہار کو استوار کرتے ہیں۔
زندگی کے ان طویل برسوں میں‘ دنیا بھر میں گھوم پھر کر میں نے کسی دینی یا دنیوی شخصیت میں ایسی خوبیاں اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی گہرائی کے ساتھ نہیں دیکھی ہیں‘ جتنی خوبیاں عصرِحاضر میں مولانا مودودی کی شخصیت میں تھیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں‘ عباد الرحمن میں ایسی خوبیوں کی فراوانی چاہتا ہے اور نبی آخرالزماں نے اسی نہج پر افراد کی تعمیرشخصیت کا پیغام دیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کی حیثیت سے ہم بحیثیت مسلمان اور بحیثیت اسلامی تحریک کے کارکن‘ ان میں سے کون کون سی خوبیوں سے محروم ہیں‘ اس محرومی کو کیسے دُور کر سکتے ہیں اور کن کن خوبیوں کو اپنے اندر پروان چڑھا سکتے ہیں؟