مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دینی خدمات کا ایک نہایت درخشاں باب مسلم عورت کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔ مولاناؒ کی گراں قدر علمی‘ سیاسی‘ تنظیمی خدمات کا تذکرہ اور اعتراف تو کسی نہ کسی سطح پر ہوتا ہی ہے‘ لیکن مسلم عورت پر مولاناؒ کی فکری رہنمائی کے دور رس نتائج کا جائزہ کماحقہ لینا باقی ہے۔
برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی استعمار کی غلامی کے مابعد اثرات نے جہاں ایک طرف دیسی فرنگیوں کی ایک کھیپ بااثر اور مقتدر طبقات میں پیچھے چھوڑی‘ وہاں ’’آزادیِ نسواں اور شانہ بشانہ‘‘ کے بیج بھی ساتھ ہی بو دیے ۔ جس ماحول میں ہماری نسل نے آنکھ کھولی تھی‘ اس میں شریف‘ دین دار خاندانوں کی بیٹیاں بھی تعلیمی اداروں میں خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں تھیں۔ تعلیم اور کیریئر میں جی داری سے لپکنے والی یہ وہ نسل تھی‘ جو روایتی میٹرک‘ ایف اے‘ بی اے سے آگے بڑھ کر بہت کچھ کر گزرنے کی خواہاں تھی۔ ’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر‘ کی کیفیت تو ہر دور ہی میں پائی جاتی ہے۔ یہاں بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک جانب تو خاندانی شرافت‘ دین داری کی روایتی یا جامد روایات تھیں اور دوسری جانب تعلیم کے میدان میں بڑھتا پھیلتا مقابلے کا رحجان‘ جو اپنے ساتھ کالجوںاور یونی ورسٹیوں کی فضا میں آزادی کے تمام تر لوازم لیے ہوئے تھا۔
ایسے ماحول میں جب کبھی کسی مذہبی مجلس کا رخ کیا‘ وہاں پر عورت کے حوالے سے ایک نہایت محدود اور گھٹی ہوئی سوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے خشمگیں نگاہوں سے لباس کو گھورا اورکسی نے تعلیمی میدان میں عورت کے بگٹٹ دوڑنے کی صلواتیں سنائیں۔ سر جھکا کر ہانڈی روٹی‘ چولہا سنبھالنے‘ بچے پالنے اور شوہر کی اندھی بلکہ غیر مشروط اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے جنت پا لینے کو عورت کی معراج بتایا۔ ایسا نہ کرنے پر جہنم کی ہولناک عذاب کی وعیدیں قبر کے سانپ بچھو -- مذہب کے حوالے سے جدھر رخ کیا طبیعت پر ہول طاری ہو گیا‘ اور اُسی طرح ٹھیک ہے‘ کی کیفیت لیے پیچھے ہٹتی رہی۔ حتیٰ کہ جدید تعلیم سے آراستہ علماے کرام نے بھی پس پردہ خواتین سے خطاب کیا تو اس دل پذیر تقریر میں شوہر کے حقوق کی فہرست تھمائے بغیر نہ اٹھنے دیا۔ گویا پڑھی لکھی‘ ’’حقوق زدہ اور شانہ بشانہ‘‘ کے مرض میں مبتلا عورت کے مرض کا مداوا کہیں نہ تھا۔ طبیعت کے اندر سے وعدۂ الست کی پکار شور مچاتی -- راستہ پوچھتی -- جواب نہ پا کر مایوسی سے چپ رہ جاتی۔
اسی اثنا میں اسلامی جمعیت طالبات نے یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ ابتدا میں تو کالے کالے برقعے دیکھ کر وہی جہالت کا دورہ پھر پڑ جاتا‘ تاہم دعوت کی حکمت‘ تحمل اور صبر نے آہستہ آہستہ رنگ دکھایا۔ ایک دن پیغام آیا کہ مولانا مودودیؒ اور ان کی بیگم اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ ان سے ملاقات اور سوال و جواب کی نشست رکھی گئی ہے‘ چلیے۔ مروت میں ساتھ دیا‘ تصور ہی تصور میں ایک تنگ نظر‘ وعیدیں داغنے والے مولوی صاحب اور ان کی سخت گیر قدامت پسندی کی تصویر والی بیگم کا نقشہ طبیعت کو ہولائے دے رہا تھا۔ پاکستان کی جدید ترین یونی یورسٹی کی تعلیم کا خمار بھی ہمراہ تھا۔ مگر جب کمرے میں قدم رکھا تو ایک نہایت نفیس اور شائستہ خاتون سے تعارف ہوا: ’’آپ ہیں‘ بیگم مولانا مودودی‘‘۔ میں انھیں دیکھتے ہی حیرت زدہ سی رہ گئی کہ دینی شخصیات ایسی بھی ہو سکتی ہیں۔ اجلا لباس‘ شائستہ اطوار‘ عمدہ گفتگو! ایک رعب کا ہالہ مسحور کر گیا۔ مولاناؒ کی شخصیت‘ مدلل اور دانش ورانہ گفتگو سے سابقہ تو بعد میں پیش آیا۔ سچی بات ہے کہ مولاناؒ کی اہلیہ محترمہ ہمیں پہلے ہی مسخر کر چکی تھیں۔ دل کے دروازے پر یہ شعوری اسلام کی پہلی دستک تھی۔ دیکھنے والے نے تو شاید ام عبداﷲؓ کے شوہر کی مانند یہی کہا ہو: ’’خطّاب کا گدھا تو ایمان لا سکتا ہے مگر عمر نہیں‘‘ -- لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا ایک حیات بخش جھونکا وعدۂ الست کی پکار کی تشنگی کوراہ دکھا گیا۔
اس کے بعد تفسیر سـورۂ نور‘ خلافت و ملوکیت‘ رسائل و مسائل نے طبیعت پر مولاناؒ کی تحریروں کا سحر طاری کر دیا۔ تفہیم القرآن کا مقدمہ اور دیباچہ پڑھ کر تو یوں لگا کہ یہ لکھا ہی میرے لیے گیا تھا۔ ان تحریروں کے دلائل کے سامنے اندر کی باغی عورت ہتھیار ڈالتی چلی گئی۔ چلانے والے انگلی پکڑ کر چلاتے رہے‘ کایا کب پلٹی ؟تصورات کب بدلے ؟ لڑکپن کے وہ مشاغل جنھیں چھوڑنے کا تصور روح فرسا تھا‘ ان کی روح تفہیم القرآن نے کب سلب کر لی؟ یہ سب مولاناؒ کی تحریروں کی کرشمہ سازی تھی۔ مولانا مودودیؒ جب تفسیر میں بیالوجی [حیاتیات] کے حقائق بیان کرتے تو اس میں اتنی جامعیت اور کاملیت (perfection) ہوتی‘ کہ یوں محسوس ہوتا کہ لکھنے والے محترم اسکالر شاید ہمارے ہی شعبے سے فارغ التحصیل ہیں۔ ہر موضوع سے متعلق بات میں تفہیم کا حق ادا کر دیا کہ حقیقتاً اسے اسمِ باسمٰی کہیے۔ تحریر میں ان تمام اوصاف کا یکجا ہو جانا کہ مشکل مضامین کو سادہ‘ شگفتہ اور آسان انداز میں بیان کر دیا جائے یوں کہ زبان کا حسن‘ روانی اور معیار بھی برقرار رہے‘ مولاناؒ کی تحریروں کا خاصہ ہے۔
عورت کے وجود اور مسائل کے حوالے سے مولاناؒ کا انداز بے انتہا مؤثر اور دل پذیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولاناؒ نے قرآن اور شارح اولینؐ ہی کے انداز میں عورت کی دنیا کو دیکھا‘ سمجھا اور بیان کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے عورت کو الگ اس کی چھوٹی سی دنیا کی ڈبیا میں بند کر کے اس پر تالا ڈال دینے کا وہ طریقہ نہیں اپنایا‘ جو برعظیم جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا میں بیان کردہ اسلام یا مقامی روایات کا خاصہ تھا۔
قرآن اول تا آخر مرد اور عورت دونوں کو یکساں خطاب کرتا ہے۔ توحید‘ رسالتؐ، جنت دوزخ‘ اعمال دونوں اصناف (genders) کو ایک ہی انداز میں پڑھائے سکھائے جاتے ہیں۔ اﷲ کی رضا کی طلب‘ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع مرد‘ عورت دونوں کے لیے یکساں نصاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چشم ہوش سے پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ بھی اور نبی رحمت صلی اﷲ علیہ و سلم بھی -- عورت کو تقدس‘ احترام اور وقار کے پیرائے میں انگلی پکڑ کر گھر لیے جاتے ہیں۔ملکہ بنا کر‘ قدموں تلے جنت بچھا کر‘ ننھے منے بچوں کی محبت کی میٹھی پھوار چار سو برسا کر فطری انداز میں عورت کو اس کام میں یوں مصروف کر دیتے ہیں کہ عورت سے منسوب روایتی کج روی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ مرد کے سر پر قوامیت کا تاج سجا کر اسے بوجھوں تلے یوں لاد دیتے ہیں اور اُسے عورت کی ناز برداری پر یوں مامور کر دیتے ہیں کہ عورت ’’بغاوت‘‘ کی چوکڑی بھول کر سجدۂ شکر بجا لاتی ہے۔ باصلاحیت عورت کے لیے سیدہ عائشہؓ اور سیدہ ام سلمہؓ کی سیرت میں بہترین نمونۂ عمل سامنے آتا ہے۔ یہی نسخہ سید مودودی علیہ رحمتہ نے استعمال کیا۔ سید مودودیؒ نے عورت کی زندگی کو قرآن سے جوڑ دیا۔ سیرت طیبہؐ کے اسباق بھی اسے اُسی طرح پڑھائے گئے جیسے مردوں کو -- ہر سطح کی عورت نے اسے حسب صلاحیت سیکھا‘ سمجھا اور عمل پیرا ہوئی‘ بلکہ قرآن و سنت سے براہ راست جوڑ دینے اور اپنے لٹریچر میں اسی پوری روح کو اتار دینے کی بنا پر انھوں نے سادہ دیہاتی عورت کو بھی عالم فاضل بنا دیا۔
مولاناؒ کی کتب کا یہ سدابہار اثر کہ آج ۵۰‘۶۰سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے پر بھی یوں تروتازہ ہیں -- ہر سطر حال کی خوشبو دیتی ہے جو آج بھی روشن اور رہنما ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کتب میں ‘قرآن کے پیغام و ابلاغ کا جوہر موجود ہے۔ وہ قرآن جو کبھی پرانا نہیں ہوتا‘ جس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے‘ جسے تخیلات کبھی غلط راستے پر نہیں لے جا سکتے اور زبانیں جس میں آمیزش نہیں کر سکتیں (بحوالہ حدیث‘ ترمذیؒ)۔ مولاناؒ نے قرآن کریم کے اعجاز کے سائے میں اور اسی قرآن کی زبان میں عصرِحاضر کی عورت کے دل اور روح کی دنیا کو اسی طرح اپیل کیا‘ جس طرح قرآن حکیم نے کل سیدہ ام حبیبہؓ، سیدہ ام سلمہؓ، سیدہ خدیجہؓ کے من کی دنیا کومسخرکیا تھا۔
اگرچہ یہ جملہ عام قاری کو لگے گا تو بڑا عجیب‘ لیکن اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ لکھنے میں کوئی مبالغہ محسوس نہیں ہوتا کہ مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے استفادہ کرنے والی تحریکی خواتین اپنے ایمان‘ اپنے ایثار‘ اپنی کمٹ منٹ‘ حد درجے کے توازن‘ دور اندیشی کے باعث نظام حکومت چلانے کی صلاحیت مروجہ سیاست دانوں سے زیادہ رکھتی ہیں۔ تحریک میں ملکی اور عالمی سیاست پر بسا اوقات سادہ سادہ خواتین اتنے پیچیدہ اور گہرے سوالات کر گزرتی ہیں کہ جو ان میں پائی جانے والی دانش وری کی خبردیتی ہے۔ جیسے مولانا مودودیؒ نے چند کتابوں میں دنیا بھر کے علوم گھول دیے ہوں۔
آج بھی ملک بھر میں تعلیم یافتہ خواتین میں دینی فہم کے ساتھ درس و تدریس کے حلقوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ بڑے شہروں میں ان حلقہ ہاے قرآنی کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ بلا مبالغہ رحمت کے یہ تمام چشمے اسی ایک فکر سے پھوٹے ہیں‘ چاہے آپ انھیں جس نام سے بھی جانیں۔ گلاب کو کوئی بھی نام دیں: گل‘ گلاب یا روز‘ ہے تو وہ گلاب ہی۔ اسی طرح قرآن کی تعلیم و تدریس کے ان تمام فعال حلقوں کے آخری سرے سید مودودیؒ ہی کی تعلیم و تربیت سے جا ملتے ہیں‘ خواہ جماعت اسلامی ہو یا تحریک اسلامی کے حلقہ ہاے خواتین‘ اسلامی جمعیت طالبات ہو یا تنظیم اساتذہ خواتین‘ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ویمن ونگ ہو یا الہدیٰ انٹرنیشنل کا نفوذ -- -یا بے شمار انفرادی کاوشیں۔ یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دیگر دینی جماعتوں نے بھی مولانا مودودیؒ کے طریق کار سے متاثر ہو کر خواتین میں باضابطہ کام اور تنظیم کی بنیاد رکھی۔ وگرنہ مولانا مودودیؒ کے ہاں پائے جانے والے عورتوں میں تحریک و تنظیم کے تصور سے پہلے‘ ہمارے مذہبی حلقوں میں خواتین کے لیے اجتماع اور تنظیم سازی کا کوئی تصور تک موجود نہ تھا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ کی براہ راست رہنمائی میں تیار ہونے والی خواتین نے تعلیم یافتہ خواتین کے ہر طبقے میں نفوذ کیا ہے: اساتذہ‘ ڈاکٹر -- ادیبات اور مصنفات -- خواتین کی صلاحیتوں کو ہر شعبۂ زندگی میں اسلام کی روشنی میں کار آمد بنایا گیا۔ یہاں تک کہ الحمدللہ! آج باعمل مسلم خواتین کا ایک ہراول دستہ اپنی اصل: گھر‘ بچے‘ شوہر‘ خاندان سے وابستہ رہتے ہوئے بھی اسلام کے لیے اپنی قوتیں اور صلاحتیں وقف کیے ہوئے ہے۔ مولاناؒ کے اس انداز فکر کی روشنی نے صرف پاکستانی مسلم عورت ہی کو متاثر نہیں کیا‘ بلکہ مولاناؒ کی تحریروں کے عربی تراجم عرب خواتین کی اور انگریزی تراجم مغربی ممالک میں نو مسلم خواتین کی بھی اسی انداز میں رہنمائی کر رہے ہیں۔ مولانا مودودی مرحوم کے جنازے کے بعد جب نیویارک ایرپورٹ سے اُن کا جسد خاکی پاکستان روانہ ہوا تو وہاں پر نو مسلم خواتین نے رخصت کرتے ہوئے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا تھا:
’’بہن‘ وہ صرف تم لوگوں ہی کے تو نہیں تھے‘ ہم پر بھی ان کے احسانات کچھ کم نہیں ‘‘!