اکتوبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

نصف صدی پہلے کی بات

مولانا ابوالبیان حماد | اکتوبر ۲۰۰۳ | نصف صدی پہلے کی بات

Responsive image Responsive image

جماعت اسلامی کا مرکز جب دارالاسلام‘ پٹھان کوٹ میں قائم ہو گیا اور مولانا مودودیؒ اپنے رفقا کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئے‘ توکافی رفقا کی موجودگی کے باوجود مولانا خود کو تنہا محسوس کرنے لگے۔ ملک اور بیرون ملک میں تحریک اسلامی کو متعارف کرنے اور اقامت دین کو ایک عالمی تحریک کی حیثیت دینے کے لیے مولانا مودودی ؒکو اپنے دو جلیل القدر رفقا کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہوئی۔ ان دونوں کو مرکز جماعت دارالاسلام بلانے اور اپنے ساتھ ٹھیرائے رکھنے کے لیے مولانا مودودیؒ نے مسلسل جدوجہد شروع کر دی۔ ان میں سے ایک بزرگ مولانا امین احسن اصلاحیؒ تھے‘ جو مدرسۃ الاصلاح‘ سراے میر میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اور دوسرے بزرگ مولانا مسعود عالم ندویؒ تھے‘ جو خدا بخش لائبریری‘ پٹنہ میں کیٹلاگر کی حیثیت سے ملازمت کر رہے تھے۔

مولانا مودودیؒ نے دونوں حضرات سے رابطہ پیدا کیا‘ اور انھیں توجہ دلائی کہ وہ دونوں دارالاسلام چلے آئیں اور اقامت دین کے عظیم نصب العین کو بروے کار لانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیں۔ مولانا مودودی ؒکی پُرخلوص دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مدرسۃ الاصلاح سراے میر سے فوراً ہی چلے آئے اور کچھ عرصے بعد ۱۹۴۵ء میں مولانا مسعود عالم ندویؒ بھی خدا بخش لائبریری پٹنہ سے دارالاسلام پہنچ گئے۔دونوں حضرات تشریف لائے تو مولانا مودودیؒ کو یوں محسوس ہوا کہ انھیں دست و بازو مل گئے۔ مولانا مودودیؒ کی گرفتاریوں کے دوران میں یہ دونوں حضرات قائم مقام امیر بھی رہے۔

مولانا اصلاحیؒ، سراے میر سے چلے تو دارالاسلام ہی پہنچے اور مولانا مودودی ؒکے ساتھ مستقل طور پر وہیں ٹھیر گئے‘ لیکن مولانا مسعود عالم ندویؒ پٹنہ سے روانہ ہوئے اور دارالاسلام میں کچھ دن ٹھیرے تو وہاں کی آب و ہوا ناساز گار ہونے کے باعث دارالاسلام میں ٹھیر نہ سکے‘ کیونکہ آپ ضیق النفس (دمہ) کے مستقل مریض تھے۔ مولانا مسعود عالم ندویؒ کے لیے مناسب مقام تلاش کیا گیا تو آپ کی طبیعت کے حسب حال جالندھر کے قریب ایک بستی مل گئی‘ جس کا نام بستی دانشمنداں تھا۔ بہرحال یہ دونوں حضرات طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا کر مرکز جماعت پہنچے اور قافلۂ سخت جاں کی صف اول میں شامل ہو گئے۔

میری خوش نصیبی اور خوش قسمتی تھی کہ میں ۱۹۴۴ء کے آخر میں جامعہ قاسم العلوم لاہور پہنچا اور استاذ محترم حضرت مولانا احمد علی لاہوری علیہ الرحمۃکی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر ’’تخصص فی التفسیر میں داخلہ لے لیا‘‘ اور پھر ۱۹۴۵ء میں سند تفسیر حاصل کر کے لاہور ہی میں ٹھیرا ہوا تھا۔ اب میری علمی مصروفیت کا اگلا مرحلہ دارالاسلام‘ پٹھان کوٹ میں قیام اور اکابرجماعت کے فیوض و برکات سے استفادہ تھا۔ چنانچہ میں نے‘ مولانا مودودی علیہ الرحمۃ سے مراسلت کے ذریعے دارالاسلام میں حاضری کی اجازت مانگی۔ مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر محترم میاں طفیل محمد صاحب قیم جماعت نے جواب دیتے ہوئے‘ مولانا مودودی کی طرف سے منظوری عنایت فرما دی کہ میں دارالاسلام حاضر ہوسکتا ہوں۔ مولانا کی طرف سے اجازت ملنے پر میں نے اطلاع دی کہ میں فلاں تاریخ کو لاہور سے دارالاسلام پہنچ رہا ہوں۔ مقررہ تاریخ کو میں نے رخت سفر باندھا اور لاہور سے ٹرین کے ذریعے روانہ ہو گیا۔ دارالاسلام پہنچنے کے لیے اس کے بالکل قریب ریلوے اسٹیشن کا نام ’سرنا‘ تھا۔

میرے دارالاسلام پہنچنے کی اطلاع مولانا مودودی کو قبل از وقت مل چکی تھی‘ اس لیے مولانا نے از راہ شفقت میرے استقبال کے لیے اپنے ایک نہایت عزیز رفیق کو ’سرنا‘ اسٹیشن روانہ فرما دیا۔ اسٹیشن پر ٹرین سے اترتے ہی وہ صاحب آگے بڑھے‘ میرا نام دریافت کیا۔ میں نے نام بتایا تو موصوف نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مصافحہ کیا اور کہا کہ میں ان کے ساتھ دارالاسلام چلوں۔ میرے منع کرنے کے باوجود بڑے اصرار کے ساتھ انھوں نے میرا سامان بھی اٹھا لیا۔ وہ مجھے اپنے ہمراہ لے گئے اور مہمان خانے میں ٹھیرا دیا۔ کچھ ہی دیر بعد مولانا مودودی‘ مولانا امین احسن اصلاحی و دیگر رفقاء کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہو گیا۔ پھر میں نے کسی سے دریافت کیا: ’’دارالاسلام سے مولانا مودودی کی ہدایت پر جو صاحب مجھے لانے کے لیے ’سرنا‘ اسٹیشن پر تشریف لائے‘ وہ کون تھے؟‘‘ اپنے سوال کا جواب ملنے پر رفقاے جماعت کی شفقت و محبت اور بے نفسی و بے لوثی کا حال معلوم کر کے میں حیران رہ گیا‘ میرے استقبال کے لیے آنے اور میرا سامان اٹھا کر مجھے اپنے ساتھ لے جانے والے صاحب محترم المقام ملک غلام علی ؒتھے۔

قیام دارالاسلام کے سلسلے میں مولانا مودودی سے میں نے مشورہ کیا تو مولانا نے میری خیرخواہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے خلوص کے ساتھ یہ مفید مشورہ دیا کہ میں دارالاسلام کے بجاے ’بستی دانشمنداں‘ جالندھر میں ’دارالعروبہ‘ میں رہ کر مولانا مسعود عالم ندوی سے فیض حاصل کرتا رہوں۔ جس کی ایک وجہ مولانا مودودی نے یہ بتائی: ’’دارالاسلام میں تحریک اسلامی کے کام کی جو موجودہ نوعیت ہے‘ اس کے لحاظ سے باصلاحیت افراد کی بہت کمی ہے‘ سبھی لوگ ہر وقت مصروف رہتے ہیں اس لیے افادے اور استفادے کے لیے آپ کو وقت نہیں دے سکیں گے‘ دوسری وجہ یہ کہ دارالعروبہ میں مولانا مسعود عالم تنہا اور اکیلے ہیں۔ لہٰذا‘ انھیں رفقاے کار کی ضرورت ہے‘‘۔ اس کے ساتھ مولانا نے یہ بھی فرمایا: ’’آپ ’دارالعروبہ‘ سے برابر دارالاسلام آتے جاتے رہیں گے اور دونوں مقامات سے فیض یاب ہوتے رہیں گے‘‘۔ میں نے خوشی کے ساتھ مولانا کے مفید مشورے کو قبول کر لیااور جالندھر پہنچ کر دارالعروبہ میں ٹھیر گیا۔ ’دارالعروبہ‘ کی تاسیس کے موقعے پر میرے علاوہ‘ دوصاحبان اور مولانا ندوی کے رفیق کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ایک تو تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن اور جلیل القدر عالم سید جلیل احسن ندوی تھے اور دوسرے مولانا عمر قطبی تھے۔ مولانا مودودی کے مشورے کے مطابق میرا معمول یہ رہا کہ میں تقریباً ہر ماہ زیادہ وقت ’دارالعروبہ‘ میں اور تھوڑا وقت دارالاسلام میں گزارتا تھا۔ وقتاً فوقتا مولانا مسعود صاحب کا کوئی پیغام لے کر مجھے مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا تھا۔ میں جب بھی دارالاسلام پہنچتا‘ وہاں جن حضرات سے ملاقات کر کے ان سے فیض یاب ہونے کی خواہش مجھے ہوتی‘ ان میں سب سے زیادہ اہم شخصیت مولانا مودودی ہی کی تھی۔

دارالاسلام میں دن بھر تمام رفقا مصروف رہتے تھے۔ نماز مغرب کے بعد مسجد میں مولانا مودودی کی مجلس ہوتی تھی‘ جس میں تحریک اسلامی کے مسائل پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا۔ حاضرین مجلس مولانا مودودی سے کچھ سوالات کرتے تھے‘ جن کے اطمینان بخش جوابات مولانائے موصوف دیا کرتے تھے۔ یہ مجلس بالکل خشک بھی نہیں ہوتی تھی‘ بلکہ مجلس میں گاہے گاہے ظرافت کے پھول بھی  کھل اٹھتے تھے۔ مولانا مودودی کی عظیم شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انتہائی متانت و سنجیدگی کے باوجود ظرافت و مزاح کی چاشنی آپ کی گفتگو میں سامعین کو مل جاتی تھی۔

ایک دن جیسے ہی نماز مغرب ختم ہوئی حسب معمول مولانا مودودی کی مجلس شروع ہو گئی۔ حاضرین مجلس ہمہ تن گوش ہو کر مولانا کی طرف متوجہ ہوئے۔ حاضرین مجلس میں زیادہ تر آپ کے رفقا ہی تھے۔ مولانامحترم نے رفقا کے سامنے اس وقت کا ایک اہم مسئلہ مشورے کے لیے رکھا۔ یہ مسئلہ مرکز جماعت‘ دارالاسلام کاکسی اور بہتر مقام پر منتقلی کا تھا۔ کیونکہ بعض ایسے نامساعد و ناسازگار حالات پیدا ہو گئے تھے‘ جن کے باعث مولانا مودودی کی تجویز تھی کہ مرکز کو موجودہ مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ مولانا اپنی تجویز کے سلسلے میں رائے طلب کرنے لگے۔ جتنے بھی حضرات مجلس میں موجود تھے ان میں سے ہر شخص نے اپنی اپنی صواب دید کے مطابق مرکز کی تبدیلی کے سلسلے میں مشورہ دیا۔ لیکن معلوم نہیں اس دن مولانا امین احسن اصلاحی کے مزاج کا کیا عالم تھا کہ وہ بالکل خاموش تھے‘ کچھ بول نہیں رہے تھے اور کوئی مشورہ بھی نہیں دے رہے تھے۔ مولانا مودودی ان سے براہ راست دریافت بھی نہیں کر رہے تھے۔ اتنے میں کسی رفیق نے مولانا کو توجہ دلائی: ’’اصلاحی صاحب کی بھی اس ضمن میں رائے آ جائے‘‘۔ اپنے رفیق کی بات سن کر مولانا مودودی کی رگ ظرافت پھڑکی اور مولانا اصلاحی کو شگفتہ انداز میں چھیڑنے کی غرض سے مولانا مودودی فرمانے لگے: ’’ارے بھائی‘ مولانا امین احسن صاحب سے اگر میں مشورہ لوں تو وہ اس کے سوا اور کیا کہیں گے کہ مرکز جماعت کو ’’راہون‘‘ میں منتقل کر دیا جائے‘‘۔ مولانا مودودی کا یہ جملہ سن کر رفقاے کرام مسکرانے لگے‘ مولانا امین احسن بھی محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور بے ساختہ ان کے لبوں پر بھی تبسم کے پھول کھلنے لگے۔ ’’راہون‘‘ امین احسن صاحب کا عقد مسنون ہونے کی وجہ سے مولانا کا سسرال بن گیا تھا‘ اسی لیے مولانا مودودی کو انھیں چھیڑنے کا موقع مل گیا۔ مولانا مودودی کے چھیڑنے پر بھی مولانا امین احسن صاحب محو سکوت رہے۔ پھر ان کے کچھ اور بے تکلف احباب انھیں مزید چھیڑنے لگے‘ جس کے باعث مولانا امین احسن کی حالت کچھ اسی طرح کی ہو گئی:    ؎

کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا

اور چپ بھی رہا نہیں جاتا

آخر مولانا اصلاحی فرمانے لگے: ’’آپ حضرات کی چھیڑ چھاڑ پر مجھے ایک پرانا قصہ یاد آگیا ہے‘‘۔ سب نے کہا: ’’مولانا! براہ کرم ہمیں بھی وہ قصہ سنا دیجیے ‘‘۔ پھر مولانا نے اپنے مخصوص انداز میں باپ‘ بیٹے اور گدھے والا مشہور قصہ سنایا۔ یہ قصہ سنا کر مولانا اصلاحی فرمانے لگے : ’’کوئی شخص دنیا کے سبھی لوگوں کو مطمئن اور خوش نہیں کر سکتا‘ لہٰذا میں بھی آپ حضرات کی چھیڑ چھاڑ کا جواب دینے کے بجاے خاموش رہنا ہی پسند کرتا ہوں‘‘۔

اس کے بعد مجلس برخاست ہو گئی اور حاضرین مجلس نماز عشاء کی تیاری کرنے لگے۔ نماز کا ذکر آیا تو میں یہ بھی عرض کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ دارالاسلام کی مسجد میں جہری نمازیں مولانا مودودی ہی پڑھایا کرتے تھے۔ کئی نمازیں آپ کی اقتدا میں پڑھنے کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوئی تھی۔ مولانا جہری نمازوں کی جب امامت کرتے اور قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو آپ کی قرأت اگرچہ سادگی و پرکاری کا نمونہ ہوتی‘ لیکن اس میں سوز‘ درد اور گداز کی جو عجیب و غریب کیفیت ہوتی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

مولانا مودودی جیسی عبقری شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوا کرتیں بلکہ مدتوں اور قرنوں میں ایسے یگانۂ روزگار بندگانِ پروردگار روے زمین پر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ مختلف مقامات پر اجتماعات میں شرکت کے لیے مولانا مودودیؒ کی رفاقت میں سفر کے مواقع بھی مجھے ملتے رہے‘ جس کی بدولت آپ کے فیوض سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ کاروان علم و فضل کی صف اول میں جن حضرات کو شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوتی ہے‘ ان میں زیادہ تعداد ایسے ہی علماے کرام کی ہوا کرتی ہے‘ جو اگرچہ کچھ نہ کچھ واقفیت علوم و فنون کے جملہ گوشوں سے رکھتے ہیں‘ لیکن درجۂ تخصص کسی ایک ہی شعبۂ علم میں انھیں حاصل رہتا ہے۔ مولانا مودودی کو اﷲ تعالیٰ نے بڑی فیاضی کے ساتھ دولت علم و فضل سے نوازا تھا۔ وہ ایک طرف جہاں معتبر مفسر قرآن تھے‘ وہیں دوسری طرف سنت نبوی اور حدیث پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔‘ جس طرح وہ سحر طراز انشا پرداز اور ممتاز ادیب تھے‘ اسی طرح ایک دانش پرور خطیب بھی تھے۔

مولانا مودودیؒ کی علمی و دینی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ قلم و قرطاس کے ذریعے اس کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ جو آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت اور     صدقۂ جاریہ ہے وہ چھ جلدوں میں آپ کی تفسیر تفہیم القرآن ہے۔ تفسیر آپ کی حیات مستعار کی یادگار بھی ہے اور آپ کی علمی و دینی خدمات کا عظیم شاہ کار بھی۔

مولانا مودودیؒ سے میری آخری ملاقات مدراس کے اس یادگار اور تاریخی اجتماع میں ہوئی جو ۲۶ اپریل ۱۹۴۷ء کو منعقد ہوا تھا۔ یہ اجتماع اس حیثیت سے منفرد نوعیت کا حامل تھا کہ یہ پورے جنوبی ہند بہ شمول حیدر آباد کے جملہ وابستگان جماعت اسلامی کا اجتماع تھا‘ جسے برعظیم میں جماعت کا آخری اجتماع بھی کہا جا سکتا ہے۔ اجتماع منعقد ہونے سے قبل جماعت اسلامی کے بارے میں مخالفین نے عوام میں جو غلط فہمیاں پھیلائی تھیں‘ ان میں ایک بے ہودہ الزام یہ بھی تھا کہ جماعت اسلامی کا تعلق کانگرس سے ہے۔ اس غلط فہمی کا شکار سب سے زیادہ مسلم لیگ تھی‘ جس کا عامۃ المسلمین پر غیرمعمولی اثر تھا۔ پہلے دن جیسے ہی اجتماع کی کارروائی شروع ہوئی‘ اجتماع گاہ میں غنڈا گردی شروع ہوگئی۔ مفسد عناصر کی بھیڑ اجتماع میں داخل ہوئی اور اس نے توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع کر کے ہنگامہ برپا کر دیا۔ پہلے تو معاملہ شور و غل اور نعرہ بازی تک محدو درہا‘ مگر کچھ دیر بعد سنگ باری ہونے لگی‘ تاہم رفقا اور شرکا برابر اجتماع میں بیٹھے رہے اور ذمہ دار حضرات ہڑ بونگ مچانے والوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ کچھ پتھر اسٹیج کی طرف بھی آنے لگے۔ میاں طفیل محمد صاحب جو اجتماع کی کارروائی چلا رہے تھے اسٹیج ہی پر بیٹھے رہے۔ میں میاں طفیل محمد صاحب سے بار بار کہہ رہا تھا کہ اسٹیج پر سے اٹھ کر آجائیے۔ لیکن وہ اپنی جگہ پر جم کر بیٹھے رہے اور مجھے سمجھاتے رہے کہ آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں‘ اﷲ ہمارا محافظ ہے۔ اتنے میں مسلم لیگ کے ذمہ دار آئے اور شورش پسند کارکنوں کو اجتماع گاہ سے باہر لے گئے۔ اجتماع گاہ کو چونکہ درہم برہم کر دیا گیا تھا‘ اس لیے شرکا اجتماع کو قریب ہی میں واقع اس کوٹھی میں پہنچا دیا گیا جہاں مولانا مودودی بطور مہمان ٹھیرے ہوئے تھے۔ یہ کوٹھی معروف تاجر محترم نذیر حسین صاحب پنجابی کی تھی‘ جن کا شمار مولانا مودودی کے حلقۂ احباب میں ہوتا تھا۔ اجتماع کی بقیہ ساری کارروائی اسی کوٹھی میں ہوتی رہی ۔ اس اجتماع میں مولانا مودودی کا خطابِ عام آپ کی غیرمعمولی سیاسی بصیرت کا آئینہ دار تھا۔ مولانا کے خطاب عام سے پہلے تک میرا اندازہ یہی تھا کہ ملک کی تقسیم عمل میں نہیں آئے گی اور ہندستان اپنی متحدہ شکل ہی میں قائم رہے گا۔ لیکن مولانا نے خطاب کرتے ہوئے جب یہ فرمایا: ’’ہمارے ملک میں جلد ہی ایک تغیر واقع ہونے والا ہے‘ میں جس تغیر کی طرف اشارہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ملک تقسیم ہو جائے گا‘‘۔ اثناے تقریر میں جب یہ کلمات میں نے سنے تو مجھے اپنی زندگی بھر کا یہ اندازہ بدلنا پڑا کہ ہندستان متحد رہے گا۔ میرے دل نے گواہی دی کہ جب مولانا مودودی کہہ رہے ہیں کہ ہند تقسیم ہو گا تو میرے لیے اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ مولانامحترم کی اس رائے کو میں ان کی سیاسی بصیرت ہی نہیں بلکہ ان کی مومنانہ فراست کا اظہار سمجھتا ہوں‘ جیساکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے:  اِتَّقُوا فَرَاسَۃَ المُومِن فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ مِن نُور اللّٰہِ، مومن کی غیرمعمولی ذہانت سے بچو کیونکہ وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کا یہ بصیرت افروز خطاب پہلے ہندستان میں تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل کے عنوان سے شائع ہوا‘ اور اب خطبۂ مدراس کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ اس عظیم الشان ہنگامہ خیز‘ غیر معمولی نوعیت کے تاریخی اجتماع میں شروع سے آخر تک میں مولانا مودودیؒ کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتا رہا۔ اجتماع کے اختتام پر مولانا جب مدراس سے واپس ہونے لگے‘ اس وقت بھی مدراس ] چنائے[ کے سنٹرل اسٹیشن پر مولانا کو پُرخلوص دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے والوں میں خود میں بھی شامل تھا۔ ۵۶ سال پہلے یہ تھی میری آخری ملاقات مولانا مودودی سے‘ جسے میں اپنی زندگی کی سب سے اہم سعادت سمجھتا ہوں۔