عامرہ احسان


آج پوری دنیا میں بے چینی، بے قراری، انتشار اور نفسیاتی عوارض روز افزوں ہیں۔ پوری دنیا جنگوں کا جہنم زار ہے۔ گھر ہوں یا خاندان، دفاتر ہوں یا کاروبار، سیاسی جماعتیں ہوں یا اقوام، کھینچا تانی کے مناظر چھائے نظر آتے ہیں۔ عالمی سطح پر جنگوں میں درندگی ، انسانی اقدار کی تباہی کسی بھی ذی حس، ذی شعور کے ہوش گم کر دینے کے لیے کافی ہے۔ انسان کو انسان کے ہاتھوں پہنچنے والے دُکھ اور اذیتیں ناقابل بیان، ناقابلِ یقین ہیں۔ خُودکُشی کرنے والے محض معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور نہیں، بلکہ بڑی تعداد تو معاشی اور سائنسی سطح پر نہایت ترقی یافتہ ممالک (جاپان، امریکا) کے لوگوں کی ہے، جو مال، دولت ، شہرت ، تعلیم کی بلندترین سطح پر پہنچ کر بھی اپنی ذات کی داخلی دُنیا کے خلا کے ہاتھوں اپنی جان لے لیتے ہیں۔ کتوں، بلیوں، مچھلیوں ، بندروں کے حقوق کے غم میں گھلنے والے تو بہت سے لوگ اور ادارے پائے جاتے ہیں، لیکن انسانوں کو خوفناک کیمیائی بموں سے تباہ کرنے، وحشیانہ قتل عام کرنے اور بستیاں جلانے والے ہاتھوں کو روکنے والے کہیں نظر نہیں آتے، بلکہ عالمی قیادت، ویٹو کلب یا جی سیون (G7)یک جا ہو کر درندگی کی پشت پناہی کی منصوبہ بندی کرتی ہے!

اس تمہید میں پائے جانے والے ہوش ربا منظرنامے کی وجہ عورت ہے! ٹھہریے! یہ نہ کہیے کہ عورت کو ہر معاملے میں موردِ الزام ٹھیرانا اپنی جگہ بڑا ظلم ہے، مگر بقول اقبال:

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں       فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور

دراصل عصرِحاضر کی عورت خود ایک کٹھ پتلی بن چکی ہے۔ ہوس پرست مردوں اور عالمی حیا باختگی کے سوداگروں نے گذشتہ دو صدیوں سے انسانیت کو اُس عورت سے بتدریج محروم کیا ہے،   جو ’مادرِ انسانیت‘ تھی۔ آج بن ماں کے سسک سسک اور ٹھوکریں کھا کھا کر پلتے انسانوں کی تشنہ، ناپختہ، کج رو اور نفسیاتی بیماریوں کی ماری شخصیت کے ہاتھوں دنیا ابتر ہوئی پڑی ہے۔ انسانی بچہ سب سے زیادہ محنت، توجہ، بے پناہ محبت اور شفقت کا محتاج ہوتا ہے۔ اسے برائلر چوزوں کی طرح بلبوں کی روشنی، مصنوعی خوراک اور ٹیکوں کے ذریعے پال پوس کر چھوڑ دینا شرفِ انسانیت کی نفی ہے۔ صاحب ِکردار اور اعلیٰ اقدار کا فرد تیار کرنے کے لیے بے پناہ عرق ریزی، خون جگر ، صبر و ایثار  درکار ہوتا ہے۔ مضبوط محفوظ گھر کی چاردیواری میں ہمہ گیرو ہمہ پہلو محبت، دل داری گھونٹ گھونٹ اندر اُتارنے کی ضرورت ہوتی ہے ___ پاکیزہ گفتگو، مہذب آوازوں ، اخلاق و کردار کی مہک  ننھے بچے کے کانوں اور مساموں تک میں جگہ بناتی ہے۔ آنکھیں پاکیزہ مناظر سے روشنی پاتی ہیں۔ لقمۂ حلال جزوِ بدن بنتا ہے۔ گردوپیش میں موجود ہر انسانی رشتہ پوری یکسوئی اور یک رنگی سے بچے کو پروان چڑھانے میں ہم آہنگ ہو، اخلاق و کردار کی آکسیجن فراواں ہو، تو انسان پرورش پاتے ہیں۔  دم گھونٹ دینے والی مسموم فضاؤں، کان کے پردے پھاڑتی موسیقی کی تانوں، تیز جھگڑالو آوازوں کے ہنگاموں اور نفسانی خواہشات کے بگولوں میں انسان کا بچہ نہیں پل سکتا۔ مہذب، شائستہ، نرم خو، متوازن اور مضبوط کردار کے انسانوں کی دنیا پروان نہیں چڑھ سکتی۔

معاشروں کی رہبری کرنے اور روشنی کا مینار بننے والے انسانوں کی جو فراوانی مسلم تاریخ کا قابلِ فخر سرمایہ ہے___ اس کی نظیر دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جس کام کا آغاز وحی الٰہی کی روشنی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جاںفشانی اور دل سوزی سے ہوا تھا، اسے اُمت کی ماؤں نے تھام کر شخصیت سازی کی ذمہ داری اُٹھائی تھی۔ جس کے لیے اسلام نے عورت کو بے پناہ تحفظ، تقدس اور احترام دیا تھا۔ اس کے قدموں تلے جنت رکھی تھی ’ شرف میں مشت ثریا سے بڑھ کے خاک اس کی!‘ انسانی صفات سے لہلہاتی سرسبزوشاداب فصل جو صحابہ و صحابیات (رضوان اللہ علیہم) کی صورت میں اُٹھی تھی، اس نے رہتی دنیا تک کے لیے سیرت سازی کا نمونہ فراہم کیا تھا۔ مسلم گھرانے بچے کی اٹھان، تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے گہوارے بن گئے تھے۔ گئے گزرے اَدوار میں بھی یکایک کوئی تراشا ہوا ہیرا سامنے آتا اور منظر بدل جاتا ۔ مال و دولت کی فراوانی میں ڈوبتے اُبھرتے بنواُمیہ کے دورِ بادشاہت میں عمر بن عبدالعزیزؒ اٹھتے ہیں اور ہوائیں فضائیں اس کردار کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہیں۔ کبھی نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی جیسے رجال، اُمت کی تقدیر بدلنے کو میسر آجاتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر آبادی سے اسی نبویؐ فارمولے کے تحت انسان سازی بروے کار آتی رہی اور بہار کے مناظر لہلہا اٹھتے رہے۔ یہ تو دورِ حاضر کی بدنصیبی ہے کہ دنیا بھر میں بلاشرکت غیرے اقتدار و اختیار ایسے گروہوں اور مافیا کے ہاتھ آگیا کہ جس کے بعد انسان بنانے کی فیکٹریوں پر تالے پڑ گئے۔ جان لیجیے اس فیکٹری کی کارپرداز ہستی (عورت) ہر جگہ موجود ہے۔ چوراہے پر ٹریفک کنٹرول کرنے، دکان پر سوداگری کرنے، ٹیلی ویژن سکرین پر دل لبھانے، سیاست کی گدی پر جوڑ توڑ کرنے اور جنگی جہازوں سے چھلانگ لگانے تک! کیا ان مقامات پر عورت موجود نہیں ___ ؟ مگر قرار اور وقار سے ٹِک کر انسان سازی جیسی اعلیٰ و ارفع، نفع بخش اور اہم ترین ذمہ داری سے طویل رخصت پر غائب ہے! خود بھی بے در، بے گھر ، بے سکون اور انسانی معاشرے بھی تباہی کا شکار!

یہ طوفان مغرب میں تباہی لاکر آج آخری انتہا پر پہنچ چکا ہے اور عورت بند گلی میں بے دست و پا۔ مغربی مرد نے عورت کو اتنا عریاں، اتنا سستا، اتنا فراواں اور ہر جگہ ٹکے بھاؤ میسر کر دیا ہے کہ اب خود مرد کا دل بھی اس سے بے زار ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر جا سر چڑھی اور برابری کی دعوے دار، ’مردانہ وار عورت‘ اپنی کشش کھو چکی ہے۔ ان معاشروں میں نسوانی عورت موجود نہیں۔ دراصل آج وہاں مردوں پر ہی مشتمل آبادیاں ہیں، تمام کی تمام حقیقی مردوں اور مصنوعی مردوں سے آباد! پیدایشی مرد اور مردانہ لباس میں ملبوس مردانہ عورت یا پھر اعصاب شکن فاحشہ، برہنہ عورت! معاشرہ اپنا حسن، رنگ روپ، مروت ، ایثار، تحمل ، برداشت، شفقت اور رافت کھو چکا ہے۔ معاشرے کا ایک خوب صورت منظر ننھے منے بچے ہوا کرتے ہیں۔ جو اُداس اور تھکے ماحول میں راحت، زندگی اور اُمید بھر دیتے ہیں___ چہچہاتے، کھلکھلاتے، بھاگتے، دوڑتے اور کلکاریاں بھرتے بچّے، مگر آج ان کی جگہ سارے منظر پر باقاعدہ پالتو کتّے چھا چکے ہیں: غراتے، بھونکتے،  دُم ہلاتے، رال ٹپکاتے! ’وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ!‘ اس رنگ میں کتّے بھنگ ملاچکے ہیں اور تصویر کائنات، انسانیت کے بہتے خون سے لہولہان ہو چکی ہے۔ جا بجا انسانوں کی جلی ہوئی، بموں سے چیتھڑا بنی لاشیں پڑی ہیں!

گورے مردوں نے عورت کو جس سفر پر ڈالا تھا، اس میں وہ مامتا کے مقام سے نکل کر مردکی سفلی ہوس میں رگیدی ’کمفرٹ گرل‘ اور ’سپائس گرل‘ بننے کے راستے پر چل نکلی۔ یوں نام نہاد مغربی معاشروں نے انسانیت کے منہ پر کالک ملی۔ عالمی جنگوں میں صرف کروڑوں انسانی جانوں کا خون ہی نہیں کیا بلکہ عورت کو بھی بے طرح پامال کیا۔ عورت کو صنعتی انقلاب کے بعد معاشی دوڑ میں لاکھڑا کیا۔ گھر کو خود کار بنانے کے لیے ایجادات ، مصنوعات کے ڈھیر لگا دیے اور تمام گھریلو اُمور کی انجام دہی مشینی بنا دی۔ دوسری جانب خود عورت کو گھر اور بچوں سے باہر کی دنیا میں پیسہ کمانے، اور ساتھ ساتھ ضمنی طور پر دل لبھانے والی مشین بنا دیا۔ بازاروں میں فروزن سبزیاں ، پکے ہوئے کھانے، چٹنیاں، ڈبل روٹیاں، برگر وغیرہ سب ارزاں ہوئے۔کپڑے اور برتن دھونے کی مشینیں عورت کی نذر کیں اور دل نواز آواز میں پکارا: ’’بس، اب تم گھر سے نکل آؤ۔ میرے ساتھ رہو، جدھر نظر اٹھاؤں، تمھارے وجود کا رنگ آنکھوں کو رونق بخشے۔ خوراک کے ذائقے کی کمی برداشت کر لوں گا، مگر تم گھر کی قید سے نکلو اور میرے ساتھ رہو___ ترقی اور آزادی، حقوق اور مساوات کے پُرفریب نعروں پہ آزادیِ نسواں کی تحریک پروان چڑھی اور پھریرے لہراتی پوری دنیا پر چڑھ دوڑی:

تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ امومت

ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت

مغرب کے بعض اربابِ نظر بھی بہت چیخے چلائے تھے، لیکن ’دقیانوسیت‘ کی پھبتی کَس کر انھیں نکّو بنا دیا گیا، اور جدیدیت کی رنگینیوں کی جگمگاہٹوں نے ذہن ماؤف کر ڈالے۔ مرد و زن کو یکساں تعلیم و تربیت دی۔ فنونِ لطیفہ کے نام پر تہذیب کی بدترین کثافتوں کی دلدل میں عورت کو دھکیل دیا۔ مردانہ وار تعلیم کی مصروفیت اور مرد سے مسابقت کے شوق نے ماں، ممتا اور بچے کے لطیف جذبات کو کچل کر رکھ دیا۔اولاد کی فطری خواہش کو سر اُٹھانے سے پہلے کچل دیا گیا۔ اسقاطِ حمل کی سہولتیں فراواں ہوئیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کی ایجادات و مصنوعات نے انسانیت کش سامان فراہم کیے۔ ایک مسئلہ مخلوط تعلیم اور ہمہ گیر اختلاط سے حرام بچوں کی آمد کا تھا، جسے روکنے کو کم عمری میں جنسی تعلیم او ر تعلیمی اداروں میں فیملی پلاننگ کی ضروریات کی فراہمی کا بندوبست ہوا۔ ان ’حفاظتی‘ اقدامات کے لیے ادارے بنے، اور ’ڈے کیئر‘ کی آیاؤں نے پرائے بچے پالنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ سوسال کے اندر اندر نانیاں، دادیاں ملازمتوں اور پھر اپنی دوستیاں نبھانے میں یوں بے پناہ مصروف ہوئیں کہ بچے کرائے پر پلنے لگے۔ اگلی نسل میں بچے بھی کرائے پر پیدا ہونے لگے۔ بچے پیدا کرکے دینے کی نوکری بھی ایجاد ہو گئی۔ کھیل کے میدانوں میں ’شانہ بشانہ‘ نے رہی سہی نسوانیت بھی ختم کر دی۔ اب عورت نسوانیت، حیا، لطافت، تحمل، صبر، عمیق جذبات اور قدرت کی ودیعت کردہ پرورش اولاد کی خاطر جذباتیت کھوچکی۔

یہ مرد نُما قسم کی مخنث عورت، فطری کشش کھو کر مدمقابل مخلوق بن چکی۔ اس کے سر چڑھے پن کے ہاتھوں وضع ہونے والی قانون سازیاں، شادی کے مقدس بندھن کو مرد کے استحصال کا ایک آلہ قرار دے چکی۔ مرد طلاق دیتا ہے تو عمر بھر کی پونجی گنوا بیٹھتا ہے۔ شوہر کو بلااجازت قربت کا حق بھی نہ رہا اور اس مقصد کے لیے خوف ناک اصطلاحیں وجود میں لائی گئیں۔ عورت عشوے، غمزے اور حیا کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے اشتہاری جنس کا ایک آلہ بن کر رہ گئی۔ قصاب کی دکان پر لٹکے گوشت کی مانندعورت کے جسم کا ہرہرحصہ بکتا یا صنعتی اشیا کی فروخت کا حوالہ بن چکا تھا۔ کہیں سالم اور کہیں شانے، دستی، پائے، ران کے دام الگ الگ وصول کرتی، بل بورڈوں پر چڑھی، فلم اور فیشن کو تارے دکھاتی عورت اپنے ٹیلنٹ اور آزادی کا اظہار کررہی ہے۔ایسی حیا باختہ عورتوں کا نام ’ستارہ‘ (Star)اور بڑی ’شخصیت یا فنکارہ‘ (Celebrity) قرار پایا۔ دوسری طرف عورت ہی سے بیزاری شروع ہو گئی کہ کھلونے کی طرح کھیل لیا، پھینک دیا اور طبیعت کو اُکتاہٹ ہونے لگی۔ مرد نے عورت پر تین حرف بھیج کر بحرِمُردار سے ملعون تہذیب نکالی اور اس سے اخذ کیا: مرد سے مرد کی شادی اور ضد میں عورت کی عورت سے شادی۔ یہ قانون بن گئے۔ شکست خوردہ مذہبیت کے بے آباد، مگر سجے سجائے چرچوں سے بھی اجازت مل گئی! پھر مردوزن نے حقیقی کتے، کتیوں اور جانوروں سے شادی کرنے کے ’جرأت مندانہ‘ قدم اُٹھائے۔ جاپان اور یورپ میں بڑی بڑی گڑیاؤں (ڈمیوں) سے شادی اور    ان اشیا کے جگمگاتے اسٹور۔ بچوں کے لیے اگر بہت جی چاہا تو نامعلوم والدین کے بچے لے لیے۔

درحقیقت نسوانیت کی اسی موت نے خود انسانیت کو موت کی تاریک وادیوں میں دھکیل دیا ہے۔ عورت ایک برہنگی زدہ، کریہہ منظرنامے کے کردار کی مانند پھر رہی ہے۔ لاکھوں فحش سائٹس،    مکروہ ترین ایجادات کا حصہ ہیں اور اربوں ڈالر کی صنعت ہے۔ ماں کے ہاتھ سے پکے اور خوشبودار مہکتے غذائیت سے بھرپور کھانوں کی جگہ فاسٹ فوڈ بھی موت ہی کی سوداگری ہے۔(ہمارے ہاں اسی کلچر پر مرمٹنےکا جادو سر چڑ ھ کر بول رہا ہے، اور بازاری کھانوں میں اب گدھے کا گوشت، مردار مرغیاں اور کیا کچھ مزید نہیں کھایا کھلایا جا رہا۔)

 آج یہ ساری بدنصیبی، گلوبل ویلج کے بن ماں کے پلے بدمست چودھریوں کے ہاتھوں دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل چکی ہے۔ پاکستان بھی اس کی زد میں ہے۔ اور اب تو سعودی عرب بھی کھل کھیل کر ’زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے‘ کی شاہراہ پر آن کھڑا ہورہا ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں پاگل پن کی بدحواسیاں۔ توبہ توبہ! عورت پر بے حیائی، بے حجابی مسلط کرنا ’انسداددہشت گردی‘ (Counter Terrorism) کا تیر بہدف نسخہ قرار پایا۔ مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کو دھتکارتے امریکیوں کی رضا اور خوش نودی کی خاطر سندھ پولیس نے (CTD) سیمی نار منعقد کرکے ۴۰ یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کو اکٹھا کیا۔ مل بیٹھنے اور سرجوڑنے کے بعد توپوں کے سارے دہانے اسلام ، دروسِ قرآن، دینی تربیت، حجاب، نقاب، داڑھی پر گولہ باری کے لیے کھول دیے۔ اِکا دکا میزائل نوجوان طلبہ و طالبات کو ایمان اور حیا سے روکنے کے اقدامات اور فرامین کی صورت صادر فرمائے۔ ’لبرل ترقی پسندانہ‘ رویوں اور رجحانات کی حوصلہ افزائی کرنے کا حکم جاری ہوا۔ پہلے ہی تعلیم او ر تعلّم کا گلا گھونٹ کر یونی ورسٹیاں اور کالج رنگ و خوشبو میں غرق، عشق عاشقی اور عیاشی پروان چڑھانے کے اداروں میں ڈھل رہے ہیں۔ جا بجا طالبات جنسی ہراسانی کے عذاب میں مبتلا ہیں، خود اپنے اساتذہ کے ہاتھوں!ہم کیسے بدنصیب ہیں کہ بگٹٹ انھی راہوں پر آج دین ایمان سے منسوب اپنی شناخت بھلائے دوڑے چلے جا رہے ہیں کہ جن راہوں پر چل کر مغربی ممالک  تباہ ہوئے ہیں۔ طلاق کی شرح ہمارے ہاں بھی خوف ناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔ عورت دیوانہ وار تلاش معاش میں بھاگی دوڑی چلی جارہی ہے اور بچے رُل رہے ہیں۔ ایسے میں کردار سازی کہاں___ ! بچے سسک سسک کر عدالتوں میں خلع طلاق کے کیسوں میں جدا ہوتے۔ ماں باپ کو دیکھتے اور چیخ چیخ کر پکارتے ہیں:

’گھر‘ توڑنے والے دیکھ کے چل ، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’نیک بندے ایک ایک کرکے دنیا سے گزرتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ کچرے کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا جیسے کھجور یا جو کا کچرا۔ اللہ اس بات کی پروا نہ کرے گا کہ انھیں کس وادی میں ہلاک کرے‘۔ آج دُنیا اس کچرے کا ڈھیر بنی   نظر آتی ہے۔ اسے کچرادان بنانے میں جہاں نیکوکاروں کے اٹھ جانے بلکہ لاتعلقی کا حصہ ہے،  وہیں پر دنیا کو اس حال تک پہنچانے میں عورت کی بے قراری اور بے وقعتی کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ اس کا علاج ___ ؟ وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی! اپنی ماؤں میں سیّدہ مریمؑ ، سیّدہ ہاجرہؑ ، سیّدہ خدیجہؓ، سیّدہ فاطمہؓ جیسا پاکیزہ مامتا بھرا اسوہ لوٹانے کی ضرورت ہے۔ یہی حج اور عمروں کا حاصل ہے۔ یہی ہمارا رول ماڈل ہے۔ قوم ماں کی گود سے پل کر نکلتی ہے:

بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن

ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت

اولاد کو فتنۂ دجال کی آندھیوں سے بچانے کے لیے پروں کے نیچے چھپا کر پالیے۔ کم تر معیارِ زندگی پر برتر معیارِ بندگی کو شعار بنائیے۔ میڈیا کے مسموم و مذموم اثرات سے بچائیے۔  قرآن و سنت ر گ و پے میں اتارئیے۔ پورے اعتماد سے مومنین و مومنات، قانتین و قانتات بنا کر پالیے۔ معترضین دیوانی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی بات پر کان نہ دھریے! کہاں اسلام کی حیادار، عفت مآب محفوظ پاکیزہ عورت! اور کہاں مغربی معاشروں کی رگیدی بے وقعت عورت، بھوکی نگاہوں کے داغوں بھری چیچک زدہ عورت ؎     چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دینی خدمات کا ایک نہایت درخشاں باب مسلم عورت کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔ مولاناؒ کی گراں قدر علمی‘ سیاسی‘ تنظیمی خدمات کا تذکرہ اور اعتراف تو کسی نہ کسی سطح پر ہوتا ہی ہے‘ لیکن مسلم عورت پر مولاناؒ کی فکری رہنمائی کے دور رس نتائج کا جائزہ کماحقہ لینا باقی ہے۔

برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی استعمار کی غلامی کے مابعد اثرات نے جہاں ایک طرف دیسی فرنگیوں کی ایک کھیپ بااثر اور مقتدر طبقات میں پیچھے چھوڑی‘ وہاں ’’آزادیِ نسواں اور      شانہ بشانہ‘‘ کے بیج بھی ساتھ ہی بو دیے ۔ جس ماحول میں ہماری نسل نے آنکھ کھولی تھی‘ اس میں شریف‘ دین دار خاندانوں کی بیٹیاں بھی تعلیمی اداروں میں خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں تھیں۔ تعلیم اور کیریئر میں جی داری سے لپکنے والی یہ وہ نسل تھی‘ جو روایتی میٹرک‘ ایف اے‘ بی اے سے آگے بڑھ کر بہت کچھ کر گزرنے کی خواہاں تھی۔ ’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر‘ کی کیفیت تو ہر دور ہی میں پائی جاتی ہے۔ یہاں بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک جانب تو خاندانی شرافت‘   دین داری کی روایتی یا جامد روایات تھیں اور دوسری جانب تعلیم کے میدان میں بڑھتا پھیلتا مقابلے کا رحجان‘ جو اپنے ساتھ کالجوںاور یونی ورسٹیوں کی فضا میں آزادی کے تمام تر لوازم لیے ہوئے تھا۔

ایسے ماحول میں جب کبھی کسی مذہبی مجلس کا رخ کیا‘ وہاں پر عورت کے حوالے سے ایک نہایت محدود اور گھٹی ہوئی سوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے خشمگیں نگاہوں سے لباس کو گھورا اورکسی نے تعلیمی میدان میں عورت کے بگٹٹ دوڑنے کی صلواتیں سنائیں۔ سر جھکا کر ہانڈی روٹی‘ چولہا سنبھالنے‘ بچے پالنے اور شوہر کی اندھی بلکہ غیر مشروط اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے جنت پا لینے کو عورت کی معراج بتایا۔ ایسا نہ کرنے پر جہنم کی ہولناک عذاب کی وعیدیں قبر کے سانپ بچھو -- مذہب کے حوالے سے جدھر رخ کیا طبیعت پر ہول طاری ہو گیا‘ اور اُسی طرح ٹھیک ہے‘ کی کیفیت لیے پیچھے ہٹتی رہی۔   حتیٰ کہ جدید تعلیم سے آراستہ علماے کرام نے بھی پس پردہ خواتین سے خطاب کیا تو اس دل پذیر تقریر میں شوہر کے حقوق کی فہرست تھمائے بغیر نہ اٹھنے دیا۔ گویا پڑھی لکھی‘ ’’حقوق زدہ اور شانہ بشانہ‘‘ کے مرض میں مبتلا عورت کے مرض کا مداوا کہیں نہ تھا۔ طبیعت کے اندر سے وعدۂ الست کی پکار شور مچاتی -- راستہ پوچھتی -- جواب نہ پا کر مایوسی سے چپ رہ جاتی۔

اسی اثنا میں اسلامی جمعیت طالبات نے یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ ابتدا میں تو کالے کالے برقعے دیکھ کر وہی جہالت کا دورہ پھر پڑ جاتا‘ تاہم دعوت کی حکمت‘ تحمل اور صبر نے آہستہ آہستہ رنگ دکھایا۔ ایک دن پیغام آیا کہ مولانا مودودیؒ اور ان کی بیگم اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ ان سے ملاقات اور سوال و جواب کی نشست رکھی گئی ہے‘ چلیے۔ مروت میں ساتھ دیا‘ تصور ہی تصور میں ایک تنگ نظر‘ وعیدیں داغنے والے مولوی صاحب اور ان کی سخت گیر قدامت پسندی کی تصویر والی بیگم کا نقشہ طبیعت کو ہولائے دے رہا تھا۔ پاکستان کی جدید ترین یونی یورسٹی کی تعلیم کا خمار بھی ہمراہ تھا۔ مگر جب کمرے میں قدم رکھا تو ایک نہایت نفیس اور شائستہ خاتون سے تعارف ہوا: ’’آپ ہیں‘ بیگم مولانا مودودی‘‘۔ میں انھیں دیکھتے ہی حیرت زدہ سی رہ گئی کہ دینی شخصیات ایسی بھی ہو سکتی ہیں۔ اجلا لباس‘ شائستہ اطوار‘ عمدہ گفتگو! ایک رعب کا ہالہ مسحور کر گیا۔ مولاناؒ کی شخصیت‘ مدلل اور دانش ورانہ گفتگو سے سابقہ تو بعد میں پیش آیا۔ سچی بات ہے کہ مولاناؒ کی اہلیہ محترمہ ہمیں پہلے ہی مسخر کر چکی تھیں۔ دل کے دروازے پر یہ شعوری اسلام کی پہلی دستک تھی۔ دیکھنے والے نے تو شاید ام عبداﷲؓ کے شوہر کی مانند یہی کہا ہو: ’’خطّاب کا گدھا تو ایمان لا سکتا ہے مگر عمر نہیں‘‘ -- لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا ایک حیات بخش جھونکا وعدۂ الست کی پکار کی تشنگی کوراہ دکھا گیا۔

اس کے بعد تفسیر سـورۂ نور‘ خلافت و ملوکیت‘ رسائل و مسائل نے طبیعت پر مولاناؒ کی تحریروں کا سحر طاری کر دیا۔ تفہیم القرآن کا مقدمہ اور دیباچہ پڑھ کر تو یوں لگا کہ یہ لکھا ہی میرے لیے گیا تھا۔ ان تحریروں کے دلائل کے سامنے اندر کی باغی عورت ہتھیار ڈالتی چلی گئی۔ چلانے والے انگلی پکڑ کر چلاتے رہے‘ کایا کب پلٹی ؟تصورات کب بدلے ؟ لڑکپن کے وہ مشاغل جنھیں چھوڑنے کا تصور روح فرسا تھا‘ ان کی روح  تفہیم القرآن نے کب سلب کر لی؟ یہ سب مولاناؒ کی تحریروں کی کرشمہ سازی تھی۔ مولانا مودودیؒ جب تفسیر میں بیالوجی [حیاتیات] کے حقائق بیان کرتے تو اس میں اتنی جامعیت اور کاملیت (perfection) ہوتی‘ کہ یوں محسوس ہوتا کہ لکھنے والے محترم اسکالر شاید ہمارے ہی شعبے سے فارغ التحصیل ہیں۔ ہر موضوع سے متعلق بات میں تفہیم کا حق ادا کر دیا کہ حقیقتاً اسے اسمِ باسمٰی کہیے۔ تحریر میں ان تمام اوصاف کا یکجا ہو جانا کہ مشکل مضامین کو سادہ‘ شگفتہ اور آسان انداز میں بیان کر دیا جائے یوں کہ زبان کا حسن‘ روانی اور معیار بھی برقرار رہے‘ مولاناؒ کی تحریروں کا خاصہ ہے۔

عورت کے وجود اور مسائل کے حوالے سے مولاناؒ کا انداز بے انتہا مؤثر اور دل پذیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولاناؒ نے قرآن اور شارح اولینؐ ہی کے انداز میں عورت کی دنیا کو دیکھا‘ سمجھا اور بیان کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے عورت کو الگ اس کی چھوٹی سی دنیا کی ڈبیا میں بند کر کے اس پر تالا ڈال دینے کا وہ طریقہ نہیں اپنایا‘ جو برعظیم جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا میں بیان کردہ اسلام یا مقامی روایات کا خاصہ تھا۔

قرآن اول تا آخر مرد اور عورت دونوں کو یکساں خطاب کرتا ہے۔ توحید‘ رسالتؐ، جنت دوزخ‘ اعمال دونوں اصناف (genders)  کو ایک ہی انداز میں پڑھائے سکھائے جاتے ہیں۔ اﷲ کی رضا کی طلب‘ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع مرد‘ عورت دونوں کے لیے یکساں نصاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چشم ہوش سے پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ بھی اور نبی رحمت صلی اﷲ علیہ و سلم بھی -- عورت کو تقدس‘ احترام اور وقار کے پیرائے میں انگلی پکڑ کر گھر لیے جاتے ہیں۔ملکہ بنا کر‘ قدموں تلے جنت بچھا کر‘ ننھے منے بچوں کی محبت کی میٹھی پھوار چار سو برسا کر فطری انداز میں عورت کو اس کام میں یوں مصروف کر دیتے ہیں کہ عورت سے منسوب روایتی کج روی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ مرد کے سر پر قوامیت کا تاج سجا کر اسے بوجھوں تلے یوں لاد دیتے ہیں اور اُسے عورت کی ناز برداری پر یوں مامور کر دیتے ہیں کہ عورت ’’بغاوت‘‘ کی چوکڑی بھول کر سجدۂ شکر بجا لاتی ہے۔ باصلاحیت عورت کے لیے سیدہ عائشہؓ اور سیدہ ام سلمہؓ کی سیرت میں بہترین نمونۂ عمل سامنے آتا ہے۔ یہی نسخہ سید مودودی علیہ رحمتہ نے استعمال کیا۔ سید مودودیؒ نے عورت کی زندگی کو قرآن سے جوڑ دیا۔ سیرت طیبہؐ کے اسباق بھی اسے اُسی طرح پڑھائے گئے جیسے مردوں کو -- ہر سطح کی عورت نے اسے حسب صلاحیت سیکھا‘ سمجھا اور عمل پیرا ہوئی‘ بلکہ قرآن و سنت سے براہ راست جوڑ دینے اور اپنے لٹریچر میں اسی پوری روح کو اتار دینے کی بنا پر انھوں نے سادہ دیہاتی عورت کو بھی عالم فاضل بنا دیا۔

ابتدائی دور کے محسوسات میں سے ایک دو واقعات ذہن پر گہرا تاثر چھوڑ گئے:

  • یونیورسٹی کی چار سالہ تعلیم ]ایم ایس‘ ایم فل‘ باٹنی[ مکمل کر کے درس کے حلقوں میں تازہ وارد ہوئی تھی۔ علم لاکھ عجز سکھانے کی کوشش کرے پھر بھی بلا اختیار احساس تفاخر تو کہیں نہ کہیں سر اٹھاتا ہی ہے۔ ایک خاتون درس دینے کے لیے بیٹھیں‘ فیصل آباد کے کسی نواحی گاؤں سے سادہ سی عورت -- دل نے سوچا: ’آج تو دن ضائع ہی ہوا‘۔ خاتون نے درس شروع کیا۔ ان کی عظمت بڑھتی پھیلتی گئی -- اپنا قد چھوٹا ہوتے ہوئے ذرۂ ناچیز رہ گیا --- قرآن اور تفہیم القرآن ایک سادہ دیہاتی عورت کے داخلی وجود کو چھوکر کندن بنا چکے تھے اور دنیاوی ڈگریوں کی زیب و زینت کا گاؤن         ] عباے علمی[ تار تار تھا۔ یہ تھا سید مودودیؒ کی تحریروں کا روح پرور جھونکا‘ جس نے عورت کو پرکاٹ کر چادر اور چار دیواری ہی کا پہاڑہ پڑھا پڑھا کر محدود نہ کیا‘ بلکہ سادہ سادہ خواتین کو دشمنان اسلام کے عالمی ایجنڈوں کی فہم و فراست بھی عطا کر دی۔
  • ایسے ہی ایک اور موقع پر پڑھی لکھی نوجوان خواتین کا سٹڈی سرکل چل رہا تھا۔ ایک دیہاتی چادر اوڑھے خاتون بھی ان میں سے ایک کی ہمراہی تھیں۔ سٹڈی سرکل ختم ہوا۔ خاتون سے تعارف چاہا۔ پتا چلا کہ گاؤں میں واجبی سی تعلیم حاصل کی لیکن کہانیاں پڑھنے کا شوق خوب تھا۔ اسی شوق میں ایک دن دیمک کی کھائی ہوئی خطبات‘ ہاتھ لگ گئی۔ پڑھی اور پڑھتی چلی گئیں۔ اس کے بعد شہر سے مولاناؒ کی دیگر کتابوں کا پتا کروایا اور منگوائیں۔ لفظ جوڑ جوڑ کر پڑھتیں اور جب خود مشکل لگتی‘ کسی سے مدد لیتیں۔ اسی ایک خطباتکی روشنی اپنے گاؤں میں بچیوں میں پھیلائی۔ اس کے بعد چادر میں یہی خطباتپکڑے دوسرے گاؤں چل دیں۔ یوں ایک سادہ دیہاتی عورت نے تمام تر دیہاتی ماحول کی مخصوص مخالفتیں مول لے کر بھی وہاں بچیوں اور عورتوں میں ایمان کے چراغ روشن کیے۔

مولاناؒ کی کتب کا یہ سدابہار اثر کہ آج ۵۰‘۶۰سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے پر بھی یوں تروتازہ ہیں -- ہر سطر حال کی خوشبو دیتی ہے جو آج بھی روشن اور رہنما ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ  ان کتب میں ‘قرآن کے پیغام و ابلاغ کا جوہر موجود ہے۔ وہ قرآن جو کبھی پرانا نہیں ہوتا‘ جس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے‘ جسے تخیلات کبھی غلط راستے پر نہیں لے جا سکتے اور زبانیں جس میں آمیزش نہیں کر سکتیں (بحوالہ حدیث‘ ترمذیؒ)۔ مولاناؒ نے قرآن کریم کے اعجاز کے سائے میں اور اسی قرآن کی زبان میں عصرِحاضر کی عورت کے دل اور روح کی دنیا کو اسی طرح اپیل کیا‘ جس طرح قرآن حکیم نے کل سیدہ ام حبیبہؓ، سیدہ ام سلمہؓ، سیدہ خدیجہؓ کے من کی دنیا کومسخرکیا تھا۔

اگرچہ یہ جملہ عام قاری کو لگے گا تو بڑا عجیب‘ لیکن اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ لکھنے میں کوئی مبالغہ محسوس نہیں ہوتا کہ مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے استفادہ کرنے والی تحریکی خواتین اپنے ایمان‘ اپنے ایثار‘ اپنی کمٹ منٹ‘ حد درجے کے توازن‘ دور اندیشی کے باعث نظام حکومت چلانے کی صلاحیت مروجہ سیاست دانوں سے زیادہ رکھتی ہیں۔ تحریک میں ملکی اور عالمی سیاست پر بسا اوقات سادہ سادہ خواتین اتنے پیچیدہ اور گہرے سوالات کر گزرتی ہیں کہ جو ان میں پائی جانے والی     دانش وری کی خبردیتی ہے۔ جیسے مولانا مودودیؒ نے چند کتابوں میں دنیا بھر کے علوم گھول دیے ہوں۔

آج بھی ملک بھر میں تعلیم یافتہ خواتین میں دینی فہم کے ساتھ درس و تدریس کے حلقوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ بڑے شہروں میں ان حلقہ ہاے قرآنی کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ بلا مبالغہ رحمت کے یہ تمام چشمے اسی ایک فکر سے پھوٹے ہیں‘ چاہے آپ انھیں جس نام سے بھی جانیں۔ گلاب کو کوئی بھی نام دیں: گل‘ گلاب یا روز‘ ہے تو وہ گلاب ہی۔ اسی طرح قرآن کی تعلیم و تدریس کے ان تمام فعال حلقوں کے آخری سرے سید مودودیؒ ہی کی تعلیم و تربیت سے جا ملتے ہیں‘ خواہ جماعت اسلامی ہو یا تحریک اسلامی کے حلقہ ہاے خواتین‘ اسلامی جمعیت طالبات ہو یا تنظیم اساتذہ خواتین‘ اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ویمن ونگ ہو یا الہدیٰ انٹرنیشنل کا نفوذ -- -یا بے شمار انفرادی کاوشیں۔ یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دیگر دینی جماعتوں نے بھی مولانا مودودیؒ کے  طریق کار سے متاثر ہو کر خواتین میں باضابطہ کام اور تنظیم کی بنیاد رکھی۔ وگرنہ مولانا مودودیؒ کے ہاں پائے جانے والے عورتوں میں تحریک و تنظیم کے تصور سے پہلے‘ ہمارے مذہبی حلقوں میں خواتین کے لیے اجتماع اور تنظیم سازی کا کوئی تصور تک موجود نہ تھا۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ کی براہ راست رہنمائی میں تیار ہونے والی خواتین نے تعلیم یافتہ خواتین کے ہر طبقے میں نفوذ کیا ہے: اساتذہ‘ ڈاکٹر -- ادیبات اور مصنفات -- خواتین کی صلاحیتوں کو ہر شعبۂ زندگی میں اسلام کی روشنی میں کار آمد بنایا گیا۔ یہاں تک کہ الحمدللہ! آج باعمل مسلم خواتین کا ایک ہراول دستہ اپنی اصل: گھر‘ بچے‘ شوہر‘ خاندان سے وابستہ رہتے ہوئے بھی اسلام کے لیے اپنی قوتیں اور صلاحتیں وقف کیے ہوئے ہے۔ مولاناؒ کے اس انداز فکر کی روشنی نے صرف پاکستانی مسلم عورت ہی کو متاثر نہیں کیا‘ بلکہ مولاناؒ کی تحریروں کے عربی تراجم عرب خواتین کی اور انگریزی تراجم مغربی ممالک میں نو مسلم خواتین کی بھی اسی انداز میں رہنمائی کر رہے ہیں۔ مولانا مودودی مرحوم کے جنازے کے بعد جب نیویارک ایرپورٹ سے اُن کا جسد خاکی پاکستان روانہ ہوا تو وہاں پر نو مسلم خواتین نے رخصت کرتے ہوئے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا تھا:

’’بہن‘ وہ صرف تم لوگوں ہی کے تو نہیں تھے‘ ہم پر بھی ان کے احسانات کچھ کم نہیں ‘‘!