مریم جمیلہ


ایک سودا جس میں ہمارے تجدد پسند مبتلا ہیں،یہ ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو ہر ممکن طریقے سے باور کرانا چاہتے ہیں کہ ’اسلامی طرزِ حیات کا عرب تہذیب وثقافت ، خصوصاً عربی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔ ان کے خیال میں ’قرآن کریم کی کلاسیکی عربی کی اشاعت اور عربی کا مسلمان ملکوں کی سرکاری زبان قراردینا کسی اعتبار سے بھی اسلام کی غرض وغایت کی تکمیل میں معاون نہیں ہوسکتا‘۔

مسلم معاشروں میں بعض حضرات تو اس سلسلے میں غلط طور پر خلط مبحث سے کام لیتے ہیں۔ انھیں یہ تسلیم کرنے میں تامّل ہے کہ نو مسلم عربی ناموں کو اپنا نا پسند کرتے ہیں۔  دلیل کے طور پر وہ قرآنِ کریم کے انگریزی مترجم محمد مارما ڈیوک پکتھال (۱۸۷۵ء - ۱۹۳۶ء) ایسے مشہور نو مسلموں کا نام لیتے ہیں اور بڑے اصرار کے ساتھ کہتے ہیںکہ وہ ایک مخلص مسلمان تھے، اس کے باوجود انھوں نے اپنا انگریزی نام برقرار رکھااور صرف ’ محمد ‘کا اضافہ کیا۔ مارما ڈیوک پکتھا ل کے مخلص اور سچے مسلمان ہونے میں کسے شک ہو سکتا ہے ؟ قطع نظر اس کے کہ انھوں نے اپنے لیے کون سا نام پسند کیا، دنیائے مغرب میں ان کی اسلامی خدمات پر شاذہی حرف گیری کی جا سکتی ہے ۔ تاہم، یہاں سوال جائز اور مباح کا نہیں مرجح اور مستحسن کا ہے۔

اگرچہ شریعت کی رُو سے غیرعربی نام برقرار رکھا جا سکتا ہے لیکن مستحسن یہ ہے کہ نو مسلم اپنا پورا نام مسلمانوں کا سار کھے اور کوئی ایسا نشان باقی نہ رہنے دے، جس سے اس کی سابقہ غیر اسلامی زندگی کا پتا چلتا ہو۔ ٹھیک یہی بات لباس کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ مغربی لباس اگر معقول اور شائستہ ہو تو ایسی پوشش سے اسلام کی کسی تعلیم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ۔ بے شک وہ جواز کی حد تک قابلِ قبول ہے لیکن کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت اور اتّباعِ سنت کی خاطر    یہ زیادہ مستحسن نہ ہو گا کہ ہم حتی الوسع وہ لباس زیب تن کریں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا؟ جب ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث میں مسلمانوں کوغیر مسلموں کے طور اطوار اور لباس کی نقالی نہ کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے تو اس عمل کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سنت کو سراہا اور اس کے اتّبا ع کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ سنت چھوٹے چھوٹے امور پر بھی حاوی ہے، مثلاً ایک طباق میں بہت سے لوگوں کا مل کر کھانا، فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں اور بالوں کے کمبلوں پر بیٹھنا اور سونا، داڑھی رکھنا، جُبّے اور پگڑیاں پہننا اور عربی زبان بولنا ___ بے شک یہ اعمال نماز، روزے ، حج اور زکوٰۃ کی طرح فرض نہیں ہیں۔ ان کا اہتمام نہ کرنے سے آدمی گناہ گار نہیں ہوتا، لیکن انھیں محض ساتویں صدی کے بدوئوں کے لیے موزوں قرار دے کر ان کی تحقیر کرنا اور جدید مغربی اطوار کو فوقیت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر وتضحیک کے مترادف ہے۔ پھر وہ شخص اپنے آپ کو ایک اچھا مسلمان کیسے سمجھ سکتا ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو بوجھ کے طور پر دیکھتا ہے۔

تنقیح طلب امر یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے عرب اجزاء کی اہمیت کو گھٹانے کی جو کوشش کر رہے ہیں، اس کا محرّک کیا ہے؟ یہی عرب خصوصیات اسلام کو امتیازی وجود اور تہذیب عطا کرتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس پر تجدّد پسند نہایت شدّومد سے اعتراض کرتے ہیں۔ تجدّد پسند تحریک کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو حتی الامکان زیادہ سے زیادہ تہس نہس کرلیں، مگر ایسے انداز سے کہ غافل مسلمان غضب ناک ہونے نہ پائیں۔ چنانچہ وہ اسلام کے بدن سے ہڈیوں تک گوشت نوچ لینے کی سعی میں مصروف ہیں،ان کابس چلے تو ہڈیاں بھی نہ چھوڑیں ۔ وہ اسلام کے ان تمام تصورات پر یلغار کر رہے ہیں جو اسے دوسرے مختلف نظام ہائے حیات سے الگ تہذیبی استقلال اور ٹھوس امتیازی خصوصیت عطا کرتے ہیں۔

ان مغرب زدہ نام نہاد مسلمانوں کا اصرار ہے کہ اسلام چند عمومی اصولوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اسلام روا داری ، اخوت، خیر خواہی اور امنِ عالم کا نام ہے۔ فلاحی ریاست، لبرلزم، عقلیت پسندی،نظریۂ عملیت، انسان دوستی (Humanism)اور مادی ترقی ہی اسلام ہے۔ تجدّد پسندوں کا اسلام اتنا لچک دار اور لا محدود ہے کہ وہ کوئی بھی چیز بن سکتا ہے اور ہر سانچے میں ڈھل سکتا ہے۔ اور جب وہ کوئی بھی چیز بن سکتا ہے تو گویا کچھ بھی نہیں رہتا، چنانچہ ٹھیک یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے تجدّد پسند جدو جہد کر رہے رہیں۔

چھوٹی سی تھی، جب میں اسکول میں داخل ہوئی۔ میرے مطالعے کا آغاز اسی زمانے میں ہوا۔ چھے برس کی عمر میں کچھ پڑھ لینے کے قابل ہونے سے قبل ابّا ، امی اور باجی سونے سے قبل مجھے بلند آواز میں کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اس چھوٹی عمر میں مجھے جانوروں کی کہانیاں خاص طور پر رڈیارڈ کیپلنگ کی ’جنگل کہانی ‘ بے حد پسند تھی۔ جوں جوں میں بڑی ہوتی گئی، مجھے دنیا کے مختلف ممالک کے بچوں کی کہانیاں پسند آنے لگیں۔ دس برس کی عمر میں مجھ میں سوانح عمریاں اور تاریخ کے مطالعے کا ذوق پیدا ہوا۔

کالج کے زمانے میں دیکھا کہ میری امی کو انگریزی ادبیات سے والہانہ لگائو تھا، لیکن میری طبیعت کا رجحان ابّا کے ذوق، یعنی غیر ادبی چیزوں کی طرف تھا ۔ اگرچہ مجھے مطالعے کی پیاس لگی رہتی تھی، تاہم اسکول میں انگریزی ادبیات کا مضمون مجھے پہاڑ معلوم ہوتا تھا ۔ بچپن ، بلوغت اور جوانی کے زمانوں میں کبھی نظم یا نثر میں انگریزی کلاسیکی ادب کا مطالعہ مجھ سے نہ ہو سکا ۔ استادوں کے مجبور کرنے سے پڑھنے کا معاملہ ایک مختلف بات ہے۔ انگریزی کا کلاسیکی ادب مجھے بیزار کن ، بے معنی اور اپنی دل چسپیوں سے غیر متعلق نظر آتا اور تھوڑا بہت جو کچھ میں پڑھتی وہ بھی میرے حافظے میں جڑ نہ پکڑتا ۔ چاسر، شیکسپیئر ، کیٹس ، شیلے اور دوسرے کلاسیکی انگریز ادیب نہ تو میرے لیے دل چسپی کا کوئی سامان فراہم کر سکے اور نہ میں ان کے بارے میں کچھ جان ہی سکی۔ ان کی زبان اور ان کے خیالات دونوں میرے لیے اجنبی اور ناقابل فہم تھے۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ انگریزی کے کلاسیکی ادب کی مجھے ہوا تک نہیں لگی۔

امریکی نژاد ہونے کے باعث اُردو کے مطالعے، نیز اردو کے فہم اور اس سے لطف اندوز ہونے کی استعداد حسب خواہش پوری نہیں ہوسکی۔ پس، جو کتابیں میرے مطالعے میں آتی ہیں،وہ  زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوتی ہیں۔ امریکا میں پانچ برس سے اوپر( سیکنڈری اسکول اور کالج کے زمانے میں) میں نے فرانسیسی زبان سیکھی تھی اور اگرچہ پاکستان میں اس زبان کاجاننا کم وبیش بے مصرف ہے، پھر بھی میں اس زبان کا مطالعہ اس حد تک بر قرار رکھتی ہوں کہ فرانسیسی کتب ، جرائد اور اخبارات کا مطالعہ کر سکوں اور گاہے بہ گاہے جب اسلامی اُمور پر کوئی انگریزی کتاب مجھے میسر نہیں آتی تو میں متعلقہ موضوع پر فرانسیسی کتاب ہی دیکھ لیتی ہوں۔

اُردو زبان پر عبور حاصل نہ ہونے کے باعث اس زبان کی کتب میری دسترس سے باہر ہیں۔ تاہم، بعض اُردو تحریروں کے (انگریزی تراجم کے ذریعے) میرے ذہن پر گہرے نقوش ثبت ہیں۔ ان میں ایک علّامہ محمد اقبال کی نظم ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ ہے جس سے مجھے آرتھر آربری صاحب نے آشنا کیا اور دوسرے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی اسلامی حکومت  کس  طرح   قائم ہوتی ہے؟ کا انگریزی عکس ہے۔ علاوہ بریں علامہ اقبال کی نظموں ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بے خودی‘ (انگریزی مترجمین نکلسن اور آربری صاحبان ) نے بھی مجھے متاثر کیا ہے۔

شعرا میں مجھے جاہلی عرب شعرا پسند ہیں، جن کا کلام چارلس رائیل کے انگریزی تراجم کی  بدولت مجھ تک پہنچا۔ افسانہ نگاروں ، مزاح نویسوں، نیز طنز نگاروں سے مجھے طبعی رغبت نہیں، کیوں کہ میں سنجیدہ علمی مضامین کا مطالعہ کرتی ہوں۔اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے فکشن کی مختلف اصنافِ لطیف،طنز،مزاح، سبھی غیردل چسپ لگتی ہیں۔ ایسے حضرات کی تحریریں مجھے اشتعال دلاتی ہیں جو عقلی معیارات سے لگّا نہ کھائیں۔ اس شوق میں یہ مہم جُو حضرات، اسلام کے بنیادی اصولوں تک کو بدل دینے کی ہوس میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں، تا کہ دنیاوی مصلحتوں کی خاطر اسلام کو      رائج الوقت معیارات کے مطابق ڈھال دیا جائے۔ پس، مجھے ان جرائد سے نفرت ہے جو اسلام کو   جدید زمانے کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ ایسے جرائد میں مرکزی ادارئہ تحقیقات اسلامی، کراچی کے  شائع کردہ جرائد Islamic Studies شامل ہے، نیز خلیفہ عبدالحکیم ، غلام احمد پرویز صاحب جیسے اہلِ قلم کو بھی پڑھتی ہوں۔ علاوہ بریں، ہر قسم کی عامیانہ اور عریاں تحریروں، نیز فلم سازی سے متعلق جرائد پر بھی مَیں مثبت طور پر تین حرف بھیجتی ہوں۔

میرے پسندیدہ موضوعاتِ مطالعہ ہیں: تاریخ ، سوانح، بشریات ، عمرانیات اور نفسیات۔ خصوصاً آج کی دنیاے اسلام کے مسائل سے متعلق میری محبوب ترین کتابیں ہیں: قرآن مجید ، (انگریزی ترجمہ از پکتھال )، مشکوٰۃ المصابیح کا انگریزی ترجمہ وشرح از مولانا الحاج فضل الرحمٰن، Social Justice in Islam ازسیّد قطب شہید ،Islam at the Crossroads  ازعلامہ محمداسد، Ideology of the Future از ڈاکٹر رفیع الدین ،Sheikh Ahmad al-Alwi (انگریزی ) از مارٹن لنگزِ ،Islamic Philosophy and Theology  از منٹگمری واٹ ، نیز مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تالیفات میں مسئلہ قومیت، اسلام کا اخلاقی نقطۂ   نظر ، تجدید واحیاے دین کے انگریزی تراجم۔

میرے پسندیدہ جرائد ہیں: The Message، جماعت اسلامی ہند کا ترجمان، خلافِ قانون جماعت اخوان المسلمون (قائد جماعت ـ: جناب سعید رمضان ) کے ترجمان المسلمون کا انگریزی ضمیمہ ، اسی طرح The Radiance ، نئی دہلی، ہفت روزہ Young Pakistan  ڈھاکہ،The Muslim World   (مؤتمر عالم اسلامی ، کراچی کا جریدہ )، Muslim News International کراچی ۔ ان جرائد میں تو میں باقاعدگی سے لکھتی بھی ہوں ۔ اس فہرست میں کراچی کے Al-Yaqeen Int'l اور Voice of Islamکا اضافہ بھی کرلیجیے۔

میرے ذہنی نشوو ارتقا میں جس کتاب نے سب سے زیادہ حصہ لیا وہ ہے علامہ محمد اسد کی اسلام دوراہے پر  (Islam at The Cross Roads ) جسے لاہور کے ناشر شیخ محمد اشرف نے شائع کیا تھا۔ یہ کتاب اوّل ۱۹۳۴ء میں سپردِ قلم کی گئی تھی۔ مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اسلام اور جدید مغربی تہذیب میں مصالحت نا ممکن ہے۔ اس موضوع پر یہ تصنیف میرے نزدیک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ اس تصنیف میں موجود استدلال مجھے اس درجہ متاثر کرنے والا نظر آیا کہ اسلام  دوراہے پر  نے خدمتِ اسلام کی جہت میں میری تصنیفی سعی وجہد کی بنیاد اور مستقبل کے لیے منزل متعین کردی۔ اس تصنیف کا جو موضوع تھا اور اس میں جو دلائل دیے گئے تھے، میرے تمام آیندہ مضامین کی اساس درحقیقت وہی ہے۔

جن دیگر مضامین وکتب نے مجھے متاثر کیا وہ ہیں: ترکیہ کے مرحوم پرنس سعید حلیم پاشا کے مضامین بعنوان : مسلمان معاشرے کی سیاسی اصلاح، انگریزی مترجم: محمدمارما ڈیوس پکتھال۔ ہماری تقدیر تاریخ کے آئینے میں،انگریزی ،جناب اے کے بروہی (مطبوعہ جریدہ وائس آف اسلام ، کراچی شمارہ جون ۱۹۶۳ء )۔ ’فنون لطیفہ ‘ :حُسن کیا ہے ؟‘ انگریزی مترجم، مصنف جناب ابراہیم علی چشتی، (پاکستان ٹائمز، لاہور مؤرخہ ۲۱-۲۸ فروری ۱۹۶۴ء )، نیز اسلامی تحقیق کا فریضہ (انگریزی)، مصنف جناب ڈاکٹر محمد رفیع الدین، (مطبوعہ روز نامہ پاکستان ٹائمز ، لاہور مورخہ ۱۲ ؍اگست ۱۹۶۵ء)۔

تنہائی اور سکون ، ان دونوں کی مطالعے کے لیے مجھے ضرورت ہوتی ہے۔ پرُ شور ماحول کے لوگ مجھے چڑ چڑا بنا دیتے ہیں اور مجھے آرام اور دل جمعی سے مطالعہ نہیں کرنے دیتے ۔ بستر پر نیم دراز ہو کر پڑھنا مجھے مرغوب ہے۔ ایک گھنٹے میں کوئی سو صفحے پڑھ لیتی ہوں، جن کے مطالب ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ جب بھی وقت ملے پڑھ لیتی ہوں لیکن اکثر تیسرے پہر یا سرشام ۔ ریل یا بحری جہاز سے لمبا سفر در پیش ہو تو چھوٹی چھوٹی کتابیں ، اخبارات اور جرائد ساتھ لے لیتی ہوں، لیکن کار، بس یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے وقت میرے لیے مطالعہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

مطالعے کے متعلق میرے پیش نظر کوئی نپا تلا یا طے شدہ پروگرام نہیں ہوتا۔ زیر مطالعہ کتب پر نشانات لگانے ، سطور کو روشنائی سے نمایاں کرنا، یا کتاب کے حاشیوں میں یادداشتیں لکھنا وغیرہ، ان میں سے کوئی عادت بھی مجھے نہیں ہے۔ یوں میں اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی۔ میری یادداشت اس تمام مطالعے میں میرا ساتھ دیتی ہے، جو میری دل چسپی کا باعث ہو یا جو مجھے متاثر کرے۔ اس ضمن میں تمام مرکزی افکار، ان تحریروں کے مصنفوں کے نام وغیرہ میرے ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ میں اپنی کتابوں کو مکمل درست حالت میں دیکھنا چاہتی ہوں اور کسی طرح کے نشانات سے ان کاحلیہ بگاڑنا مجھے پسند نہیں۔

جی تو یہی چاہتاہے کہ مطالعے سے جو عطر مجھ تک پہنچا ہے، اس کی خوشبو سے میرے گھروالوں اور احباب کے مشام جان بھی معطر ہوں۔ لیکن تجربہ یہ ہے کہ فلسفہ ودانش ایسے موضوعات پر میری گفتگو سن کر میرے اکثر شرکاے گفتگو اوّل تو بے توجہی سے کام لیتے ہیں، بلکہ درست بات یہ ہے کہ زچ ہوجاتے ہیں۔ پس، اس حوصلہ شکن رویے کے باعث اس خوشبو کو میں اکثر اپنے تک محدود رکھتی ہوں ۔

پردے کی کڑی پابند ہونے کے باعث چوںکہ میں پنجاب یونی ورسٹی لاہور اور یہاں کی پبلک لائبریریوں سے استفادہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے جس کتاب کی مجھے ضرورت یا کمی محسوس ہوتی ہے، مجھے خریدنا پڑتی ہے۔ تاہم، صرف ضرورت نے ہی میرے ہاں ایک بڑے کتاب خانے کو وجود نہیں بخشتا، بلکہ زیادہ سے زیادہ کتابیں خریدنے اور انھیں محفوظ رکھنے سے مجھے بے حد مسرت ہوتی ہے اور میں ایک طرح کا فخر محسوس کرتی ہوں۔

کتابوں سے مجھے ذاتی طور پر محبت ہے۔ انھیں میں اپنا حقیقی دوست سمجھتی ہوں۔ اس لیے اپنی کتابوں کو حتی الامکان نئی اور اچھی حالت میں رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر میری کتابوں کو کوئی ایذا پہنچے یا وہ کسی اور طرح اچھی حالت میں نہ ہوں، تومیں اُداس بلکہ دُکھی ہو جاتی ہوں۔ خاصی رقم خرچ کرکے میں ان کی نئی جلد بندی کرواتی ہوں۔سرورق پرموٹا خاکی کاغذ چڑھا دیتی ہوں، تاکہ وہ دیر تک محفوظ رہے اور اس کی خوب صورتی برقرار رہے۔ میرے کتاب خانے میں اس وقت دو سو سے زائد کتابیں ہیں۔ جب کام سے فارغ ہونے کے بعد ان کی ضرورت نہ ہو تو انھیں ایک فولادی الماری میں تالا لگا کر بحفاظت رکھتی ہوں۔

اپنی ان کتابوں کے تعلق سے مَیں انتہا درجے کی خود غرض واقع ہوئی ہوں۔ ان کی ملکیت کے تعلق سے کسی قسم کی شراکت مجھے پسند نہیں۔ مانگنے پر کسی کو کوئی کتاب صرف اس وقت مل سکے گی، اگر اس کی کوئی فالتو جلد میرے پاس موجود ہو۔ میرے شوہر خان صاحب (محمدیوسف خان) کتابیں مستعار دینے کے لیے بہت پُرجوش واقع ہوئے ہیں۔ میں ان کے ہاں سے کتابیں جاتے تو دیکھتی ہوں، مگر آتے نہیں دیکھتی ۔ اکثر مستعارئیے پرلے درجے کے غیر ذمہ دار لوگ ہوتے ہیںاور ایسے غیرمحتاط لوگوں کے ہاتھوں اپنی کتابوں کا گم ہونا میرے لیے سخت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ مستعا ر دینے کی طرح کسی سے مانگ کر پڑھنا اپنی عادت نہیں ہے۔ اشد ضرورت کی بات دوسری ہے۔ جب کتاب مانگ کرپڑھنا پڑے تو میرے اعصاب قیامت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مقدور بھر تیزرفتاری سے مطالعہ کرتی ہوں اور عموماً دوسرے دن اسے امانت لوٹا دیتی ہوں۔

میرے کتب خانے کی اہم ترین کتب : قرآن مجید، احادیث کے مجموعے، حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک پر مغربی مصنفوں کی تصنیفات کے علاوہ، افلاطون ، ،میکیاولی، والٹیئر ، مارکس، ڈارون، فرائیڈ اور جان ڈیوی ایسے مغربی فلاسفروں کی تصنیفات ، نیز ویفریڈ کنیٹول اسمتھ، سیموئیل زویمراور کینتھ کریگ، ایسے مغربی ومسیحی مستشرقین کی تصنیفات: ماڈرن اسلام    اِن انڈیا،  اسلام   اِن ماڈرن   ہسٹری ، چائلڈ   ہڈاِن    دی مسلم    ورلڈ اور  کال آف   دی    مینریٹ ، بشیر احمد ڈارصاحب کی تصنیف حیات سرسیّد احمد (انگریزی )۔ نیز جدید زمانے کے معذرت خواہانہ انداز کی حامل سیّد امیر علی صاحب کی اِسپرٹ آف اسلام۔ ان کتابوں کو میں اپنا دوست نہیں دشمن سمجھتی ہوں لیکن اسلام سے متعلق غلط نظریات کی جان پہچان بھی مجھے یہیں سے ملتی ہے، جن کی میں اپنی تحریروں میں تردید کرتی ہوں۔ اس اعتبار سے یہ تصانیف ’بے حد قیمتی‘ ہیں۔

جن کتابوں کی مجھے ضرورت ہوتی ہے (خصوصاً وہ کتابیں جو اب امریکا میں نایاب ہو چکی ہیں) ان کے حصول کے لیے میں اپنی سی ہر ممکن کوشش کر گزرنا چاہتی ہوں۔ جن کتابوں کی کمی میں اپنے ہاں محسوس کرتی ہوں، ان کے حصول کے لیے میں پائی پائی تک خرچ کرنے سے دریغ نہ کرتی۔

میرے کتاب خانے کی بعض کتب مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی،  ایسی اہم شخصیتوں کی جانب سے تحفتاً موصول ہوئی تھیں۔ ذاتی تجربے سے براہِ راست جو کچھ میسر نہیں آسکتا، اس کے حصول کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔ مطالعۂ کتب سے فرد کے ذہنی اُفق کو وسعت میسر آتی ہے، جو اس کی محدود روزمرہ زندگی سے کہیں دُور ہوتی ہے ۔ پس مطالعہ نہ تو محض ایک شغل ہے اور نہ مسرت ہی کی خاطر پڑھنا مطالعے کا کوئی اچھا مصرف ہے۔ آج کی نوع بہ نوع مصروفیات میں گھرے فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے فرصت کے اوقات میں مطالعے کے لیے (مثلاً شام کو کھانے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے ) کچھ وقت نکالے، خواہ اس کے لیے اسے احباب کی ملاقاتوں کے وقت میں کمی کرنا پڑے ۔ مطلوبہ کتابیں خرید کر، مستعار لے کر، یا لائبریریوں سے لے کر مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔

اسلامی طرزِ حیات ، اسلامی نظامِ معاشرت ، تہذیب وثقافت اور اسلام کے شان دار ماضی کے تعلق سے، پاکستان کے مسلمانوں کو مناسب معلومات فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ان زبانوں کے مطالعے پر زور دے، جن کے مطالعے سے ان ذرائع سے براہِ راست واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عربی، فارسی اور اردو کا جاننا کالج کے طلبہ کے لیے لازمی قرار دے دیا جائے۔

قرآن مجید کی کلاسیکی عربی زبان کے مطالعے پر بالخصوص زور دیا جائے۔ ہمارے تعلیمی نظام کو قرآن مجید ، حدیث پاک ، سیرتِ رسول کریم ؐ ، اسلامی تاریخ ، اور دنیاے اسلام کے ہم عصر مسائل کے مطالعے پر زور دینا چاہیے۔ ان علوم کا حصول اسلام کے خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے ہونا چاہیے اور اسے متجد دین  اور فکری معذورین کی فکری آلایشوں سے پاک رکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں جن لکھنے والوں کو پڑھنے کی خصوصی سفارش کی جائے ان میں امام بخاری ایسے محدث، ابنِ اسحاق اور ابنِ ہشام ایسے ثقہ سیرت نگار، کتاب المغازی ایسی تالیف کے مؤلف الواقدی، نیز ابنِ تیمیہ، امام غزالی، شاہ ولی اللہ ، علامہ محمد اقبال کی فارسی اور اردو شاعری ، شیخ حسن البنا، سیّدقطب اور  مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تمام تالیفات ۔

تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اسلامی اور غیر اسلامی عمدہ تصنیفات کا بے کھٹکے مطالعہ کریں، جو انھیں دل چسپ معلوم ہوں یا جو ان کے کاروبار وغیرہ سے تعلق رکھتی ہوں۔ ایک طرف تو اسلامی تصنیفات کے گہرے مطالعے پر مبنی اسلامی ذہن بنانے کی ضرورت ہے، دوسرے اہم انگریزی کتابوں کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے، تا کہ دونوں کی تہذیبی وثقافتی اقدار سے ان کے   صحیح پس منظر میں آگاہی حاصل ہو سکے۔ نوجوان پاکستانیوں کو میں بالخصوص یہ مشورہ دوں گی کہ علامہ محمد اقبال کا کلام اور مولانا سیّدابوا لاعلیٰ مودودی کی تمام تصنیفات کا مطالعہ کریں۔ اسی طرح اخبارات وجرائد میں روزنامہ نوائے وقت  کے مطالعے کی سفارش کروں گی۔ ماہ ناموں میں ترجمان القرآن کا مطالعہ سود مند رہے گا۔

والدین پر لازم ہے کہ خود اچھی کتابوں کے مطالعے کی عادت ڈالیں اور اپنے اس طرزِعمل سے بچوں کے لیے اچھی مثال قائم کریں۔ اگرچہ میرا تجربہ یہ ہے کہ والدین کی مثال اور کوششیں بچوں کو بس ایک حد تک ہی متاثر کرتی ہیں، اور والدین کے دائرۂ اثر سے باہر کا ماحول بچوں کی پسندوناپسند سے مل کر ا نھیں متاثر کرتا ہے۔

آخر میں قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے بارے میں چند الفاظ۔ اگرچہ تعلیمات اسلامی کے تعلق سے یہ بالکل ناکافی ہو گا کہ قرآن مجید کو ، اس کا مفہوم سمجھے بغیر، محض رَٹ لیا جائے۔ لیکن میری راے یہ ہے کہ اسلامی تربیت کی کلیتاً عدم موجودگی میں یہ بھی کہیں بہتر ہوگا کہ قرآن کا خاصا حصہ یاد ہو۔ اس کی بدولت بچے کی تربیت ایک اسلامی ماحول میں ہو جاتی ہے اور اس کے دل میں کلمۃاللہ کے لیے احترام کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ بچہ اگر عربی متن کو نہ سمجھ سکے تو قرآن پاک کی قرأت ہی سے اس کے کانوں میں قرآن پاک کی محض آواز ہی رس گھو لتی رہے گی۔ اس طرح  ایک اچھی بنیاد میسر آجائے گی اور سن شعور تک پہنچتے پہنچتے عربی زبان پر عبور حاصل کرنے، نیز قرآن پاک کے متن کو سمجھنے کی راہیں بھی کھل سکیں گی۔ ہمارے جدید روشن خیالوں کا یہ خیال کہ بچہ چوںکہ عربی زبان سمجھ نہیں سکتا، لہٰذا، اسے قرآن کی قرأت سکھانا بے مصرف ہے۔ یہ بدنیتی پر مبنی ایک بہانہ ہے، جسے اسلامی تہذیب وثقافت کے دشمن اس لیے پیش کرتے ہیں، تا کہ مسلمان بچے کو سرے سے اسلامی تعلیم مل ہی نہ سکے۔

قرآن مجید تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مجھے عجیب اور پیچیدہ راستے اختیار کرنے پڑے ۔ چونکہ میں منزل پر بڑے احسن طریق سے پہنچی، اس لیے مجھے اپنے تجربات پر کبھی بھی افسوس نہیں ہوا۔

عہد ِ طفولیت ہی سے مجھے موسیقی بڑی اچھی لگتی تھی ۔ خصوصاً وہ گانے تو مجھے بہت ہی پسند تھے جنھیں دیار ِمغرب میں بلند ثقافت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اسکول میں موسیقی میرا پسندیدہ مضمون تھا اور اس میں اکثر مجھے اچھے نمبر حاصل ہوتے تھے۔

جب میں گیارہ سال کی ہوئی تو مجھے ریڈیو پر عربی موسیقی سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ مجھے اتنی پسند آئی کہ میں نے اسے پھر سننے کا فیصلہ کر لیا۔ جب بھی میں عربی موسیقی سنتی، مغربی موسیقی کے لیے میرے دل میں کشش باقی نہ رہتی ۔ میں نے والدین کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک دن میرے والد مجھے نیو یارک کے شامی علاقے میں لے گئے، جہاں سے میں نے اپنے گرامو فون کے لیے بہت سے عربی ریکارڈ خریدے۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ مجھے پسند آیا وہ [مصری مغنیہ] اُمِ کلثوم کا وہ ریکارڈ تھا جس میں اس نے سورئہ مریم کی تلاوت کی تھی۔ اس وقت مجھے علم نہیںتھا کہ یہ عورت آیندہ کس بُرے راستے پر گامزن ہونے والی ہے، لیکن مجھے اس کی سُریلی آواز اور عقیدت بڑی پسند آئی ۔ انھی ریکارڈوں کی بدولت میںعربی موسیقی کی گرویدہ بن گئی۔ حالاںکہ میں عربی الفاظ کا مطلب بالکل نہ جانتی تھی۔ عربی موسیقی کی اس بنیادی قدرو منزلت کے بغیر میرے دل میں تلاوت کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ حالانکہ یہ ایک مغربی باشندے کے لیے اجنبی تھی۔ میرے والدین ، رشتہ دار اور احباب عربی اور عربی موسیقی کو از حد دقیانوسی اور تکلیف دہ سمجھتے تھے۔ اس لیے جب میں ریکارڈ بجانے لگتی تو ان کا ہمیشہ یہی مطالبہ ہوتا کہ میں تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر لوں تا کہ وہ پریشان نہ ہوں۔

۱۹۶۱ء میں قبولِ اسلام کے بعد ، نیویارک کی مسجد میں بیٹھ کر جب مشہورو معروف مصری قاری عبدالباسط کی تلاوت کا ٹیپ ریکارڈ سنتی تو مسحور ہو جاتی ۔ لیکن ایک نماز جمعہ میں امام صاحب نے ریکارڈ نہ بجایا۔ کیوںکہ اس دن ایک مہمانِ خصوصی آیا ہوا تھا ۔ یہ ایک پستہ قامت معمولی لباس میں ملبوس سیاہ فام نوجوان تھا جو زنجبار کا ایک طالب علم تھا۔ جب اس نے سورۂ رحمٰن کی تلاوت شروع کی تو ایسا معلوم ہوا کہ میں نے اس سے پہلے اتنی شان دار تلاوت کبھی نہیں سنی، قاری عبدالباسط بھی اس کے مقابلے میں ہیچ تھا۔ اس سیاہ فام افریقی نوجوان کی آواز نہایت سریلی تھی۔غالباً حضرت بلال حبشی ؓ کی آواز بھی بہت کچھ اس سے ملتی ہو گی !

دس سال کی عمر ہی میں مَیں نے عربوں کے متعلق وہ ساری کتابیں پڑھ ڈالیں جو مجھے سکول یا اپنے یہودی فرقے کی لائبریریوں سے حاصل ہو سکیں۔ خصوصاً وہ کتب جن میں یہودیوں اور عربوں کے تاریخی تعلقات کا ذکر تھا۔ لیکن قرآن مجید کے متعلق اپنے تجسّس کی تسلی کرنے میں نوسال سے زیادہ عرصہ بیت گیا۔ آہستہ آہستہ جب بلوغت کی عمر کو پہنچی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام کو عربوں نے اس بلند مرتبے پر نہیں پہنچایا بلکہ اسلام نے عربوں کو صحرائی بادیہ نشینوں سے دنیا کا حکمران بنا دیا ۔ جب تک میرے دل میں اس انقلاب کی وجوہات دریافت کرنے کا شوق پیدا نہ ہوا اس وقت تک قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہ ہوا۔

۱۹۵۳ء کے موسم گرما میں ، کالج میں بہت سے مضامین کا کورس اختیار کر لینے سے میرے دل ودماغ پر سخت دبائو پڑا۔ اگست میں مَیں علیل ہو گئی اور میں نے سلسلۂ تعلیم منقطع کر دیا۔ ایک شام جب میری والدہ پبلک لائبریری جانے لگیں تومجھ سے پوچھنے لگیں کہ کوئی کتاب منگوائو گی۔ میں نے کہا کہ مجھے قرآن مجید کا ایک نسخہ لا دیں۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ تھا۔ جو اٹھارھویں صدی عیسوی کے ایک عیسائی عالم اور مبلغ، جارج سیل نے کیا تھا ۔چونکہ اس کی زبان بڑی فرسودہ قسم کی تھی اور اس میں عیسائی نقطۂ نگاہ سے متن کو بگاڑنے کے لیے حواشی میں البیضاوی اور زمخشری کے حوالے دیے گئے تھے، اس لیے میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا ۔ اس زمانے میں اپنے ناپختہ دماغ کی وجہ سے قرآن کو تورات کے مانوس قصص کی مسخ شدہ اور محرف شکل کے سوا کچھ نہ سمجھتی تھی۔ قرآن کے متعلق میرا پہلا تاثر کچھ اور تھا مگر میں اس کے مطالعے سے باز نہ رہ سکی ۔ میں تین دن رات تک مسلسل اس کے مطالعے میں منہمک رہی ، اور  جب میں نے اسے ختم کر لیا تو میری تمام توانائی ختم ہو کر رہ گئی۔ میری عمر اس وقت صرف ۱۹ سال کی تھی ۔ اور میرا حال یہ تھا کہ میں اپنے آپ کو ایک ۸۰ سالہ بُڑھیا کی طرح کمزور محسوس کرنے لگی۔ اس کے بعد میری پوری توانائی کبھی بحال نہ ہو سکی۔

میں قرآن کے متعلق اپنی اس راے پر قائم رہی ۔ ایک دن میں نے دکان پر محمد مارما ڈیوک پکتھال کے انگریزی ترجمۂ قرآن کا ایک سستا اڈیشن دیکھا ۔ جونہی میں نے اسے کھولا ، وہ میرے لیے ایک عظیم انکشاف ثابت ہوا ۔ اس کی فصاحت وبلاغت نے میرے پائوں اکھاڑ کر رکھ دیے۔ پکتھال نے اپنے دیباچے کے پہلے پیرا گراف میں لکھا تھا :

اس ترجمے کا مقصد انگریزی خواں طبقے کے سامنے یہ بات پیش کرنا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان قرآن کے الفاظ سے کیا مفہوم لیتے ہیں اور قرآن کی ماہیت کو موزوں الفاظ میں سمجھانا اور انگریزی بولنے والے مسلمانوں کی ضرورت کو پورا کرنا ہے۔ معقولیت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ کسی الہامی کتاب کو ایک ایسا شخص عمدگی سے پیش نہیں کر سکتا جو اس کے الہامات اور پیغام پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ یہ پہلا انگریزی ترجمہ ہے جو ایک ایسے انگریز نے کیاجو مسلمان ہے۔ بعض تراجم میں ایسی تفسیریں کی گئی ہیں جو مسلمانوں کے لیے دل آزار ہیں اور تقریباً سب میں زبان کا ایسا انداز ِ بیان اختیار کیا گیا ہے جسے مسلمان غیر موزوں سمجھتے ہیں۔ قرآن کا ترجمہ ناممکن ہے ۔ یہ قدیم شیوخ کا اور میرا عقیدہ ہے۔ میں نے اس کتاب کو علمی انداز میں پیش کیا ہے اور اس کے لیے کوشش کی گئی ہے کہ موزوں زبان استعمال کی جائے ۔ لیکن یہ ترجمہ قرآن مجید نہیں ہوسکتا ۔ کیوںکہ وہ تو بے مثل وبے عدیل ہے۔ اس میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ لوگ اسے سُنتے ہی رونے لگتے اور وجد میں آ جاتے ہیں۔ یہ تو قرآن کے مفہوم کو انگریزی میں پیش کرنے کی محض ایک کوشش ہے اور اس کے سحر کی قدرے عکاسی ۔ یہ عربی قرآن کی جگہ نہیں لے سکتا ۔ نہ میرا یہ مقصد ہے ۔

اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ جارج سیل کا ترجمہ کیوں اتنا نا موزوں لگا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کا اور دوسرے غیر مسلموں کا ترجمۂ قرآن پڑھنے سے اِنکار کر دیا۔ پکتھال کا ترجمہ پڑھنے کے بعد میں نے عبد اللہ یوسف علی، مولانا محمد علی لاہوری اورمولانا عبدالماجد دریا بادی کے تراجم کا مطالعہ کیا، اور مجھ پر فوراً انکشاف ہوا کہ عبداللہ یوسف علی اور مولانا محمد علی کا ترجمہ وتفسیر غیرموزوں ہے۔ اس کی وجہ ان کا لہجہ اور دو راز کار اور غیر معقول کوشش تھی جو انھوں نے ان آیات کی تشریح میں کی تھی جو جدید فلسفے اور سائنسی تصورات سے متصادم ہوتی ہیں۔ ان کے متن کا ترجمہ بھی کمزور تھا۔ گو مولانا دریا بادی نے اپنے ترجمے میں تورات کے شاہ جیمز کے ترجمے کے نمونے پر قدیم انداز ِ بیان اختیار کیا ہے۔ اس کے باوجود مجھے ان کی تفسیر عمدہ معلوم ہوئی ، خاص کراس کا وہ حصہ جس میں مختلف مذاہب کا ذکر ہے اور میں نے اس سے بہت کچھ حاصل کیا۔

بہر کیف ، پکتھال کا ترجمہ مجھے بہت پسند آیا اور آج تک مجھے اس کے مقابلے کا کوئی انگریزی ترجمہ نہیں مل سکا ۔ کسی ترجمے میں وہ فصاحت وبلاغت اور انداز بیان نہیں جو اس میں موجود ہے۔ بہت سے دوسرے تراجم میں اللہ کے لیے ’God ‘ کا لفظ استعمال کرنے کی غلطی کی گئی ہے۔ لیکن پکتھال نے ہر جگہ ’ اللہ‘ ہی استعمال کیا ہے۔ اس سے اسلام کے پیغام میں مغرب کے قاری کے لیے بڑا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ جب تک میں ہسپتال میں صاحبِ فراش رہی پکتھال کا ترجمہ مسلسل میرے زیرِ مطالعہ رہا۔ میں نے اسے بار بار پڑھا اور اپنے نوٹس سے اس کے چھے عدد نسخے نشان زد کیے ۔ اللہ تعالیٰ پکتھال پر برکات نازل کرے جس نے امریکا اور انگلستان کے باشندوں کے لیے قرآن کی تعلیمات کا مطالعہ آسان بنا دیا ۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو میں اس سے لا علم رہتی اور اس کی قدر نہ کر سکتی۔

۱۹۰۹ء میں ، ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد مَیں فرصت کے اوقات میں نیویارک پبلک لائبریری کے مشرقی شعبے میں بیٹھ کر اسلام کے متعلق کتب کا مطالعہ کرتی۔ یہیں مجھے       مشکوٰۃ المصابیح مترجمہ الحاج مولانا فضل الرحمن کل کتوی کی چار ضخیم جلدوں کا پتا چلا ۔ مجھے اس بات کا علم ہوا کہ قرآن مجید کو موزوں اور مفصل طور پر سمجھنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک متعلقہ حدیث کا پتا نہ ہو۔ کیوںکہ نبی اکرم ؐ کے اسوہ اور فرمودات کے سوا قرآن حکیم کی تفسیر کس طرح ممکن ہو سکتی ہے جن پر یہ نازل ہوا تھا! وہ لوگ جو منکرِ حدیث ہیں فی الحقیقت وہ منکرِ قرآن ہیں۔

مشکوٰۃ کے مطالعے کے بعد میں نے قرآن کو الہامی کتاب مان لیا ۔ جس چیز نے مجھے اس بات کا قائل کر دیا کہ قرآن منجانب اللہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف نہیں وہ اس کے تسلی بخش اور معقول جوابات ہیں،جو اس نے زندگی کے تمام اہم مسائل کے متعلق دیے ہیں اور یہ ایسے ہیں کہ مجھے کسی دوسری جگہ نہیں ملے۔

میں بچپن میں موت سے بڑی خوف زدہ رہا کرتی تھی ۔ خاص کر اپنی موت کے خیال سے اتنا ڈرتی تھی کہ بعض اوقات خواب دیکھنے کے بعد آدھی رات کو چیخنے لگتی اور والدین کو جگا دیتی۔ جب میں ان سے دریافت کرتی کہ میں کیوں مروں گی اور موت کے بعد میرا کیا بنے گا؟ تو وہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ وہ ناگزیر ہے اور مجھے اسے قبول کرنا ہوگا۔ اور چونکہ طبی سائنس ترقی کر رہی ہے شاید میں ایک سو سال تک زندہ رہوں۔ میرے والدین ، خاندان کے باقی افراد اور تمام دوست احباب بڑی نفرت کے ساتھ حیات بعد الموت ، روزِ حشر، جنت کے انعامات اور دوزخ کی سزا کو توہم پرستی اور فرسودہ عقائد سمجھتے تھے۔

تورات کے انبیا ، بطریق اور اولیا کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ انھیں جزا وسزا اسی دنیا میں ملی تھی۔ حضرت ایوب ؑ کا قصہ مشہور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام پیاروں کو تباہ کر دیا، ان کی املاک برباد کر دیں۔ انھیں ایک اذیت ناک مرض میں مبتلا کر دیا، تا کہ ان کے ایمان کی آزمایش کی جائے۔ حضرت ایوب ؑ نے رو رو کر خدا سے فریاد کی کہ اس نے کیوں ایک نیکو کار انسان کو مصائب میں مبتلا کیا؟ قصے کے خاتمے پر اللہ تعالیٰ ان کے تمام دنیاوی نقصانات کی تلافی کردیتے ہیں۔ لیکن اس میںیہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی حیات بعد الموت میں انھیں کیا جزا ملی۔

میں نے انجیل میں بھی اس کا ذکر دیکھا اور اس کا مقابلہ قرآن مجید سے کیا۔ انجیل کا بیان مبہم ہے۔ میں نے قدیم یہودیت میں بھی مسئلہ موت کا کوئی حل نہیں پایا۔ کیوںکہ تالمود کی تعلیم     یہ ہے کہ بہترین موت سے بدترین زندگی اچھی ہے۔ میرے والدین کا فلسفہ یہ تھا کہ موت کے خیال کو دل میں ہرگز جگہ نہ دینا چاہیے اور زندگی کی عطا کردہ مسرتوں سے مقدور بھر لطف اندوز ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں زندگی کا مقصد یہ تھا کہ انسان خوش وخرم اور مسرور رہے ، اپنے خاندان سے پیار کرے، دوست احباب سے تعلقات بڑھائے ، اور ان تفریحات میں منہمک رہے جن کی امریکا میں فراوانی ہے۔ وہ زندگی کی اس مصنوعی شکل کے سختی سے قائل تھے۔ گویا یہ ان کی مسرت اور خوش قسمتی کی ضامن تھی۔ میں نے تلخ تجربے سے معلوم کیا کہ ان باتوں سے پریشانی نصیب ہوتی ہے، اور ذاتی قربانی اور جدوجہد کے بغیر کوئی قابلِ قدر چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔

 میں اپنے بچپن ہی سے اہم اور بڑے بڑے کام کرنا چاہتی تھی۔ سب سے زیادہ میںاس بات کی خواہش مند تھی کہ اپنی موت سے پہلے مجھے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ میں نے اپنی زندگی کے ایام پرُ معصیت اعمال میں ضائع نہیں کیے۔ میں زندگی بھر سنجیدہ مزاج رہی ہوں ۔ میں نے ہمیشہ عصرِ جدید کی ثقافت سے نفرت کی ہے جس کا بڑا چرچا ہے۔ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے  یہ کہہ کر سخت پریشان کر دیا کہ : ’’دنیا میں کوئی چیز بھی مستقل قدر کی حامل نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم جدید رجحانات کو ناگزیر سمجھیں اور اپنے آپ کو ان کے سانچے میں ڈھال لیں‘‘۔ لیکن میں ہمیشہ اس بات کی خواہاں رہی کہ کوئی ایسی چیز حاصل کروں جو تا ابد قائم رہے اور یہ بات میں نے صرف قرآن مجید سے سیکھی کہ ایسا ممکن ہے۔ اگر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوئی نیک عمل کیا جائے تو وہ ضائع نہیں ہوتا۔ اگر اسے دنیاوی انعام نہ بھی ملے تو اسے اس زندگی کے بعد ضرور ملے گا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو اخلاقی اقدار سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے اور آزادی سے من مانی کرتے ہیں، انھیں اس دنیا میں کتنی ہی کامیابی اور دولت حاصل کیوں نہ ہوجائے اور وہ اپنی مختصر زندگی کو کتنی ہی حسرتوں میں کیوں نہ بسر کریں، قیامت کے دن ضرور گھاٹے میں رہیں گے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد پورا کرنے پر پوری توجہ دیں اور ایسے تمام اعمال اور سرگرمیوں کو ترک کر دیں جو ہمیں اس راستے سے بھٹکاتی ہیں۔

قرآن کی ان تعلیمات کو احادیث نے اور زیادہ اجاگر کر دیا ہے، اور میں نے انھیں اپنے مزاج کے عین مطابق پایا ہے۔ جب میں آغوشِ اسلام میں آئی میرے والدین ، رشتہ داروں اور دوست احباب نے مجھے دیوانی سمجھا کیوںکہ میں اس کے بغیر کسی اور بات کا تصور تک نہ کر سکتی تھی۔ ان کے نزدیک مذہب ایک نجی معاملہ تھا جس میں دوسرے اشغال کی طرح ترقی کی جا سکتی تھی۔ لیکن جب میں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیاتو مجھے معلوم ہو اکہ اسلام کسی لہو ولعب کا نام نہیں ہے۔ اسلام زندگی کی محض ضرورت ہی نہیں ، بلکہ خود زندگی ہے !

سنِ بلوغت کے آغاز سے، ۲۸ سال کی عمر میں پاکستان آنے تک میں معاشرتی لحاظ سے مکمل طور پر ناموزوں رہی ۔ میں ایک سنجیدہ دل ودماغ کی دوشیزہ تھی۔ ہر وقت لائبریری میں کتابوں کے ڈھیر میں غرق رہتی تھی۔ میں سینما، رقص اور موسیقی سے متنفر تھی۔ مجھے مخلوط پارٹیوں سے نفرت تھی۔ مجھے رومان ، شان وشوکت ، سنگھار، زیورات، فیشن ایبل لباس میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس لیے مجھے اس سرد مہری کی پوری سزا ملی۔

میری جیسی ہستی کے لیے امریکا میں کوئی جگہ نہ تھی ، اور میں مستقبل سے مایوس تھی۔ میں وہاں سے نکلی اور پاکستان پہنچ گئی۔ اگرچہ پاکستان کی فضا بھی ہر دوسرے مسلم ملک کی طرح، یورپ اور امریکا سے آنے والے خطرناک گردوغبار سے آلودہ ہے۔ پھر بھی نیک مسلمانوں کی کمی نہیں ہے۔ جن کی بدولت ایک فرد کو ایسا ماحول میسر آ جاتا ہے جس میں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکتا ہے ۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ بعض اوقات میں ان باتوں پر عمل پیرا نہیں ہو سکتی جن کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ لیکن میں نے اپنی کمزریوں کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت کی دور از کار تاویلات کرنے کی جرأت نہیں کی۔ میں جب بھی کسی غلطی کی مرتکب ہوتی ہوں، فوراً اس کا اعتراف کر لیتی ہوں اور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ مسرت جو مجھے اسلام کے دامنِ رحمت میں اپنی حیاتِ نو کے طفیل نصیب ہوئی ہے، سرا سر اس حقیقت کی مرہونِ احسان ہے کہ نسوانی کردار کی اُن صفات کو اسلام میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جنھیں مغربی معاشرے میں نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔   

 

اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ تصور ہے کہ انسان اللہ کا بندہ ہے۔ عربی میں اللہ کے بندے کو ’عبداللہ‘ کہتے ہیں۔ یہ نام مسلمان ملکوں میں عام پایا جاتا ہے۔ اسلام کے حقیقی معنی ہیں اللہ کی مرضی کے آگے جھک جانا۔ وہ سب لوگ جو اللہ کی اطاعت و رضا کی اس زندگی کو اختیار کرتے ہیں مسلمان کہلاتے ہیں۔ چونکہ اللہ کی ذات برترو بالا ہے اور وہی ساری کائنات کی فرماں روا ہے، اس لیے مسلمان ذہن کو کلیسا اور ریاست کی تفریق کا مسیحی تصور بالکل غیرمنطقی نظر آتا ہے۔ اسلامی حکومت کا مقصد اللہ کے قانون کا نفاذ ہے، جو قرآن و سنت میں محفوظ ہے۔ مسلمان حکمران نہ تو خود قانون کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے، نہ وہ اپنے طور پر کوئی نیا قانون بنانے کا حق رکھتا ہے۔ شریعت ِ الٰہی کو کبھی بدلا نہیں جاسکتا۔ ہاں ، اس کی تعبیر کی جاسکتی ہے، وہ بھی کڑی حدود کے اندر۔

ہرچیز کا مالک اللہ ہے۔ انسان کی اپنی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ کلیتاً اللہ تعالیٰ کا دست ِ نگر ہے۔ ہر وہ شے جو انسان کے قبضہ و تصرف میں ہے، حتیٰ کہ اُس کا جسم بھی___ اللہ تعالیٰ نے محض مستعار دی ہے، تاکہ وہ اسے حتی الامکان انتہائی معقول طریقے سے کام میں لائے۔ اگر کوئی شخص اِس ذمّہ داری سے پہلوتہی کرتا ہے تو وہ عبرت ناک سزا پائے گا۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنے کے لیے بوقت ضرورت ہرشے اپنی ذاتی مسّرت،اپنا عیش و آرام، اپنی خواہشات، آسایشیں، دولت، مال و متاع، حتیٰ کہ زندگی تک راضی خوشی قربان کردینے میں کوئی پس و پیش نہ کرے۔ اِس کا اجر اُسے ابدی مسرت اور قلبی اطمینان کی صورت میں ملے گا۔ ’اللہ کا بندہ‘ ہونے کا مطلب انسانوں کے جورواستبداد سے آزادی ہے۔ سچا مسلمان کسی انسان سے نہیں ڈرتا، وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔

مسلمان دنیا کو دو مخالف کیمپوں___ دارالاسلام اور دارالکفر میں تقسیم کرتا ہے۔ نوعِ انسان کی بدترین مصیبت، غربت، بیماری یا ناخواندگی نہیں، کفر ہے۔ نوعمر حاملہ دُلھنیں، کنواری مائیں، امراضِ خبیثہ، اسقاطِ حمل، زنا بالجبر، حرامی بچے، لاوارث شرابی اور جنگ جویانہ وطن پرستی، سب کفر کے منطقی نتائج اور تلخ ثمرات ہیں۔ جو کچھ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے، سب سے بڑی نیکی اور بھلائی اُسی سے عبارت ہے۔ اس کے برعکس کفر اللہ تعالیٰ کے خلاف کھلی بغاوت ہے جسے کبھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسلمان اپنے دوسرے ہم چشم انسان کی سیرت کا اندازہ اُس کے عقیدے کی صحت اور روزمرہ زندگی میں اس کے عملاً نفاذ کی اساس پر کرتا ہے۔ کسی شخص کی نسل، قومیت، دولت یا معاشرتی حیثیت کا، اس کے حقیقی انسانی وصف سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک شخص جس چیز پر ایمان لانے کا مدعی ہے، اگر اُس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتا تو وہ محض ایک منافق ہے، فی الحقیقت وہ سرے سے ایمان ہی نہیں رکھتا۔ ایک مسلمان کے نزدیک انسان کے کسی فعل کا دارومدار اُس کے عقائد پر ہے۔ کیونکہ فوق الفطرت دینی بنیادوں کے بغیر وہ حُسنِ عمل اور اخلاقیات کے وجود کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

سچا مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔ موت وہ گھاٹی ہے جس سے گزر کر ایک مسلمان اَبدی زندگی سے ہمکنار ہوتا اور قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ مسلمان جب بیمار ہوتا ہے تو صحت یاب ہونے کے لیے ہرممکن علاج معالجہ کرواتا ہے، لیکن بایں ہمہ اگر تمام طبی وسائل اس کی صحت بحال کرنے اور زندگی بچانے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہتا ہے۔ اُس کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جان دار کی زندگی کی مدّت پہلے ہی سے مقرر کردی ہے۔ کوئی شخص نہ تو اس مقررہ وقت سے پہلے مرسکتا ہے نہ دنیا بھر کی دوائیں اور طبیب مل کر اس کی موت کو آنِ واحد ہی کے لیے مؤخر کرسکتے ہیں۔

سچا مسلمان متعصب نہیں ہوتا۔ قرآنِ پاک تجسس اور غیبت کی ممانعت کرتا ہے۔ کوئی مسلمان چاہے کتنا ہی غلط کار کیوں نہ ہو، جب تک وہ اپنے دین کو علانیہ نہیں چھوڑتا، اُسے دوسرا مسلمان دینی و معاشرتی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا۔ مسلمان نہ تو دوسرے مذاہب پر دست ِ جورو وتعدّی دراز کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے سایے میں مذہبی اقلیتیں خودمختار اور سالم گروہوں کی صورت میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ انھیں اپنے مذہبی قوانین پر چلنے، اپنے بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق تعلیم دینے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو دوام بخشنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مزیدبرآں انھیں جان و مال کا مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ بحیثیت انسان مساوی انصاف اور عمدہ سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ تاہم شریعت ِ اسلامی کے اِن تمام عطا کردہ حقوق کے باوجود کسی غیرمسلم کو مسلمان کا ہم سر نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسلامی حکومت کے سایے میں بسنے والے غیرمسلم، فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہوتے ہیں، کیونکہ جو لوگ اسلام کی دعوت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس کی خاطر جنگ کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر کسی غیرمسلم کو حکومت کے کلیدی مناصب پر بھی فائز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسلمان نسلی و قومی اختلاف کے باوجود دوسرے مسلمانوں کے ساتھ گہری قرابت محسوس کرتا ہے، لیکن غیرمسلموں کے درمیان وہ اپنے آپ کو ہمیشہ اجنبی پاتا ہے۔

اسلام ایک عالم گیر دین ہے۔ اُس کے دروازے تمام نوعِ انسانی پر کھلے ہیں۔ وہ غیرمسلموں کو اپنی آغوشِ رحمت میں لانے کے لیے سرگرم جدوجہد کرتا ہے۔ مسیحیوں کے برعکس ہمیں پیشہ ور مبلّغین کی ضرورت نہیں۔ ہرمسلمان بجاے خود ایک مبلّغ ہے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت، اپنی امکانی حد تک، اُس کا مقدس فریضہ ہے۔ بہت سے غیرمسلم یہ جان کر ورطۂ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ دنیا کے وسیع و عریض علاقوں میں خصوصاً جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ میں ___ اسلام عام عرب اور ہندستانی تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ اس مقصد کے لیے نہ تو جبروتشدد اور قوت سے کام لیا گیا نہ ان ممالک کو سیاسی طور پر کبھی محکوم بنایا گیا۔ یہ نتائج صرف اس لیے رُونما ہوئے کہ ان تاجروں اور بیوپاریوں نے پہلے اسلام کو پیش کیا اور پھر کاروبار کی طرف توجہ دی۔

صحیح راسخ الاعتقاد یہودیوں کی طرح مسلمان بھی یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا تقرب اُس کے مقدس قوانین کی تعمیل اور پابندی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ بنابریں وہ عبادات اور اخلاقیات کے درمیان کوئی نمایاں خط ِ امتیاز نہیں کھینچتے، جو ایک دوسرے کے ساتھ غیرمنفک طور پر مربوط ہیں۔ مسلمان روح کو اُس کے خارجی قالب سے الگ نہیں کرتے کیونکہ ان کا ایقان ہے کہ کوئی عقیدہ اپنے محسوس مظہر کے بغیر مؤثر اور کارگر نہیں ہوتا۔

وضو اور نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے عین مطابق ادا کرنا لازمی ہے۔ نماز ایک مسلمان کے اندر حساس ضمیر اور بلندکردار کو نشوونما دیتی اور اسے پختگی عطا کرتی ہے۔ اس لیے کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی یہ دیکھنے والا نہیں ہوتا کہ اُس نے یہ فرض ٹھیک ٹھیک انجام دیا ہے یا نہیں۔ شخصی حفظانِ صحت اور طہارت و پاکیزگی کی ضرورت پر اور کوئی مذہب اس قدر زور نہیں دیتا۔ جسمانی طہارت، روحانی پاکیزگی کو متاثر کرتی ہے اور خارجی انسان داخلی انسان کا مظہر ہوتا ہے۔

قرآن و سنت کا تعزیری قانون وہ اہم ترین موضوع ہے جس پر غیرمسلموں نے نکتہ آفرینی کی اور غلط فہمی پھیلائی ہے۔ اسلام جن اُمور کو معاشرے کے خلاف بدترین جرائم قرار دیتا ہے  مغربی ممالک میں انھیں شاید ہی جرم سمجھا جاتا ہے، اور چوری کے سوا کسی جرم پر شاذونادر ہی  قانونِ تعزیرات نافذ کی جاتی ہیں۔ مسلمان نہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ قانون کی خوبی اور فضیلت کا انحصار اس کی نرمی پر ہے اور نہ اُن کا یہ اعتقاد ہے کہ مجرم معاشرے سے زیادہ ہمدردی اور شفقت کے سزاوار ہیں۔

مسلمانوں کی نظر میں قرآن و سنت کا تعزیری قانون ساتویں صدی عیسوی کے قدیم عرب کا ظالمانہ اور وحشیانہ حاصل نہیں ہے اور نہ وہ آج کی دنیا سے غیرمتعلق ہے۔ اس کے برعکس ان کا ایقان یہ ہے کہ یہ قانون ہمارے جدید قیدخانوں کی اخلاقی سیہ کاریوں اور انتہائی نفسیاتی تخریب کاریوں سے زیادہ مجرموں کا شفیق و ہمدرد اور ایک حقیقی اسلامی معاشرے کو جرائم سے پاک صاف رکھنے میں انسان کے خودساختہ قوانین سے زیادہ مؤثر ہے۔

مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ایک صحت بخش معاشرہ وجود میں لانے کے لیے مردوں اور عورتوں کی علیحدگی نہایت ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مسلمان مخلوط معاشرتی تقریبات، مخلوط درس گاہیں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں شادی سے پہلے عشق و محبت کی پینگیں (کورٹ شپ) برداشت نہیں کرسکتا۔ لازم ہے کہ نہ تو مرد غیرعورتوں کی طرف دیکھیں، نہ عورتیں غیرمردوں کی طرف۔ ہروقت حیادار لباس زیب تن رہے۔ عورتوں کو کسی کام سے باہر جانا ہو تو اپنا پورا جسم پردے میں ڈھانپ کرنکلیں اور حتی الامکان سیدھے سادے، غیرنمایاں انداز میں چلیں پھریں۔ عورت کا حُسن و جمال صرف اس کے اپنے لیے ہے۔ اُس کا جسم کسی حالت میں بھی بے پردگی اور آوارہ نگاہوں کا ہدف نہیں بننا چاہیے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان عشق و محبت کے کھلے عام مظاہرے سخت تعزیر کے لائق ہیں۔ اسلام مرد کو گھر سے باہر کے معاشرتی فرائص سونپتا ہے اور عورت کو درونِ خانہ کے تمام معاملات کا ذمہ دار بناتا ہے۔ بنابریں کاروبار یا سیاست کے میدان میں مردوں کے ساتھ مسابقت عورتوں کا کام نہیں ہے۔مسلمان خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ عورت جب ایک دفعہ گھر کو چھوڑ دیتی ہے تو گھر باقی نہیں رہتا۔

تجرد کی زندگی کو قرآن و سنت مذموم قرار دیتے ہیں۔ ہر مرد اور عورت سے ازدواجی زندگی بسر کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اگرچہ مرد کو چار بیویاں کرنے کی اجازت ہے، تاہم نہ تو اسلام  تعددِ ازدواج کا حکم دیتا ہے اور نہ مسلمان معاشرے میں اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بس یہ ایک اجازت ہے جس سے خال خال لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت ہمیشہ یک زوجگی پر عامل رہی ہے۔

اسلام کی طرف سے محدود تعددِ ازدواج کی اجازت ناجائز تعلقات کو بڑی حد تک ختم کردیتی ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص کسی دوسری عورت سے تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہے تو اُس کے لیے پہلے اُس عورت کے ساتھ شادی کرنا، اس کی کفالت کا بار اُٹھانا اور ربویت کی ذمہ داری کو قبول کرنا ضروری ہے۔ اسلام بھی قومی اور بین الاقوامی پیمانے پر ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کے اتنا ہی مخالف ہے جتنا کہ رومن کیتھولک چرچ اور اس مخالفت کے اسباب بھی تقریباً یکساں ہیں۔  ایک مسلمان کے نزدیک اس سے بڑھ کر فساد اور دین و مذہب سے انحراف اور نہیں ہوسکتا کہ  انسان ازدواجی تعلقات بھی قائم رکھے اور ان کی اصل غرض و غایت کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈالے۔    مانع حمل ادویات وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت صرف غیرمعمولی انفرادی صورتوں میں ہے اور وہ بھی محض طبی بنیادوں پر۔ بچوں کی تعداد میں تخفیف کی عمداً کوشش کرنے کے لیے اقتصادی وجوہ کا عذر ناکافی ہے ، کیونکہ آدمی کا رازق خود آدمی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے۔

اسلام ’فنونِ لطیفہ‘ کی حوصلہ شکنی کرتا اور اس سلسلے میں تمام دیگر مذاہب سے مختلف راے رکھتا ہے۔ ایک مسلمان قوم میں کسی میخائیلنگلو، ریمبرانٹ، بیتھوئون یا شیکسپیئر کو اپنے اُوپر نچھاور کرنے کے لیے تحسین و آفرین کے پھول نہیں ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان شہروں میں سمفنی سرودگاہوں، اوپیرا گھروں،تھیٹروں اور فنی عجائب خانوں کا نمایاں فقدان ہے۔ اسلامی فن کی تخلیقی قوت نے اپنا کاملاً اظہار عربی خطاطی کی صورت میں کیا ہے یا طرزِتعمیر میں، جس سے آج تک کوئی قوم سبقت نہیں لے جاسکی۔

سازوسرود کو ہرجگہ مذموم قرار دیا جاتا ہے۔ مساجد میں تو وہ بالکل ممنوع ہے۔ پیشہ ور مطرب اور سازندے پوری دنیاے اسلام میں معاشرتی لحاظ سے پست اور ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ سازوسرود انسان کے قلب و ذہن کو اپنے اللہ سے غافل کردیتے ہیں اور بالآخر اُسے شہوت پرستی کی پستیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے جذبات کے اظہار پر بے حد مجبور ہوجائے تو اُسے گانے کی اجازت ہے، لیکن احتراز و اجتناب اولیٰ تر ہے۔ کوئی عفیف اور پاک دامن شریف مسلمان خاتون کھلے عام نہیں گائے گی۔ قرآنِ پاک کی قرأت، اذان اور قوالی کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت گوئی واحد نغمہ و سرود ہے جسے مستحسن سمجھا جاتا ہے۔

چونکہ رقص ناجائز جنسی تعلقات کا نہایت طاقت ور محرک ہے، اس لیے اسلام میں اس کی مکمل ممانعت ہے۔ شاید عیدالفطر اور عیدالاضحی کے تہوار، جب کہ لوگوں کو جہاد کے لیے جوش میں لانا مقصود ہو، یا شادی کی تقریبات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس قسم کے جشن کبھی مخلوط نہیں ہوتے۔   مرد مردوں کے ساتھ مل کر رقص کرتے ہیں اور عورتیں صرف عورتوں کے ساتھ۔

اسٹیج، سینما یا ٹیلی ویژن کے پردوں پر سوانگ بھرنے کی بھی اسی بناپر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کھیل، تماشے، خواہ ان میں کوئی شخص ایک کردار کی حیثیت میں شریک ہوتا ہے یا تماشائی کی،  نہ صرف فسق و فجور کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بلکہ لوگوں کو اپنے ذاتی تصورات میں اس حد تک   گم کردیتے ہیں کہ حقیقی زندگی سے اُن کی دل چسپی جاتی رہتی ہے۔

لٹریری فکِشن، خواہ ڈرامے کی شکل میں ہو یا ناول کی، کسی مسلمان ملک سے کوئی فطری تعلق نہیں رکھتا۔ البتہ خطابت اور شاعری کو بے حد ترقی دی جاتی ہے اور فصیح تقریروں کو مسلمان ہرجگہ بڑی قدرووقعت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

اسلام کا نظامِ حیات بدیہی اقدار پر مبنی ہے۔ اخلاق و صداقت ابدی اور عالم گیر ہیں۔ انھیں انسان نے نہیں اللہ نے جاری کیا ہے۔ بنابریں انسان ان میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ مسلمانوں کے نزدیک قرآنِ کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں، اللہ کی کتاب ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقیقی معنوں میں سچا ہے اور اس کی اطاعت لازمی ہے۔ قرآنِ کریم  علمِ کُل کا منبع ہے اور اُس کے کسی جزو کے متعلق شک و ریب کا اظہار اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو    مسترد کردینے کے مترادف ہے۔ حدیث یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور سنت___ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا عمل___ قرآن کریم کی صحیح تعبیروتشریح کے لیے لازمی ہیں۔ دوسرے کے بغیر تنہا کسی ایک پر انحصار بے معنی ہے۔ چونکہ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی خطا سے مبریٰ، مکمل اور آخری وحی ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس لیے اسلام کی نہ تو ’تہذیب و اصلاح‘ کی جاسکتی ہے، نہ اس میں کسی قسم کا ردّ وبدل کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ’ترقی دینے‘ کی ضرورت کبھی پیش نہیں آسکتی۔ اسلام ایک مکمل اور خودمکتفی دین ہے۔ اخذ وانتخاب کی اس میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ مسلمان کے نزدیک ’ترقی‘ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو قرآنِ کریم کے الفاظ اور روح کے عین مطابق ڈھالیں۔ اُن کا دنیاوی مقصود مادی کامیابی نہیں، آخرت کی زندگی کے لیے سازوسامان مہیا کرنا ہے۔

اسلام مسلمانوں سے کامل اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ مسلمان شب و روز کے ہرلمحے میں مسلمان رہتا ہے۔ اسلام کی ضابطہ پسندی کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے لیے ناقابلِ تصور ہے۔ اس کے قوانین ایک مسلمان کی پیدایش سے لے کر موت تک، زندگی کے ہرپہلو پر حاوی ہیں۔ وہ بیداری کے عالم میں ہو یا خوابیدہ، اسلام ہروقت مسلمان کے ساتھ رہتا ہے۔ اُسے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی اسلامی حیثیت کو فراموش کرنے کی اجازت نہیں۔ (اسلام ایک نظریہ، ایک تحریک، ص۵۳-۶۱)

اس مختصر مضمون کا مقصد‘ معروف عالمی شخصیت مولانا مودودی کی تحریروں سے یہ بات سامنے لانا ہے کہ عصرِ حاضر کی نشات جدید کی فکر اور ترقیات کے تمدنی پہلو پر آپ کی کتنی گہری نظر تھی۔

اس مضمون میں جدیدیت (Modernity) کے مسئلے میں ذاتی رائے سے قطع نظر میں مولانا مودودی کی سوچ و فکر کو یک جا پیش کر رہی ہوں تاکہ ایک قاری اپنی جگہ یہ فیصلہ کر سکے کہ آپ عصرِحاضر میں اسلام کی نشات جدید کو جدید کاری سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کس حد تک کوشاں تھے!

اس حقیقت کا مولانا مودودی کے انتہائی معتمد اور بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر اقتصادیات پروفیسر خورشید احمد نے ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:

تحریکِ اسلامی کی بین الاقوامی محاذ پر تہذیب جدید کی توجہ، قرنِ اولیٰ کے صحیح اسلامی ذرائع کی طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ اسلامی اقدار اور اصولوں پر کسی قسم کی سودے بازی اور پسپائی کے بغیر پیش آمدہ چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، گویا کہ اس کے ہاں ’جدید کاری‘ کے لیے تو ’ہاں‘ ہے، مگر مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ’جدیدیت‘ کاشکار ہونے کے لیے’ہرگز نہیں‘ ہے۔ تحریکِ اسلامی ایک طرف پوری طرح سے ترقی اور جدید کاری کا بخوبی ادراک رکھتی ہے، دوسری طرف مغرب زدگی اور سیکولرازم کا بھی شعور رکھتی ہے۔ اس کش مکش میں دونوں نظریات کے حامل انتہاپسند ہیں، خواہ وہ مغرب زدہ ہیں خواہ عام روایتی عناصر، سوچنے سے عاری ہیں۔۱ ؎

آگے چلیے، میری رائے میں مغربیت اور جدیدیت کے درمیان کوئی حد امتیاز قائم کرنا عبث ہے کہ نتائج کے لحاظ سے دونوں قطعی یکسانیت کے حامل ہیں۔

اب آیئے! مولانا مودودی کے ایک اور رفیق کار جناب خرم مراد مرحوم (۹۶ - ۱۹۳۲ئ) کے ہاں، جو جدید اصطلاحات کے استعمال کے بارے میں کہتے ہیں:

مشکل یہ آن پڑی ہے کہ بعض مغربی الفاظ جو ہماری روزمرہ کی زبان کا حصہ بن چکے ہیں، وہ اب حقیقت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب معاملہ ہم پر ہے کہ ہم ان کو اپنے ہاں جگہ دیں یا نہ دیں، اور انھیں بس اغیار کے الفاظ سمجھ کر ان سے اجتناب کریں۔ لیکن جب تک ہم اس روش پر جمے رہیں گے، مغرب، اسلام کے بارے میں کچھ سننے کا روادار نہ ہو گا --- اب جہاں پر معاشرے پر حاوی کسی اجنبی کلچر کی اصطلاحات کا غیر ضروری استعمال اپنے اندر کئی خطرات رکھتا ہے، وہاں ضروری ہے کہ اپنی پیش رفت کے لیے اسے (بڑی حکمت سے) استعمال میں لایا جائے۔ چنانچہ بعض اصحاب جو بعض مغربی الفاظ کے شدت سے خلاف ہیں، وہ بھی ان کے بعض الفاظ کو استعمال کرنا کوئی عیب خیال نہیں کرتے۔ اب اگر ان کے نزدیک ’تحریک‘ (movement) ، ’نظام‘ (system) اور ’انقلاب‘ (revolution) کے الفاظ نا پسندیدہ ہیں، تو اسلامی جمہوریت، اسلامی ری پبلک اور اسلامی سٹیٹ وغیرہ کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا بذات خود یہ الفاظ مغربیت اور اس کے مضمرات کے حامل نہیں؟ بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ قرآنِ کریم اور سنتِ نبویؐ کا کامل اور صحیح شعور ہی حقیقی رہنما ہو سکتے ہیں --- اس مقصد کے لیے صرف وہ الفاظ ہی استعمال کیے جائیں جو دونوں ثقافتوں میں غیر جانب دار (نیوٹرل) اور انسانی فکروعمل کے حامل ہوں۔ موثر(dynamic) نظریہ (ideology) اور جمہوریت (democracy) اب کسی کلچر کے لیے غیر نہیں رہے۔۲ ؎

مولانا مودودی کی پرورش اور تربیت ایک ایسے اسلامی گھرانے میں ہوئی، جہاں آپ کے والدین دونوں بے داغ پاکیزہ سیرت کے مالک تھے۔ ابھی آپ کی عمر تقریباً سترہ برس تھی کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا۔ لیکن جیسے ہی آپ عمر کے اس حصے میں داخل ہوئے، آپ کو بیرونی اثرات نے آلیا اور عارضی طور پر اسلام سے منسوب مروجہ ہیئت نے آپ کا اعتماد متزلزل کردیا‘ تا آنکہ  قرآن و حدیث کے والہانہ انداز میں مطالعے نے دوبارہ اسے پوری طرح بحال کر دیا، جس کا آپ نے ان الفاظ (جولائی ۱۹۳۹ئ) میں تذکرہ کیا ہے:

’’دوسرے رفقا کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کا کیا حال ہے‘ مگر اپنی ذات کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ‘ اسلام کو جس صورت میں‘ میں نے اپنے گرد و پیش کی مسلم سوسائٹی میں پایا‘ میرے لیے اس میں کوئی کشش نہ تھی۔ تنقید و تحقیق کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد پہلا کام جو میں نے کیا‘ وہ یہی تھا کہ اس بے روح مذہبیت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکا جو مجھے میراث میں ملی تھی۔ اگر اسلام صرف اسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو شاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں میں جا ملا ہوتا‘ کیونکہ میرے اندر نازی فلسفے کی طرف کوئی میلان نہیں ہے کہ محض حیات قومی کی خاطر اجداد پرستی کے چکر میں پڑا رہوں۔ لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور ازسرنو مسلمان بنایا وہ قرآن اور  سیرت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ تھا۔ اس نے مجھے انسانیت کی اصل قدروقیمت سے آگاہ کیا۔ اس نے آزادی کے اس تصور سے مجھے روشناس کیا‘ جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے لبرل اور انقلابی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس نے انفرادی حسنِ سیرت اور اجتماعی عدل کا ایک ایسا نقشہ میرے سامنے پیش کیا‘ جس سے بہتر کوئی نقشہ میں نے نہیں دیکھا --- پس درحقیقت  میں ایک نو مسلم ہوں۔ خوب جانچ کر اور پرکھ کر اس مسلک پر ایمان لایا ہوں جس کے متعلق میرے دل و دماغ نے گواہی دی ہے کہ انسان کے لیے فلاح و صلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے۔ میں صرف غیر مسلموں ہی کو نہیں‘ بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں‘ اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے‘ جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے۔ بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ‘ آئو اُس ظلم و طغیان کو ختم کر دیں جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے‘ انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹا دیں اور قرآن کے نقشے پرایک نئی دنیا بنائیں‘ جس میں انسان کے لیے بحیثیت انسان کے شرف و عزت ہو‘ حریت اور مساوات ہو‘ عدل اور احسان ہو۔۳؎

مولانا مودودی نے اپنے ادبی کیریر کا آغاز تیرہ سال کی کم عمری میں، ’آزادی نسواں‘ کے حامی ایک عرب ادیب قاسم امین (قاہرہ ۱۹۰۰ئ) کی عربی تصنیف المرۃ الجدیدہ ]جدید خاتون[ کے اُردو ترجمے ] ۱۹۱۶ئ[ سے کیا۔ اس کتاب میں مصنف نے مغربی فکر کو اپناتے ہوئے ’’پردہ‘‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اگرچہ سید مودودی کے والد اور آپ کے عرب استاد نے کتاب کے مضمون سے بیزاری کا اظہار کیا‘ لیکن اس اُردو ترجمے کی ]روانی‘ سلاست اور چٹخارے دار محاورے[ زبان پر عش عش کیے بغیر نہ رہ سکے۔ تاہم بعدازاں آپ جس انداز سے ’’پردہ‘‘ کی پُرزور تائید کے ساتھ عورت کے بارے میں کلاسیکل انداز فکر کے مظہر نظر آتے ہیں‘ اسے طبعی امر سمجھنا چاہیے --- اگرچہ وہ مسودہ محفوظ نہیں‘ ] اور نہ شائع ہوا ہے[ تاہم اپنی جگہ یہ امر ایک راز ہی رہے گا کہ آپ نے اتنی کم عمری میں المرۃ الجدیدہ جیسی کتاب کو کیوں ترجمے کے لیے منتخب کیا۔

محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے قبل کلاسیکل عربی ادب اور شاعری کے بارے میں مولانا مودودیؒ،بالخصوص قبل از اسلام شاعری کے بارے میں ایک سخت رائے رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

ذرا ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دیکھو‘ --- عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا --- اس کے اردگرد ایران‘ روم اور مصر کے ملک تھے‘ جن میں کچھ علوم و فنون کا چرچا تھا مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو ان سب سے جدا کر رکھا تھا۔ --- خود عرب میں کوئی اعلیٰ درجے کا تمدن نہ تھا‘ نہ کوئی مدرسہ تھا‘ نہ کوئی کتب خانہ تھا‘ نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچا تھا تمام ملک میں گنتی کے چند لوگ تھے جن کو کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا‘ مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے --- وہاں کوئی باقاعدہ حکومت بھی نہ تھی۔ کوئی قانون بھی نہ تھا --- آزادی کے ساتھ لوٹ مار ہوتی تھی --- اخلاق اور تہذیب کی اُن کو ہوا تک نہ لگتی تھی۔ (دینیات ۱۹۷۷ئ‘ ص ۶۰ - ۶۱)۴؎

مولانا مودودی نے پیغمبر اسلام حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے بلند ترین مقام کی وضاحت کے لیے شان دار کام کیا ہے‘ اسے آپ رسالہ دینیات میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:

پھر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنی تعلیم و تربیت سے انھی عربوں کو وحشت اور جہالت سے نکال کر اعلیٰ درجے کی مہذب قوم بنا دیا۔ جو عرب کسی قانون کی پابندی پر تیار نہ تھے‘ ان کو ایسا پابند قانون بنا دیا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی پابند قانون نظر نہیں آتی --- یہ تو وہ اثرات ہیں جو عرب قوم پر ہوئے۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز اثرات اس امی صلی اﷲ علیہ و سلم کی تعلیم سے تمام دنیا پر ہوئے --- حیرت یہ ہے کہ جنھوں نے اس کی پیروی سے انکار کیا‘ وہ بھی اس کے اثرات سے نہ بچ سکے --- اس نے قانون اور سیاست اور تہذیب و معاشرت کے جو اصول بتائے وہ اتنے پکے اور سچے اصول تھے کہ مخالفوں نے بھی چپکے چپکے ان کی خوشہ چینی شروع کر دی۔ (دینیات ‘ ص ۶۸ - ۶۹۔  ibid, p 52)

اسی پر مولانا مودودی بس نہیں کرتے‘ بلکہ جب آپ وہاں کے ماضی بعید کا مطالعہ کرتے ہیں‘ تو حاضر کے مقابلے میں آپ حیران کن انداز میں انسانیت کی سوچ کا رخ ایک صحیح طرف موڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ متعدد مقامات پر تحریر فرماتے ہیں: یہ رسول اللہؐ ہی ہیں‘ جنھوں نے انسانیت کو اوہام پرستی سے نکالا اور خردمندی کا راستہ دکھایا‘ حقیقت پسندی کے ادراک اورعقل و دانش کی قدر سکھائی۔ یہی وجہ ہے‘ جس نے انسانیت کو سائنسی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔

اسلام کا دورِ زریں‘ جو تاریخ میں سائنس اور آرٹ کی ترقی کے لحاظ سے مسلمانوں کا شان دار باب کہلاتا ہے‘ مولانا مودودی کو ذرا بھی متاثر نہیں کرتا۔ آپ کو ایک ایسی جامع خوبیوں کا معاشرہ ہی مطمئن کر سکتا ہے‘ جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہو۔ حالانکہ ایسے معاشرے کا وجود میں آنا بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

اس مطلوب اور محمود دنیا کو حقائق کی دنیا میں لانے کے لیے مولانا مودودیؒ بڑے پر اعتماد رہے ہیں۔ آپ کو امید تھی کہ آپ کی تحریک ان تمام غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرے گی جو ماضی میں ہوئی ہیں اور اس کے بجائے ماضی کے علمی اور دیگر اثاثے میں جو بھی خیر کا پہلو ہو گا‘ اسے بروئے کار لانے میں کوئی کوتاہی کرنے سے پہلو بچائے گی۔ ایسے میں جب مسلمانوں کے شان دار تاریخی ماضی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا معیار مولانا مودودی کی سوچ اور فکر سے ہم آہنگ نہیں‘ کیونکہ مولانا اسے اسلام کا تاریک ترین دور قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

]خلافت راشدہؓ کے بعد[ جاہلیت خالصہ نے حکومت اور دولت پر تسلط جمایا۔ نام خلافت کا تھا اور اصل میں وہی بادشاہی تھی‘ جس کو مٹانے کے لیے اسلام آیا تھا --- اس بادشاہی کے زیر سایہ امرا‘ حکام‘ وُلاۃ‘ اہل لشکر اور مترفین کی زندگیوں میں کم و بیش خالص جاہلیت کا نقطہ نظر پھیل گیا‘ اور اس نے ان کے اخلاق اور معاشرت کو پوری طرح ماؤف کر دیا۔ پھر یہ بالکل ایک طبعی امر تھا کہ اس کے ساتھ ہی جاہلیت کا فلسفہ‘ ادب اور ہنر بھی پھیلنا شرع ہو‘ اور علوم و فنون بھی اسی طرح مرتب و مدوّن ہوں‘ کیونکہ یہ سب چیزیں دولت اورحکومت کی سرپرستی چاہتی ہیں‘ اور جہاں دولت اور حکومت‘ جاہلیت کے قبضے میں ہوں وہاں ان پر بھی جاہلیت کا تسلط ناگزیر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یونان اور عجم کے فلسفے اور علوم و آداب نے اس سوسائٹی میں راہ پائی جو اسلام کی طرف منسوب تھی (سید مودودی  تجدید و احیاے دین‘ ص ۳۸ - ۳۹)

اسی زرّیں دور کے بغداد کے دارالحکمت کو بھی مولانا مودودی تاریک دور کا دارالحکمت   قرار دیتے ہیں‘ جس میں عہد عتیق کے عظیم فنون کو عربی میں منتقل کیا گیا اور جنھیں انسانی تہذیب کی تاریخ کے تمدنی واقعات میں اہم ترین واقعات قرار دیا جا سکتا ہے۔

حتیٰ کہ امت ِ مسلمہ‘ اسلامی آرٹ کے جس بیش بہا قیمتی خزینے پر بڑا فخر کرتی ہے‘ مولانا اس کے سحر کا ذرا بھی اثر نہیں لیتے اور اس کے بارے میں بڑے محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ کا اصرار ہے کہ آلایشوں سے پاک اسلامی کلچر کو ’فائن آرٹ‘ نام کی شے سے دُور کی بھی نسبت نہیں۔ اس مخصوص پس منظر میں آپ لفظ ’حسن‘ کو عیاشی کے معنوں میں لیتے ہیں‘ جسے محلات میں عیاشانہ زندگی بسر کرنے والے رؤسا نے اپنایا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جو افراد دنیا میں اسلامی نظام کو غالب کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں‘ وہ معروف معنوں میں فتونِ لطیفہ کا ادراک نہیں کر پاتے۔

مولانا مودودی نے کھلے دل سے مساجد میں لائوڈ سپیکر کے استعمال کی تائید کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس اسلامی ماحول کے آپ متمنی ہیں‘ آپ ۱۹۳۸ء میں کہتے ہیں: ’’یہ ایجاد ان ارضی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے‘ جس کا اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا ہے۔ یہ آلہ قدرتی آواز کو بلند کر دیتا ہے۔ چنانچہ شریعت کے اصولوں کے مطابق اس آلہ کا استعمال بلاشک و شبہہ جائز ہے --- کسی نوایجاد چیزکے استعمال کو مکروہ یا ناجائز ٹھیرانے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ وہ عہدِرسالت میں‘ یا عہدصحابہ میں‘ یا عہدائمہ میں موجود نہ تھی… میرا مقصد یہ ہے کہ ساینٹی فک ایجادات اور تمدن جدید کے آلات و وسائل کے متعلق مسلمان اپنا رویہ بدلیں۔ یہ آلات بجائے خود ناپاک نہیں ہیں۔ اصل میں وہ طریق استعمال ناپاک ہے جو مغرب کی باغیانہ تہذیب نے اختیار کر رکھا ہے۔ خداوندعالم نے جن چیزوں کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے‘ وہ بالیقین پاک اور مطہر ہیں۔ اور ان کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ ان سے خدائی قانون کے مطابق کام لیا جائے۔ مگر ان پر دہرا ظلم ہو رہا ہے‘ کہ جن کے پاس خدائی قانون موجود ہے‘ وہ ان سے کام نہیں لیتے اور جو ان سے کام لے رہے ہیں وہ شیطانی قانون کے متبع ہیں۔ (تفہیمات‘ دوم)

چنانچہ مولانا زندگی بھر سائنس اور ٹکنالوجی کی کامیابیوں میں گہری دل چسپی لیتے رہے۔ ۲۰جولائی ۱۹۶۹ء کو جب چاند پر پہلا انسان اترا تو مولانا مودودی نے کہا: ’’چاندپر آدمی کا اترنا بہرحال سائنس کی ترقی کا کمال ہے۔ اس کمال کا اعتراف نہ کرنا ایک علمی اور اخلاقی بخل ہے‘‘۔ (ہفت روزہ ایشیا‘ لاہور‘ جولائی ۲۵‘ ۱۹۶۹ئ‘ ص ۳)

مولانا مودودی کو پختہ یقین تھا کہ سائنس اور ٹکنالوجی اپنے اندر ایسی ایجادات کی حامل ہیں کہ خیر و شر میں سے جو چاہے‘ انھیں اپنے استعمال میں لے آئے کہ وہ دونوں کے لیے یکساں طور پر کارآمد ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ میکانکی ایجادات رفتہ رفتہ مجسم شر (inherently evil) میں ڈھلتی نظر آتی ہیں کہ جن میں نہ صرف ایک مسلم معاشرے‘ کلچر اور تہذیب کو ضرر پہنچے گا‘ بلکہ کسی احساس     ذمہ داری اور جواب دہی کے احساس سے عاری یہ عمل پوری نوع انسانی کے مستقبل کو سخت نقصان پہنچاتا نظر آرہا ہے۔ کیمیکل کا بے تحاشا استعمال‘ ہلاکت خیز فضلات سے اور زمینی‘ فضائی اور آبی حیات کی تباہی‘ اوزون کا شکست و ریخت سے دوچار ہونا اور دوسری بے شمار ہلاکت خیزیاں اسی بے خدا سائنس اور خالص مادہ پرستانہ ترقی کے چند مظاہر ہیں۔ بہرحال مولانا مودودی کے ہاں سائنسی ایجادات کو دیکھنے کا ایک منفرد انداز ہے۔ وہ دسمبر ۱۹۳۷ء میں لکھتے ہیں:

’’ریڈیو بجائے خود ناپاک نہیں ہے۔ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ریڈیو کے ڈائرکٹر کو داروغۂ اربابِ نشاط یا ناشر کذب و افترا بناتی ہے۔ ہوائی جہاز ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ہوا کے فرشتے سے خدائی قانون کے بجاے شیطانی اغوا کے تحت خدمت لیتی ہے۔ سینما ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک دراصل وہ تہذیب ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی اس طاقت سے فحش اور بے حیائی کی اشاعت کا کام لیتی ہے۔ آج کل کی ناپاک تہذیب کو فروغ اسی لیے ہو رہا ہے کہ اس کو فروغ دینے کے لیے  خدا کی بخشی ہوئی تمام اِن طاقتوں سے کام لیا جا رہا ہے جو اس وقت تک انسان پر منکشف ہوئی ہیں۔ اگر ہم اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں جو الٰہی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہم پر عائد ہوتا ہے تو ہمیں بھی انھی طاقتوں سے کام لینا چاہیے… اس تصریح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک جسے میں پیش کر رہا ہوں‘ نہ توکوئی ارتجاعی (reactionary) تحریک ہے اور نہ اس قسم کی ارتقائی [evolutionary] تحریک ہے جس کے پیشِ نظر صرف مادی ارتقا ہو۔ میرے پیشِ نظر جو تربیت گاہ ہے ‘اس کے لیے گروکل کانگڑی‘ ستیہ گرہ آشرم‘ شانتی نکیتن اور دیال باغ میں کوئی نمونہ نہیں ہے‘ اور  اسی طرح جس انقلابی پارٹی کا تصور میرے ذہن میں ہے اس کے لیے اٹلی کی فاشست اور جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں بھی کوئی نمونہ نہیں ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی نمونہ ہے تو وہ صرف مدینۃ الرسول اور اس حزب اللہ میں ہے جسے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتب کیا تھا‘‘۔ (تنقیحات‘ ص۳۱۵- ۳۱۷)

چودہ صدی قبل پیغمبر اسلام ؐ نے مدینہ میں جو اسلامی معاشرہ تعمیر فرمایا تھا‘ اس کے بارے میںمولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں:

’’مدینہ طیبہ سے مماثلت پیداکرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کرکے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالح کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسے تمدن و حضارت کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل متحجّر(fossilised) صورت میںقیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں‘ اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے اردگرد ایک حصار کھینچ لیں‘ جس کی سرحد میں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ اتباع کا یہ تصور درحقیقت روحِ اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثارِ قدیمہ بن کر رہیں اور اپنی زندگی کو تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔ وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔ اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا نہیں ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے‘ جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ زماں و مکاں کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے‘ ہم کو ’’خیر اُمت‘‘ جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (rear guard)کی حیثیت سے لگے رہیں‘ بلکہ ہمارا کام امامت ورہنمائی ہے۔ ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیر اُمت ہونے کا راز اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں پوشیدہ ہے۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کا اصلی اسوہ جس کی پیروی ہمیں کرنی چاہیے‘ یہ ہے کہ انھوں نے قوانین طبیعی کو قوانین شرعی کے تحت استعمال کر کے زمین میں خدا کی خلافت کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ ان کے عہد میں جو تمدن تھا انھوں نے اس کے قالب میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکی۔ اس وقت جتنی طبیعی قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو چکی تھی۔ ان سب کو انھوں نے اس تہذیب کا خادم بنایا اور غلبہ و ترقی کے جس قدر وسائل تمدن نے فراہم کیے تھے ان سے کام لینے میں وہ کفار و مشرکین سے سبقت لے گئے… پس نبیؐ و اصحابِ نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن کے ارتقا اور قوانین طبیعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں‘ ان کو ہم اسی طرح تہذیب اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدر اوّل میں کی گئی تھی‘‘۔ (تنقیحات‘ ص ۳۱۳-۳۱۵)

اس پس منظر میں‘ میں کہوں گی کہ مولانا مودودی ارتقایت (evolutionism) اور ترقی پسندی (progressivism) کے حق میں بڑے پرجوش تھے اور روایت پسندانہ ماضی کے سخت   ناقد تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سمیت عام لوگ گم گشتہ روایات میں رہنے کے عادی ہوگئے ہیں‘ جب کہ جدید مغرب (Modern West)  اپنی ہلاکت خیزیوں اور سہولت آفرینیوں کے ساتھ‘  ایک طرف جبر اور دوسری جانب جمہوریت سمیت مستقبل کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ تاہم مولانا مودودی کا ایمان ہے کہ آج بھی اگر مسلمان اللہ تعالیٰ اور سنت رسولؐ اللہ کی طرف لوٹ آئیں‘ تو    نہ صرف ان کے لیے بلکہ خود نوعِ انسانی کے لیے خیروبرکت اور امن و سکون کا سامان ہوسکتا ہے۔

چنانچہ مولانا مودودی نہ صرف سائنس کی تازہ کامیابیوں کو قبول کرتے ہیں‘ بلکہ تمام صنعتی کمالات اور ٹیکنیکل آرڈر کو امرِربی کے تابع بناکر زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جن کے ہاں کوئی تبدیلی ممکن نہیں لیکن ہم کو اپنی نظریں کھلی رکھنی چاہییں اور جو کچھ  ہم کر رہے ہیں‘ ہم کو اس کے نتائج کے بارے میں پورا شعور و ادراک ہونا چاہیے۔