جولائی ۲۰۱۸

فہرست مضامین

علم کے سایے میں

مریم جمیلہ | جولائی ۲۰۱۸ | یادداشت

Responsive image Responsive image

چھوٹی سی تھی، جب میں اسکول میں داخل ہوئی۔ میرے مطالعے کا آغاز اسی زمانے میں ہوا۔ چھے برس کی عمر میں کچھ پڑھ لینے کے قابل ہونے سے قبل ابّا ، امی اور باجی سونے سے قبل مجھے بلند آواز میں کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اس چھوٹی عمر میں مجھے جانوروں کی کہانیاں خاص طور پر رڈیارڈ کیپلنگ کی ’جنگل کہانی ‘ بے حد پسند تھی۔ جوں جوں میں بڑی ہوتی گئی، مجھے دنیا کے مختلف ممالک کے بچوں کی کہانیاں پسند آنے لگیں۔ دس برس کی عمر میں مجھ میں سوانح عمریاں اور تاریخ کے مطالعے کا ذوق پیدا ہوا۔

کالج کے زمانے میں دیکھا کہ میری امی کو انگریزی ادبیات سے والہانہ لگائو تھا، لیکن میری طبیعت کا رجحان ابّا کے ذوق، یعنی غیر ادبی چیزوں کی طرف تھا ۔ اگرچہ مجھے مطالعے کی پیاس لگی رہتی تھی، تاہم اسکول میں انگریزی ادبیات کا مضمون مجھے پہاڑ معلوم ہوتا تھا ۔ بچپن ، بلوغت اور جوانی کے زمانوں میں کبھی نظم یا نثر میں انگریزی کلاسیکی ادب کا مطالعہ مجھ سے نہ ہو سکا ۔ استادوں کے مجبور کرنے سے پڑھنے کا معاملہ ایک مختلف بات ہے۔ انگریزی کا کلاسیکی ادب مجھے بیزار کن ، بے معنی اور اپنی دل چسپیوں سے غیر متعلق نظر آتا اور تھوڑا بہت جو کچھ میں پڑھتی وہ بھی میرے حافظے میں جڑ نہ پکڑتا ۔ چاسر، شیکسپیئر ، کیٹس ، شیلے اور دوسرے کلاسیکی انگریز ادیب نہ تو میرے لیے دل چسپی کا کوئی سامان فراہم کر سکے اور نہ میں ان کے بارے میں کچھ جان ہی سکی۔ ان کی زبان اور ان کے خیالات دونوں میرے لیے اجنبی اور ناقابل فہم تھے۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ انگریزی کے کلاسیکی ادب کی مجھے ہوا تک نہیں لگی۔

امریکی نژاد ہونے کے باعث اُردو کے مطالعے، نیز اردو کے فہم اور اس سے لطف اندوز ہونے کی استعداد حسب خواہش پوری نہیں ہوسکی۔ پس، جو کتابیں میرے مطالعے میں آتی ہیں،وہ  زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوتی ہیں۔ امریکا میں پانچ برس سے اوپر( سیکنڈری اسکول اور کالج کے زمانے میں) میں نے فرانسیسی زبان سیکھی تھی اور اگرچہ پاکستان میں اس زبان کاجاننا کم وبیش بے مصرف ہے، پھر بھی میں اس زبان کا مطالعہ اس حد تک بر قرار رکھتی ہوں کہ فرانسیسی کتب ، جرائد اور اخبارات کا مطالعہ کر سکوں اور گاہے بہ گاہے جب اسلامی اُمور پر کوئی انگریزی کتاب مجھے میسر نہیں آتی تو میں متعلقہ موضوع پر فرانسیسی کتاب ہی دیکھ لیتی ہوں۔

اُردو زبان پر عبور حاصل نہ ہونے کے باعث اس زبان کی کتب میری دسترس سے باہر ہیں۔ تاہم، بعض اُردو تحریروں کے (انگریزی تراجم کے ذریعے) میرے ذہن پر گہرے نقوش ثبت ہیں۔ ان میں ایک علّامہ محمد اقبال کی نظم ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ ہے جس سے مجھے آرتھر آربری صاحب نے آشنا کیا اور دوسرے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی اسلامی حکومت  کس  طرح   قائم ہوتی ہے؟ کا انگریزی عکس ہے۔ علاوہ بریں علامہ اقبال کی نظموں ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بے خودی‘ (انگریزی مترجمین نکلسن اور آربری صاحبان ) نے بھی مجھے متاثر کیا ہے۔

شعرا میں مجھے جاہلی عرب شعرا پسند ہیں، جن کا کلام چارلس رائیل کے انگریزی تراجم کی  بدولت مجھ تک پہنچا۔ افسانہ نگاروں ، مزاح نویسوں، نیز طنز نگاروں سے مجھے طبعی رغبت نہیں، کیوں کہ میں سنجیدہ علمی مضامین کا مطالعہ کرتی ہوں۔اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے فکشن کی مختلف اصنافِ لطیف،طنز،مزاح، سبھی غیردل چسپ لگتی ہیں۔ ایسے حضرات کی تحریریں مجھے اشتعال دلاتی ہیں جو عقلی معیارات سے لگّا نہ کھائیں۔ اس شوق میں یہ مہم جُو حضرات، اسلام کے بنیادی اصولوں تک کو بدل دینے کی ہوس میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں، تا کہ دنیاوی مصلحتوں کی خاطر اسلام کو      رائج الوقت معیارات کے مطابق ڈھال دیا جائے۔ پس، مجھے ان جرائد سے نفرت ہے جو اسلام کو   جدید زمانے کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ ایسے جرائد میں مرکزی ادارئہ تحقیقات اسلامی، کراچی کے  شائع کردہ جرائد Islamic Studies شامل ہے، نیز خلیفہ عبدالحکیم ، غلام احمد پرویز صاحب جیسے اہلِ قلم کو بھی پڑھتی ہوں۔ علاوہ بریں، ہر قسم کی عامیانہ اور عریاں تحریروں، نیز فلم سازی سے متعلق جرائد پر بھی مَیں مثبت طور پر تین حرف بھیجتی ہوں۔

میرے پسندیدہ موضوعاتِ مطالعہ ہیں: تاریخ ، سوانح، بشریات ، عمرانیات اور نفسیات۔ خصوصاً آج کی دنیاے اسلام کے مسائل سے متعلق میری محبوب ترین کتابیں ہیں: قرآن مجید ، (انگریزی ترجمہ از پکتھال )، مشکوٰۃ المصابیح کا انگریزی ترجمہ وشرح از مولانا الحاج فضل الرحمٰن، Social Justice in Islam ازسیّد قطب شہید ،Islam at the Crossroads  ازعلامہ محمداسد، Ideology of the Future از ڈاکٹر رفیع الدین ،Sheikh Ahmad al-Alwi (انگریزی ) از مارٹن لنگزِ ،Islamic Philosophy and Theology  از منٹگمری واٹ ، نیز مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تالیفات میں مسئلہ قومیت، اسلام کا اخلاقی نقطۂ   نظر ، تجدید واحیاے دین کے انگریزی تراجم۔

میرے پسندیدہ جرائد ہیں: The Message، جماعت اسلامی ہند کا ترجمان، خلافِ قانون جماعت اخوان المسلمون (قائد جماعت ـ: جناب سعید رمضان ) کے ترجمان المسلمون کا انگریزی ضمیمہ ، اسی طرح The Radiance ، نئی دہلی، ہفت روزہ Young Pakistan  ڈھاکہ،The Muslim World   (مؤتمر عالم اسلامی ، کراچی کا جریدہ )، Muslim News International کراچی ۔ ان جرائد میں تو میں باقاعدگی سے لکھتی بھی ہوں ۔ اس فہرست میں کراچی کے Al-Yaqeen Int'l اور Voice of Islamکا اضافہ بھی کرلیجیے۔

میرے ذہنی نشوو ارتقا میں جس کتاب نے سب سے زیادہ حصہ لیا وہ ہے علامہ محمد اسد کی اسلام دوراہے پر  (Islam at The Cross Roads ) جسے لاہور کے ناشر شیخ محمد اشرف نے شائع کیا تھا۔ یہ کتاب اوّل ۱۹۳۴ء میں سپردِ قلم کی گئی تھی۔ مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اسلام اور جدید مغربی تہذیب میں مصالحت نا ممکن ہے۔ اس موضوع پر یہ تصنیف میرے نزدیک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ اس تصنیف میں موجود استدلال مجھے اس درجہ متاثر کرنے والا نظر آیا کہ اسلام  دوراہے پر  نے خدمتِ اسلام کی جہت میں میری تصنیفی سعی وجہد کی بنیاد اور مستقبل کے لیے منزل متعین کردی۔ اس تصنیف کا جو موضوع تھا اور اس میں جو دلائل دیے گئے تھے، میرے تمام آیندہ مضامین کی اساس درحقیقت وہی ہے۔

جن دیگر مضامین وکتب نے مجھے متاثر کیا وہ ہیں: ترکیہ کے مرحوم پرنس سعید حلیم پاشا کے مضامین بعنوان : مسلمان معاشرے کی سیاسی اصلاح، انگریزی مترجم: محمدمارما ڈیوس پکتھال۔ ہماری تقدیر تاریخ کے آئینے میں،انگریزی ،جناب اے کے بروہی (مطبوعہ جریدہ وائس آف اسلام ، کراچی شمارہ جون ۱۹۶۳ء )۔ ’فنون لطیفہ ‘ :حُسن کیا ہے ؟‘ انگریزی مترجم، مصنف جناب ابراہیم علی چشتی، (پاکستان ٹائمز، لاہور مؤرخہ ۲۱-۲۸ فروری ۱۹۶۴ء )، نیز اسلامی تحقیق کا فریضہ (انگریزی)، مصنف جناب ڈاکٹر محمد رفیع الدین، (مطبوعہ روز نامہ پاکستان ٹائمز ، لاہور مورخہ ۱۲ ؍اگست ۱۹۶۵ء)۔

تنہائی اور سکون ، ان دونوں کی مطالعے کے لیے مجھے ضرورت ہوتی ہے۔ پرُ شور ماحول کے لوگ مجھے چڑ چڑا بنا دیتے ہیں اور مجھے آرام اور دل جمعی سے مطالعہ نہیں کرنے دیتے ۔ بستر پر نیم دراز ہو کر پڑھنا مجھے مرغوب ہے۔ ایک گھنٹے میں کوئی سو صفحے پڑھ لیتی ہوں، جن کے مطالب ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ جب بھی وقت ملے پڑھ لیتی ہوں لیکن اکثر تیسرے پہر یا سرشام ۔ ریل یا بحری جہاز سے لمبا سفر در پیش ہو تو چھوٹی چھوٹی کتابیں ، اخبارات اور جرائد ساتھ لے لیتی ہوں، لیکن کار، بس یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے وقت میرے لیے مطالعہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

مطالعے کے متعلق میرے پیش نظر کوئی نپا تلا یا طے شدہ پروگرام نہیں ہوتا۔ زیر مطالعہ کتب پر نشانات لگانے ، سطور کو روشنائی سے نمایاں کرنا، یا کتاب کے حاشیوں میں یادداشتیں لکھنا وغیرہ، ان میں سے کوئی عادت بھی مجھے نہیں ہے۔ یوں میں اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی۔ میری یادداشت اس تمام مطالعے میں میرا ساتھ دیتی ہے، جو میری دل چسپی کا باعث ہو یا جو مجھے متاثر کرے۔ اس ضمن میں تمام مرکزی افکار، ان تحریروں کے مصنفوں کے نام وغیرہ میرے ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ میں اپنی کتابوں کو مکمل درست حالت میں دیکھنا چاہتی ہوں اور کسی طرح کے نشانات سے ان کاحلیہ بگاڑنا مجھے پسند نہیں۔

جی تو یہی چاہتاہے کہ مطالعے سے جو عطر مجھ تک پہنچا ہے، اس کی خوشبو سے میرے گھروالوں اور احباب کے مشام جان بھی معطر ہوں۔ لیکن تجربہ یہ ہے کہ فلسفہ ودانش ایسے موضوعات پر میری گفتگو سن کر میرے اکثر شرکاے گفتگو اوّل تو بے توجہی سے کام لیتے ہیں، بلکہ درست بات یہ ہے کہ زچ ہوجاتے ہیں۔ پس، اس حوصلہ شکن رویے کے باعث اس خوشبو کو میں اکثر اپنے تک محدود رکھتی ہوں ۔

پردے کی کڑی پابند ہونے کے باعث چوںکہ میں پنجاب یونی ورسٹی لاہور اور یہاں کی پبلک لائبریریوں سے استفادہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے جس کتاب کی مجھے ضرورت یا کمی محسوس ہوتی ہے، مجھے خریدنا پڑتی ہے۔ تاہم، صرف ضرورت نے ہی میرے ہاں ایک بڑے کتاب خانے کو وجود نہیں بخشتا، بلکہ زیادہ سے زیادہ کتابیں خریدنے اور انھیں محفوظ رکھنے سے مجھے بے حد مسرت ہوتی ہے اور میں ایک طرح کا فخر محسوس کرتی ہوں۔

کتابوں سے مجھے ذاتی طور پر محبت ہے۔ انھیں میں اپنا حقیقی دوست سمجھتی ہوں۔ اس لیے اپنی کتابوں کو حتی الامکان نئی اور اچھی حالت میں رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر میری کتابوں کو کوئی ایذا پہنچے یا وہ کسی اور طرح اچھی حالت میں نہ ہوں، تومیں اُداس بلکہ دُکھی ہو جاتی ہوں۔ خاصی رقم خرچ کرکے میں ان کی نئی جلد بندی کرواتی ہوں۔سرورق پرموٹا خاکی کاغذ چڑھا دیتی ہوں، تاکہ وہ دیر تک محفوظ رہے اور اس کی خوب صورتی برقرار رہے۔ میرے کتاب خانے میں اس وقت دو سو سے زائد کتابیں ہیں۔ جب کام سے فارغ ہونے کے بعد ان کی ضرورت نہ ہو تو انھیں ایک فولادی الماری میں تالا لگا کر بحفاظت رکھتی ہوں۔

اپنی ان کتابوں کے تعلق سے مَیں انتہا درجے کی خود غرض واقع ہوئی ہوں۔ ان کی ملکیت کے تعلق سے کسی قسم کی شراکت مجھے پسند نہیں۔ مانگنے پر کسی کو کوئی کتاب صرف اس وقت مل سکے گی، اگر اس کی کوئی فالتو جلد میرے پاس موجود ہو۔ میرے شوہر خان صاحب (محمدیوسف خان) کتابیں مستعار دینے کے لیے بہت پُرجوش واقع ہوئے ہیں۔ میں ان کے ہاں سے کتابیں جاتے تو دیکھتی ہوں، مگر آتے نہیں دیکھتی ۔ اکثر مستعارئیے پرلے درجے کے غیر ذمہ دار لوگ ہوتے ہیںاور ایسے غیرمحتاط لوگوں کے ہاتھوں اپنی کتابوں کا گم ہونا میرے لیے سخت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ مستعا ر دینے کی طرح کسی سے مانگ کر پڑھنا اپنی عادت نہیں ہے۔ اشد ضرورت کی بات دوسری ہے۔ جب کتاب مانگ کرپڑھنا پڑے تو میرے اعصاب قیامت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مقدور بھر تیزرفتاری سے مطالعہ کرتی ہوں اور عموماً دوسرے دن اسے امانت لوٹا دیتی ہوں۔

میرے کتب خانے کی اہم ترین کتب : قرآن مجید، احادیث کے مجموعے، حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک پر مغربی مصنفوں کی تصنیفات کے علاوہ، افلاطون ، ،میکیاولی، والٹیئر ، مارکس، ڈارون، فرائیڈ اور جان ڈیوی ایسے مغربی فلاسفروں کی تصنیفات ، نیز ویفریڈ کنیٹول اسمتھ، سیموئیل زویمراور کینتھ کریگ، ایسے مغربی ومسیحی مستشرقین کی تصنیفات: ماڈرن اسلام    اِن انڈیا،  اسلام   اِن ماڈرن   ہسٹری ، چائلڈ   ہڈاِن    دی مسلم    ورلڈ اور  کال آف   دی    مینریٹ ، بشیر احمد ڈارصاحب کی تصنیف حیات سرسیّد احمد (انگریزی )۔ نیز جدید زمانے کے معذرت خواہانہ انداز کی حامل سیّد امیر علی صاحب کی اِسپرٹ آف اسلام۔ ان کتابوں کو میں اپنا دوست نہیں دشمن سمجھتی ہوں لیکن اسلام سے متعلق غلط نظریات کی جان پہچان بھی مجھے یہیں سے ملتی ہے، جن کی میں اپنی تحریروں میں تردید کرتی ہوں۔ اس اعتبار سے یہ تصانیف ’بے حد قیمتی‘ ہیں۔

جن کتابوں کی مجھے ضرورت ہوتی ہے (خصوصاً وہ کتابیں جو اب امریکا میں نایاب ہو چکی ہیں) ان کے حصول کے لیے میں اپنی سی ہر ممکن کوشش کر گزرنا چاہتی ہوں۔ جن کتابوں کی کمی میں اپنے ہاں محسوس کرتی ہوں، ان کے حصول کے لیے میں پائی پائی تک خرچ کرنے سے دریغ نہ کرتی۔

میرے کتاب خانے کی بعض کتب مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی،  ایسی اہم شخصیتوں کی جانب سے تحفتاً موصول ہوئی تھیں۔ ذاتی تجربے سے براہِ راست جو کچھ میسر نہیں آسکتا، اس کے حصول کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔ مطالعۂ کتب سے فرد کے ذہنی اُفق کو وسعت میسر آتی ہے، جو اس کی محدود روزمرہ زندگی سے کہیں دُور ہوتی ہے ۔ پس مطالعہ نہ تو محض ایک شغل ہے اور نہ مسرت ہی کی خاطر پڑھنا مطالعے کا کوئی اچھا مصرف ہے۔ آج کی نوع بہ نوع مصروفیات میں گھرے فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے فرصت کے اوقات میں مطالعے کے لیے (مثلاً شام کو کھانے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے ) کچھ وقت نکالے، خواہ اس کے لیے اسے احباب کی ملاقاتوں کے وقت میں کمی کرنا پڑے ۔ مطلوبہ کتابیں خرید کر، مستعار لے کر، یا لائبریریوں سے لے کر مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔

اسلامی طرزِ حیات ، اسلامی نظامِ معاشرت ، تہذیب وثقافت اور اسلام کے شان دار ماضی کے تعلق سے، پاکستان کے مسلمانوں کو مناسب معلومات فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ان زبانوں کے مطالعے پر زور دے، جن کے مطالعے سے ان ذرائع سے براہِ راست واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عربی، فارسی اور اردو کا جاننا کالج کے طلبہ کے لیے لازمی قرار دے دیا جائے۔

قرآن مجید کی کلاسیکی عربی زبان کے مطالعے پر بالخصوص زور دیا جائے۔ ہمارے تعلیمی نظام کو قرآن مجید ، حدیث پاک ، سیرتِ رسول کریم ؐ ، اسلامی تاریخ ، اور دنیاے اسلام کے ہم عصر مسائل کے مطالعے پر زور دینا چاہیے۔ ان علوم کا حصول اسلام کے خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے ہونا چاہیے اور اسے متجد دین  اور فکری معذورین کی فکری آلایشوں سے پاک رکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں جن لکھنے والوں کو پڑھنے کی خصوصی سفارش کی جائے ان میں امام بخاری ایسے محدث، ابنِ اسحاق اور ابنِ ہشام ایسے ثقہ سیرت نگار، کتاب المغازی ایسی تالیف کے مؤلف الواقدی، نیز ابنِ تیمیہ، امام غزالی، شاہ ولی اللہ ، علامہ محمد اقبال کی فارسی اور اردو شاعری ، شیخ حسن البنا، سیّدقطب اور  مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تمام تالیفات ۔

تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اسلامی اور غیر اسلامی عمدہ تصنیفات کا بے کھٹکے مطالعہ کریں، جو انھیں دل چسپ معلوم ہوں یا جو ان کے کاروبار وغیرہ سے تعلق رکھتی ہوں۔ ایک طرف تو اسلامی تصنیفات کے گہرے مطالعے پر مبنی اسلامی ذہن بنانے کی ضرورت ہے، دوسرے اہم انگریزی کتابوں کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے، تا کہ دونوں کی تہذیبی وثقافتی اقدار سے ان کے   صحیح پس منظر میں آگاہی حاصل ہو سکے۔ نوجوان پاکستانیوں کو میں بالخصوص یہ مشورہ دوں گی کہ علامہ محمد اقبال کا کلام اور مولانا سیّدابوا لاعلیٰ مودودی کی تمام تصنیفات کا مطالعہ کریں۔ اسی طرح اخبارات وجرائد میں روزنامہ نوائے وقت  کے مطالعے کی سفارش کروں گی۔ ماہ ناموں میں ترجمان القرآن کا مطالعہ سود مند رہے گا۔

والدین پر لازم ہے کہ خود اچھی کتابوں کے مطالعے کی عادت ڈالیں اور اپنے اس طرزِعمل سے بچوں کے لیے اچھی مثال قائم کریں۔ اگرچہ میرا تجربہ یہ ہے کہ والدین کی مثال اور کوششیں بچوں کو بس ایک حد تک ہی متاثر کرتی ہیں، اور والدین کے دائرۂ اثر سے باہر کا ماحول بچوں کی پسندوناپسند سے مل کر ا نھیں متاثر کرتا ہے۔

آخر میں قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے بارے میں چند الفاظ۔ اگرچہ تعلیمات اسلامی کے تعلق سے یہ بالکل ناکافی ہو گا کہ قرآن مجید کو ، اس کا مفہوم سمجھے بغیر، محض رَٹ لیا جائے۔ لیکن میری راے یہ ہے کہ اسلامی تربیت کی کلیتاً عدم موجودگی میں یہ بھی کہیں بہتر ہوگا کہ قرآن کا خاصا حصہ یاد ہو۔ اس کی بدولت بچے کی تربیت ایک اسلامی ماحول میں ہو جاتی ہے اور اس کے دل میں کلمۃاللہ کے لیے احترام کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ بچہ اگر عربی متن کو نہ سمجھ سکے تو قرآن پاک کی قرأت ہی سے اس کے کانوں میں قرآن پاک کی محض آواز ہی رس گھو لتی رہے گی۔ اس طرح  ایک اچھی بنیاد میسر آجائے گی اور سن شعور تک پہنچتے پہنچتے عربی زبان پر عبور حاصل کرنے، نیز قرآن پاک کے متن کو سمجھنے کی راہیں بھی کھل سکیں گی۔ ہمارے جدید روشن خیالوں کا یہ خیال کہ بچہ چوںکہ عربی زبان سمجھ نہیں سکتا، لہٰذا، اسے قرآن کی قرأت سکھانا بے مصرف ہے۔ یہ بدنیتی پر مبنی ایک بہانہ ہے، جسے اسلامی تہذیب وثقافت کے دشمن اس لیے پیش کرتے ہیں، تا کہ مسلمان بچے کو سرے سے اسلامی تعلیم مل ہی نہ سکے۔