بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان پر اللہ تعالیٰ کے انعام و الطاف کی کوئی انتہا نہیں‘ لیکن اس کا سب سے بڑا انعام وہ ہدایت ہے جو اس نے روزِ اول سے وحی اور رسالت و نبوت کے ذریعے اپنے بندوں کو عطا کی‘ تاکہ زندگی گزارنے کی شاہراہ روزِ روشن کی طرح ان کے سامنے عیاں ہو اور وہ جہالت اور ظلم کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ہی نہ مارتے رہیں۔ اس سب سے بڑے انعام کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے--- اور اسلام نام ہی اس انعام کا شکر ادا کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہنے کا ہے! یہی عبادت ہے‘ یہی دین کا حاصل ہے اور یہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے!
اللہ کی وحی قرآن کی شکل میں مکمل ہوگئی اور افضل الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ‘ عالمِ انسانی کے لیے ایک بے مثال نمونہ بن کر سامنے آگیا۔ چنانچہ زمین و آسمان کے خالق اور مالک نے یہ اعلان کر دیا :
اَلْیَوْمَ اَکْـمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
اب یہ ذمہ داری اُمت مسلمہ کو سونپی گئی ہے کہ وہ شہادتِ حق‘ دعوت الی اللہ‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کارِ نبوت انجام دے‘ تاکہ وہ حق کی علم بردار ہو اور اللہ کی اس نعمت کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے اور ان کو اس کی زندگی بخش توانائی سے شادکام کرنے کی جدوجہد میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ہر دور میں‘ ہر علاقے میں‘ اور ہر قسم کے حالات میں ایسے نفوس قدسیہ سے اُمت اور انسانیت کو برابر نوازنے کا اہتمام فرما دیا‘ جو اللہ کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں اور اقامت دین کی دعوت دینے اور دین کو عملاً نافذکرنے کی جدوجہد میں سرگرم رہیں۔
ہدایت کے اس نظام کو بھی کارِ نبوت کی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام کا حصہ قرار دیا ہے۔ جن پاکباز انسانوں کو اس کام پر لگایا ہے ان کے اس انتخاب کے لیے اصطفٰی اور اجتبٰیکے وہی محترم الفاظ استعمال کیے ہیں‘ جو انبیا ے کرام کے انتخاب اور تیاری کے لیے استعمال کیے گئے ہیں اور ان انعام یافتہ مخلصین کا شمار بھی انبیاے کرام ہی کے قافلے میں کیا گیا ہے: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِـیّٖنَ وَالصِّدِّیْـقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِط وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۶۹-۷۰) ’’جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ یعنی انبیا ؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین--- کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں! یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے‘‘۔
بیسویں صدی کا آغاز مسلمان اُمت کے لیے ان بدترین حالات میں ہوا‘ جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس تاریک دور ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے ایسے افراد سے اُمت کو نوازا جنھوں نے ہر میدان میں چومکھی لڑائی لڑی اور تاریکیوں کا سینہ چیر کر شمع ہدایت و رسالت کی روشنی کو اس طرح پھیلادیاکہ غفلت‘ غلامی اور مظلومیت کی رات چھٹ گئی اور احیاے اسلام اور اُمت کے ایک عالم گیر قوت کی حیثیت سے اُبھرنے کے آثار صبحِ نو کی طرح نمودار ہو گئے ہیں۔
جن نفوسِ قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام لیا ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ۱۷ سالہ نوجوان نے ۱۹۲۰ء میں اپنے ایمان اور ضمیر کے تقاضے کے طور پر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی جو ننھی منی شمع روشن کی تھی‘ ۱۹۳۰ء کے عشرے میں علمی اور فکری اُفق اس کی ضوفشانی سے منور ہو چکے تھے۔ پھر ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء سے شروع ہونے والی ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد کی رہنمائی کرتے ہوئے‘ ۱۹۷۹ء میں جب یہ مجاہد اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف لوٹ گیا تو یہ دعوت اسلامی احیا کی عالمی لہر بن کر مشرق و مغرب کے دور دراز گوشوں تک پھیل کر ایک جان دار تحریک بن چکی تھی۔ شیخ یوسف القرضاوی نے ۲۶ ستمبر ۱۹۷۹ء کو لاہور میں سید مودودیؒ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد جو الفاظ کہے‘ وہ محض ایک فرد کے جذبات کا مظہر نہیں بلکہ تاریخ کی گونج ہیں:
سید ابوالاعلیٰ کا یہ جنازہ ایک ریفرنڈم ہے کہ پاکستان کے مسلمان صرف اسلام چاہتے ہیں۔ ان کے فقید المثال جنازے نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں مقبول بندوں میں سے ہیں۔ لاکھوں افراد ان کی رحلت پر رو رہے ہیں۔ یہ گویا بجاے خود شہادت ہے کہ مولا نا کی ذات حسنات کا مجموعہ تھی۔
سید مودودیؒ صرف پاکستان ہی کے نہیں‘ پوری اُمت مسلمہ اور ساری انسانیت کا سرمایہ اور میراث ہیں۔ ایک نادرہ روزگار مفکر‘ ایک بے باک قائد‘ ایک زمانہ ساز مدبر‘ ایک حیات آفریں شخصیت‘ ایک نئے دور کا نقیب --- اور سب سے بڑھ کر اللہ کا ایک تابع دار بندہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق‘ شیدائی اور مطیع فرمان۔ سید مودودیؒ کی شخصیت کا آئینہ وہ دعا ہے جو انھوں نے ۱۹۳۸ء کے حوصلہ شکن حالات میں اپنے رب کے حضور کی تھی:
اے پروردگار‘ میں ایک مجاہد کے ایمان کا طالب ہوں‘ ایسا دل مانگتا ہوں جو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں ٹوٹی ہوئی کشتی لے جانے پر بے جھجک آمادہ ہو جائے‘ ایسی روح مانگتا ہوں جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور بھی نہ کر سکتی ہو…
اور جب اس داعی الی الحق نے ہجرت کا راستہ اختیار کر کے‘ قافلۂ حق کے جانبازوں کی صف بندی کی تو اس کا دل یوں زبان بن گیا:
جب اس بندئہ حق کو ظالم اقتدار نے سولی پر چڑھانے کی سزا کا اعلان کیا ‘تب بھی اس کے ایمان اور عزم کی شان ایک سچے بندۂ رحمن کی شایانِ شان تھی: ’’میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا اور اپنا معاملہ اپنے خدا کے حوالے کرتا ہوں۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں‘ آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی۔ اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی‘‘۔اور الحمدللہ‘ اقتدار وہ سزا نہ دے سکا۔
حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجاے خود حق ہے--- وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے‘ تب بھی وہ حق ہی ہے۔ مصائب حق پر نہیں‘ اہل حق پر آتے ہیں۔ لیکن جو لوگ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ انھیں بہرحال حق پر قائم رہنا اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے اپنا سارا سرمایۂ حیات لگا دینا ہے‘ وہ مصائب میں مبتلا ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ناکام کبھی نہیں ہوسکتے۔
سید مودودیؒ کی ۷۶ سالہ زندگی‘ حق پرستی اور حق کے لیے جان کی بازی لگا دینے سے عبارت ہے۔ بیسویں صدی میں جو بھی روشنی ہے‘ اسے جلابخشنے میں اللہ کے فضل اور اس کی سنت کے مطابق ان کا بھی ایک منفرد کردار ہے۔ ہم بے جا شخصی تذکرے‘ یا غلو کے قائل نہیں‘ لیکن احسان مندی اور محسن شناسی کی تعلیم بھی اسی اسلام نے ہی دی ہے‘ جس نے شخصیت پرستی سے اجتناب کا حکم دیا ہے--- اور ترجمان القرآن کا یہ خاص شمارہ جس کا پہلا حصہ آپ کے ہاتھ میں ہے--- ان شاء اللہ دوسرا بھی چند ماہ بعد حاضرخدمت کیا جائے گا‘ درحقیقت اسی احسان مندی کا اعتراف اور اسی محسن شناسی کا ایک اظہار ہے۔
اس ’اشاعت خاص‘ کے لیے کام میرے عزیز بھائی سلیم منصور خالد نے کیا ہے‘ جو اس کے ’مہمان مدیر‘ ہیں۔ان کے لیے اجر کی دعا کرتے ہیں۔ مجلس ادارت کی رہنمائی اور برادرم مسلم سجاد اور برادرم رفیع الدین ہاشمی کی معاونت کا اس خدمت میں ایک قیمتی حصہ ہے۔
ترجمان کا یہ خاص نمبر ایک تاریخی دستاویز‘ ایک عہد کی داستان‘ ایک مجاہد کی ۶۰ سالہ جدوجہد کی ایمان افروز کہانی اور اکیسویں صدی کے انسان کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔ جو بھی اس زندگی‘ اس جدوجہد ‘ اس کش مکش اور اس راہِ عمل پر کھلے ذہن اور قلب سلیم کی رہنمائی میں غور کرنے اور چلنے کی کوشش کرے گا‘ کامیاب و کامران ہوگا۔ درخواست ہے کہ ہر فرد‘ اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ‘ اللہ کے اس پاک باز بندے کے لیے بہترین دعائوں کا تحفہ بھیجنے میں بخل سے کام نہیں لے ‘ کہ جس نے بیسویں صدی کے ستم زدہ انسان کو اکیسویں صدی میں قدم رکھتے وقت یہ احساس دلایا کہ’ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے‘اورجس کے بارے میں امیرخسرو کے الفاظ میں دل گواہی دیتا ہے کہ ؎
آفاق ہا گردیدہ ام ‘ مہربتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام‘ لیکن تو چیزے دیگری