مسیحی تہذیب نے عورت کو گناہ کی جڑ گردانا اور تقویٰ و اعلیٰ اخلاق کا تقاضا یہ سمجھا کہ نکاح ہی نہ کیا جائے۔ یہ پابندی ایک مستحسن قدر کے طور پر آج بھی وہاں کے مذہبی پیشوا پادری کے لیے موجود ہے۔ اس راہبانہ تصور کے زیر اثر یورپ اور امریکہ کے لیے جو قوانین بنائے گئے‘ ان میں عورت کو ادنیٰ حیثیت اور پست مقام دیا گیا۔ جب تہذیب کے مرکز کے دعوے دار معاشرے کی صورت حال یہ تھی تو دنیا کے بیش تر حصوں میں کسی نہ کسی شکل میں عورت کا استحصال جاری رہا۔
ردعمل کے طور پر حقوق نسواں کی ایک تحریک برپا ہوئی‘ جس کا آغاز اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے حقوق نسواں کمیشن کے قیام ۱۹۴۸ء سے ہوا۔ عالمی کانفرنسوں کا انعقاد‘ خواتین کا سال اور حقوق نسواں کا عالمی دن منانے کے ساتھ‘ اہم پیش رفت ۱۹۷۹ء میں سیڈا (CEDAW) کے ذریعے ہوئی۔ جس کے لائحہ عمل کے طور پر ۱۴ نکات طے کیے گئے جنھیں عورت کے لیے ترقی‘ امن مساوات کے نعرے کے ساتھ عالمی سطح سے پیش کیا گیا۔ آج امریکی‘ نیور ورلڈ آرڈر‘ کے تحت اسے مغرب کی تہذیبی بالادستی کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بیش تر مسلمان ممالک کی حکومتوں نے اس عالمی معاہدے پر دستخط کیے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی امداد بھی کسی حد تک اس ایجنڈے کے نفاذ کے ساتھ مشروط رکھی گئی۔ باقاعدگی سے منعقد ہونے والے جائزہ اجلاسوں نے ان اہداف کے حصول میں مدد کی۔ عالمی میڈیا اور انٹرنیٹ اس تحریک کے لیے معاون ثابت ہوئے۔ خود مغربی تصورات کے تحت رونما ہونے والی نام نہاد ’عالم گیریت‘ نے ساری دنیا کی عورتوں کو غیر محسوس طور پر اس کا ممبر بنا دیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھنے جانے والے رویوں اور پیش آنے والے واقعات کو مغرب کے پیش کردہ تناظر میں دیکھنا شروع کیا۔ اسی تسلسل میں دنیا کے بیش تر ممالک میں عورت کے حقوق کی علم بردار این جی اوز اس ایجنڈے کے لیے دنیا بھر میں سرگرم عمل ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے مسلم عورت کو عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے جو رہنمائی عطا فرمائی ہے‘ اسے انھی کی تحریروں سے منتخب کردہ نکات کی روشنی میں پیش کیا جا رہا ہے:
’’یہ نظریات جن پر نئی مغربی معاشرت اور (حقوق نسواں کی عالمی تحریک) کی بنیاد رکھی گئی ہے‘ تین عنوانوں کے تحت آتے ہیں:
مساوات کے معنی یہ سمجھ لیے گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اخلاقی مرتبے اور انسانی حقوق میں مساوی ہوں‘ بلکہ تمدنی زندگی میں بھی عورت وہی کام کرے جو مرد کرتے ہیں۔ معاشی‘ سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں‘ انتخابی جدوجہد‘ دفتروں اور کارخانوں میں ملازمت‘ آزاد تجارتی و صنعتی پیشوں میں مردوں سے مقابلہ‘ سوسائٹی کے تفریحی مشاغل میں شرکت‘ یا اور بہت سی نا کردنی و ناگفتنی مصروفیات۔
عورت کے معاشی استقلال‘ یعنی خود کمانے نے اسے مرد کی معاونت سے بے نیاز کر دیا‘ اور اصول یہ بنا کہ عورت اور مرد دونوں کمائیں اور گھر کا انتظام بازار کے سپرد کر دیا جائے۔
مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمایش‘ عریانی اور صنفی خواہش کو غیرمعمولی ترقی دے دی۔ اس قسم کی مخلوط سوسائٹی میں فطری طور پر دونوں صنفوں کے اندر یہ جذبہ ابھر آتا ہے کہ صنفِ مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنیں‘ لہٰذا ہوش سنبھالتے ہی انھی خواہشات کا دیوان کو دبوچ لیتا ہے۔
ہمارے اہل حل و عقد نے جب مرعوبیت سے مسحور آنکھوں کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت‘ آرایش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو دیکھا تو ان کے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش! ہماری عورتیں بھی اس روش پہ چلیں‘ تاکہ ہمارا تمدن بھی فرنگی کا ہمسر ہو جائے۔ پھر وہ آزادی نسواں‘ اور تعلیم اناث اور مساوات مرد و زن کے ان جدید نظریات سے بھی متاثر ہوئے‘ جو طاقت ور استدلالی زبان اور شان دار طباعت کے ساتھ بارش کی طرح مسلسل ان پر برس رہے تھے۔ اس لٹریچر کی زبردست طاقت نے ان کی قوت تنقید کو ماؤف کر دیا اور ان کے وجدان میں یہ بات اتر گئی کہ ان نظریات پر ایمان بالغیب لانا اور تحریر و تقریر میں ان کی وکالت کرنا (بقدر جرات و ہمت) عملی زندگی میں بھی ان کو رائج کر دینا‘ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو ’’روشن خیال‘‘ کہلانا پسند کرتا ہو اور ’’دقیانوسیت‘‘ کے بدترین الزام سے بچنا چاہتا ہو‘‘۔
۱- معاشرتی مسائل جو اکثر مسلم معاشرے میں رواج پا چکے ہیں‘ گو اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں‘ ان کو ایک خاص انداز سے اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے بیش تر سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں‘ تاہم ان کی شدت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں قرآن سے شادی‘ کاروکاری‘ گھروں میں عورتوں کی بے جا مار پیٹ‘ مٹی کے تیل کے چولہوں کے پھٹنے کے واقعات میں عموماً عورتوں کا زخمی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
۲- دوسرے وہ نکات جن کی زد براہ راست اسلام کے قوانین پر پڑتی ہے۔ مثلاً وراثت‘ گواہی اور دیت میں نصف مقدار کی بنا پر ’’آدھی عورت‘‘ کہا گیا۔ عورت کے لیے حجاب و ستر کی حدود‘ چار شادیوں کی اجازت‘ پسند کی شادی‘ حدود قوانین‘ آئین پاکستان سے قرارداد مقاصد اور اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے وغیرہ کا غلغلہ۔
۳- تیسرا حصہ‘ براہ راست تو نہیں مگر بالواسطہ اسلامی اقدار اور نظریاتی اساس کو متاثر کرنے والا ہے۔ عورتوں کی بیرون خانہ سرگرمیوں کے لیے چلائی جانے والی تحریک‘ ملازمتوں کا کوٹہ‘ ۳۳ فی صد سیاسی نمایندگی‘ ہر میدان میں مخلوط ملازمت‘ وغیرہ کا عنوان یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے‘ کیونکہ عورت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی نفی کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔
مذکورہ بالا تینوں امور کی پوری پوری رعایت ملحوظ رکھ کر اسلام نے عورت کو وسیع تمدنی و معاشی حقوق دیے ہیں‘ اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کیے ہیں اور ان حقوق و مراتب کی حفاظت کے لیے اخلاقی و قانونی ہدایات میں جیسی پائے دار ضمانتیں مہیا کیں ہیں‘ ان کی نظیر دنیا کی کسی قدیم و جدید معاشرت میں نہیں ملتی۔
تمدنی حقوق: شوہر کے انتخاب کا عورت کو پورا پورا حق دیا گیا ہے۔ ایک ناپسندیدہ یا ظالم یا ناکارہ شوہر کے مقابلے میں عورت کوخلع اور فسخ و تفریق کے وسیع حقوق دیے گئے ہیں۔ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت کی گئی ہے: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ(النساء ۴:۱۹)‘یعنی عورت کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو۔ اسی طرح نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والے ہیں‘‘۔
بیوہ اور مطلقہ کو نکاح ثانی کا غیر مشروط حق دیا گیا ہے‘ جو آج تک یورپ و امریکہ کے بیش تر ممالک میں نہیں ملا۔
مرد و عورت کے درمیان امتیاز کے خاتمے کے لیے جان‘ مال اور عزت کے تحفظ میں اسلامی قانون عورت اور مرد کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں برتتا۔
عورتوں کی تعلیم‘ عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اسے ضروری قرار دیا گیا۔
قرآن پاک میں واضح کر دیا گیا: ’’اور جو نیک عمل کرے گا‘ خواہ مرد ہو یا عورت ‘بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی‘‘۔ (النسائ۴:: ۱۲۴)
آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے باطنی اصلاح پر ہی اکتفا نہیں فرمایا‘ بلکہ قانون کے ذریعے عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا انتظام بھی کیا۔ اور عورتوں میں اتنی بیداری پیدا کی کہ وہ اپنے جائز حقوق کو سمجھیں اور ان کی حفاظت کے لیے قانون سے مدد لیں۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ جب تک حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم زندہ رہے ہم اپنی عورتوں سے بات کرنے میں احتیاط کرتے تھے کہ مبادا ہمارے حق میں کوئی حکم نازل ہو جائے‘ اور جب حضور اکرم ؐنے وفات پائی تب ہم نے کھل کر بات کرنا شروع کی۔ (الجامع الصحیح)
خاندان کا نظام عورت اور مرد کے اس مستقل اور پائے دار تعلق سے بنتا ہے جس کا نام نکاح ہے۔ یہی چیز ان کی انفرادیت کو اجتماعیت میں تبدیل کرتی ہے اور صنفی انتشار کے میلانات کو تمدن کا خادم بناتی ہے۔ اسی نظام کے دائرے میں محبت و ایثار کی وہ فضا پیدا ہوتی ہے‘ جس میں نئی نسلیں صحیح تربیت کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔ اسی تصور نکاح کے ساتھ ازواج کی ذمہ داریوں‘ ان کے حقوق و فرائض اور ان کے اخلاقی انضباط کا بوجھ سہارا جا سکتا ہے‘‘۔
خاندان کے اس دائرے میں‘ دائرہ کار کی تقسیم کرتے ہوئے معاشی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی۔ اس کو قوام و منتظم قرار دیا (provider & sustainer) ‘ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْط (النساء ۴:۳۴)’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘ اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے‘ اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔ جب کہ عورت کو فرماں برداری‘ شکر گزاری اور اپنی عفت و شوہر کے مال کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اولاد کی پیدایش و پرورش عورت کا وظیفۂ زندگی قرار دیا گیا۔ اولاد کے لیے ’’ضعف پرضعف اٹھایا‘‘ کہہ کر عورت کی وکالت کی‘ سعی ہاجرہ کو مردوں کے لیے بھی حج و عمرے کا لازمی رکن قرار دے کر اس اہم ذمہ داری کو تسلیم کروایا۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّط (البقرہ ۲:۱۸۷) ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘ کہہ کر ایک دوسرے کے لیے حفاظت‘ زینت اور ستر پوشی کا ذریعہ قرار دیا۔
اسلام کی تعلیمات تو یہ تھیں مگر اسلامی معاشرے میں رواج پانے والے بہت سے رویے اور معاملات اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وراثت میں استحقاق رکھنے کے باوجود‘ وراثت سے محروم کرنے کے لیے نہایت قبیح رسوم کو اپنانا‘ مہر کا خوش دلی کے ساتھ‘ پوری طرح ادا نہ کرنا‘ یہ ظلم تو خود دین کی سمجھ رکھنے والوں میں بھی عام ہے۔ شادی کے موقع پر ۳۲ روپے غیر شرعی مہر مقرر کرنے کی حکایت کا وجود‘ یا پھر زیادہ رقم مقرر کر دینا‘ مگر ادا نہ کرنا‘ یا مختلف حیلے بہانے سے بیوی کو محبور کر کے معاف کرا لینا اور اس فعل کی حرمت کے بارے میں لاپروائی برتنا‘ ہمارے آج کے مسلم معاشرے میں معیوب نہیں ہے۔ نان نفقہ‘ یعنی کھانا‘ لباس اور رہایش کے خاطر خواہ انتظام سے بے نیازی و عدم دل چسپی‘ شادی میں لڑکی کی مرضی معلوم کرنے کو غیر اہم جاننا‘ ناپسندیدہ شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے تک کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ بیوی کی تفریح و دلجوئی و احسان کے معاملے کا نہ ہونا‘ بیوی کی ملکیت تسلیم نہ کرنا‘ خاندانی اکائی کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ دیگر غیر اسلامی رسمیںجن میں جہیز‘سورا‘ونی‘ قرآن سے شادی‘ کاروکاری اور عورت کے گھر والوں سے معاشی مطالبات وغیرہ بھی مروج ہیں۔
معاشرے میں نئی تبدیلیاں بھی واضح ہیں۔ عورت کی ملازمت ایک حق اور رواج بنتا جا رہا ہے۔ بچوں کو ڈے کیئر سنٹر بھجوانا‘ خاندانی منصوبہ بندی کا عام ہونا اور اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی تگ و دو کے لیے اس کی وکالت۔ اس کے ساتھ زوجین کی باہم ناراضیاں‘ خلع کی شرح میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ‘ مردوں کے ساتھ اختلاط کے لیے پہلے کی سی کراہت کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔ یوں خاندانی اکائی کا استحکام متاثر ہو رہا ہے۔
مولانا فرماتے ہیں: ’’ضرورت اس امر کی تھی کہ مرد کے ساتھ عورت کے تعاون کی ایسی سبیل مقرر کر دی جائے کہ دونوں کا اشتراک عمل ہر حیثیت سے تمدن کے لیے صحت بخش ہو۔ اس نقطۂ عدل کو دنیا صد ہابرس سے تلاش کرتی رہی‘ مگر آج تک نہیں پا سکی‘ کبھی ایک انتہا کی طرف جاتی ہے تو پورے نصف حصے کو بیکار بناکر رکھ دیتی ہے۔ کبھی دوسری انتہا کی طرف جاتی ہے‘ اور انسانیت کے دونوں حصوں کو ملا کر غرق مے ناب کر دیتی ہے۔ افراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر عدل کا راستہ دکھانے والا کوئی ہو سکتا تھا تو وہ صرف مسلمان تھا جس کے پاس اجتماعی زندگی کی ساری گتھیوں کے صحیح حل موجود ہیں‘ مگر دنیا کی بدنصیبی کا یہ بھی دردناک پہلو ہے کہ دوسروں کو راستہ دکھانا تو درکنار وہ خود اندھوں کی طرح ہر بھٹکنے والے کے پیچھے دوڑتا پھرتا ہے‘‘۔
لہٰذا ہر مسلمان عورت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا چاہیے: کیا آپ کو مغربی معاشرت اور اس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی حقوق نسواں کی عالمی تحریک کا حصہ بننا ہے یا مسلمان معاشرے میں اسلام کے عطا کردہ حقوق کے حصول کے لیے معاون بننا ہے یا معاون نہیں بننا۔
اگر ایک ایسے صالح اور پاکیزہ تمدن کی ضرورت ہے‘ اور اگر ہم اسلام کے محکم اور آزمودہ نظام معاشرت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کا راستہ اختیار کرنا چاہیے‘ اس کے ضابطے اور اس کے ڈسپلن کی پوری پوری پابندی کرنی چاہیے۔ ہمیں ان نظریات‘ تخیلات سے بھی اپنے دماغ کو خالی کرنا ہو گا جو مغرب سے مستعار لے رکھے ہیں۔ اسی طرح اسلام کو غیراسلامی تصورات سے مسخ کرنے سے لازماً باز آنا ہو گا۔ یہ عملی تصور ہی اسلام کی اشاعت و تعارف کا ناقابل تردید ثبوت ہو گا۔ اس کے لیے درج ذیل طریق اختیار کیے جا سکتے ہیں:
اسلامی معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کے لیے‘ عورت اور مرد دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ وگرنہ یہ بگاڑ مسلمان عورت کو ہی نہیں مرد کو بھی متاثر کرے گا۔ اس کے بالمقابل یہ کسی ایک مسلمان عورت کے لیے ہی نہیں‘ دنیا بھر کی عورتوں کے لیے ایک نمونہ و پناہ ہو گا۔ دین کی قدروں کا عملی ابلاغ ہی تشہیر و اشاعت دین کا بہترین ذریعہ ہے۔ (ماخوذ: پردہ‘ حقوق الزوجین‘ مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)