ڈاکٹر فضل الٰہی قریشی | اکتوبر ۲۰۰۳ | بلوچستان کے اسلامی تشخص کا معمار
مولانا سید ابوالاعلیٰ موودیؒ کی شخصیت اور ان کی تحریروں کی اثر آفرینی کا یہ حال ہے کہ اس نے بلوچستان کی تاریخ کا رخ اسلام اور نظریہ پاکستان کی طرف موڑنے میں اپنا ایک مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اس کی اصل حقیقت اسی وقت کھل کر سامنے آ سکتی ہے‘ جب ذرا پیچھے مڑ کر تاریخ بلوچستان میں جھانک کر دیکھا جائے۔
قیام پاکستان سے پہلے جنوب مشرقی ایشیا میں جو سیاسی لہریں اٹھتی رہی ہیں‘ سرزمین بلوچستان بھی ان سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ اسلام کے بخشے ہوئے جذبۂ ایمانی کے بل پر بلوچستان میں بسنے والے مسلمانوں کے رگ و پے میں انگریز دشمنی سرایت کیے ہوئے تھی۔ اس وقت کی سیکولر تحریکوں نے آگے بڑھ کر اپنے مقاصد اور عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے‘ انگریز دشمنی کو ایک حربہ اور وسیلہ بنا کر پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ وہ قدرے کامیاب بھی ہوئیں‘ لیکن اہل بلوچستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے میں بہرحال ناکام رہیں۔ خصوصی طور پر انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی نے اسی راستے سے بلوچستان اور پشتون نوجوانوں میں بااثر سرداروں کے توسط سے بڑی چالاکی سے نفوذ کیا اور پھر اس ساری تحریک جہاد کو‘ جو ان کے بزرگوں نے انگریزوں کے خلاف خالص جذبۂ ایمانی کی بنیاد پر کھڑی کی تھی‘ اسے بلوچوں اور پشتونوں کے قومی تشخص کو بچانے کا رنگ دے دیا گیا۔ اس طرح ان لادینی تحریکوں نے قوم پرستی‘ علاقائیت اور زبان کی بنیاد پر گرم خون کو اپنے مقاصد اور عزائم کی برآوری کے لیے استعمال (exploit) کر کے نوجوانوں کو اسلام کی صراط مستقیم سے ہٹانے اور انھیں اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی۔ اشتراکی کوچہ گردوں نے وہ افسوں پھونکا کہ مسلمان بلوچ اور پشتون نوجوان درآمدہ غیر ملکی افکار و نظریات کے اسیر ہو کر یہ سمجھنے لگے کہ کسی دوسری استعماری طاقت کی غلامی کا قلاوہ اپنی گردنوں میں ڈال لینے کا نام آزادی کا حصول ہے‘ جس کی خاطر سب کچھ نچھاور کر دینا‘ یہاں تک کہ دین و ایمان بھی لٹا دینا عین راہِ صواب ہے۔
بلوچوں اور پشتونوں کا ایک تعلیم یافتہ عنصر بلوچستان کی خدمت کے نام پر صحافت کی مسند بچھاکر پوری یکسوئی اور انہماک کے ساتھ سیکولر نظریات کا پرچار کرنے لگا۔ بلوچستان کے اندر جب نشرواشاعت کی کوئی صورت ممکن نہ رہی تو لاہور‘ دہلی‘ کراچی اور جیکب آباد سے بلوچستان سے متعلق مختلف حوالوں سے مقالے اور مضامین شائع کرنے کے لیے اخبارات و جرائد کا اہتمام کیا گیا۔ دانش وروں کے اجلاس‘ جلسے اور کانفرنسیں اس پر مستزاد تھیں۔ اس زمانے میں لادینی تحریکوں کو مزید آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ زبان‘ علاقے اور قومیت کی بنیاد پر نوجوانوں کا دائرہ مزید وسعت اختیار کرتا چلا گیا اور اس طرح مزید نو خیز ذہن درآمد شدہ ملحدانہ نظریات کا شکار ہوئے۔
۱۹۳۶ء کے دوران عبدالصمد خان اچکزئی مرحوم نے برٹش بلوچستان میں انجمن وطن کی بنیاد رکھی‘ جس کابنیادی مقصد متحدہ قومیت کے نظریے کے مطابق پورے بلوچستان کو ایک صوبے کی حیثیت دے کر اس میں ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح اسمبلی کا قیام تھا۔ ۵ فروری ۱۹۳۷ء کو دربار سبی کے موقع پر میر عبدالعزیز کرد نے ریاست قلات میں سٹیٹ نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھ دی‘ جسے قلات کے قوم پرستوں کی واحد نمایندہ جماعت سے موسوم کیا گیا۔ اس پارٹی کے سرکردہ اگرچہ انڈین نیشنل کانگریس سے متاثر تھے اور بالآخر ۱۹۴۵ء میں انھوں نے اپنی پارٹی کا کانگریس کے ساتھ الحاق بھی کردیا تھا‘ لیکن اس کے باوجود بھی وہ بلوچستان کو ایران اور افغانستان کی طرح ہندستان سے علیحدہ ایک وطن خیال کرتے تھے۔ حالانکہ تاریخی اعتبار سے بلوچستان مسلمانوں کی مملکت کے اندر کابل یا پھر دہلی کے زیر اثر رہا ہے۔ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے رہنما‘ قلات کی حکومت کو بلوچستان اور بلوچوں کی مرکزی حکومت سمجھتے تھے اور قومی بنیادوں پر اس کی تنظیم و ترقی کے خواہاں تھے۔ اس لیے ابتدا میں اپنی تحریک کو ہندستان کی تحریکوں سے علیحدہ رکھ کر قومی‘ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر اپنی جداگانہ تنظیم کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے قیام کے بعد اسی گروہ کی سربرآوردہ شخصیتوں کی یہ انتہائی کوشش رہی کہ ریاست قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے پائے۔ وہ خان قلات پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ قلات کا حکمران ہونے کی حیثیت سے پاکستان سے علیحدہ رہتے ہوئے قلات کی آزادانہ ریاست کا اعلان کر دیں۔
ہند و پاک کی تقسیم سے قبل ۱۹۲۷ء میں پہلی مرتبہ اور اس کے بعد ۱۹۲۹ء میں اپنے ۱۴ نکات میں قائداعظم محمد علیؒ جناح نے ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا‘ تاکہ بلوچستان بھی جملہ صوبائی حقوق حاصل کر کے سیاسی اصلاحات نافذ کر سکے --- خان قلات میر احمد یار خان‘ نواب محمد خان جوگیزئی‘ سردار میر جعفر خان جمالی اور قاضی محمد عیسیٰ کی کوششوں کے نتیجے میں‘ ۱۹۳۹ء میں قلعہ سیف اﷲ کے مقام پر نواب محمد خان جوگیزئی کے ہاں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قاضی محمد عیسیٰ کو صدر اور سردار غلام محمد خان ترین کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ ۱۹۴۵ء میں مسلم لیگ: انجمن وطن‘ کانگریس اور جمعیت علماے ہند سمیت تمام چھوٹی بڑی قومیتوں کی بنیاد پر بنی ہوئی تنظیموں کے مقابل ایک طاقتور جماعت کی حیثیت سے آکھڑی ہوئی۔
بلوچستان کی یہ وہ صورت حال تھی جس میں دوسرے تاریخی عوامل کے ساتھ ساتھ‘ مولانا مودودیؒ کی پُراثر تحریروں نے یہاں پر بسنے والی امت مسلمہ کے سرکردہ رہنماؤں کو صحیح سمت میں رہنمائی بہم پہنچائی۔ خطۂ بلوچستان کے اندر‘ تحریک پاکستان کو اس کی منزل تک پہنچانے میں اس مرد خدا مست کی رہنمائی نے ایک نہایت اہم تاریخی کردار انجام دیا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی نے اپنے مضمون ’’حضرت مولانا مودودیؒ ‘‘ میں کیا ہے۔ اس مضمون میں وہ رقم طراز ہیں:
پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو دو قومی نظریہ ایک نعرہ بن گیا۔ مگر اس کی علمی و عقلی توجیہات کسی کے پیش نظر نہ تھیں۔ مسلم لیگی قیادت بھی محض جذباتی نعروں میں بہے چلے جا رہی تھی۔ میرے والد محترم نواب محمد خان جوگیزئی مرحوم بلوچستان سے پہلی دستوریہ ہند کے واحد رکن تھے‘ جن کے ووٹ سے بلوچستان‘ پاکستان میں شامل ہوا۔ میں نے پاکستان کے حق میں انھیں جس قدر ہموار کیا اور جن جن دلائل سے کام لیا وہ علم و عقل کا سارا اسلحہ مولانا ]مودودی[ کی کتب سیاسی کش مکش‘ سے لایا تھا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب مسئلہ قومیت نے بھی وہ کام کیا جو ایک تحریک کر سکتی تھی‘‘۔ (ہفت روزہ چٹان‘ لاہور‘ ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۰ئ‘ ص ۳۲)
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یہ وہ فکری رہنمائی ہے جس نے بلوچستان کی تاریخ کا دھارا اسلام کی طرف موڑنے کاعظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ فکر مودودی نے بالوسطہ اور بلا واسطہ بلوچستان کے مستقبل کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کا تاریخی کام کیا ہے۔ بلاشبہہ آپ کی تحریروں نے بلوچستان کے نو خیز ذہنوں سے کفر‘ الحاد اور تشکیک کے کانٹوں کو ایک ایک کر کے نکالا اور انھیں اسلام کی شاہراہ پر گامزن رکھنے کے لیے فطری اور عملی سامان بہم پہنچایا۔
پاکستان کے ظہور کے وقت ریاست قلات میں ’دیوان عام‘ اور ’دیوان خاص‘ کے نام سے دو ایوان موجود تھے۔ ان دونوں ایوانوں نے چند شرائط کے تحت مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی‘ لیکن حکومت پاکستان نے ان شرائط کو تسلیم نہیں کیا۔ اس دوران مکران‘ لسبیلہ اور خاران کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ بالآخر قائداعظم کی زندگی ہی میں ۲۷مارچ ۱۹۴۸ء کو خان آف قلات میر احمد یار خان نے بھی ریاست قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کر دیا۔
ریاست قلات کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان سے پہلے خان آف قلات میراحمد یار خان نے اس اہم مسئلے پر مولانا مودودیؒ سے رائے اور مشورہ مانگا تھا۔ جس انداز سے مشورہ اور رائے طلب کی گئی تھی‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خان آف قلات‘ مولانا مودودی کی اعلیٰ شخصیت‘ اُن کے علم و فضل اور ان کی اسلامی خدمات کے پہلے ہی سے قائل اور معترف تھے۔
۶ مارچ ۱۹۴۸ء کو جہانگیر پارک کراچی کے جلسۂ عام میں مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے چار نکاتی مطالبۂ نظام اسلامی کی تفصیل بیان کی تھی۔ یہی وہ موقع ہے ‘ جب کہ خان آف قلات جناب میر احمد یار خان نے مولانا قاضی عبدالصمد سربازیؒ کو اپنا دستی مکتوب دے کر کراچی مولانا مودودیؒ کے پاس بھیجوایا تھا۔ یاد رہے کہ مولانا قاضی عبدالصمد سربازیؒ جنوری ۱۹۵۱ء میں ۲۲ نکاتی دستوری خاکہ منظور کرنے والے مختلف مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علما میں سے ایک تھے۔
پورا بلوچستان دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو حکومت ِ برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور اب پاکستان کا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جسے ریاستِ قلات کہتے ہیں۔ اگرچہ برطانوی دور میں یہ ریاست انگریزوں کے زیر اثر تھی لیکن ہمارے ہاں فیصلے شریعت کے مطابق ہی ہوتے تھے۔ اب بھی ہمارے ہاں قاضی مقرر ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہم پاکستان سے علیحدہ رہتے ہوئے ایک آزاد اسلامی ریاست کا اعلان کر دیں۔ اس معاملے میں ہم آپ کا مشورہ چاہتے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہو گی اگر آپ میرے ہاں قلات تشریف لائیں۔
مولانا ماسٹر عبدالرحیم ؒنے بتایا کہ مولانا مودودیؒ نے اُسی وقت جوابی خط تحریر کیا‘ اور خانِ قلات کو پہنچانے کے لیے مولانا عبدالصمد سربازیؒ کے حوالے کر دیا۔ انھوں نے بتایا کہ مولانا مودودیؒ کا مکتوب مندرجہ ذیل مفہوم پر مبنی تھا:
آزاد ریاست کے اعلان کا میں آپ کو مشورہ نہیں دے سکتا۔ بلوچستان ]معاشی اعتبار سے[ ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ ریاست قلات اس سے زیادہ پسماندہ ہے۔ میں آپ کو مشورہ نہیں دوں گا کہ آپ علیحدگی اختیار کریں اور اس میں تعجیل کریں۔ پاکستان‘ اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اور ہم اس ملک میں اسلام کے قانون کو نافذ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ کی طرف سے علیحدگی کا اعلان کرنے سے حکومت کے ساتھ ٹکرائو پیدا ہوگا جس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہے۔ گرمی کے موسم میں اگر آپ نے یاد کیا تو ان شاء اللہ میں قلات ضرور آئوں گا۔ تفصیلی طور پر بالمشافہہ ملاقات ہو گی۔
بلوچستان کے تاریخی پس منظر میں اس خطے کے ایک فرمانروا‘ سربرآوردہ اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت کو بروقت اور صحیح رہنمائی بہم پہنچا کر سید مودودیؒ نے اس خطے کے اسلامی تشخص کو لادینی عناصر کی دست برد سے محفوظ کر دیا۔ بلوچستان کے اس اہم خطے کو مملکت خداداد پاکستان سے جوڑنے اور اسے نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ کرنے کی سعی سے انھوں نے علیحدگی پسند گروہ کے عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سیکولر ذہن رکھنے والا ایک گروہ انتہائی طور پر کوشاں تھاکہ ریاست قلات کو پاکستان سے بالکل علیحدہ کیا جائے‘ تاکہ اسے مستقل ایک آزاد ریاست کی حیثیت میں رکھ کر اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کے لیے آماج گاہ بنایا جا سکے۔ یوں سید مودودیؒ بلوچستان کے اسلامی تشخص کے محافظ اور معمار دکھائی دیتے ہیں۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دستور ساز اسمبلی سے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے چار نکاتی مطالبہ کیا۔ تاریخ میں اسے مطالبۂ نظام اسلامی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آن کی آن میں اس تاریخی مطالبے کی بازگشت سے پاکستان کے در و دیوار گونجنے لگے۔ بلوچستان جو ہمیشہ اپنے گرد و پیش سے متاثر ہوتا رہا ہے اور برعظیم جنوب مشرقی ایشیا کی تحریکوں کے اس پر اثرات پڑتے رہے ہیں بھلا اپنے ہی ملک کی عظیم شخصیت سید مودودیؒ کی برپا کردہ تحریک سے کیوں کر بیگانہ رہ سکتا تھا‘ جب کہ غیرمنقسم ہندستان میں ہی اس خطے پر سید مودودی کے اثرات ان کی تحریروں کی وساطت سے براہ راست پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد تو یہاں جماعت اسلامی کا باقاعدہ نظم قائم کیا گیا تھا۔ چنانچہ وادیِ بولان کے دشت وجبل بھی مطالبۂ نظامِ اسلامی کی بازگشت سے گونجنے لگے تھے۔
بیس ماہ کی طویل قید ]اکتوبر ۱۹۴۸ء - مئی ۱۹۵۰ئ[ سے رہائی پانے کے بعد سید مودودیؒ پہلی مرتبہ اگست ۱۹۵۰ء میں کوئٹہ تشریف لائے۔ لیاقت پارک میں ایک بہت بڑے جلسے سے آپ نے خطاب فرمایا۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کی بنا مطالبۂ نظامِ اسلامی کو دہرایا۔ اسی دورے میں آپ پشین بھی تشریف لے گئے جہاں مرکزی جامع مسجد میں آپ نے ایک مرتبہ پھر پُرزور طریقے سے اسلامی دستو راور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
جنوری ۱۹۵۱ء میں کراچی میں مختلف مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے ۳۱ علما کے اجتماع سے فارغ ہونے کے بعد فروری کے مہینے میں آپ سبّی دربار کے موقع پر سبّی تشریف لائے‘ اور یہاں بھی پرانی عیدگاہ میں جلسہ ٔ عام کے اندر حکومت سے اسلامی دستور کا مطالبہ کیا۔ یہ وہ موقع تھا جب کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی سبّی کے اس تاریخی جشن میں آئے ہوئے تھے۔ سبّی کی دیواریں اس مطالبے کے پوسٹروں سے چھپی ہوئی تھیں اور کارکنوں کے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے مظاہروں سے پوری فضا ’’اپنا مقصد اپنی منزل‘ اسلامی دستور‘‘ کے نعرۂ مستانہ سے معمور تھی۔
پھر دارورسن کی منزلوں سے گزر کر جون ۱۹۵۵ء میں مردِ حق آگاہ تیسری مرتبہ بلوچستان آیا۔ کوئٹہ اور وادیٔ زیارت میں کم و بیش ایک ماہ گزارا۔ اس طرح کہ ہر سو حق کی روشنی بکھیرتا رہا۔
آپ کی آمد کا ہر موقع عشق و مستی کی داستان اور عرفان و معرفت کا الگ الگ مفصل باب ہے۔ اس طرح سید مودودیؒ نے بہ نفس نفیس خود یہاں آ کر اس خطے کے تشخص کو اسلام سے ہم کنار کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور دل و نگاہ کو لادینی عناصر کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کا سامان بہم پہنچایا۔ خطہ ٔ بلوچستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت‘ نگرانی اور نشوونما کا یہ وہ پہلو ہے ‘جس کے لیے مرشد مودودیؒ نے برسرزمین خود آکر اس کی آبیاری کی ہے۔
جب پاکستان دولخت ہو گیا‘ مغربی پاکستان میں بلوچستان سمیت صوبائی حکومتیں بن چکیں تو اس موقع پر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ ان دنوں سابق امیرجماعت اسلامی بلوچستان ‘مولانا عبدالعزیز بیمار تھے۔ چنانچہ انھوں نے ایک نوجوان ساتھی کو اپنا نمایندہ بنا کر شوریٰ میں بھجوایا۔ اس نوجوان نے صوبہ بلوچستان کے حالات شوریٰ کے سامنے بیان کیے۔ مولانا مودودی خاموشی سے سنتے رہے۔ جب بیان ختم ہوا تو مولانا محترم نے فرمایا: ’’صوبہ بلوچستان کے موجودہ حالات کے متعلق میرے ذہن میں جو نقشہ تھا اس کی تفصیل شوریٰ کے سامنے اس نوجوان نے رکھ دی ہے‘‘۔
مولانا محترم کے اس تبصرے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بلوچستان کے معاملے میں بیدار تھے۔ اس خطے کے اتار چڑھائو سے وہ پوری پوری واقفیت رکھتے تھے۔ پوری صورت حال کا نقشہ ان کے ذہن میں محفوظ رہتا تھا۔ فکر تھی تو بس اتنی کہ بلوچستان کے اسلامی تشخص کو مزید کس طرح مستحکم کیا جائے اور اسے اغیار کی چیرہ دستیوں سے بچانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات اور پاکستان کے مشرقی بازو کے کٹ جانے کے بعد ۲ مئی ۱۹۷۲ء کو ۲۱ارکان پر مشتمل بلوچستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی وجود میں آئی۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی وزارتِ اعلیٰ میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماے اسلام کی مخلوط صوبائی حکومت تشکیل پائی‘ جس نے ۱۵جولائی ۱۹۷۲ء میں جسٹس فضل غنی کی سربراہی میں بلوچستان قانون کمیشن بٹھایا‘ جس میں ۱۰اصحاب علم و دانش کو شامل کیا گیا۔ اس قانون کمیشن کی غرض و غایت یہ تھی کہ صوبہ بلوچستان میں دیوانی اور فوجداری عدالتوں کے نظام کو جو بیک وقت متعدد قوانین کے تحت چل رہے ہیں‘ ان میں یکسانیت کیسے پیدا کی جائے۔ اس کے لیے کمیشن نے ۳۴ سوالات پر مبنی ایک سوال نامہ جاری کیا تھا‘ تاکہ عوام و خواص اس بارے میں اپنی آرا اور مشورے کمیشن کو دے سکیں۔ اپنی ناسازی طبع اور پیرانہ سالی کے باوجود مولانا مودودی نے انتہائی محنت کر کے اسلامی قانون کی روشنی میں ان سوالات کے جوابات مرتب کر کے بلوچستان قانون کمیشن کو بھجوائے‘ اس طرح ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے اسلامی تشخص کے محافظ اور معمار کی حیثیت سے رہنمائی فرمائی‘ تاکہ خطۂ بلوچستان کی تاریخ میں وہ رنگ بھر دیں جسے صبغۃاللہ ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان کی پسماندگی‘ معاشی بدحالی‘ قوم‘ زبان اور علاقے کی بنیاد پر سیکولر تحریکوں کے پیدا کردہ تعصبات وہ اسباب تھے‘ جن کی وجہ سید مودودی ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔ آخری زمانے میں ان کی فکرمندی میں مزید اضافہ اس صورت حال سے ہوا‘ جب روسی استعمار دریاے آمو کو پار کرکے بلوچستان کے شمال مغربی پہاڑوں کے عقب میں افغانستان آ پہنچا۔ لیکن ان کی یہ فکرمندی‘ آشیاں بندی کے لیے تھی۔ انھوں نے اپنے فکر و نظر سے خطہ ٔ بلوچستان کے اسلامی تشخص کو محفوظ بھی کیا اور اس کے نشوونما کا سامان بھی خود بہم پہنچایا۔ اس لیے انھیں قطعاً یہ ڈر نہیں تھا کہ کوئی بیرونی لادینی نظریہ یہاں شبِ خون مار سکے گا۔
۵- اے ذیلدار اچھرہ‘ لاہور میں بلوچستان سے آنے والے ایک نوجوان نے مرشد مودودی سے پوچھا: ’’بلوچستان کے حالات دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بھر کے سوشلسٹوں کا زور بلوچستان پر صرف ہو رہا ہے۔ کیا یہ امر تشویش ناک نہیں؟‘‘
ہم وہاں کے حالات سے کبھی بے خبر نہیں رہے۔ مولانا عبدالعزیز مرحوم ہمارے بڑے قیمتی رفقا میں سے تھے‘ انتہائی مخلص انسان تھے اور اپنے علم و تقویٰ کی بدولت خاص مقام رکھتے تھے۔ وہ برابر ہمیں وہاں کے حالات بتاتے رہے۔ کم و بیش ۲۰سال پر پھیلی ہوئی ان تفصیلات نے ہمیشہ اپنے ملک کے اس حصے سے باخبر رکھا۔ ہم نے وہاں کی نئی نسل کو سوشلزم سے بچانے کے لیے جو کام کیا ہے وہ جاری ہے اوران شاء اللہ جاری رہے گا۔ پاکستان کا کوئی حصہ سوشلزم کے لیے نہیں ہے۔ آپ دیکھیں گے جب ضرورت پیش آئے گی تو اس ملک کے ہر حصے کے نوجوان -- پوری قوم ایک جسدِ واحد کی طرح اٹھ کھڑی ہو گی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس قوم میں ابھی بہت خیر باقی ہے۔ تشویش کی کوئی بات نہیں‘ ہاں بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ (ہفت روزہ آئین‘ لاہور‘ ۱۷ جنوری ۱۹۸۰ئ)
بلوچستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت و نگرانی اور اس کی آبیاری و تعمیر اور پہلے کی طرح آج بھی لادینی تحریکوں کا مقابلہ اور ان کی ذہنی بنیادوں پر تیشہ زنی‘ سید مودودیؒ کی تحریروں ہی سے کی جاسکتی ہے‘ جن میں قوم پرستی‘ سیکولرزم‘ اشتراکیت‘ سرمایہ داری‘ مغربی جمہوریت‘ لسانیت اور علاقائیت کے اصل چہروں سے نقاب کشائی کی گئی ہے‘ تاکہ نسلِ نو ان مکروہ چہروں کو اچھی طرح پہچان لے۔ ایمان و آگہی کے مقابلے میں وہ لادینی افکار اور ملحدانہ نظریات ہیں جو نوجوانوں کی خودی کو دیمک کی طرح چاٹ کر ختم کر دینا اور ان کے دین و ایمان کو غیروں کی چوکھٹ کی بھینٹ چڑھا دینا چاہتے ہیں۔ آج بھی ان لادینی نظریات کی اگر کاٹ ہے تو وہ ’’مودودی بابا‘‘ کی نالۂ نیم شبی میں ڈوبی ہوئی حقیقت پر مبنی اور ایمان افروز تحریروں ہی کی صورت میں موجود ہے۔
سیکولرزم کے نظری اور اعتقادی زہر کا تریاق بس اگر ہے تو اسی حکیمِ دوراں کے پاس ہے‘ جسے خلقت سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام سے جانتی ہے!