اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ انھیں مُردہ نہ کہو‘ ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں‘ مگر تمھیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ (البقرہ ۲: ۱۵۴)
مجلہ پرابودھیا (Prabodhaya) جسے جماعت اسلامی سری لنکا‘ سنہالا زبان میں شائع کرتی ہے‘ یااس کے تامل ایڈیشن الحسناتکی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت یاد آجاتی ہے۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ کے چھوڑے ہوئے نقوش پا اور اثرات حسنہ‘ کی قدم قدم پر شہادت ملتی ہے۔ اگرچہ وہ ایسی سرزمین پر رہتے تھے جو سری لنکا سے بہت دُور ہے‘ اور ان کی اکثر تصانیف بھی اُردو زبان میں ہیں‘ اس کے باوجود ہمارے جذبے ان کی زندگی اور ان کے کارہاے نمایاں سے زندگی‘ حرارت اور تحریک پاتے رہیں گے۔ یہ صرف سری لنکا ہی کا معاملہ نہیں‘ ساری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ یہی قصہ ہے۔ یہ مولانا مودودی علیہ الرحمہ جیسے لوگوں کی روح پرور تصانیف کا نتیجہ ہے کہ اسلام دشمن پروپیگنڈے کے زبردست حملوں کے باوجود آج کے مسلمان‘ اپنے ایمان اور عقیدے میں پہلے سے زیادہ مضبوط اور پختہ ہیں۔
بیسویں صدی ایک ایسا دور تھا جب اسلام دشمن پروپیگنڈا زوروں پر تھا۔ اس پروپیگنڈا مہم کا پیش رو (spearhead) مغربی سامراج تھا۔ اس صدی میں برطانوی نو آباد کار دنیا کے بیش تر حصے پر حکمران تھے اور اس میں برعظیم ‘ جنوب مشرقی ایشیا کا علاقہ بھی شامل تھا‘ جسے انگریز ’تاج برطانیہ کا ہیرا‘ کہا کرتے تھے۔ سامراجی بھیڑیوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسلام کی تصویر مسخ کر کے لوگوں کو اس سے بدکنے پر مجبور کریں۔ مسلمانوں اور دوسری قوموںکو اپنا مطیع فرمان بنا لیں۔ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے دین اسلام پر ہر پہلو سے حملہ شروع کیا۔ ان کے دانش ور تن دہی سے اس کام میں جتے ہوئے تھے کہ اسلام کو ایک پس ماندہ مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جائے‘ جو دورِجدید کے تقاضوں کو قطعاً پورا نہیں کرتا۔ انھوں نے ’جہاد‘ کے اعلیٰ و ارفع تصور کو بھی مسخ کر کے پیش کیا اور اسے غیر مسلموں کے خلاف ’مقدس جنگ‘ کے طور پر اجاگر کیا۔ انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ اسلام تو تلوار کی طاقت سے پھیلا ہے۔ اسی طرح انھوں نے اسلام کے بارے میں اور بھی بہت سی غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش کی۔ اور تو اور انھوں نے اپنی مذموم کوششوں کا دائرہ یہاں تک بڑھا دیا کہ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی کردار کشی کی بھی کئی طرح سے جسارت کی۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب میں اسلام پر جو تصانیف منظر عام پر آئیں‘ ان کا بغور مطالعہ ا ن کے اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے انتقامی ذہن اور بغض کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
برعظیم میں اس نوعیت کی اسلام دشمن فضا کے پس منظر میں‘ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کرشماتی شخصیت کا ظہور ہوا‘ جن کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین مصلحین سید قطب شہیدؒ اور حسن البنا شہیدؒ جیسی شخصیتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ احیاے اسلام کے لیے مولانا مودودیؒ کی کاوشوں اور کوششوں کا موازنہ گیارھویں صدی عیسوی میں امام غزالی ؒ کے کارناموں سے کیا جا سکتا ہے‘ جنھوں نے اس وقت کے عرب دانش وروں میں پھیلے ہوئے نو افلاطونی (Neo-Platonic) فلسفے کے اثرات کا ابطال کیا اور اس فلسفے کو عقلی سطح پر غلط ثابت کیا۔ لیکن یہاں پر یہ فرق ملحوظ رہے کہ امام غزالی ؒ نے جس دور میں زندگی گزاری‘ وہ مسلمانوں کی حکمرانی کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان کے برعکس مولانا مودودیؒ کو جس عہد میں جدوجہد کرنا پڑی‘ وہ مسلمانوں کے زوال اور پستی سے عبارت تھا۔ مسلمان سیاسی‘ معاشی اور عقلی طور پر کمزور پڑ چکے تھے۔ سامراجی طاقتوں نے مسلمانوں کی اس کمزوری اور بے بسی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی ثقافت اور اقدار کو مسلمانوں پر بزور ٹھونسنا شروع کر دیا تھا۔ عثمانی سلطنت‘ جو مسلمانوں کی حکمرانی کے تسلسل کا آخری مظہر تھی‘ انھی دنوں منظر سے غائب ہوئی تھی۔ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں کمیونسٹوں کے زیر اثر آچکی تھیں اور افریقہ اور ایشیا کے اکثر ممالک مغربی نو آباد کاروں کے زیر تسلط تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں میں کہیں اتحاد نظر نہیں آتا تھا۔ مسلمانوں کی کوئی آواز نہیں تھی۔
مغربی استعمار کی بازی گری نے جو چیلنج مسلمانوں کے لیے پیدا کر دیا تھا‘ اس کا جواب دینے کے لیے ان میں کوئی حوصلہ اور عزم نظر نہیں آتا تھا۔ اس کے برعکس مارکس ازم بڑی تیزی سے رخنے بناتا ہوا مسلمانوں کی صفوں کے اندر تک گھستا چلا آ رہا تھا۔ وہ مسلمان نوجوانوں کو بڑی مہارت سے اپنے ترقی پسند قوت ہونے کا چکمہ دے کر‘ ان کے ذہنی بگاڑ کا باعث بن رہا تھا۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت تھی کہ بہت سے مسلمان نوجوان‘ سامراج سے لڑائی لڑتے ہوئے‘ مارکس ازم کے پھندے میں گرفتار ہو گئے تھے۔
مولانا مودودیؒ نے ان حالات میں قلم اٹھایا اور ان سارے اجنبی اثرات کا اپنی تحریروں کے ذریعے کامیابی سے مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور فضل سے مولانا مودودیؒ نے ان تمام باطل نظریات کا ابطال کیا اور اسلام کی اصل تعلیمات اس طور سے لوگوں کے سامنے لائے کہ اسلام کا ایک کامل ضابطہ ٔ حیات ہونا ثابت ہو گیا۔ اپنے دور کے بہت سے مسلمان مصنفین کے برعکس مولانا مودودیؒ کا لہجہ کبھی معذرت خواہانہ یا مرعوبانہ نہیں رہا۔ انھوں نے اسلام کو اس کی خالص اور اصل شکل میں پیش کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی سوء فہمی (fallacies) بھی واضح کر دی‘ جو بزعم خود ’ترقی پسند‘ بنے پھرتے تھے‘ خواہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار ہوں یا مارکس ازم کے پرچارک یا فاشزم کے طرف دار!
ان سارے باطل نظریات کے خلاف مولانا مودودیؒ کا جہاد بنیادی طور پر قلم کے ذریعے تھا۔ ایک سو کے لگ بھگ قابل قدر تصانیف اور دورِ جدید کے چیلنج کے مطابق قرآن مجید کی معرکہ آراتفسیر‘ تفہیم القرآن لکھی۔ جس کی تکمیل میں ۳۰ سال کی محنت شاقہ اور تحقیق و جستجو صرف ہوئی‘ نیز ترجمان القرآن کی اشاعت‘ جس کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ہوا۔ یہ وہ عہد ساز ماہ نامہ ہے‘ جس کا مقصد‘ اشاعتِ دین اسلام میں مولانا مودودیؒ کے کام کے تسلسل کو برقرار رکھنا تھا۔ یہ سب مولانا مودودیؒ کے اس اخلاص اور لگائو کی روشن مثالیں ہیں‘ جو انھیں اپنی زندگی کے نصب العین سے تھا‘ یعنی خدمت ِ اسلام اور پیغامِ اسلام کی اشاعت۔ مشہور نو مسلم خاتون محترمہ مریم جمیلہ نے مولانا مودودیؒ کی زندگی اور کارناموں کو اپنے بے مثال اسلوب میں یوں سمیٹا ہے:
مولانا مودودیؒ کے علم اور معلومات کا دائرہ حیران کن ہے۔ ہم ان سے تقریباً ہر موضوع پر کلام کر سکتے ہیں‘ خواہ وہ مذہب ہو یا فلسفہ‘ سیاسیات ہو یا معاشیات‘ فنون لطیفہ ہوں یا سائنس۔ ہر موضوع پر مولانا مودودیؒ کی رائے جچی تلی‘ دانش سے بھرپور اور دل پذیر ہو گی۔ ان کی ذات میں وسیع علم کے ساتھ ساتھ ایک بے مثل عقلی توازن بھی موجود ہے۔ وہ کبھی جذبات کو دلیل اور عقل پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جدوجہد بیک وقت کئی محاذوں پر ہے‘ پس ماندگی کے خلاف اور جدیدیت (Modernity) کے خلاف‘ اور بلاامتیاز اڑیل قدامت پرستی کے خلاف۔ وہ محض لکھنے اور تبلیغ کرنے پر قانع نہیں ہیں‘ بلکہ جو کچھ انھوں نے نظری سطح پر کہا‘ اسے عملی طور پر کر کے دکھانے کو اپنی ذمہ داری جانتے ہوئے جماعت اسلامی کی تشکیل کی‘ جو آج دنیا کی سب سے بڑی‘ سب سے منظم‘ طاقت ور اور متحرک ترین اسلامی تنظیم ہے۔
تحریک جماعت اسلامی نے‘ جس کا آغاز مولانا مودودیؒ نے بالآخر اسلامی ریاست کے قیام کے مقصد کے پیش نظر کیا تھا‘ دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ اپنی زندگی ہی میں مولانا مودودیؒ اس کی شاخیں یورپ میں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کو ایسے دل نشین انداز میں پیش کیا کہ وہ مخالفین کے دلوں میں بھی گھر کرتی چلی جاتی ہیں۔ مجھے آج بھی ۱۹۷۶ء میں انگلستان میں منعقدہ ’’ورلڈ آف اسلام فیسٹی ول‘‘ یاد ہے‘ جس کا نقطۂ عروج ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس تھی‘ جو رائل البرٹ ہال لندن میں منعقد ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے مجھے بھی اس کانفرنس میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ تحریک احیاے اسلام اس کے ساتھ ہی ایک نئے عہد میں داخل ہو گئی۔ اس ’فیسٹی ول‘ نے سائنس‘ ریاضی‘ فن تعمیر‘ طب‘ علم ہیئت اور جغرافیہ جیسے شعبوں میں عالمی تہذیب میں مسلمانوں کے حصے اور کارکردگی کو نمایاں طور پر لوگو ں کے سامنے پیش کیا۔
احیاے اسلام کی تحریک میں مولانا مودودیؒ کا حصہ حقیقتاً بہت زیادہ ہے۔ آج دنیا بھر میں بلندپایہ یونی ورسٹیوں کے اندر طلبہ اور دانش ور مولانا مودودیؒ کی تحریروں پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن سمیت ان کی تصانیف‘ بیسیوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ خود سری لنکا میں تفہیم القرآن‘ سنہالا زبان میں ترجمہ کی جا رہی ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آج دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مسلم گھرانا ہو جہاں ان کی کم از کم کوئی ایک کتاب موجود نہ ہو۔
مولانا مودودیؒ جیسی ممتاز ہستی اس سے کہیں زیادہ ہماری توجہ کی حق دار ہے‘ جتنی توجہ ماضی میں ان کو دی جاتی رہی ہے۔ اس حوالے سے میں پروفیسر خورشید احمد کی زیر قیادت کام کرنے والی ٹیم کی کوششوں کو سراہتا ہوں‘ جو سال ۲۰۰۳ء کو مولانا مودودیؒ کا یادگاری سال قرار دے کر‘ مولانا کی خدمات کو لوگوں کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔
آخر میں‘ میں بڑی عاجزی سے یہ تجویز پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ مولانا مودودیؒ کے نام پر اسلامی فکر کا ایک ادارہ بنایا جائے‘ جس کے ذریعے مولانا کے علمی ورثے کو محفوظ کیا جا سکے‘ اور اسلامی علوم میں تحقیق کے لیے سہولت مہیا کی جا سکے اور جو دعوت کے کام کے لیے ایک عالمی فورم کا کام بھی دے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے اور آپ کو ان میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین!