ڈاکٹر فضل الٰہی قریشی


جنرل محمد یحییٰ خان نے ۲۵مارچ ۱۹۶۹ء کو ملک میں دوسرا مارشل لا نافذ کر کے صدر مملکت کا منصب سنبھا ل لیا اور ۲۸ مارچ ۱۹۷۰ء کو بلوچستان کو پہلی مرتبہ صوبے کا درجہ دیا۔ اس طرح وہ دیرینہ مطالبہ پورا ہوا جو تقسیم ہند سے قبل ۱۹۲۷ء میں پہلی مرتبہ اور اس کے بعد ۱۹۲۹ء میں اپنے ۱۴ نکات میں قائداعظم نے بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینے کے لیے پیش کیا تھا، تاکہ ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح یہاں بھی سیاسی اصلاحات نافذ کی جا سکیں، لیکن برطانوی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔

متحدہ پاکستان کے آخری صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے بالآخر قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے ۷ دسمبر اور پانچوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے ۱۷ دسمبر ۱۹۷۰ء کی تاریخیں مقرر کر دیں۔

بلوچستان کی پہلی صوبائی اسمبلی کے ان انتخابات ]دسمبر ۱۹۷۰ئ[ میں نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی سطح کی سربرآوردہ شخصیات نے پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی‘ جن میں سردار عطاء اللہ مینگل‘ نواب خیر بخش مری‘ میرگل خان نصیر‘ پرنس آغا عبدالکریم خان اور میر دوست محمد شامل تھے۔ تین نشستوں پر جمعیت علماے اسلام کے مولانا صالح محمد‘ مولانا سید شمس الدین اور مولانا سید حسن شاہ کامیاب ہوئے۔ پشتون خوا نیپ کے خان عبدالصمد خان اچکزئی‘ مسلم لیگ کے جام میر غلام قادر اور بی ایم ایم کے نواب غوث بخش رئیسانی نے ایک ایک نشست حاصل کی۔ باقی نو نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ خواتین کی واحد اکیسویں نشست پر بیگم فضیلہ عالیانی منتخب ہوئیں۔

بلوچستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی کا اجلاس ۲ مئی ۱۹۷۲ء کو منعقد ہوا۔ ملک کے عبوری دستور کے تحت بلوچستان کی پہلی مخلوط صوبائی حکومت نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماے اسلام نے سردار عطاء اللہ مینگل کی وزارت اعلیٰ کے تحت تشکیل دی۔ یہ حکومت نوماہ اور ۱۱ دن قائم رہی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی وفاقی حکومت نے ایک سازش کے تحت ۱۳ فروری ۱۹۷۳ء کو غیر جمہوری طریقے سے اس منتخب صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا۔ صوبائی اور مرکزی جماعت اسلامی نے اپنی جمہوری روایات کے عین مطابق اس برطرفی کے خلاف کوئٹہ سمیت پورے ملک میں صداے احتجاج بلند کی۔ جس کی پاداش میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر میاں طفیل محمد پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے انھیں کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا گیا‘ کیونکہ انھوں نے لاہور میں عظیم الشان احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی کی برطرفی پر حکومت پر کڑی تنقید کی تھی۔

نیپ اور جمعیت کی مخلوط صوبائی حکومت نے اپنے نو ماہ کے مختصر دور حکومت میں بہت سارے ’’کارہاے نمایاں‘‘ انجام دیے۔ ان میں بلوچی زبان کے عربی رسم الخط کو رومن رسم الخط میں تبدیل کر کے بلوچوں کی آیندہ نسلوں کو ان کے قابل فخر اور شان دار ماضی سے کاٹ دینے کی سعی لا حاصل‘ کمیونزم کے افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے اشتراکی کتابوں کی نمایشوں اورسستی قیمت پر ان کی فراہمی کا اہتمام‘ روسی ثقافتی طائفے کو مدعو کر کے ان سے راگ رنگ‘ ناچ گانے‘ ثقافتی میلوں اور موسیقی کی محفلیں سجانا وغیرہ شامل تھا۔ جماعت اسلامی بلوچستان نے ان خرافات پر بھرپور تنقید کی۔ جس پر حکومت نے طیش میں آ کر جماعت اسلامی نوشکی کے صوبائی رہنما مولانا عبدالمجید مینگل کو ان کے دو ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے غائب کر دیا۔ اغوا کی اس حکومتی واردات پر جماعت اسلامی نے خان عبدالصمد خان اچکزئی کے ذریعے صوبائی اسمبلی میں سوال اٹھوایا تو معلوم ہوا کہ انھیں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کر کے ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ بھجوا دیا گیا ہے۔ کئی دوسرے محاذوں پر بھی جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت اسلامی بلوچستان صوبائی حکومت کے خلاف نبردآزما رہی ہے‘ جو صوبہ بلوچستان میں جماعت اسلامی کے سیاسی کردار کی ایک الگ داستان ہے۔ اس طویل پس منظر کے ساتھ ہماری گفتگو کا خاص محور اسی مخلوط صوبائی حکومت کا قائم کردہ ’بلوچستان قانون کمیشن‘ ہے‘ جو اس کا ایک سنجیدہ کام تھا‘ جسے اپنے مختصر دورِ حکومت میں اس نے انجام دیا۔

’بلوچستان قانون کمیشن‘ جسٹس فضل غنی خان کی سربراہی میں بٹھایا گیا تھا‘ جس کے ارکان میں قاضی محمد عیسیٰ خان بار ایٹ لا‘ حاجی محمد سرفراز خان ایڈووکیٹ‘ قاضی سعداللہ خان‘ مولوی محمد عمر‘ مولوی عبدالغفور‘ نواب عبدالقادرخان شاہوانی‘ نواب زادہ تیمور شاہ جوگیزئی‘ میر امیر الملک مینگل ایڈووکیٹ‘ میر محمد خان رئیسانی ایڈووکیٹ اور ذکاء اللہ لودھی ایڈووکیٹ شامل تھے‘ جب کہ محمد جعفر   اور قاضی محمد عیسیٰ خان رکن مجلس شوریٰ قلات‘ کمیشن میں ریسرچ افسران کی حیثیت سے شامل تھے۔ آغا سید احمد شاہ اس کمیشن کے سیکرٹری تھے۔ اس کمیشن نے ۱۵ جولائی ۱۹۷۲ء کو ۳۴ سوالات پر مشتمل ایک سوال نامہ مرتب کر کے پورے صوبے میں مشتہر کرایا۔ علماے کرام‘ دانشوروں‘ قانون دانوں‘ سیاسی رہنمائوں اور خواص و عوام سے اس پر تجاویز اور مشورے طلب کیے۔ نیز یہ اعلان بھی کیا کہ اگر کوئی کمیشن کے روبرو پیش ہو کر بیان دینا چاہے تو اس کے متعلق کمیشن کو مطلع کیا جائے‘ تاکہ اس کے ضلع میں کمیشن کے دورے کے وقت اس کا بیان قلم بند کیا جا سکے۔ کوئٹہ کے علاوہ اس طرح کمیشن  نے صوبے کے ضلعی مقامات پر جا کر بھی وفود سے ملاقاتیں کیں۔

برطانوی تسلط سے پہلے برعظیم ی طرح پورے بلوچستان میں بھی اسلامی شریعت صدیوں سے نافذالعمل تھی۔ شریعت کا قانون ہی ملک کا قانون (Law of Land) تھا۔ انگریزوں کی آمد کے بعد بلوچستان کا خطہ برٹش بلوچستان اور ریاستی بلوچستان میں منقسم کر دیا گیا۔ ریاستی بلوچستان میں قلات‘ خاران‘ مکران اورلسبیلہ کی ریاستیں شامل تھیں‘ جب کہ باقی علاقہ برٹش بلوچستان کہلاتا تھا۔ ریاستی بلوچستان میں انگریزوں نے صرف پرسنل لا کی حد تک جزوی عدالتی نظام قاضیوں کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ برٹش بلوچستان میں کلی طور پر انگریزی قانون کی عمل داری تھی۔ بعض علاقوں میں        رسم و رواج اور جرگے کے قوانین جاری کیے گئے۔ زیادہ سخت جان علاقوں پر اپنی انتظامیہ کی گرفت کو مضبوط بنانے کے لیے ایف سی آر جیسے استبدادی کالے قوانین نافذ کیے گئے۔ پاکستان بن جانے کے بعد بھی بلوچستان میں یہ مختلف قوانین نافذ العمل رہے ہیں۔

قانون کمیشن کا مقصد اگرچہ یہ تھا کہ صوبے میں دیوانی اور فوجداری عدالتوں کے نظام جو بیک وقت متعدد قوانین کے تحت چل رہے تھے‘ یکسانیت کیسے پیدا کی جائے اور موجود رائج الوقت عدالتی نظاموں کے عدالتی طریق کار کو یکساں‘ بہتر اور آسان بنانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟ کمیشن کے جاری کردہ سوال نامے میں موجودہ قوانین کی جگہ شرعی قوانین کے نفاذ سے کوئی بحث نہیں کی گئی۔ سوال نامے میں کسی ایسی تبدیلی کی خواہش کا تاثر بھی نہیں ملتا تھا جسے اسلام کے حق میں انقلابی رجحان کہا جا سکے‘ تاہم اس موقعے پر صوبے کے عوام اور خواص نے کمیشن سے نفاذ ِ شریعت کا مطالبہ کر کے اپنی اس دیرینہ آرزو کا ایک مرتبہ پھر بڑی گرم جوشی کے ساتھ اظہار کیا‘ جس کی بنیاد پر پاکستان عالم وجود میں آیا تھا۔ قانون کمیشن سے سے توقع نہ رکھتے ہوئے بھی کہ وہ شرعی قوانین کے نفاذ میں کوئی اقدام کرے گا‘ اس اقدام سے وہ اپنے احساسات کو ریکارڈ پر لانا چاہتے تھے۔

مولانا مودودیؒ کے افکار اور احیاے اسلام کی جدوجہد کے اثرات ملک کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان پر بھی پڑے تھے‘ جس کی خاکستر میں احیائے شریعت کی چنگاری پہلے ہی سے موجود تھی جسے سید مودودیؒ کی منظم جدوجہد نے شعلۂ جوالہ بنا دیا تھا۔ بلوچستان میں اس مقصد کے لیے مختلف مواقع پر ان کی چھ مرتبہ آمدورفت نے قوم پرست اور سیکولر عناصر کی مزاحمت کے باوجود عوام کو اسلامی نظام کے قیام کے لیے اٹھا کھڑا کیا تھا‘ جس کا اعادہ ایک مرتبہ پھر ’بلوچستان قانون کمیشن‘ کے قیام کے موقع پر ظہور پذیر ہوا۔

’بلوچستان قانون کمیشن ‘کے سوال نامے کے جوابات مرتب کرنے کے لیے جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالعزیز مرحوم نے اپنی نگرانی میں جماعت کے ایک دیرینہ مخلص رفیق صفدر رشید ایڈووکیٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی‘ جس میں عبدالمجید خان‘ حیات محمد قریشی‘ عبدالستار خان‘ مولانا عبدالحمید مینگل اور قیم صوبہ (یعنی راقم) شامل تھے۔ کمیٹی نے ۲۵ جولائی ۱۹۷۲ء سے کام شروع کر کے قانونی تشریحات کے ساتھ مفصل جوابات پر مشتمل ایک مسودہ تیار کر لیا‘ جسے صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ۱۳ تا ۱۵ اگست ۱۹۷۲ء میں براے منظوری پیش کیا ‘تاکہ     اس مسودے میں کوئی قانونی سقم نہ رہ جائے۔ سوال نامے کے جوابات مرتب کرنے میں جو محنت اور ریاضت کی گئی وہ کارکنانِ جماعت اسلامی کا خاص امتیاز ہے جو بانی جماعت سید مودودی میں   بدرجۂ اتم پایا جاتا تھا۔ اس حوالے سے جماعت کا کارکن کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور دمِ واپسیں تک ہر دم جواں اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں سرگرم عمل رہتا ہے۔  فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ کی یہ بھی ایک تفسیر ہے۔

’بلوچستان قانون کمیشن‘ کا یہ سوال نامہ مولانا مودودیؒ کی خدمت میں اس خواہش کے ساتھ بھجوایا گیا‘ کہ وہ اس کے جو جوابات تحریر فرمائیں گے‘ وہ ایک مستند دستاویز کی صورت میں کمیشن کو پیش ہو گی۔ مولانا مودودیؒ کی جانب سے ایف سی آر‘ آرڈی ننس نمبر ا ‘اور نمبر۲ مجریہ ۱۹۶۸ء اور قاضیوں کی عدالتوں کے بارے میں قانونی معلومات کے ساتھ ساتھ قانونِ شہادت قلات اور  ضابطۂ فوجداری قلاتکی قانونی کتب بھی طلب کی گئیں۔ مولانا مودودی نے ’بلوچستان قانون کمیشن‘ سے متعلقہ قانونی معلومات طلب فرمائیں‘ تاکہ وہ مطالعے کے بعد جوابات مرتب کرسکیں۔

مولانا مودودیؒ کی طرف سے طلب کردہ قانونی کتب اور مطلوبہ تشریحات‘ ۲۰ اگست ۱۹۷۲ء کو مرکز جماعت لاہور بھجوا دی گئیں۔ ایک ہفتے کے بعد ۲۷ اگست کو مولانا مودودی ؒکے مرتب کردہ جوابات کا مسودہ جو ٹائپ شدہ فل سکیپ کے سات صفحات پر مشتمل تھا‘ نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان کو مکتوب گرامی ۲۶ اگست ۱۹۷۲ء کے ساتھ موصول ہو گیا۔ ا نھوں نے تحریر فرمایا:

جماعت اسلامی بلوچستان کے مرتب کردہ جوابات‘ تشریحی نوٹس‘ ضابطۂ فوجداری قلات اور  قانونِ شہادت قلات موصول ہوئے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ’بلوچستان قانون کمیشن‘ کے سوال نامے میں درج سوالات کے جوابات مرتب فرما دیے ہیں۔ ان جوابات کی ایک فاضل نقل‘ مولانا محترم کے دستخطی خط بنام صدر کمیشن ارسال خدمت ہیں۔ زائد نقل جوابات مولانا محترم‘ آپ کی حسب خواہش ارسال ہے۔ آپ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ (خط محمد اسلم سلیمی بنام فضل الٰہی قریشی)

اس  ہدایت کے مطابق مولانا مودودی ؒکے دستخطی خط بنام صدر قانون کمیشن کے ہمراہ اصل جوابات کو کمیشن‘ دفتر پہنچا دیا گیا۔

جماعت اسلامی بلوچستان کے مرتب کردہ سوالات پر‘ مولانا مودودی ؒکے مرتبہ جوابات کی روشنی میں نظرثانی کر کے اسے آخری شکل دے دی گئی اور اس کی کاپیاں اندرونِ صوبہ اور بیرون صوبہ علماے کرام‘ اہم شخصیات اور جماعتی حلقوں کو اس گزارش کے ساتھ بھجوائی گئیں‘ کہ وہ اس سے استفادہ کرکے قانون کمیشن کو اپنا جواب براہ راست ارسال کریں۔ جماعت اسلامی نے پورے صوبے کو اس حوالے سے متحرک کر کے یہ جواب نامہ بھی قانون کمیشن کو بروقت پہنچا دیاتھا۔

’بلوچستان قانون کمیشن‘ نے ۳۱ اگست ۱۹۷۲ء کو جماعت اسلامی بلوچستان کے وفد کو بالمشافہ گفتگو کے لیے بلوچستان صوبائی سیکرٹریٹ کوئٹہ کے لا سیکشن میں مدعو کیا تھا۔ مولانا عبدالعزیز کی سربراہی میں جماعت کے وفد نے کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد میں عبدالمجید خان‘ حیات محمد قریشی‘ مولانا عبدالمجید مینگل‘ عبدالستار خان اور راقم شامل تھے۔ جسٹس فضل غنی کے ساتھ قانون کمیشن کے تمام ارکان موجود تھے۔ وفد نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جواب نامے کا بھی ذکر کیا‘ جس پر جسٹس فضل غنی نے فرمایا: ’’میں نے خصوصی طور پر اسے پڑھا ہے‘‘۔ پھر انھوں نے وہ فائل منگوائی جس میں مولانا مودودی کے جوابات تھے۔ حاضرین سے مخاطب ہوئے اور کہا: ’’مولانا مودودی سے اختلاف توہو سکتا ہے لیکن ان کے تبحرِ علمی سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ پھر انھوں نے اس کی تائیدمیں مولانا محترم کے جوابات میں سے کچھ حصے پڑھ کر سنائے جس پر حاضرین نے صاد کیا۔

بلوچستان کی معروف شخصیت قاضی محمد عیسیٰ بار ایٹ لا‘ ۱۹۴۵ء میں مسلم لیگ بلوچستان کی تشکیل کے موقع پر اس کے پہلے صوبائی صدر منتخب ہوئے تھے اور جنھوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا‘ بحیثیت رکن قانون کمیشن وہاں موجود تھے‘ وہ گویا ہوئے ’’۱۰ مارچ ۱۹۶۹ء کو راولپنڈی میں جنرل محمد ایوب خان کے ساتھ حزب اختلاف کے جو تاریخی مذاکرات ہوئے تھے‘ وہاں میں نے پہلی مرتبہ مولانا مودودی کو سنا۔ ان کا انداز سب سے منفرد تھا۔ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ ایک عالمِ دین کو حالات کی رفتار ا ور اس کی نبض پر پورے شعور اور ادراک کے ساتھ کس قدر گرفت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے مختصر خطاب میں پوری جامعیت کے ساتھ وہ سب کچھ سمو دیا تھا جو اس وقت کی متحدہ اپوزیشن کا نقطۂ نظر تھا۔ میں ان کی شخصیت‘ خلوص اور عالمانہ تقریر سے بے حد متاثر ہوا تھا‘‘۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکی جانب سے ’بلوچستان قانون کمیشن‘ کے سوال نامے کا جواب درحقیقت وہی صداے بازگشت ہے‘ جو تاریخ پاکستان کے نشیب و فراز کے ہر موڑ پر سید مودودیؒ کی اسلام کو بطور ایک نظام زندگی کے پیش کرنے کی تجدیدی کاوش اور اسلامی شریعت کے ہر شعبۂ زندگی میں عملی نفاذ کی طویل جدوجہد میںواضح طور پر سنائی دیتی ہے۔ انھیں یقین تھا کہ پاکستان کو خالصتاً ایک اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی مملکت کا حقیقی نمونہ بنا کر دنیاے انسانیت کو اسلام کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے اور تمام موجودہ نظام ہاے حیات پر اسلام کی فوقیت اور بالادستی کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔

ملک اور بلوچستان کے حوالے سے تاریخی شواہد کی روشنی میںاس تمہید ِ طولانی کے بعد‘ آگے ’بلوچستان قانون کمیشن‘ کا سوال نامہ اور اس کے بعد مولانا مودودیؒ کے جوابات پیش کیے جا رہے ہیں۔

’بلوچستان قانون کمیشن‘ کا سوال نامہ

l ۱- کیا صوبہ بلوچستان میں عدالت ہاے عالیہ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کو ہر قسم کے مقدمات کی سماعت کا اختیار دیا جائے یا نہ؟ l ۲- اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو وجوہات کیا ہیں اور متبادل عدالت ہا اور کون سا طریق کار آپ تجویز کریں گے؟ l۳- کیا ایف سی آر تمام صوبے میں یکساں طور پر نافذ کیا جائے یا اس کو منسوخ کیا جائے‘ اگر نافذ کیا جائے تو وجوہات تحریر فرمائیں؟ الف- اگر آپ جرگہ کا قانون چاہتے ہیں‘ تو جرگہ ممبران کی قابلیت و صلاحیت کیا ہوں؟ تعداد کتنی ہو‘ ان کی نامزدگی کتنے عرصے کے لیے ہو اور ان کو مقرر کرنے کا اختیار کسے حاصل ہو؟ ب- جرگہ کے عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے آپ کون سی عدالت تجویز کریں گے؟ l ۴- کیا    آرڈی ننس نمبر۱‘اور نمبر۲ مجریہ ۱۹۶۸ء کو تمام صوبے میںیکساں طور پر نافذ کیا جائے یا منسوخ کیا جائے؟نافذ کرنے کی صورت میں وجوہات بتائیں؟ l۵- کیا تمام مقدمات کی سماعت کے لیے صوبے میں قاضیوں کی عدالت ہا قائم کی جائیں اور ان عدالتوں کے فیصلے کی اپیل کے لیے مجلس شوریٰ مقرر کی جائے یا تمام صوبے میں عدالت ہا مجسٹریٹ (سول جج) و ڈسٹرکٹ جج قائم کی جائیں؟ الف- اگر آپ کی تجاویز قاضیوں کی عدالت کے حق میں ہے تو قاضی کی عدالت کا طریق کار کیا ہو اور قاضیوں کی علمی اہلیت کیا ہو؟ l۶- کیا تمام صوبے کی فوجداری عدالتوں کے لیے یکساں طور پر ضابطہ فوجداری پاکستان ۱۸۹۸ء نافذ کیا جائے یا ضابطہ فوجداری قلات تمام صوبے میں نافذ کیا جائے؟ الف- اگر ضابطہ فوجداری قلات تمام صوبے میں نافذ کیا جائے تو کیا آپ اس میں ترامیم پیش کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا؟ ب- کیا موجودہ ضابطہ فوجداری پاکستان میں کوئی ایسی ترمیم پیش کرنا پسند کریں گے جو اس صوبے کے اقتصادی و سماجی حالات کے مطابق ہو؟ l۷- کیا ضابطہ فوجداری میں مقرر کردہ قابل راضی نامہ جرائم کے علاوہ کوئی دیگر جرائم جو فی الحال ناقابل راضی نامہ ہیں کو قابل راضی نامہ بنایا جائے اور راضی نامہ کی شرائط کیاہوں؟ الف- کیا آپ موجودہ قابل راضی نامہ جرائم میں سے کچھ جرائم کو ناقابل راضی نامہ بنانا تجویز کریں گے؟ اگر ہاں‘ تو آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ l۸-کیا جھوٹے فوجداری مقدمات میں مستغیث کے خلاف عدالت کو ہرجانہ دلانے کا اختیار ہو؟ اگر ہاں تو کس قدر؟ l۹۔ موجودہ مندرجہ ذیل کورٹ فیس کی شرح میں سے آپ کس کی سفارش کرتے ہیں: ۱- مرکزی حکومت کے قانون کورٹ فیس ۵ فی صد یا ۲- ایف سی آر کے قانون کورٹ فیس ۲روپے سیکڑہ  یا ۳- صوبائی حکومت کے قانون کورٹ فیس سوا گیارہ فی صد۔ الف- اور مدعی کے لیے عدالت یا اپیل کے لیے دستورالعمل دیوانی قلات کے مطابق صرف ایک روپیہ ہو۔ اور اسی طرح مدعا علیہ کے لیے بصورت اپیل ایک مرتبہ کورٹ فیس دینا لازمی ہور اور بعد کی شرح ایک روپیہ ہو۔ l۱۰-شریعت کے مطابق کورٹ فیس کا قانون کیا ہونا چاہیے‘ اور اس بارے میں آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ l۱۱- کیا عدالت عالیہ میں رٹ درخواست پر فیس موجودہ شرح بحساب ۱۰۰ روپیہ یا حسب سابق پانچ روپے ہو؟ l۱۲- کیا موجودہ قانون معیاد میں شرعی قوانین کی روشنی میں آپ کچھ ترامیم پیش کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کن کن دفعات اور آرٹیکل کے متعلق؟ l۱۳-کیا صوبے میں تمام دیوانی اور فوجداری عدالتوںکے لیے قانون شہادت پاکستان مجریہ ۱۸۷۲ء یکساں طور پر لگایا جائے‘ یا قانون شہادت قلات کے تمام صوبے کی عدالتوں پر اطلاق ہو؟ آپ جس قانون کو پسند کریں اس میں کوئی ترمیم پیش کریں گے‘ اور وہ ترامیم کیا ہیں۔ تفصیل سے بتائیں؟ l ۱۴- صوبے کی عدالتوں میں کون سا قانون شہادت رائج کیا جائے‘ اس میں آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ l۱۵- موجودہ عدالتوں کے طریق کار میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کے تدارک و سدباب کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ کیا عدالت کو فیصلہ کرنے کے لیے کوئی میعاد مقرر کی جا سکتی ہے؟ l ۱۶- کیا قاضی/ سول ججوں اور دیگر موجودہ عدالتوں کی تعداد و مقام کافی ہیں‘ یا ان کی تعداد بڑھائی جائے اور کن کن جگہوں پر ان کی ضرورت ہے؟ l  ۱۷- کیا بلوچستان کے صوبے میں ہائی کورٹ کے موجودہ ایام کار کافی ہیں۔ اگر نہیں تو اس بارے میں آپ کی کیا تجاویز ہیں؟ l۱۸- ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے میں کیا کیا دقتیں درپیش ہیں‘ اوران کے ازالے کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ l ۱۹- عائلی قوانین کے نفاذ کے بارے میں لوگوں کو کس قسم کی دقتیں درپیش ہیں‘ اور ان کے تدارک کے لیے آپ کی کیا تجاویز ہیں؟ l ۲۰- اس صوبے میں عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ علیحدہ کرنے میں آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ l ۲۱- کیا موجودہ رواج کے مطابق مختلف مقدمات میںملوث عورتیں اور نابالغ بچوں کی سپردگی کا طریقہ سردار صاحبان و دیگر معتبران کے پاس درست ہے؟ اگر نہیں تو آپ کی کیا تجاویز ہیں؟ l۲۲-آپ موجودہ تفتیشی اداروں ا ور عدالتوں سے رشوت ستانی‘ بددیانتی‘ دروغ گوئی و تاخیر کو ختم کرنے کے لیے کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ l ۲۳- کیا پولیس کی ضمنی جو دوران تفتیش تحریر کی جاتی ہے کو ملزم کو دیکھنے کا حق دیا جائے؟ اگر ہاں‘ تو کن شرائط پر؟ l ۲۴- کیا آپ کی رائے میں وہ حالات جن میں موجودہ جوڈیشل آفیسر کام کرتے ہیں (رہایش‘ تنخواہ‘ کام کرنے کی جگہ‘ لائبریری وغیرہ) ان کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتے ہیں‘ اور کیا ان کی کارکردگی ان حالات کو بہتر بنا کر بہتر ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا تجاویز ہیں؟ l ۲۵- تازہ قانونی اصلاحات مجریہ آرڈی ننس ۱۲‘ ۱۹۷۲ء کے خلاف آپ کی کیا شکایات ہیں اور ان کو رفع کرنے کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ l۲۶-کیا آپ مقدمات کی سماعت میں جیوری سسٹم کو رائج کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کس قسم کے مقدمات میں یہ سسٹم ہونا چاہیے اور جیوری کے ممبران کی قابلیت اور صلاحیت کس قسم کی ہو؟ ان کی تعداد کیا ہو؟ اور ان کے انتخاب کا کیا طریقہ ہو؟ l ۲۷- کیا آپ کی رائے میں خصوصی عدالتیں مثلاً انڈسٹریل کورٹ‘ ریونیو کورٹ‘ فیملی کورٹ و سپیشل کورٹ جاری رکھی جائیں‘ یا یہ کام عام عدالتیں سرانجام دیں‘ یا ان مختلف عدالتوں کے لیے خاص طور پر افسران جلیس مقرر کیے جائیں؟ اس صورت میں کیا آپ اس کے حق میںہیں کہ پنشن یافتہ جوڈیشل افسران کو ان عدالتوں کا افسر جلیس مقررکیا جائے؟ l ۲۸- سمنات کی تعمیل میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس کے تدارک کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں؟ l۲۹- عدالت ہا دیوانی یا عدالت ہا قاضی سے فیصلہ ہونے کے بعد اجرا میں کیا کیا دشواریاں پیش آتی ہیں ا ور ان کے تدارک کے لیے آپ کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟ l ۳۰- کیا مقدمات دیوانی عدالت ہا قاضی میں براہ راست دائر کیے جائیں اور قاضی صاحب کو اجرا ڈگری کے کلی اختیارات دیے جائیں؟ اس بارے میں آپ کی تجاویز کیا ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو قاضی صاحب کے اختیارات و عملہ کیا ہوں؟ l ۳۱- کیا آپ صوبے میں دیوانی و فوجداری موجودہ نظام کے سلسلے میں مزید اور کوئی تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں جو بلوچستان کے صوبے کی خصوصی قانونی ضروریات کے مطابق ہوں اور آپ کی رائے میں عدالتی نظام میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے مفید ہوں؟ l۳۲- مندرجہ بالا سوالات کے علاوہ کوئی اور تجویز جو آپ کی رائے میں بلو چستان میں نظام عدالت کو جلد‘ آسان‘ سستا و قابل عمل بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوں؟ l۳۳- فوجداری مقدمات میں وکیل سرکار (پبلک پراسیکیوٹر) و دیگر پولیس افسر جو کام کرتے ہیں ان کی کارکردگی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ l ۳۴- کیا اس محکمے کو مزید موثر بنانے کے لیے آپ مزید کوئی اور تجاویز پیش کریں گے؟

کمیشن کے سوال نامے کے جوابات از مولانا مودودی ؒ

۱-            ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا اختیارِ سماعت (jurisdiction) بلوچستان کے تمام علاقوں تک وسیع کیا جائے‘ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان کے دوسرے علاقوں میں ہے۔ اگر صوبہ بلوچستان کے کچھ علاقے یا کچھ اقسام کے مقدمات پاکستان کے دوسرے علاقوں سے مختلف طور پر اس سے مستثنیٰ ہیں تویہ استثنا ختم کر دینا چاہیے‘ تاکہ بلوچستان کے تمام باشندوں کو اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کا اطمینان حاصل ہو سکے۔

۲-            اس کا جواب اوپر کے سوال کے جواب میں آ گیا ہے۔

۳-            ایف سی آر کا تصور جس حکومت کے زمانے میں پیدا ہوا تھا وہ ایک بیرونی استعماری حکومت تھی‘ جس کے پیش نظر اس ملک کی آبادی کے زیادہ جان دار حصوں کو استبدادی قوانین کے ذریعے سے دبا کر رکھنا تھا۔ اس تصور کو اب پاکستان کی آزاد قومی حکومت میں ختم ہونا چاہیے اور اس قانون کا اطلاق ملک کے کسی بھی حصے میں نہ ہونا چاہیے۔ حقیقت میں اس پر لفظ ِ قانون کا اطلاق بھی نہیں ہوتا‘ بلکہ یہ انتظامیہ کے لامحدود اختیارات کی ایک دوسری شکل ہے۔ اسلام نے ایسے اختیارات نہ انتظامیہ کو دیے ہیں‘ نہ ایسے جرگوں کو دیے ہیں جو شریعت کے احکام سے نا واقف اور من مانی کارروائیوں کے عادی ہوتے ہیں۔

۴-            آرڈی ننس نمبر۱‘ ۲ مجریہ ۱۹۶۸ء لاقانونی‘ قانون ہیں‘ اور پاکستان میں اس طرح کے   آرڈی ننسوں کے ذریعے سے عدل و انصاف کی مٹی پلید کرنا نرم سے نرم الفاظ میں شرمناک ہے۔ ان دونوں آر ڈی ننسوں کا نفاذ صوبہ بلوچستان میں ختم کر دینا چاہیے اور اسی معروف قانونی طریق کار کو دیوانی اور فوجداری معاملات میں اختیار کرنا چاہیے‘ جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔

۵-            لفظ ’قاضی‘ کا یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے کہ وہ جج یا مجسٹریٹ سے مختلف کوئی چیز ہے۔ اسلامی اصطلاح میں’قاضی‘ جج ہی کو کہتے ہیں۔ یہ ایک بدعت ہے کہ پرسنل لا کو جاری کرنے والے ’قاضی‘ ہوں اور عام قوانین پر فیصلہ کرنے والے جج یا مجسٹریٹ ہوں۔ یہ تصور بیرونی غیراسلامی تسلط کے بعد پیدا ہوا۔

                بلوچستان کے بعض حصوں میں قاضیوں کی عدالتیں قائم رہی ہیں‘ وہ بھی نہ اسلام کے تصور کے مطابق ہیں اور نہ اسلامی معیار پر پوری اترتی ہیں۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت کو پہلے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا وہ اسلامی شریعت کو محض ’پرسنل لا‘ تک محدود رکھنا چاہتی ہے یا قانون کے پورے دائرے پر وسیع کرنا چاہتی ہے؟ اگر پہلی صورت ہے تو میںاس کو اصولاً غلط سمجھتا ہوں۔ اس لیے اس کے بارے میں کوئی تجویز پیش نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ اگر دوسری صورت ہے تو تمام معاملات میں شرعی قوانین نافذ کیے جائیں‘ ان کے مطابق فیصلہ کرنے والوں کو اسلامی اصطلاح کے مطابق ’قاضی‘ قرار دیا جائے۔ جج اور مجسٹریٹ کی اصطلاحیں چھوڑ دی جائیں کیونکہ ان سے انگریزی قانون کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اور ’قاضی‘ ایسے ہونے چاہییں جو شریعت کے قانون سے اچھی طرح واقف ہوں‘ باوقار اور پاکیزہ اخلاق کے لوگ ہوں۔ ان کو تنخواہیں اسی معیار کے مطابق دی جائیں جو ججوں اور مجسٹریٹوں کا معیار ہے۔ تمام معاملات میں مقدمات براہ راست ان کی عدالت میں پیش کیے جائیں اور ان کے فیصلے انھی کے حکم کے مطابق نافذ کیے جائیں۔ ان کے نفاذ اور عدم نفاذ کا فیصلہ کرنے میںانتظامیہ کاکوئی دخل نہ ہو۔

                ان قاضیوں کے اوپر ہر ضلع میں ’صدر قاضی‘ اس طرح مقرر کیا جائے جس طرح ڈسٹرکٹ جج   یا سیشن جج ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ماتحت قاضیوں کے فیصلوں کی اپیلیں کی جا سکیں۔ ’صدرقاضی‘ کی عدالت سے اوپر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی عدالتیں رہیں گی۔ انھیں لازماً اپیلوں کی سماعت میں بلوچستان کے شرعی قوانین کا لحاظ کرنا پڑے گا۔

۶-            ضابطۂ فوجداری قلاتکی بہ نسبت ضابطۂ فوجداری پاکستان ۱۸۹۸ء زیادہ بہتر ہے‘ مگر اس میں شریعت کے مطابق ترمیمات ہونی ضروری ہیں‘ کیونکہ انصاف کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں اس ضابطے کی بدولت پیدا ہوتی ہیں۔ اسلامی فقہ کی مبسوط کتابوں میں ضابطے کی بہت سی تفصیلات موجود ہیں اور جن ملکوں میںاس وقت بھی اسلامی قانون کے مطابق عدالت کا نظام چل رہا ہے‘ ان کے طریق کار سے بھی بہت کچھ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چونکہ یہ ایک تفصیلی بحث ہے اور سوال نامے کے جواب میں میرے لیے یہ [فوری طور پر] بتانا مشکل ہے کہ ضابطۂ فوجداری پاکستان میں اسلامی ضابطے کے مطابق کیا کیا ترمیمات ہونی چاہییں؟ اس لیے میں اس مسئلے کو عملی طور پر حل کرنے کے لیے تین تجویزیں پیش کرتا ہوں:

                (۱) ’اسلامی مشاورتی کونسل‘ جسے چھ سال پہلے مرکزی حکومت نے قائم کیا تھا‘ اس سے دریافت کیا جائے کہ اس نے ضابطۂ فوجداری پاکستان اور اسلامی ضابطے کا تقابلی مطالعہ کر کے کچھ ترمیمات مرتب کی ہیں یا نہیں۔اگر کی ہیں تو وہ کیا ہیں؟

                (۲) آپ کے کمیشن کے ساتھ کم از کم دو تین صاحب فتویٰ علما کو (جو جزئیات سے اچھی طرح واقف ہوں) شامل کیا جائے‘ اور وہ دونوں ضابطوں کا تقابلی مطالعہ کر کے ضروری ترمیمات مرتب کریں۔

                (۳) افغانستان میں ’فقہ حنفی‘ کے مطابق اور سعودی عرب میں ’فقہ حنبلی‘ کے مطابق پورا عدالتی نظام چل رہا ہے۔ کمیشن کے دو تین اصحاب ان ملکوں میں جا کر دیکھیں کہ ان کے ہاں کیا ضابطہ جاری ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ اسلامی قانون ایک مدت سے جاری نہیں رہا ہے‘ اس لیے دونوں ضابطوں کا فرق اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا‘ جب تک کہ اس ملک کے ضابطے سے اچھی طرح واقفیت رکھنے والے‘ ان ملکوں کے عدالتی طریقِ کار کا جائزہ نہ لیں‘ جہاں اسلامی قانون اب بھی عملاً نافذ ہے۔

۷-            اس سوال کے صحیح جواب کے لیے بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ اس قانون میں قابل راضی نامہ اور ناقابل راضی نامہ جرائم کون کون سے ہیں اور اسلامی قانون میں کون سے۔ اس کا تفصیلی جائزہ ایک ایسی کمیٹی ہی لے سکتی ہے‘ جس میں موجودہ قانون کے ماہرین کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون کے بھی دو تین صاحب فتویٰ عالم شامل ہوں اور وہ ان کا تفصیلی جائزہ لیں۔ ایک نمایاں مثال دونوں قوانین کے فرق کی میں بتا سکتا ہوں‘ کہ زنا کا معاملہ بعض حالات میں موجودہ قانون کے اندر قابل راضی نامہ ہے‘ لیکن اسلام میں وہ کسی صورت میں بھی قابلِ راضی نامہ نہیں ہے۔ برعکس اس کے قتل کا معاملہ موجودہ قانون میں قابلِ راضی نامہ نہیں ہے اور اسلامی قانون اسے ایسی حالت میں قابلِ راضی نامہ قرار دیتا ہے ‘ جب کہ کسی دبائو کے بغیر مقتول کے وارث راضی نامہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس معاملے میں خود قرآن ہی کے احکام واضح ہیں۔

۸-            یہ بات تو واضح ہے کہ جھوٹا مقدمہ دائر کرنا ایک جُرم ہے۔ مگر یہ جرم دو شکلوں میں روبہ عمل آتا ہے۔ ایک شکل یہ ہے کہ عام باشندوں میں سے کوئی شخص کسی شخص کے خلاف جھوٹا الزام لگا کر استغاثہ کرے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ پولیس بطور خود یا کسی کے ایما سے کسی پر جھوٹا مقدمہ قائم کرے۔ پہلی شکل میں لیجسلیچر (legislature) کو کسی مناسب جرمانے کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کر دینی چاہیے ‘اور یہ بات عدالت پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ جرم اور مجرم دونوں کی حالت کو نگاہ میں رکھ کر قانون کی تجویز کردہ حد کے اندر کوئی جرمانہ عائد کرے۔ دوسری شکل میں جھوٹے مقدمے میں کسی شخص کو پھانسنا بھی جرم ہونا چاہیے۔ اس جرم کی قانونی یا انتظامی سزا کیا ہو؟ میرے علم کی حد تک پہلی نوعیت کے جرم کی بہ نسبت دوسری نوعیت کا جرم زیادہ ہو رہا ہے اور اس پر کوئی بازپرس نہ ہونے یا براے نام ہونے کی وجہ سے یہ ظلم حد سے بڑھتا جا رہا ہے۔

۹-            کورٹ فیس کا تصور ہمارے ملک میں انگریزی دور حکومت ہی میں پیدا ہوا ہے‘ ورنہ مسلمان اس سے بالکل ناآشنا تھے اور اسلام کی پوری قانونی تاریخ میں کبھی کورٹ فیس نہیں لگائی گئی ہے۔ لوگوں کے درمیان عدل کا انتظام کرنا ایک مسلمان حکومت کے بالکل ابتدائی فرائض میں سے ہے‘ اور کورٹ فیس لگانے کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو انصاف نہیں ملے گا جب تک وہ انصاف کی فیس ادا نہ کرے۔ البتہ جو شخص ناجائز طور پر کسی کا حق مارنے کے لیے یا کسی پر ظلم کرنے کے لیے ممکنہ انصاف سے رجوع کرتا ہے اور اس کا جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے‘ اس پر جو بھاری سے بھاری جرمانہ ممکن ہو وہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے جھوٹی شہادت دینے والوں یا کسی قسم کی جعل سازی کرنے والوں پر بھی جرمانے عائد کیے جا سکتے ہیں۔

۱۰-         اس سوال کا جواب بھی اوپر آ چکا ہے۔

۱۱-         اس کا جواب بھی سوال نمبر۹ کے جواب میں آ چکا ہے۔

۱۲-         اس سوال کا جواب وہی ہے‘ جو میں نے سوال نمبر۶ کے جواب میں لکھاہے۔ یہ ایک تفصیلی بحث ہے کہ موجودہ قانون میں جو معیادیں مقرر ہیں‘ وہ اسلامی قانون کے کس حد تک مطابق ہیں اور کس حد تک اس کے خلاف‘ اور ان میں کیا ترمیمات ہونی چاہییں۔ اس معاملے میں ’اسلامی مشاورتی کونسل‘ سے بھی دریافت کرنا چاہیے۔

                دوسرے مسلم ممالک جہاں اسلامی قانون جاری ہے ان کے ضابطے کو بھی دیکھنا چاہیے‘ اور خود اس کمیٹی میں دو تین علما کو شامل کر کے تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ موجودہ قانونِ معیاد کس حد تک انصاف کے مطابق اور کس حد تک اس کے خلاف ہے اور شریعت کے مطابق اس میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں۔

۱۳-         قانونِ شہادت قلات کی بہ نسبت  قانونِ شہادت پاکستانزیادہ بہتر ہے‘ لیکن اس میں بعض ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے یہ ’اسلامی قانون شہادت‘ کے مطابق ہوجائے۔ اگرچہ موجودہ قانون بھی بنیادی طور پر ’اسلامی قانونِ شہادت‘ ہی سے ماخوذ ہے‘ لیکن اس  میں متعدد چیزیں ایسی ہیں جو ’شرعی قانونِ شہادت‘ سے مطابقت نہیں رکھتیں اور انصاف کے بجاے بے انصافی میں مددگار ہوتی ہیں۔ اس غرض کے لیے دونوں قوانین کا تقابلی مطالعہ ضروری ہے‘ تاکہ جہاں جہاں فرق واقع ہوتا ہو اسے نوٹ کر لیا جائے اور اسلامی قانون کے مطابق تبدیل کر دیا جائے۔ اس بارے میں بھی میری تجویز وہی ہے‘ جو میں نے سوال نمبر۶ کے بارے میں پیش کی ہے۔

۱۴-         اس کا جواب سوال نمبر۱۳ کے جواب میں آ گیا ہے۔

۱۵-         تاخیر کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس کو بڑی حد تک انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدگی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ ریاست حیدر آباد [دکن] نے ۱۹۲۱ء ہی میں انتظامیہ کو عدلیہ سے مکمل  طور پر علیحدہ کر دیا تھا۔ وہاں کسی انتظامی عہدے دار کے سپرد کوئی عدالتی کام نہ تھا اور کسی حاکم عدالت کے سپرد کوئی انتظامی کام نہ تھا۔ میں چونکہ وہاں برسوں رہا ہوں‘ ا س لیے مجھے معلوم ہے کہ وہاں مقدمات کے فیصلوں میں اتنی تاخیر نہیں ہوتی تھی‘ جتنی ’برطانوی ہند‘ کی عدالتوں میں ہوا کرتی تھی۔

                اس کے علاوہ تاخیر کے کچھ اسباب اخلاقی بھی ہیں: کسی شخص کو حاکمِ عدالت مقرر کرنے سے پہلے اس کی قانونی قابلیت دیکھنے کے ساتھ اگر اس کی اخلاقی پاکیزگی اور دیانت کے بارے میں بھی اطمینان کر لیا جائے ‘تو اس کا امکان نہیں رہتا کہ حاکم عدالت کسی نوعیت کے ناجائز اثر میں آ کر پیشیوں پرپیشیاں بڑھاتا چلا جائے‘ مظلوم کو تنگ کرے اور ظالم کی رسی دراز کرے۔ عدالتی انتظامیہ اور پولیس کا بھی مقدمات کو طول دینے میں اچھا خاصا دخل ہے۔ اس مرض کا علاج بھی ان لوگوں کی اخلاقی حالت درست کیے بغیر نہیں ہو سکتا‘ جو کسی نہ کسی طور پر انصاف کے انتظام سے وابستہ ہیں۔ اس امر کی نگرانی کا بھی جہاں تک مجھے علم ہے کوئی انتظام نہیں ہے کہ عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں کتنی دیر لگاتی ہیں۔ اگر کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ وقتاً فوقتاً یہ دیکھا جاتا رہے کہ مقدمات کے فیصلے میں کتنی تاخیر کی گئی ہے اور کس حد تک وہ ناگزیر تھی اور کس حد تک وہ بے جا تھی‘ اور بے جا تاخیر پر حاکمانِ عدالت سے باز پرس کی جائے تو اس خرابی کا کافی حد تک تدارک کیا جا سکتا ہے۔ محض روٹین (routine) کے طور پر عدالتوںکی کارگزاری کا جائزہ لینا اس معاملے میں کچھ مفید نہیں ہے۔ جہاںتک عدالت کے لیے فیصلہ کرنے کی معیاد مقرر کرنے کا تعلق ہے‘ میرے نزدیک یہ قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس کا بہت بڑی حد تک مقدمات کی نوعیت سے تعلق ہے۔ اگر عدالتوں پر نگرانی اور احتساب کا انتظام معقول ہو تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس مقدمے کے فیصلے میں ناروا تاخیر ہوئی ہے اور کس کا فیصلہ معقول مدت کے اندر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی تاخیر کے بہت سے اسباب ہیں‘ جن کا بہرحال قانون دان اصحاب آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں اور خود آپ کے معزز کمیشن میں ایسے اصحاب موجود ہیں۔

۱۶-         میں بلوچستان کے حالات سے اتنی تفصیلی واقفیت نہیں رکھتا کہ اس معاملے میں کوئی رائے دے سکوں۔ بہرحال چونکہ بلوچستان کا رقبہ بہت وسیع ہے اور آبادی منتشر ہے‘ اس لیے عدالتیں ایسے مقامات پر قائم کی جانی چاہییں‘ جو انصاف طلب کرنے والوں کی دسترس سے بہت زیادہ دور نہ ہوں اور ایک ہی عدالت کو دیوانی‘ فوجداری اور پرسنل لا کے معاملات کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے‘ تاکہ انصاف طلب کرنے والے جگہ جگہ مارے مارے نہ پھریں۔ اس لحاظ سے آپ کا معزز کمیشن‘ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے حاکمانِ عدالت اور وکلا سے مشورہ لے کر بہ آسانی تحقیق کر سکتا ہے کہ آپ کے صوبے میں عدالتیں کافی ہیں یا نہیں اور آیا وہ مناسب جگہوں پر ہیں یا نہیں۔

۱۷-         اس معاملے میں میرے نزدیک تو مناسب یہ ہو گا کہ سندھ و بلوچستان ہائی کورٹ کے کم از کم دو ججوں کا ایک بنچ مستقل طور پر صوبہ بلوچستان میں رہے۔ یہ صورت اگر قابلِ عمل نہ ہو تو بلوچستان کے لیے ہائی کورٹ کے موجودہ ایام کار میں اضافہ کر دینا چاہیے۔

۱۸-         بلوچستان جیسے وسیع و عریض صوبے کی غریب آبادی کے لیے یہ بہت مشکل معلوم ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے لاہور کے (یا اگر سپریم کورٹ اسلام آباد منتقل ہو جائے تو اسلام آباد کے) چکر کاٹ سکے۔ اگر ایسا ہو سکے کہ جس طرح سپریم کورٹ کے اجلاس مشرقی پاکستان میں ہوتے رہے ہیں اور جس طرح کے انتظامات اب بھی کراچی میں ہیں‘ اسی طرح کا کوئی انتظام بلوچستان میں کر دیا جائے۔ اس معاملے میں صحیح رائے‘ سندھ و بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان اور آپ کے کمیشن کے درمیان باہمی مشاورت ہی سے قائم کی جا سکتی ہیں۔

۱۹-         مروجہ عائلی قوانین تواپنی بہت سی تفصیلات میں شریعت سے متصادم ہیں۔ اس لیے ان کو تو منسوخ کرنا چاہیے‘ لیکن ’محمڈن لا‘ کے نام سے جو عائلی قانون انگریزی حکومت میں رائج تھا وہ بھی بہت ناقص تھا۔ لہٰذا‘ یہ ضروری ہے کہ علما اور قانون دانوں کی ایک کمیٹی اسلام کے اصلی عائلی قانون کو پوری طرح مرتب کرے اور اس میں جدید زمانے کے قوانین کی طرح قانونی دفعات الگ اور فقہی کتابوں کی مدد سے ان کی تشریحات الگ درج کی جائیں‘ تاکہ عدالتیں ان کو صحیح طور پر مقدمات پر منطبق کر سکیں۔ جہاں تک عائلی عدالتوں کا تعلق ہے‘ ان کی علیحدہ کوئی ضرورت نہیں۔ عام عدالتیں ہی عائلی قوانین کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

۲۰-         عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی چونکہ مکمل طور پر سابق ریاست حیدر آباد [دکن] میں کر دی گئی تھی اور ۲۷ سال تک اس پر عمل درآمد ہوتا رہا ہے‘ اس لیے ایسے لوگوں سے اس معاملے میں مشورہ لینا مفید ہو گا جو حیدر آباد کے نظامِ عدالت سے بطور حاکم عدالت یا بطور وکیل وابستہ رہے ہیں اور ایسے لوگ کراچی میں کثرت سے موجود ہیں۔

۲۱-         لاہور میں اس غرض کے لے ایک ’دارالامان‘ قائم ہے اور عدالتیں ایسی عورتوں اور نابالغ بچوں کو اس کی تحویل میں دے دیا کرتی ہیں۔ اس طرح کا کوئی انتظام اگر بلوچستان میں بھی کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ یہاں ’دارالامان‘ کا انتظام مکمل طور پر عورتوں ہی کے ہاتھ میں ہے اور آج تک کوئی شکایت ایسی سننے میں نہیں آئی کہ اس میں کوئی نامناسب صورت حال پیش آئی ہو۔ قابل اعتماد عورتیں اگر اسی طرح کے کسی ’دارالامان‘ کی منتظم ہوں تو امید ہے کہ بلوچستان میں بھی یہ طریقہ کامیاب ہو سکے گا۔

۲۲-         جن خرابیوں کاذکر اس سوال میں کیا گیا ہے‘ ان کے تدارک کے لیے چار چیزیں ضروری ہیں:

                ایک یہ کہ‘ تفتیشی اداروں اور عدالتوں کے عملے اور افسروں کی اخلاقی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ ان میں جب تک خدا کا خوف‘ آخرت کی جواب دہی کا احساس اور اسلامی اقدار کا احترام پیدا نہ ہو گا‘ ان خرابیوں کا کوئی مداوا نہ ہو سکے گا۔

                دوسرے یہ کہ‘ کم تنخواہیں پانے والوں کے سپرد جب لوگوں کی جان‘ مال اور آبرو کے تحفظ کی ذمہ داری کر دی جائے تو وہ اپنے اختیارات سے ناجائز فوائد حاصل کرنے پر کچھ نہ کچھ مجبور بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے تنخواہوں پر نظرثانی بھی ضروری ہے۔

                تیسرے یہ کہ‘ ان ضابطوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے‘ جن کے تحت یہ لوگ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ ان ضابطوں میں جو نقائص بھی ہوں ان کو دُور کیا جائے‘ تاکہ اختیارات کے استعمال پر ضروری پابندیاں عائد کر دی جائیں اور پھر حکومت اس بات کی سختی سے نگرانی کرے کہ ضابطوں کے خلاف کوئی اختیار استعمال نہ کیا جائے۔

                اور چوتھے یہ کہ‘ اختیارات کے ناجائز استعمال پر اور ناجائز فائدے اٹھانے پر سخت سزائیں دی جائیں‘ جس سے دوسرے لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔

۲۳-         اس معاملے میں مناسب یہ ہو گا کہ عدالتوں کو ’’ضمنی‘‘ لازماً دکھائی جائے‘ تاکہ وہ اس کو دیکھ کر یہ اطمینان کر سکیں کہ پولیس نے ساری کارروائی صحیح طریقے پر کی ہے۔ نیز ملزم کے وکیل کو بھی عدالت کی اجازت سے اسے دیکھنے کا حق دیا جائے۔ اس کے بغیر ان زیادتیوں کا سدباب نہیں ہو سکتا‘ جو پولیس اپنے فرائض کی ادایگی اور اپنے اختیارات کے استعمال میں کرتی ہے۔

۲۴-         اس سوال کا جواب اثبات میںہے۔ حاکم عدالت کی کار کردگی پر یہ ساری چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کی سکونت کا انتظام معقول ہونا چاہیے‘ خواہ اس کے لیے سرکاری عمارت فراہم کی جائے یا اس کو سکونت کے لیے الگ معقول الائونس دیا جائے۔ عدالت کے لیے کام کرنے کی جگہ بھی اچھی اور عدالت کے وقار کے مطابق ہونی چاہیے۔ حاکمانِ عدالت کی تنخواہیں بھی معقول ہونی چاہییں‘ جس سے وہ بے لاگ طریقے سے انصاف کر سکیں اور ہر عدالت کے لیے قانونی کتابوں کا مناسب انتظام ہونا چاہیے۔

۲۵-         آرڈی ننس نمبر۱۲ ‘ ۱۹۷۲ء کے متعلق جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ وہ ایک بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے‘ اس کے متعلق سردست کوئی اظہارِ رائے کرنا مشکل ہے۔

۲۶-         جیوری سسٹم ہمارے ملک میں کامیاب ثابت نہیں ہوا ہے‘ بلکہ انصاف کے کام میں مددگار ہونے کے بجاے اس سے کچھ قباحتیں ہی رونما ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے میں یہ رائے نہیں دے سکتا کہ صوبہ بلوچستان کے نظام عدالت میں اس کو اختیار کیا جائے۔

۲۷-         صوبہ بلوچستان کے حالات کو نگاہ میں رکھ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں خصوصی عدالتوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کن کن خصوصی عدالتوں کی؟ میں چونکہ آپ کے صوبے سے متعلق اتنی تفصیلی معلومات نہیں رکھتا اس لیے نہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس طریقے کو جاری رکھنا چاہیے‘ نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ نہ جاری رکھنا چاہیے۔

۲۸-         ’سمنوں‘ کی تعمیل میںرکاوٹیں جن وجوہ سے پیش آتی ہیں‘ ان کا جائزہ لے کر ان کو رفع کرنے کی ضرورت ہے۔ میری رائے میں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ’سمن‘ کی تعمیل کرانے کی ایجنسی کلی طور پر عدالتوں کے ہاتھ میں ہو۔ کسی دوسری ایجنسی پر اس کا انحصار نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ سمن تعمیل کرانے والے عملے کو مناسب سہولتیں بہم پہنچائی جائیں‘ اور تیسرے یہ کہ اس کام کے لیے دیانت دار آدمیوں کو مقرر کیا جائے اور ان کو معقول تنخواہ دی جائے تاکہ وہ دانستہ سمنوں کی تعمیل سے گریز نہ کریں۔

۲۹-         عدالتوں کو اپنے احکام کے اجرا کے پورے اختیارات دیے جانے چاہییں۔ جہاں ان کا اجرا خود عدالت کے عملے کے ذریعے سے ہو سکتا ہو‘ وہاں اس کے لیے پورے قانونی اختیارات انھیں حاصل ہوں‘ اور جہاں حکومت کے انتظامی عملے کی کسی شاخ کے ذریعے سے ہی ان کا اجرا ممکن ہو‘ وہاں ان کے عدم اجرا کو قانوناً قابلِ گرفت قرار دینا چاہیے۔

۳۰-         اس سوال کا جواب بڑی حد تک سوال نمبر۵ کے جواب میں آ چکا ہے۔ یہاں صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ: عدالت جو بھی ہو‘ اس کے پاس اپنے احکام کے اجرا کے پورے اختیارات ہونے چاہییں اور ایسی مناسب مشینری اس کے پاس ہونی چاہیے‘ جس سے وہ اپنے احکام کو جاری کر سکے۔ جو احکام عدالت کے اپنے عملے سے زائد کسی انتظامی مشینری کی مدد کے محتاج ہوں‘ ان احکام کے اجرا میں حکومت کی انتظامیہ کو از روے قانون تعاون پر مجبور کیا جانا چاہیے اور عدالت سے تعاون نہ کرنا قابل گرفت ہونا چاہیے۔

۳۱‘ ۳۲-سوالات ۳۱‘ ۳۲ کے سلسلے میں مجھے کوئی ایسی بات نہیں کہنی ہے‘ جو پہلے سوالات کے جوابات سے زائد ہو۔

۳۳‘ ۳۴-  پراسیکیوشن( prosecution )کا کام پولیس کے کام سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا کوئی حصہ پولیس سے متعلق نہیں ہونا چاہیے‘ کیونکہ جو prosecuting officer پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ انصاف اور قانون کے بجاے پولیس کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرے گا۔ اس لیے پراسیکیوشن کے شعبے کو پولیس سے الگ ہونا چاہیے اور یہ ایک مستقل محکمہ ہونا چاہیے۔ اس میں تجربہ کار قانون دانوں کو ملازم رکھنا چاہیے۔ ان کی ملازمت مستقل ہو اور جس مرتبے کی عدالت کے لیے کوئی پراسیکیوٹر مقرر کیا جائے‘ اسی لحاظ سے اس کی تنخواہ کا بھی مناسب گریڈ مقرر کیا جائے۔

ابوالاعلیٰ

مولانا سید ابوالاعلیٰ موودیؒ کی شخصیت اور ان کی تحریروں کی اثر آفرینی کا یہ حال ہے کہ اس نے بلوچستان کی تاریخ کا رخ اسلام اور نظریہ پاکستان کی طرف موڑنے میں اپنا ایک مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اس کی اصل حقیقت اسی وقت کھل کر سامنے آ سکتی ہے‘ جب ذرا پیچھے مڑ کر تاریخ بلوچستان میں جھانک کر دیکھا جائے۔

قیام پاکستان سے پہلے جنوب مشرقی ایشیا میں جو سیاسی لہریں اٹھتی رہی ہیں‘ سرزمین بلوچستان بھی ان سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ اسلام کے بخشے ہوئے جذبۂ ایمانی کے بل پر بلوچستان میں بسنے والے مسلمانوں کے رگ و پے میں انگریز دشمنی سرایت کیے ہوئے تھی۔ اس وقت کی سیکولر تحریکوں نے آگے بڑھ کر اپنے مقاصد اور عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے‘ انگریز دشمنی کو ایک حربہ اور وسیلہ بنا کر پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ وہ قدرے کامیاب بھی ہوئیں‘ لیکن اہل بلوچستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے میں بہرحال ناکام رہیں۔ خصوصی طور پر انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی نے اسی راستے سے بلوچستان اور پشتون نوجوانوں میں بااثر سرداروں کے توسط سے بڑی چالاکی سے نفوذ کیا اور پھر اس ساری تحریک جہاد کو‘ جو ان کے بزرگوں نے انگریزوں کے خلاف خالص جذبۂ ایمانی کی بنیاد پر کھڑی کی تھی‘ اسے بلوچوں اور پشتونوں کے قومی تشخص کو بچانے کا رنگ دے دیا گیا۔ اس طرح ان لادینی تحریکوں نے قوم پرستی‘ علاقائیت اور زبان کی بنیاد پر گرم خون کو اپنے مقاصد اور عزائم کی برآوری کے لیے استعمال (exploit) کر کے نوجوانوں کو اسلام کی صراط مستقیم سے ہٹانے اور انھیں اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی۔ اشتراکی کوچہ گردوں نے وہ افسوں پھونکا کہ مسلمان بلوچ اور پشتون نوجوان درآمدہ غیر ملکی افکار و نظریات کے اسیر ہو کر یہ سمجھنے لگے کہ کسی دوسری استعماری طاقت کی غلامی کا قلاوہ اپنی گردنوں میں ڈال لینے کا نام آزادی کا حصول ہے‘ جس کی خاطر سب کچھ نچھاور کر دینا‘ یہاں تک کہ دین و ایمان بھی لٹا دینا عین راہِ صواب ہے۔

بلوچوں اور پشتونوں کا ایک تعلیم یافتہ عنصر بلوچستان کی خدمت کے نام پر صحافت کی مسند بچھاکر پوری یکسوئی اور انہماک کے ساتھ سیکولر نظریات کا پرچار کرنے لگا۔ بلوچستان کے اندر جب نشرواشاعت کی کوئی صورت ممکن نہ رہی تو لاہور‘ دہلی‘ کراچی اور جیکب آباد سے بلوچستان سے متعلق مختلف حوالوں سے مقالے اور مضامین شائع کرنے کے لیے اخبارات و جرائد کا اہتمام کیا گیا۔   دانش وروں کے اجلاس‘ جلسے اور کانفرنسیں اس پر مستزاد تھیں۔ اس زمانے میں لادینی تحریکوں کو مزید آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ زبان‘ علاقے اور قومیت کی بنیاد پر نوجوانوں کا دائرہ مزید وسعت اختیار کرتا چلا گیا اور اس طرح مزید نو خیز ذہن درآمد شدہ ملحدانہ نظریات کا شکار ہوئے۔

۱۹۳۶ء کے دوران عبدالصمد خان اچکزئی مرحوم نے برٹش بلوچستان میں انجمن وطن کی بنیاد رکھی‘ جس کابنیادی مقصد متحدہ قومیت کے نظریے کے مطابق پورے بلوچستان کو ایک صوبے کی حیثیت دے کر اس میں ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح اسمبلی کا قیام تھا۔ ۵ فروری ۱۹۳۷ء کو دربار سبی کے موقع پر میر عبدالعزیز کرد نے ریاست قلات میں سٹیٹ نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھ دی‘ جسے قلات کے قوم پرستوں کی واحد نمایندہ جماعت سے موسوم کیا گیا۔ اس پارٹی کے سرکردہ اگرچہ انڈین نیشنل کانگریس سے متاثر تھے اور بالآخر ۱۹۴۵ء میں انھوں نے اپنی پارٹی کا کانگریس کے ساتھ الحاق بھی کردیا تھا‘ لیکن اس کے باوجود بھی وہ بلوچستان کو ایران اور افغانستان کی طرح ہندستان سے علیحدہ ایک وطن خیال کرتے تھے۔ حالانکہ تاریخی اعتبار سے بلوچستان مسلمانوں کی مملکت کے اندر کابل یا پھر دہلی کے زیر اثر رہا ہے۔ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے رہنما‘ قلات کی حکومت کو بلوچستان اور بلوچوں کی مرکزی حکومت سمجھتے تھے اور قومی بنیادوں پر اس کی تنظیم و ترقی کے خواہاں تھے۔ اس لیے ابتدا میں اپنی تحریک کو ہندستان کی تحریکوں سے علیحدہ رکھ کر قومی‘ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر اپنی جداگانہ تنظیم کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے قیام کے بعد اسی گروہ کی سربرآوردہ شخصیتوں کی یہ انتہائی کوشش رہی کہ ریاست قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے پائے۔ وہ خان قلات پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ قلات کا حکمران ہونے کی حیثیت سے پاکستان سے علیحدہ رہتے ہوئے قلات کی آزادانہ ریاست کا اعلان کر دیں۔

ہند و پاک کی تقسیم سے قبل ۱۹۲۷ء میں پہلی مرتبہ اور اس کے بعد ۱۹۲۹ء میں اپنے ۱۴ نکات میں قائداعظم محمد علیؒ جناح نے ہندستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا‘ تاکہ بلوچستان بھی جملہ صوبائی حقوق حاصل کر کے سیاسی اصلاحات نافذ کر سکے --- خان قلات میر احمد یار خان‘ نواب محمد خان جوگیزئی‘ سردار میر جعفر خان جمالی اور قاضی محمد عیسیٰ کی کوششوں کے نتیجے میں‘ ۱۹۳۹ء میں قلعہ سیف اﷲ کے مقام پر نواب محمد خان جوگیزئی کے ہاں    مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قاضی محمد عیسیٰ کو صدر اور سردار غلام محمد خان ترین کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ ۱۹۴۵ء میں مسلم لیگ: انجمن وطن‘ کانگریس اور جمعیت علماے ہند سمیت تمام چھوٹی بڑی قومیتوں کی بنیاد پر بنی ہوئی تنظیموں کے مقابل ایک طاقتور جماعت کی حیثیت سے آکھڑی ہوئی۔

بلوچستان کی یہ وہ صورت حال تھی جس میں دوسرے تاریخی عوامل کے ساتھ ساتھ‘ مولانا مودودیؒ کی پُراثر تحریروں نے یہاں پر بسنے والی امت مسلمہ کے سرکردہ رہنماؤں کو صحیح سمت میں رہنمائی بہم پہنچائی۔ خطۂ بلوچستان کے اندر‘ تحریک پاکستان کو اس کی منزل تک پہنچانے میں اس مرد خدا مست کی رہنمائی نے ایک نہایت اہم تاریخی کردار انجام دیا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی نے اپنے مضمون ’’حضرت مولانا مودودیؒ ‘‘ میں کیا ہے۔ اس مضمون میں وہ رقم طراز ہیں:

پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو دو قومی نظریہ ایک نعرہ بن گیا۔ مگر اس کی علمی و عقلی توجیہات کسی کے پیش نظر نہ تھیں۔ مسلم لیگی قیادت بھی محض جذباتی نعروں میں بہے چلے جا رہی تھی۔ میرے والد محترم نواب محمد خان جوگیزئی مرحوم بلوچستان سے پہلی دستوریہ ہند کے واحد رکن تھے‘ جن کے ووٹ سے بلوچستان‘ پاکستان میں شامل ہوا۔ میں نے پاکستان کے حق میں انھیں جس قدر ہموار کیا اور جن جن دلائل سے کام لیا وہ علم و عقل کا سارا اسلحہ مولانا ]مودودی[ کی کتب  سیاسی کش مکش‘ سے لایا تھا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب  مسئلہ قومیت نے بھی وہ کام کیا جو ایک تحریک کر سکتی تھی‘‘۔ (ہفت روزہ  چٹان‘ لاہور‘ ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۰ئ‘ ص ۳۲)

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یہ وہ فکری رہنمائی ہے جس نے بلوچستان کی تاریخ کا دھارا اسلام کی طرف موڑنے کاعظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ فکر مودودی نے بالوسطہ اور بلا واسطہ بلوچستان کے مستقبل کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کا تاریخی کام کیا ہے۔ بلاشبہہ آپ کی تحریروں نے بلوچستان کے نو خیز ذہنوں سے کفر‘ الحاد اور تشکیک کے کانٹوں کو ایک ایک کر کے نکالا اور انھیں اسلام کی شاہراہ پر گامزن رکھنے کے لیے فطری اور عملی سامان بہم پہنچایا۔

پاکستان کے ظہور کے وقت ریاست قلات میں ’دیوان عام‘ اور ’دیوان خاص‘ کے نام سے دو ایوان موجود تھے۔ ان دونوں ایوانوں نے چند شرائط کے تحت مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی‘ لیکن حکومت پاکستان نے ان شرائط کو تسلیم نہیں کیا۔ اس دوران مکران‘ لسبیلہ اور خاران کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ بالآخر قائداعظم کی زندگی ہی میں ۲۷مارچ ۱۹۴۸ء کو خان آف قلات میر احمد یار خان نے بھی ریاست قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کر دیا۔

ریاست قلات کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان سے پہلے خان آف قلات میراحمد یار خان نے اس اہم مسئلے پر مولانا مودودیؒ سے رائے اور مشورہ مانگا تھا۔ جس انداز سے مشورہ اور رائے طلب کی گئی تھی‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خان آف قلات‘ مولانا مودودی کی اعلیٰ شخصیت‘ اُن کے علم و فضل اور ان کی اسلامی خدمات کے پہلے ہی سے قائل اور معترف تھے۔

۶ مارچ ۱۹۴۸ء کو جہانگیر پارک کراچی کے جلسۂ عام میں مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے چار نکاتی مطالبۂ نظام اسلامی کی تفصیل بیان کی تھی۔ یہی وہ موقع ہے ‘ جب کہ خان آف قلات جناب میر احمد یار خان نے مولانا قاضی عبدالصمد سربازیؒ کو اپنا دستی مکتوب دے کر کراچی مولانا مودودیؒ کے پاس بھیجوایا تھا۔ یاد رہے کہ مولانا قاضی عبدالصمد سربازیؒ جنوری ۱۹۵۱ء میں ۲۲ نکاتی دستوری خاکہ منظور کرنے والے مختلف مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علما میں سے ایک تھے۔

بلوچستان کے علاقے نصیر آباد کے دیرینہ بزرگ رکن جماعت اسلامی مولانا ماسٹر عبدالرحیم مرحوم نے بہت پہلے یہ بتایا تھا کہ وہ ان دنوں کراچی میں موجود تھے اور یہ واقعہ ان کے سامنے کا ہے۔ خان آف قلات میر احمد یار خان کے مکتوب کا مفہوم انھوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ خط میں تحریر تھا:

پورا بلوچستان دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو حکومت ِ برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور اب پاکستان کا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جسے ریاستِ قلات کہتے ہیں۔ اگرچہ برطانوی دور میں یہ ریاست انگریزوں کے زیر اثر تھی لیکن ہمارے ہاں فیصلے شریعت کے مطابق ہی ہوتے تھے۔ اب بھی ہمارے ہاں قاضی مقرر ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہم پاکستان سے علیحدہ رہتے ہوئے ایک آزاد اسلامی ریاست کا اعلان کر دیں۔ اس معاملے میں ہم آپ کا مشورہ چاہتے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہو گی اگر آپ میرے ہاں قلات تشریف لائیں۔

مولانا ماسٹر عبدالرحیم ؒنے بتایا کہ مولانا مودودیؒ نے اُسی وقت جوابی خط تحریر کیا‘ اور خانِ قلات کو پہنچانے کے لیے مولانا عبدالصمد سربازیؒ کے حوالے کر دیا۔ انھوں نے بتایا کہ مولانا مودودیؒ کا مکتوب مندرجہ ذیل مفہوم پر مبنی تھا:

آزاد ریاست کے اعلان کا میں آپ کو مشورہ نہیں دے سکتا۔ بلوچستان ]معاشی اعتبار سے[ ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ ریاست قلات اس سے زیادہ پسماندہ ہے۔ میں آپ کو مشورہ نہیں دوں گا کہ آپ علیحدگی اختیار کریں اور اس میں تعجیل کریں۔ پاکستان‘ اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اور ہم اس ملک میں اسلام کے قانون کو نافذ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ کی طرف سے علیحدگی کا اعلان کرنے سے حکومت کے ساتھ ٹکرائو پیدا ہوگا جس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہے۔ گرمی کے موسم میں اگر آپ نے یاد کیا تو ان شاء اللہ میں قلات ضرور آئوں گا۔ تفصیلی طور پر بالمشافہہ ملاقات ہو گی۔

بلوچستان کے تاریخی پس منظر میں اس خطے کے ایک فرمانروا‘ سربرآوردہ اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت کو بروقت اور صحیح رہنمائی بہم پہنچا کر سید مودودیؒ نے اس خطے کے اسلامی تشخص کو لادینی عناصر کی دست برد سے محفوظ کر دیا۔ بلوچستان کے اس اہم خطے کو مملکت خداداد پاکستان سے جوڑنے اور اسے نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ کرنے کی سعی سے انھوں نے علیحدگی پسند گروہ کے عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سیکولر ذہن رکھنے والا ایک گروہ انتہائی طور پر کوشاں تھاکہ ریاست قلات کو پاکستان سے بالکل علیحدہ کیا جائے‘ تاکہ اسے مستقل ایک آزاد ریاست کی حیثیت میں رکھ کر اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کے لیے آماج گاہ بنایا جا سکے۔ یوں سید مودودیؒ بلوچستان کے اسلامی تشخص کے محافظ اور معمار دکھائی دیتے ہیں۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دستور ساز اسمبلی سے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے چار نکاتی مطالبہ کیا۔ تاریخ میں اسے مطالبۂ نظام اسلامی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آن کی آن میں اس تاریخی مطالبے کی بازگشت سے پاکستان کے در و دیوار گونجنے لگے۔ بلوچستان جو ہمیشہ اپنے گرد و پیش سے متاثر ہوتا رہا ہے اور برعظیم جنوب مشرقی ایشیا کی تحریکوں کے اس پر اثرات پڑتے رہے ہیں بھلا اپنے ہی ملک کی عظیم شخصیت سید مودودیؒ کی برپا کردہ تحریک سے کیوں کر بیگانہ رہ سکتا تھا‘ جب کہ غیرمنقسم ہندستان میں ہی اس خطے پر سید مودودی کے اثرات ان کی تحریروں کی وساطت سے براہ راست پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد تو یہاں جماعت اسلامی کا باقاعدہ نظم قائم کیا گیا تھا۔ چنانچہ وادیِ بولان کے دشت وجبل بھی مطالبۂ نظامِ اسلامی کی بازگشت سے گونجنے لگے تھے۔

بیس ماہ کی طویل قید ]اکتوبر ۱۹۴۸ء - مئی ۱۹۵۰ئ[ سے رہائی پانے کے بعد سید مودودیؒ پہلی مرتبہ اگست ۱۹۵۰ء میں کوئٹہ تشریف لائے۔ لیاقت پارک میں ایک بہت بڑے جلسے سے آپ نے خطاب فرمایا۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کی بنا مطالبۂ نظامِ اسلامی کو دہرایا۔ اسی دورے میں آپ پشین بھی تشریف لے گئے جہاں مرکزی جامع مسجد میں آپ نے ایک مرتبہ پھر پُرزور طریقے سے اسلامی دستو راور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔

جنوری ۱۹۵۱ء میں کراچی میں مختلف مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے ۳۱ علما کے اجتماع سے فارغ ہونے کے بعد فروری کے مہینے میں آپ سبّی دربار کے موقع پر سبّی تشریف لائے‘ اور یہاں بھی پرانی عیدگاہ میں جلسہ ٔ عام کے اندر حکومت سے اسلامی دستور کا مطالبہ کیا۔ یہ وہ موقع تھا جب کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی سبّی کے اس تاریخی جشن میں آئے ہوئے تھے۔ سبّی کی دیواریں اس مطالبے کے پوسٹروں سے چھپی ہوئی تھیں اور کارکنوں کے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے مظاہروں سے پوری فضا ’’اپنا مقصد اپنی منزل‘ اسلامی دستور‘‘ کے نعرۂ مستانہ سے معمور تھی۔

پھر دارورسن کی منزلوں سے گزر کر جون ۱۹۵۵ء میں مردِ حق آگاہ تیسری مرتبہ بلوچستان آیا۔ کوئٹہ اور وادیٔ زیارت میں کم و بیش ایک ماہ گزارا۔ اس طرح کہ ہر سو حق کی روشنی بکھیرتا رہا۔

 ایوب خان کے مارشل لا سے پہلے دو مرتبہ ‘یعنی اکتوبر ۱۹۵۷ء اور ستمبر ۱۹۵۸ء میں آپ پھر کوئٹہ تشریف لائے۔ اور آخری مرتبہ ۱۹۶۲ء میں چھٹی بار آپ بلوچستان تشریف لائے۔

آپ کی آمد کا ہر موقع عشق و مستی کی داستان اور عرفان و معرفت کا الگ الگ مفصل باب ہے۔ اس طرح سید مودودیؒ نے بہ نفس نفیس خود یہاں آ کر اس خطے کے تشخص کو اسلام سے ہم کنار کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور دل و نگاہ کو لادینی عناصر کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کا سامان      بہم پہنچایا۔ خطہ ٔ بلوچستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت‘ نگرانی اور نشوونما کا یہ وہ پہلو ہے ‘جس کے لیے مرشد مودودیؒ نے برسرزمین خود آکر اس کی آبیاری کی ہے۔

جب پاکستان دولخت ہو گیا‘ مغربی پاکستان میں بلوچستان سمیت صوبائی حکومتیں بن چکیں تو اس موقع پر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ ان دنوں سابق امیرجماعت اسلامی بلوچستان ‘مولانا عبدالعزیز بیمار تھے۔ چنانچہ انھوں نے ایک نوجوان ساتھی کو اپنا نمایندہ بنا کر شوریٰ میں بھجوایا۔ اس نوجوان نے صوبہ بلوچستان کے حالات شوریٰ کے سامنے بیان کیے۔ مولانا مودودی خاموشی سے سنتے رہے۔ جب بیان ختم ہوا تو مولانا محترم نے فرمایا: ’’صوبہ بلوچستان کے موجودہ حالات کے متعلق میرے ذہن میں جو نقشہ تھا اس کی تفصیل شوریٰ کے سامنے اس نوجوان نے رکھ دی ہے‘‘۔

مولانا محترم کے اس تبصرے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بلوچستان کے معاملے میں بیدار تھے۔ اس خطے کے اتار چڑھائو سے وہ پوری پوری واقفیت رکھتے تھے۔ پوری صورت حال کا نقشہ ان کے ذہن میں محفوظ رہتا تھا۔ فکر تھی تو بس اتنی کہ بلوچستان کے اسلامی تشخص کو مزید کس طرح مستحکم کیا جائے اور اسے اغیار کی چیرہ دستیوں سے بچانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات اور پاکستان کے مشرقی بازو کے کٹ جانے کے بعد ۲ مئی ۱۹۷۲ء کو ۲۱ارکان پر مشتمل بلوچستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی وجود میں آئی۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی وزارتِ اعلیٰ میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماے اسلام کی مخلوط صوبائی حکومت تشکیل پائی‘ جس نے ۱۵جولائی ۱۹۷۲ء میں جسٹس فضل غنی کی سربراہی میں بلوچستان قانون کمیشن بٹھایا‘ جس میں ۱۰اصحاب علم و دانش کو شامل کیا گیا۔ اس قانون کمیشن کی غرض و غایت یہ تھی کہ صوبہ بلوچستان میں دیوانی اور فوجداری عدالتوں کے نظام کو جو بیک وقت متعدد قوانین کے تحت چل رہے ہیں‘ ان میں یکسانیت کیسے پیدا کی جائے۔ اس کے لیے کمیشن نے ۳۴ سوالات پر مبنی ایک سوال نامہ جاری کیا تھا‘ تاکہ عوام و خواص اس بارے میں اپنی آرا اور مشورے کمیشن کو دے سکیں۔ اپنی ناسازی طبع اور پیرانہ سالی کے باوجود مولانا مودودی نے انتہائی محنت کر کے اسلامی قانون کی روشنی میں ان سوالات کے جوابات مرتب کر کے بلوچستان قانون کمیشن کو بھجوائے‘ اس طرح ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے اسلامی تشخص کے محافظ اور معمار کی حیثیت سے رہنمائی فرمائی‘ تاکہ خطۂ بلوچستان کی تاریخ میں وہ رنگ بھر دیں جسے صبغۃاللہ ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان کی پسماندگی‘ معاشی بدحالی‘ قوم‘ زبان اور علاقے کی بنیاد پر سیکولر تحریکوں کے پیدا کردہ تعصبات وہ اسباب تھے‘ جن کی وجہ سید مودودی ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔ آخری زمانے میں ان کی فکرمندی میں مزید اضافہ اس صورت حال سے ہوا‘ جب روسی استعمار دریاے آمو کو پار کرکے بلوچستان کے شمال مغربی پہاڑوں کے عقب میں افغانستان آ پہنچا۔ لیکن ان کی یہ فکرمندی‘ آشیاں بندی کے لیے تھی۔ انھوں نے اپنے فکر و نظر سے خطہ ٔ بلوچستان کے اسلامی تشخص کو محفوظ بھی کیا اور اس کے نشوونما کا سامان بھی خود بہم پہنچایا۔ اس لیے انھیں قطعاً یہ ڈر نہیں تھا کہ کوئی بیرونی لادینی نظریہ یہاں شبِ خون مار سکے گا۔

۵- اے ذیلدار اچھرہ‘ لاہور میں بلوچستان سے آنے والے ایک نوجوان نے مرشد مودودی سے پوچھا: ’’بلوچستان کے حالات دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بھر کے سوشلسٹوں کا زور بلوچستان پر صرف ہو رہا ہے۔ کیا یہ امر تشویش ناک نہیں؟‘‘

مرشد مودودی کے سامنے بلوچستان کا ماضی اور حال ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں تھا۔ انھوں نے عصر حاضر میں اس خطے کے اسلامی تشخص کو قائم رکھنے‘ اسے نشوونما دینے اور اغیار کی چیرہ دستوں سے اسے بچانے کے لیے بیش قیمت خدمات انجام دی تھیں۔ اس لیے نوجوان کے سوال کو انھوں نے بغور سنا اور جواب میں فرمایا:

ہم وہاں کے حالات سے کبھی بے خبر نہیں رہے۔ مولانا عبدالعزیز مرحوم ہمارے بڑے قیمتی رفقا میں سے تھے‘ انتہائی مخلص انسان تھے اور اپنے علم و تقویٰ کی بدولت خاص مقام رکھتے تھے۔ وہ برابر ہمیں وہاں کے حالات بتاتے رہے۔ کم و بیش ۲۰سال پر پھیلی ہوئی ان تفصیلات نے ہمیشہ اپنے ملک کے اس حصے سے باخبر رکھا۔ ہم نے وہاں کی نئی نسل کو سوشلزم سے بچانے کے لیے جو کام کیا ہے وہ جاری ہے اوران شاء اللہ جاری رہے گا۔ پاکستان کا کوئی حصہ سوشلزم کے لیے نہیں ہے۔ آپ دیکھیں گے جب ضرورت پیش آئے گی تو اس ملک کے ہر حصے کے نوجوان -- پوری قوم ایک جسدِ واحد کی طرح اٹھ کھڑی ہو گی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس قوم میں ابھی بہت خیر باقی ہے۔ تشویش کی کوئی بات نہیں‘ ہاں بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ (ہفت روزہ آئین‘ لاہور‘ ۱۷ جنوری ۱۹۸۰ئ)

بلوچستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت و نگرانی اور اس کی آبیاری و تعمیر اور پہلے کی طرح آج بھی لادینی تحریکوں کا مقابلہ اور ان کی ذہنی بنیادوں پر تیشہ زنی‘ سید مودودیؒ کی تحریروں ہی سے کی جاسکتی ہے‘ جن میں قوم پرستی‘ سیکولرزم‘ اشتراکیت‘ سرمایہ داری‘ مغربی جمہوریت‘ لسانیت اور علاقائیت کے اصل چہروں سے نقاب کشائی کی گئی ہے‘ تاکہ نسلِ نو ان مکروہ چہروں کو اچھی طرح پہچان لے۔ ایمان و آگہی کے مقابلے میں وہ لادینی افکار اور ملحدانہ نظریات ہیں جو نوجوانوں کی خودی کو دیمک کی طرح چاٹ کر ختم کر دینا اور ان کے دین و ایمان کو غیروں کی چوکھٹ کی بھینٹ چڑھا دینا چاہتے ہیں۔ آج بھی ان لادینی نظریات کی اگر کاٹ ہے تو وہ ’’مودودی بابا‘‘ کی نالۂ نیم شبی میں ڈوبی ہوئی حقیقت پر مبنی اور ایمان افروز تحریروں ہی کی صورت میں موجود ہے۔

سیکولرزم کے نظری اور اعتقادی زہر کا تریاق بس اگر ہے تو اسی حکیمِ دوراں کے پاس ہے‘ جسے خلقت سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام سے جانتی ہے!